Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
لاہور ہائیکورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کے معاملے پر درخواست گزار کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹادی۔
لاہور ہائیکورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی اعتراضی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے شہری نذیر احمد کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کی معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کررکھی تھی لیکن آپ نے ایک بھی دستاویز منسلک نہیں کی، یہ طریقہ کار غلط ہے کہ ایک مسئلے پر پورے ملک کی عدالتوں میں درخواستیں دائر کر دیں۔
بعدازاں عدالت نے درخواست گزار کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
اس سے قبل درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراض کیا تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، ایسے میں لاہور ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت نہیں ہو سکتی۔
درخواست میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا، جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ 26 ویں ترمیم آئین پاکستان کے دیباچہ کے برخلاف ہے اور آئین کے دیباچہ میں طے کردہ آزاد عدلیہ کے اصول کے خلاف ہے، سنیارٹی کا اصول نظرانداز کرکے بھی عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگائی گئی۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ جج یا بینچ کو کیس کی سماعت سے روکنا عدلیہ کی آزادی میں رکاوٹ ہے، جوڈیشل کمیشن میں ممبران اسمبلی اور وزرا کی شمولیت عدلیہ کی خودمختاری پر وار ہے، ہائیکورٹ کے ججز کی مانیٹرنگ اور ہدایات جاری کرنا عدلیہ کی خودمختاری میں رکاوٹ ہے، چیف الیکشن کمشنر کی مدت میں توسیع آئین کے دیباچہ کے منافی ہے۔
شہری کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے۔
لاہور ہائیکورٹ میں ججز کی سینیارٹی کے حوالے سے جسٹس فرخ عرفان خان کی نظر ثانی درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنیاد پر نمٹاتے ہوئے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ریمارکس دیے کہ مستقبل میں کسی اور مقدمے میں سینیارٹی کے اصول کا معاملہ طے کریں گے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ میں ججز کی سینیارٹی کے حوالے سے جسٹس فرخ عرفان خان کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس عائشہ ملک نے درخواست گزار کے وکیل حامد خان سے دریافت کیا کہ آیا وہ یہ کیس چلانا چاہتے ہیں کہ نہیں، 4 ججز کے حوالے سے ایشو تھا یہاں تو ججز ریٹائر بھی ہوچکے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 5 لوگوں نے ایک ساتھ حلف اٹھایا تو عمر کے حساب سے سینیارٹی طے ہوگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ عدالت کو اکیڈمک ایکسرسائز کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
ججز اور بیورو کریٹس کیلئے پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں بڑی پیش رفت، محفوظ شدہ فیصلہ جاری
وکیل حامد خان کا مؤقف تھا کہ ججز کا نوٹفکیشن ساتھ ہونے کے بعد اگر حلف ایک دن تاخیر سے بھی لیں تو سینیارٹی برابر ہی ہوگی۔
جسٹس فرخ عرفان نے امریکا میں ہونے کی وجہ سے چیف جسٹس کو آگاہ کر کے حلف ایک دن بعد اٹھایا۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ جج جب تک حلف نہیں اٹھاتا تب تک وہ جج نہیں ہوسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے دریافت کیا کہ انہوں نے نظرثانی کی درخواست دی ہے، فیصلے میں غلطی کیا ہے وہ بتائیں، اگر کوئی شخص نوٹیفکیشن کے ایک ماہ تک حلف نہیں لیتا اور بعد میں وہ انکار کر دے تو کیا ہوگا۔
اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بہتر ہے اس معاملے کو اوپن رکھیں کسی اور کیس میں طے کر لیں گے۔
عدالت نے نظر ثانی درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنیاد پر نمٹاتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں کسی اور مقدمے میں سینیارٹی کے اصول کا معاملہ طے کریں گے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
مولوی اقبال حیدر نے مؤقف اپنایا کہ میری جانب سے درخواست بروقت دائر کی گئی تھی، اب اس مقدمے کا نظر ثانی کیس زیر التوا ہے، چاہتا ہوں کہ کسی مقدمے میں اس معاملے کو دیکھا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے نے کہا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں، امیدواران کی مرضی ہے سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔
سوموٹو لینے کا اختیاراب بھی سپریم کورٹ کے پاس ہے، جسٹس محمد علی مظہر
سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ مولوی اقبال صاحب آپ پھر اسی طرف جا رہے ہیں جس وجہ سے پابندی لگی تھی۔
بعدازاں آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر رجسڑار افس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے خارج کردی۔
دوسری جانب عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست خارج کر دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ 90 فیصد سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی ہی نہیں ملتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو براہ راست سن رہے ہیں اس سے زیادہ کیا رسائی چاہیئے، آپ تو اپنے ہی ادارے کو برباد کر رہے ہیں، کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 120 ہے اور کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 150 ہے، پتہ نہیں یہ نمبر کہاں سے آتے ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے درخواست خارج کردی۔
ادھر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے تمام سرکاری عہدے داروں کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے تمام سرکاری عہدے داروں کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کی درخواست میں استدعا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے انہیں فارغ کریں؟ آپ نے متعلقہ اداروں سے کیوں نہیں رجوع کیا۔
درخواست گزار نے کہا کہ کوئی نہیں سنتا، اس لیے سپریم کورٹ آیا، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہرچیزلے کرسپریم کورٹ پہنچ گئے۔
سپریم کوٹ کے آئینی بینچ نے 18 مقدمات کی سماعت مکمل کرلی، 15 کیسز خارج
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے کسی سرکاری افسران کی نشاندہی نہیں کی، کسی کا نام نہیں لکھا،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کون سا کام نہیں ہوا عدالت کو بتائیں، اس کا کیا مطلب ہے ہم صدر، وزیراعظم، اسپیکر اور پارلیمنٹرین سب کو نکال دیں، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ سسٹم تباہ ہو چکا ہے سچ کوئی نہیں سننا چاہتا۔
بعدازاں عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے اعلیٰ عدالتی فورمزپرٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کے معاملے پر سماعت کی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فوجداری قانون سمیت کئی قوانین میں ٹائم لائن موجود ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ٹائم لائن کے لیے پارلیمنٹ سے جاکر قانون سازی کروا لیں، جس پر درخواست گزار حسن رضا نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوتے ہوتے 20 سے 40 سال لگ جاتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایسی عمومی باتیں نہ کریں اور الزام نہ لگائیں، سسٹم پرفیکٹ نہیں ہے لیکن پیش رفت ہو رہی ہے، آپ کی درخواست نیشنل جوڈیشل پالیسی سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست پر کسی کو ہدایت نہیں جاری کریں گے، جہاں اصلاحات ہو رہی ہیں وہاں جاکر شمولیت اختیار کریں، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے تابع ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر ہماری طرف سے بھی سخت ردعمل آیا تو مایوسی پھیلے گی۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالتی ریفارمز کے لیے لا اینڈ جسٹس کمیشن موجود ہے، وہاں رجوع کریں۔
بعدازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست بھی خارج کر دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی قرار دینے اور آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل سمیت مجموعی طور پر 2 ہزار سے زائد مقدمات آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیے تھے۔
5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔
26ویں ترمیم کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا پہلا اجلاس ہوا تھا، جس میں آئینی بینچز میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔
جسٹس امین الدین کے تقرر کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔
اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے لیے مخصوص مدت کے تعین کا مشورہ دیا تھا، اجلاس کے دوران آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر ووٹنگ کرائی گئی، کمیشن کے 12 میں سے 7 ارکان نے 7 رکنی آئینی بینچ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
سب سے پہلے تو تحریر کے عنوان کی وضاحت ضروری ہے کہ غیر آئینی ترامیم سے کیا مراد ہے؟ آئینی ترامیم تو وہ ترامیم ہوتی ہے کہ جس کو منظور کروانے کے لیے ایوان میں دو تہائی کی اکثریت درکار ہوتی ہے اور غیر آئینی ترامیم وہ ترامیم ہوتی ہے کہ جس کو صرف سادہ اکثریت سے منظور کروایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیر آئینی ترامیم غیر قانونی نہیں ہوتی حالانکہ کبھی کبھی اس کا شائبہ بھی ہوتا ہے بس اس کو منظور کروانے کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی اور سادہ اکثریت سے بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ایوان کے نمائندوں کیلئے مراعات کا قانون اور اشرافیہ کیلئے دیگر سہولیات کے قوانین مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔
اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی صحت، بھوک اور سہولیات کے لئے بھی کیا کوئی آئینی یا غیر آئینی ترامیم لائی جاسکتی ہیں؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سوال پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سوال ناجائز بچے کی طرح ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس کا باپ بننا نہیں چاہتا اور ویسے بھی ہمارے ملک میں سوال پیدا کرنے والے کو معتوب ٹھہرایا جاتا ہے۔ سوال اگر زیادہ سنجیدہ اور حساس ہے تو لوگوں کو سوال کرنے والا بھی نظر نہیں آتا۔ کیوں؟ یہ بھی ایک سوال ہے اور چونکہ ہم سب نظر آنا چاہتے ہیں اس لئے یہ سوال چھوڑ دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی سوال اٹھاتا ہے تو سب مل کر اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے یہاں سب مل کر سوال اٹھانے والے کو ڈھونڈتے ہیں۔
تمام جمہوری اور غیر جمہوری ممالک میں اس بات کی سعی کی جاتی ہے کہ عوام کیلئے زندگی آسان کی جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائے تاکہ وہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ ایسا ہم نے اپنے خطے اور دنیا بھر میں ہوتے دیکھا ہے۔ وہ ممالک جو کبھی صرف صحرا تھے یا دلدل تھے اور ہمیں حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے ہمارے دیکھتے دیکھتے ہم سے کوسوں آگے چلے گئے ہیں اور اب ہم ان کے در پر کاسہ گدائی لے کر منڈلانے کا کام کرتے ہیں۔ اگر ان کا دل کرتا ہے تو در کھول دیتے ہیں ورنہ دنیا نے تو ویسے بھی اب ہم پر اپنے دروازے بند کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ ملک بنا ہی چند فیصد مراعات یافتہ لوگوں کی عیاشی اور سہولت کے لیے ہے۔ ان کیلئے تو یہ ملک جنت ہے جس کو چاہوں گاڑی سے کچل دوں، جتنا چاہوں دھوکہ دہی سے منافع حاصل کر لوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور پوچھے تو قیمت ادا کرکے آگے چل دوں۔ آپ ہی بتایئے کہ کیا دنیا میں ایسا کہیں ہوتا ہے؟ عوام کیلئے نا باعزت روزگار ہے، نا تعلیم اور نا صحت۔ ہاں یہ سب کچھ ہے اگر آپ کی جیب اس کی اجازت دیتی ہے تو دنیا کی ہر نعمت اس ملک میں حاصل کی جاسکتی ہے۔
کیا کوئی ایسی ترامیم لا سکتا ہے کہ اب سے اس ملک میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، اب سے کوئی پیسے نہ ہونے پر علاج سے محروم نہیں رہے گا، اب سے ہر بچے کو تعلیم یکساں نصاب کے ذریعے دی جائیگی تاکہ آگے بڑھنے کے مواقع سب کیلئے یکساں ہوں، نہیں ایسی ترامیم سے حکمرانوں اور عوام میں فرق ختم ہونے کا خدشہ ہے اس لئے ایسی کو ترامیم نہ لانے پر حکومت، اس کے اتحادی اور حزب اختلاف سب متفق ہے اور ایسا کوئی نقطہ کبھی بھی اسمبلی میں بحث کیلے ایجنڈے پر نہیں آئے گا۔ ہاں ہر حکومت کے پاس مرنے والے کیلے دس یا بیس لاکھ ہے مگر زندوں کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے کہ اس کے تحت امداد لیتے رہوں اور ایک طفیلی کی زندگی بسر کرتے رہوں بس سوال مت کرنا کیونکہ سوال کرنا منع ہے۔
اس ساری بات کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب حکومت اپنے ہی کسی فرض کی ادائیگی میں ناکام ہوتی ہے تو اس کا نوٹس لے لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس کا فرض پورا ہوگیا۔ اس پر ایک لطیفے نما واقعہ اور اختتام۔ ویسے اس واقعے سے آپ کو ہماری اشرافیہ کی سوچ سمجھنے میں ضرور مدد ملے گی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب اپنے دوست کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھنے گئے۔ انھیں خود تو کرکٹ کی بہت سمجھ بوجھ تھی لیکن دوست بالکل کرکٹ کے معاملے میں کورا تھا۔ دونوں میچ دیکھ رہے تھے کہ یکایک لوگ زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔
جس دوست کو کرکٹ کی سمجھ نہیں تھی اس نے اپنے دوست کہ جسے کہ کرکٹ سے مکمل آگہی تھی پوچھا کہ کیا ہوا ہے کہ لوگ اتنی تالیاں کیوں بجا رہے ہیں؟ اس پر کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے دوست نے کہا فلاں کھلاڑی نے بہت اچھا کیچ پکڑا ہے۔ اس پر دوسرے دوست نے کہا تو پھر کیا ہوا۔ اس پر پہلے والے دوست نے کہا کہ تم شاید سمجھے نہیں اس نے ایک بہت شاندار کیچ پکڑا ہے۔ اس پر دوسرے دوست نے کہا کہ وہ وہاں کھڑا کیوں تھا؟ مگر ہم اور آپ یہ سوال نہیں کرسکتے کیونکہ سوال کرنا منع ہے۔
’آج نیوز‘ کا لکھاری سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
سہیل یعقوب نے 36 سال قومی اور کثیر القومی اداروں میں اعلی عہدوں پر خدمات سرانجام دی۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد آپ سماجی، علمی اور مذہبی موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کا درس و تدریس کا بھی وسیع تجربہ ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان ایک اور درخواست میں دائر کی گئی ہے، جسے ڈائری نمبر بھی الاٹ کردیا گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بچھر نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کی۔
درخواست گزاروں میں اظہر صدیق اور ایڈووکیٹ منیر احمد بھی شامل ہیں، سپریم کورٹ نے آئینی درخواست کو دائری نمبر بھی الاٹ کر دیا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے، عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کا اختیار پارلیمان کے پاس بھی نہیں۔
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کا تحریری فیصلہ جاری
درخواست گزار کے مطابق سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ بنیادی حقوق کو ختم یا کم نہیں کیا جا سکتا، اس لیے عدلیہ کی آزادی سے متصادم ترمیم کالعدم قرار دی جائے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تشکیل نو پانے والے جوڈیشل کمیشن کو اجلاس منعقد کرنے سے روکا جائے۔
درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو فریق بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ صدر مملکت اور وزیراعظم کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
قبل ازیں 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کے لیے 2 سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا، دونوں سینئر ججز نے اسی ہفتے چھبیسویں ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ کر دیا۔
26 ویں ترمیم کا کیس: جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا
یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھے تاہم 22 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اگلا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔
آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ ترامیم آرٹیکل 175-اے میں کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے عمل سے متعلق ہے۔
واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ میں اس سے قبل بھی درخواست دائر کی گئی ہیں جس میں اس ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار سینیٹر حامد خان نے کہا ہے کہ کل کی ترامیم جمہوریت کے کتبے میں آخری کیل ہے، ہم کسی صورت 26 ویں آئینی ترمیم کو قبول نہیں کریں گے، ہم ہر طرح سے کوشش کریں گے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو ختم کریں۔ دوسری جانب صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ نے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کی گئی، سادہ اکثریت سے ایسے قوانین بنا رہے ہیں جنہیں ترمیم میں شامل نہیں کر سکے، حکومت کو سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ جج نہیں مل رہے، اسی لیے ترمیم کے ذریعے نئے ججز لائے جارہے ہیں۔
صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ کے ہمراہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق صدر سپریم کورٹ بار سینیٹر حامد خان نے کہا کہ یہ لوگ رات کے اندھیرے میں شب خون مارنے جا رہے ہیں، صرف وکلا نہیں پاکستان کے عوام بھی بہت مشکل میں بیٹھے ہیں، کل کی ترامیم جمہوریت کے کتبے میں آخری کیل ہے۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ کل ہونے والی ترمیم میں انہوں نے 5 سالہ توسیع کا دروازہ بھی کھولا، آمروں کے زمانے میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 5 سالہ توسیع کی گئی، حکومت کے لیے یہ توسیع دینا ضروری تھا تاکہ ان کی بھی توسیع ہوسکے، انہوں نے پارلیمنٹ کو غلام بنا دیا، اب عدلیہ کو بھی غلام بنانا چاہتے ہیں، یہ لوگ عدلیہ کا سارا اختیار اپنے پسندیدہ ججز کو دنیا چاہتے ہیں۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت بڑھانے کا معاملہ: پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے سر جوڑ لیے
سابق صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ ہم کسی صورت 26 ویں آئینی ترمیم کو قبول نہیں کریں گے، سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں دائر ہو چکی ہیں، ہم ہر طرح سے کوشش کریں گے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو ختم کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس پاکستان سے اپیل ہے کہ خدارا 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست جلد سے جلد سماعت کے لیے مقرر کریں، آج جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ بلا لی ہے، ہمیں نیتیں ٹھیک نظر نہیں آ رہیں۔
حامد خان نے کہا کہ پہلے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں غیر قانونی طور پر لوگوں کو غائب کیا جاتا تھا، اب پورے ملک میں قانونی طور پر غائب کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی اپروچ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، آئینی ترمیم کے ذریعے شب خون مارنے کی کوشش کی گئی۔
26 ویں ترمیم کا کیس: جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا
اسد منظور بٹ نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا میرے 11 ممبران خریدے گئے، سادہ اکثریت سے ایسے قوانین بنا رہے ہیں جنہیں ترمیم میں شامل نہیں کر سکے، حکومت کو سپریم کورٹ میں اپنے پسندیدہ جج نہیں مل رہے، اسی لیے ترمیم کے ذریعے نئے ججز لائے جارہے ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان نے 26 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، درخواست میں ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی، درخواست وکیل عمران شفیق کے ذریعے دائر کی گئی، جس میں وفاق سمیت چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے درخواست میں استدعا کی کہ 26 ویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے لہذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ قرار دیا جائے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی صرف سینیارٹی کے اصول پر ہی ممکن ہے اور پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کا تقرر غیر آئینی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی
جماعت اسلامی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم اختیارات کے تقسیم کے اصول کے منافی ہے، یہ کالعدم قرار دی جائے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ قرار دیا جائے کہ 26 ویں آئینی ترمیم بنیادی آئینی اساسات، قرارداد مقاصد، بنیادی حقوق سے بھی متصادم ہے۔
درخواست گزار نے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تشکیل میں تبدیلی اور آئینی بینچز کی تشکیل کا طریقہ کار بھی آئین سے متصادم قرار دیا جائے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھے تاہم 22 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اگلا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔
سندھ ہائیکورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف 2 درخواستوں کو یکجا کردیا
آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ ترامیم آرٹیکل 175-اے میں کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے عمل سے متعلق ہے۔
مجوزہ آئینی ترمیمی میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے موجودہ اختیارات پر’کاری ضرب’
واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان اور سندھ ہائیکورٹ میں اس سے قبل بھی درخواست دائر کی گئی ہیں جس میں اس ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
سندھ ہائیکورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر فریقین سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔
آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت تے ہوئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیے کہ آئین عدلیہ کا نہیں پارلیمنٹ کا معاملہ ہے، آپ نے آئین کے آرٹیکل 239 کا جائزہ لیا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا دائرہ اختیار کیا ہے اس میں؟ ہمارے پاس سپریم کورٹ کے اختیارات نہیں ہیں، جو اختیارات ہائیکورٹ کے پاس ہے وہی کرسکتے ہیں، 2 فورمز نے کیسے عدلیہ کی آزادی متاثر کی ہے؟
سندھ ہائیکورٹ نے آئینی ترمیم کے خلاف وکلا کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی
بعد ازاں، سندھ ہائی کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر فریقین سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔
یاد رہے کہ 22 اکتوبر کو 26 ویں آئینی ترمیم کو سندھ ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا تھا۔
سندھ ہائیکورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف 2 درخواستوں کو یکجا کردیا جبکہ سماعت کل ہوگی۔
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک بار پھر درخواست دائر کردی گئی، سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
سندھ ہائیکورٹ میں بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے درخواست دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 26 ویں ترمیم میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا گیا ہے، اس لیے یہ ترمیم آئینی حیثیت نہیں رکھتی اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے دونوں درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ: 26 ویں ترمیم کے بعد پہلا کیس آئینی بینچ کو بھیج دیا گیا
درخواست گزار بیرسٹر علی طاہر کا کہنا تھا کہ یہ فوری نوعیت کا معاملہ ہے، اس لیے میری درخواست جلد سن لیں، جس پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ کل دونوں درخواستیں سن لیں گے۔
دوسری جانب دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عالیہ نیلم نے شہری نذیر احمد چودھری کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ 26 ویں ترمیم آئین پاکستان کے دیباچہ کے برخلاف ہے، آئین کے دیباچہ میں طے کردہ آزاد عدلیہ کے اصول کے خلاف ہے، سنیارٹی کا اصول نظر انداز کرکے بھی عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگائی گئی، جوڈیشل کمیشن میں ممبران اسمبلی اور وزرا کی شمولیت عدلیہ کی خود مختاری پر وار ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سپریم کورٹ میں دائر ہوچکی ہے۔ بعدازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ 26ویں ترمیم حکومت کے گلے پڑے گی اور کسی کو کچھ نہیں ملے گا، 27 ویں ترمیم پر مولانا فضل الرحمان نے کال دی تو لگ پتہ جائے گا۔
اپنے ایک بیان میں سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آفریدی چیف جسٹس آیا ہے، آفریدیوں نے سکھوں، برٹش، روس اور امریکا کو شکست دی تھی، امید ہے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ملک میں انصاف کریں گے۔
شیخ رشید نے کہا کہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے، یہ جو خواب دیکھ رہے تھے سب چکنا چور ہو گئے، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ جو ہورہا ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور مولانا فضل الرحمان دو ہی آدمیوں نے عزت بڑھائی ہے باقی سب نے اپنی عزت پر جھا ڑو پھیرا ہے، مولانا فضل الرحمان نے 26 ترمیم کا جنازہ نکالا ہے، یہ ترمیم ن اور ش سب کے گلے پڑے گی ان کو کچھ نہیں ملے گا، 27 ویں ترمیم کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں، 27 ویں ترمیم کے خلاف مولانا فضل الرحمان کال دیں گے، 27 ویں ترمیم پر مولانا نے کال دی تو ان کو لگ پتہ جائے گا۔
شیخ رشید احمد نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے پھر کہوں گا کہ لوگوں کو معافی دیں، غریب آدمی کے لیے عدالتوں میں آنا آسان نہیں ہے۔
26 ویں ویں آئینی ترمیم کے بعد سندھ ہائیکورٹ کا اہم اقدام سامنے آیا ہے، متوقع آئینی بینچ، ریگولر بینچز کے لیے کیسز علیحدہ کرنے کا عمل شروع ہوگیا۔
جس کے بعد سندھ ہائیکورٹ نے برانچز کو فائلوں کی کلاسیفیکیشن کرنے کی ہدایت جاری کردیں۔ واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ میں 21 ہزار آئینی درخواستیں زیر التواء ہیں۔
ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالت کو 21 ہزار آئینی کیسز کی کلاسیفیکیشن کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
اسسٹںٹ رجسٹرار کے مطابق آئینی کیسز کی نشان دہی کرکے درست شیڈولنگ کی جائے، تمام کارروائی مکمل کرے رپورٹ جلد جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
اسسٹںٹ رجسٹرار کا کہنا ہے کہ کلاسیفیکیشن کے باعث برانچز میں پبلک ڈیلنگ کا وقت محدود رہے گا، دوپہر 12 بجے کے بعد وکلا، عوام اور سائلین برانچ میں داخل نہ ہوں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی ہے، جس میں ستائیسویں ترمیم لانے پر اتفاق کیا گیا اور جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے مل کر چلنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے لیے لاہور میں ان کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن پہنچے، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی بلاول بھٹو کے ہمراہ تھے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اعظم نذیر تارڑ ،رانا ثناء اللہ اور سردار ایاز صادق بھی ماڈل ٹاؤن پہنچ گے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی ملاقات میں 27ویں آئینی ترمیم لانے پر اتفاق کیا گیا۔ اور اس کیلئے مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیے جانے پر بات کی گئی۔
ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ 27ویں ترمیم میں صوبوں کے حقوق کے حوالے سے دیکھا جائے گا، مولانا فضل الرحمان، ایم کیوایم اور دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
ستائیسویں آئینی ترمیم پر جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ کو پیشگی آن بورڈ لیا جائے گا، نئے چیف جسٹس کی طرف سے سنیارٹی لسٹ اپ ڈیٹ کرنے اور فل کورٹ اجلاس بلانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کا منصب سنبھالتے ہی پہلا بڑا فیصلہ
آج کی ملاقات میں 26ویں ترمیم کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم سے ملاقات میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کو تاریخی قرار دیا ہے۔
ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے مل کر چلیں گے، غیر جمہوری طاقتوں کا راستہ روکنے کے لیے چھبیسویں آئینی ترمیم کارگر ثابت ہوگی۔
اس موقع پر شہبازشریف نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا کریڈٹ تمام اتحادی جماعتوں کو جاتا ہے، پہلے بھی عوامی خدمت سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی اب پیچھے ہٹیں گے، ملکی معاشی اعشاریہ مثبت ہونے سے مہنگائی میں واضح کمی ہوتی نظر آ رہی ہے۔
واضح رہے کہ کچھ روز قبل حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 26ویں آئینی ترمیم بھی منظور کروا چکی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں 26 ویں آئینی ترمیم کی قرار داد منظور کرلی گئی جبکہ اپوزیشن ارکان نے ایوان میں واک آؤٹ کردیا اور شدید نعرے بازی بھی کی۔
اسپیکر ملک محمد احمد خان کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس 2 گھنٹے 47 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔
اجلاس کے دوران صوبائی وزیر برائے پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمان نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی۔
مجتبیٰ شجاع الرحمان نے چھبیسویں آئینی ترمیم منظور کروانے پر وزیر اعظم شہبازشریف اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کو خراج تحسین پیش کیا۔
الیکشن کمیشن اور پارٹی کیخلاف ووٹ دینے والوں کیلئے مجوزہ آئینی ترمیم میں کیا ہے؟
قرار داد کے متن میں لکھا گیا کہ پاکستان کا آئین مقدس دستاویز ہے جو 1973میں متفقہ طورپر منظور کیاگیا، ریاستی ادارے جتنے مضبوط، فعال اور قابل اعتماد ہوں گے تو ریاست بھی اتنی طاقتور و باوقار ہوگی، مقننہ انتظامیہ و عدلیہ کےاختیارات کی علیحدگی ہر ادارے کی ذمہ داری ہے۔
حکومت کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد میں کہا گیا کہ 20 اور 21 اکتوبر 2024 کو منظور کی جانے والی 26ویں آئینی ترمیم تاریخی اہمیت کی حامل ہے، اس ترمیم سے عدالتی اصلاحات کی فراہمی کی راہ ہموار ہوئی ہے، پاکستان کی سیاسی قیادت پارلیمان کو تاریخی ترمیم پاس کرنے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے، یہ ترمیم پاکستان کے تابناک جمہوری مستقل، سیاسی اتحاد و سیاسی انتشار کے خاتمے کا باعث ہوگی۔
صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم کے ذریعے چارٹر آف ڈیموکریسی کا ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچا، ہمارے اپوزیشن کے ممبران بات کررہے تھے کہ یہ آئینی ترمیم بغیر اپوزیشن کے منظور کروائی گئی، آئینی ترمیم کےلیے قومی اسمبلی میں جو پارلیمانی کمیٹی بنی اس کی نشستوں میں ان کے ممبران شامل ہوتے رہے اور اپنی رائے بھی دی۔
بعدازاں پنجاب اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم کی قرارداد منظور کر لی گئی جس پر اپوزیشن ارکان نے ایوان میں شدید نعرے بازی کی اور 26 ویں آئینی ترمیم، پنجاب حکومت کے رویے، پولیس کے مظالم اور جبری گمشدگیوں کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھچر کا کہنا تھا کہ مجبور ہوگئے ہیں پولیس حکومت کے خلاف ٹوکن واک آئوٹ کررہے ہیں، نادیہ کھر میری بیٹیوں کی طرح ہے اس کو پولیس وین میں اٹھاکر ڈالا گیا وہ افسوسناک ہے، فیصل آباد کے ممبرز کو پولیس اٹھا کر لے گئی، جنگ میں قیدیوں کو مارنا شروع نہیں کردیتے ہم تو پھر ایم پی ایز ہیں، ہم ممبر ہیں کہاں جائیں یا تو ہم چلے جاتے ہیں کسی اور کو سیٹوں پر بٹھا دیں۔
پاکستان میں دو چیف جسٹس ہوں گے، کس کا وزن زیادہ - آئینی ترمیم کے مسودے سے واضح
وزارت قانون کی 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق غلط فہمیوں کی وضاحت
ملک احمد خان بھچر نے مزید کہا کہ ہم نئے اسٹامپ نہیں دے سکتے بانی پی ٹی آئی کےساتھ ہم نے کھڑا ہی ہونا ہے، گھر سے باہر نکلتے ہیں تو بتا کر آتے ہیں اگر گھر واپس نہ آئیں تو باقی کام خود ہی کرلینا، ہمارے ایم پی ایز ایم این ایز کو اٹھایا جاتا ہے، تیسرے درجے کے لوگ شودر کی طرح سلوک ہو رہا ہے کوشش کی ایوان سے بائیکاٹ نہ کروں۔
سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر ووٹرز پر دباؤ سے متعلق ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سینیئر رہنما افراسیاب خٹک نے دائر کی ہے، جس میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے اور انکوائری کی جائے کہ 26ویں آئینی ترمیم میں ارکان اسمبلی نے ووٹ رضاکارانہ طور پر ڈالا یا دباؤ کے تحت دیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ معاملے کے خود انکوائری کرے یا جوڈیشیل کمیشن کے ذریعے ارکان پر دباؤ کے معاملے کی انکوائری کروائے اور قرار دیا جائے کہ 26 ویں آئینی ترمیم درست طریقے سے منظور نہیں کی گئی۔
26 آئینی ترمیم سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج، ’ترمیم عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے‘
درخواست میں یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ ارکان اسمبلی کے انتخابی تنازعات الیکشن ٹربیونل میں زیرالتوا ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دے کر خارج کیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ، چیف جسٹس کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی اور آئینی بینچوں کا قیام عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے، 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست پر آئینی بینچز سماعت نہیں کرسکتے۔
واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو آئین کا حصہ بننے والی 26ویں ترمیم کو اگلے ہی روز سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا، درخواست گزار نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ مذکورہ ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچہ اور اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے۔
سپریم کورٹ سے 26 ویں آئینی ترمیم کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے شہری محمد انس نے یہ آئینی درخواست اپنے وکیل عدنان خان کی وساطت سے دائر کی تھی جس میں وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی بینچز کو مقدمات کی منتقلی کا سلسلہ جاری ہے، عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد میں زمین کے تنازع سے متعلق مقدمہ بھی آئینی بینچ کو بھجوا دیا۔
نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں تو آئینی شقوں کی تشریح کرنا ہوگی، یہ مقدمہ تو اب آئینی بینچ کو منتقل ہونا چاہیئے، جس پر وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میں یہ کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن ہونا یہی چاہیئے۔
نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس کو آئینی بینچ کے حوالے سے پالیسی دے دی ہے، آفس کو ہدایت کی ہے جن مقدمات میں کوئی قانون چیلنج ہوا ہے ان کی الگ کیٹیگری بنائی جائے اور جن مقدمات میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہوئی وہ ساتھ ساتھ منتقل کرتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے مختلف بینچز نے گزشتہ روز بھی 4 مقدمات آئینی بینچ منتقل کر دیے تھے۔
21 اکتوبر کو منظور کردہ 26 ویں آئینی ترمیم میں عدالتی بینچوں کی تشکیل کے لئے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 191۔اے (سپریم کورٹ کی آئینی بینچ) شامل کیا گیا ہے۔
شق نمبر 1 میں کہا گیا ہے ’سپریم کورٹ کے آئینی بینچ ہوں گے جن میں سپریم کورٹ کے ججز شامل ہوں گے، جن کی نامزدگی اور مدت کا تعین جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا جب کہ آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔
آرٹیکل 191 اے کی شق 2 اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سب سے سینئر جج آئینی بینچوں کا پریزائیڈنگ جج ہوگا۔
شق 3 آئینی بینچوں کے علاوہ سپریم کورٹ کے بینچوں کو ’سپریم کورٹ کو تفویض کردہ مندرجہ ذیل دائرہ اختیارات ’ کو محدود کرتا ہے:
(الف) آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کا اصل دائرہ اختیار؛
(ب) آرٹیکل 185 کی شق 3 کے تحت سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار میں، جہاں آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ یا حکم کسی قانون کی آئینی حیثیت یا آئین کی تشریح کے بارے میں قانون کے سوال کو شامل کرتا ہے؛
(ج) آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ اختیار؛
شق نمبر4 کے تحت شق 2 کے مقاصد کے لیے کم از کم 5 ججوں پر مشتمل بینچ ہو، جسے پریزائیڈنگ جج اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سے 2 سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی نامزد کرے گی، اور یہ بینچ ایسے معاملات کی سماعت کرے گا۔
آرٹیکل 191 اے کی شق 5 کے مطابق 26ویں ترمیم کے نفاذ سے قبل سپریم کورٹ میں دائر کیے گئے فیصلوں کے خلاف تمام درخواستیں، اپیلیں یا نظرثانی کی درخواستیں، جن پر شق 2 لاگو ہوتی ہے، اب آئینی بینچوں کو منتقل کردی جائیں گی اور صرف شق 3 کے تحت تشکیل دیے گئے بینچ ان کی سماعت اور فیصلہ کریں گے۔
شق نمبر6 کے ذریعے شق نمبر1 میں نامزد ججوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ آئینی بینچوں کے طرز عمل اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد وضع کرسکتے ہیں، ’چاہے آئین میں کچھ بھی موجود ہو لیکن قانون کے تابع ہو‘۔
یاد رہے کہ 23 اکتوبر کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی منظوری دے دی جس کے بعد وزارت قانون نے ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔
نئے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی تعیناتی 26 اکتوبر سے 3 سال کے لیے کی گئی ہے ۔
اس حوالے سے بتایا گیا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی 26 اکتوبر کوعہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انکشاف کیا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی کی وجہ سے ہی 26 ویں آئینی ترمیم لانے کا موقع ملا ’اتنا بڑا کام کسی اور چیف جسٹس کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔‘
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’26ویں آئینی ترمیم میں جس چیز کو سب سے زیادہ سیاسی رنگ دیا گیا اور اس کی بنیاد پر پورے عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی وہ فوجی عدالتوں کا معاملہ تھا‘۔
سابق وزیراعظم عمران خان سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اگر ملک سے سیاسی انتقام کی روش کو ختم کرنا ہے تو پہلا قدم اُس آدمی کو اٹھانا پڑے گا جو جیل میں بیٹھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سب سے زیادہ سیاسی رنگ ملٹری کورٹ کی اصطلاح کے استعمال کو دیا گیا، جو لوگ اس ترمیم کے مسودے پر کام کرنے والے عمل میں شامل تھے، یا جو میڈیا پر اس کا تجزیہ کر رہے تھے، انہوں نے اس پورے عمل کو متنازع بنانے کی کوشش کی، انھوں نے فوجی عدالتوں کے ساتھ کالا سانپ کی بات جوڑ دی تھی اور اور کالے سانپ کے نام پر اس پورے پراسیس کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی‘
انہوں نے بتایا کہ ’نو مئی کو کچھ افراد نے کور کمانڈر ہاؤس اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا اور حکومت نے ان کے خلاف آرمی ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل 8 کی تشریح کے تحت ٹرائل کا فیصلہ کیا۔ اس دوران عدالت نے فیصلہ دیا جس نے 1950 سے چلتے آنے والے قانون کو تبدیل کیا۔ عدالت کی جانب سے آئین کی تشریح کے نتیجے میں حکومت کے فیصلے (فوجی عدالتوں میں ٹرائل) پر عملدرآمد میں رکاوٹیں آئیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’عدالت نے یہ کیا کہ آرٹیکل 8 میں جہاں ’مسلح افواج کے اہلکار‘ لکھا ہوا تھا، وہاں اس پوائنٹ کو پکڑ کر کہا کہ اس کا مطلب صرف ’مسلح افواج کے اہلکار‘ ہی ہیں اور اس قانون کے تحت (فوجی عدالتوں میں) صرف اُن کا ہی ٹرائل ہو سکتا ہے، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ عدالت نے یہ فیصلہ ایک سیاسی جماعت کو فائدہ دینے کے لیے دیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری تجویز چھوٹی سی تھی جسے انتہائی متنازع بنا دیا گیا، تجویز یہ تھی کہ جہاں ’ممبرز آف دی آرمڈ فورسز‘ لکھا ہوا ہے اس کو بدل کر ’آرمڈ فورسز‘ لکھ دیا جائے۔ حکومت کی یہ خواہش ضرور تھی کہ اس کا ریٹروسپیکٹیو اثر (ماضی سے اطلاق ہو) اور اس میں آرمڈ فورسز کے ساتھ ساتھ عسکری تنصیبات، فوجی چوکیاں بھی شامل کی جائیں۔ مگر چوکیوں وغیرہ پر ہمارا بھی اعتراض تھا اور مولانا فضل الرحمان کا بھی۔ اگر اتفاق رائے ہو جاتا تو آرٹیکل 8 میں ہم صرف ایک لفظ کی ترمیم کرنے جا رہے تھے، اور اس ایک لفظ کو کالا سانپ بنا دیا گیا اور کالے سانپ کے نام پر اس پورے پراسیس کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔‘
خیال رہے کہ سینیٹ سے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ’ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں اور اس کا زہر نکال دیا ہے۔‘
علاوہ ازیں انہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق بتایا کہ ’ہمارے پاس ایک چیف جسٹس تھا، جو اپنے ساتھی ججوں کے دباؤ کا مقابلہ کر سکتا تھا، جو شاید اسے بھڑکانے کی کوشش کرتے کہ یہ آپ کا معاملہ نہیں بلکہ ججوں کی طاقت کا سوال ہے۔۔۔ ہمارے پاس وہ موقع تھا جب ہمارے پاس ایک ایسا شخص تھا جو ہماری کوششوں کو کمزور نہ کرتا۔‘
بلاول بھٹو زرداری نے اس ضمن میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اُن کے پاس ’نمبر پورے تھے،مولانا فضل الرحمن کے بغیر، اپوزیشن کی شمولیت کے بغیر ، (ہم) اپنی مرضی کا آئین (ترمیم) لا سکتے تھے۔ مگر میرا یقین تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، مولانا فضل الرحمن صاحب اور مجھے اتفاق رائے کرنا ہو گا۔ چاہے کوئی سیاسی یا دوسرا سٹیک ہولڈر یہ کہے کہ چلیں آپ اپنا (بات چیت کا) شوق پورا کریں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں کچھ وجوہات کی بنا پر مان رہا تھا، اور وہ وجہ جس کے لیے میں مان رہا تھا وہ یہ آئین ہے۔ آج بھی پارلیمان میں دو اور سیاسی جماعتیں بھی ہیں جن کے لیے یہ آئین اتنا ہی مقدس ہے جتنا ہمارے لیے۔ ان میں ایک جے یو آئی ہے اور دوسری اے این پی۔‘
آئینی ترامیم سے متعلق پی پی پی کا مسودہ، بلاول نے عوام سے تجویز مانگ لی
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ کر ایک بار پھر خصوصی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو نیا خط 23 اکتوبر کو لکھا، خط چیف جسٹس کو بطور سربراہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی لکھا گیا۔
خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے خصوصی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی لکھا تھا ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ بیٹھنے تک خصوصی بینچز کا حصہ نہیں بنوں گا۔
اپنے خط میں جسٹس منصورعلی شاہ نے مزید لکھا کہ لوگ ہمارے اعمال دیکھ رہے ہیں اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔
سینئر ججز سے جسٹس منیب کا رویہ انتہائی سخت تھا، چیف جسٹس فائز عیسییٰ کا جسٹس منصور کے خط کا جواب
جسٹس منصور علی شاہ کے خط میں سرتھامس مورے کا قول بھی نقل کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ٹیکس سے متعلق نظرثانی کیس کی آخری سماعت 4 اکتوبر کو ہوئی تھی جب چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔ بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس نعیم اختر افغان کو شامل کرنے کا حکمنامہ دیا گیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ٹیکس سے متعلق مرکزی کیس میں اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ نظرثانی کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی جسٹس منصور علی شاہ ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں اور وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیے بغیر چلے گئے تھے۔
ادارے صرف بات چیت اور رابطے کے ذریعے ترقی کرسکتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصورعلی شاہ نے ججز کمیٹی کو خط لکھ کر کمیٹی میں شمولیت سے انکار کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد بازی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس لایا گیا، جس کے نفاذ کے چند گھنٹوں کے اندر ہی یہ آرڈیننس نوٹیفائی کیا گیا،کمیٹی کو دوبارہ تشکیل دیا گیا اور اس بارے میں کوئی وجہ نہیں بتائی گئی،نہیں بتایا گیا کہ کیوں دوسرے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر کو کمیٹی کی تشکیل سے ہٹا دیا گیا۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ مطابق جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی ریفرنس اور نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوسکیں گے، جسٹس منصور علی شاہ آج فیملی سمیت عمرے پر روانہ ہوں گے، ان کی وطن واپسی یکم نومبر کو ہوگی۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں 25 اکتوبر کو الوداعی فل کورٹ ریفرنس ہوگا جبکہ صدر آصف علی زرداری 26 اکتوبر کو جسٹس یحییٰ آفریدی سے نئے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف لیں گے، حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں 11 بجے منعقد ہوگی، جس میں 300 مہمان شرکت کریں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی ہفتے کو چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، ان کی حلف برداری کی تیاریاں جاری ہیں اور ایوان صدر نے مہمانوں کی فہرست بھی طلب کرلی ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کو مبارکبادیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے درمیان اہم ملاقات ہوئی جس میں پہلی مبارکباد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دی۔ اس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کی بھی جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے بھی نامزد چیف جسٹس کو مبارکباد دی۔
ذرائع کے مطابق دونوں کے درمیان آج دو بار ملاقات ہوئی، پہلی ملاقات آج مقدمات کی سماعت سے قبل چیف جسٹس چمبرمیں ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کومبارک باد پیش کی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے مبارکباد قبول کی۔ مقدمات کی سماعت کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے دوسری ملاقات بھی کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس یحیی آفریدی جسٹس منصورعلی شاہ کے چمبر میں بھی گئے، نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ان کے چمبر کے اسٹاف نے بھی مبارک باد دی۔
نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید نے بھی ملاقاتیں کیں اور مبارکباد دی۔
ذرائع کے مطابق ملاقاتوں کے بعد نامزد چیف جسٹس نے عدالتی اسٹاف کو بریفنگ کیلئے بلا لیا، سپریم کورٹ کے مختلف ونگز کے سربراہان نے نامزد چیف جسٹس کو عدالتی امور کی بریفنگ دی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ٹاسک کے ساتھ تمام ونگز کو دوبارہ بریفنگ کی ہدایت کی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری
صدر مملکت آصف زرداری نے جسٹس یحیی آفریدی کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کردی جبکہ وزارت قانون نے صدر مملکت کی منظوری سے نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا۔
ایوان صدر کے مطابق صدر نے جسٹس یحیی آفریدی کی تعیناتی چھبیس اکتوبر سے تین سال کے لیے کی گئی ہےصدر مملکت نے تعیناتی آرٹیکل ایک سو پچہتراے شق تھری، ایک سو ستتر اور ایک سو اناسی کے تحت کی۔
وزارت قانون کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ صدرمملکت کی منظوری سے نوٹی فکیشن جاری کیا گیا، نوٹی فکیشن کا اطلاق 26 اکتوبر 2024 سے ہوگا۔
نوٹی فکیشن کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی 26 اکتوبرکوعہدے کاحلف اٹھائیں گے، جسٹس یحیی آفریدی 3 سال کیلئےچیف جسٹس ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد نئے چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کے لیے بنائی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو بطور چیف جسٹس پاکستان نامزد کیا گیا تھا۔
کمیٹی میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کے بائیکاٹ کے باعث نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کیلئے پارلیمانی کمیٹی نے بنا اپوزیشن ممبران کے فیصلہ لیا۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطے
پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے اجلاس کے باٸیکاٹ کا اعلان کیا گیا جس کے بعد دیگر کمیٹی ارکان کی جانب سے پی ٹی آئی کو منانے کی کوششیں کی گئیں جو ناکام ہوئیں۔ بعدازاں شام چار بجے بلایا جانے والا اجلاس رات کو نو بجے پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے ممبران کے بنا ہی شروع ہوا۔
کوئی ثابت کردے آئینی ترمیم کیلئے اسمبلی کے قریب بھی تھا تو استعفی دے دوں گا، پی ٹی آئی رہنما
ذرائع نے بتایا کہ بذریعہ رجسٹرار سپریم کورٹ چیف جسٹس سے نام مانگے گئے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختراورجسٹس یحییٰ آفریدی کا نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کیے۔
جس کے بعد شام 4 بجے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے بائیکاٹ کے باعث رات آٹھ بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ اس دوران کمیٹی کے دیگر اراکین نے پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو منا کر لانے کا فیصلہ کیا۔
اس حوالے سے کمیٹی ممبر اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ خوبصورتی اسی میں ہے ان کو بھی منا کر کمیٹی میں لایا جائے، ہر جماعت سے ایک کمیٹی رکن اپوزیشن ارکان کو لینے جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین نے اختیار دیا ہے کہ 8 ارکان کمیٹی اجلاس میں بیٹھے ہوں تو وہ فیصلہ کرسکتے ہیں۔ آج کمیٹی کے اجلاس میں ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود تھی لیکن اس کے باوجود ہم نے کارروائی روک دی تاکہ پی ٹی آئی کے ارکان بھی شریک ہوسکیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین میں یہ بھی لکھا ہے اگر کوئی ویکنسی خالی رہ جاتی ہے یعنی کسی پارٹی کی جانب سے نامزدگی نہیں آتی یا کوئی رکن خود میٹنگ اٹینڈ نہیں کرتا تو اس کی وجہ سے کمیٹی کی کارروائی نہیں رکے گی۔
مولانا فضل الرحمان نے بھی اسد قیصر سے ٹیلیفونک رابطہ خصوصی کمیٹی اجلاس میں شرکت کی درخواست کی، جس پر پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کچھ وقت مانگ لیا۔
اس کے بعد بیرسٹر گوہر اور کامران مرتضیٰ کی اسپیکر ایاز صادق سے ان کے چیمبر میں ملاقات ہوئی، ایاز صادق اور کامران مرتضیٰ نے بھی بیرسٹر گوہر سے پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ ختم کرنے کی درخواست کی، اس دوران رعنا انصار اور احسن اقبال بھی اسپیکر چیمبر میں موجود رہے جبکہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب سپیکر کی درخواست کے باوجود نہ آئے۔
بالآخر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے اور بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم آئینی ترمیم کو نہیں مانتے، پی ٹی آئی کا سیاسی کمیٹی کا فیصلہ حتمی ہے۔
اس کے بعد پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے ممبران کے بنا ہی رات 9 بجے ججز تقرری کیلئے بنائی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا، جس میں کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحیٰی آفریدی کے نام پر اتفاق کیا۔
کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ جسٹس یحییٰ آفریدی کا نام وزیراعظم کو ارسال کر دیا ہے۔
وزیراعظم صدر کو ایڈوائس کریں گے اور پھر صدر کی منظوری سے جسٹس یحیٰ آفریدی چیف جسٹس تعینات ہوں گے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی میں موجود 9 میں سے دو تہائی ارکان نے ’بہت اچھی بحث‘ کے بعد جسٹس یحیٰی آفریدی کے حق میں فیصلہ دیا، انہوں نے کہا کہ زیر غور تینوں ججز قابل احترام ہیں۔
خیال رہے کہ صدر مملکت کے دستخط کرنے کے ساتھ ہی 26 ویں آئینی ترمیم لاگو ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کیلٸے آرٹیکل 175 اے کی شق 3 اے کی ذیلی شق 1 اور 2 کے تحت 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کمیٹی دی گئی تھی۔ جس کیلئے تمام پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے اپنے نمائندگان کے نام دیئے گئے۔
12 رکنی کمیٹی 8 ممبران قومی اسمبلی اور چار سینیٹرز پر مشتمل ہے۔ کمیٹی میں شامل اراکین اسمبلی میں ن لیگ کے خواجہ آصف، احسن اقبال، شائستہ پرویز ملک، پیپلز پارٹی سے راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، ایم کیو ایم سے رعنا انصر، پی ٹی آئی سے بیرسٹر گوہر علی خان، سنی اتحاد کونسل سے صاحبزادہ حامد رضا شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، کمیٹی میں چار سینیٹر بھی شامل ہیں، جن میں پیپلز پارٹی کے فاروق حامد نائیک، ن لیگ کے اعظم نذیر تارڑ، پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی ظفر اور جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ شامل ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی عدالت عظمٰی میں کھینچا تانی اور گروپنگ میں غیرجانبدار رہے، رانا ثنا اللہ
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر تیسرے نمبر کے جج کو چیف جسٹس بنایا جائے تو باقی دو کو مستعفی نہیں ہونا چاہیے، انہیں اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔
رانا ثنا اللہ نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران جو عدالت عظمٰی میں کھینچا تانی اور گروپنگ کا تصور دیکھنے میں آیا اس میں جسٹس یحییٰ آفریدی غیرجانبدار رہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس پورے عرصے میں خود کو اپنے فیصلوں سے انتہائی غیر جانبدار جج کے طور پر منوایا ہے اور ان کی یہی خوبی انہیں ممتاز بناتی ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے آئینی ترامیم کی منظور کے بعد قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو ہمیشہ کیلئے محکوم بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آزاد عدلیہ کو حکومتی نمائندگان نے آج جتنی تنقید کا نشانہ بنایا، [میاں صاحب نے جو شعر پڑھا][7] اس سے عدلیہ کی توہین کی اس کی مذمت کرتے ہیں، آج پاکستانی آئینی تاریخ اور عدلیہ کیلئے سیاہ دن ہے، یہ چاہتے ہیں ہر عدالت ان کے ماتحت ہو۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ چند کیسز کی بنیاد پر آئینی بینچ بنارہے ہیں، وزیراعظم پہلی بار ججز کی تقرری کرے گا، یہ کمیٹی بنی تو خورشید شاہ کے ساتھ بھی دھوکہ ہوا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 26ویں آئینی ترامیم پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کے مؤقف کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ احتجاجًا رائے شماری میں شامل نہ ہونا پی ٹی آئی کا حق ہے۔
اتوار کو مولانا فضل الرحمان اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے طویل ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان تحریک انصاف و الائنس کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات ہوئی، ہم مولانا فضل الرحمان کے کردار کو سراہتے ہیں، ہم مولانا فضل الرحمان کے بے حد مشکور ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئین میں ترامیم ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، پاکستان تحریک انصاف اس سنجیدے مسئلے کو اچھے سے سمجھتی ہے، ہم ہر فیصلہ بانی پی ٹی آئی کے مشورے کے ساتھ کرتے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے کل کہا تھا کہ ہم مزید مشورہ کرنا چاہتے ہیں، پی ٹی آئی ایک اصولی موقف لے چکی ہے، جس طریقے سے اس بل کو لایا گیا اور اراکین کو اٹھایا گیا ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ ہمارا اور مولانا کا ساتھ ہمیشہ رہے گا، لیکن ہم آئینی ترمیم پر ووٹ نہیں دینگے، ہم آئینی ترمیم میں شرکت ضرور کرینگے لیکن ووٹ نہیں دینگے۔
اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کا بہت شکر گزار ہوں، ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان پر تشدد اور گرفتاریاں قابل مذمت ہیں، اس لئتے احتجاجاً بائیکاڑٹ کرنا پارٹی کا حق ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ ہم نے جو بل مسترد کیا تھا وہ اب نہیں رہا ہے، ہم اب بھی مفاہمت کی کوشش کرینگے۔
قبل ازیں، پی ٹی آئی کی خصوصی سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس کے جاری اعلامیے کے مطابق پی ٹی آئی نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں آئینی ترمیم پر رائے شماری ووٹنگ کے عمل کا مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
پی ٹی آئی سیاسی کمیٹی کے خصوصی اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رائے شماری میں حصہ لینے والے اراکینِ قومی اسمبلی اور سینٹ کے خلاف احتجاج کیا جائےگا۔
اعلامیہ کے مطابق مینڈیٹ چور سرکار اور اس کے سرپرست آئین میں ترامیم کے ذریعے ملک میں جنگل کے قانون کو نافذ کرنا اور جمہوریت کو زندہ درگور کرنا ہے، پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رائے شماری میں حصہ لینے والے تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی اور سینٹ کے خلاف بھرپور احتجاج کا فیصلہ کیا گیا۔
سیاسی کمیٹی تحریک انصاف نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکن پارٹی پالیسی سے روگردانی کرتے ہوئے سینٹ یا قومی اسمبلی میں کسی بھی انداز میں رائے شماری میں حصہ لینے والے اراکین کی رہائشگاہوں کے باہر پرامن دھرنے دیں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی وفد نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے آئینی ترمیم پر مشاورت کی تھی۔ ملاقات ختم ہونے کے بعد پارٹی قائدین مولانا فضل الرحمان کے گھر پہنچے اور بانی پی ٹی آئی کا پیغام دیا۔
رات تقریباً پونے ایک بجے یہ ملاقات اختتام کو پہنچی، جس کے بعد مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو نے میڈیا سے گفتگو کی۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے بھی بلاول سے مشاورت کیلئے کل تک کا وقت مانگ لیا ہے۔
ہفتے کا پورا دن نکلنے کے باوجود آئینی ترامیم نہ تو سینیٹ میں پیش ہوسکی اور نہ ہی قومی اسمبلی میں اسے پیش کیا جاسکا، دونوں ایوانوں کے اجلاس اتوار کی دوپہر تک کیلئے ملتوی کردئے گئے۔ وفاقی کابینہ اور سینیٹ کااجلاس سہ پہرتین بجے، قومی اسمبلی کا اجلاس آج شام چھ بجے ہوگا۔
گزشتہ روز وفاقی کابینہ کا اجلاس رات دیر گئے طلب کیا گیا۔ اس حوالے سے وزیر دفاع خوجہ آصف نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے 26ویں ترمیم کی اصولی منظوری دے دی ہے۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ آج کوئی آئے یا نہ آئے 26 ویں ترمیم پاس ہو جائے گی، آجائیں گے تو عزتیں بچ جائیں گی، جس نے جو الزام لگانا ہے لگائے، الزامات پر کوئی وضاحت نہیں کی جائے گی۔
سینیٹ اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹرفیصل واوڈا نے کہا کہ اگر کوئی اجلاس میں آئے یا نہ آئے 26 ویں آئینی ترمیم پاس ہونے جارہی ہے، اگرآجائیں گے توعزت بچ جائے گی، نہیں آئیں گے توبھی آئینی ترمیم کا بل پاس ہو جائے گا لیکن پھرعزت نہیں رہے گی، ’ہیرو سے زیرو ہونے میں دیر نہیں لگتی‘۔
انہوں نے کہا کہ رونے دھونے سے کچھ نہیں ہو گا، اب کوئی وضاحت پیش نہیں کی جائے گی، جو ابھی سے رونا دھونا کر رہے ہیں تو جاؤ کوئی وضاحت نہیں ہے، آپ لوگ پریشان نہ ہوں ترمیم ہو گی، کوئی الزام قبول نہیں کیا جائے گا، سمجھتے ہوکہ اٹھایا گیا ہے تو جاؤ سمجھتے رہو، تشدد کیا ہے سمجھتے رہو!، پیسہ دیا ہے تو سمجھتے رہو، سمجھ کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ ان تمام الزامات پر کوئی وضاحت نہیں پیش کی جائے گی، ان کو پتا ہے کہ 26 ویں ترمیم ہونی ہے اس لیے انہوں نے رونے دھونے کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منظوری دیئے بغیر ختم ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس کل بلایا جانے کا امکان ہے۔ اجلاس کل صبح ساڑھے نو بجے متوقع ہے۔
وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کمیٹی روم نمبر دو میں جاری تھا۔
اجلاس میں وفاقی کابینہ 26 ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودہ کی منظوری دینی تھی۔
مزید پڑھیں:
پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں منظور مسودے کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ منظور مسودےکے متن کے مطابق نئے آئینی ترمیمی مسودے میں آرٹیکل 38 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے۔
متن کے مطابق جس جتنا قابل عمل ہو یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائےگا۔
سود سے متعلق آئین میں ترامیم کا مجوزہ مسودہ جمیعت علماء اسلام (جے یو آئی) کا تجویز کردہ ہے۔
خصوصی کمیٹی سے منظور شدہ آئینی ترمیم کا ڈرافٹ سامنے آ گیا
مسودے کے مطابق جے یو آئی نے آئین کے آرٹیکل 38، آرٹیکل 175 اے، آرٹیکل 243، آرٹیکل 230 اور آرٹیکل 203 میں ترامیم تجویز دی تھی۔
مجوزہ 26 ویں آئینی ترامیم کے معاملہ پر وزیراعظم شہبازشریف کی ایوان صدر میں صدر مملکت آصف زرداری سے ملاقات ہوئی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرانے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حتمی مسودے پر بھی بات چیت کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں کا مجوزہ آئینی مسودے پر اظہار اطمینان کا اظہار کیا، صدر آصف زرداری نے متفقہ قانون سازی کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کی مضبوطی کےلیے اہم قرار دیا۔
حکومت نے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ممکنہ طور پر پلان سی ترتیب دے دیا اور اس منصوبے کے تحت مخصوص نشستوں پرمعطل اراکین کواسلام آباد بلا لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کا اہم اورفیصلہ کن اجلاس آج ہونے جارہا جس میں اسپیکرزخطوط پربلائے گئے اجلاس میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ ہونے کا امکان ہے۔
مخصوص نشستوں سے متعلق اسپیکرزقومی اسمبلی کے خطوط پرالیکشن کمیشن کا اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے ، جس میں اسپیکر خطوط کاجائزہ لینے کے ساتھ قانونی ٹیم بریف دے گی ۔ ذرائع کا امکان ہے کہ یہ اجلاس حتمی ہوگا اورفیصلہ کے بھی امکانات ہیں۔
حکومت بھی مخصوص نشستوں دوبارہ ملنے کیلئے پرامید ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومتی اتحادی جماعتوں نے مخصوص نشستوں پرمعطل اراکین کواسلام آباد بلا لیا ہے الیکشن کمیشن کے فیصلے اوربحالی کی صورت میں ارکان ایوان میں حاضرہونگے جس کے بعد حکومتی بنچوں پرتعداد 224 کے میجک نمبرسے کہیں زیادہ ہوجائے گی۔
الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں الاٹ کردی تھیں جن میں 15مسلم لیگ ن 4 پیپلزپارٹی اور3 جے یوآئی ف کے حصے میں آئیں تھیں لیکن سپریم کورٹ فیصلہ کے بعدخالی یا متنازع قراردیا گیا۔