Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کی سماعت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت غیرمؤثر قرار دے دی۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان اپنی اہلیہ بشری بی بی کے ساتھ اندر کمرہ عدالت میں نہیں آئے اور گاڑی میں انتظار کرتے رہے۔
بشریٰ بی بی کے وکیل خواجہ حارث اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے مؤقف اپنایا کہ ہماری کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں، ہم نے بشریٰ بی بی کے کبھی وارنٹ جاری نہیں کیے اور نہ ہی کسی ٹیم نے چھاپہ مارا ہے، جب وارنٹ ہی نہیں تو درخواست ضمانت خارج کی جائے، عمران خان نے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر نیب کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیا، چیئرمین نیب اورادارے کیخلاف غیر اخلاقی زبان استعمال کی، یہ بدنیتی ہے تاکہ نیب کو دبایا جائے، درخواست گزار ملزمہ ہیں، انویسٹی گیشن میں تعاون کرے۔
بشریٰ بی بی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب اتنا صاف اور پارسا ہوتا تو نیب پرانے ججمنٹ سے شروع کرے گا، اگر ملزمہ کی گرفتاری مطلوب نہیں، اس کے وارنٹ نہیں تو عدالت نہیں کہے گی تفتیش جوائن کرے، ہمیں ایک نوٹس موصول نہیں ہوا اور انویسٹی گیشن شروع کر دی گئی، عمران خان کے ساتھ بشری بی بی نیب گئیں تو انہوں نے کہا ہم نے بلایا ہی نہیں۔
نیب کے تفتیشی آفیسر میاں عمر ندیم نے مؤقف اپنایا کہ ملزمہ بشریٰ بی بی کی گرفتاری کی ضرورت نہیں۔
جس پر احتساب عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری نہ ہونے کی وجہ سے بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دی۔
اس کے بعد عمران خان بشریٰ بی بی کے ہمراہ جوڈیشل کمپلیکس سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ اور جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
پی ٹی آئی لیگل کی ٹیم نے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی 3 گاڑیوں کی جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں داخلے کی اجازت مانگی تاہم انہیں اجازت نہ ملی۔
عمران خان کی گاڑی کے ہمراہ جیمرز والی گاڑیاں بھی لاہور سے اسلام آباد آئی ہیں۔
رجسٹرار جوڈیشل کمپلیکس نے عمران خان کی 3 گاڑیوں کی جوڈیشل کمپلیکس میں داخلےکی درخواست مسترد کر دی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس میں عمران خان کی ایک گاڑی کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کے ہمراہ جیمرز والی گاڑیاں جوڈیشل کمپلیکس میں داخل نہیں ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق رجسٹرار کی جانب سے جوڈیشل کمپلیکس پر تعینات سیکیورٹی کو اس ضمن میں پیغام پہنچا دیا گیا ہے۔
عمران خان کی گاڑی کو ہائی کورٹ بلڈنگ میں لانے کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔
عمران خان کے وکلاء نے رجسٹرار ہائیکورٹ کے پاس درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی تھی کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث عمران خان کی 3 گاڑیوں کو داخلے کی اجازت دی جائے۔
سیکیورٹی برانچ نے عمران خان کی گاڑی کو ہائی کورٹ بلڈنگ میں لانے کی درخواست مسترد کر دی۔
آسٹریلوی ہائی کمشنر نیل ہاکنز نے زمان پارک میں چئیرمین تحریک انصاف عمران خان سے اہم ملاقات کی ہے۔
اس سے قبل آج ہی کے روز آسٹریلوی ہائی کمشنر جہانگیر ترین، مریم نواز اور نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے ملاقات کرچکے ہیں۔
یہ ملاقاتیں غیر معمولی نوعیت کی حامل ہیں۔
جہانگیر ترین سے ملاقات میں آسٹریلوی ہائی کمشنر نے نیل ہاکنز نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ جہانگیر ترین ممکنہ طور پر رواں ہفتے نئی پارٹی کا اعلان بھی کریں گے۔
آسٹریلوی ہائی کمشنر نے جہانگیر ترین سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی۔
اس دوران رہنما ترین گروپ اسحاق خاکوانی، عون چوہدری سمیت دیگر بھی ملاقات میں موجود تھے۔
انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب عثمان انور کا کہنا ہے کہ ہر شخص کی گرفتاری قانون کے مطابق ہوتی ہے، سوشل میڈیا پر گرفتار خواتین سے متعلق جعلی خبریں لگائی گئیں، گرفتار خواتین پر تشدد کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔
آئی جی پنجاب عثمان انور نے دیگر پولیس حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تقاضے پورے کرکے ہی گرفتاری کی جاتی ہے۔
آئی جی عثمان انور کا کہنا تھا کہ عوام اپنے اداروں پر اعتماد بحال رکھیں، جیل کے اندر 150 سے زائد کیمرے موجود ہیں۔
دوران پریس کانفرنس ایس ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود کا کہنا تھا کہ یاسمین راشد کی ملاقات کروائی جارہی ہے۔
ڈاکٹر انوش مسعود نے کہا کہ سوشل میڈیا پرغلط خبریں چلائی جارہی ہیں، خواتین کو گھر سے کپڑے منگوا کر دیئے گئے ہیں، انہیں مکمل طبی اور دیگر سہولیات دی جارہی ہیں۔
آئی جی عثمان انورکا کہنا تھا کہ پٹرول بم بنا کر دینے والی خواتین ہیں، لوگوں کو موقع سے گرفتار کیا گیا ہے، گرفتار لوگوں نے خود ہی اپنے ساتھیوں کا بتایا ہے، جس کے بعد سی سی ٹی وی کیمروں سے تصدیق کی گئی اور پھر گرفتاریاں کی گئیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ مظاہرین نے خاتون ایس ایچ او پر تشدد کیا، توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔
آئی جی عثمان انور نے کہا کہ میرے اپنے دوست پولیس افسران کے بچے گرفتار ہوئے، ہم نے ان بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا ہے۔
سوات پولیس کی جانب سے اشتعال انگیز تقاریر پر تحریک انصاف کے قائدین، سابق ممبران اسمبلی اور کارکنوں پر ایف آئی آر درج کرنے کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ کئی قائدین روپوش ہیں۔
مینگورہ پولیس اسٹیشن میں 10 مئی کو نشاط چوک میں اشتعال انگیز تقاریر پر سابق ممبر صوبائی اسمبلی فضل حکیم، میئر مینگوہ شاہد علی اور مراد سعید کے بھائی کلیم سمیت بارہ کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
اس سے پہلے سیدو شریف پولیس اسٹیشن میں بھی میں اداروں کو دھمکیاں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلانے پر سابق ممبر قومی اسمبلی سلیم الرحمان، میئر شاہد علی اور فضل حکیم سمیت 200 سے زائد کارکنان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
خوازہ خیلہ پولیس اسٹیشن میں اداروں کے خلاف بیان بازی پر سابق ممبر صوبائی اسمبلی میاں شرافت علی اور دیگر کے خلاف ایف آئی درج ہوئی۔
مٹہ پولیس اسٹیشن میں تین اہم کارکنان کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی، اور تینوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔
گرفتاری کی خوف سے سابق ممبران اسمبلی اور رہنما روپوش ہوگئے ہیں، اور پولیس کی گرفتاری کیلئے کوشش جاری ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان اور شہریار آفریدی کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان کو اڈیالہ جیل کے باہر سے دوبارہ حراست میں لے لیا گیا ، علی محمد خان کو خیبر پختونخوا پولیس نے حراست میں لیا۔ عمران خان کے قریبی ساتھی کو رہائی کے بعد تیسری بار گرفتارکیا گیا۔
اس سے قبل علی محمد خان کو لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کے احکامات پر اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ جیل حکام کے مطابق پی ٹی آئی رہنما کو نظر بندی کی مدت پوری ہونے پر رہا کیا گیا تھا۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی کو بھی اڈیالہ جیل سے رہائی کے فوری بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی کی نظربندی کے خلاف سماعت ہوئی۔
عدالت نے شہریار آفریدی کو 15 روز کی نظر بندی کے بعد رہا کیا تاہم انہیں رہا ہوتے ہی راولپنڈی پولیس نے دوبارہ گرفتار کیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ شہریار آفریدی کو تھری ایم پی او کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
عدالت نے جناح ہاوس مقدمہ میں زیرحراست دو خواتین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
کورکمانڈر ہاؤس پر حملہ اورجلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں زیر حراست دو خواتین کو انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں پیش کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی دونوں کارکنان عائشہ مسعود اور ماحہ مسعود ماں بیٹی ہیں، جنہیں چہرے ڈھانپ کرعدالت پیش کیا گیا۔
کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کی جج عبہر گل خان نے کی۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ خواتین تھانہ سرور روڈ میں درج جناح ہاؤس حملہ کیس میں گرفتارہوئی ہیں، دونوں خواتین کی شناخت پریڈ کے لئے ریمانڈ درکار ہے۔
عدالت نے دونوں خواتین کو شناخت پریڈ کیلئے7 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔
سندھ ہائیکورٹ نے سندھ حکومت، محکمہ داخلہ اور آئی جی سندھ سے ایم پی او کے تحت گرفتار پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کی تفصیلات کرلیں۔
پی ٹی آئی نے ایم پی او کے تحت گرفتار 120 کارکنان کی رہائی کے لیے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔
دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد پولیس نے کارکنان کو شہر کے مختلف علاقوں سے حراست میں لیا، جلاوگھیراوسےکوئی تعلق نہیں، حراست میں لینے کے بعد جیکب آباد، سکھر، میرپور خاص اور دیگر جیلوں میں منتقل کردیا ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ حکومت کے نظر بندی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔
عدالت نے سندھ حکومت، محکمہ داخلہ، آئی جی سندھ اور دیگر سے رپورٹ طلب کرلی۔
سندھ ہائیکورٹ نے یکم جون کو ایم پی او کے تحت نظر بند شہریوں سے متعلق تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے پہلے سے زیر سماعت درخواست کو بھی یکجا کردیا ۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کے بینچ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے نیا بینچ تشکیل دینے کی استدعا کردی۔
حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
مزید پڑھیں: مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات: انکوائری کمیشن نے مزید کارروائی روک دی
حکومت نے متفرق درخواست آڈیو لیک کمیشن کے خلاف درخواستوں کے کیس میں جمع کرائی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر آڈیو لیک کا مقدمہ نہ سنیں، تینوں معزز ججز 5 رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیں، 26 مئی کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پر اٹھے اعتراض کو پذیرائی نہیں دی گئی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا
درخواست میں کہا گیا کہ انکوائری کمیشن کے سامنے ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوش دامن سے متعلقہ ہے، عدالتی فیصلوں اور ججز کوڈ آف کنڈیکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ کا مقدمہ نہیں سن سکتا، ماضی میں ارسلان افتخار کیس میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اعتراض پر خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا، مبینہ آڈیو لیک جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر سے بھی متعلقہ ہیں۔
مزید پڑھیں: صدر سپریم کورٹ بار نے آڈیو لیکس کمیشن کا طلبی نوٹس چیلنج کردیا
درخواست میں استدعا کی گئی کہ وفاقی حکومت کی آڈیو لیک کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔
سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمشین کیس بدھ کو سماعت کے لیے مقرر ہے۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے آڈیو لیک کمیشن کیخلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دیدیا
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کیس سماعت کرے گا۔
سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم خصوصی کمیٹی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی اور اس کے نوٹس کے خلاف نجم الثاقب نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔
درخواست میں وفاق کو بذریعہ سیکرٹری پارلیمانی امور، اسپیکر قومی اسمبلی، خصوصی کمیٹی اور سیکریٹری کمیٹی کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے 2 مئی کو اسپیکر قومی اسمبلی نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے ارکان پارلیمنٹ کی ڈیمانڈ کے بغیر خود سے ایک کمیٹی قائم کی، مبینہ آڈیو لیکس پٹیشنر کی پرائیویسی میں مداخلت اور غیرقانونی سرویلنس کا نتیجہ ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ اسپیکر کی تشکیل کردہ کمیٹی غیرقانونی ہے، انہیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں تھا، کمیٹی کے اجلاس کے بغیر سیکرٹری کمیٹی کی جانب سے ذاتی حیثیت میں طلبی کا نوٹس جاری کر دیا گیا، قانون کے مطابق آڈیو لیک کو کسی ٹرائل یا تفتیش میں صرف اس ٖصورت شامل کیا جا سکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ آڈیو کس نے ریکارڈ کی اور کس مقصد کے لیے ریکارڈ کی گئی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت اسپیکر کی تشکیل کردہ کمیٹی کو غیر قانونی قرار دے کر کارروائی کو معطل کرے اور درخواست پر فیصلہ ہونے تک پٹیشنر کے خلاف تادیبی کارروائی نہ کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی حمایت کرنے والے معروف صحافی سمیع ابراہیم 6 روز گھر واپس پہنچ گئے۔
صحافی صدیق جان نے بھی ٹوئٹر پر ابراہیم کی واپسی کا اعلان کیا اور امید ظاہر کی کہ عمران ریاض خان بھی جلد واپس آئیں گے۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ سمیع ابراہیم کو 24 مئی کو اسلام آباد میں نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے کچھ علم نہیں ہوا کہ انہیں کہاں رکھا گیا تھا۔
اینکر پرسن سمیع ابراہیم ”بول نیوز“ کے ہیں، ان کے چینل کے مطابق سمیع ابراہیم کو دفتر سے گھرجاتے ہوئے سیونتھ ایونیو سے گرفتار کیا گیا تھا۔
سمیعابراہیم کے کے بھائی علی رضا نے وفاقی دارالحکومت کے آبپارہ تھانے میں اغواء کی شکایت درج کرائی تھی۔
گھرواپس آنے والے سمیع ابراہیم نے ٹویٹ میں اللہ کا شکر ادا کیا۔
تحریک انصاف کے سابق رہنما جمشید چیمہ اور ان کی اہلیہ 9 مئی کو توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کیس میں شامل تفتیش ہوگئے۔
حال ہی میں تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والے سابق رہنما مسرت جمشید چیمہ اور ان کے شوہر جمشید چیمہ 9 مئی کے واقعات کے کیس میں شامل تفتیش ہوگئے ہیں۔
پولیس کے مطابق مسرت جمیشد چیمہ اور جمشید چیمہ اپنے وکلاء کے ہمراہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہوئے، اور دونوں میاں بیوی نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے۔
حکام نے بتایا کہ دونوں ملزمان کیخلاف 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے الزام میں پانچ مقدمات درج ہیں۔
سابق صدر آصف زرداری آج اسلام آباد سے لاہور آئیں گے، جہاں وہ اہم ملاقاتیں کریں گے۔
ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری آج اسلام آباد سے لاہور آئیں گے۔
آصف زرداری بحریہ ٹاؤن بلاول ہاؤس میں قیام کریں گےاور قیام کے دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔
آصف زرداری کی وزیراعظم شہباز شریف اور چوہدری شجاعت حسین سے بھی ملاقات متوقع ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ حملے کرنے والے ڈائیلاگ کے اہل نہیں، جمہوری روایت کاتقاضا ہے ان عناصر کے خلاف بھرپور کاروائی ہونی چاہیے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معیشت اور جس طرح کے حالات اس کو چلانے کیلئے چاہیے ہوتے ہیں کے بارے میں عمران نیازی کی سمجھ بوجھ کافی محدود ہے اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لانے میں اپنے کلیدی کردار کو بھی وہ بڑی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ڈیل کو توڑ کر پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی عمران خان کی خواہش ڈھکی چھپی نہیں، ان کی نہ رکنے والی مزاحمت کی سیاست، لانگ مارچ اور دھرنوں سے ملک میں سیاسی بحران پیدا کرکے ملکی معیشت پر منفی اثرات ان کوششوں کے علاوہ ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران نیازی کی جانب سے دانستہ طور پر پیدا کی جانے والی بے یقینی کی صورتحال کی وجہ سے پاکستانی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ لگانے سے گریز کررہے ہیں، صرف 9 مئی کے واقعات ہی نے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے اور یہ ان کے ناپاک عزائم کا کھلم کھلا ثبوت ہیں اور ابھی ان کے بے تحاشہ کرپشن کے کیسز کی لمبی داستان بھی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیں ابھی بھی معاشی مشکلات کا سامنا ہے، لیکن ہم الحمداللہ بحرانی کیفیت سے نکل چکے ہیں، ان معاشی مشکلات پر قابو پانے کیلئے سنجیدگی سے حکومت ٹھوس معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی سطح پر مداخلت سے اقدامات کئے جا رہے ہیں، ہم دوست اور شراکت دار ممالک سے مل کر جہاں جہاں ضرورت ہے وہاں مالی خلاء کو پورا کر رہے ہیں۔
شہبازشریف کا کہنا تھا کہ درآمدات کو کم کرنا اور افراط زر میں کمی اصل چیلنجز ہیں، جن سے اسی وقت ہی صحیح معنوں میں مقابلہ کیا جا سکتا ہے جب ہم برآمدات، سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافے کو معیشت ٹھیک کرنے کے بنیادی عناصر بنائیں گے اور ہماری تمام تر کوششیں و توانائیاں اس ہدف کے حصول میں کاربند ہیں۔
اس سے قبل وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ سیاسی عمل میں ڈائیلاگ انتہائی اہم ہوتے ہیں، ڈائیلاگ کے ذریعے ہی جمہوریت کو مزید پختہ کیاجا سکتا، ہمیشہ ڈائیلاگ اوراتفاق رائےسے ہی پیشرفت ہوتی رہی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک بڑا اورواضح فرق ہے، آج سیاست کا لبادہ اوڑھ کر ریاستی تنصیابت پر حملے کئے جارہے ہیں۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ حساس تنصیبات پر حملے کرنے والے ڈائیلاگ کے اہل نہیں، جمہوری روایت کاتقاضا ہے ان عناصرکیخلاف بھرپورکاروائی ہونی چاہیے۔
نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء فواد چوہدری نے نیب کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دے دیا جبکہ نیب کی کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم نے انہیں شامل تفتیش کرلیا۔
فواد چوہدری نیب راولپنڈی آفس پہنچے، وہ آفس کے عقبی دروازے سے داخل ہوئے۔
ذرائع کے مطابق فواد چوہدری نے 13 دسمبر 2019 کی میٹنگ کے فیصلے سے متعلق نیب کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیے۔
جس کے بعد کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم نے فواد چوہدری کو شامل تفتیش کرلیا، تقریبا ایک گھنٹے تک ان سے تفتیش کی گئی۔
تفتیش کے بعد سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نیب آفس سے روانہ ہو گئے۔
میڈیا نمائندگان نے فواد چوہدری کی گاڑی کو روکنے اور گفتگو کرنے کی کوشش کی لیکن وہ میڈیا سے چھپ کر واپس روانہ ہوئے۔
دوسری جانب نیب راولپنڈی نے القادر ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کرنے والے وکیل کا بیان ریکارڈ کرلیا۔
نیب کی جانب سے سوال کیا گیا کہ آپ نے کس حیثیت میں ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کیے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے زمین منتقل کرانے کی اتھارٹی دی۔
نیب نے کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا فراہم کردہ اتھارٹی لیٹر فراہم کیا جائے۔
نیب نے پھر سوال کیا کہ القادر ٹرسٹ کو نجی سوسائٹی سے کتنےعطیات ملے؟ جس پر وکیل طالب حسین نے کہا کہ مجھے اس حوالے سے کوئی علم نہیں، میں نے 458 کنال زمین کی منتقلی کی ٹرسٹ ڈیڈپردستخط کیے۔
اس سے قبل نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں نیب کی جانب سے طلب کیے جانے کے معاملے پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے قومی احتساب بیورو (نیب) میں جواب جمع کرادیا۔
سابق وزیرداخلہ شیخ رشید طلبی پر نیب راولپنڈی میں پیش نہیں ہوئے، ان کی جگہ وکیل سردار شہباز خان نیب میں پیش ہوئے اور سابق وزیر کی جانب سے جواب نیب میں جمع کرایا۔
شیخ رشید کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ وفاقی کابینہ اجلاس میں القادر ٹرسٹ کیس کا معاملہ آیا تو کابینہ میٹنگ میں موجود نہیں تھا، القادر ٹرسٹ معاملہ زیر بحث آنے سے قبل کابینہ اجلاس سے چلے گئے تھے۔
سابق وزیر داخلہ نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ اس وقت کے احتساب وزیر شہزاد اکبر سے بھی تعلقات ٹھیک نہیں تھے اور شہزاد اکبر سے ان دنوں میری کوئی بات چیت بھی نہیں تھی۔
شیخ رشید نے کیس سے متعلق کوئی دستاویزات نہ ہونے کا بھی بتایا۔
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کو آج طلب کیا تھا۔
نیب حکام نے شیخ رشید کو کیس سے متعلقہ دستاویزات بھی ہمراہ لانے کی ہدایت کی تھی۔
اس سے قبل القادر ٹرسٹ کیس میں نیب نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو گرفتار کیا تھا جبکہ ان سے اس حوالے سے تحقیقات بھی جاری ہیں۔
عدالت نے عمران خان کی گھر کے سرچ ورانٹ منسوخ کرانے کی درخواست مسترد کردی اور ریمارکس دیئے کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ سرچ وارنٹ منسوخ کئے جائیں۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے گھر کے سرچ ورانٹ منسوخ کرانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ اے ٹی سی کی ایڈمن جج عبہر گل خان نے سماعت کی۔
درخواست گزار عمران خان کی طرف سے میاں تبسم ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ عمران خان نے اپنی درخواست کمشنر لاہور اور ڈی سی لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا اور مؤقف اختیار کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالت سے 18 مئی کو پولیس نے بدنیتی کی بنیاد پر سرچ ورانٹ حاصل کیے، جس مقدمے میں سرچ ورانٹ حاصل کیے گئے اس میں درخواست گزار کا کوئی کردار نہیں۔
عدالت کے سامنے مؤقف پیش کیا گیا کہ درخواست گزار نے میڈیا کی موجودگی میں فریقین کو سرچ ورانٹ پر عمل کی اجازت دے دی ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ 18 مئی کو جاری سرچ وارنٹ کالعدم اور غیر قانونی قرار دے۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل میاں تبسم سے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست میں مخالف فریق پر الزامات لگائے ہیں، وہ بتائیں، کس قانون کے تحت سرچ وارنٹ کو کالعدم کیا جائے۔
عمران خان کے وکیل میاں تبسم نے عدالت کو بتایا کہ سرچ وارنٹ میں کسی مقدمہ کا ذکر نہیں ہے۔
کمشنر لاہور نے عدالت کو بتایا کہ زمان پارک کے باہر تجاوزات تھیں ہم اسی کیلئے وہاں گئے تھے، ہم نے گھر کے اندر کوئی سرچ آپریشن نہیں کیا۔
عدالت نے ایس ایس پی صہیب اشرف سے بھی استفسار کیا کہ آپ عمران خان کے گھر کیا کرنے گئے تھے۔ جس پر ایس ایس پی صہیب اشرف نے جواب دیا کہ ہم زمان پارک کے اطراف تجاوزات ہٹانے کیلئے گئے تھے۔
عدالت نے کمشنر اور ایس ایس پی کے بیانات کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔
دوران سماعت عدالت میں ڈی آئی جی آپریشن کی جانب سے رپورٹ جمع کرادی گئی، اور پولیس رپورٹ میں عمران خان کے گھر سرچ آپریشن کی اجازت طلب کی گئی۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سرچ وارنٹ پر عمل درآمد کرانا ہے۔ تفتیش افسر نے جواب دیا کہ جی سرچ وارنٹ پر عمل کرانا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ نے کس تاریخ کیلئے سرچ وارنٹ لئے تھے اور آج کیا تاریخ ہو گئی۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ 18 مئی کیلئے سرچ وارنٹ لئے گئے تھے، عدالت عمل درآمد کیلئے کچھ مہلت دے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اب آپ نیا سرچ وارنٹ لیں گے، پرانا والا قابل عمل نہیں ہو گا۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت سرچ وارنٹ کو منسوخ کرے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ سرچ وارنٹ منسوخ کئے جائیں۔ عدالت نے عمران خان کی سرچ وارنٹ منسوخی کی درخواست خارج کرتے ہوئے دوبارہ سرچ وارنٹ جاری کر دئیے، اور پولیس کو نئے سرچ وارنٹ جاری کر کے تلاشی کا عمل مکمل کرنے کی اجازت دے دی۔
عمران خان نے 27 مئی کو انسداد دہشت گردی عدالت میں گھر کے سرچ ورانٹ منسوخ کرانے کے لیے داخواست دائر کی تھی، جس میں کمشنر لاہور اور ڈی سی لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا۔
عمران خان نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالت سے 18 مئی کو پولیس نے بدنیتی کی بنیاد پر سرچ ورانٹ حاصل کیے، عدالت 18 مئی کو جاری سرچ ورانٹ کالعدم اور غیر قانونی قرار دے۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جلاؤ گھیراؤ کے 3 مقدمات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ضمانتی مچلکے منظور کرلیے۔
عمران خان جناح ہاؤس، عسکری ٹاور حملہ اور جلاؤ گھیراؤ کے 3 مقدمات میں ضمانتی مچلکے جمع کرانے انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں پیش ہوئے۔
عمران خان نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اعجاز احمد کے روبرو پیش ہوکر ضمانتی مچلکے جمع کرائے۔
عدالت نے عمران خان کے ضمانتی مچلکے منظور کرلیے۔
عدالت نے آج عمران خان کو ضامن کے ساتھ خود بھی پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے 9 مئی واقعات کے مقدمات میں عمران خان کی 2 جون تک عبوری ضمانت منظور کر رکھی ہے۔
عدالت نے عمران خان کو تینوں مقدمات میں ایک ایک لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
عمران خان مچلکے جمع کرانے کے بعد انسدا دہشت گردی عدالت سے روانہ ہوگئے۔
عمران خان کے خلاف لاہور کے مختلف تھانوں میں جناح ہاؤس حملہ، عسکری ٹاور حملہ اور جلاؤ گھیراؤ کے 3 مقدمات درج ہیں۔
عمران خان کی گاڑی کو انسداد دہشت گردی عدالت میں لانے کی اجازت دی گئی، ان کی درخواست پر ایڈمن جج عبہر گل نے اجازت دی، جس کے بعد جیمر والی گاڑی اور سیکیورٹی کی گاڑیاں زمان پارک پہنچی تھیں۔
دوسری جانب انسداد دہشت گردی عدالت کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان لاہور ہائیکورٹ پہنچے، جہاں انہوں نے طل شاہ قتل کیس میں ضمانتی مچلکے جمع کروائے۔
ضمانتی مچلکے جمع کروانے کے بعد عمران خان زمان پارک روانہ ہو گئے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیرصحت عبدالقادر پٹیل کو 10 ارب روپے کا ہرجانے کا نوٹس بھیج دیا ہے۔
وفاقی وزیرصحت عبدالقادر پٹیل نے 26 مئی کو پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کی میڈیکل رپورٹ میں شراب اور کوکین کے اجزا پائے گئے ہیں۔ بیان پر تحریک انصاف نے قادر پٹیل، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت وزارتِ صحت اور پمز اسپتال کے ڈاکٹرز کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔
میڈیکل رپورٹ پر وزیرِصحت کی پریس کانفرنس کے خلاف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے قادر پٹیل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کردیا گیا ہے، اور وفاقی وزیر کو 10 ارب ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرصحت کو نوٹس عمران خان کے وکیل ابو ذر سلمان نیازی کی جانب سے بھجوایا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عبدالقادر پٹیل 15 روز میں اپنے بیہودہ الزامات واپس لیں، اور عمران خان سےغیرمشروط معافی مانگیں، اگر انہوں ںے معافی نہ مانگی تو قانونی کارروائی آگے بڑھائیں گے۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سابق وفاقی وزیر اسد عمر کی تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے میں ضمانت کنفرم کردی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباسی نے عمران خان کی پیشی کے موقع پر تھانہ سی ٹی ڈی میں درج اسد عمر کے خلاف مقدمے کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں: اسدعمر کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ
پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر موجود نہ ہونے کے باوجود بھی ضمانت نہیں دی جاسکتی، ملزم پر بھڑکانے اور اشتعال دلانے کے الزامات ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اشتعال دلانے کا الزام ہے تو حراست میں لینا کیوں ضروری ہے؟۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ انویسٹ گیشن کے لیے اسد عمر پولیس کو درکار ہیں، جوڈیشل کمپلیکس اور ہائیکورٹ کے درمیان فاصلہ ایک کلومیٹر کا ہے، ملزم آسانی سے جائے وقوعہ سے ہائیکورٹ پہنچ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: ووٹ صرف عمران خان کا ہے، اسد عمر کا ضمانت منظور ہونے کے بعد بیان
عدالت نے ریمارکس دیے کہ میڈیا بھی بڑی تعداد میں اس روز جائے وقوعہ پر موجود تھا۔
اسد عمر کے وکیل نے کہا کہ کچھ گھروں میں بیٹھے لوگوں پر بھی ایف آئی آر درج کر دی گئیں، اسد عمر جوڈیشل کمپلیکس کے روڈ سے بھی اس روز نہیں گزرے۔
بعدازاں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسد عمر کی تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے میں ضمانت کنفرم کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز انسداد دہشت گردی عدالت نے اسد عمر کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
احتساب عدالت نے شاہد خاقان عباسی اور دیگر ملزمان کے خلاف ریفرنس نیب کو واپس بھیج دیا۔
کراچی کی احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف پی ایس او میں غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق ریفرنس کی سماعت ہوئی۔
رہنما مسلم لیگ ن شاہد خاقان عباسی سمیت دیگرملزمان احتساب عدالت پیش ہوئے۔
شیخ عمران الحق اور یعقوب ستار کی جانب سے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ شاہد خاقان عباسی اور دیگر ملزمان پر مقدمہ مئی 2020 میں قائم کیا گیا تھا، ملزمان کے خلاف 50 کروڑ سے کم کی کرپشن کا الزام ہے، نیب آرڈیننس میں ترمیم کے بعد اب اس عدالت کو سماعت کا اختیار نہیں ہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد ریفرنس واپس نیب کو بھیجنے کی درخواست پر فیصلہ سنادیا اورریفرنس واپس نیب بھیج کو دیا۔
ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی، سابق ایم ڈی پی ایس او شیخ عمران الحق ، ستار یعقوب، سابق وفاقی سیکریٹری ارشد مرزا شامل نامزد ہیں۔
فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر موجود ن لیگ کے کارکنان نے شاہد خاقان عباسی کو پھولوں کے ہار پہنائے۔
کیس کی سماعت سے قبل عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ 3 سال سے زیادہ ہو گئے، عوام کو بتایا جائے کہ کیس میں ہے کیا اور کیا ہو رہا ہے، عدالتی فیصلہ پڑھ لیا جاتا تو فرد جرم بھی عائد نہیں ہوتی، اس کیس سے ادارے اور ہمارا وقت ضائع ہو رہا ہے، ابھی تک کوئی گواہ اورثبوت نہیں پیش ہوسکے، نیب کو جعلی کیس بنانے پر معافی مانگنی چاہئے۔
لیگی رہنما نے کہا کہ عمران خان پہلے کہتے تھے کہ میں نے مجرموں کو گرفتار کروایا، آج کہتے ہیں میں نے کسی کو گرفتار نہیں کروایا۔
شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ نیب کے ہوتے ہوئے ملک نہیں چلے گا، ملک پر رحم کریں اور نیب کو ختم کریں، سیاسی لوگوں کے کیسز کے حقائق عوام کے سامنے رکھنے چاہیے، ہمیں آئین کو سمجھنے اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اس سے ملکی مسائل میں کمی آئے گی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام ملک کیلئے اہم ہے، آئی ایم ایف کی شرائط ماننا پڑیں گی، حکومت کا فرض ہے کہ عوام پر کم از کم بوجھ پڑے، مہنگائی حکومت کی ناکامی ہوتی ہے، موجودہ حکومت گزشتہ حکومت کاملبہ برداشت کررہی ہے، آج مل بیٹھ کر معاملات حل کرنےکی ضرورت ہے۔
اسلام آباد کے ریڈ زون میں ریڈیو پاکستان کے ملازمین کا تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج جاری ہے، ملازمین نے احتجاج کے لیے وزیراعظم ہاؤس جانے کی کوشش کی تاہم پولیس نے مظاہرین کو روک دیا۔
اسلام آباد کا ریڈ زون ایک بار پھر احتجاج کا مرکزبن گیا، ریڈیو پاکستان کے ملازمین نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کیا، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے، حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
مظاہرین نے وزیراعظم ہاؤس جانے کی کوشش تاہم پولیس نے انہیں جانے سے روک دیا جبکہ پولیس اہلکاروں اور مظاہرین میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ 3 ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں، وزیراعظم نے 48 گھنٹوں کے اندر تنخواہیں دینے کا وعدہ کیا جو تاحال پورا نہیں ہوا۔
حکام کا کہنا ہے کہ دفعہ 144 نافذ کے باعث شاہراہ دستورپردھرنے یا احتجاج کی اجازت نہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ نئے قانون سے مائنس عمران اور پلس نواز فارمولا وجود میں آسکتا ہے، نواز شریف بھی آجائے تاکہ روز روز کی چِک چِک ختم ہو۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ رات نیب کا نوٹس موصول ہوا ہے جس کا آج تحریری جواب دے رہا ہوں جبکہ میں یہ بتاچکا ہوں، القادر ٹرسٹ ایجنڈے کے وقت میں موجود نہیں تھا کیونکہ شہزاد اکبر سے میری کبھی بھی بات چیت نہیں رہی۔
انہوں نے کہا کہ کل ایک قانون نافذ العمل ہوا ہے جس سے مائنس عمران خان اور پلس نوازشریف فارمولا وجود میں آسکتا ہے۔
اپنے ٹویٹ میں شیخ رشید نے مزید کہا کہ نواز شریف بھی آجائے تاکہ روز روز کی چِک چِک ختم ہو، نواز شریف کی گاڑی چھوٹ چکی ہے، جب ڈالر 312 روپے کا ہوگا اور 18 لاکھ آٹے کے تھیلے رمضان میں غائب ہوں گے تو لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، 7 کروڑ نوجوانوں کی جیب میں موبائل فون ہیں، جو اپنا فیصلہ خود کرنے کا شعور رکھتے ہیں جنہیں بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ میرے سمیت ساری قوم 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتی ہے لیکن 13 پارٹیوں کا ٹولا اسے اپنا سیاسی بیانہ نہ بنائے، ایک ماہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے اور ہمارے گندے کپڑے میڈیا پر دھوئے جارہے ہیں، سپریم کورٹ کہتی ہے کہ چند لوگوں کے لیے قانون سازی نہیں ہوسکتی، دیکھیں یکم جون کو سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی سے متعلق شوکاز نوٹس پر سماعت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل کو آخری موقع دے دیا اور کیس کی مزید سماعت 6 جون تک ملتوی کردی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی سے متعلق شوکاز نوٹس پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: ممنوعہ فنڈ ضبطگی کیس: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کردی
پی ٹی آئی کی جانب سے معاون وکیل نوید انجم الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے اور سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کردی۔
چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا گزشتہ سماعت پر بھی انور منصور کی مرضی کی تاریخ دی گئی، ہم آپ کی مرضی کی تاریخ دیتے ہیں۔
معاون وکیل نے بتایا کہ انور منصور سندھ ہائیکورٹ میں ہیں، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن میں پیشی کا تو پھر کسی کو وقت نہیں ملے گا، 22 اگست کو کیس شروع ہوا، جو ابھی تک چل رہا ہے، 10 ماہ بعد بھی کیس کی سماعت شروع نہیں سکی، اس طرح کام نہیں چلے گا، اس عمل کو کہیں روکنا ہو گا۔
الیکشن کمیشن نے دلائل دینے کے لیے پی ٹی آئی کے وکیل کو آخری موقع دے دیا۔
مزید پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے اعتراضات مسترد کردیے
چیف الیکشن کمشنر نے ہدایت کی کہ خود پیش نہیں ہو سکیں تو کم از کم جواب تو جمع کرائیں۔
پی ٹی آئی کے معاون وکیل نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکان کو گرفتار کیا گیا، تحریکِ انصاف کے تمام عہدے دار روپوش ہیں، چھاپوں کے خوف سے پی ٹی آئی کے دفاتر بند ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اس طرح تو پھر آئندہ جنرل الیکشن کے بعد تک سماعت ملتوی کر دیتے ہیں، الیکشن کمیشن مرکزی کیس میں فیصلہ سنا چکا ہے، آئندہ سماعت پر دلائل نہ دیے تو موجودہ ریکارڈ کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیں گے۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی سے متعلق شوکاز نوٹس پر سماعت 6 جون تک ملتوی کر دی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کا عمران خان سے راہیں جدا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والی سندھ کی 2 اہم شخصیات نے جہانگیر ترین سے رابطہ کرلیا۔
9 مئی کو حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے اور لوٹ مار کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے درجنوں رہنما دلبرداشتہ ہوکر پارٹی سے راہیں جدا کررہے ہیں، ان رہنماؤں میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کی بنیادیں رکھی تھیں، ان رہنماؤں میں سابق گورنر عمران اسماعیل اور علی زیدی بھی شامل ہیں۔
ذرائع کا کہناہے کہ سندھ سے تحریک انصاف چھوڑنے والی 2 اہم شخصیات نے سینئر سیاستدان جہانگیرترین سے رابطہ کیا ہے اور سیاسی حوالے سے معاملات طے کرلئے ہیں، جب کہ خیبرپختونخوا سے بھی اہم شخصیات جہانگیر ترین سےرابطے میں ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کی ملک بھر سے مختلف رہنماؤں سے مشاورت جاری ہے، وہ آج بھی کئی اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے، اور ان کی جانب سے رواں ہفتے نئی پارٹی کا اعلان متوقع ہے۔
ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خانیوال سے تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے عمران پرویز دھول نے سابق سٹی صدر خانیوال مبارک علی اور لودھراں سے جنرل سیکرٹری شہزاد انور کے ہمراہ 9 مئی کے واقعات کے مذمت کرتے ہوئے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا۔
سابق ایم پی اے عمران پرویز دھول کا کہنا تھا کہ میں 2013 میں پی ٹی آئی میں شامل ہوا تھا، پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے میں نے بہت محنت کی، لیکن 9 مئی کے دلخراش واقعات نے تڑپا کر رکھ دیا، ادارے ملک کی سلامتی کا باعث ہوتے ہیں۔
صدر پی ٹی آئی چکوال پیر وقار حسین، نائب صدر سردارعامرعباس اور صدر پی ٹی آئی چوآ سیدن شاہ راجہ ذوالفقار اسلم نے بھی تحریک انصاف کو خیرآباد کہہ دیا۔
پیر وقارحسین نے کہا کہ نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا تاہم آزاد حیثیت سے اپنی سیاست جاری رکھوں گا۔
پی ٹی آئی ضلع مانسہرہ کے رہنما سید احمد حسین شاہ نے بھی تحریک انصاف سے راہیں جدا کرلیں۔ انھوں نے مانسہرہ پریس کلب میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پاکستان ائیرفورس اور پاکستان نیوی میں اٹھارہ سال بطور لیفٹینیٹ کمانڈر ملازمت کی، پاک فوج کے افسران اور جوان ہر وقت ملک کی حفاظت کے لئے تیار رہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ نومئی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں نو مئی کو لاہور کور کمانڈر کے گھر پر جو حملہ ہوا، کور کمانڈر پشاور کے گھر کا گھیراؤ اور جی ایچ کیو پر جو حملہ ہوا اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
سید احمد حسین شاہ کا کہنا تھا کہ فورسز پر حملے پاکستان پر حملے ہیں، اس لئے میں پی ٹی آئی کو الوداع کہتا ہوں، آئندہ کا لائے عمل مشاورت سے کیا جائے گا۔
سابق صوبائی وزیر پی ٹی آئی راجہ یاسر ہمایوں نے ویڈیو بیان میں سیاست چھوڑںے کا اعلان کیا۔ انھون نے کہا کہ پی ٹی آئی میں شمولیت عمران خان کی وجہ سے کی، اگر مائنس ون فارمولہ ہوجاتا ہے، اگر کپتان ہی نہیں تو میرا پارٹی میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمارا خاندان مسلم لیگ ن مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر سیاست کرتا رہے گا۔
حال ہی میں تحریک انصاف کو چھوڑنے والے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کے کزن اور جہلم سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر فوق شیر باز نے پارٹی سے راہیں جدا کرلی ہیں۔
فوق شیرباز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے 9مئی کے پرتشدد واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ پارٹی ٹکٹ واپس کررہا ہوں، جب کہ مستقبل کا فیصلہ ساتھیوں کی مشاورت سے کروں گا۔
پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے اپنے ٹوئٹ میں گجرات سے سابق ایم پی اے سلیم سرور کی گرفتاری کی ویڈیو جاری کردی۔ انھوں نے ٹوئٹ میں لکھا کہ گجرات سے ایم پی اے سلیم سرور جو دل کے عارضہ میں مبتلا ہیں پولیس انھیں گرفتار کررہی ہے، سلام ہے ان کے جذبہ کو جو کہہ رہے پریس کانفرنس نہیں کروں گا۔
بیس دن سے روپوش پی ٹی آئی رہنما اور سابق صوبائی وزیر کامران بنگش نے ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کی طرح نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔ املاک کو نقصان پہنچانے والوں کےخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ شرپسند عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ پاک فوج کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
فیصل آباد میں خفیہ ایجنسی کے دفتر پر حملے کے مقدمے میں 7 خواتین کی بعد از گرفتاری ضمانتوں کے معاملے پر پراسیکیوشن ونگ پنجاب نے خواتین ملزموں کی ضمانت منسوخی کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔
مزید پڑھیں: لبرٹی سے گرفتار پی ٹی آئی کی 17 خواتین کی نظربندی کا فیصلہ معطل
پراسیکیوشن ونگ پنجاب کی جانب سے درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ خفیہ ایجنسی کے دفتر پر حملے میں 7 خواتین ملزموں کے خلاف تھانہ سول لائنز فیصل آباد میں مقدمہ درج ہے، انسداد دہشت گردی عدالت نے مقدمے میں نامزد نہ ہونے کی بناء پر ضمانتیں منظور کیں، ملزم خواتین سے پیٹرول سے بھری بوتلیں برآمد ہوئیں۔
مزید پڑھیں: 9 مئی کو جناح ہاؤس کے اندر اور باہر موجود 300 سے زائد خواتین کی فہرست تیار
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ خواتین خفیہ ایجنسی کے دفتر پر حملے میں ملوث ہیں ان کی ضمانت منسوخ کی جائے۔