Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے جلاؤ گیراؤ اور مختلف مقامات پر فائرنگ کا الزام ایجنسیوں پر لگادیا۔
ایک ٹویٹ میں عمران خان نے کہا کہ ہمارے پاس کسی بھی آزادانہ انکوائری میں پیش کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جلاؤ گھیراؤ اور بعض مقامات پر فائرنگ میں ایجنسیوں کے اہلکار ملوث تھے تاکہ افراتفری پھیلائی جائے جس کا الزام تحریک انصاف پر دھرا جائے اور اس کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کا جواز تراشا جا سکے۔
ویڈیو بیان میں عمران خان نے کہا کہ جیل سے باہر آکر تحقیقات کا وقت مل گیا، مجھے منظم سازش نظر آئی ہے جس کے تحت سرکاری املاک، کور کمانڈر ہاؤس جلایا گیا، مجھے معلوم ہوا کہ تخریب کاروں کو بندوقیں لیکر بیچ میں ڈالا گیا جنہوں نے لوگوں کو اشتعال دیا، میرے پاس اس کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ میں جلاؤ گیراؤ کی آزادنہ تحقیقات چاہتا ہوں، کبھی بھی جج دونوں پہلو بغیر سنے فیصلہ نہیں دیتا، اس وقت میڈیا پر یکطرفہ بیانیہ چل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح مجھے پکڑا گیا، میری گرفتاری سے جو ردعمل آنا تھا مافیا نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا نزلہ تحریک انصاف پر گرایا ہے، البتہ یہ سب کرنے والے لوگ کوئی اور تھے۔
عمران خان نے ٹویٹ میں اپنی بہنوں اور یاسمین راشد کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یاسمین راشد اور میری ہمشیرہ واضح طور پر مظاہرین کو جناح ہاؤس کو نقصان نہ پہنچانے کی تلقین کررہی ہیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بلا شک و شبہہ یہ ان لوگوں کی جانب سے ایک جال تھا جو اس لئے پھیلایا گیا تاکہ اس کی آڑ میں تحریک انصاف پر جاری کریک ڈاؤن میں شدّت لا سکیں اور مجھ سمیت ہمارے سینئر قائدین و کارکنان کو جیلوں میں بھر کر اپنے اس وعدے کو پورا کر سکیں جو انہوں نے لندن پلان کے تحت نواز شریف سے کر رکھا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ وزیرآباد کا جعلی حملہ بھی اسپانسرڈ تھا اور مارچ کو بھی جنرل (ر) باجوہ نے ہی اسپانسر کیا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ آرمی ایکٹ پر عملدرآمد ہوگا یا نہیں مجھے اس کی خبر نہیں لیکن جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کے خلاف ادارے کے قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔
عمران خان کی گرفتار کے خلاف احتجاج پر انہوں نے کہا کہ لاہور سمیت مختلف شہروں میں پرتشدد احتجاج ہوئے، وہ کانگریس اور بی جے پی کے لوگ نہیں تھے، یہ سب پی ٹی آئی کے لوگ ہیں، عمران کا بھانجا جس طرح کی زبان بول رہا تھا، میں نہیں دہرا سکتا۔
اشزافیہ کی خواتین سمیت لوگ معافی نامے لکھ کر دے رہے ہیں
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ لبرٹی چوک سے خواتین و مرد پکڑے گئے، کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کرنے والے افراد کی شناخت ہوگئی ہے، ان کے چہرے سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں، لوگ معافی نامے لکھ کر دے رہے ہیں، انگوٹھے لگارہے ہیں جن میں بڑے بڑے اشرافیہ کی خواتین بھی شامل ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ سوشل میڈیا پر دیکھا ہوگا پی ٹی آئی کارکن کور کمانڈر کی وردی پہن کر گوم رہے ہیں، وہاں پر جو کچھ ہوا اس سے قوم کا سر جھک جانا چاہئے۔
تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس سے متعلق ایک سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے اس کا آپشن موجود ہے، ماضی میں بھی ایسے اقدامات اٹھائے گئے لیکن اس کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے تھے، متشدد سیاسی جماعت کو کاؤنٹر کرنے کے لئے سیاسی، انتظامی، قانونی اور عدالتی طریقے بھی ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس کے عمران خان کے لئے ریمارکس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عدالت کا ایک حصہ عمران خان کی سہولت کاری کر رہا ہے، عدالتی نظام کی سب سے بڑی شخصیت نے بلوائیوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان ابھی بھی دھمکی دے رہے ہیں، توقع نہیں تھی یہ لوگ ہنگامہ آرائی کریں گے، البتہ عمران خان نے کئی بار آرمی چیف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
اُس وقت نومبرکی تھی اور اب سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی جنگ ہے
سابق آرمی چیف سے متعلق خواجہ آصف نے کہا کہ وزیرآباد کا جعلی حملہ بھی اسپانسرڈ تھا اور مارچ کو بھی جنرل (ر) باجوہ نے ہی اسپانسر کیا، اس دوران کہیں نہ کہیں توازن رکھا جارہا تھا، اس وقت نومبر کی جنگ تھی اور اب جنگ سپریم کورٹ کے نئےچیف جسٹس کی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ رخصتی کا وقت آئےتو کوشش ہو کہ پروقار طریقے سےہو تاکہ بعد میں آپ کی خبر پر لوگ جوتیاں نہ ماریں، تاریخ میں ایسا ہوچکا ہے، البتہ جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ساہیوال سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
سابق امریکی نمائندہ خصوصی پر وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد قوم فروش اور وطن فروش آدمی ہے، وہ امریکا سے بیٹھ کر پاکستان پر بات کرتے ہیں۔
سابق صوبائی وزیر اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فیاض الحسن چوہان کو گرفتار کرلیا۔
پولیس کی جانب سے فیاض الحسن چوہان کو پریس کلب جاتے ہوئے راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا ہے۔
دوسری جانب سربراہ عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) شیخ رشید اور راشد شفیق کی گرفتاری کے لئے پولیس کی بھاری نفری نے لال حویلی پر چھاپہ مارا تاہم دونوں عدم موجودگی کے باعث گرفتار نہ ہو سکے۔
لال حویلی کے ملازمین کا کہنا ہے کہ اہلکاروں نے لال حویلی کے کمروں کی تلاشی لی جب کہ پولیس شیخ رشید کے زیر استعمال کمرے میں بھی گئی۔
ایک ویڈیو بیان میں شیخ رشید نے کہا کہ مجھےاور شیخ راشد شفیق کو گرفتار کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے لال حویلی پہنچے، ہم امن کی سیاست کرتے ہیں مگر یہ لوگ حالات خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی نفرت کی سیاست نہیں کی، میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں اور اگرعمران کا ساتھ دینا جرم ہے تو یہ جرم میں کرتا رہوں گا۔
عدالت نے پولیس کو فواد چوہدری کو کل اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کرنے کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی نظر بندی کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، کیس کی سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی۔
فواد چوہدری فواد چوہدری کی اہلیہ حبہ چوہدری اوروکیل فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
فواد چوہدری کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ فواد چوہدری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے حفاظتی ضمانت دی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی گرفتاری سے روکا تھا۔
وکیل فیصل چوہدری نے مؤقف اختیار کیا کہ آئی جی اسلام آباد عدالت میں تھے اور عدالت نے کہا تھا ان فواد چوہدری کو گرفتار نہ کریں، 10 مئی کو فواد چوہدری کو گرفتار کیا گیا اور وہ پورا دن سپریم کورٹ میں موجود رہے، انہیں 3 ایم پی او کے تحت نظر بند کیا گیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست ابھی فکس نہیں ہے۔
عدالت نے اسلام آباد پولیس کو فواد چوہدری کو کل اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کرنے کا حکم دے دیا، اور فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کل تک جواب طلب کر لیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال اوردیگر ججز کے خلاف ریفرنس کے لیے خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی تحریک قومی اسمبلی نے منظورکرلی ہے۔
مجوزہ کمیٹی میں محسن شاہنواز، خورشید جونیجو، صلاح الدین ایوبی، شہناز بلوچ، صلاح الدین شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں ججز کیخلاف ریفرنس کے لیے خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی تحریک شازیہ ثوبیہ سومرو نے پیش کی۔
خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی تجویز اب سے کچھ دیر قبل وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی تھی۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اہلیہ بشری بی بی سمیت حفاظتی ضمانت کے لیے لاہورہائی کورٹ پہنچے تاہم عدالت نے عمران خان کی درخواست آج ہی سماعت کےلئے مقرر کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے القادر ٹرسٹ کیس میں حفاظتی ضمانت کیلئے خواجہ حارث اور انتظار حسین پنجوتہ کے توسط سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ درخواست میں چئیرمین نیب اور ڈی جی نیب کو فریق بنایا گیا۔
جسٹس شہباز رضوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بشری بی بی کی القادرٹرسٹ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کہاں ہیں۔ جس پر بشریٰ بی بی کے وکیل نے بتایا کہ معذرت خواہ ہوں کچھ دیر میں پیش ہوجائیں گے۔
جسٹس شہبازرضوی نے ریمارکس دیئے کہ عدالتوں کو انتظارکرانا مناسب نہیں، پذیرائی نہیں کی جاسکتی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہمراہ لاہور ہائیکورٹ پہنچے۔
اس دوران عدالت نے دوبارہ استفسار کیا کہ درخواست گزار کہاں ہیں۔ جس پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ بشریٰ بی بی راستے میں ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو انتظار کروانا کیا درست ہے، پہلے بھی آواز دی گئی اب دوبارہ بھی پیش نہیں ہوئے۔
ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ پہنچ چکے ہیں۔
بشریٰ بی بی نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ نیب نے کسی قانونی جواز کے بغیر طلبی کا نوٹس بھییجا، اپنا مؤقف واضع کرنے کےلئے ٹرائل عدالت ہیش ہونا چاہتی ہوں، لیکن نیب کی جانب سے گرفتاری کا خدشہ ہے۔ عدالت القادر ٹرست میں حفاظتی ضمانت منظور کرے۔
عدالت نے بشری بی بی کی 23 مئی تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی سے متعلق درخواست دائر کی گئی۔
عمران خان نے درخواست میں آئی جی پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فریق بناتے ہوئے 9 مئی اور اس کے بعد درج مقدمات میں گرفتار نہ کرنے کی استدعا کی۔
عمران خان نے درخواست میں مؤقف پیش کیا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے گرفتاری کا خدشہ ہے، پنجاب حکومت کی جانب سے متعدد مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے، پنجاب حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کرتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد مقدمات درج کیے گئے ہیں، عدالت پولیس کو گرفتار کرنے سے روکے، اور 9 مئی اور اسکے بعد درج مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی سے متعلق حکم دے۔
رجسٹرار ہائی کورٹ آفس نے عمران خان کی مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی کی درخواست پراعتراض عائد کرتے ہئوے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی تصدیق شدہ کاپی لف نہیں کی۔
عدالت نے عمران خان کی درخواست پر اعتراض ختم کردیا اور عدالت نے رجسٹرار آفس کو عمران خان کی درخواست کل مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو درخواست آج ہی سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ عمران خان کی درخواست پر سماعت کل جسٹس صفدر سلیم شاہد کریں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے گرفتاری کا خدشہ ہے، پنجاب حکومت کی جانب سے متعدد مقدمات میں نامزد کیا گیا، پنجاب حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، 9 مئی کے واقعات کے بعد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے جانبداری کا مظاہرہ کیا،، عمران خان کو گرفتار تو ہونا ہی ہے۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے دھرنے کی مدت کا نہیں بتایا، لیکن ہم نے مولانافضل الرحمان سے درخواست کی ہے کہ دھرنا جلد ختم کردیں، امید ہے آج کا احتجاج پرامن ہوگا۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں قانون کی پاسداری نہیں ہورہی، عام لوگوں سے قانون کی پاسداری کرانا مشکل ہو جاتا ہے، چیف جسٹس نے جانبداری کا مظاہرہ کیا، اعلیٰ عدلیہ ویلکم کہیں تو ماتحت عدالتیں بھی ریلیف دیں گی۔
راناثنا اللہ نے کہا کہ امن و امان کا مسئلہ صوبائی حکومتوں کا ہے، نگراں حکومتوں نے شرپسندوں کے خلاف ایکشن لیا، کوئی سوچ سکتا تھا کہ شہدا کی یادگار پر حملہ ہوگا، عمران خان کو گرفتار تو ہونا ہی ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کہا کہ ملک میں فیس بُک اور یوٹیوب سروس بحال ہونا شروع ہوگئی ہے۔
پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر بھی بحال ہونا شروع ہوگئی جبکہ ملک بھرمیں موبائل براڈ بینڈ سروس بحال ہے۔
اس سے قبل مُلک میں انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا سائٹس کھولنے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
پی ٹی اے کے مطابق ملک بھرمیں موبائل براڈ بینڈ سروس بحال ہے لیکن انٹرنیٹ سروسز پرپابندی کی کوئی ہدایت نہیں ملی ہے۔
ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ یوٹیوب، ٹوئٹر اور فیس بُک کی سروسزا بھی تک ڈاؤن ہیں جو پی ٹی آئی کارکنوں کے پُرتشدد مظاہروں کے بعد سروسزمعطل کی گئی تھیں۔
رہنما ن لیگ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ لگتا ہےکہ سب سے بڑامسئلہ ملزمان کو ریلیف دینے کا بن گیا ہے اعلی عدالتیں ملزمان کو ریلیف دینے میں لگی ہوئی ہیں۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیب کوختم کرکے عوام کی جان چھڑائیں عمران خان پر60 ارب روپے کی کرپشن کا کیس ہے عوام کا انصاف کے نظام سے اعتباراٹھتا جا رہا ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ دین اور آئین کی بنیاد انصاف پر ہےعدالت عظمیٰ اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے اقدامات کرے ن لیگ نے ریمانڈ بھی بھگتے،جیلیں بھی کاٹیں ہیں۔
مزید کہا کہ ایک جتھ آپ رکھ لیں آپ کو کوئی گرفتار نہیں کرسکتا ہے کورکمانڈرکے گھر پرحملہ ہوا، کوئی سوموٹو نہیں لیا گیا جج کا کام نہیں ہے کہ کسی کو خوش آمدید کہے میں کسی پرعدم اعتماد کا اظہار نہیں کررہا ہوں جو فیصلہ وہ کریں گے سر آنکھوں پر ہے۔
لیگی رہنما نے کہا کہ ملک آج جس حال میں اس میں عدلیہ کا بھی کردار ہے آپ نے ایک سینئرسیاستدان کوعمر بھر کیلئے نااہل قرار دیا لگتاہےکہ سب سے بڑامسئلہ ملزمان کو ریلیف دینے کا بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اعلی عدالتیں ملزمان کو ریلیف دینے میں لگی ہوئی ہیں عمران خان کا کیس بلکل واضح ہے سپریم کورٹ عمران خان کو تحفظ فراہم کررہی ہے عمران خان کو احاطہ عدالت سےگرفتارکرنا ٹھیک نہیں تھا۔
شاہد خاقان نے مزید کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملزم کو رہا کردیا جائے سپریم کورٹ کوآسان حل بتاتا ہوں، نیب کوختم کردیں عمران خان میں ہمت ہےتومقدمات کا سامنا کریں۔
پولیس نے شہر میں جلاؤ گھیراؤ کرنے والے ملزمان کی تصویریں جاری کردیں۔
کراچی پولیس نے شہر میں جلاؤ گھیراؤ کرنے والے ملزمان کی تصاویر جاری کردی ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ شرپسندوں نے9 مئی کو املاک کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔
انویسٹیگیشن پولیس شرقی نے سی سی ٹی وی اور ویڈیو کی مدد سے ملزمان کی تلاش تیزکر دی ہے، اور ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان کی شناخت کے لیے نادرا سے بھی مدد لی جائے گی۔
پولیس نے ملزمان کی تلاش کیلئے شہریوں سے مدد طلب کر لی ہے، اور کہا ہے کہ ملزمان کی اطلاع دینے والوں کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔
لوگوں کو جلاؤ گھیراؤ پر اکسانے والے پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش پر ایس ایچ او گرفتار ہوگیا۔
9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے احتجاج اور مظاہروں میں سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا، فوجی تنصیبات کے ساتھ ساتھ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو بھی جلا کر خاکستر کردیا گیا۔
پشاور میں ایک ایس ایچ او کو گرفتار کیا گیا ہے کہ جو کارکنان کو لوٹ مار، جلاؤ گھیراؤ کے لئے ورکرز کو اکسانے والے پی ٹی آئی رہنما کی پشت پناہی کرتا رہا اور اسے گرفتاری سے بچانے کی ہرممکن کوشش کی۔
پشاور کے تھانہ گلبرگ کے ایس ایچ او فواد علی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایس ایچ او گلبرگ تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے ملک واجد کے ساتھ رابطے میں ملوث پایا گیا۔
مقدمے کے متن میں ہے کہ ملک واجد کا کارکنان کو لوٹ مار گھیراؤ جلاؤ کے لئے ورکرز کو اکسانے میں اہم کردار تھا، اور ایس ایچ او فواد علی ورکرز کو اکسانے والے پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے کو گرفتاری سے بچانے کے لئے فونز بند کرنے کا کہتا رہا۔
مقدمے کے مطابق ایس ایچ او فواد علی سابق ایم پی اے ملک واجد کو دیگر معلومات دینے میں بھی ملوث پایا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق ایس ایچ او فواد علی کے خلاف سب انسپکٹر حسن علی کی مدعیت میں تھانا گلبرگ میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور ایس ایچ او تھانہ گلبرگ کو گرفتار کرکے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ میں ایم پی او کے تحت پی ٹی آئی رہنماؤں، کارکنان کی گرفتاری کے معاملے کو تحریک انصاف کے رہنما عبدالجلیل خان مروت ایڈوکیٹ نے چیلنج کردیا۔
درخواست میں کہا کہ حکومت نے 263 پی ٹی آئی کارکنان، رہنماؤں کو جیلوں میں بند کیا ہوا ہے 13مئی کو دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود پیپلزپارٹی نے جلسہ کیا۔
مزید کہا کہ ایم پی او کوغیرقانونی اورکالعدم قراردیا جائے جبکہ چیف سیکرٹری، سیکرٹری داخلہ، آئی جی سندھ درخواست میں فریق بنایا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست پر سماعت۔ عدالت نے فرخ حبیب کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
فرخ حبیب کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ 28 اپریل کو دبئی جانا چاہتا تھا، لاہور ائرپورٹ پر مجھے جہاز سے اتار دیا گیا، مجھے بتایا گیا کہ میرا نام نو فلائی لسٹ میں شامل ہے، ائرپورٹ پر مجھ سے میرا پاسپورٹ اور سامان بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے، میرا نام ای سی ایل میں سیاسی وابستگی کی وجہ سے شامل کیا گیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت پاسپورٹ اور سامان واپس کرنے کا حکم دے، عدالت وفاقی حکومت کو نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے۔ درخواست میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے فرخ حبیب کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے فرخ حبیب کانام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے درخواست پر فریقین کو دلائل کیلئے طلب کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 28 اپریل کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب کو بیرون ملک جانے سے روکتے ہوئے ان کا سامان بھی قبضے میں لے لیا تھا۔
ائرپورٹ ذرائع کے مطابق فرخ حبیب پی آئی اے کی پرواز پی کے 203 کے ذریعے دبئی جا رہے تھے، انہیں آج دوپہر دو بجکر دس منٹ پر دبئی روانہ ہونا تھا تاہم ایف آئی اے نے انہیں روک لیا، اور گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی۔
ائرپورٹ ذرائع نے بتایا کہ فرخ حبیب کا نام اسٹاپ لسٹ میں ہونے کی وجہ سے روکا گیا، انہیں گرفتار کیا جانا تھا تاہم وہ گرفتاری کی کوشش سے بچ کر ائرپورٹ سے واپس روانہ ہوگئے۔
ایف آئی اے نے فرخ حبیب کا پاسپورٹ، بورڈنگ کارڈ اور سامان اپنی تحویل میں لے لیا
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کو راہدری ریمانڈ کے بعد اے ٹی سی عدالت میں پیش کردیا گیا۔
گزشتہ روز ہی ڈاکٹر یاسمین راشد کو طبیعت خراب ہونے پراسپتال منتقل کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں سروسز اسپتال سے پولیس لائن اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
پولیس کی جانب سے یاسمین راشد کو سیشن کورٹ سے راہداری ریمانڈ لے کر اے ٹی سی عدالت میں پیش کردیا گیا۔
ڈاکٹریاسمین راشد کو تھانہ سرورروڑ پولیس نے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا اور عدالت کو بتایا کہ یاسمین راشد اوردیگرپر جناح ہاؤس کو نذر آتش کرنے کا الزام ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یاسمین راشد کی فٹنس رپورٹ بنوا کرلائیں گے تو آپ کو کسٹڈی ملے گی۔ عدالت نے فٹنس رپورٹ کیساتھ یاسمین راشد کو کل دوبارہ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
انسداد دہشت گرد عدالت پیشی کے موقع پر غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنے بندوں سے حملے کرائے، اور سارا ملبہ تحریک انصاف کے لوگوں پر ڈال دیا۔
یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ہم اپنے لوگوں کو املاک کو نقصان پہنچانے سے منع کر رہے تھے، ہماری پارٹی پر پابندی لگوانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد لاہور پولیس کو تین مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ان کے خلاف تھانہ سرور روڈ، گلبرگ اور تھانہ شادمان میں مقدمات درج ہیں، تینوں مقدمات میں دہشتگردی سمیت دیگر سنگین دفعات شامل ہیں۔
دو روز قبل پی ٹی آئی رہنما عندلیب عباس نے تصدیق کی تھی کہ سابق وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ سیکورٹی ایجنسیز سپریم کورٹ پر قبضہ جمانے والے غنڈوں کی سہولت کاری میں مصروف ہیں، پی ٹی آئی پر پابندی اور مجھے اور میری اہلیہ کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پی ٹی آئی کے جاں بحق کارکنوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا اعلان کردیا ہے، اور کہا ہے کہ آج بعد نماز مغرب جاں بحق کارکنوں کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں احتجاج ہوتا ہے لیکن کہیں گولیاں نہیں چلتیں، جنرل ڈائر نے نہتے افراد پرگولیاں چلائی تھیں۔
اپنی ٹویٹ میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری پر شدید ردعمل دیتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے تقریباً 7000 قائدین، کارکنان اور خواتین کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ یہ تحقیق تک نہیں کی گئی کہ سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کرنے میں کون ملوث تھا، یہ سراغ بھی نہ لگایا گیا کہ درجنوں غیرمسلّح مظاہرین کی گولیاں لگنے سے اموات کا ذمہ دار کون تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی اور واحد سیاسی جماعت پر پابندی عائد کر دی جائے، اس دوران سیکورٹی ایجنسیز سپریم کورٹ پر قبضہ جمانے اور دستورِ مملکت کو پیروں تلے روندنے میں غنڈوں کی سہولت کاری میں مصروف ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ تمام شہری پرامن احتجاج کیلئے تیار رہیں، اگر عدالتِ عظمٰی اور آئین کو تباہ و تاراج کردیا گیا تو تصوّرِ پاکستان ہی دم توڑ دے گا۔
اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ لندن پلان کھل کر سامنے آچکا، ان کا منصوبہ بشریٰ بیگم کو قید کر کے مجھے اذیت پہنچانا اور بغاوت کے کسی قانون کی آڑ میں مجھے آئندہ 10 سال کیلئے قید کردینا ہے۔**
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ پر عائد کی جانے والی پابندی کی طرح پاکستان کی سب سے بڑی اور وفاقی جماعت پی ٹی آئی پر بھی پابندی لگادی جائے گی.
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر اپنے تحفظات کا اظہار کرنے والے عمران خان نے الزام عائد کیا کہ، ’میں قید میں تھا تو تشدد کی آڑ میں انہوں نے خود ہی جج، جیوری اور فیصلے پر عملدرآمد کرنے والے کا کردار اپنا لیا۔اب ان کا منصوبہ یہ ہے کہ بشریٰ بیگم کو مقید کر کے مجھے اذیت پہنچائیں اور بغاوت کے کسی قانون کی آڑ لے کر مجھےآئندہ دس برس کے لیے قید کر دیں اور اس کے بعد تحریک انصاف کی بچی کھُچی قیادت اور کارکنان کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیں اور بلآخر پاکستان کی سب سے بڑی اور وفاقی جماعت پر پابندی لگا دیں (جیسے انھوں نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ پر لگائی‘۔
عمران خان کے مطابق عوام کی جانب سے ردّعمل نہ آنے کو یقینی بنانے کیلئے دو کام کیے گئے، “پہلا یہ کہ محض تحریک انصاف کے کارکنان ہی کو خوفزدہ نہیں کیا جارہا بلکہ عام شہریوں کے دلوں میں بھی خوف بٹھایاجارہا ہے اور دوسرا: میڈیا پر پوری طرح قابو پایا جا چکا ہے اور بزورِجبر اس کی آوازدبائی جا چکی ہے’۔
سابق وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ انٹرنیٹ سروسز اور سوشل میڈیا، جو پہلے ہی جزوی طور پر چل رہا ہے, کو پوری طرح بند کردیا جائے گا۔
انہوں نے لکھا کہ، ’سپریم کورٹ کے باہر فضل الرحمٰن والے تماشے کا واحد مقصد بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو مرعوب کرنا ہے تاکہ وہ آئینِ پاکستان کےمطابق کوئی فیصلہ صادر کرنے سے باز رہیں۔پاکستان پہلے ہی 1997 میں نون لیگی غنڈوں کو نہایت ڈھٹائی سے سپریم کورٹ پر عملاً حملہ آور ہوتے دیکھ چکا ہے جس کے نتیجے میں ایک نہایت محترم چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ہٹایا گیا۔‘
حقیقی آزادی کیلئے آخری دم تک لڑنے کا عزم ظاہر کرنے والے عمران خان نے عوام کیلئے پیغام میں کہا کہ اگر آج ہم خوف کے بت کے آگے سجدہ ریز ہوگئے تو ذلت اور شکست و ریخت ہماری آئندہ نسلوں کا مقدّر ٹھہرے گی۔’
عمران خان نے مزید لکھا کہ ،’وہ ملک جہاں ناانصافی اور جنگل کے قانون کا دَور دَورہ ہو وہ زیادہ دیر تک صفحۂ ہستی پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتے!۔‘
سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں انتخابات کے حکم سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت 23 مئی تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ میں پنجاب کے پی انتخابات کیس کی سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹسز جاری کریں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے، الیکشن کمیشن نہ سیاسی جماعت ہے نہ حکومت۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ درخواست قابل سماعت ہونے پر الیکشن کمیشن کا مؤقف سننا چاہتے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ آئین کا قتل ہوچکا ہے، نگران حکومتیں غیرآئینی ہیں، 14 مئی انتخابات کے حکم پر کوئی حکم امتناع جاری نہیں ہوا، عدالتی حکومت پر عملدرآمد کرایا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے جو حکم دیا ہے وہ حتمی ہے۔
سیکرٹری سپریم کورٹ بار عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں مؤقف دیا کہ بارسپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بعض نکات غور طلب ہیں ان پر فیصلہ کریں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں ہوتا، آئینی مقدمات میں دائرہ اختیار محدود نہیں ہوسکتا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مدنظر رکھیں گے کہ نظرثانی میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس کل اہم کیس کی سماعت ہے، کیوں نہ کیس اگلے ہفتے منگل تک ملتوی کردیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین پرعملدرآمد سب کا فرض ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے آئین کے ساتھ حالات کو بھی دیکھنا ہے، اتنا درجہ حرارت ہوگا تو انتخابی نتائج کون تسلیم کرے گا، اگر امن ہوگا تو معاملات چلیں گے، باہر جا کر دیکھیں ملکی اداروں اوراثاثوں کوجلایا جارہا ہے، انسٹالیشنز کو آگ لگائی جا رہی ہے، چار پانچ دنوں سے جو ہو رہا ہے اسے بھی دیکھیں گے، انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ ضروری ہے، ایگزیکٹو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلی معیار برقرار رکھیں، آئین پر عملدرآمد لازمی ہے، اس ماحول میں آئین پرعملدرآمد کیسے کرایا جائے، الیکشن کمیشن نے اچھے نکات اٹھائے۔
چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو چاہیے کہ مذاکرات کے عمل کو دوبارہ دیکھیں، ہمیں سیاست کا نہیں معلوم اور نہ جانا چاہتے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں جو دلائل دوں گا وہ سیاسی نہیں ہوں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہائی مورال گراؤنڈ پیدا کرنا ہوگا۔
وکیل علی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ گرفتاریاں جاری رہیں، تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔ عمران خان کوجس انداز سے گرفتار کیا گیا اس سے خوف پھیلا۔ چیف جسٹس نے جوابی ریمارکس دیئے کہ عمران خان کو ریلیف مل چکا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب اس وقت بال آپ کی کورٹ میں ہے، آپ مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟، ہم یہاں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں، عوام کے حقوق کا تحفظ ہوگا تولوگ خوش ہوں گے، میں نے کل دیکھا موٹروے خالی پڑے ہیں، معیشت کی حالت خراب ہورہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فریقین سمجھوتے کے نزدیک تھے مزید وقت ملنا چاہیے تھا، اپوزیشن کے تمام ارکان سنجیدہ ممبران تھے، اگر مزید وقت مل جاتا تو نتیجہ بہتر ہوتا، لیکن پچھلے ہفتے جوکچھ ہوا وہ نہیں ہوناچاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ریمارکس میں کہا کہ آپ مذاکرات دوبارہ شروع کریں، موجودہ صورتحال کومزید خراب نہ کریں، آپ کی سب سے بڑی دشمن آپ کی زبان ہوتی ہے، ہم سیاسی معاملات بارے کچھ نہیں کہیں گے، ہم نے دیکھنا ہے آئین کا تحفظ ہوا یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن میں انتخابات بنیادی معاملہ ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہی بنیادی چیز ہیں، بال اب حکومت اور اپوزیشن کے کورٹ میں ہے، اگلے ہفتے تک تیاری کرکے آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ امن و امان کو برقرار رکھنے میں حصہ ڈالیں، مشکل وقت میں صبر کرنا ہوتا ہے نہ کہ جھگڑا، لوگ آج دیواریں پھلانگ رہے تھے حکومت ناکام نظر آئی، باہر کے حالات دیکھ رہے ہیں، سماعت جلدی نہیں رکھنا چاہتے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 23 مئی تک ملتوی کردی۔ عدالت نے وفاقی حکومت ، پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلز پارٹی کے علاوہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز کو بھی نوٹس جاری کردیئے، جب کہ حکومت اورپی ٹی آئی کومذاکرات بحال کرنےکی تجویز دیتے ہوئے منگل تک اٹارنی جنرل سے بھی جواب طلب کرلیا۔
4 اپریل کو سپریم کورٹ نے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانےکا حکم دیا تھا، الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کی تاریخ واپس لینے کیلئے نظرثانی درخواست دائرکی گئی تھی۔
نظرثانی درخواست میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب الیکشن کی تاریخ واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس انتخابات کی تارہخ دینے کا اختیار نہیں، یہ حکم دے کرعدالت عظمیٰ نے اپنے اختیارات سے تجاوزکیا۔عدالت قانون کی تشریح تو کر سکتی ہے مگراُسے دوبارہ لکھ نہیں سکتی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید کہا گیا تھا کہ حکومت نے انہیں پنجاب میں الیکشن کیلئے سیکیورٹی اورمطلوبہ فنڈزفراہم نہیں کیے گئے، دو صوبوں (پنجاب اور خیبرپختونخوا) میں پہلے انتخابات کے انعقاد کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات شفاف نہیں ہوں گے۔
الیکشن کمیشن نے نظرثانی درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں حاجی سیف اللہ کیس میں آرٹیکل 254 کو پری میچوراستعمال کیا، قطع نظراس کے کہ اس حوالے سے 11 رکنی لارجر بینچ کا فیصلہ موجود ہے جس میں الیکشن مقررہ وقت سے 4 ماہ آگےبڑھانے کی اجازت دی گئی تھی۔
سربراہ پاکستان ڈیمکوریٹک موومنت (پی ڈی ایم) مولانا فضل الرحمان نے سپریم کورٹ کے باہر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
پی ڈی ایم کی جانب سے آج سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کا اعلان کیا گیا تھا جو صرف ایک روز کے لئے جاری رہا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن کی چیف آگنائزر مریم نواز سہہ پہر کے بعد کنٹینر پر پہنچے اور شام کے وقت خطاب کیا۔
جے یوآئی کے کارکنان کے بڑی تعداد احتجاج میں شریک ہوئی جب کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے قافلے بھی احتجاجی شرکا میں شامل ہیں۔
جمیعت علمائے اسلام نے سپریم کورٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے متعلق درخواست ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے دفتر میں جمع کرائی تھی، تاہم انہیں ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے باجود شرکا رکاوٹیں پھلانگ کر اور پولیس کو ہٹا کر سپریم کورٹ کے عین سامنے پہنچ گئے۔
سپریم کورٹ کے باہر پی ڈی ایم دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے چیف آرگنائزر ن لیگ مریم نواز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئین کو بنانے والے لوگ ہیں، ہم عدلیہ اور آئین کا احترام کرتے ہیں، آج آئین و قانون پر چلنے والے ججز کی نہیں بلکہ عمران خان کی سہولت کرنے والے عمرانداروں کی بات ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ فتنہ اور انتشار پھیلانے والوں کا انجام تک پہنچانا اس عمارت کی ذمہ داری تھی، کچھ سہولتکار انصاف کا خون کرنے میں مصروف ہیں، 60 ارب کے ملزم کو دیکھ کر کہتے ہیں ویلکم، ولیکم آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ اس ملک میں چار بار آمریت آئیں، کیا ایک بھی آمر کو اس عمارت نے گھر بیجھا ہو، انہوں نے ہمیشہ آمروں کی خاطر نظریہ وضرورت کو زندہ کیا، چاروں مارشل آئے تو ٹھپے ہی سے لگے ہیں۔
لیگی رہنما نے کہا کہ جب آج ہماری فوج مارشل لاء لگانے کے حق میں نہیں تو ملکی تاریخ کا پانچواں جوڈیشل مارشل لاء بھی یہی سے لگا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ اور تمام ججز کا احترام کرتے ہیں، ہم یہاں پراحتجاج کرنا نہیں چاہتے، البتہ پارلیمنٹ کی بات کرنا عوام کی بات کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کوتوشہ خانہ کیس میں ضمانت مل گئی، میں نے چار سال ظلم برداشت کیا، بشریٰ بی بی کو عدالت بلائے توکہتے ہیں گھریلو خاتون ہے، جب تم اقتدار میں تھے دوسروں کی بیٹیاں دھکے کھاتی تھیں، آ پ کے گھر کی عورتوں کی عزت ہے، دوسروں کی نہیں۔
اپنے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ چار تین کے فیصلے کو تین دو سے بدل دیا گیا، ہم اقلیتی فیصلہ کیوں مانیں، البتہ ثاقب نثار آج منہ دکھانے کے قابل نہیں، پی ٹی آئی کے تربیت یافتہ لوگوں نے ملک کونقصان پہنچایا۔
مریم نواز نے چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’عمر عطاء بندیال شرافت سے استعفیٰ دیکر گھر جائیں ورنہ قوم کٹہرے میں کھڑا کرنے والی ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس سے مراعات واپس کرنے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ اب صرف شرافت سے گھر نہیں جائیں بلکہ قوم کی مراعات جو اس نے اپنا پیٹ کاٹ کر آپ کو دی ہیں وہ بھی واپس کریں۔
دھرنے کے شرکاء سے خطاب میں سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مختصر ٹولہ پاکستان کے عوام کی توہین کر رہا ہے، لہٰذا فیصلہ سامنے والی بلڈنگ کے کچھ لوگ نہیں بلکہ عوام کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے جانب دار فیصلے قابل قبول نہیں، آج اسلام آباد میں عوام کی عدالت لگی ہے، کسی کوآئین توڑنے کی اجازت نہیں دیں گے، اب فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے۔
سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ سیاست کرنا صرف سیاست دانوں کا کام ہے، اسلام نے عدل انصاف کا حکم دیا ہے، ہم سپریم کورٹ کی حفاظت کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ جانب دار جج اپنی عزت کومجروح کررہےہیں، عدلیہ کے وقارکی بلندی چاہتے ہیں، تمھیں تحفظ کی جگہ نہیں ملے گی۔
اس سے قبل ترجمان جے یوآئی کا کہنا تھا کہ دھرنا ڈی چوک منتقل کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، دھرنا سپریم کورٹ کے سامنے ہی ہوگا۔
ترجمان نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ اور جے یو آئی کی مقامی قیادت کے درمیان رابطہ ہوا ہے، ضلعی انتظامیہ نے دھرنے کو ڈی چوک منتقل کرنے کی درخواست کی ہے تاہم جے یوآئی نے دھرنا ڈی چوک منتقل کرنے سے انکار کردیا ہے، اور کہا ہے کہ جب تک فضل الرحمان نہیں مانتے فیصلہ تبدیل نہیں ہوگا۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے دھرنے کی مدت کا نہیں بتایا، لیکن ہم نے مولانافضل الرحمان سےدرخواست کی ہے کہ دھرنا جلد ختم کردیں، امید ہے آج کا احتجاج پرامن ہوگا۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں قانون کی پاسداری نہیں ہورہی، عام لوگوں سے قانون کی پاسداری کرانا مشکل ہو جاتا ہے، چیف جسٹس نے جانبداری کا مظاہرہ کیا، اعلیٰ عدلیہ ویلکم کہیں تو ماتحت عدالتیں بھی ریلیف دیں گی۔
راناثنا اللہ نے کہا کہ امن و امان کا مسئلہ صوبائی حکومتوں کا ہے، نگراں حکومتوں نے شرپسندوں کے خلاف ایکشن لیا، کوئی سوچ سکتا تھا کہ شہدا کی یادگار پر حملہ ہوگا، عمران خان کو گرفتار تو ہونا ہی ہے۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے مولانا فضل الرحمان سے سپریم کورٹ کے باہر دھرنے سے متعلق متبادل مقام پر دوبارہ مشاورت کی تھی، جس میں پی ڈی ایم سربراہ نے یقین دلایا تھا کہ دھرنے میں کسی قسم کی شرانگیزی نہیں ہوگی۔
وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے بھی مولانا فضل الرحمان کو مقام تبدیل کرلینے کا پیغام بھجوایا جاچکا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اعلان کرچکے ہیں، فیصلہ اب عوام کی عدالت میں ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو دھرنے میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
پی ڈی ایم کے دھرنے میں ن لیگ کی نمائندگی پارٹی کی سینیئرنائب صدر مریم نواز کریں گی۔
دوسری جانب گزشتہ روز وزیرداخلہ رانا ثناللہ خان، وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ حکومتی اتحاد فیصلے کے مطابق کل سپریم کورٹ کے خلاف دھرنا دے گا۔ جگہ کا تعین پیر کی صبح تک ہو جائے گا۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ دھرنے کی جگہ کا تعین تمام پارٹی کے سربراہان کی موجودگی میں پی ڈی ایم اجلاس میں ہوا تھا۔ البتہ اب صبح (آج ) تک مکمل مشاورت کے بعد تعین کریں گے کہ دھرنا کہاں ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم اعلان کر چکے ہیں، فیصلہ اب عوام کی عدالت میں ہوگا، ملک بھر سے قافلے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوچکے ہیں، کارکنان پُرامن ہیں اور پُرامن احتجاج ہوگا۔
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ہمارے کارکنان ایک گملہ یا پودا بھی نہیں توڑیں گے، ہم پُرامن لوگ ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم ہاؤس، سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہاؤس، دفترخارجہ سمیت اہم بلڈنگز ریڈ زون میں ہیں۔ عموماً شاہرہ دستور کو حساس مقامات کے باعث ریڈ زون میں گنا جاتا ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے وقت ریڈ زون کو زیرو پوائنٹ تک توسیع دے دی گئی تھی۔
انتہائی حساس مقامات ہونے کے باعث ایف فائیو سیکٹر کو ریڈ زون قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کی حکومت گرنے کے بعد احتجاج کا سلسلہ بڑھا تو ریڈ زون میں بھی توسیع کر دی گئی تھی۔ ریڈ زون کی حدود جی سیون اور زیرو پوائنٹ تک بڑھائی گئی تھی۔
نقشے کے مطابق ریڈ زون میں جو اضافی سیکٹرشامل کیے گئے ہیں ان میں ایف 7، جی 6، جی 7، ای 7 شامل ہیں۔ بلیو ایریا، پمز اورزیروپوائنٹ بھی اب ریڈ زون کا حصہ ہیں۔
اس سے قبل ریڈ زون ایف 5 اور جی 5 تک تھا, جبکہ پرانے ریڈ زون میں پارلیمنٹ کی عمارت، ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس اور دیگر سرکاری عمارتیں تھیں۔
خیال رہے کہ ریڈ ژون میں دفعہ 144 نافذ ہے، قوانین کے تحت ریڈ زون میں داخلہ محدود ہوتا ہے اور اس علاقے میں مظاہروں کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ملاقات کے بعد اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پی ڈی ایم نے پیر کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ اس مظاہرے کے حوالے سے ایجنسی نے جو معلومات دیں وہ بڑی الارمنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج میں لوگ بڑی تعداد میں آئیں گے، چیف جسٹس کے رویہ کی وجہ سے لوگوں میں غصہ ہے، تین رکنی بینچ کے فیصلوں کے خلاف بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ موجودہ فیصلوں کے بعد سپریم کورٹ کی مورل اتھارٹی کمزور ہوگئی۔ لوگوں کے دلوں میں عزت کم ہوگئی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اندیشہ ہے احتجاج ریڈ زون یا شاہراہ دستور میں ہوا تو سنبھالنا مشکل ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے وزیراعظم سے بات چیت کی اور ان کی ہدایت پر مولانا فضل الرحمان کے پاس گئے اور ان سے عرض کی، مولانا نے کہا کہ آپ کو مشاورت کرکے آگاہ کروں گا۔ اب رات دس بجے دوبارہ ملاقات ہے۔
عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ آپ نے 7 ارب کی پراپرٹی حاصل کی، اس ٹرسٹ میں آپ اور آپ کی اہلیہ کے علاوہ کوئی تیسرا ٹرسٹی نہیں، رقم قومی خزانے میں آنی تھی لیکن جیبوں میں چلی گئی، بتایا جائے آپ نے 458 اور 240 کینال کی جگہ کس مقصد کے لیے حاصل کی؟
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کو ہونے والے احتجاج پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ لاہور واقعہ میں سیکیورٹی اہلکاروں کو ہٹا لیا گیا تھا، سوچا گیا کہ عوام ہیں احتجاج کرکے چلے جائیں گے لیکن یہ ادراک نہیں تھا کہ یہ دہشتگرد ہیں اور تربیت یافتہ ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان دوبارہ پکڑے جائیں گے تو ان کے ٹیسٹ ہوں گے۔
وزیرداخلہ کے مطابق ایم ایم عالم کا جہاز قوم کے لئے فخر کا باعث تھا، اس کو آگ لگانے کا کیا جواز بنتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہ واقعات عمران خان کی نفرت کی سیاست کا ایک ٹریلر ہیں ان کی ٹیلی فون کالز، آڈیوز، وڈیوز موجود ہیں، ان لوگوں کو باقاعدہ شناخت کیا جائے گا، ثبوت عدالت میں پیش کئے جائیں گے۔
پی ڈی ایم کی جانب سے سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کے اعلان کے بعد پارٹی کی ٹاسک فورس ’ انصار الاسلام’ سوشل میڈیا پرزیر بحث ہے یکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کیوں اور قائم کی گئی تھی؟
انصار الاسلام کا قیام اسی وقت عمل میں آیا تھا جب جمعیت علمائے اسلام معرض وجود میں آئی۔ پارٹی آئین میں ’انصارالاسلام‘ کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ ہے جس کی بنیادی ذمہ داری انتظام و انصرام قائم رکھنا ہے۔
اس ٹاسک فورس کا بنیادی ایجنڈا الیکشن اور ریلیوں کے دوران قیادت کی حفاظت کرنا ہے۔
جے یو آئی اس گروہ کو اپنی جماعت میں ایک ”ونگ“ کہنے کے بجائے تنظیم کہتی ہے کیونکہ تنظیم میں درجہ بندی ہوتی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے پارٹی آئین کی دفعہ نمبر 26 کے مطابق ہر باہمت مسلمان جوپابند صوم و صلوۃ، مستعد اور اورجے یو آئی کا رکن ہو وہ انصار الاسلام کا کارکن بن سکتا ہے۔
“ انصار الاسلام “ نامی تنظیم میں درجہ بندی کے اعتبار سے ایک مرکزی رہنما ہوتا، جس کے بعد صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر رہنما ہوتا ہے۔
اس تنطیم میں شمولیت کیلئے ایک خاص تربیت حاصل کرنے کے بعد ہی شامل ہوا جاسکتا ہے جبکہ اس تنطیم کا لباس خاکی رنگ کی شلوار قمیض ہے، جو صرف اس کے رضا کار پہنتے ہیں۔ قمیض پر دو جیبیں لگی ہوتی ہیں۔
تاہم (جے یو آئی) کی اس تنظیم میں ایک انٹیلی جنس وِنگ بھی قائم کیاہے ،جس کا نام حضرت حذیفہ بن یمان کے نام پر رکھا گیا ہے جو حضورﷺ کے اصحاب میں سے تھے۔
انٹیلی جنس وِنگ کے کارکن مشکوک افراد یا جلسے اور ریلیوں کے ارد گرد ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں جبکہ یہ پولیس پر بھی نگرانی رکھتے ہیں تاکہ وہ ان کی تنظیم کے کسی رہنما کو گرفتار نہ کر سکیں۔
اس کے ساتھ ہی ہنگامی صورتحال میں انٹیلی جنس وِنگ رہنماؤں کے لیے محفوظ طریقے سے باہر نکلنے کا منصوبہ بنانے کے ساتھ ان کے تحفظ کو بھی یقینی بناتا ہے۔
انصار الاسلام کے رضاکاروں کی کثیر تعداد پارکنگ لاٹ، داخلی راستوں اور اسٹیج کے آس پاس تعینات کی جاتی ہے۔
تنظیم کے رضاکار کسی بھی ریلی، جلسے یا احتجاج سے پہلے سیکیورٹی پلان مرتب کرنے کے لیے مقامی پولیس و انتظامیہ سے بھی ملتے ہیں۔
خیال رہے کہ ان کی تعیناتی کے لیئے تنظیم کی جانب سے خاکی وردی میں ملبوس اپنے رضاکاروں کو ان کے نام اور ڈیوٹی کی جگہ کے ساتھ ڈیوٹی کارڈ فراہم کیا جاتا ہے تاکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔
جمعیت علمائے اسلام کے پیروکاروں کو اعلیٰ قیادت سے ہاتھ ملانے کی اجازت ہے لیکن انصار الاسلام کے رضاکاروں کو ایسا نہ کرنے کی ہدایت ہے۔
واضح رہے کہ نومبر 2019 میں وفاقی حکومت کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی۔
ترجمان جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا عبدالجليل جان نےتنظیم کی قانونی حیثیت کے بارے میں آج ڈیجیٹل کو بتایا جمعیت علما اسلام الیکشن کمیشن میں ایک رجسٹرڈ پارٹی ہے اور ہم نے الیکشن کمیشن میں جو پارٹی دستور جمع کیا ہے، اس میں انصارالاسلام کا ذکر موجود ہے۔
“ انصار الاسلام “ میں درجہ بندی اور یونیفارم سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ درجہ بندی کے اعتبار سے مرکزی رہنما کے بعد صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر رہنما ہوتا ہے۔
جلیل جان نے بتایا کہ ابتدائی دور میں ملیشیا میں ملبوس رضاکار اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے ، پھر دستوری ترمیم کی وجہ سے وہی رضاکار سفید رنگ کی وردی میں کام کرتے تھے جبکہ موجودہ وردی کا رنگ خاکی یا مسٹرڈ ہے۔ انصارالاسلام تنظیم کے رضاکاروں کی مجموعی تعداد 40 ہزار تک ہے۔رضاکاروں کو کسی قسم کا اسلحہ یا چاقو رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔اس تنطیم میں شمولیت کیلئے ایک خاص تربیت حاصل کرنے کے بعد ہی شامل ہوا جاسکتا ہے۔
تنظیم میں شامل افراد بغیر کسی معاوضے کے پارٹی کے جلسے جلوسوں کو سیکیورٹی فراہم کرتے ہیں اور اپنے قائدین اور رہنماؤں کی سکیورٹی کو بھی یقینی بناتے ہیں۔
جلیل جان نے بتایا کہ سالاروں کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہوتا ہے جو کہ شرعی طور پر سنت کا عمل ہے۔پارٹی ترجمان کے مطابق جب بھی جماعت کا ایک ہزار سے زائد شرکا پر مبنی جلسہ یا کوئی تقریب منعقد کی جاتی ہے، تو اس کی سیکیورٹی پر مامور کیے جانے کے لیے دو سو تک رضاکار بلائے جاتے ہیں اگر بڑا اجتماع ہو تو پھر ہر ایک ضلعے سے سو سے دو سو تک رضاکاروں کو بلایا جاتا ہے اور انہیں اسٹیج، قائدین اور جلسے کے شرکا کی سیکیورٹی کے لیے لگ الگ گروپ کی صورت میں تعینات کیاجاتا ہے۔