Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
وزارت داخلہ نے حکام الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے کہ وہ اڈیالہ جیل جاکر عمران خان کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کریں۔ لیکن الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وزارت داخلہ کیسے ہمیں حکم دے سکتا ہے۔
19 اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے توہین الیکشن کمیشن کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے سپرنٹینڈنٹ جیل کو سابق وزیراعظم کی 24 اکتوبر کو پیشی یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی، تاہم سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر چیئرمین پی ٹی آئی آج بھی الیکشن کمیشن کے سامنے پیش نہ ہوسکے۔
الیکشن کمیشن میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، اسدعمر اور فواد چوہدری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت ہوئی، سماعت نثار درانی کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی۔
فواد چوہدری اور اسد عمرالیکشن کمیشن میں پیش ہوگئے لیکن چیئرمین پی ٹی آئی پیش نہ ہوسکے۔ جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ آج الیکشن کمیشن کی اصل توہین ہوئی ہے، الیکشن کمیشن نے عمران خان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے تھے کہ انہیں الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے، لیکن اس حکم پر تو کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: توہین الیکشن کمیشن کیس: الیکشن کمیشن نے عمران خان کے پروڈکشن آرڈر جاری کردیے
دوسری جانب اے آئی جی آپریشن پنجاب نے پی ٹی آئی چیئرمین سے متعلق رپورٹ جمع کرائی، اور بتایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔
ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین جو کہتے آپ کو یقین ہے کہ صحیح کررہے ہیں۔
اے آئی پنجاب آپریشن نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ وزارت داخلہ کی تجویز ہے کہ الیکشن کمیشن اڈیالہ جیل جاکےکیس کی سماعت کرے، پنڈی گنجان آبادی پر مشتمل ہے، اور خطرات سے خالی نہیں۔
الیکشن کمیشن بینچ نے کہا کہ آپ پی ٹی آئی چیئرمین سے لکھوا کے لے آئیں میں معذرت کرتا ہوں۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
الیکشن کمیشن نے توہین الیکشن کمیشن کیس میں سیکرٹری وزارت داخلہ کو طلب کرلیا، اور کہا کہ وزارت داخلہ اگر ایک شخص کو سیکیورٹی نہیں دے سکتا تو الیکشن کیسے کرائیں گے، اور وزارت داخلہ ہمیں کیسے حکم دے سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 13 نومبر تک ملتوی کردی۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ 9 مئی کے 3 مقدمات میں 44 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
سانحہ 9 مئی کے 3 مقدمات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، انسداد دہشت گردی عدالت کی جج عبہر گل خان نے سماعت کی۔
پراسیکیوشن نے کہا کہ ملزمان کو طلبی کے نوٹس بھیجے گئے، ملزمان جان بوجھ کر روپوش ہو چکے ہیں۔
عدالت نے 44 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
ریس کورس میں سی سی ٹی وی کیمرے توڑنے کے کیس میں 9 ملزمان کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔
مغل پورہ میں پولیس گاڑیاں توڑنے کے کیس میں 19 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔
پولیس نے صنم جاوید کو رہائی کے فوراً بعد دوبارہ گرفتار کرلیا
جناح ہاؤس کے باہر گاڑیاں جلانے کا معاملہ، صنم بلوچ سمیت 5 ملزمان کی ضمانتیں منظور
9 مئی واقعات میں نامزد پی ٹی آئی کے سابق وزراء اور ارکان اسمبلی کی ضمانت کنفرم
اس کے علاوہ گلبرگ میں پولیس گاڑی جلانے کے کیس میں 16 ملزمان کے نا قابل ضمانت وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔
اڈیالہ جیل کے باہر چیئرمین پی ٹی آئی کی سائیکل ایک بار پھر پہنچا دی گئی، تاہم جیل انتظامیہ کی جانب سے انکار پر معاملہ ایک بار پھر لٹک گیا، گزشتہ بار بھی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے جج کے تحریری احکامات تک سائیکل اندر پہچانے سے انکار کر دیا تھا۔
اڈیالہ جیل کے باہر چیئرمین پی ٹی آئی کی سائیکل آج ایک بار پھر پہنچا دی گئی، تاہم عمران خان کو ایکسر سائز سائیکل فراہمی کا معاملہ پھر لٹک گیا، اور جیل انتظامیہ نے سابق وزیراعظم کے لئے لائی گئی سائیکل روک لی۔
جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ سائیکل فراہمی کیلیے عدالتی حکمنامہ موصول نہیں ہوا، عدالتی احکامات پر سائیکل جیل میں لے جانے کی اجازت دیں گے۔
جیل انتظامیہ کے انکار کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین کے وکلاسائیکل واپس لے کر روانہ ہو گئے، 19 اکتوبر کو بھی سپرنٹڈنٹ اڈیالہ جیل نے جج کے تحریری احکامات تک سائیکل اندر پہچانے سے انکار کر دیا تھا۔
19 اکتوبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل وکیل شیرازاحمد نے سابق وزیراعظم کو سائیکل مہیا کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔ اور استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جیل ایس اوپیزکے تحت وہ سائیکل کے حقدار ہیں۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو سائیکل مہیا کرنے کی درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 23 اکتوبر تک ملتوی کی تھی، اور آج جج ابوالحسنات ذوالقرنین چیئرمین پی ٹی آئی تک سائیکل پہنچانے کی درخواست پر سماعت کریں گے۔
پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ صحت کے شعبے میں ہم نے تاریخی کام کئے، ’صحت انصاف کارڈ ہم نے دیا یہ پی ٹی آئی چیئرمین کا ویژن نہیں تھا، عمران خان میں غرور تھا اس لئے ڈوب گئے‘۔
پشاور میں ورکرز کنونشن سے خطاب میں پرویز خٹک نے کہا کہ 75 سال میں جو بھی آیا کوئی نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگا رہا تھا تو کوئی روٹی کپڑا دینے کی بات کرتا ہے، لیکن پاکستان کو اس حال تک کس نے پہنچایا، ملک کا امن کس نے تباہ کیا پھر دعوے کر رہے ہیں کہ ہم آئینگے اور حالات ٹھیک کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ قصور ملک یا عوام کا نہیں سارا قصور نا اہل رہنماؤں کا ہے ایسے ہی افراد کو بے نقاب کرنے کے لئے میں نے پارٹی بنائی ہے، ہم عوام کو ان کے مکروہ چہرے دکھائیں گے۔
پرویز خٹک نے کہا کہ پی ٹی آئی میں آنے کا مقصد عوام کی خدمت کرنا تھا لیکن خدمت نہیں کی تو چھوڑ دیا، پی ٹی آئی نے ڈالر کی بارش اور عوام کو مہنگائی سے نکالنے کے وعدے کئے لیکن سب جھوٹ نکلا، ہمیں اس کرپٹ نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے ساڑھے تین سال حکومت میں ایک وعدہ پورا نہیں کیا، اسی لئے مجھے سوچنا پڑا کہ کب تک ان جھوٹوں کا ساتھ دیتا رہوں گا۔ ہم خیال دوستوں کے ساتھ مشورہ کرکے جھوٹوں کے خلاف میدان میں نکلے ہیں۔ پی ٹی آئی میں ایماندار لیڈر نہیں بلکہ پیسے والے ہیں، میں جھوٹے وعدوں کی بجائے عملی کام کرتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں :
مراد سعید کا چیف جسٹس کے نام خط، اہلخانہ کو ہراساں کرنے کا نوٹس لینے کی استدعا
نواز شریف کے طیارے کو این او سی جاری، ہمراہ آنے والےافراد کی تفصیلات سامنے آگئیں
پولیس نے صنم جاوید کو رہائی کے فوری بعد دوبارہ گرفتار کرلیا
سربراہ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کا کہنا تھا کہ ڈرنے والا ہوں اور نہ ہی کسی کی منت سماجت کرنے والا ہوں، پرویز خٹک بھوکا رہے گا لیکن حرام نہیں کھائے گا۔
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے تحصیل چیئرمین کرک ملک ممتاز کی عبوری ضمانت منسوخ کردی۔
پاکستان تحریک انصاف کے تحصیل چیئرمین کرک ملک ممتاز کو گرفتارکرنے کیلئے 24 ستمبر کو ڈپٹی کمشنر نے امن وامان کی وجہ سے تھری ایم پی او آرڈر جاری کیا تھا۔
تھری ایم پی او آرڈر کیخلاف انہوں نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرکے 3 اکتوبر کو عبوری ضمانت حاصل کی تھی۔
آج دوبارہ سماعت پر پیش نہ ہونے کے باعث عدالت نے ملک ممتاز کی عبوری ضمانت منسوح کردی۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ ’مضبوط اور فٹ ’ ہیں۔ سوشل میڈیا پرجاری یہ بیان بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں نمایاں طور سے شائع کیا گیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر عمران خان کا یہ بیان ان کی فیملی کی جانب سے پوسٹ کیا گیا۔
عمران خان کو اگست 2023 میں توشہ خانہ کیس میں بدعنوانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے تین سال قید اور جُرمانے کی کی سزا سنائی گئی تھی جس کے تحت وہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار پائے تھے۔ بعد ازاں ضمانت پررہائی کیے بعد سائفر کیس میں ان کی گرفتاری ڈال دی گئی تھی۔
جیل جانے کے بعد پہلے بیان میں انہوں نے کہا کہ ، ’ٌآج کے عمران خان اور 5 اگست کو جیل میں بند عمران خان کے درمیان دن رات کا فرق ہے۔ آج میں روحانی، ذہنی اور جسمانی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور فٹ ہوں‘۔
عمران خان نے فالوورز کو بتایا کہ حالات کے ساتھ اچھی طرح سے ایڈجسٹ کرچکے ہیں اور اپنا زیادہ وقت قرآن پڑھنے میں گزارتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹائےجانے کے بعد سے مختلف مقدمات میں الجھےچیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ سب انہیں الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے۔
سائفرکیس: فردجرم عائد کرنے کی کارروائی میں کوئی رعایت نہ دینے کا عدالتی اعلان
سائفر کیس کی کھلی سماعت سے دیگر ممالک سے تعلق خراب ہوسکتے ہیں، ایف آئی اے کا خدشہ
پی ٹی آئی نے عمران خان کیلئے برطانوی وکیل سے متعلق پوسٹ ڈیلیٹ کردی، فیصلہ تبدیل
عمران خان کو9 مئی کو گرفتار کیا گیا تھاجس کے بعد ملک بھر میں پی ٹی آئی کی جانب سے پرتشدد مظاہرے کیے گئے تھے اور فوج پر سیاست میں مبینہ طور پر مداخلت کا الزام عائد کیا گیا۔
جواب میں اسٹیبلشمنٹ نے ایک سخت کریک ڈاؤن کیا جس میں ہزاروں حامیوں کو گرفتار کیا گیا، پارٹی کی مرکزی قیادت سمیت بہت سے لوگ پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔
سرکاری دستاویزات (سائفر) لیک کرنے کے الزام میں نئی گرفتاری میں زیرحراست عمران خان پر17 اکتوبر کو باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کی جائے گی اور انہیں اس جرم میں 14 سال تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔
عمران خان کے بنیادی حریف اور تین باروزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی آئندہ ہفتے 21 اکتوبرکو شیڈول ہے،جو اپنی 4 سالہ جلا وطنی خاتمہ کرتے ہوئے انتخابات میں اپنی پارٹی کی قیادت کریں گے۔
جیل سے عمران خان نے اپنے حامیوں کو ’مت نہ ہاریں‘ کا پیغام بھی دیا۔
انہوں نے ’پیشگوئی‘ کی کہ ، ’جس دن بھی الیکشن ہوا،پاکستانی عوام کروڑوں کی تعداد میں پی ٹی آئی کو ووٹ ڈال کر لندن پلان والوں کو شکست دیں گے۔ یہ لوگ جتنی مرضی دھاندلی کرلیں، انکا مقدر صرف اور صرف شکست ہے‘۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی توشہ خانہ کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی، عدالت میں سماعت 9 اکتوبر پیر کو ہوگی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی متفرق درخواست رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے اعتراضات کے ساتھ مقرر کی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کے لیے 2 رکنی بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا، چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس بابر ستار بینچ میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل ڈویژنل بینچ 9 اکتوبر کو درخواست پر سماعت کرے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی دائری برانچ نے درخواست پر 3 اعتراضات عائد کر رکھے ہیں۔
رجسٹرار آفس کا پہلا اعتراض ہے کہ ایک درخواست میں دو قسم کی استدعا کیسے کی جا سکتی ہے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ پہلے جس درخواست پر فیصلہ ہو چکا اس میں دوبارہ کیسے ریلیف مانگ سکتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر رجسٹرار آفس کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ سزا معطلی کی پہلی درخواست میں ریلیف مانگا نہیں اب کیسے مانگ سکتے ہیں۔
عمران خان کی رہائی کے حوالے سے وال چاکنگ کرنے والا ملزم گرفتار، مقدمہ درج
جناح ہاؤس کیس: عدالت نے پی ٹی آئی کے 5 رہنماؤں کو اشتہاری قرار دے دیا
چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ معطل کرنےکی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کر رکھی تھی۔
یاد رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ فیصلہ معطل کرنے میں اسٹیٹ کو فریق بنانے کی استدعا کر رکھی ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں صرف سزا معطل کی تھی۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ میرے ہاتھ کھلے ہیں تو میرے مخالف کے بھی ہاتھ کھلے ہونے چاہئیں، چاہتا ہوں ہر سیاستدان جیل سے باہر ہو۔ فضل الرحمان نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کون لوگ ہیں کہ چار پانچ بندے کمرے میں بیٹھ کر ملک چلارہے ہیں۔
پشاور میں سوشل میڈیا کنونشن شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’مخالف قید میں ہو اور میں جلسے کروں، مزا نہیں آئے گا‘۔ لوگ اقتدار اور مفادات کی جنگ لڑتے ہیں۔ اللہ کرے نوازشریف جلد صحتیاب ہو کر وطن واپس آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بھی اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف تھا لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی، حدود میں رہ کر بھر پور احتجاجی مظاہرے کیے لیکن ہم نے ریاستی ادروں پر حملے نہیں کیے۔
جے یو آئی ایف کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ ملک کو داخلی و خارجی مشکلات کا سامنا ہے، معاملات وقت کے ساتھ گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ کچھ حقائق ہمیں تسلیم کرنا چاہئیں، غور کرنا ہوگا ہماری مشکلات کیا ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کون لوگ ہیں کہ چار پانچ بندے کمرے میں بیٹھ کر ملک چلارہے ہیں، جب میں ایسی باتیں کرتا ہوں تو کہتے کہ مولانا الیکشن ملتوی کرنا چاہتا ہے، ہم الیکشن سے ڈرنے والے نہیں حال ہی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیکھ لیں۔
جے یو آئی سربراہ نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہمارے حقوق کا استحصال کر رہا ہے، ہمیں عوام کو اعتماد دینا ہوگا، سیاسی جماعتیں الیکشن مہم میں لگے ہیں لیکن ریاست ڈوب رہی ہے اس کی فکر نہیں، سرمایہ کاری بند ہے باہر سے پیسہ نہیں آرہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اسرائیل، امریکا اور اس کے پاکستان میں سہولتکاروں کو شکست دی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ قوم کی ناراضگی بڑھ رہی ہے معیشت ڈوب رہی ہے، پی ٹی آئی کی حکومت میں صوبائی سطح پر ملک کے خلاف بغاوت شروع ہونے کا خطرہ تھا۔ ہم نے تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا، ہمیں پتہ تھا کہ معیشت ڈوب گئی ہے، معیشت اٹھانا کسی کے بس کی بات نہیں، اب تک معیشت کا برا حال ہے۔
یہ بھی پڑھیں :
عدالت نے عمران خان کی ضمانت کی 3 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کردیں
لندن سے سعودیہ، پھر پاکستان: نواز شریف کی واپسی کا مجوزہ پلان سامنے آگیا
میاں محمودالرشید اور اعجاز چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا
انھوں نے کہا کہ ہمارے پڑوس میں جی 20 اجلاس ہوا پاکستان اس میں شریک نہیں تھا، ملک اب دلدل بن چکا ہے، ہمارے صوبے میں مہنگائی کے علاوہ بدامنی عروج پر ہے، روزانہ کے حساب سے قتل وغارت گری جاری ہے، جے یو آئی پر حملے کس کے اشارے پر ہورہے ہیں، 20 علماء کو کیوں قتل کیا گیا، جہاں اتنا زیادہ خون بہے وہاں پر اطمینان کہاں سے آئے گا۔
سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ کراچی کی گلی کوچوں میں رہزنی ہو رہی ہے، شہر قائد میں ایم این اے اور ایم پی اے سے گاڑیاں چھینی جارہی ہیں، پنجاب میں پریشانی ہے، گلگت میں مظاہرے ہورہے ہیں، کہیں پر بھی سکون نہیں ہے۔
وفاق کے بعد کشمیر میں بھی پاکستان تحریک انصاف کو بڑا جھٹکا لگ گیا، مقامی رہنما پی ٹی آئی چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔
بڑی تعداد میں پی ٹی آئی سمیت دیگرجماعتوں کے رہنما اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔
تقریب میں صدر پیپلز پارٹی آزاد کشمیر چوہدری یاسین، سابق صدر سردار یعقوب، سردار عنایت اللہ عارف سمیت قیادت شریک ہوئی۔
سردارجمیل اختر، ڈاکٹر ریاست، سردار زبیر، سردار حفیظ سمیت دیگر رہنماؤں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
چوہدری یاسین اور سردار یعقوب نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان چیئرمین پی ٹی آئی نے پہنچایا، جس کا انہیں خمیازہ بھتگنا پڑرہا ہے، بجلی بلوں پر ٹیکسز حکومت پاکستان ختم کرے۔
پی ٹی آئی چھوڑنے والی منزہ حسن آئی پی پی میں شامل
پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر عون عباس کا پارٹی سے علیحدگی کا اعلان
پی پی رہنما سردار عنایت اللہ عارف کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی ان رہنماؤں کی شمولیت سے مزید مضبوط ہوگی، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کی بات کی اوران کے مسائل ایسے ہی حل کرتی رہے گی۔
تقریب میں بڑی تعداد میں کشمیری رہنما اور ورکر بھی شریک تھے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین اور ماہر معاشیات شبر زیدی نے کہا ہے کہ افغان ٹریڈ میں 5 اشیاء کی برآمد پر پابندی لگائی گئی ہے۔ حکومتی اقدامات کے بعد ڈالر کی قیمت 250 روپے تک آجائے گی۔ رہنما پیپلزپارٹی اور سابق وفاقی وزیر نوید قمر نے کہا ہے کہ امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے سے ملک میں سرمایہ کاری آئے گی۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں شبر زیدی نے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ایکسچینج کمپنیز ختم کرنے کیلئے اقدامات ہو رہے ہیں، ایکسچینج کمپنیز کی ٹرانزیکشن کو حکومت اچھا منیج کررہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ کو روکا گیا ہے، روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہورہا ہے، ڈالر کی قیمت 250 روپے تک آجائے گی۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ موجودہ افغان عبوری حکومت پرعالمی پابندیاں ہیں، ڈالر افغان ٹریڈ کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ افغان ٹریڈ میں 5 اشیاء کی برآمد پر پابندی لگائی گئی ہے، ان 5 اشیاء کی برآمدات 4 ارب ڈالر کے قریب تھی، افغان ٹریڈ کیلئے 6 سے7 ارب ڈالر کی ڈیمانڈ تھی۔
رہنما پیپلزپارٹی اور سابق وفاقی وزیر نوید قمر نے آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے سے سرمایہ کاری آئے گی، غیرقانونی سرگرمیوں کےخلاف ایکشن کا فیصلہ کابینہ کرتی ہے، آرمی چیف کی اجلاس میں شرکت سے فیصلوں میں مضبوطی آتی ہے۔
جی ایس پی پلس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جی ایس پی پلس کا فیصلہ 3 ادارے کرتے ہیں، یورپ کے تینوں اداروں کے فیصلوں میں بڑا فرق ہے، 4 سال تک موجودہ جی ایس پی پلس بر قرار رہے گا۔
قائد ن لیگ کی واپسی سے متعلق انھوں نے کہا کہ نوازشریف کی واپسی سے قبل ن لیگ کی قانونی ٹیم تمام معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہوگی اور وہ عدالت سے رجوع کرے گی۔
پیپلزپارٹی کےخلاف ہمیشہ اتحاد بنتے رہے ہیں لیکن کوئی اتحاد سندھ میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتا، جی ڈی اے کی سندھ میں کوئی نشست نہیں ہے، ہوسکتا ہے اتحاد سے ایک دو نشستوں پر فرق پڑ جائے۔
آئندہ الیکشن اور عمران خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی واضح ہے، پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینا چاہئے۔
سانحہ نو مئی پر بات کرتے ہوئے نوید قمر نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی کوئی مثال نہیں ملتی، فوجی تنصیبات پر حملے دشمن کرتے ہیں، سانحہ نو مئی کے واقعات کےخلاف ایکشن ہونا چاہئے، حملہ آوروں کوسزا ہونی چاہئے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے پنجاب اسمبلی کی نشست کے ٹکٹ ہولڈر ملک سرفراز کھوکھر نے بھی پارٹی کو خیر باد کہہ دیا۔
ملک سرفراز کھوکھر نے پی ٹی آئی کی اداروں کی تصادم پالیسی کی وجہ سے پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔
اپنے ایک بیان میں ملک سرفراز کھوکھر کا کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی ملکی مفاد میں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی واقعات کے باوجود پارٹی ریاستی اداروں کے خلاف جارحانہ بیانیے پر قائم ہے، پی ٹی آئی کی پالیسی ملکی مفاد کے لیے نقصان دہ ہے۔
ملک سرفراز کھوکھر نے کہا کہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں۔
پی ٹی آئی چھوڑنے والی منزہ حسن آئی پی پی میں شامل
پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر عون عباس کا پارٹی سے علیحدگی کا اعلان
یاد رہے کہ ملک سرفراز کھوکھر پی پی 173 اولڈ سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر ہیں۔
اسلام آباد کی انسدادِدہشت گردی عدالت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی ضمانت کی 3 درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کردیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تھانہ کھنہ میں ایک اور تھانہ بہارہ کہو میں 2 مقدمات درج ہیں، جنہیں عدالت نے سماعت کے لیے مقرر کرلیا ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین 16 اکتوبر کو ان درخوستوں پر سماعت کریں گے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلےکی روشنی میں چیئرمین پی ٹی آئی کی عدم حاضری پر خارج شدہ ضمانت کی درخواستیں دوبارہ مقرر کی گئی ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی عدم حاضری پر اےٹی سی نے ضمانت کی تینوں درخواستیں خارج کردی تھیں۔
دوسری جانب اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف 9 مئی، لانگ مارچ اور توشہ خانہ جعلی رسیدوں کے کیسز میں ضمانتوں کی درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔**
عمران خان کی توشہ خانہ فیصلہ معطلی کی متفرق درخواست اعتراضات کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر
عمران خان کا دہشتگردوں پر احسان ہے، الیکشن میں ان کو استعمال کیا جاسکتا ہے، خواجہ آصف
ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد طاہرعباس سِپرا نے چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت کی 6 درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے نوٹسز جاری کیے ہیں۔
عدالت نے پراسیکیوشن اور پی ٹی آئی وکلاء کو ہدایت کی ہے کہ 16 اکتوبر کو ان درخواستِوں پر دلائل دیے جائیں۔
عدالت نے ترنول، رمنا، کراچی کمپنی، سیکرٹریٹ اور کوہسار تھانوں کے تفتیشی افسران کو بھی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نجی ٹی وی چینل پر عثمان ڈار کا انٹرویو ”نئی بوتل میں پرانی شراب“ قرار دے دیا۔
یاد رہے کہ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار نے کہا کہ میں نے تحریک انصاف اور سیاست کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ 9 مئی واقعات کی منصوبہ بندی چیئرمین پی ٹی آئی کی زیر صدارت زمان پارک میں ہوئی، پی ٹی آئی کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار چیئرمین پی ٹی آئی خود ہیں۔
جس کے بعد پی ٹی آئی نے عثمان ڈار کا انٹرویو ”نئی بوتل میں پرانی شراب“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 24 روز تک نامعلوم اغوا کاروں کی حراست میں گزارنے کے بعد عثمان ڈار کی ایک نجی ٹی وی چینل پر رونمائی بلاشبہ خود اغوا کاروں کو بے نقاب کرتی ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ عثمان ڈار کو 10 ستمبر کو کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، عثمان ڈار کی جبری گمشدگی پر ان کی والدہ اور بھائی سمیت اہلِ خانہ کے متعدد بیانات اور پیغامات ریکارڈ پر موجود ہیں، پچھلے 5 ماہ کے دوران عثمان ڈار کی رہائش گاہ پر پولیس کے چھاپوں، ان کی والدہ اور دیگر خواتین اہلِ خانہ سے بدسلوکی اور ان کی فیکٹری اور رہائش گاہ پر پڑنے والے تالے پوری قوم دیکھ چکی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نے مزید کہا کہ اس 24 روزہ جبری گمشدگی کے دوران جسمانی و ذہنی تشدد اور جبر کے آثاران کی کانپتی آواز، متذبذب باڈی لینگویج اور بے ربط خیالات سے واضح ہیں، 9 مئی کے 5 ماہ بعد 24 روزہ جبری گمشدگی کے بعد دیے گئے انٹرویو کی عوام کی نگاہ میں کوئی اہمیت ہے نہ ہی اس کی کوئی قانونی حیثیت۔
ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ خدشہ ہے کہ اسی قسم کے ہتھکنڈے ہمارے دیگر اغواء کنندگان بشمول صداقت عباسی، فرخ حبیب اور شیخ رشید پر بھی آزمائے جائیں گے اور ایسے ہی مزید ڈرامے نشر کئے جائیں گے، ہمیں عثمان ڈار سے ہمدردی اور پارٹی کے لیے ان کی وابستگی کا احساس ہے۔
تحریک انصاف کے ترجمان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان کی بے گناہی اور تحریک انصاف کو میسرعوامی تائید کی گواہی خود عثمان ڈار نے دی، ملک کو گھسے پٹے ڈراموں اور فلموں کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے 9 مئی کے واقعات کی عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائی جائے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے زور دیا کہ عوام کو ووٹ کا حق دینے کے لیے 90 روز کی دستوری مدت میں انتخاب کروائے جائیں۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کے کیس میں سابق رکن قومی و صوبائی اسمبلی فہیم خان اور عدیل احمد سمیت 4 مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں 9 مئی کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہنگامہ آرائی، جلاؤ گھیراؤ کے معاملے پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے سابق رکن قومی و صوبائی اسمبلی فہیم خان اور عدیل احمد سمیت 4 مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا۔
عدالت نے مفرور ملزمان کے خاکے آویزاں کرنے اور ان کی جائیداد کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 10 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
عدالت میں پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق اراکین قومی و سندھ اسمبلی فہیم خان اور عدیل احمد خان ، کارکنان اورنگزیب اور اشفاق مفرور ہیں، مقدمے میں طارق، عامر، عبداللہ، رضون، جاوید اور فہد سمیت 13 ملزمان گرفتار ہیں۔
حساس ادارے کی عمارت پر حملے کے مقدمے میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات شامل
عمران خان نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ہدایت کی، 9مئی جنرل منیر کو ہٹانے کیلئے تھا، عثمان ڈار
پی ٹی آئی کے 3 سابق ارکان صوبائی اسمبلی کی ضمانت مسترد، احاطہ عدالت سے گرفتار
پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 9 مئی کو چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کی اطلاع پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے کارکنان کو اشتعال دلوایا، تحریک انصاف کے کارکنان نے لاٹھی اور ڈنڈوں سے مسلح ہوکر ہنگامہ آرائی کی، مقدمہ میں عالمگیر خان سمیت 4 ملزمان عبوری ضمانت پر ہیں۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جناح ہاؤس حملہ کیس میں خدیجہ شاہ سمیت 55 ملزمان کی ضمانتیں خارج جبکہ صنم جاوید سمیت 9 ملزموں کی ضمانت منظور کرلی۔
انسداد دہشت گری کی خصوصی عدالت کے جج ارشد جاوید نے جناح ہاؤس حملہ کیس میں 64 ملزمان کی ضمانتوں پر فیصلہ سنایا۔
عدالت نے خدیجہ شاہ ،عالیہ حمزہ سمیت 55 ملزمان کی ضمانتوں پر رہائی کی درخواستیں خارج کردیں۔
عدالت نے صنم جاوید ، روبینہ جمیل، افشاں طارق آشمہ شجاع، شاہ بانو، سید فیصل اختر کی بھی ضمانت منظور کرلی۔
عدالت نے ملزم قاسم، علی حسن، حسین قادری کی بھی بعد ازگرفتاری درخواست ضمانت منظور کرلی۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے تمام ملزمان کو ایک، ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
یاد رہے کہ تمام ملزمان کے خلاف 9 مئی کو تھانہ سرور روڑ پولیس نے جناح ہاؤس پر حملے کے الزام میں مقدمہ درج کررکھا ہے۔
واضح رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی کارکنوں نے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کیا تھا۔
جناح ہاؤس حملہ کیس: عدالت نے 28 ملزمان کے اشتہار جاری کردیے
9 مئی ہنگامہ آرائی کیس: عدالت نے 20 ملزمان کو مقدمے سے ڈسچارج کردیا
پی ٹی آئی کارکنوں نے احتجاج کی دوران ملک کی اہم تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا تھا جس کی پاداش میں گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں، صنم جاوید و دیگر پر الزام ہے کہ انہوں نے جناح ہاؤس لاہور پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔
سانحہ 9 مئی کے بعد سول و عسکری قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ ملزمان کے خلاف کوئی رعایت نہیں کی جائے گی، جن لوگوں نے فوجی تنصیبات کونشانہ بنایا ان کے کیسز فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے جبکہ دیگر املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے کیس انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں چلیں گے۔
مردان میں 9 مٸی کے واقعات میں ملوث 125 افراد کی ضمانت منظور ہوگٸی، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پی ٹی آئی اراکین کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔
9 مٸی کے توڑ پھوڑ کے واقعات میں ملوث 125 پی ٹی آئی اراکین پر 3 ایم پی او کے تحت مقدمات درج تھے۔
9 مئی واقعات: چیئرمین پی ٹی آئی کے باڈی گارڈز سمیت 29 کارکنان کی شناخت پریڈ مکمل
نو مئی کو حساس ادارے پر حملہ، مقدمے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت دیگر سنگین دفعات شامل
9 مئی ہنگامہ آرائی کیس: عدالت نے 20 ملزمان کو مقدمے سے ڈسچارج کردیا
سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت ہوئی، جج سید عبداللہ شاہ نے پی ٹی آٸی کے 125 کارکنان کی از قبل گرفتاری کی ضمانت منظور کرلی۔
عدالت نے پی ٹی آئی کے 2 کارکن ہارون اعجاز اور فرہاد علی کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست خارج کردی۔
جیل کے سامنے وکلاء اور پی ٹی آٸی کارکنان نے نعرہ بازی بھی کی۔
دوسری جانب انسداد دہشت گردی عدالت میں 9 مئی کو ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کیس کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے پی ٹی آئی کے 3 کارکنان کی ضمانت منظور کرلی۔
عدالت نے ملزمان کو فی کس ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم صادر کردیا۔
ملزمان میں سعد علی، محمد ایان جمیل اور جاوید اختر شامل ہیں۔
عدالت نے جیل حکام کو ہدایت کی ہے کےملزمان کسی دوسرے کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں رہا کیا جائے۔
پولیس کے مطابق ملزمان شارع فیصل پر ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہیں۔ملزمان کے خلاف تھانہ فیروزآباد میں مقدمہ درج ہے۔
قانونی امور پر عمران خان کے ترجمان عمران خان نعیم حیدر پنجوتھہ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 3 مزید درخواستیں دائرکردی ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر نعیم حیدرنے بتایا کہ ان تینوں درخواستوں پر عدالت کی جانب سے نوٹس جاری کرتے ہوئے 2 (ممکنہ طور پر ستمبر) تاریخ دے دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: اٹک جیل میں سائفرکیس کی سماعت ، عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ تینوں درخواستیں کس عدالت میں دائر کی گئی ہیں۔
نعیم پنجوتھہ کے مطابق عمران خان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائرکردی ہے۔ (یہ درخواست ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں عمران خان کیخلاف سائفر کیس کی سماعت کے دوران دائر کی گئی)۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی وکلاء کی جانب سے وزارت داخلہ کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنے اور کیس کا اوپن ٹرائل کرنے کی درخواست بھی دائرکی گئی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ عدالت نے تینوں درخواستوں پر نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کیلئے 2 تاریخ مقرر کی ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی سزا معطلی کی اصل وجہ سامنے آگئی
نعیم پنجوتھہ نے پوسٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی کہ سائفر کیس میں عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کی گئی ہے۔
ویسے تو منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی تین سال قید کی سزا اور جرمانے کو معطل کر دیا ہے، لیکن رہائی کیلئے انہیں ابھی بھی انتظار کرنا ہوگا۔ کیونکہ سابق وزیر اعظم کے خلاف متعدد دیگر مقدمات بھی موجود ہیں۔
عدالتی فیصلہ آںے کے فوری بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ عمران خان مضبوط دلائل کی وجہ سے اس جج سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جسے ان کی اپنی جماعت نے بدنام کیا یا عدالتوں نے انہیں بچایا۔
لیکن وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں، اصل وجہ یہ ہے کہ عمران کی سزا بہت مختصر تھی۔
عمران خان کی سزا معطلی پر جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کا تحریری حکم نامہ نو صفحات پر مشتمل ہے اور کارروائی میں جو کچھ ہوا اس کا خلاصہ ہے۔
اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے ٹرائل کورٹ کے توشہ خانہ فیصلے میں کئی ’کوتاہیوں‘ کی نشاندہی کی۔
لطیف کھوسہ نے دلیل دی کہ اثاثہ جات کے گوشوارے جمع کرانے کے 120 دنوں کے اندر شکایات درج کی جا سکتی ہیں، جبکہ الیکشن کمیشن نے ایسا کرنے میں بہت تاخیر کی۔
اس میں یہ بھی شامل کیا گیا کہ درخواست ’منتخب شخص‘ کے ذریعے فائل نہیں کی گئی تھی۔
لطیف کھوسہ نے استدلال کیا کہ دائرہ اختیار کے مسائل کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کو مقدمے کے فوائد پر بات کرنے سے پہلے کرنا چاہیے تھا۔
آخر میں لطیف کھوسہ نے دلیل دی کہ عمران کو اپنے دفاع کا مناسب موقع نہیں دیا گیا کیونکہ ان کے گواہوں پر ’غیر متعلقہ‘ لیبل لگا دیا گیا تھا۔
انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو یہ بھی بتایا کہ اس معاملے کا فیصلہ ’غیر ضروری‘ جلد بازی میں کیا گیا تھا۔
جواب میں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے بھی تکنیکی نکات پر بحث کی۔
انہوں نے کہا کہ جب سے عمران خان کو قید کیا گیا ہے، انہیں ریاست کے حوالے کر دیا گیا ہے لیکن ریاست کو کیس میں فریق نہیں بنایا گیا۔
امجد پرویز نے یہ بھی دلیل دی کہ اس معاملے میں اپیل کو سیدھا اسلام آباد ہائیکورٹ جانے کے بجائے سیشن کورٹ کے سامنے دائر کیا جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے دفاع کے حق کے بارے میں لطیف کھوسہ کے نکتہ کے خلاف بھی دلیل دی اور کہا کہ عمران نے متعدد مواقع ملنے کے باوجود عدالت میں پیش نہ ہونے کا انتخاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران نے کارروائی کو ’ناکام‘ بنانے کی کوشش کی۔
تاہم وکلاء کے تمام دلائل کے بعد معاملہ ایک نقطہ پر آگیا کہ کیا عمران خان کی سزا کو معطل کیا جا سکتا ہے، یا ضمانت دی جاسکتی ہے؟ کیونکہ یہ سزا ’مختصر‘ تھی۔
لطیف کھوسہ نے دلیل دی کہ سزا معطلی کی اپیل دراصل ضمانت کے لیے اپیل کرنے کے مترادف ہے اور عمران ضمانت کے حقدار ہیں کیونکہ تین سال کی سزا مختصر ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے جس کیس کا حوالہ دیا ان میں سے ایک نواز شریف بمقابلہ چیئرمین نیب (2019) تھا۔
امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ ہر سزا معطل کی جائے۔
جواب میں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے معطلی یا ضمانت کے معاملات میں طویل دلائل کو نظر انداز کیا ہے۔
عدالت نے لطیف کھوسہ سے بھی اتفاق کیا کہ اس معاملے کے لیے تین سال، یا یہاں تک کہ پانچ سال، ایک مختصر سزا ہے اور عام طور پر معطل کی جاتی ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ اس مرحلے پر کیس کے میرٹ پر دلائل کی ضرورت نہیں ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ دائرہ اختیار اور دیگر مسائل کے بارے میں دونوں فریقوں کی طرف سے اٹھائے گئے دلائل میں اس معاملے کی گہری تعریف شامل ہے جس کی معطلی کے مرحلے پر کوئی جواز نہیں ہے، خاص طور پر جہاں سزا مختصر ہو’۔
بالآخر عمران خان کو دی گئی سزا کی مختصر طوالت ان کی رہائی کے احکامات کی وجہ بن گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ سے سزا معطلی اور ضمانت منظوری کے بعد جہاں ایک جانب پی ٹی آئی کے کارکن عمران خان کی رہائی کے منتظر ہیں تو دوسری جانب ایسا ہونے کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ اس کے بجائے سائفر کیس عمران خان کی رہائی میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کےخلاف سائفرکیس کی سماعت آج بروز جمعرات30 اگست کو اٹک جیل میں ہوگی۔
وزارت قانون کے مطابق وزارت داخلہ نے سکیورٹی خدشات کا اظہار کیا جس کے بعد آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت سماعت اٹک جیل میں ہوگی۔
سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کا جوڈیشل ریمانڈ 30 اگست کو مکمل ہورہا ہے۔
وزارت قانون کا کہنا ہے کہ کیس کی سماعت کیلئے جج ابوالحسنات اٹک جیل جائیں گے۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ سے عمران خان کی توشہ خانہ فوجداری کیس میں سزا معطلی کے کچھ دیر بعد انکشاف ہوا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین سائفر کیس میں پہلے ہی ریمانڈ پر ہیں۔
کم ازکم چھ مقدمات میں عمران خان کی ضمانتیں ان کی قید کے دوران منسوخ کردی گئی تھیں۔ اس لیے عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں منگل کو درخواست دائر کی کہ عمران خان کو کسی اور مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔
انہوں نے اس درخواست کی فوری سماعت کی بھی استدعا بھی کی جب کہ عدالت نے انہیں اعتراضات دور کرنے کو کہا۔
تاہم عمران خان کو اس وقت سب سے زیادہ مشکل سائفر کے مقدمے میں پیش آرہی ہے۔ یہ مقدمہ آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت ان کے خلاف گرفتاری کے بعد دائر ہوا ۔ سابق وزیراعظم پر سفارتی سائفر گم کرنے کا الزام ہے۔
کورٹ رپورٹرز کے مطابق اس مقدمے میں عمران خان کا جوڈیشل ریمانڈ منظور ہو چکا ہے۔ یعنی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی اور ضمانت منظوری کے باوجود وہ فوری طور پر باہر نہیں آسکیں گے۔ جوڈیشل ریمانڈ کے دوران ملزم جیل میں رہتا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ کی مدت بدھ 30 اگست تک ہے۔
دوسری جانب آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سپریٹنڈٹ اٹک جیل کو مراسلہ بھیج دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ملزم عمران خان نیازی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمے میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، ملزم کو جیل میں ہی قید رکھا جائے، اور 30 اگست کو عدالت پیش کیا جائے۔
البتہ ایک امکان یہ بھی ہے کہ جیل میں ہی روبکار ڈال کر ان کے ریمانڈ میں توسیع کردی جائے۔
منگل کو عمران خان کی سزا معطل ہونے کے بعد آفیشنل سیکرٹس ایکٹ کے تحت قایم خصوصی عدالت کے جج کا خط سامنے آیا جو انہوں نے اٹک جیل سپرٹنڈنٹ کو لکھا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان 30 اگست تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں اور انہیں اس وقت تک جوڈیشل لاک اپ میں رکھا جائے اور 30 اگست کو پیش کیا جائے۔
آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت 21 اگست کو قائم کی گئی تھی۔
عمران خان کیخلاف آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت مقدمہ 15 اگست کو ایف آئی اے نے مقدمہ نمبر 6/2023 درج کیا تھا۔
اس مقدمے میں پی ٹی آئی چیئرمین کا جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی تین برس کی سزا معطل کردی ہے اور ان کی رہائی کا حکم دے دیا ہے۔ عمران خان کسی اور مقدمے گرفتار نہ ہوئے تو وہ آج جیل سے باہرآجائیں گے۔
تاہم عمران خان کی سزا صرف تین برس قید ہی نہیں تھی بلکہ انہیں الیکشن لڑنے کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا گیا۔
ہائیکورٹ سے سزا معطل ہونے کے بعد عمران خان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کی نااہلی ختم ہو گئی ہے۔
آج نیوز کے شوکت پراچہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی نااہلی سزا کی وجہ سے تھی جو سزا معطل ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔
سائفر کیس عمران خان کی رہائی میں رکاوٹ بن گیا، کل عدالت پیشی کا امکان
تاہم شوکت پراچہ کے مطابق فوری طور پر عمران خان کی رہائی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔
دوسری جانب ایک قانونی رائے یہ بھی ہے کہ عمران خان کی سزا معطل ہوئی ہے لیکن ان کی conviction معطل نہیں ہوئی یعنی ان کا جرم ختم نہیں ہوا۔ اس صورت میں ان کی نااہلیت برقرار رہے گی۔
آئین کے آرٹیکل 62 کی شق ایچ کے تحت اگر کسی شخص پر ایسا جرم ثابت ہو جس میں اسے دو برس یا اس سے زائد کی سزا سنائی گئی تو تو وہ الیکشن لڑنے کیلئے نااہل تصور ہوگا تاوقتیکہ اس کی رہائی کو پانچ برس گزر چکے ہوں۔
اسلام آباد کی عدالت نے پانچ اگست کو عمران خان کو سزا سناتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان پر کرپٹ پریکٹسز کا جرم ثابت ہوا ہے۔
آج نیوز اسلام آباد بیوروچیف طارق چوہدری کے مطابق پاکستان میں اعلیٰ عدالتوں کو تین برس یا اس سے کم سزا کسی بھی وقت معطل کرنے کا اختیار ہے تاہم مقدمہ جاری رہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کے معاملے میں عدالت نے سزا معطل کی ہے بری نہیں کیا گیا۔
اٹک جیل کے اطراف میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے اور پولیس کی بھاری نفری جیل کے راستوں پر پہنچ گئی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائی کا جشن منانے کے لئے آنے والے 9 کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا، جب کہ بشریٰ بی بی اور عمران خان کی دو بہنوں کو ملاقات کی اجازت دی گئی۔
اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل کے اطراف میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے، اور جیل کے راستوں پر پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی۔ اور ذرائع نے بتایا کہ جیل کے راستوں پر اینٹی رائیٹس کٹ سے لیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اٹک جیل میں ہی قید ہیں، اور آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں ان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
فیصلہ سنتے ہی پی ٹی آئی کے چند کارکنان عمران خان رہائی کا جشن منانے کیلئے اٹک جیل کے پاس پہنچ گئے، کارکن مٹھائی اور ہار بھی لے کر آئے تھے، تاہم پولیس نے 9 کارکنان کو گرفتار کرلیا۔
دوسری جانب سابق خاتون اول بشری بی بی اور عمران خان کی دو بہنیں چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کے لئے ڈسٹرکٹ جیل اٹک پہنچیں، تو انہیں پولیس نے ناکے پر روکا، تاہم بعد میں انہیں جیل کے اندر جانے کی اجازت مل گئی، اور دیگر افراد کو جیل ناکے پر روک لیا گیا۔
بشری بی بی نے چیئرمین پی ٹی آئی سے ون ٹو ون ملاقات کی، جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی دونوں بہنیں بھی ملاقات کے بعد بشری بی بی کے ہمراہ جیل سے روانہ ہو گئیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک نئی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے گا۔
یہ درخوست منگل کو اس وقت دائر کی گئی جب اسلام آباد ہائیکورٹ توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے لیے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ سنانے والی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اگر عمران خان کی سزا معطل ہوبھی گئی تو کسی دوسرے مقدمے میں ان کی گرفتاری ڈال کر رہائی روک دی جائے گی۔
اس بنا پر عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی کہ سابق وزیراعظم کو کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔ انہوں نے 6 دیگر مقدمات میں عمران خان کی ضمانتیں خارج ہونے کو اپنی درخواست میں چیلنج کیا ہے۔
کیا عمران خان کو رہائی ملے گی؟ توشہ خانہ کیس میں اپیل پر سماعت ملتوی
سپریم کورٹ نے عمران خان کیخلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ بادی النظر میں غلط قرار دے دیا
انہوں نے استدعا کی کہ عدالت فوری طور پر اس درخؤاست پر سماعت کرے۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے ملاقات سے متعلق درخواست دائر کی تو چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اس حوالے سے آرڈرپاس کردوں گا۔ تاہم انہوں نے وکیل کو اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے استفسارپر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدربتایاکہ سیشن عدالت کوپیش کرنےکے احکامات جاری کیے جانے چاہیے تھے نہ کہ عدم پیروی کی بنیاد پرضمانتیں خارج کی جاتیں سیشن عدالت کا عدم پیروی پرضمانت خارج کرنےکاحکم کالعدم قراردیا جائے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ضمانت قبل ازگرفتاری تھی ،عدم پیشی جان بوجھ کرنہیں تھی، عدالت نےدرخواستیں خارج کیں سپریم کورٹ فیصلے میں کہا گیا ملزم کوایسی صورتحال میں دوبارہ عدالت سے رجوع کرناچاہیے۔
وکیل نے چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت کے بعد دوبارہ گرفتاری کے خدشے کا بھی اظہارکیا عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کواعتراضات دورکرنے کی ہدایت کردی
توشہ خانہ فوجداری کیس میں پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی سزا معطل کردی گئی ہے، لیکن ان کے ضمانتی مچلکے جمع نہ ہوسکے، مچلکے جمع نہ ہونے کے باعث رہائی کا روبکار جاری نہ ہوا۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ضمانتی مچلکے کل جمع کرائے جائیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے منگل کو محفوظ فیصلہ سنایا، جس میں سپریم کورٹ کے قائم علی شاہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار ضمانت کا حقدار ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ فوجداری کیس میں سزا معطل کردی گئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپیل پر گزشتہ روز محفوظ ہونے والا فیصلہ سنا دیا۔ اور چئیرمین تحریک انصاف کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرلی۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرتے ہوئے عمران خان کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق اورجسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے پیر 28 اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، اور آج 11 بجے سنانے کا کہنا گیا تھا، تاہم دو بار وقت دینے کے بعد بالآخر 1 بجے فیصلہ سنا دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ایک بجے کے قریب مختصر فیصلے کا اعلان کیا۔ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ چئرمین تحریک انصاف کی سزا کے خلاف اپیل کو منظور کیا جاتا ہے، حکم نامہ تحریر ہو رہا ہے کچھ دیر میں مل جائے گا۔ تحریری فیصلے میں سزا معطلی کی وجوہات بتائی جائیں گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کا 8 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ شام 5 بجے جاری کیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے عمران خان کی تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا معطل کی جاتی ہے۔
سزا معطلی کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے قائم علی شاہ کیس کا حوالہ بھی شامل کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ پر سزا کا فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کیس میں سزا معطل ہو، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ضمانت دینا یا انکار کرنا ہائی کورٹ کی صوابدید ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں دی گئی سزا کم دورانیے کی ہے، عدالت سمجھتی ہے کہ درخواست گزار سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا حقدار ہے، سزا معطلی کی درخواست منظور کر کے پانچ اگست کو ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے، درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرانے پر ضمانت پر رہا کیا جائے۔
دوسری جانب کیس کا فیصلہ ہوتے ہی بشری بی بی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملنے اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل پہنچ گئیں، پولیس نے انہیں ناکے پر روک لیا، اور کچھ دیر بعد انہیں جیل کے اندر جانے کی اجازت دے دی، جب کہ ان کے ساتھ جانے والے دیگر افراد کو ناکے پر ہی روک لیا گیا۔
بشریٰ بی بی نے عمران خان سے ایک گھنٹہ ملاقات کی اور واپس روانہ ہوگئیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ سے توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے بعد اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان کی نااہلی کے حوالے سے کیا ہوگا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی تین برس کی سزا معطل کردی ہے اور ان کی رہائی کا حکم دے دیا ہے۔ عمران خان کسی اور مقدمے گرفتار نہ ہوئے تو وہ آج جیل سے باہر آجائیں گے۔
تاہم عمران خان کی سزا صرف تین برس قید ہی نہیں تھی بلکہ انہیں الیکشن لڑنے کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا تھا۔
آج نیوز کے شوکت پراچہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی نااہلی سزا کی وجہ سے تھی، ہائیکورٹ سے سزا معطل ہونے کے بعد عمران خان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کی نااہلی ختم ہو گئی ہے۔
تاہم شوکت پراچہ کے مطابق فوری طور پر عمران خان کی رہائی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔
دوسری جانب ایک قانونی رائے یہ بھی ہے کہ عمران خان کی سزا معطل ہوئی ہے لیکن ان کی conviction معطل نہیں ہوئی یعنی ان کا جرم ختم نہیں ہوا۔ اس صورت میں ان کی نااہلیت برقرار رہے گی۔
آج نیوز اسلام آباد کے بیوروچیف طارق چوہدری کے مطابق پاکستان میں اعلیٰ عدالتوں کو تین برس یا اس سے کم سزا کسی بھی وقت معطل کرنے کا اختیار ہے تاہم مقدمہ جاری رہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کے معاملے میں عدالت نے سزا معطل کی ہے بری نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد کی عدالت نے پانچ اگست کو عمران خان کو سزا سناتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان پر کرپٹ پریکٹسز کا جرم ثابت ہوا ہے، اور عدالت نے عمران خان کو تین برس قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
عدالت کی جانب سے پیر کو ہی فیصلہ سنائے جانے کی توقع تھی لیکن الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے دلائل تین گھنٹے تک چلتے رہے جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے، اور چیرمین پی ٹی آئی کے وکلا لطیف کھوسہ، بابراعوان، علی گوہر اور سلمان اکرم راجا عدالت پیش ہوتے رہے ہیں۔ اور دو رکنی بینچ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کیس کی سماعتیں کی۔
گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ فیصلہ آج ہی کر دیں گے، لیکن کچھ دیر بعد بتایا گیا کہ توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کل صبح گیارہ بجے یعنی آج سنایا جائے گا، عدالتی عملے نے چیرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کو آگاہ کردیا تھا۔
یاد رہے کہ عمران خان کے وکلا نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ دونوں جگہ درخواستین دائر کررکھی ہیں۔
بدھ 23 اگست کواس حوالے سے سپریم کورٹ میں ہونےوالی سماعت میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ، ’بادی النظرمیں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں‘۔
سپریم کورٹ نے قراردیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک سپریم کورٹ کا 3 رُکنی بینچ معاملے میں مداخلت نہیں کرے گا۔
اٹارنی جنرل آفس نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو جیل میں سہولیات کی فراہمی سے متعلق رپورٹ تیارکرلی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں عمران خان کو بہتر کلاس کی سہولیات فراہم کٸی گئی ہیں۔
اٹارنی جنرل کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل کے سے سے زیادہ محفوظ ہائی آبزرویشن بلاک میں رکھا گیا ہے جبکہ ملحقہ بیرکس کو بھی خالی رکھا گیا ہے۔ ان کی بیرک کا سائز 9 بائی 11 ہے۔
رہورٹ کے مطابق عمران خان کے واش روم کی دیوار6 فٹ اونچی اورسائز7 بائی 4 ہے۔ اس کے علاوہ انہیں وائٹ واش، پکے فرش اور ایک پنکھے کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔
’بیٹرکلاس‘ کی بدولت عمران خان کو میٹرس، ائرکولر، 4 تکیے، میز اور کرسی بھی دیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ انہیں قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ اور 25 تاریخی کُتب بھی مہیا کی گئی ہیں۔ انہیں 12 انچ کا ٹی وی دیا گیا ہے اور روزانہ اخبار بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
عمران خان کو روزانہ بیرک اور کی صفائی، کپڑوں کی دھلائی کیلئے بھی اسٹاف دیا گیا ہے۔
جیل میں عمران خان کی سیکیورٹی یقینی بنانے کیلئے 54 اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔
اتارنی جنرل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق عمران خان کئ اہلخانہ ان سے ہرمنگل کو 2 سے 3 گھنٹے کی ملاقات کرسکتے ہیں، وکلاء کو بدھ والے روز ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔اس قانون کے تحت 7 تا23 اگست انہوں نے 3 بار اہلیہ بشریٰ بی بی اور 3 ہی بار کی 3 باروکلاء سے ملاقات کی۔
اس کے علاوہ 5 ڈاکٹرزکی ٹیم ان کا طبی معائنہ کرتی ہے۔
اٹارنی جنرل آفس نے یہ رپورٹ سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ کو پیش کردی ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ جس میں جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں نے جیل میں عمران خان کی حالت پر رپورٹ گذشتہ ہفتے طلب کی تھی۔
توشہ خانہ سزا معطلی کیلئے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ آج متوقع
پیر کے روز یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے۔ رپورٹ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں جمع کرائی گئی۔
امکان ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ جلد ہی اس معاملے پر سماعت کرے گا۔
اس سے قبل ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو فرمائش پرانہیں دیسی گھی میں تیاردیسی چکن اور بکرے کا گوشت بھی دیا جاتا اور یہ کہ عمران خان کی فرمائش پر انہیں ان کی پسند کی اشیاء رقم کی ادائیگی پر فراہم کی جاتی ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف کوجیل کے سامنے کاریڈورمیں چہل قدمی اجازت ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے جے آئی ٹی کو 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے بتایا کہ جلاو گھیراؤ میں میری پارٹی کے کارکن نہیں کوئی اور افراد تھے، جنہوں نے لوگوں کو پکڑا تھا لوگ انہی کی طرف گئے، پولیس پکڑتی تو وہ تھانے جاتے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن عمران کشور کی سربراہی میں جے آئی ٹی ٹیم جمعے کے روز عمران خان سے 9 مئی کے واقعات سے متعلق تفتیش کے لئے اٹک جیل پہنچی اور ان سے سوالات کیے۔
ذرائع نے بتایا کہ چئیرمین پی ٹی آئی پر 9 مئی سے متعلق دہشتگردی کے 6 مقدمات درج ہیں، اور جے آئی ٹی نے عمران خان سے 6 مقدمات کی ہی تفتیش کی۔
مزید پڑھیں: سانحہ 9 مئی کا ایک اہم مطلوب شر پسند گرفتار
ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے چیئرمین پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ 9 مئی کے واقعات میں آپ کی جانب سے اشتعال دلانے کے شواہد موجود ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے جے آئی ٹی کو جواب دیا کہ میں گرفتار ہوگیا تھا، میں نے کسی کو فون کرکے اشتعال نہیں دلایا۔
مزید پڑھیں: شاہ محمود قریشی کے بعد عمران خان بھی سائفر گمشدگی کیس میں گرفتار
جے آئی ٹی نے چیئرمین سے سوال کیا کہ لوگ کنٹونمنٹ کے علاقے میں کیوں گئے تھے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ جنہوں نے لوگوں کو پکڑا تھا وہ انہی کی طرف جانا تھا، آپ کے لوگ انہیں پکڑتے تو وہ تھانوں کی طرف جاتے۔
جے آئی ٹی نے سوال اٹھایا کہ ایسی ویڈیوز اور کلپس موجود ہیں جن میں مظاہرین آپ کا نام لیتے نظر آتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایف آئی آر میں سائفر میرے پاس ہونے کا الزام نہیں، شاہ محمود قریشی
جے آئی ٹی کے سوال پر چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ میں نے کسی کو نہیں اکسایا سب اپنے طور پر کنٹومنٹ کے علاقے میں گئے، جلاو گھیراؤ میں میری پارٹی کا کارکن نہیں کوئی اور افراد تھے۔
جے آئی ٹی نے چئیرمین سے کہا کہ آپ کے اشتہاری ملزمان اسلم اقبال، حماد اظہر اور مراد سعید سے رابطوں کے کچھ شواہد ملے ہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان کیخلاف سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان گواہ بن گئے، سائفرگُم کرنے کا بھی الزام
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شواہد ہیں تو رابطہ کرنا کون سا جرم ہے، آپ کو جو بات کرنی ہے میرے وکیل سے کریں۔ جس پر جے آئی ٹی نے کہا کہ آپ وکیل کو عدالت میں بلائیے گا، ہم تفتیش کرنے آئے ہیں۔
گزشتہ روز وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی تفتیشی ٹیم نے بھی سائفر گمشدگی معاملے پر چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان سے اٹک جیل میں تحقیقات کیں۔
مزید پڑھیں: سائفر اب بھی عمران خان کے پاس ہے، گرفتاری ضروری، سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلے گا، رانا ثنا الل
ذرائع نے بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر ایاز کی سربراہی میں ایف آئی اے کی 6 رکنی ٹیم نے سابق وزیراعظم سے ایک گھنٹہ سے زائد تفتیش کی، اور سوالات کرتی رہی جس میں چیئرمین پی ٹی آئی سے سائفر گمشدگی کے حوالے سے بھی سوالات کئے گئے۔
عمران خان نے ٹیم کے سامنے سائفر گم ہونے کا ایک بار پھر اعتراف کرلیا۔ اور کہا کہ عمران خان نے ٹیم کو بتایا کہ انہیں یہ یاد نہیں کہ انہوں نے مراسلہ کس کو دیا تھا اور کہاں رکھا تھا۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے ٹیم اس سے پہلے بھی عمران خان سے پوچھ گچھ کر چکی ہے۔