Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
سابق وزیراعظم اور سینئر رہنما پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹر یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت نہیں سمجھتا لیکن پھر بھی اس پر پابندی کے حق میں نہیں ہوں۔
ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں یوم شہداء پر قوم کو پیغام دیتا ہوں یہ ملک بہت قربانیوں اور طویل جستجو کے بعد حاصل کیا گیا تھا، نیوکلیئر پاور کے ساتھ ساتھ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری فوج اور ایف سی سمیت ایجنسیوں نے بہت قربانیاں دی ہیں، ملک کے اندر اور باہر کے دشمن مذموم عزائم رکھتے ہیں۔
9 مئی کے واقعات پر سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو)،کور کمانڈر ہاؤس سمیت فوجی تنصیبات پر حملے پاکستان پر حملہ تصور ہوگا۔
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ جو حرکت کی گئی اس کے بعد پی ٹی آئی کا حشر قوم کے سامنے ہے، دنیا میں کونسا ملک ہے جو اپنے دفاعی معاملات میں مداخلت کی اجازت دیتا ہے کہیں بھی ایسا ہوتا تو سخت ردعمل آتا لیکن ہماری فوج نے صبر سے کام لیا۔
تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے والوں سے متعلق ایک سوال پر پی پی رہنما نے کہا کہ ان کے کوئی سیاسی نظریات تو تھے نہیں، جیسے لائے گئے ویسے ہی واپس جارہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کی پیپلز پارٹی میں واپسی کے سوال پر ان کا کہناتھا کہ شاہ محمود قریشی کی واپسی کا فیصلہ میں نے نہیں، پارٹی نے کرنا ہے، دوسری جماعتوں سے آنے والوں کی واپسی کا فیصلہ کیس ٹو کیس کیا جائے گا جب کہ اس دوران ان رہنماوں کے سابقہ بیانات کو بھی دیکھا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مراد سعید کا تحفظ یقینی بنانے کی درخواست کردی۔
عمران خان نے سوشل میڈیا کے ذریعے مراد سعید کو تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کی ہے۔ اپنے ٹوئٹ پر انھوں نے پی ٹی آئی رہنما کا چیف جسٹس کے نام خط شئیر کردیا۔
عمران خان نے لکھا کہ محترم چیف جسٹس صاحب! سابق وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی مراد سعید نے اس خط کے ذریعے آپ کو اپنی زندگی کو لاحق سنگین خطرات سے آگاہ کیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس صاحب ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو مراد سعید کی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ میری (محترم چیف جسٹس صاحب سے) گزارش ہے کہ مراد سعید کی زندگی کے تحفظ کیلئے جو کچھ آپ کے بس میں ہے، ازراہِ کرم کیجئے!
رہنما پاکستان تحریک اںصاف (پی ٹی آئی) لال چند ملہی کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ختم کرنے میں نامعلوم افراد اور پی ڈی ایم کو ناکامی کا سامنا پڑے گا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں بات کرتے ہوئے لال چند ملہی نے کہا کہ موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ لائی تھی مگر وہ مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے، نامعلوم افراد کی خواہش تھی وہ پی ٹی آئی کو ختم کردیں گے لیکن اس میں انہیں ناکامی ہوگی۔
لال چند ملہی نے کہا کہ عمران خان اپنے نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ ڈریں گے نہیں، سب کو معلوم ہے شیریں مزاری نے تحریک انصاف کو کیوں چھوڑا، پی ٹی آئی پڑھےلکھےلوگوں کی جماعت ہے، یہ لوگ چاہتے ہیں ہمیں سیاست سے الگ کردیا جائے۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پارٹیوں پرمشکل آتا ہے اور چلا جاتا ہے، پی ٹی آئی کا حقیقی آزادی کا نظریہ ملک میں 75 سال سے حکومت کرنے والوں کے خلاف ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں آئین بحال ہو اور اس پر عملدرآمد ہو۔
9 مئی واقعات کے حوالے سے لال چند ملہی نے کہا کہ ہم نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی، ہمارا ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں، البتہ عمران خان نے کرپشن سے نفرت کی ہے۔
میڈیا کی آزادی سے متعلق لال چند ملہی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی دورمیں میڈیا زیادہ آزاد تھا، اس وقت عمران خان پر ان کی حکومت پر تنقیدہوتی تھی لیکن آج جو میڈیا کے ساتھ ہو رہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہو۔
اس موقع پر سابق گورنر سندھ اور رہنما ن لیگ محمد زبیر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی بنیاد انتہائی نفرتوں پر تھی، انہوں نے سیاست میں مذہبی ٹج دینے کے ساتھ نفرت کا بیج بویا، اسی لئے ان کے ساتھ یہ ہونا تھا۔
محمد زبیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے مخالفین کو صرف گرفتار ہی نہیں کیا بلکہ ڈرایا اور دھمکایا بھی گیا تھا، مریم نواز والد سے ملنے جیل آئی تو انہیں وہاں سے گرفتار کیا گیا۔
لیگی رہنما نے کہا کہ پی پی اور ن لیگ نے میثاق جمہورت کیا، 2008 سے 2018 تک سیاسی ماحول اچھا تھا، لہٰذا ذات کے بجائے پالیسیوں پر بات ہونا چاہئے، ملک کو صاف اورشفاف الیکشن کی ضرورت ہے، اگر صاف و شفاف الیکشن نہیں ہوگا تو بات نہیں ہو سکتی۔
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ملیکہ بخاری، مسرت اور جمشید اقبال چیمہ نے پارٹی سے راہیں جدا کرلیں۔ ملیکہ بخاری پریس کانفرنس کے دوران آبدیدہ بھی ہوئیں۔
اسلام آباد میں مسرت چیمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمشید اقبال چیمہ نے پی ٹی آئی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے کہا کہ 9 مئی میری زندگی کا بدقسمت ترین دن تھا، خون میں شامل سیاست کو چھوڑنا مشکل کام ہے۔
انھوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں، ہم پرُتشدد واقعات کو روکنے میں ناکام ہوگئے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد حملے کا پروگرام نہیں تھا، جناح ہاؤس کے باہر صرف احتجاج کرنا تھا، لوگوں کا جناح ہاؤس میں داخل ہونا میرے لئے حیران کن تھا۔
انھوں نے کہا کہ 13ماہ میں بننے والے بیانیے کی وجہ سے 9 مئی کا واقعہ ہوا جو ناقابل فراموش ہے، حملےمیں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے جس کی ہم حمایت کرتے ہیں۔ مجمعے کا جناح ہاؤس کی طرف جانا بڑی ناکامی ہے، ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں ، سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
جمشید اقبال چیمہ کا کہنا تھا کہ پُرتشدد واقعات کو نہ روکنے پر خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں، ہم ملک کیلئے کچھ کرنے کیلئے سیاست میں آئے تھے، کاش ہم 9 مئی کا دن پاکستان کی تاریخ سے نکال سکتے، ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہوجائے گا۔
مسرت چیمہ نے کہا کہ ہم نے پارٹی بغیر کسی دباؤ کے چھوڑی ہے، مجھے میرے میاں اور بچوں کی زندگیاں عزیز ہیں، کینسر کے مرض میں مبتلا بیٹے سے کبھی اتنا عرصہ الگ نہیں رہی، عمران خان سمیت ہم سب کو قوم کو جوڑنے کی ضرورت ہے، خان صاحب اور ہم سب کو تعمیری اقدامات کرنے چاہئیں۔ فوج پاکستان کی آزادی کی علامت ہے، اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
اس سے قبل پی ٹی آئی رہنماء جمشید اقبال چیمہ اور مسرت چیمہ کو اڈیالہ جیل سے رہا کریا گیا تھا۔ دونوں رہنماؤں کو دو دن قبل رہائی کے بعد دوبارہ نظر بند کیا گیا تھا۔
دوسری طرف اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملیکہ بخاری نے 9 مئی کے واقعات کی بھرپور مذمت کرتے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہرپاکستانی شہری کیلئے 9 مئی کا دن تکلیف دہ دن تھا، میں جانتی ہوں عوام کے دلوں میں شہیدوں کیلئے بہت جذبہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں نظام عدل میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہتی ہوں، میں نے اپنی فیملی اور وکالت کو وقت دینے کا فیصلہ کیا ہے، اپنے پروفیشن ، والدہ اور بیٹی کو وقت دینا چاہتی ہوں اس لئے پارٹی چھوڑنے کی مختلف وجوہات ہیں لیکن مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔
جیل میں درپیش پریشانیوں سے متعلق ملیکہ بخاری نے کہا کہ جیل کی مشکلات کا سامنا کرنا مشکل ہے، دلیری سے حالات کا سامنا کیا، جیل میں میرے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کی گئی، جیل میں سی کلاس تھی، جس سے مشکل ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو کچھ ہوا اس سے ہر پاکستانی پریشان ہے، 9 مئی کو جو لوگ ملوث تھے ان کےخلاف تحقیقات ہوں گی، ملک کو یکجہتی اور امن کی ضرورت ہے، سب کو ملکر ملک میں امن کو ترجیح دینا چاہئے، عوام ملک میں امن اور بہتر معیشت چاہتے ہیں، لوگوں کی خواہش ہے کہ ملک میں آئین وقانون کی بالادستی ہو۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے کچھ ہی دیر پہلے ملیکہ بخاری کو اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا تھا۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو فنڈنگ کرنے والے 27 افراد کی گرفتاری امکان ہے۔
اسلام آباد پولیس نے تحریک انصاف کو فنڈنگ کرنے والے 27 افراد کی فہرست بنا لی جن میں مختلف یونین کونسلز کے چیئرمین اور ٹھیکدار شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق 27 افراد کی فہرست وزارت داخلہ کو بھیج دی، فہرست میں شامل افراد کے خلاف مقدمات درج ہیں، لہٰذا وزارت داخلہ کی منظوری سے ان کی گرفتاری کا امکان ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اسپیشل برانچ کو تمام افراد کی مانیٹرنگ کا ٹاسک دے دیا گیا، فہرست میں شامل بیشتر افراد روپوش جب کہ 3 لوگ تحریک انصاف چھوڑ بھی چکے ہیں۔
جی ایچ کیو، آئی ایس آئی آفس، پی ایف بیس پر حملے کے کرداروں کی نشاندہی کرلی گئی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد حساس تنصیبات پر حملہ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے شرپسند عناصر کی نشاندہی اور گرفتاریاں جاری ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق 9 مئی کو جی ایچ کیو، پی ایف بیس پر حملے کے کرداروں کی نشاندہی کرلی گئی، اور انکشاف ہوا ہے کہ 3 شہروں میں تحریک انصاف کے 15رہنما شرپسندوں سے رابطوں میں رہے، اور ان تمام رہنماؤں کی نشاندہی جیو فینسنگ رپورٹ میں ہوئی۔
پولیس ذرائع کے اعداد وشمار کے مطابق جی ایچ کیو حملے میں 88 شرپسندوں سے 5 رہنما رابطوں میں رہے، ان میں واسق قیوم کی 8، اجمل صابر راجا کی7 کالز ٹریس ہوئیں۔ طارق محمود کی 9، راجا عثمان ٹائیگر کی 6 کالز ثابت ہوئیں۔ راجا راشد حفیظ کی 2 اور عمر تنویر کی 3 کالز شرپسندوں سے ملیں۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی دفتر پر حملہ کرنے والے شرپسند 4 رہنماؤں سے رابطے میں رہے، ان میں فیض اللہ کی 54 ، رانا اسد کی 86 کالز ٹریس ہوئیں۔ لطیف نذیر کی 108اور ایاز ترین کا 36 بار رابطہ ثابت ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی ایف بیس حملے میں 50 شرپسند 5 رہنماؤں سے رابطےمیں رہے، اور ان میں احمد خان بھچر کی 15، آمین اللہ خان کی 20، امجد خان کی 24، عبدالرحمان ببلی کی 6، اور سلیم گل نامی رہنما کی شرپسندوں کے ساتھ 104 کالز شرپسندوں سے رابطے کا ذریعہ بنیں۔
گزشتہ روز ٹیکنیکل تجزیے اور جیوفینسنگ سے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے رابطوں سے متعلق ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے، اور پی ٹی آئی قیادت کی چھ اہم شخصیات کے روابط کا ریکارڈ ملا تھا۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری سے قبل ہی گرفتاری کے خدشات پر ردعمل تیار کیا گیا تھا، جیوفینسنگ ریکارڈ کے مطابق 8 مئی زمان پارک اور 9 مئی جناح ہاؤس بلوے میں 154 موبائل نمبرز مشترک پائے گئے، اس دوران یاسمین راشد، حماد اظہر، محمود الرشید ، اعجاز چوہدری کے بلوایوں سے رابطے تھے، جب کہ اسلم اقبال اور مراد راس بھی بلوائیوں سے مسلسل رابطے میں رہے۔
ریکارڈ کے مطابق 215 کالرز 9 مئی کو 6 رہنماؤں کے ساتھ رابطوں میں رہے، ان میں سے یاسمین راشد کا رابطہ بذریعہ کالز41 بار ہوا، حماد اظہر کے موبائل نمبر سے 10 کالز شرپسندوں کو کی گئیں، اور محمود الرشید 75 بار موبائل رابطوں کے ساتھ سرفہرست رہے۔
جیو فینسنگ ریکارڈ کے مطابق اعجازچوہدری کی جانب سے کی جانے والی اور موصول ہونے والی 50 کالز ریکارڈ میں آئیں، سابق وزیر اسلم اقبال کی 16 کالز اور مراد راس نے 23 کالز جناح ہاؤس میں موجود شرپسندوں کو کیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی یہ کوشش ناکام ہوگی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال 25 مئی کو فسطائیت کی گہرائیوں کی جانب ہمارے سفر کا آغاز کیا، ہماری حکومت کے ساڑھے تین سال کے دوران پی ڈی ایم نے 3 لانگ مارچ کئے، جن کی بغیر کسی رکاوٹ کے اجازت دی گئی، لیکن ہم پر ریاستی جبر کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ رات گئے گھروں پر دھاوا بولا گیا اور تحریک انصاف کے ذمہ داران اور کارکنان کو اغواء کیا گیا، اس کے بعد جو بھی اسلام آباد پہنچا اسے آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں اور پولیس کے ہاتھوں پوری وحشت و بربریت سے کچلا گیا، ہم میں سے بعض کا خیال تھا کہ یہ ظلم یہیں تک محدود رہے گا، لیکن یہ تو صرف آغاز ثابت ہوا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ آج پاکستان کی سب سے بڑی اور وفاقی سطح کی واحد سیاسی جماعت کو بلاخوفِ احتساب پوری شدت سے ریاستی جبر کے نشانے پر رکھ لیا گیا ہے، سینئر قائدین سمیت 10 ہزار سے زائد کارکنان اور ہمدردوں کو زندانوں کی نذر کر دیا گیا ہے، اور بعض کو زیرِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ 9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ، جس کی تحریک انصاف کی پوری قیادت مذمت کرچکی ہے، کی آڑ میں ریاست ”جبری علیحدگیوں“ وغیرہ کے ذریعے جماعت کو توڑنے کی کوششیں کررہی ہے، اور تحریک انصاف کے کارکنان پر فوجی عدالتوں میں مقدمے چلا رہی ہے، پی ڈی ایم اور صحافیوں کا وہ گروہ جو اس یزیدیت پر اچھل کود کرنے اور خوشیاں منانے میں مصروف ہیں، وہ جان لیں کہ ان اقدامات سے تحریک انصاف کو نہیں بلکہ ہماری جمہوریت کو کچلا جارہا ہے، یعنی براہِ راست ہم سے ہماری آزادی چھینی جارہی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی یہ کوشش ناکام ہوگی، کیونکہ آج ہماری نوجوانوں آبادی سیاسی طور پر نہایت باشعور ہے، اور میڈیا کی زباں بندی کے باوجود (سرکاری پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر) سماجی میڈیا کے ذریعے خود کو (قومی و سیاسی معاملات پر) مکمل آگاہ رکھے ہوئے ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت سابق گورنر پنجاب اور پی ٹی آئی رہنما عمر سرفراز چیمہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 8 جون تک توسیع کردی۔
جناح ہاؤس میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں گرفتار تحریک انصاف کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جج عبہر گل کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
تفتیشی افسر نے عمر سرفراز چیمہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرلیا، اور پی ٹی آئی رہنما کے جوڈیشل ریمانڈ میں 8 جون تک توسیع کردی۔
تحریک انصاف کی رہنما یاسمین راشد اور محمود الرشید نے کہا ہے کہ ہم پارٹی نہیں چھوڑے رہے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جناح ہاؤس توڑ پھوؤ جلاو گھیراؤ کیس میں گرفتار تحریک انصاف کی رہنما یاسمین راشد کوانسداد دہشتگردی عدالت لاہور میں پیش کردیا گیا۔ انسداد دہشت گردی کی جج عبہرگل خان نےکیس کی سماعت کی۔
پولیس کی جانب سے یاسمین راشد کے جسمانی ریمانڈ کی توسیع کی استدعا کی گئی تاہم عدالت نے پولیس کی استدعا مسترد کردی اور یاسمین راشد کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پرجیل بھیج دیا۔
احاطہ عدالت میں صحافی نے یاسمین راشد سے سوال کیا کہ کیا آپ بھی پی ٹی آئی چھوڑ رہی ہے۔ جس پر یاسمین راشد نے جواب دیا کہ میں پی ٹی آئی نہیں چھوڑ رہی، میں عمران خان کےساتھ کھڑی ہوں۔
انسداد دہشتگردی عدالت میں میڈیا سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے میاں محمود الرشید کا کہنا تھا کہ جو ہماری پارٹی کا گند تھا وہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں، میں عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوں، اور پارٹی چھورنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اس دوران پولیس اور میاں محمود الرشید کے وکلا کے درمیان تکرار ہوئی۔ محمود الرشید کا کہنا تھا کہ آپ مجھے مارنا چاہتے ہیں گاڑی میں پنکھا بھی نہیں لگا ہوا، گآڑی میں پنکھا لگوا دیں۔
محمود الرشید کے وکیل میاں صاحب دل کے مریض ہیں۔
جناح ہاؤس لاہور حملہ کیس میں ملڑی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے کمانڈنگ افسر نے 16 شرپسندوں کی حراست مانگ لی جبکہ عدالت نے کمانڈنگ افسر کی استدعا منظور کرلی۔
لاہور کے جناح ہاؤس میں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے مقدمے میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔
ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے کمانڈنگ افسر نے انسداد دہشت گردی عدالت سے 16 شرپسندوں کی حراست مانگ لی۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے کمانڈنگ افسر کی استدعا منظور کرتے ہوئے سابق ایم پی اے میاں اکرم عثمان سمیت 16 ملزمان کو کمانڈنگ آفیسر کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
دیگر ملزمان میں عمار ذوہیب، علی افتخار، علی رضا، محمد ارسلان، محمد عمیر، محمد رحیم، ضیا الرحمان، وقاص علی، رئیس احمد، فیصل ارشاد، محمد بلال حسین، فہیم حیدر، ارزم جنید، محمد حاشر خان اور حسن شاکر شامل ہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کمانڈر افسر کے مطابق ملزمان آفیشنل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 3، 7 اور 9 کے تحت قصور وار پائے گئے ہیں، ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پراسکیوشن نے کمانڈر کی درخواست پر اعتراض نہیں کیا، سپرنٹینڈنٹ کیمپ جیل 16 ملزمان کو مزید کاروائی کے لیے کمانڈنگ افسر کے حوالے کردے۔
یاد رہے کہ 16 ملزمان کے خلاف خصوصی عدالت میں ٹرائل ہوگا۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بہتری کی جانب گامزن ہے، دنیا کا مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ ہونا دشمنوں کو منہ توڑ جواب ہے۔
سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی میں گفتگو میں وزیر خارجہ نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی ہمارا بڑا اشو ہے ، عوام اور مجھے امید ہے کہ افغان عبوری حکومت ہمارے کور اشو کو ایسے دیکھیں گے جیسے یہ ان کا اپنا مسئلہ ہو۔
وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ سیکیورٹی کے مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تو تباہی ہوگی۔ ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ سرحد پار سے دہشت گرد پاکستان آرہے ہیں۔ دہشت گرد براہ راست ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدف بنا رہے ہیں، اس معاملے پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے پاس بارڈر منیجمنٹ فورس نہیں ہے سرحد کے معاملات کا انتظام دو طرفہ طور پر چلایا جاتا ہے۔ ٹی ایل پی اور دیگر بلوچسستان کی کالعدم تنظیم کا مسئلہ ہمارے مؤقف کو سمجھ کر حل کرنا چاہیے۔ جب تک مسئلہ حل نہیں ہوتا تو باہمی تعلقات میں مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے۔ افغان حکومت کے ساتھ رابطے میں رہیں گا مل کر مسائل حل کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے گوا میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کے حوالے سے بتایا کہ اوپن فیلڈ بھارت کو نہیں دینا چاہتے تھے اس لئے ایس سی او اجلاس میں شرکت کی اور پاکستان کا بیانیہ دنیا کے سامنے رکھا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ نیوی کمانڈر کو پاکستان بھیجا گیا، بھارتی میڈیا بھی کلبھوشن سے متعلق زیادہ معلومات نہیں رکھتا اور میرے انٹرویو کے دوران کلبھوشن کا نام سن کر میزبان جذباتی ہوگیا تھا لیکن ہمارا حق ہے کہ عالمی سطح پر یہ معاملہ اٹھائیں۔
بھارتی وزیر خارجہ کی بات کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ ہم بات چیت کے حامی ہیں، پاکستان امن چاہتا ہے، بھارت اس راہ میں رکاوٹ ہے، بھارتی وزیرخارجہ کی پریس کانفرنس غیرذمہ دارانہ تھی، بھارتی وزیرخارجہ کے الزامات کا بھرپور انداز میں جواب دیا۔ بھارت نے ایس سی او کے پلیٹ فارم کا غلط استعمال کیا، مستقبل میں پاکستان کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم کی میزبانی کا موقع ملے گا، ہم چاہتے ہیں کہ مل کر دہشت گردی کا حل نکالیں۔
انھوں نے کہا کہ دورہ بھارت میں پیغام پہنچایا کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں ، پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ اور پارلیمنٹیرین کو بھارتی اور دیگر غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرکے پاکستانی مؤقف کو اجاگر کرنا چاہیے۔ کشمیرمتنازع علاقہ ہے، عالمی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے اس حوالے سے بھی پاکستان اپنے اصولی مؤقف پر کھڑا ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد میں فضائیہ میڈیکل کالج کے دوسرے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاس ہونے والے تمام طلباء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اپنی روایات اور اقدار کو کبھی مت بھولیں۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ امید ہے کامیاب طلباء ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے، ہر مشکل آپ کو مضبوط بنائے گی، طلباء معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا اس وقت متعدد چیلنجز کا سامنا کررہی ہے، ہماری خارجہ پالیسی بہتری کی جانب گامزن ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ دنیا کو اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات پر دنیا پاکستان کے ساتھ ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کا مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ ہونا دشمنوں کو منہ توڑ جواب ہے، پاکستان نے جس طرح کورونا کا مقابلہ کیا وہ بھی دنیا کے سامنے ہے، جدید ٹیکنالوجی اپنانے والے ملک ترقی کریں گے، ہمیشہ کوشش رہی کہ میڈیکل کے شعبے میں ترقی لائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ گمبٹ کی تحصیل کے سرکاری اسپتال میں لیور ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے، گمبٹ کے سرکاری اسپتال میں مفت بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے سندھ میں نظر بندی افراد کے مقدمات میں بڑا حکم جاری کرتے ہوئے نظر بندی کے خلاف دائر تمام مقدمات کو یکجا کردیا۔
عدالت نے نظر بند شہریوں کے تمام مقدمات ایک ساتھ 29 مئی کو سننے کا حکم جاری کردیا۔
عدالت نے تمام درخواستوں کی نقول اور نوٹسز کی کاپی ایڈووکیٹ جنرل جنرل آفس کو فوری ارسال کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے شہری فرحان فرقان، انور علی اور نثاراحمد کی درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ نظربندی کے خلاف تمام درخواستیں 29 مئی کو سن کر فیصلہ کریں گے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہمیں پہلی درخواست کی کاپی اور نوٹس موصول نہیں ہوئے، ان درخواستوں کی سماعت آگے کی تاریخوں پر ملتوی کی جائے۔
چیف جسٹس احمد علی شیخ نے کہا کہ اد دہانی کا شکریہ، درخواستیں 29 کو ایک ساتھ ہی سنیں گے۔
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی کی بحالی کے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں درخواست گزار کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سماعت کی۔ درخواست گزار شفقت علی کے وکیل محمد عادل چٹھہ نے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔
درخواست میں پنجاب حکومت، سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور گورنر پنجاب کو فرق بنایا گیا ہے۔
عادل چھٹہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سنگل بینچ نے ان کے خلاف متاثرہ فریق نہ ہونے پر درخواست خارج کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ متاثرہ فریق کیسے ہیں؟،جس پر عادل چھٹہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اعلیٰ عدالتوں کے متعدد فیصلے موجود ہیں جن میں متاثرہ فریق ہونا ضروری نہیں،سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ قرار دے چکی ہیں کہ اسمبلی تحلیل مفاد عامہ کا معاملہ ہے،لاہور ہائیکورٹ نے سیاسی ورکر کی درخواست پر اسمبلی تحلیل کے معاملے کو پرکھا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دئیے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے،اس کے لیے مناسب فورم سپریم کورٹ ہے،آپ سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔
عدالت نے درخواست گزار کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔
سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سنگل بینچ نے حقائق کے منافی فیصلے جاری کیا، سنگل بینچ فیصلے کے مطابق درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے،مفاد عامہ کے مقدمے میں براہ راست متاثرہ فریق ہونا ضروری نہیں،پنجاب اسمبلی کی تحلیل غیر قانونی و غیر آئینی تھی،لاہور ہائیکورٹ نے 1988 میں اسمبلی کی تحلیل غیر قانونی قرار دیا تھا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی جانب سے بھیجی گئی ایڈوائس آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کرتی،ایک لائن کی تجویز میں اسمبلی تحلیل کرنے کی وجوہات کا ذکر نہیں،اختیارات کا اس قسم کا استعمال آئین اور عدالتی فیصلوں کے منافی ہے،آئین عوامی عہدہ رکھنے والے افراد کو اس قسم کی من مانی کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے اس مقدمے کی سماعت اور بھی زیادہ ضروری ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ایڈوائس کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے، عدالت پنجاب اسمبلی کو بحال کرنے کا حکم دے۔
لاہور ہائیکورٹ نے ایم پی او 3 اور 16 کے تحت نظربندیوں کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو معاونت کے لیے طلب کر لیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے تحریک انصاف کی سابق رکن اسمبلی زنیب عمیر کی درخواست پر سماعت کی جس میں ایم پی او کے تحت نظربندیوں کو چیلنج کیا گیا۔
عدالت نے ایم پی او اور 16 کے تحت ہونے نظر بندیوں پر تفصیلی اور جامع رپورٹ مانگ کی۔
عدالت نے ہدایت کی اب تک ہونے نظر بندیوں پر رپورٹ داخل کی جائے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا۔
درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق نے بتایا کہ ایم پی او 3 اور 16کے تحت نظر بندیاں کی جا رہی ہیں، وکیل کے مطابق ایم پی او 3 اور 16 آئین کے آرٹیکل 10 کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ نقص امن کے قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور کسی شہری کو نظر بند کرنے سے پہلے شوکاز نوٹس دینا چاہیئے لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ ایم پی او سیکشن 16 اور 3 کو کالعدم قرار دیا جائے جبکہ درخواست پر آیندہ سماعت 12 جون کو ہوگی۔
لاہور ہائیکورٹ نے اسکول ٹیچرز کی ٹائم اسکیل پروموشن واپس لینے کے خلاف درخواست پر اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب کو اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتیوں سے روک دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد نے خاتون ٹیچر عاصمہ یاسین سمیت 10 اساتذہ کی درخواست پر سماعت کی۔
اساتذہ کی طرف سے میاں داؤد ایڈووکیٹ نے دلائل دیے اور عدالت کو بتایا کہ گورنر کی منظوری سے پنجاب بھر کے اساتذہ کو ٹائم اسکیل پروموشن دی گئی، ایک سال گزرنے کے بعد محکمہ خزانہ کے ایک جونیئر افسر نے اساتذہ کی حد تک پالیسی تبدیل کر کے ٹائم اسکیل پروموشن واپس لے لی۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے 2 الگ الگ فیصلوں میں ٹائم اسکیل پروموشن واپس لینے کا اقدام غیرقانونی قرار دیدیا گیا۔
عدالت عالیہ نے سیکرٹری خزانہ کو دوبارہ قانون کے مطابق ٹائم اسکیل پروموشن پر فیصلے کا حکم دیا لیکن سیکرٹری خزانہ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف دوبارہ ٹائم اسکیل پروموشن واپس لینے کے احکامات جاری کر دیے۔
درخواست گزار کے وکیل میاں داؤد نے بتایا کہ سیکرٹری خزانہ اور محکمہ خزانہ کے افسر کو گورنر کی پالیسی تبدیل یا ترمیم کرنے کا اختیار نہیں، استدعا ہے کہ عدالت اساتذہ کی ٹائم سکیل پروموشن واپس لینے کے نئے احکامات غیرآئینی قرار دے کر کالعدم کرے۔
عدالت نے اساتذہ کو ٹائم اسکیل پرموشن کی مد کی گئی ادائیگیوں کو ریکوری کے لیے تنخواہوں سے کٹوتی کو روکتے ہوئے سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری سکولز ایجوکیشن کو تین ہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
تحریک انصاف کے سابق ایم این اے حیدر علی اور سابق ایم پی اے جاوید اختر نے پارٹی سے راہیں جدا کرلیں۔
9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد سے اب تک تحریک انصاف کے بیشتر رہنما اور کارکنان پارٹی سے راہیں جدا کرچکے ہیں، گزشتہ روز بھی پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین فواد چوہدری نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا تھا جب کہ جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی اسد عمر نے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اسلام آباد میں سینیٹر عبدالقادر کی پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنا ضروری ہے، سیاست میں نفرت اور تشدد کا راستہ تمام جماعتوں نے اختیار کیا۔
انہوں نے کہاکہ آج پوری قوم یوم تکریم شہدا منارہی ہے، پاک فوج کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، مضبوط فوج ملکی سلامتی کی ضامن ہے۔
سینیٹر عبدالقادر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی پوری قوم مذمت کر رہی ہے، آرمی تنصیبات پر حملوں کی مذمت کرتا ہوں، البتہ میں بلوچستان سے آزادحیثیت سے رکن منتخب ہوا اور اس وقت سینیٹ میں آزاد حثیت سے کام کر رہا ہوں۔
جلال پور سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے ملک اکرم نے پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرلی ہیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعے کی مذمت کرتے ہیں، شہدا نے پاکستان کیلئے لازوال قربانیاں دیں، پاکستان اور افواج پاکستان لازم وملزوم ہیں۔
ملک اکرم نے کہا کہ جو لوگ جلاؤ گھیراؤ میں شامل تھے ان کو سزا ملنی چاہئے، ہم پاکستان اور ریاست کے ساتھ ہیں، حلقے کےعوام سے مشاورت کرکے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
اسلام آباد میں تحریک انصاف کے رہنما اور سابق ایم این اے ڈاکٹر حیدرعلی نے بھی پارٹی کو خیرباد کہتے ہوئے پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
سابق ایم این اے کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر حیدرعلی کو پارٹی میں خوش آمدید کہتے ہیں، ہماری جماعت نے ہمیشہ ورکرز اور لیڈرز کی عزت کی ہے، جب بھی مشکل وقت آیا کارکنان اور لیڈر ساتھ رہے، اسلام آبادکاسیاسی موسم بہت گرم ہے، عمران خان جلد امریکا میں سیاسی پناہ لیں گے۔
تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے اورسابق مشیر وزیراعلی پنجاب جاوید اختر انصاری نے بھی اپنی پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید انصاری کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعے کی بھرپور مذمت کرتےہیں، ہم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں
جاوید اختر انصاری نے کہا کہ تحریک انصاف کا 2 بار رکن رہ چکا ہوں اور اب بھی مجھے میرے حلقے سے عمران خان نے ٹکٹ دیا ہے، لیکن میں پارٹی ٹکٹ واپس کرتا ہوں، ہم پر کوئی دباؤ نہیں ہے، سیاسی مستقبل کافیصلہ دوستوں کی مشاورت سے کریں گے۔
پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگراں حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کےمنافی ہے، الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ کے بہانے قبول نہیں کرنے چاہیے۔
سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کی، جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پرآئے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تیسرا دن ہے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سن رہے ہیں، ہمیں بتایا جائے کہ آپ کا اصل نقطہ کیا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز آئینی اختیارات کو کم نہیں کرسکتے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ رولزعدالتی آئینی اختیارات کو کیسے کم کرتے ہیں، اب تک کے نکات نوٹ کر چکے ہیں، آپ آگے بڑھیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فل کورٹ کئی مقدمات میں قرار دے چکی ہے کہ نظرثانی کا دائرہ کار محدود نہیں ہوتا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی منطق مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے۔
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ نظرثانی درخواست دراصل مرکزی کیس کا ہی تسلسل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہوا میں تیر چلاتے رہیں گے، تو ہم آسمان کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے، کم از کم ٹارگٹ کر کے فائرکریں، پتا تو چلے کہنا کیا چاہتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے نظرثانی کا دائرہ کار مرکزی کیس سے زیادہ بڑا کر دیا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات کیلئے نگراں حکومت کا ہونا ضروری ہے، نگراں حکومت کی تعیناتی کا طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے، نگراں حکمرانوں کے اہلخانہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے، آئین میں انتخابات کی شفافیت کے پیش نظریہ پابندی لگائی گئی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی اسمبلی 6 ماہ میں تحلیل ہوجائے تو کیا ہوگا، کیا ساڑھے 4 سال تک نگراں حکومت کام کرتی رہے گی، ساڑھے 4 سال قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا جائے گا۔
وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ ساڑھے 4 سال نگراں حکومت ہی صوبے میں کام کرے گی، آئین کے ایک آرٹیکل ہرعمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی، آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے، انتخابات میں90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ ساڑھے 4 سال کیلئے نئی منتخب حکومت آسکتی ہے، آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے 4 سال رہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے، نگراں حکومت90 دن میں الیکشن کرانے ہی آتی ہے، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگراں حکومت کا دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے، نگراں حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ عدالت کی آبزرویشن سے متفق ہوں، آئین کی منشاء منتحب حکومتیں اور جہموریت ہی ہے، ملک منتحب حکومت ہی چلا سکتی ہے، جہموریت کو بریک نہیں لگائی جا سکتی، 1973میں آئین بنا تو نگران حکومتوں کا تصور نہیں تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین بنا تو مضبوط الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، نگران حکومتیں صرف الیکشن کمیشن کی سہولت کے لیے آئین میں شامل کی گئیں، شفاف انتحابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن فنڈز اور سیکورٹی کی عدم فراہمی کا بہانہ نہیں کرسکتے، کیا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ اپنے آئینی اختیارات سے نظر نہیں چرا سکتے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں 90دن کی نگران حکومت ساڑھے چار سال کیسے رہ سکتی ہے، آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پنجاب اور کے پی کے دونوں صوبوں میں ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا پنجاب انتحابات کا فیصلہ چیلنج ہوا تھا، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اس پر آپ نظر ثانی پر دلائل دے رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کے پی کے اسمبلی بھی تحلیل ہوئی تھی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میرے کہنے کا مطلب تھا کے پی کے اور پنجاب پورے ملک کا 70 فیصد ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر بلوچستان اسمبلی وت سے پہلے تحلیل ہو تو کیا اس پر آئین کا اطلاق نہیں ہوگا، نشستیں جتنی بھی ہوں ہر اسمبلی کی اہمیت برابر ہے، حکومت جو بھی ہو شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، کیا الیکشن کمیشن کہہ سکتا منتحب حکومت کے ہوتے ہوئے الیکشن نہیں ہوں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات سے معذوری ظاہر نہیں کر سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن تو کہتا تھا فنڈز اور سیکورٹی دیں تو انتحابات کروا دیں گے، آئین کے حصول کی بات کر کہ خود اس سے بھاگ رہے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 8 اکتوبر کی تاریخ حقائق کے مطابق دی تھی۔
جسٹس مینب اختر نے استفسار کیا اور کہا کہ 8 ستمبر کو الیکشن کمیشن مجھے کہے کہ الیکشن ممکن نہیں تو کیا ہوگا، الیکشن کمیشن دو سال کہتا رہے گا کہ انتخابات ممکن نہیں، انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے، صوابدید نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود کہا آئین کی روح جمہوریت ہے، کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے، تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی، جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتایج بھگتے، عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ میں صرف وسائل نہ ہونے کا ذکر تھا، الیکشن کمیشن کب کہے گا کہ اب بہت ہوگیا، انتخابات ہر صورت ہوں گے، اب الیکشن کمیشن سیاسی بات کررہا ہے، بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آوٹ 60 فیصد تھا، سیکیورٹی خدشات کے باوجود بلوچستان کے عوام نے ووٹ ڈالا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوں تو منفی قوتیں اپنا زور لگاتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی، آرٹیکل 224 کو سرد خانے میں کتنا عرصہ تک رکھ سکتے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے خدشات کی نہیں آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عام انتخابات کا مطلب صرف قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں ہوتا، ایک ساتھ انتخابات میں پانچ جنرل الیکشن ہوتے ہیں، وزیر اعظم اور وزاء اعلی 6 ماہ بعد اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو کمیشن کیا کرے گا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم اور وزاء اعلی کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کی ویٹو پاور ہے، وزیر اعظم اور وزیر اعلی جب چاہیں اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں، آئین کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر بتائیں الیکشن کمیشن کا موقف کیا ہے، نگراں حکومت اس لئےآتی ہے کہ کسی جماعت کوسرکاری سپورٹ نہ ملے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا نگراں حکومت جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ نگراں حکومت کی مدت کا تعین حالات کے مطابق ہوگا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نےانتخابات سےمعذوری ظاہرنہیں کی، سپریم کورٹ کوبھی کہاکہ وسائل درکارہیں، اب الیکشن کمیشن کہتا ہے انتخابات ممکن نہیں ہیں، پہلےکیوں نہیں کہاکہ وسائل ملنے پر بھی انتخابات ممکن نہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اپنے تحریری مؤقف میں بھی یہ نقطہ اٹھایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے صدر اور گورنر کو بھی حقائق سے آگاہ نہیں کیا، 2 دن تک آپ مقدمہ دوبارہ سننے پر دلائل دیتے رہے، ایک دن انتخابات سے آئین کی کون سی شق غیر مؤثر ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لیڈر آف ہاؤس کو اسمبلی تحلیل کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے، نظام مضبوط ہو تو شاید تمام انتخابات الگ الگ ممکن ہوں، فی الحال تو اندھیرے میں ہی سفر کر رہے ہیں جس کی کوئی منزل نظر نہیں آ رہی۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیاسی ماحول کو دیکھ کر ہی اٹھ اکتوبر کی تاریح دی تھی، 9 مئی کو جو ہوا اس خدشے کا اظہار کر چکے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن کو نو مئی پر بات کرنے سے روک دیا اور ریمارکس دیئے کہ ایسے نہیں ہوسکتا جو آپ کو سوٹ کرے وہ موقف اپنا لیں، کبھی الیکشن کی کوئی تاریخ دیتے ہیں کبھی کوئی، پھر کہتے ہیں الیکشن ممکن ہی نہیں، ہر موڑ پر الیکشن کمیشن نیا مؤقف اپنا لیتا ہے، آپ ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں،آج کے حالات میں فرق ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ موجودہ حالات میں انتحابات ممکن نہیں۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ آپ پھر آئینی اصولوں سے موجودہ حالات پر آگئے ہیں، آپ جواب دیں کہ کیا پانچوں اسمبلیوں کے الگ الگ انتخابات ہوسکتے ہیں۔
وکیل نے جواب دیا کہ نگراں حکومتیں ہوں توالگ الگ انتحابات ممکن ہیں، موجودہ حالات میں الگ الگ انتحابات ممکن نہیں، الیکشن کمیشن تمام سرکاری مشینری حکومت سےلیتاہے، نیوٹرل انتظامیہ نہیں ہوگی تو شفاف انتحانات کیسے ہوں گے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہونے کی بات کر رہے ہیں، ارکان قومی اسمبلی صوبائی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں، جس آئینی اصول کی بات آپ کرر ہے ہیں اس کے مطابق تو اسمبلی تحلیل ہی نہیں ہونی چاہیئے، اگر قومی اسمبلی پہلے تحلیل ہو جایے تو کیا صوبائی اسمبلی کو الیکشن کمیشن تحلیل کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن کی منتق مان لیں تو ملک میں منتخب وفاقی حکومت نہیں ہو گی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف پیش کیا کہ ایسی صورت حال میں آرٹیکل 224 حل دیتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 ہر اسمبلی کے لیے ہے صرف وفاق کے لیے نہیں۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ پنجاب میں 20 ضمنی انتخاب ہوئے جو مکمل شفاف تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعلی پنجاب اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے عدالت نے حکم دیا تھا، قومی اسمبلی کے انتخاب میں صوبائی حکومت کی مداخلت روکی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن شفاف اور مضبوط ہو تو مداخلت نہیں ہو سکتی، الیکشن کمیشن نے خود حل نہیں نکالا اب عدالت کو یہ اصول وضح کرنا ہوگا، یہ مسئلہ انتظامی طور پر حل ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ کے بہانے قبول نہیں کرنے چاہیے، الیکشن کمیشن کو حکومت سے ٹھوس وضاحت لینی چاہیے، کل ارکان اسمبلی کے لیے 20 ارب کی سپلیمنٹری گرانٹس منظور ہوئیں، الیکشن کمیشن کو بھی 21 ارب ہی درکار تھے، ارکان اسمبلی کو فنڈ ملنا اچھی بات ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود غیر فعال ہے، الیکشن کمیشن کے استعدادکار میں اضافے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن نے 4 لاکھ 50 ہزار سیکیورٹی اہلکار مانگے، ساڑھے چار لاکھ تو ٹوٹل آپریشنل فوج ہے، الیکشن کمیشن کو بھی ڈیمانڈ کرتے ہوئے سوچنا چاہیے، فوج کی سیکیورٹی کی ضرورت کیا ہے؟ فوج صرف سیکیورٹی کے لیے علامتی طور پر ہوتی ہے، فوجی اہلکار آرام سے کسی کو روکے تو لوگ رک جاتے ہیں، جو پولنگ سٹیشن حساس یا مشکل ترین ہیں وہاں پولنگ موخر ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہوم ورک کرکے آئیں، پتہ تو چلے کہ الیکشن کمیشن کی مشکل کیا ہے، الیکشن کمیشن مکمل بااختیار ہے، کارروائی کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن کو اختیارات استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فوج نے الیکشن کمیشن کو کوئیک رسپانس فورس کی پیشکش کی تھی، میرے خیال سے یہ نفری کافی ہے، آئین کی منشاء ہے کہ حکومت منتخب ہی ہونی چاہیئے، بظاہر 8 اکتوبر کی تاریخ صرف قومی اسمبلی کی وجہ سے دی گئی تھی، حکومت جو کہتی ہے الیکشن کمیشن خاموشی سے مان لیتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ سرکاری اداروں کی رپورٹ پر شک کرنے کی وجہ نہیں ہے، دہشت گردی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے 8 اکتوبر کی تاریخ دی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کس بنیاد پر کہہ رہے کہ 8 اکتوبر تک سکیورٹی حالات ٹھیک ہو جائیں گے، یہ موقف 22 مارچ کو تھا الیکشن کمیشن آج کیا سوچتا ہے انتخابات کب ہوں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ہدایت لے کر آگاہ کر سکتا ہوں، 9 مئی واقعات کے بعد حالات کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کو غیر معمولی واقعات ہوئے، ان واقعات کا کچھ کرنا چاہیئے، لیکن 9 مئی کا واقعہ انتخابات کے لیے کیسے مسائل پیدا کر رہا ہے۔
جسٹس اعجاالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کے واقعہ کے چکر میں آپ آئین کی منشاء جو بھلا رہے ہیں۔
عدالت نے الیکشن کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آرٹیکل 245 کے نفاذ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
تحریک انصاف پارٹی ورکرز کی پکڑ دھکڑ کے علاوہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنان کا آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کا اقدام بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: پچھلی بار آرٹیکل 245 کے نفاذ سے کیا ہوا تھا؟
عمران خان نے ایڈووکیٹ حامد خان کی وساطت سے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے درخواست میں وفاق، نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان، نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی اور اعظم خان سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے سپریم کورٹ آرٹیکل 245 کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دے، سپریم کورٹ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل غیر قانونی قرار دے اور تحریک انصاف کے کارکنان کو فوری رہا کرنے کا حکم دے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی نے ملک بھر میں آرٹیکل 245 کا نفاذ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے، عدالت تحریک انصاف رہنماوں کی جبری علیحدگیوں کو غیر آئینی قرار دے، یہ سارا ڈرامہ نواز شریف اور مریم نواز کا رچایا ہے، نواز شریف اور مریم نواز نے پروپیگنڈا کیا کہ عمران خان آپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کی جانب سے درج مقدمات کا ریکارڈ جمع کرانے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کی درخواست نمٹا دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے اپنے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت جسٹس ارباب طاہر نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا اسد قیصر کا پریس کانفرنس کرنے کا موڈ نہیں بنا؟، پریس کانفرنس کریں اور معاملہ ختم کریں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے ریمارکس پر عدالت کے کمرے میں قہقہے بکھر گئے۔
اسلام آباد پولیس نے اسد قیصر کے خلاف درج 6 ایف آئی آرز کا ریکارڈ عدالت عالیہ میں پیش کردیا، جس پر جسٹس ارباب طاہر نے درخواست نمٹا دی۔
ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے صحافی سمیع ابراہیم کی گمشدگی کے حوا لے سے کہا ہے کہ اس حوالے سے کوئی بھی قیاس آرائی یا نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔
صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف خبروں کے بعد وفاقی پولیس کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ، ’کیپیٹل پولیس سمیع ابراہیم کی تلاش کےلیے کسی قسم کی کوئی کسرنہیں چھوڑے گی‘۔
وفاقی پولیس نے اپنی ٹویٹ میں واضح کیا کہ سمیع ابراہیم کے خاندان کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا۔
ٹویٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فی الحال کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا یا قیاس آرائی کرنا قبل از وقت ہوگا۔
واضح رہے کہ اینکر پرسن سمیع ابراہیم ”بول نیوز“ کے ہیں، ان کے چینل کے مطابق سمیع ابراہیم کو دفتر سے گھرجاتے ہوئے سیونتھ ایونیو سے گرفتار کیا گیا۔
بول نیوز کے مطابق فی الحالیہ واضح نہیں ہوسکا کہ سمیع ابراہیم کو کس کیس میں حراست میں لیا گیا ہے، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے جس میں قراردیا گیا تھا کہ سمیع ابراہیم کو گرفتار کرنے سے پہلے عدالت سے اجازت لی جائے گی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
لاہور کی انسدادہشت گردی عدالت نے جلاؤ گھیراؤ کیس میں گرفتار سابق ایم این اے عالیہ حمزہ کو شناحت پریڈ کے لیے جیل بھیج دیا۔
انسدادہشت گردی کی جج عمبہر گل خان نے جلاؤ گھیراؤ کیس پر سماعت کی، پولیس کی جانب سے عدالت میں جیل ورانٹ جمع کروایا گیا۔
عالیہ حمزہ کی جانب سے ایڈووکیٹ فاروق باجوہ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت سے استدعا کی کہ ملزمہ کو عدالت پیش کرنے کا حکم دے۔
عدالت نے عالیہ حمزہ کو شناحت پریڈ کے بعد 29 مئی کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
عالیہ حمزہ کے خلاف تھانہ فیکٹری ایریا میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔
واضح رہے کہ عالیہ حمزہ کو 10 مئی کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا، گرفتاری کے بعد انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔
پی ٹی آئی یوتھ ونگ کے سابق رہنما راؤ یاسر نے تحریک انصاف حقیقی کے قیام کا اعلان کردیا۔
9 مئی کے واقعات کے بعد اب تک 2 درجن سے زائد سینئر پی ٹی آئی رہنما اپنی جماعت سے الگ ہوچکے ہیں، 21 مئی کو ملتان میں پی ٹی آئی یوتھ ونگ کے رہنما راؤ یاسر نے بھی اپنے 50 ساتھیوں کے ہمراہ پرتشدد واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے راہیں جدا کرلی تھیں۔
سابق یوتھ ونگ رہنما راؤ یاسر نے ایک بار پھر 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اب پی ٹی آئی حقیقی کے قیام کا اعلان کردیا ہے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے راؤیاسر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی پر زور مذمت کرتا ہوں، ان واقعات میں ملوث افراد کو سخت سزا ملنی چاہئے۔
راؤیاسر کا کہنا تھا کہ ملک میں بدامنی کے واقعات کا ذمہ دارعمران خان ہے، نوجوانوں کو بہکا کر حساس اداروں پر حملے کرائے گئے۔
تحریک انصاف جنوبی پنجاب ونگ کے رہنما راؤ یاسر نے 50 کارکنان سمیت پارٹی سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
21 مئی کو ملتان پریس کلب میں نیوز کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی عہدیدار راؤ یاسر کا کہنا تھا کہ کچھ شرپسند عناصر تحریک انصاف کا لبادہ اوڑھ کر پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں جو پاک فوج اور عوام کو لڑوانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے پی ٹی آئی قیادت سے شکوہ کیا کہ ہمارے جو کارکنان جیل میں ہیں عمران خان نے ان سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیا کوئی بھی ہماری ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف ملتان کے عہدیداران انتہائی نااہل ہیں۔ ہم حقیقی پی ٹی آئی چاہتے ہیں، جلاؤ گھیراؤ کرنا تحریک کا منشور نہیں اسی لیے پارٹی کو خیر آباد کہنے کا منصوبہ بنایا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کی عدم حاضری اور شیریں مزاری کی 5 بار گرفتاری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہمیں پہلے بتا دیتے کہ یہ سب کچھ سیاست ہو رہی ہے ان کا مقدمات سے کوئی تعلق نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالتی حکم کے باوجود سابق ایم این اے شیریں مزاری کی گرفتاری پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔
شیریں مزاری کی صاحبزادی ایڈوکیٹ ایمان مزاری اپنی وکیل زینب جنجوعہ کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئی۔ تاہم آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر پیش نہ ہوئے۔
آئی جی اسلام آباد کی عدم موجودگی پر عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آئی جی نہیں آئے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ یہ توہین عدالت کا کیس ہے، آئی جی کو یہاں ہونا چاہیے تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئی جی صاحب بینچ ون کے سامنے ہیں کچھ دیر تک آجائیں گے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ پہلے دن بتا دیتے ریاست کی پوری مشینری کیوں ایکٹیو ہے، اور شیریں مزاری کی گرفتاری کا ایم پی او کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ بھی بتا دیتے جو کچھ ہو رہا ہے ان کا مقدمات سے کوئی تعلق نہیں تھا، عدالت کو بتا دیتے یہ سب کچھ سیاست ہو رہی ہے ان کا مقدمات سے کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس میں کہا کہ ریاست پہلے دن بتادیتی کہ گرفتاری کا نقص امن کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں، پوری ریاستی مشنری سیاست میں لگ رہی ہے، اگر ہمیں بتا دیا جاتا تو ہم کوئی اور کیسز سن لیتے، کوئی رینٹ کیس کوئی اور کیس سن لیتے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں آئی جی نے ڈی سی راولپنڈی کے آرڈر کو اس عدالت کے آرڈرز پر ترجیع دی۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور حکم دیا کہ آئی جی اسلام آباد آئندہ سماعت پر تحریری جواب جمع کروائیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 31 مئی تک ملتوی کردی۔
عدالت نے 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل پر پنجاب حکومت سے جواب طلب کرلیا۔
نگراں حکومت پنجاب نے 9 مئی کو جناح ہاؤس پر حملے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، جس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی ہے۔
جسٹس شاہد بلال حسن نے درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں نگران وزیر اعلیٰ، سیکرٹری ہوم، چیف سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔
جے آئی کی تشکیل کے خلاف درخواست پر عدالت نے پنجاب حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
19 مئی کو نگراں حکومت پنجاب نے 9 مئی کو جناح ہاؤس پر حملے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، اور محکمہ داخلہ پنجاب نے نوٹی فکیشن بھی جاری کیا تھا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی کا سربراہ ڈی آئی جی کامران عادل کو مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ایس ایس پی صہیب اشرف، ڈی ایس پی رضا زاہد، اے ایس پی تیمورخان اور انچارج انویسٹی گیشن محمد سرور بھی جے آئی ٹی میں شامل ہوں گے۔
محکمہ داخلہ پنجاب نے لاہور کے مختلف تھانوں میں درج دیگر 9 مقدمات پر بھی جی آئی ٹی تشکیل دی تھی، اور محکمہ داخلہ نے آئی جی پولیس کی سفارشات پر نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق تھانہ سرور روڈ میں درج 92/23 اور103/23 مقدمات میں ایس پی کینٹ ارسلان زاہد کو جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں درج 367/23،،366/23 مقدمات اور گلبرگ تھانہ میں درج 1280/23 مقدموں میں ایس پی شہزاد رفیق اعوان اور تھانہ گلبرگ میں درج 1271/23 مقدمہ میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود کو جے آئی ٹی کی سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق تھانہ شادمان میں درج 368/23 اور تھانہ نصیرآباد میں درج 1078/23 مقدمات میں ایس پی شہزاد رفیق اعوان کو جے آئی ٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے، جب کہ تھانہ ریس کورس میں درج 852/23 مقدمہ میں ایس پی زبیر احمد تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔
سروسز اسپتال لاہور سے جاری ہونے والی سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی میڈیکل رپورٹ میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، اینٹی کرپشن کی انکوائری پر سروسز اسپتال نے میڈیکل رپورٹ جعلی قرار دے دی۔
اینٹی کرپشن کیس میں سابق وزیراعلی پنجاب پرویز الٰہی کی ضمانت منسوخی کے بعد پنجاب پولیس اور اینٹی کرپشن کی بھاری نفری ان کو گرفتار کرنے ان کی رہائشگاہ پہنچی۔
کئی دیر انتظار کے بعد بلآخر پولیس وکلا ٹیم کے ہمراہ پرویز الٰہی کی رہائشگاہ میں داخل ہوئی جب کہ پی ٹی آئی صدر کے گھرکے اطراف ظہور الٰہی روڈ ٹریفک کیلئے بند کردیئے تھے۔
ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق اجازت کے بعد مکمل چیکنگ کر چکے ہیں، گھر میں خواتین سے ایس پی ماڈل ٹاؤن عمارہ شیرازی نے بات کی جب کہ تلاشی کے وقت پرویز الٰہی گھر پر موجود نہیں تھے۔
پی ٹی آئی صدر کے وکیل عاصم چیمہ نے کہا کہ پرویز الٰہی کے سینے میں درد تھا اسی لئے وہ عدالت نہ جا سکے، اینٹی کرپشن عدالت نے میڈیکل رپورٹ مانگی تھی، لہٰذا کل عدالت میں تمام رپورٹس جمع کروا کر درخواست کی جائے گی۔
لاہور کی اینٹی کرپشن عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی کرپشن کیس میں عبوری ضمانت خارج کردی۔
اینٹی کرپشن عدالت کے جج علی رضا چوہدری نے پرویز الہٰی کی کرپشن کیس میں عبوری درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
پرویز الٰہی کے وکیل عامر سعید راں نے حاضری معافی کی درخواست جمع کروائی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ چوہدری پرویز الہٰی کی طبیعت ناساز ہے، عدالت پیش نہیں ہو سکتے حاضری معافی کی درخواست منظور کی جائے۔
عدالت نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی حاضری معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی کی عبوری ضمانت کی درخواست عدم پیروی پر خارج کر دی۔
چوہدری پرویز الہٰی نے اینٹی کرپشن لاہور کے مقدمے میں عبوری ضمانت دائر کر رکھی ہے۔ جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔
یاد رہے کہ اینٹی کرپشن حکام نے چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف مختلف منصوبوں میں کرپشن کے حوالے سے مقدمات درج کر رکھے ہیں۔
رجسٹرار سروسز اسپتال نے سرجیکل یونٹ 2 سے جاری ہونے والے میڈیکل سرٹیفکیٹ کو جعلی قرار دے دیا ہے۔ ڈاکٹر سید زین حیدر کاظمی کی دستخط شدہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرٹیفکیٹ کے لیے میڈیکل سلپ سرجیکل یونٹ 2 سے جاری نہیں ہوئی اور نہ ہی سرٹیفکیٹ پر لگی اسٹیمپ رجسٹرار کے استعمال میں ہے۔
ڈاکٹر نے رپورٹ میں انکشاف کیا کہ سلپ پر ان کے دستخط نہیں ہیں، وہ بدھ اور ہفتے کو سرجیکل یونٹ 2 میں نہیں تھے اور او پی ڈی کے دن منگل اور جمعرات ہیں، بدھ کے روز سرجیکل یونٹ 2 کا آپریشن تھیٹر ڈے ہوتا ہے، سرٹیفکیٹ میں بیڈ ریسٹ کی ہدایت بھی قابل شناخت نہیں ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اعجاز چوہدری کو اڈیالہ جیل سے رہائی کے فوری بعد دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما اعجاز چوہدری کو عدالتی احکامات کے بعد رہائی ملی لیکن انھیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ پولیس اعجاز چوہدری کو جیل کے عقبی دروازے سے لے کر روانہ ہوئی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینیٹر اعجاز چوہدری کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اعجاز چوہدری کے اہلخانہ جیل کے باہر ان کی رہائی کے منتظر تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا جبکہ ملیکہ بخاری اور علی محمد خان کی نظر بندی کے خلاف درخواستیں عدالتی دائرہ اختیار میں نہ ہونے کے باعث ہدایت کے ساتھ نمٹا دیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پی ٹی آئی رہنما اعجاز چوہدری کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے دونوں جانب سے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد سینیٹر اعجاز چوہدری کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اعجاز چوہدری کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔
دوسری جانب ملیکہ بخاری اور علی محمد کی نظر بندی کے خلاف اور دوبارہ گرفتاری پر توہین عدالت کیس کی سماعت بھی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔
وکیل درخواست گزار تیمور ملک ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ملیکہ بخاری اور علی محمد خان کو ڈی سی پنڈی کے احکامات پر دوبارہ گرفتار کیا گیا، دونوں رہنماؤں کو تھری ایم پی او کے تحت ڈی سی پنڈی کے حکم پر گرفتارکیا گیا۔
جس پر عدالت نے کہا کہ پنڈی کا کیس ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، آپ اس سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ سے رجوع کریں۔
بعدازاں عدالت عالیہ نے ہدایت کے ساتھ درخواستیں نمٹا دیں۔