Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے عمران خان کی رہائی کیلئے بدھ کو بھی احتجاج جاری رہا۔ منگل سے جاری مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ جن میں پشاور میں ریڈیو پاکستان کو آگ لگا دی گئی جب کہ منگل کے روز لاہور کے کور کمانڈرہاؤس کو جلا دیا گیا۔۔
منگل کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے مظاہرین نے لاہور کنٹونمنٹ میں شدید ہنگامہ آرائی کی، جبکہ پشاور سمیت ملک کے کئی حصوں میں کنٹونمنٹ علاقوں میں مظاہرے اور توڑ پھوڑ کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں۔
لاہور کنٹونمنٹ میں مبینہ طور پر کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ میں شدید توڑ پھوڑ کی اور عمارت کو جلا بھی دیا گیا۔
کور کمانڈر ہاؤس میں ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں، مشتعل افراد نے بظاہر پلاننگ کے ساتھ حملہ کیا، رہائش گاہ میں موجود سامان کو نقصان پہنچایا گیا اور لوٹ مار بھی کی گئی۔
مظاہرین کے ہاتھ جو لگا اٹھا کر لے گئے۔ کوئی ایل سی ڈی لے گیا تو کوئی کرسی اٹھا کر بھاگتا ہوا نظر آیا۔
ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نوجوان کور کمانڈر کے گھر میں رکھا گیا مور اٹھا کر فرار ہو رہا ہے۔
کور کمانڈر ہاؤس لاہور کو حملہ آور کارکنان سے بچاتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور شیدید زخمی ہوئے۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور علی ناصر رضوی کور کمانڈ ہاؤس کو خالی کرانے کی کوششوں میں کل رات پی ٹی آئی کارکنان کے پتھراؤ کا نشانہ بنے۔
ڈی آئی آپریشنز کے جبڑے اور ناک کی ہڈی فریکچر ہوئی اور آنکھ بھی زخمی ہو گئی۔
ڈاکٹرز کے مطابق ان کی آنکھ کے ریٹینا کے نقصان کا شبہ ہے جس سے ان کی بینائی ضائع ہو سکتی ہے۔
کور کمانڈر ہاؤس، جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے، اس میں آج ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے۔
آج نیوز نے جب متاثرہ کور کمانڈر ہاؤس کا دورہ کیا تو وہاں چہار سو تباہی کے مناظر تھے، دیواریں اور چھتیں آگ کے باعث کالی ہوچکی تھیِ ملبہ بکھرا پڑا تھا، فانوس زمیں بوس تھے اور سامان ٹوٹا پڑا تھا۔
فوجی املاک اور تنصیبات کو نقصان پہنچانے اور ان علاقوں میں ہنگامہ آرائی کے خلاف قوانین سخت نوعیت کے ہیں، جن کے تحت سزائیں بھی سخت ہو سکتی ہیں۔
مشتعل مظاہرین نے سول املاک جیسے بسوں سمیت پولیس وینز اور فوجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔ جن میں کچھ اہم عمارتیں اور چوکیاں بھی شامل تھیں۔
یہی صورتِ حال ملک بھر کے کئی کنٹونمنٹ علاقوں میں بھی تھی جنہیں عام طور پر چھاؤنیاں کہا جاتا ہے۔
بی بی سی کے مطابق اگر کنٹونمنٹ ایریا میں ایک سویلین شہری کسی جرم کا مرتکب پایا گیا ہو تو اس کے خلاف ایف آئی آر چھاؤنی کے پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کے تحت درج ہوتی ہے اور اسے حراست میں بھی پولیس ہی لیتی ہے۔
تاہم قانونی ماہرین کے مطابق آپریشنل فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی صورت میں انسداد دہشت گردی کے قوانین سمیت فوج خود فوجی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں کارروائی کا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتار کے بعد ہونے والے احتجاج میں پاک فوج کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر منظم سازش کے تحت حملے ہوئے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کی کشیدہ صورتحال سے متعلق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ٹوئٹ کیا۔ جس میں انھوں نے لکھا کہ عمران خان سیاسی لڑائی میں فوج کو منصوبہ بندی کے ساتھ فریق بنا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاک فوج کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر منظم سازش کے تحت حملے ھوئے، یہ سراسر وطن دشمنی ہے ان سب حملوں کا حساب بھی قانون لے گا۔
وزیردفاع کا مزید کہنا تھا کہ انشاء اللہ معاملات کو قانون کے مطابق دیکھا جائے گا، چار سال کی کرپشن کا قانون کے عین مطابق محاسبہ ہوگا۔
واضح رہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے کئی شہروں میں پُرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جبکہ کچھ مقامات پر پاک فوج کے دفاتر اور رہائش گاہوں پرحملوں کی اطلاعات بھی آئیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد کشیدہ صورتحال کے پیش نظر پشاور میں سرکاری و نجی تعلیمی ادارے 14 مئی تک بند رہیں گے۔
محکمہ تعلیم خیبرپختون خوا کے اعلامیہ کے مطابق پشاور میں نجی اور سرکاری کالجز 5 دنوں کے لئے بند رہیں گے۔ سرکاری و نجی تعلیمی ادارے 14 مئی تک بند ہوں گے۔
محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظراسکولز بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اعلامیہ کے مطابق مشیرتعلیم کی ہدایت پر ہفتے تک سرکاری اسکولز بند رہیں گے جبکہ پشاور میں میٹرک کے امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے ہیں
نیب راولپنڈی کے آفس میں عمران خان کا طبی معائنہ مکمل کرلیا ہے، عمران خان بخار میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
پمز اسپتال کی چار رکنی ٹیم نے عمران خان کا طبی معائنہ کیا، میڈیکل ٹیم میں پروفیسر شیخ وقار، پروفیسر شاہ صدیقی، پروفیسر علی شامی اور آرتھو ڈاکٹرارشاد شامل ہیں۔
عمران خان کی شوگر، بلڈ پریشر چیک کئے گئے اور خون کے نمونے بھی لئے گئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو بخار ہے، عمران خان ٹانگ میں درد کی شکایت کر رہے ہیں۔
طبی معائنہ مکمل ہونے کے بعد امعران خان کو کل جسمانی ریمانڈ کیلئے عدالت میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔
نیب حکام عمران خان کو آج گرفتار کرنے کے بعد احتساب عدالت پیش کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکے تھے۔
ذرائع کے مطابق احتساب عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج محمد بشیر بھی جوڈیشل کمپلیکس سے روانہ ہو گئے تھے۔
جج محمد بشیر احتساب عدالت میں معمول کے کیسز کی سماعت کے بعد روانہ ہوئے۔
نیب پوچھ گچھ کیلٸے احتساب عدالت سے عمران خان کے جسمانی ریمارنڈ کی استدعا کرے گا۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی درخواست سماعت کے لئے منظور کرلی ہے۔
آئینی درخواست سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق ممبر ایگزیکٹیو کمیٹی عبدالرزاق شر نے دائر کی تھی، جس کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عامر نواز رانا پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔
درخواست گزار کے وکیل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیے اور کہا کہ عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے غیر آئینی اقدام اٹھایا۔
سپریم کورٹ نے بھی 7 اپریل 2022 کو سابق وزیراعظم کے اس اقدام کو خلاف آئین قرار دیا۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان نے آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کی اس لیے ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
دوران سماعت چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے معاملہ پالیمنٹ بھجوانے کا کہا تو کوئی پارلیمنٹرین درخواست لے کر کیوں نہیں آیا۔
امان اللہ کنرانی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹرین کی اپنی مجبوری ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نعیم اختر افغان نے امان اللہ کنرانی کو مخاطب کرکے کہا کہ درخواست میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو فریق نہیں بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’لگ ایسا رہا ہے جیسے آپ بھی مصلحت کا شکار ہیں۔ کہیں آپ نے درخواست اس لیے تو نہیں دی کہ یوٹیوب پر وی لاگ آجائیں۔‘
امان اللہ کنرانی نے جواب دیا کہ ’آپ نے میرا آج تک کوئی وی لاگ دیکھا میں وی لاگ نہیں بناتا۔‘
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر درخواست قابل سماعت قرار ریتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان، سیکریٹری قانون و انصاف، اٹارنی جنرل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اورقومی اسمبلی کے سیکریٹری کو نوٹسز کرکے 29 مئی کو جواب طلب کرلیا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد مظاہروں کے ردعمل میں پنجاب کی نگراں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ احتجاج کی آڑ میں معمولات زندگی میں کسی کو خلل ڈالنے کی اجازت نہیں۔
نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کابینہ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امن و امان کو ہدایات دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی اور آئی جی پنجاب لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو ہمہ وقت مانیٹر کریں اور حالات کے مطابق اقدامات اٹھائے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ احتجاج کی آڑ میں عوام کے روز مرہ معمولات زندگی میں کسی کو بھی خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قوم سے وعدہ ہے کہ ریاست پاکستان پر اس حملے میں ملوث کسی ایک فرد کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
نگراں وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر کہتے ہیں کہ قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں پر حملے ملک دشمنی اور فاشزم ہے، شرپسند عناصر کی جانب سے ریڈ لائن کراس کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حملوں میں ملوث شرپسندوں کی شناخت کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، ایک ایک کو نشان عبرت بنایا جائے گا، ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والے پچھتائیں گے۔
عامر میر نے کہا کہ لاہور اور راولپنڈی کے افسوسناک واقعات ریاست دشمنی کے مترادف ہیں، یہ سیاست نہیں بلکہ کھلی دہشت گردی ہے لہٰذا سخت ترین احتساب ہوگا۔ شر پسندوں نے اپنا اصل چہرہ اور اپنا ملک دشمن ایجنڈا ظاہر کر دیا۔
ٹیلی کام کمپنیوں کو ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل کرنے کے احکامات موصول ہوگئے، جس کے بعد پاکستان کے متعدد شہروں میں ٹوئٹر اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا سروسز بند کردی گئی ہیں۔
پی ٹی آءی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بند کرنے پر غور جاری ہے، ضرورت پڑنے پر موبائل فون سروس بھی مکمل بند کی جاسکتی ہے۔
عمران خان کے بعد پی ٹی آئی سندھ کے صدر و سابق وفاقی وزیر علی زیدی کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔
ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ پولیس نے علی زیدی کو کالا پل سے گرفتار کیا۔
دوسری جانب پارٹی ترجمان کے مطابق ایم پی اے عدیل احمد کو بھی سنگر چورنگی سے گرفتار کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ 23 کارکنان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ آج سابق وزیراعظم عمران خان بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احطے سے القادر ٹرست کیس میں گرفتار ہوچکے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج جاری ہیں جب کہ علی زیدی سابق وزیراعظم کی گرفتاری کے خلاف سندھ کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
القادر یونیورسٹی کیس میں نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفترای کے بعد ملک بھر میں پیدا ہونے والی صورتِ حال اور احتجاج کو نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ’سراسر دہشتگردی‘ قرار دیا ہے۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں محسن نقوی نے لکھا کہ ’یہ سیاست نہیں، سراسر دہشت گردی ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’میرا قوم سے وعدہ ہے کہ ہم ریاست پاکستان پر اس حملے میں ملوث کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد وزیراعظم نے جوابی سوال پوچھ لیے ہیں۔ عمران خان نے شہباز شریف سے بھی سوالات پوچھے تھے۔
بذریعہ ٹوئٹر پیغام وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کے بعد رد عمل میں عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ مجھے کوئی شک نہیں کہ سفید جھوٹ، غلط بیانیہ، یوٹرنز اور اداروں پر مذموم حملے آپ کی سیاست کا تعارف ہے۔
انھوں نے کہا کہ آپ (عمران خان ) کا رویہ عدلیہ کو اپنی خواہشات کے حق میں جھکانا اور ’قانون مجھ پر لاگو نہیں ہوتا‘ جیسا ہے۔ گزشتہ چند سال کے ٹھوس حقائق سے جو کچھ ثابت ہوا ہے، اسی کی بنیاد پر آپ کے بارے میں اپنی ٹویٹ میں، میں نے لکھا تھا۔ میں آپ سے یہ جوابی سوال پوچھتا ہوں۔
واضح رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کچھ روز قبل اپنے ٹوئٹ میں وزیراعظم سے سوالات پوچھے تھے اور اسی ٹوئٹ میں پاکستانی اداروں کو نشانہ بنایا تھا۔ اسی تناظر میں اب وزیرعظم شہباز شریف (عمران خان سے) جوابی سوال پوچھ رہے ہیں۔
سوال نمبر 1: اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بار بار پاکستان آرمی کو بطور ادارہ بدنام کرنا آپ کی سیاست کا طریقہ کار رہا ہے۔ وزیرآباد واقعے سے بھی پہلے سے کیا آپ آرمی، انٹیلی جنس اداروں اور ان کی قیادت پر مسلسل کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھے ہوئے؟
سوال نمبر 2 : ہر روز دھمکانے، بے بنیاد الزام لگانے کے سوا آپ نے کون سا قانونی طریقہ کار اپنایا ؟ آپ نے وفاقی حکومت کی طرف سے کی گئی تعاون کی پیشکش ٹھکرا دی اور قانونی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔ آپ کو کبھی بھی سچائی کی کھوج میں کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں بلکہ قابل مذمت واقعے کو آپ نے اپنے گھٹیا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
سوال نمبر 3 : ہیلی کاپٹر حادثہ کے بعد شہداء اور مسلح افواج کے خلاف سوشل میڈیا پر غلیظ مہم کس کی ایما پر چلائی؟ کس جماعت کے ٹرول بریگیڈ نے شہداء کا مذاق اڑایا جو ہماری سیاست میں ناقابل تصور اور کلچر میں ایک نئی کم ظرفی کا مظہر تھا۔ کیا آپ جیسے مذموم اہداف اور عزائم رکھنے والوں کی موجودگی میں ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے ؟
سوال نمبر 4 : سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو کس نے استعمال کیا؟ اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مذہبی اصطلاحات کو کس نے متعارف کرایا؟ اس طرح آپ نے نہایت چالاکی اور ذاتی سیاسی مقاصد کی خاطر اپنے حامیوں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو تشدد کے خطرات سے دوچار کیا؟ کیا آپ کے پارٹی رہنماﺅں نے مسجد نبویﷺ کے تقدس و احترام کو پس پشت ڈالتے ہوئے خاتون وزیر سمیت سرکاری وفد کے لوگوں کو ہراساں کرنے اور بدسلوکی کا نشانہ بنانے کی افسوسناک حرکت کی تاویلیں، دلیلیں اور جواز نہیں گھڑے تھے ؟
وزیراعظم نے اپنے ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں رہنا چاہیے کہ سابق وزیراعظم کے طورپر کرپشن پر جاری ٹرائل کا سامنا کرتے ہوئے آپ چاہتے ہیں کہ قانونی وسیاسی نظام کو درہم برہم کردیا جائے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آپ کی دانست میں پاکستان جنگل بن چکا ہے تو میرا آپ کو مشورہ ہوگا کہ وہاں نہ جائیں کیونکہ حقائق اکثر تلخ اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ اسے کسی اور دِن کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ القادر ٹرسٹ معاملہ ملکی تاریخ میں کرپشن کا بڑا اسکینڈل ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے عطاء تارڑ نے کہا کہ 190 ملین پاؤنڈ کے کیس میں کوئی پیش ہونے کو تیار نہیں تھا، القادر ٹرسٹ 60 ارب روپے کی کرپشن کا معاملہ ہے، ٹرسٹ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے قائم کیے جاتے ہیں نہ کہ کرپشن کرنے کیلئے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی ہیں، عمران خان نے کابینہ کے ذریعے پراپرٹی ٹائیکون کے اربوں روپے معاف کیے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ن لیگ کی قیادت کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے، آج عمران خان کی اپنی کرپشن عوام کےسامنے آچکی ہے، عمران خان نےاپنےدورمیں سیاسی مخالفین کوجھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ڈالا، عمران خان کو اپنی کرپشن کا حساب دینا ہوگا۔
عطاء تارڑ نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کا سارا معاملہ شہزاد اکبر نے طے کیا اور آج وہ ملک سے فرار ہے، عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، عمران خان نے چار سال ملک وقوم کے پیسے کو بے دردی سے لوٹا، چند لوگوں کی مدد سے عمران خان نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، عمران خان جعلی ٹرسٹ بنا کر اربوں روپے اپنے استعمال میں لائے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب ایک آزادہ ادارہ ہے، کیس کی تحقیقات میرٹ پرہوں گی، کوئی لاڈلہ نہیں، قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔
اس کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی نیو کانفرنس کی اور کہا کہ ماضی میں گرفتاری سے پہلے پی ٹی آئی کے وزراء بتادیا کرتے تھے۔
وزیر قانون نے کہا کہ قانون کی پاسداری ہونی چاہئے، موجودہ حکومت نے نیب قوانین کو مزید بہتر بنایا، ماضی میں نیب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وہ نیب بھی تھی جو سیڑھیاں لگا کر گرفتاریاں کرتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ حبس بے جا نہیں قانون کے مطابق گرفتاری ہوئی، عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق عمل میں لائی گئی ہے، 7 رکنی میڈیکل بورڈ نے عمران خان کا معائنہ بھی کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج سیاسی کارکنوں کا حق ہے، لیکن کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سال 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پاکستان کے معروف ترین پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین کی فیملی کے ساتھ 190 ملین پاؤنڈ مالیت کے تصفیے پر اتفاق کیا۔
این سی اے کی تاریخ میں یہ تصفیہ اب تک کا سب سے بڑا تھا، اور چونکہ یہ عدالت سے باہر ہوا تھا، اس لئے اس میں یہ شرط شامل کی گئی تھی کہ اس میں کسی جرم کے ارتکاب کا حوالہ نہیں دیا جائے گا۔
این سی اے برطانیہ میں قانون نافذ کرنے والی ایک نیشنل ایجنسی ہے جو منی لانڈرنگ اور برطانیہ اور بیرون ملک مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی غیر قانونی مالیات کی تحقیقات کرتی ہے۔
اگر این سی اے برطانیہ سے باہر کسی کیس کی تحقیقات کرتی ہے تو وہ چوری شدہ رقم متاثرہ ریاست کو واپس کر دیتی ہے۔
لہٰذا اگر ایجنسی پاکستان میں دھوکہ دہی یا منی لانڈرنگ کی تحقیقات کر رہی ہے، تو وہ برطانیہ میں مقدمہ چلائے گی یا تصفیہ کرے گی اور رقم پاکستانی حکومت کو واپس کرے گی۔
ملک ریاض کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔
ان کا خاندان کچھ عرصے سے این سی اے کی ”ڈرٹی منی“ کی تحقیقات کی زد میں تھا، جس کا اختتام 190 ملین پاؤنڈ کے تصفیے پر ہوا۔
تاہم، یہ معاملہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی انٹری پر الجھ جاتا ہے، جنہوں نے بظاہر ملک ریاض کے کہنے پر این سی اے کو معاملہ طے کرنے اور رقم پاکستان کو واپس کرنے پر راضی کیا۔
5 دسمبر 2019 کو، شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ 140 ملین پاؤنڈز پاکستان کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں واپس بھیجے گئے ہیں۔
جب شہزاد اکبر سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم کیسے منتقل کی جا سکتی ہے، تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے سوال کو ٹال دیا کہ حکومت، این سی اے اور ملک ریاض نے ایک ”رازداری کے معاہدے“ پر دستخط کیے تھے، جس کی وجہ سے وہ اس معاملے کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں آکر معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا جب کہ این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دی تھی۔
لیکن یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے ہیں۔
اور یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے سپریم کورٹ میں ادائیگی کے لیے دے دی گئی۔
عمران خان کی کابینہ کے رکن فیصل واوڈا یہ کہہ چکے ہیں کہ کابینہ نے بند لفافے میں سمری کی منظوری دی تھی جو کہ برطانیہ سے موصول 190 ملین پونڈ کی ملک ریاض کی جرمانے کی ادائیگی کے لیے منتقل کی گئی۔
تین دسمبر 2019 کو وفاقی کابینہ سے بند لفافے میں سمری کی منظوری کے بعد حکومت نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاست پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔
دوسری جانب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بھی ملک ریاض سے کیے جانے والے معاہدے کی تفصیلات رازداری میں رکھیں۔
بنیادی طور پر، الزام یہ ہے کہ ملک ریاض کی جانب سے شہزاد اکبر کی این سی اے کے ساتھ مداخلت کے بعد پاکستان کو واپس بھیجے گئے 140 ملین پاؤنڈ سیدھے پراپرٹی ٹائیکون کے بینک اکاؤنٹ میں چلے گئے۔
برسرِ اقتدار آنے کے بعد، موجودہ پی ڈی ایم حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام لگایا کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن سے اربوں کی نقد رقم اور سینکڑوں کنال اراضی اس مدد کے بدلے میں لی، جو عمران خان کی حکومت نے ملک ریاض کو این سی اے تحقیقات کے دوران فراہم کی تھی۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے معاہدہ کیا اور عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ملکیتی ٹرسٹ کو 458 کنال اراضی دی جس کی کاغذی قیمت 530 ملین روپے تھی۔
’یہ زمین القادر ٹرسٹ کو عطیہ کی گئی تھی اور معاہدے پر رئیل اسٹیٹ کے عطیہ دہندگان اور بشریٰ بی بی کے دستخط تھے۔‘
رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ عمران کے ساتھی شہزاد اکبر نے پورا معاملہ سیٹل کرلیا، جب کہ 50 ارب روپے جو کہ قومی خزانے سے تھے، بحریہ ٹاؤن کے قرض کی مد میں ایڈجسٹ کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ عمران نے کیس کو سمیٹنے سے قبل شہزاد اکبر کے ذریعے 5 ارب روپے ”اپنے حصہ“ کے طور پر وصول کئے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کے 50 ارب روپے ملنے کے بعد عمران اور ان کی اہلیہ کی ملکیت والے ٹرسٹ کو 458 کنال اراضی الاٹ کی تھی جس کی قیمت 530 ملین روپے تھی۔
رانا ثناء اللہ نے تھا کہ مزید 240 کنال زمین ”فرح شہزادی“ کو منتقل کی گئی جنہیں عرف عام میں فرح گوگی کہا جاتا ہے، اور جو بشریٰ بی بی کی قریبی دوست ہیں۔
یہی 458 کنال اب احتساب بیورو کی جانچ پڑتال کی زد میں آچکے ہیں۔
24 نومبر کو ملک ریاض کو بھیجے گئے کال اپ نوٹس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ سوہاوہ، ضلع جہلم کی تحصیل موضع برکلا میں حدبست نمبر 77 میں واقع 458 کنال چار مرلہ 58 مربع فٹ کی خریداری کے حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے دستاویزی ثبوت کے ساتھ پیش ہوں۔
انسداد بدعنوانی کی اعلیٰ ترین باڈی نے ملک ریاض حسین سے اس حوالے سے مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا مطالبہ کیا، اسی طرح ان سے کہا گیا کہ وہ، وہ ڈیڈ پیش کریں جس کے ذریعے میسرز بحریہ ٹاؤن نے مذکورہ زمین القادر ٹرسٹ کو ریونیو دستاویزات کے ساتھ عطیہ کی تھی۔
اس عطیہ کردہ زمین پر 2019 میں القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا، یہ یونیورسٹی ایک ٹرسٹ کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔
اس کے اصل معتمد عمران خان (اُس وقت کے وزیراعظم)، بشریٰ خان (عمران کی اہلیہ)، ذوالفقار عباس بخاری (زلفی بخاری) اور ظہیر الدین بابر اعوان تھے۔
بعد ازاں زلفی بخاری اور بابر اعوان کو ٹرسٹ سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ ڈاکٹر عارف نذیر بٹ اور مسز فرحت شہزادی المعروف فرح خان کو تعینات کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عطیہ کی گئی اراضی کے اعترافی معاہدے پر مسز بشریٰ خان (القادر یونیورسٹی کی جانب سے) اور ٹرسٹ دینے والے ادارے کے درمیان اس وقت دستخط کیے گئے جب عمران خان (القادر یونیورسٹی کے چیئرمین) وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے پارٹی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک گیر احتجاج کی اپیل کردی۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے پارٹی کے مستقبل کی حکمت عملی بتاتے ہوئے کہا کہ جوش کے ساتھ ہوش اور دانشمندی سے کام لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا دانشمندی سے مقابلہ کرنا ہے، حکمت عملی سے آگے بڑھنا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ عمران خان نے بائیو میٹرک کے لئے جاتے ہوئے گاڑی میں ویڈیو ریکارڈ کی، جس میں انہوں نے جن خدشات کا اظہار کیا اس پر انھیں گرفتار کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ میری گرفتاری کا منصوبہ تیار ہے، چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کے بعد انصاف کا پرچم میں نے تھام لیا ہے اور میری گرفتاری کے بعد کسی اور کو انصاف کا جھنڈا تھامنا ہوگا۔
موجودہ حکومت کا مقابلہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت کا مقابلہ کرنا ہوگا، سرکار ہٹ دھرمی پر قائم ہے یہ لوگ شہریوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتی ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ عمران خان ضد نہیں کررہے، وہ کہتے ہیں کہ اصولوں پر سودا نہیں کروں گا، عمران خان تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔
پی ٹی آئی سینئر رہنما نے مزید کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ قانونی اور سیاسی طریقے سے آگے بڑھیں، ہم چاہتے تھے کہ کوئی سیاسی راستہ نکل آئے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ ہم منتظر تھے سپریم کورٹ اپنا مؤقف دے گی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی عوام جہاں جہاں ہیں اپنے گھروں سےنکلیں، ہم نے پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا ہے، عمران خان کی گرفتاری کے تانے بانے لندن سے ملتے ہیں، نوازشریف نے اسی لیے لندن میں قیام بڑھا دیا ہے۔
عمران خان کی گرفتار پر رہنما تحریک انصاف حماد اظہار نے بھی ردعمل دیا۔ انھوں نے ٹوئٹ میں لکھا کہ پارٹی چیئرمین پر دوران گرفتاری تشدد کی اطلاعات ہیں۔ قوم اپنے قائد کے ساتھ کھڑی ہے، پورا پاکستان باہر نکلے گا۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ نے پارٹی سربراہ عمران خان کی گرفتار پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
چوہدری پرویز الہیٰ نے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ عمران خان اس وقت پوری قوم کے نمائندہ لیڈر ہیں۔ نوجوان، طلبا و طالبات، سول سوسائٹی اور تمام محب وطن پاکستانی پارٹی چیئرمین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف کارروائی کرنے والوں کا سیاسی مستقبل خراب ہو جائے گا۔ اس حوالے سے عدلیہ پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے، اب عدلیہ اور وکلا کا امتحان ہے، کالا کوٹ پہننے والے انقلاب لے کر آئیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ عمران خان کو بغیر کسی ایف آئی آر کے گرفتار کیا گیا، پارٹی چیئرمین عدالت میں پیش ہونے گئے تھے وہاں سے انھیں گرفتار کیا گیا،، عمران خان کی محبت میں لوگ سڑکوں پر آرہے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے وقت کسی پر تشدد نہیں کیا گیا، چیئرمین تحریک انصاف کو پکڑے جانے کے رد عمل میں کسی نے امن و امان خراب کرنے کی کوشش کی تو قانون پوری طاقت سے نافذ ہوگا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عمران خان کےخلاف کئی کیسز ہیں نیب نے ان کی گرفتاری القادرٹرسٹ کیس میں کی ہے، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے قومی خزانے کو 7 ارب کی کرپشن کا ٹیکا لگایا۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری میں مزاحمت ہوئی لیکن وہ زیادہ نہیں تھی۔ کسی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ گرفتاری کے وقت شیشے دھکم پیل سے ٹوٹے رینجرز نے نہیں توڑے، کسی نے امن و امان خراب کرنے کی کوشش کی تو قانون پوری طاقت سے نافذ ہوگا۔
رانا ثنا نے کہا کہ القادرٹرسٹ کرپشن کو چھپانے کیلئے بنایا گیا، ٹرسٹ کے صرف 2 ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ ہیں، 240 کنال بنی گالہ میں بھی القادر ٹرسٹ کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی، پراپرٹی ٹائیکون کی رقم منی لانڈرنگ میں پکڑی گئی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کی ایک پیسے کی بھی منی ٹریل نہیں دی گئی، برطانیہ کی حکومت نے پاکستان حکومت سے رابطہ کیا اور رقم منتقلی کی بات کی، قومی خزانے کو 60 ارب کا ٹیکہ لگا کر پراپرٹی اپنے نام لگوائی گئی۔
انھوں نے کہا کہ قانون کے مطابق 60 ارب روپے قوم کی امانت تھی، رقم قومی خزانے میں واپس آنا تھی، شہزاد اکبر معاملے کے درمیان میں آیا اور معاملات طے کیے گئے۔ 7 ارب کی پراپرٹی کی قیمت ہے، 2 ارب روپے شہزاد اکبر نےعلیحدہ سے لیے قانون کے مطابق کارروائی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام تر تحقیقات کے بعد عمران خان کی گرفتاری عمل میں آئی، چیئرمین تحریک انصاف کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا گیا، ہماری جانب سے نیب کو کوئی ڈائریکشن نہیں دی جائے گی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ القادرٹرسٹ کرپشن کے حوالے سے سارے انتقال اور رجسٹریوں کی کاپیاں موجود ہیں، عمران خان کے دور حکومت کے عہدیدار شہزاد اکبر نے 2 ارب روپے وصول کیے اور آج کل شہزاد اکبر دبئی اور لندن میں موجیں اڑا رہے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان ملک دشمن قوتوں کے ساتھ ملکر پاکستانی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، تحریک انصاف کے دیگر رہنما بھی ایسی کارروائی میں ملوث ہیں۔ ایجنسی کے خلاف عمران خان کا بیان بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پاکستان کے اداروں اور ایجنسی کے خلاف جو بیان دیا یہ فرمائشی ہے کسی طرف سے مہم جوئی کا کہا گیا یہ باقاعدہ سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں اس کو غور سے دیکھیں تو سمجھ آئے گا کہ کون کون سی غیرملکی طاقتیں اس کے پیچھے موجود ہیں جو اس بیانیے کو پروان چڑھا رہی ہیں۔
رانا ثنا نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اپنے قتل کی سازش کی جو بات کررہے ہیں اس حوالے سے انھوں نے کبھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ ہم عمران خان کو پیشکش کرتےہیں کہ وہ قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کے حوالے سے تحقیقات اپنی مرضی کے افسران سے کروالیں۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کا عدالت عالیہ نے نوٹس لیا اس کا ہمیں گلہ نہیں عدالت کی جانب سے نوٹس لیا جانا چاہیے لیکن جب پی ٹی آئی رہنما شہزاد اکبر جھوٹی پریس کانفرنس کرتے تھے، جب نیب چیئرمین کو ویڈیو دکھا کر اپنی سوچ کے مطابق چلایا جارہا تھا، جب وزیر بتاتے تھے کہ فلاں فلاں شخص گرفتار ہوگا اور جب لوگوں پر منشیات کا کیس ڈالا جاتا تھا تو اس وقت ازخود نوٹس نہیں لیا گیا۔
عمران خان کی گرفتاری سے منتعلق قومی احتسابی ادارے ”نیب“ کا بیان آگیا ہے۔
نیب کا کہنا ہے کہ عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا ہے، شہزاد اکبر بھی کیس میں اہم ملزم ہیں، شہزاد اکبر کے خلاف ریڈ نوٹس جاری کرنے کی کارروائی شروع کردی ہے۔
نیب کا کہنا ہے کہ کیس زمین کے غیرقانونی حصول اور تعمیرات سے متعلق ہے۔
نیب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری قانونی طریقہ کار کے تحت کی گئی، عمران خان اور ان کی اہلیہ کو متعدد کال اپ نوٹس جاری کیے گئے، متعدد نوٹسز کے باوجود دونوں تفتیش کے عمل میں شامل نہیں ہوئے، عمران خان اورانکی اہلیہ نےکال اپ نوٹس کا جواب نہیں دیا، عمران خان اور ان کی اہلیہ القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹیز تھے۔
فیصل آباد میں پی ٹی آئی کارکنان نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے ڈیرے پر پتھراؤ کردیا۔
پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف رانا ثناء کے ڈیرے پر پتھراؤ کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کارکنان نے رانا ثناء اللہ کے پوسٹر کو بھی نذر آتش کیا اور ان کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
دوسری جانب سمندری روڈ پر پی ٹی آئی اور ن لیگ کا کارکن امنے سامنے آگئے جب کہ پولیس نے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کردی۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کراچی، لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کارکنان سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
واضح رہے کہ نیب نے رینجرز کی مدد سے پی ٹی آئی چیئرمین کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے حراست میں لیا ہے۔
پاکستان میں تعینات جرمنی کے سفیر الفریڈ گریناس نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے۔
ٹوئٹر پر جاری پیغام میں الفریڈ گریناس نے کہا کہ آج ہونے والی عمران خان کی گرفتاری کی تصاویر پر تشویش ہے۔
انہوں نے لکھا کہ عدالتی معاملات میں قانون کی حکمرانی کے اعلیٰ ترین معیار کو یقینی بنانے کی اور حد سے زیادہ مبالغہ آرائی سے بچنے کی ضرورت ہے۔
جرمن سفیر نے لکھا کہ پاکستان کی خاطر ہر طرح سے پرسکون رہیں اور مل کر ترقی کی جانب کام کرنے کے لیے بات چیت کو ترجیح دیں۔
عمران خان کا نیب آفس میں طبی معائنہ مکمل کرلیا گیا، جبکہ نیب عمران خان کو آج احتساب عدالت پیش کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔
ایڈمنسٹریٹو جج محمد بشیر بھی جوڈیشل کمپلیکس سے روانہ ہوچکے ہیں۔
عمران خان کو جسمانی ریمانڈ کے لیے کل پیش کیا جائے گا۔ نیب احتساب عدالت سے عمران خان کے جسمانی ریمارنڈ کی استدعا کرے گا۔
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو اسلام ہائی کورٹ کے ڈائری آفس سے گرفتار کیا گیا ہے۔
عمران خان کو نیب نے احاطہ عدالت سے حراست میں لیا، سابق وزیراعظم کو ایک ہفتے قبل درج کیئے گئے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے القادر ٹرست کیس میں گرفتاری سے قبل کارکنان کے نام ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا تھا۔
عمران خان کی گرفتاری پر آئی جی اسلام آباد پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ ملک میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔
آئی جی اسلام باد نے کہا کہ دفعہ 144 نافذالعمل ہے جس کی خلاف ہورزی پر کارروائی کی جائے گی جب کہ پولیس نے پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاریں بھی شروع کردی ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے خلاف کراچی اور لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں کارکنان سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
نیب نے سابق وزیراعظم کو حراست میں لینے کے بعد ان کے لئے میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دے دیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ہمیشیرہ نورین خان کہتی ہیں کہ لوگ اگر آج گھروں سے باہر نہ نکلے تو ظلم بڑھتا رہے گا۔ بدعنوانی کرنے والے آج لندن میں آرام سے بیٹھے ہیں۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے لوگوں کو تحمل کا درس دیا، اگر یہ قابو سے باہر ہوگئے تو انہیں پتہ چلے گا۔
نورین خان نے کہا کہ عمران خان کا ساتھ ظلم کیا گیا ہے، اللہ ان لوگوں سے بدلہ لے گا۔
انہوں نے پی ٹی آئی کے حامیوں اور کارکنان سے اپیل کی کہ لوگ لبرٹی چوک پہنچیں، قائداعظم کے بعد عمران خان ہی اصل لیڈر ہیں، اگر آج نہیں نکلیں گے تو ظلم بڑھتا رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کرنے والے آرام سے لندن بیٹھے ہیں، عمران خان کی گرفتاری کا پلان بہت پرانا تھا۔
دوسری جانب عمران خان کی ہمشیرہ ڈاکٹر عظمیٰ کہتی ہیں کہ عمران خان کو گرفتار نہیں اغوا کیا گیا ہے، عوام اور کارکن احتجاج کیلئے باہر نکلیں۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے عمران خان کی گرفتاری کے وقت اندر کی کہانی بتا دی۔
بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے نیب کے خلاف دو رٹ پٹیشنیں فائل کی تھیں، جس میں کہا گیا تھا کہ القادر یونیورسٹی کی انکوائری کو تفتیش میں تبدیل کیا جائے، اسی سلسلے میں ہم آج عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
خان صاحب کو جب بائیومیٹرک کیلئے اندر لے کر آئے تو وہ وہیل چئیر پر تھے، رینجرز کے اہلکاروں نے سب سے پہلے ہائیکورٹ کے مین گیٹ کو توڑا اس کے شیشے بھی توڑ دئیے، اس کے بعد بائیومیٹرک کی جگہ کو سارا توڑ کر چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ میں اور بخاری صاحب اکیلے تھے، انہوں نے ہم پر ڈائریکٹ پیپر اسپرے کیا اور شیلنگ کی۔ اس کے بعد انہوں نے خان صاحب کو وہاں سے اٹھایا ہے، ان کے سر پر مارا ان کو لات ماری،
انہوں نے بتایا کہ عمران خان پر تشدد کیا گیا ہے، میں نے دیکھا ہے۔ گرفتار کرنے والے سارے رینجرز تھے وہ انہیں یہاں سے اٹھا کر لے کر گئے، ان کی وہیل چئیر پھینک دی۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ہم بیہوش تھے، ہائیکورٹ کے ایک ملازم ہیں انہوں نے ہمیں اٹھایا ، خان صاحب بھی تقریباً بیہوش تھے، ان کے زخمی پاؤں پر بھی مارا گیا اور دھکے دیتے ہوئے انہیں لے گئے۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کارکنان سراپا احتجاج ہیں، مظاہرین کی جانب سے کراچی، لاہور میں مجموعی طور پر پانچ پولیس وینز کو نذر آتش کردیا گیا جب کہ پنجاب اور بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو آج اسلام آباد پولیس نے ہائی کورٹ سے گرفتار کیا، خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی، اور کارکنان کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔
اسلام آباد میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق اس دوران کیپیٹل پولیس کے 5 جوان زخمی جب کہ 43 مظاہرین قانون کی خلاف ورزی پر گرفتار کیے گئے۔
تحریک انصاف نے کراچی میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی، پی ٹی آئی نے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز سے ہڑتال کی حمایت کی اپیل کی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کی خبر ملتے ہی کراچی میں پی ٹی آئی کے کارکنان سڑکوں پر آگئے اور سڑکیں بند کرکے احتجاج شروع کردیا۔
تحریک انصاف کے کارکنان نے شارع فیصل کو بند کرکے احتجاج شروع کیا تو گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں، اور عوام شدید پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔
نرسری پر تحریک انصاف کے کارکنان کا احتجاج ختم کرنے کے پولیس نے مداخلت کی تو پولیس اور کارکنان آمنے سامنے آگئے، پولیس کی جانب سے کارکنان پر شیلنگ بھی کی گئی، جس پر کارکنان منشتر ہوگئے۔ تاہم کچھ ہی دیر کے بعد مظاہرین ایک بار پھر جمع ہوگئے اور ریڈ بس کے شیشے توڑ دیے۔
کارکنان کی بڑی تعداد انصاف ہاوس بھی پہنچ گئی، جہاں حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
پی ٹی آئی مظاہرین نے پولیس وین کو آگ لگا دی، اسی کے ساتھ پولیس کی جانب سے کارکنان پر شیلنگ بھی کی گئی۔
کراچی میں شرپسند افراد نے پیپلز بس سروس کی چارگاڑیوں کو نقصان پہنچایا ہے، انتظامیہ کے مطابق شر پسندوں نے دوگاڑیاں شارع فیصل، ایک ناگن چورنگی اور ایک کو شاہ فیصل میں نشانہ بنایا ہے۔
پیپلزبس سروس کی ایک گاڑی کی قیمت 8 کروڑ روپے ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پیپلز بس سروس کی گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا، اسٹاف کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
صورتحال کو دیکھتے ہوئےسروس بحال کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ پیپلز بس سروس جزوی طور پر معطل رہے گی۔
نرسری پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیئے گئے جس کے باوجود بھی مظاہرین نے شدید احتجاج کیا، کئی دیر احتجاج جاری رہنے کے بعد پولیس نے سڑک کی ایک جانب ٹریفک کے لئے کھول دی۔
پی ٹی آئی کارکنان نے بلوچ کالونی پر قائم ٹریفک پولیس چوکی کو آگ لگا دی جب کہ مظاہرین نے موٹر سائیکلوں بھی نذر آتش کردیا۔
مظاہرین کی جانب سے کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ کا ٹینکر بھی جلا دیا۔ ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کے ڈبلیو ایس بی کا اس میں کیا قصور تھا، یہ سکشن ٹرکس کراچی میں بڑے کام آئے تھے۔
پولیس نے احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے پر شاہراہ فیصل سے خاتون سمیت پی ٹی آئی کے 5 کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔
قائد آباد میں بھی مرغی خانہ کے مقام پر پی ٹی آئی کے کارکنان احتجاج کے لئے باہر نکل آئے، مشتعل افراد نے شدید ہنگامہ آرائی کی، اور ٹائر جلا کر روڈ کو بند کردیا۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس کی بھاری نفری موقع پر موجود ہے۔
پی ٹی آئی سندھ کے صدرعلی زیدی نے اپنے ویڈیو بیان میں کارکنان کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ احاطہ عدالت سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، قوم سوتی رہی تو یہ فاشسٹ حکومت آپ کو بھی نہیں چھوڑے گی۔
علی زیدی نے کہا کہ پوری قوم خصوصاً سندھ کےعوام سے اپیل ہے باہر نکلیں، ہم پورا سندھ بند کر دیں گے، سب کو پتا چلے گا کہ عمران خان کے پیچھےعوام کی کتنی بڑی طاقت ہے۔
عمران خان کی گرفتاری ملتے ہی سب سے پہلے پی ٹی آئی کے ڈنڈہ بردار کارکنان نے زمان پارک کا کنٹرول سنبھالا جب کہ لاہور میں مختلف سڑکوں کو بلاک کردیا گیا۔
شنگھائی پل فیروزپور روڈ بند کردیا گیا ہے جب کہ جی پی او چوک پر وکلاء کی بڑی تعداد نے سڑک بلاک کرکے احتجاج شروع کردیا ہے۔
کارکنان کے ایک بڑی تعداد زمان پارک کے چاروں اطراف پہنچ گئی اور اسے چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر اطراف کی سڑکیں بند کردی گئیں۔
اس کے علاوہ اکبر کو چوک چاروں اطراف سے بند کردیا گیا، پل نہر مال روڈ پر ڈنڈا بردار کارکنان کی بڑی تعداد موجود ہے۔
پی ٹی آئی کے چند کارکن لاہور کینٹ میں داخل ہوگئے اور شیرپاؤ سے کینٹ کی پہلی چیک پوسٹ سے آگے نکل گئے۔ کارکنان نے چیک پوسٹ پر لگے سکیورٹی کیمروں کو بھی توڑ دیا جب کہ کینٹ گرجا چوک پر کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
لاہور میں امن و امان کی خراب صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے شہر میں رینجرز طلب کرلی گئی ہے۔
شہر میں موبائل سروس بندش کے لئے محکمہ داخلہ سے رابطہ کرلیا گیا جب کہ ضلعی انتظامیہ نےایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کو خط لکھا۔ اس کے علاوہ پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم شکیل احمد نے دفعہ 144 نافذ کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے جس کے مطابق صوبے بھر میں کسی بھی قسم کے احتجاج اور ریلی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق دفعہ 144 اور تین ایم پی او کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ فوٹیجز کی مدد سے ہنگامہ آرائی اور پولیس پر پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل لائی جائے گی۔
مال روڈ پر احتجاجی کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس کے بعد پولیس نے بھی کارکنان پر لاٹھی چارج کی جب کہ کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا۔
پی ٹی آئی اورپولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں تو پولیس نے کارکنان پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں چار کارکنان زخمی ہوگئے جن میں ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف رانا ثناء کے ڈیرے پر پتھراؤ کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کارکنان نے رانا ثناء اللہ کے پوسٹر کو بھی نذر آتش کیا اور ان کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
دوسری جانب سمندری روڈ پر پی ٹی آئی اور ن لیگ کا کارکن امنے سامنے آگئے جب کہ پولیس نے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس شیلنگ کی۔
پشاور میں بھی پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد ہاتھوں میں ڈنڈے لئے سڑکوں پر آگئے، اور بی آر ٹی بس سروس کوروکنے کی کوشش میں کچھ کارکنان بی آر ٹی ٹریک پر لیٹ گئے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد کارکنان ہشت نگری کے مقام پر پہنچ گئے اور پتھروں کی مدد سے جی ٹی روڈ کو بلاک کردیا، جب کہ چند کارکنان نے بی آر ٹی ٹریک پرچڑھ کر بسیں روک دیں۔ چند کارکنان اسمبلی چوک پر احتجاج کررہے تھے، تاہم ان پر پولیس کی جانب سے کارکنان پر شیلنگ شروع کردی گئی۔
ایبٹ آباد میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی کے کارکنان جدون پلازہ کے باہر پہنچ گئے اور روڈ بلاک کر دی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اپنے چیئرمین کی رہائی تک روڈ بلاک رکھیں گے۔
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر نے ضلع بھر میں ایک ہفتے کے لئے دفعہ 144 کا نفاذ کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر جلسے و جلوسوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے، 9 مئی 2023 سے ایک ہفتہ تک تمام اجتماعات پر پابندی ہوگئی۔
اس کے علاوہ ملک کے دیگر اضلاع مریدکے، پتوکی، وہاڑی، قصور، سرگودھا، لکی مروت، سوات اور ملتان میں بھی کارکنان سڑکوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان گرفتاری کے خلاف دارالحکومت مظفرآباد سمیت آزاد کشمیر بھر میں پی ٹی آئی کے کارکن سڑکوں پرنکل آئے۔
مظفرآباد میں مظاہرین نے پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا، شہر میں ٹریفک کانظام بھی متاثر ہوگیا۔
وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احکامات جاری کرتے ہوئےکہا کہ صوبے میں دفعہ 144 کا نافذ کر دیا گیا ہے۔
میر ضیاء لانگو نے کہا کہ بلوچستان کے حالات پُرامن ہیں، البتہ کسی بھی صورت حالات خراب نہیں ہونے دیں گے، جو حالات خراب کرے گا ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
عمران کی گرفتاری کے بعد راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔ شہر بھر میں اجتماعات اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دفعہ 144کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
دفعہ 144 کا نفاذ وزارت داخلہ میں ہونے والے اجلاس کے بعد کیا گیا۔
کمشنر راولپنڈی نے کہا کہ دفعہ 144 کے نفاذ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
نیشنل ہائی وے اور موٹر وے پولیس (این ایچ ایم پی) کے مطابق ایم 1 اسلام آباد پشاور موٹر وے رشکئی کی طرف سے بند ہے۔
این ایچ ایم پی کا کہنا ہے کہ این 5 جمبر، ملٹری چوک، جمالی چوک، رینالہ بائی پاس، چونگی نمبر 26 اور موٹروے اسلام آباد کی طرف سے ٹریفک کے لئے بند ہے۔
اس کے علاوہ این 5 چمکنی، پبی، نوشہرہ، اوکاڑہ، خانیوال کی طرف لاہور موڑ، اقبال نگر نزد میاں چنوں ٹول پلازہ، کرم آباد کے نزدیک آفریدی چوک کے اطراف سے بھی بند کی گئی ہے۔
ہائی وے اور موٹر پولیس کا کہنا ہے کہ این 5 بحریہ ٹاؤن کراچی، راویٹ سٹی، گوجرانوالہ میں عالم چوک کے اطراف سے عوامی احتجاج کے باعث بندش ہے۔
چیئرمین عمران خان کی گرفتار کے بعد میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا، پولی کلینک اسپتال کے سات رکنی میڈیکل بورڈ کی سربراہی ڈاکٹر فرید اللہ شاہ کریں گے۔
میڈیکل بورڈ میں شعبہ امراض دل، آرتھو اور میڈیکل کے ڈاکٹرز شامل ہیں۔
بورڈ میں میڈیسن اور پتھالوجی کے ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے رد عمل دیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں، بھونڈے انداز میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا، عمران خان نے اسلام آباد روانگی سے قبل کہا تھا وارنٹ دکھائیں، گرفتاری دے دوں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان عدالت میں بائیو میٹرک کرارہے تھے، ان کی گرفتاری کے لیے پولیس اور رینجرز نےعدالت میں آکر حملہ کیا، عدالت کے شیشے توڑے گئے اور تشدد کیا گیا، عمران خان کے گارڈز پر حملہ کیا گیا، اس تشدد کا کوئی جواز نہیں بنتا، پی ٹی آئی رہنماؤں سے رابطے میں ہوں۔
عمران خان کی گرفتاری لندن پلان کا منصوبہ ہے، ان کی گرفتاری پر کارکنوں میں بے چینی ہے، عمران خان کی گرفتاری پر بھرپور ردعمل دیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری قابل قبول نہیں ہے، احاطہ عدالت میں غنڈہ گردی کا کوئی جواز نہیں تھا، سابق وزیراعظم کو فوری عدالت میں پیش کیا جانا چاہیئے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر رینجرزنے قبضہ کر لیا ہے، وکلاء کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، عمران خان کی گاڑی کے گرد گھیرا ڈال لیا گیا ہے۔
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ عوام گھروں سے باہر نکلیں، اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کیا گیا ہے، عمران خان کی گرفتاری عدلیہ کو بند کرنے کے مترادف ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے کارکنوں کو لبرٹی چوک پہنچنے کی ہدایت کردی ۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ ٹکٹ ہولڈر پارٹی عہدیداران اور کارکنان لبرٹی چوک پہنچیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما عندلیب عباس اور حماد اظہر نے عمران خان کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔
عندلیب عباس کا کہنا ہے کہ عمران خن ہماری ریڈ لائن ہے جو انہوں نے کراس کر لی ہے۔
حماد اظہر نے کہا کہ عمران خان پر دوران گرفتاری تشدد کی اطلاعات ہیں،عمران خان نے کوئی گناہ نہیں کیا، کوئی قانون نہیں توڑا، پوری قوم سے کہتا ہوں کہ باہر نکلیں، آج باہر نہ نکلے تو ملک چوروں کے حوالے ہوجائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الہٰی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
پرویزالہٰی نے کہا کہ عمران خان ضمانت کے لیےعدالت پیش ہوچکے تھے، گرفتاری قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے، عمران خان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ثابت ہوگیا کہ ملک فسطائیت کا شکار ہوچکا ہے، یہاں پر آئین و قانون کی عملداری نہیں ہے، عمران خان کی گرفتاری غیرآئینی وغیر قانونی ہے، عمران خان کے ہمراہ وکلاء کو بری طرح مارا پیٹا گیا، یہ کارروائی نوازشریف اور شہبازشریف کی ہدایات کے بغیر نہیں ہوسکتی۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری انتقامی کارروائی ہے، ان کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ فیصلہ حکومت کے گلے پڑے گا۔
شیخ رشید نے مزید کہا کہ گرفتاری سے عمران خان مزید مقبول ہوں گے، جیل جانے سےعمران خان کی سیاست مضبوط ہوگی، پاکستان ڈیفالٹ ہونے جارہا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا۔
عدالت عالیہ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کردیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ رجسٹرار ہائی کورٹ انکوائری کر کے 16 مئی تک رپورٹ جمع کرائیں۔
حکم نامے میں توڑ پھوڑ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔
عمران خان کی احاطۂ عدالت سے گرفتاری پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اور سیکریٹری داخلہ کو فوراً طلب کرلیا، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر گرفتاری قانون کے مطابق نہ ہوئی تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
عمران خان کے مقدمات سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت شروع کی اور شور شرابے پر پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ آپ نے یہ غلط کام ہے جس نے بھی کیا ہے اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آدھا گھنٹہ دے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ شیشے توڑے گئے ہیں، جس نے بھی کیا غلط کیا ہے، مجھے کارروائی کرنی پڑی تو وزرا اور وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کروں گا۔
عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا کہ پولیس، وکلا اور اسٹاف کو رینجرز نے مارا ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ عمران خان کو کس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے؟ فوراً بتائیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، سیکریٹری داخلہ کو پندرہ منٹ میں طلب کرلیا۔
انہوں ںے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی پندرہ منٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔
اس دوران علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان بائیو میٹرک کرانے برانچ گئے، انہیں بائیو میٹرک روم کے شیشے توڑ کر گرفتار کیا گیا، ہماری آنکھوں پر پیپر اسپرے کیا گیا اور سر پر ڈنڈے مارے گئے۔
واقعے کے وقت دائرہ برانچ میں موجود بیرسٹر علی گوہر نے کہا کہ رینجرز نے عمران خان پر تشدد کیا، عمران خان کی سر اور ٹانگ پر مارا، عمران خان کو گرفتار کرنے والے تمام لوگ رینجرز اہلکار تھے، عمران خان کی زخمی ٹانگ پر تشدد کیا گیا، عمران خان کی وہیل چیئر وہیں پر پھینک دی گئی، ملازمین وکلا کو مارا گیا، شیشے توڑے گئے۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی اور عمران خان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری پر بات ہوئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے وقت نیب تو نہیں تھی؟ اگر قانون کے مطابق نہیں ہوا تو مناسب آرڈر پاس کریں گے، اگر قانون سے ہٹ کر کچھ ہوا ہے تو نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج جو کچھ ہوا اس کے بعد وکالت ختم ہوگئی۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی کو طلب کیا تھا جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ سیکریٹری داخلہ پشاور میں ہیں ان کی جگہ ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ آرہے ہیں جو کہ راستے میں ہیں۔
چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہے کتنا بڑا ہے؟ پندرہ منٹ لگتے ہیں۔ عدالت کو آئی جی نے بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری نیب نے کی اور ان کی گرفتاری کے وارنٹ موجود تھے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کی عبوری ضمانت کی درخواست آئی تھی جب کہ آئی جی نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہاں سے گرفتاری ہوئی۔
وکیل بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے سر پر راڈ ماری گئی میں یہ بیان حلفی دینے کے لیے تیار ہوں۔
زخمی وکیل علی بخاری اور نعیم حیدر پنجوتھہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے جنہوں نے عمران خان کے وارنٹ کی کاپی عدالت کے سامنے پیش کردی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری نہیں ہو سکتی، قانون یہ کہتا ہے انکوائری کے دوران یہ گرفتار نہیں کرسکتے، القادر یونیورسٹی کیس میں عمران خان کی عبوری ضمانت آج دائر ہوئی، عمران خان بائیو میٹرک کرانے آئے تھے ان کو اسی وقت ریورس کرنا ضروری ہے ۔
زخمی وکیل علی بخاری نے کہا کہ میں دائرہ برانچ میں عمران خان کے ساتھ موجود تھا، پولیس کا اور بائیو میٹرک کا اسٹاف موجود تھا، پانچ پولیس والے بائیو میٹرک کے اندر موجود تھے، شیشے توڑ کر وہ اندر آئے کمپیوٹر والے شیشے توڑے ، ایک اسپرے میری آنکھوں میں کیا کورٹ کا اسٹاف آیا انہوں نے کہا علی بخاری کو نکالو۔
وکیل علی بخاری نے کہا کہ میں چیف جسٹس ہائیکورٹ کے سامنے کھڑا ہوں، میں نے شوق کے لیے وکالت کی، کورٹ کا اسٹاف ہے ان سب کو لائیں ان سے پوچھیں ان وردیوں میں کون لوگ تھے؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج جذبات زیادہ بولیں گے وکالت کم ہوگی۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ ہوا ہے ہمارا وقار واپس کرائیں۔
اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ شیلنگ ہو رہی ہے اس لیے ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نہیں پہنچے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں غصہ نہیں ہوتا لیکن میرے صبر کا امتحان نہ لیں۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ آج آپ کے غصے کا دن ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ نیب کسی کو اس طریقے سے بھی گرفتار کر سکتی ہے؟ کورٹ اسٹاف، وکلا، پولیس، عام لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ کیا ہے؟ کیا یہ گرفتاری قانونی ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو کچھ ہمارے وکلاء کے ساتھ ہوا وہ درست نہیں، باقی وارنٹ پر عمل درآمد ہوا ہے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ جس طریقے سے عمل درآمد کیا گیا، کیا یہ پروپر ہوا؟ وکلا پر حملہ میرے اوپر حملہ کیا ہے یہ؟ عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے یہ اتنا سادہ نہیں، اس لیے مجھے دیکھنا ہے مجھے اپنے آپ کو مطمئن کرنا ہے عدالت کے احاطے سے یہ گرفتاری ہوئی ہے۔
وکیل نعیم حیدر پنجھوتہ نے کہا کہ دائرہ برانچ کے دروازے اور شیشے توڑے گئے اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا وہ وردی میں تھے؟
تو نعیم حیدر نے کہا کہ جی بالکل وہ وردی میں تھے اس کی ویڈیوز موجود ہیں، میری گزارش ہے کہ آپ کے پاس اختیار ہے عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا جائے، رجسٹرار اس کیس کا کمپلیننٹ ہے، ہمارے پاس ویڈیوز ہیں یہ عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش تھی، 45 سال میں اس پیشے کے دوران کبھی نہیں دیکھا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری ہوجائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بار روم اور پارکنگ کو کیا کورٹ سمجھا جائے گا؟ اس پر تمام وکلا نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے کہنے پر شیم شیم کہنا شروع کردیا،عدالت نے تمام وکلا کو خاموش رہنے کی ہدایت کردی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر میں بھی وہاں ہوتا تو میرے ساتھ بھی یہی ہوتا۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ وکلا کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے یہ درست نہیں۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ مجھے ابھی نہیں پتا کہ واقعہ کہاں ہوا؟ خواجہ حارث بتایا ہے کہ وہ ضمانت کے لیے آئے تھے، میرے کون سے پولیس والے زخمی ہوئے مجھے پتا تو کرنے دیں۔
ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوگئے تھے، انہوں نے کہا کہ رینجرز ہائی کورٹ میں اسٹینڈنگ رکھی ہوئی ہے جب کہ آئی جی نے کہا کہ رینجرز پولیس کا اختیار استعمال کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ میرے سامنے میرے بھائی کھڑے ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ عمارت ٹھیک ہو جائے گی لیکن وقار برقرار رہنا ضروری ہے، اگر سسٹم بریک ڈاؤن کرجائے گا تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ رپورٹ پولیس کو بنانے دیں کل تک دے دیں گے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آج عدلیہ کی آزادی پر حرف آیا ہے، ہائی کورٹ کے آفس کے اندر گھس کر کسی کو گرفتار کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ فئیر ٹرائل نہیں ہے ایک شخص پٹیشن لے کر بیٹھا ہے اور اسے گرفتار کرکے لے جاتے ہیں، وہاں پر اتنا کچھ پڑا ہوا ہے یہ کہتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں، آئین کی کون سی شق یہ اجازت دیتی ہے میرے آئینی حقوق ہیں، ہماری پٹیشن یہی ہے کہ ہمیں نوٹس نہیں دیا تو گرفتار کر لیں گے، یہ رول آف لا کا معاملہ ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ سیکیورٹی کی وجہ سے رینجرز تعینات کی۔
جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے اعتراض کیا کہ تعیناتی کے دوران گرفتاری تو الگ چیز ہے ان کی جو بھی پوزیشن ہے بتائیں، خواجہ حارث سے میں بہت چھوٹا ہوں، میں خواجہ صاحب کا طالب علم ہوں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میری گزارش ہے ایک رپورٹ طلب کی جائے۔
عدالت نے ڈی جی نیب راولپنڈی اور پراسیکوٹر جنرل نیب کو آدھے گھنٹے میں طلب کرلیا جس کے سبب سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ دیا گیا۔
ڈی جی نیب اور ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔
عدالت نے نیب سے استفسار کیا کہ عمران خان کی گرفتاری کیلئےکب وارنٹ جاری کئے، رینجرز کو کس نے گرفتاری کا حکم دیا۔
نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہم نے تو وزارت داخلہ سے درخواست کی تھی۔
عدالت نے کہا کہ ہمیں اس سے غرض نہیں گرفتار کیوں کیا، عدالتی تحفظات یہ ہیں کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری کیوں ہوئی۔
سردار مظفر نے کہا کہ گرفتاری پر مزاحمت کا خدشہ ہو تو حفاظتی اقدامات کئے جاتے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ بائیومیٹرک روم کے دروازے اور شیشے ٹوٹ گئے، اس کا ذمہ دارکون ہے؟
سردار مظفر نے کہا کہ عمران خان نے بہت سے مواقع پر گرفتاری سے بچنے کیلئے مزاحمت کی، عمران خان نے انکوائری جوائن نہیں کی، اس لئے وارنٹ جاری کئے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پرائم کنسرن یہ ہے کہ گرفتاری قانونی تھی یا غیر قانونی۔
وکیل پی ٹی آئی خواجہ حارث نے کہا کہ نیب نے 30 اپریل کو خبر چھپوائی کہ نیب انکوائری نیب انویسٹی گیشن میں تبدیل کردی، ہمیں بھی بتایا جاتا ہے کہ انکوائری کو انویسٹیگیشن میں بدل دیا، دیکھا جائے کہ کیا نیب نے کوئی کال اپ نوٹس کیا۔
وکیل پی ٹی آءی نے کہا کہ کنورٹ کرنے کے بعد کال آپ نوٹس جاری کیا جانا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا، ہمیں تو پتا ہی اخبار سے چلا، آج عمران خان کی گرفتاری مکمل غیرقانونی ہے، ہم آج اسی کیس میں بائیومیٹرک کرانے آئے تھے، لیکن اس سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا، انہیں پتا تھا آج عدالت سے ریلیف مل جائے گا، نیب نے اس وقت تو نہیں بتایا کہ وارنٹ جاری کردیا گیا، ہم نے ہر کیس میں قانون کے مطابق عدالت سے ریلیف لیا، ہمیں عدالت سے انصاف کی اُمید ہےعدالت قانون کے مطابق ریلیف دے۔
سلمان صدر کا کہنا تھا کہ آج میرے اسٹاف کو مارا گیا جو غیر قانونی تھا، عدالت کو اس پر ایکشن لینا چاہیے، میری استدعا ہے کہ عمران خان کو جیسے لیکر گئے ویسے ہی لیکر آئیں، کیس میں ضمانت کی درخواست دائر کی جائےتو گرفتاری نہیں ہوسکتی۔
جس کےبعد عدالت نے عمران خان کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا تھا کہ یہ کیس طرح ہوا ہے، عمران خان کو کس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے، اگر نہیں بتایا گیا تو وزیراعظم کو طلب کروں گا۔
قبل ازیں سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے حراست میں لیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کو نیب میں زیر تحقیق القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ عمران خان 2 کیسز میں پیشی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے تھے جہاں پہلے سے ہی پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔