Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کیلئے فنڈز ملے یا نہیں ملے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو رپورٹ جمع کرانےکی ہدایت کردی۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کیلئے فنڈز کے اجراء کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن سے پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کیلئے فنڈز ملے یا نہیں ملے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو جمعہ تک رپورٹ جمع کرانےکی ہدایت کردی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کیلئے 27 اپریل تک فنڈز منتقلی کا حکم دیا تھا۔
دوسری طرف قومی اسمبلی نے انتخابات کے لئے 21 ارب روپے فنڈز دینے کی قرارداد ایک پھر مسترد کردی۔
جمعرات کو الیکشن فنڈز سے متعلق قرارداد وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں پیش کی جسے اسمبلی نے مسترد کردیا۔
جمعرات کو ہی سپریم کورٹ میں ملک بھرمیں ایک روز انتخابات کرانے کی درخواست پرسماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمربندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاستدانوں کو خود سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے، اگر مذکرات کے ذریعے حل نہ نکلا تو آئین بھی اور ہمارا فیصلہ بھی موجود ہے، ہم نہ کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن دیں گے، سماعت پر مناسب حکم جاری کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اعتماد کا ووٹ وزیراعظم شہباز شریف اور حکمراں اتحاد (پی ڈی ایم) کی بڑی شکست ہے۔
وزیراعظم کے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے پر ردعمل دیتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 20 اراکین اسمبلی جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ان کا ووٹ وزیر اعظم کے حق میں شمار نہیں کیا جا سکتا لہذا شہباز شریف کو 172 ارکان کی بجائے صرف 160 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔
تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ قومی اسمبلی میں اعتماد کا یہ ووٹ وزیراعظم شہباز شریف اور حکمراں اتحاد ( پی ڈی ایم) کی بہت بڑی شکست ہے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف پر اعتماد کی تحریک وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے پیش کی، جسے منظور کرلیا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے قرارداد کے حق میں اراکین کو کھڑے ہو کر ووٹ دینے کی ہدایت کی، جس پر وزیراعظم شہبازشریف کو قومی اسمبلی کے 180 ارکان نے اعتماد کا ووٹ دیا۔
رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) احمد اویس کا کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے ملک کے اگلے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں گے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے احمد اویس نےکہا کہ پہلے شہباز شریف کہتے تھے وہ عمران خان سے مذاکرات نہیں کریں گے، سپریم کورٹ کے کہنے پر وہ مذاکراتی ٹیبل پر بیٹھے ہیں، اللہ کرے یہ بات چیت آگے چلے اور اس میں کامیابی ہو۔
احمد اویس نے کہا کہ مذاکراتی ٹیبل پر بیٹھ کر گفتوشنید کرنا خوش آئند عمل ہے، یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا جسے عدالت نہیں جانا چاہئے تھا۔
وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ قمر زمان کائرہ کو نوید سنا دیتا ہوں کہ انتخابات سے پہلے ملک کے اگلے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں گے، عدالت کے پاس اس کے اختیارات ہیں۔
صوبائی اسمبلیوں کی بحالی کے سوال پر احمد اویس نے کہا کہ نگراں کابینہ کا مینڈیٹ 90 روز سے زیادہ نہیں، انہیں کسی قسم کے احکامات جاری کرنے کا حق نہیں، 90 دن پہلے ہی گزر چکے ہیں تو کس حیثیت نگراں کابینہ کام جاری کر سکتے ہیں، اسی کے پیش نظر عمران خان نے پرویز الٰہی کو درخواست دائر کرنے کی ہدایت ہوگی، البتہ ایسا کبھی ہوا نہیں۔
مذاکرات میں کسی کی فتح اور کسی کی شکست نہیں، قمر زمان کائرہ
اس موقع پر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ یہ بات طے ہے پارلیمان سپریم ہے، باقی عدلیہ کا احترام ہے، اس کی اپنی حیثیت ہے، عدالت سے انکار کرکے جمہوریتی عمل نہیں چلا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی ڈائیلاگ کے راستے کھولنے چاہئے جو نہ کھلنے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں آمنے سامنے تھی، اب یوں لگ رہا تھا کہ پارلیمان اور عدلیہ بھی آمنے سامنے آگئے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ اب باہر نکلنے کی صورتحال پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے، مذاکرات میں کسی کی فتح اور کسی کی شکست نہیں ہے، آج سے بہتر سفر شروع ہوا ہے۔
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ڈائیلاگ میں کوئی فریق شرط نہیں رکھ سکتا البتہ اپنا ایجنڈا رکھ کر بیٹھ سکتا ہے، ہماری طرف سے ایک اصول طے ہے کہ ملک میں بیک وقت انتخابات ہونا چاہئے۔
مولانا فضل الرحمان کا عمران خان کے رویے پر غصہ جائز ہے، رہنما پیپلز پارٹی
مولانا فضل الرحمان کا مذاکرات میں حصہ نہ لینے پر پی پی رہنما نے کہا کہ پی ڈی ایم سربراہ کا عمران خان کے رویے پر غصہ جائز ہے لیکن ہمیں غصے پر قابو پا کر آگے بڑھنا ہے۔
پنجاب، کے پی اسمبلیوں کی بحالی پر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ دونوں اسمبلیاں بحال نہیں ہو سکتیں، پرویز الہٰی کی درخواست کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی کیونکہ الیکشن کمیشن ممبران کو ڈی نوٹیفائی کرچکا ہے اور نگراں سیٹ اپ انتقال اقتدار تک کام جاری رکھیں گے۔
قبل از وقت انتخابات سے متعلق وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ جولائی میں الیکشن کرانے کے لئے دو ڈھائی ماہ پہلے اسمبلیاں تحلیل کرنی ہوں گی، آئی ایم ایف ہماری گردن پکڑے بیٹھا ہے جب کہ انتخابات کے لئے فنڈز کون جاری کرے گا۔
پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے رہنما جمعیت علماء اسلام حافظ حمد اللہ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے بیان کا مقصد یہ نہیں کہ وہ مذاکرات کے لئے حامی نہیں، لیکن پی ڈی ایم سربراہ کا مذاکرات کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کا مؤقف ہے کہ مذاکرات پارلیمنٹ میں ہونا چاہئے اور عمران خان ثابت کریں وہ سیاستدان ہیں، لہٰذا ہتھوڑے کے بل پر مجبور کرکے مذاکرات نہیں ہوتے۔
حافظ حمد اللہ نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام فیصلہ کرچکی ہے، ہم نے وزیراعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ دیا، پوری پارلیمنٹ ان کی پشت پر کھڑی ہے، پارلیمنٹ سپریم ہے اور اب مولانا فضل الرحمان عوام میں جا کر بڑے جلسے بھی کریں گے۔
ہم عدت اور جمہوریت دونوں میں مدت کے قائل ہیں، مولانا حمد اللہ
رہنما جے یو آئی کا کہنا تھا کہ انتخابات کرانا سپریم کورٹ کی نہیں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، وزارت دفاع سمیت دیگر اداروں نے کہا ابھی الیکشن کا ماحول نہیں، ای سی پی ایک آئینی ادارہ ہے، پی ڈی ایم کی کسی نے حکومتی دور میں توسیع کی بات نہیں کی کیونکہ ہم عدت اور جمہوریت دونوں میں مدت کے قائل ہیں۔
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے لندن میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی عون چوہدری نے ملاقات کی اور انھیں اہم پیغام پہنچایا۔
ملک میں سیاسی پارہ ہائی ہے اور عمران خان سے ناراض اور جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جانے والے جہانگیر ترین بھی خاصے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں، انھوں نے عون چوہدری کے ذریعے نواز شریف کو لندن میں اہم پیغام بھجوایا ہے۔
قائد ن لیگ نواز شریف سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی عون چوہدری نے لندن میں ملاقات کی، جس میں پاکستان کی سیاسی صورتحال اور ملکی معاملات پر بات چیت کی گئی۔
عون چوہدری نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو جہانگیر ترین کا پیغام پہنچایا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر عون چوہدری نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام کی خواہش ہے کہ آپ جلد صحت یاب ہوکر پاکستان آئیں۔ آپ کی قیادت میں پاکستان نے پہلے بھی ترقی کی اور ملکی معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کی آپ میں صلاحیت ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور ماہر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ انتخابات تو ایک دن ہی ہوں گے، فیصلہ الیکشن کی تاریخ کا کرنا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ یہ طے ہے کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن ہوں گے، فیصلہ یہ کرنا ہے کہ انتخابات کب ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کریں گے، سپریم کورٹ نے چیئرمین سینیٹ کو سہولت کار بننے سے نہیں روکا، چیئرمین سینیٹ سیاسی جماعتوں کو خط لکھیں گے۔
واضح رہے کہ حکمراں اتحاد اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کے درمیاں بیک وقت الیکشن کے حوالے سے مذاکرات کا پہلا دور ختم ہوگیا جبکہ مذاکرات کا دوسرا دور جمعہ کو منعقد ہوگا۔
حکمراں اتحاد (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں اور کس بنیاد پر کریں، اپنے اصول کے تحت سینیٹ کمیٹی کا حصہ نہیں بن رہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ 14مئی کو پنجاب میں الیکشن کیلئے تھا، سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کیلئے مجبور کررہی تھی، پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں،کس بنیاد پر کریں، ہم اپنے اصول کے تحت سینیٹ کمیٹی کا حصہ نہیں بن رہے۔
انھوں نے کہا کہ انتخابات کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو مشاورت کیلئے بلاسکتا ہے، سپریم کورٹ 90 دن میں کیوں پھنس گئی ہے، پاکستان میں انتخابات ہمیشہ ایک دن ہوتے رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیڈریش اور آئین کو بچانا ہے، آج سپریم کورٹ کے رویہ کو مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں، سپریم کورٹ نے سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی ہے، ہم پنجاب الیکشن اور فنڈنگ سے متعلق عدالتی فیصلہ ناقابل قبول نہیں قرار دے رہے بلکہ اسے ناقابل عمل کہہ رہے ہیں۔
پی ڈی ایم کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر بنیادی ڈھانچے کا ایک بھی ستون گرتا ہے تو عمارت گر جاتی ہے، ہماری نظر وفاق پاکستان پر ہے، عدالت نے ایک طرف مذاکرات کا کہا اور دوسری طرف ہتھوڑا دکھایا۔
ملک میں جاری ڈیجیٹیل مردم شماری سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کےعمل پراعتماد کیا جارہا ہے، اندرون سندھ، کوئٹہ، فاٹا میں مردم شماری پراعتماد کیا گیا، مجموعی طور پر 5 سال میں ہماری آبادی کم ہوگئی۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی نے انتخابات کے لئے 21 ارب روپے فنڈز دینے کی قرارداد ایک پھر مسترد کردی۔
الیکشن فندز سے متعلق قرارداد وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں پیش کی جسے اسمبلی نے مسترد کردی۔
اس ضمن میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کی 3 رکنی بینچ کا فیصلہ قبول نہیں، کوئی ادارہ پارلیمان کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش نہ کرے۔
خیال رہے کہ وفاقی کابینہ نے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کی وزارت خزانہ کی سمری ایک بار پھر پارلیمنٹ کو ریفر کرنے کی منظوری دی تھی۔
اس کے علاوہ گزشتہ روز قومی اجلاس سے خطاب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم اپنی جگہ لیکن انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم نہیں کرسکتے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو 29 اپریل صبح 8:30 بجے پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو طلب کرلیا ہے، اس حوالے سے جوڈیشل مجسٹریٹ مبشرحسن نے طلبی کے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔
عدالت نے تھانہ سہالہ میں درج مقدمہ میں عمران خان کو طلب کیا ہے، اور عمران خان کو 29 اپریل صبح 8 بج کر 30 منٹ پرعدالت پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کی درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے بغاوت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وکیل شاہد رانا کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت میں دائر درخواست میں درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عدالت نے بغاوت کے قانون سکیشن 124 اے کو کالعدم قرار دیے دیا تھا، حکومت ابھی تک عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کر رہی۔
درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ بغاوت کا قانون 1860 میں بنایا گیا جو انگریز دور کی نشانی ہے، بغاوت کا قانون غلاموں کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، آئین پاکستان ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے، اب بھی بغاوت کے قانون میں حکمرانوں کے خلاف تقاریر کرنے پر دفعہ 124 اے لگادی جاتی ہے، بغاوت کے قانون کو اب بھی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
درخواست کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ عدالت پی پی سی 1860 کی دفعہ 124-A کو خلاف آئین قرار دینے کے اہنے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوے جواب طلب کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے درخواست گزار کو درخواست میں ترامیم کی ہدایت کردی۔
خیال رہے کہ 30 مارچ جو لاہور ہائی کورٹ نے بغاوت کی دفعہ 124 اے تعزیرات پاکستان کو کالعدم قرار دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ اگر دفعہ 124 اے کو رہنے دیا گیا تو میڈیا بھی اس کا شکار ہوجائے گا، وقت کا تقاضہ ہےکہ نفرت انگیز تقریروں کے خلاف ہتک عزت کے قانون کو مضبوط کیا جائے، سیاسی مخالفین میں محبت نہیں ہوتی اس لیے وہ جو بھی کہیں گے وہ 124 اے کی زد میں آجائے گا۔
عدالت نے قرار دیا کہ دفعہ 124 اے نو آبادیاتی دور کی باقیات ہے، وقت آ گیا ہے کہ اسے آخری آرام گاہ پہنچایا جائے۔
اسلام آباد: حکومت اور پاکستان تحریک انصاف وفد کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔
مذاکرات کو کھلے دل سے اور لچک کے ساتھ کیے جانے پر دونوں فریقین نے اتفاق کیا جب کہ حکومتی وفد کی طرف سے واضح کیا گیا کہ انتخابات ایک ہی دن اور اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں منعقد ہوں گے۔
حکومتی وفد نے واضح کیا کہ 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات منظور نہیں جب کہ فیصلے پارلیمنٹ کی بالادستی کو سامنے رکھ کر ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ الیکشن سے قبل غیر جانبدار الیکشن کمیشن تشکیل اور غیر جانبدار نگراں حکومت بنائی جائے۔
تحریک انصاف نے کہا کہ قومی اسمبلی تحلیل کرنےکی ڈیڈ لائن دی جائے اور جولائی میں اسمبلی تحلیل کرکے عام انتخابات ہوں۔
مذاکرات کے پہلے روز حکومت نے مؤقف اپنایا کہ وفاقی بجٹ موجودہ قومی اسمبلی ہی پاس کرے گی کیونکہ نگراں حکومت کے لئے بجٹ بنانا ممکن نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف نے حکومت سے قومی اسمبلی سے مستعفی ارکان کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی پی ٹی آئی کو دیا جائے اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی تاریخ بھی دی جائے۔
دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ الیکشن میں تاخیرکیلئےآئین میں ترمیم کرنی پڑے گی، آئینی ترمیم کے لئے پی ٹی آئی کی ایوان میں موجودگی نا گزیر ہے، پی ٹی آئی مطالبات کی حتمی فہرست کل تحریری طور پر حکومتی وفد کو پیش کرے گی۔
واضح رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی وفود کے درمیان پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم نمبر 2 میں مذاکرات شام کے تقریباً 6 بجے شروع ہوئے، مذاکرات کی دوسری نشست جمعہ کو دوپہر تین بجے ہوگی۔
پہلے دور کے مذاکرات کے بعد حکمراں اتحاد ارکان کے ہمراہ میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے فیصلہ ہوگا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی رائے شامل ہوگی، پی ٹی آئی سے اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی، آئین کے دائرے میں رہ کرمعاملات کا جائزہ لینا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے مذاکرات کے پہلے دور کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ نیت صاف ہو تو مسائل کا حل بات چیت سے نکل سکتا ہے، مذاکرات کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، دونوں جانب سے اپنا نکتہ نظر پیش کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے ہمیں مکمل مینڈیٹ دے رکھا ہے، جو بھی حل تجویز کریں گے وہ آئین کے مطابق ہوگا، عوام کی فلاح کے لیے اس ہیجانی کیفیت سے نکالا جائے، جمعہ کو دوسری نشست تین بجے اسی مقام پر ہے، حکومتی ٹیم نے اتحادیوں سے مشاورت کا وقت مانگا ہے۔
حکومتی ٹیم میں شامل وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اگلی نشست میں مزید تفصیل کے ساتھ بات چیت ہوگی، ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے، یہ اصول طے ہے کہ آئین میں رہ کر معاملات کو حل کرنا ہے، ریاست، عوام کے مفادات کو مدنظر رکھا جائےگا۔
اس قبل حکومت نے تحریک انصاف سے مذاکرات کے لئے ٹیم تشکیل دی جس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، سید نوید قمر، خواجہ سعد رفیق اور کشور زہرا شامل ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی طرف سے شاہ محمود قریشی، علی ظفر اور فواد چوہدری شامل ہیں۔
جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے قائم ٹیم کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو تسلیم ہی نہیں کرتے،نا باہر اور نا پارلیمان میں، اس لئے ان سے کہیں پر بھی مذاکرات نہیں ہوں گے، جے یو آئی پارلیمنٹ اور آئین پاکستان کے دفاع کے لئے جلسے کرے گی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کیلئے ٹائم فریم دینے کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا، اور چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت مذاکرات کیلئے مجبورنہیں کرسکتی، مذاکرات حکم نہیں صرف تجویز ہے مذاکرات کیلئے ابھی کوئی ہدایت یا ٹائم لائن نہیں دے رہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت نے نیک نیتی دکھانے کیلئے کیا اقدامات کیے، لگتا ہے صرف پاس پاس کھیل رہی ہے، اگر مذاکرات کے ذریعے حل نہ نکلا تو آئین بھی اور ہمارا فیصلہ بھی موجود ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کوئی کچھ بھی کر لے پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، ملک میں الیکشن ایک ہی روز ہوں گے۔
اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم شہباز شریف نے 180 ووٹ حاصل کرکے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا۔
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم کا اسمبلی سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کوالیکشن جتوانے کیلئے دھاندلی کا بازار گرم کیا، ہفتے اور اتوار کے روز عدالتیں لگا کر فیصلے سنائے جاتے تھے، سابق چیف جسٹس کا کردار قوم کے سامنے آچکا ہے، یہ سازش میرے یا حکومت کے خلاف نہیں، پاکستان کے خلاف تھی، مجھے پارلیمان نے وزیراعظم منتخب کیا ہے، پارلیمان کوئی فیصلہ کرکے کابینہ کو بھیجتے ہیں تو اس پرعملدرآمد کا پابند ہوں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئین بنانا اور اس میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، آئین کو ری رائٹ کرنا عدلیہ کا اختیار نہیں، آج ہاؤس نے اپنا فیصلہ دیدیا ہے، یہ ہاؤس 3 رکنی بینچ کو نہیں 4،3 کومانتا ہے۔
شہبازشریف نے بتایا کہ حکومتی اتحاد میں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر اختلاف تھا، بڑی مشکل سے اتحادی ارکان کو مذاکرات پر رضامند کیا گیا، سینیٹ میں پی ٹی آئی سے مذاکرات کئے جائیں گے، اور مذاکرات کا ایجنڈا ملک میں شفاف انتخابات ہوگا۔
اس سے قبل وزیراعظم نے اسلام آباد میں اراکین پارلیمنٹ کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا جس میں مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کے 175 سے زائد ارکان شریک ہوئے۔
شہبازشریف کے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے پر ظہرانے میں شریک اراکین پارلیمنٹ نے شہباز شریف کا استقبال کیا۔
وزیراعظم نے فردا فردا تمام اراکین کے پاس جا کرملاقات کی اور تمام اراکین پارلیمنٹ کوعید کی مبارکباد بھی دی۔
ذرائع کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کے لیے ظہرانے میں 6 ڈشوں کا اہتمام کیا گیا۔
وزیر اعظم نے اراکین پارلیمنٹ کے لیے وزیرِ اعظم ہاؤس سے کھانا تیار کروایا ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کے لیے باربی کیو کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جبکہ میٹھے میں فرنی، حلوہ اور فروٹ چاٹ بھی رکھی گئی۔
ظہرانے کا اہتمام پارلیمنٹ ہاؤس میں اسپیکر لاؤنج میں کیا گیا ہے جبکہ وفاقی وزراء اور کابینہ اراکین کے لئے الگ سے کھانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ظہرانے میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو اور اتحادی جماعتوں سمیت پی ٹی آئی کے 20 منحرف اراکین بھی شریک ہوئے۔
وزیراعظم کی کفایت شعاری مہم کے تحت سرکاری دعوتوں میں ون ڈش کا اعلان کیا گیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ملکی مجموعی صورتحال ارکان اسمبلی کے سامنے رکھ دی۔
وزیراعظم نے اراکین پارلیمنٹ کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے سے خطاب میں دو ٹوک مؤقف اپنایا کہ کوئی کچھ بھی کر لے پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، ملک میں الیکشن ایک ہی روز ہوں گے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اس کا فیصلہ قبول کرنا ہو گا، حکومت ہر معاملے پر پارلیمنٹ کے فیصلوں پر عمل یقینی بنائے گی۔
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈ کے انٹرنیز کو مستقل کرنے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈ کے انٹرنیز کو مستقل نہ کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
درخواست گزاروں کے وکیل سلمان منصور اور ملک اویس خالد نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ کنٹریکٹ ملازمین کو جان بوجھ کر انٹرنیز کا نام دے کر مستقل نہیں کیاجارہا ہے، مستقل عہدوں کے باوجود درخواست گزاروں سے امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، درخواست گزار سال 2013سے مستقلی کی راہ تک رہے ہیں مگر شنوائی نہیں ہورہی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت درخواست گزاروں کو مستقل کرنے کا حکم دے۔
عدالت نے سرکاری وکیل کی جواب داخل کرنے کے لئے مہلت کی استدعا مسترد کردی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت انٹرنیز کو بھی ملازمین قرار دینے کا فیصلہ سناچکی ہے، ادارہ جان بوجھ کر عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کررہا ہے، محکمے کو کون غلط مشورے دے رہا ہے، عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ عدالت جائزہ لے چکی، محکمے کا ملازمین کو مستقل نہ کرنے کا فیصلہ غلط ہے، پتہ نہیں آج کل ان سیکرٹریوں کا بھی کیا معیار ہوگیا ہے جو فیصلہ لکھتے ہیں اس کا کوئی سرانپیں ہوتا۔
عدالت نے پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈ کے انٹرنیز کومستقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست منظور کرلی۔
لاہور ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں زرعی ترقیاتی بینک کے صدر کو جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے عدالتی احکامات نظرانداز کرنے پر زرعی ترقیاتی بینک کے صدر کےخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
زرعی ترقیاتی بینک کے ڈائریکٹر لیگل مقبول سکھیرا عدالت پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کو ناقص کارکردگی کی بناء پر نوکری سے برطرف کیا گیا، عدالت بینک کے صدر کا تفصیلی جواب داخل کرنے کے لئے مہلت دے۔
درخواست گزار ناصر حسین کے وکیل سعد غازی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم امتناعی کے باوجود درخواست گزار نائب صدر زرعی ترقیاتی بینک کو نوکری سے برطرف کردیا گیا، نوکری سے برطرفی عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور توہین عدالت ہے۔
استدعا ہے کہ عدالت زرعی ترقیاتی بینک کےصدر کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائے۔
جس پر عدالت نے زرعی ترقیاتی بینک کےصدر کو جواب جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 3 ہفتوں تک ملتوی کردی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ حکومت سنجیدہ ہے تو ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں، پی ڈی ایم سرکار کا اصل رنگ کیا ہے آج نظر آجائے گا۔
لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے جمود توڑنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، ہم نے نہیں پی ڈی ایم سرکار نے ٹائم مانگا تھا، وقت مانگ کر بھی یہ لوگ 4 بجےعدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ عدالت نے قومی مفاد میں سب کو وقت دیا تھا، آج تک مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، مذاکرات کے لئے پی ٹی آئی کی 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، اٹارنی جنرل نے 3 رکنی کمیٹی کو تسلیم کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکمران مذاکرات کے عمل کو بریک لگانا چاہتے ہیں، حکومت سنجیدہ ہے تو ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں، چیف جسٹس نے پھر کہہ دیا کہ فیصلہ بہت واضح اور قائم ہے۔
بھٹو کے نواسے کی پارٹی آئین کا تحفظ چاہتی ہے یا حملہ کرنا چاہتی ہے، ہم آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں، ہم آج شام 4 بجے بھی بیٹھنے کے لئے تیار ہیں، پی ڈی ایم سرکار کا اصل رنگ کیا ہے آج نظر آجائے گا۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ 90 دن کی مدت آئین میں درج ہے، ہم آئین میں رہتے ہوئے ہی مذاکرات کریں گے، حکومت میڈیا پر کچھ ، پارلیمنٹ میں کچھ اورعدالت میں کچھ کہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکمران کی پالیسی ہے کہ عدالت میں جاتے ہی پاؤں پڑجائیں، الیکشن ہر صورت کروانا ہے، انحراف ممکن نہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید نے کہا کہ مذاکرات وقت ضائع کرنے کی حکومتی سازش ہیں، اسپیکر کا خط عدلیہ کو کھلم کھلا دھمکی ہے، حکومت مذاکرات کے نام پر تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔
حکومت مذاکرات کے نام پر جھانسا دے رہی ہے، مذاکرات سے کوئی نتیجہ نہیں نکلےگا، نیتجہ سپریم کورٹ کے دروازے سے نکلے گا، نیتجہ سڑکوں پر نکلے گا۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے خاتون جج دھمکی کیس کی سماعت میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وکیل کی استدعا پر ملتوی کردی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سِپرا نے خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں عدالتی نوٹس جاری ہونے پر نظرِ ثانی اپیل پر سماعت کی، عمران خان کے وکیل گوہر علی خان عدالت میں پیش ہوئے۔
اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ کے تفتیشی افسر صغیر علی بھی ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل گوہر علی خان نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کر دی۔
وکیل گوہر علی خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی جانب سے وکیل نعیم پنجوتھہ کو پیش ہونا ہے جو لاہور ہیں۔
انہوں نے استدعا کی کہ عمران خان کے وکیل آج دستیاب نہیں، اس لیے سماعت ملتوی کی جائے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے کیس کی سماعت 3 مئی تک ملتوی کر دی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی تحقیقات میں اپنا جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرادیا۔
نیب نے انکوائری کے خلاف عمران خان کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کسی ریلیف کے مستحق نہیں ہیں، انہوں نے ’کلین ہینڈز‘ کے ساتھ ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا۔
عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں نیب نے کہا کہ عمران خان کو سوال نامہ بھیجا مگر سوالات کا جواب نہیں دیا گیا، عمران خان طلبی نوٹس پر نیب کے سامنے پیش بھی نہیں ہوئے۔
نیب کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ عمران خان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، وہ جان بوجھ کرمعاملے کو التواء میں ڈالنا چاہتے ہیں، عمران خان اور ان کی اہلیہ نے 58تحائف رکھے، عمران خان نے معلومات دینے کے بجائے ٹال مٹول والا جواب بھیجا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں نیب نے یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے 14 کروڑ روپے سے زائد کے تحائف 3 کروڑ 80 لاکھ روپے میں رکھ لیے، انہوں نے معلومات دینے کے بجائے ٹال مٹول والا جواب بھیجا لہٰذا عمران خان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں درج مقدمات کی تعداد 29 ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
سرکاری وکیل نے بتایاکہ عمران خان کےخلاف اسلام آباد میں درج مقدمات کی تعداد 29ہے ،عدالت کے حکم پر کیسز کی تفصیل عمران خان کو فراہم کردی گئی ہے۔
عدالت نےسابق وزیراعظم کو متعلقہ فورم سےرجوع کی ہدایت کرتے ہوئے مقدمات کی تفصیلات فراہمی اور گرفتاری سے روکنے سے متعلق درخواست نمٹا دی۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ عمران خان نے تفصیلات کی فراہمی کے لیے ابھی تک قانون کے مطابق رابطہ نہیں کیا، عمران خان کو انفارمیشن ایکٹ 2017 کے تحت متعلقہ اداروں سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنا سیاسی موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ غریب مہنگائی بے روزگاری سے مررہا ہے اور حکمران نیرو کی بانسری بجارہے ہیں، پوری دنیا میں سپریم کورٹ کوجو مقام حاصل ہے پاکستان میں اس کی توہین کی جارہی ہے، نہ آئی ایم ایف نہ الیکشن نہ عدلیہ و آئین کا احترام ہے۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کا چیف جسٹس کو خط عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ ہے، استحقاق کمیٹی میں ججوں کو بلانے کی بات کرنا ٹکراؤ کی علامت ہے، میرے نزدیک اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت انتخاب کے لیے 21 ارب دینے کی پابند ہے، پارلیمنٹ کٹوتی یا انکارنہیں کرسکتی، قانون پارلیمنٹ کا کام ہےاوراس کی تشریح سپریم کورٹ کرتی ہے، آئین میں 90 دن کے اندر الیکشن لازمی ہیں، من پسند کے جج اور من پسند کے فیصلوں کی کوئی گنجائش نہیں، سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنا اس کے فیصلوں کو نہ ماننا سیاسی موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔
شیخ رشید نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بحال بھی کیا تھا اور گھر بھی بھیجا تھا، پوری قوم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے اور تمام ریاستی ادارے سپریم کورٹ کے تابع ہیں، آج جنگل کے قانون کا یا قانون کی بالادستی کافیصلہ ہوجائے گا۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون 2023 کے خلاف درخواست داٸر کردی گئی۔
درخواست تحریک انصاف کے وکیل ایڈووکیٹ اظہرصدیق کی جانب سے دائرکی گئی ہے ۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کو چیلنج کردیا گیا
درخواست میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو غیرآئینی وغیرقانونی قراردیتے ہوئے اسے عدالتی فیصلہ تک معطل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد روک دیا
درخواست میں کہا گیاہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو گزٹ نوٹیفکیشن کے لئے قانون پر دستخط سے روکا جائے۔
درخواست میں وفاقی حکومت، اسپیکر قومی اسمبلی، وزیر قانون، وزیراعظم اور صدر کے پرنسپل سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل‘ قانون بن گیا، نوٹیفکیشن جاری
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کینال روڈ پر جلاؤ گھیراؤ اور پولیس تشدد سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی عبوری ضمانتوں میں 6 مئی تک توسیع کردی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کی جج عبہر گل نے کینال روڈ پر جلاؤ گھیراؤ اور پولیس پر تشدد کے مقدمے میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کا مقدمہ: فرخ حبیب اور اسد عمر کی عبوری ضمانت مسترد
یاسمین راشد، اسد عمر، عمیر نیازی، مسرت چیمہ، فرخ حبیب نے حاضری مکمل کرائی جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ آفتاب پھلروان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
جج انسداد دہشت گردی عدالت نے استفسار کیا کہ تفتیش میں کیا پراگرس ہے؟ جس پر پولیس نے بتایا کہ ابھی تفتیش جاری ہے لیکن فرخ حبیب اور مسرت جمشید چیمہ ابھی شامل تفتیش نہیں ہوئے۔
پولیس کے مطابق حسان نیازی اور زبیر نیازی شامل تفتیش ہوئے لیکن انہوں نے بیان نہیں دیا۔
مزید پڑھیں: اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراؤ، پولیس پرحملے کے الزام میں 198 پی ٹی آئی کارکنان گرفتار
عدالت نے فرخ حبیب سے استفسار کیا کیوں آپ شامل تفتیش نہیں ہوئے؟ جس پر ان کے وکیل نے بتایا کہ بیان داخل کرا دیا ہے۔
مسرت چیمہ کے وکیل نے نشاندہی کی کہ جے آئی ٹی کو چیلنج کیا ہوا ہے ، اگر جے آئی ٹی ہی ختم ہو جاتی ہے تو اس کا کیا فائدہ ہے۔
جج عبہر گل نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی ختم بھی ہو جاتی ہے تو بیان تو ریکارڈ کرانا ہے۔
مزید پڑھیں: جلاؤ گھیراؤ، پولیس پر تشدد کیس: پی ٹی آئی رہنماؤں کی عبوری ضمانت میں توسیع
عدالت نے باور کرایا کہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں، جس پر وکیل نے استدعا کی کہ پنجاب میں انتخابات کی وجہ سے 14 مئی کے بعد کی تاریخ دے دیں۔
عدالت نے پولیس کو تفتیش مکمل کرنے کے لئے وقت دے دیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر زبیر نیازی تفتیش میں شامل نہیں ہوتے تو پھر قصور لکھ دیں۔
عدالت نے اسلم اقبال کے پیش نہ ہونے پر ان کی حد کارروائی کچھ دیر تک ملتوی کر دی۔
عدالت نے اسد عمر، فرخ حبیب اور دیگر کی عبوری ضمانتوں میں 6 مئی تک توسیع کرتے ہوئے کہا کہ 6 مئی کو کیس سن کے فیصلہ کریں گے۔
عدالت نے مسرت چیمہ اور فرخ حبیب کو آج ہی شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کردی ۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ عدالت جو فیصلہ کرے گی وہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا، حکومت آئین سے انحراف پر بضد ہے۔
لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ امید ہے عدالت آئین پر عملدر آمد کے لئے ٹھوس اقدامات کرے گی، آئین کے انحراف کا مطلب ہر پاکستانی کے حق پر ڈاکہ ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ لگ رہا ہے کہ حکومت ایک بار پھرعدالت کے حکم سےعدولی کرے گی، یہ لوگ شہبازشریف کی قربانی کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کل پارلیمان میں اعلان بغاوت کیا گیا، پارلیمان میں سپریم کورٹ کے کسی جج سے متعلق بحث نہیں ہوسکتی، کل ایک بار پھر ذاتی حملے کیے گئے، عوام آئینی حقوق کے لئے باہر نکلیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے کہا کہ آج پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگیں ہوئی ہیں، امپورٹڈ حکومت سپریم کورٹ کے حکم کی عدولی کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس بل منظور کروانے کی اکثریت نہیں، ن اور ش کی لڑائی بڑھ چکی ہے، شہبازشریف کو نااہل کروایا جارہا ہے، ن لیگ انتخابات میں شکست کے خوف سے بھاگ گئی ہے۔
فرخ حبیب کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پرعمل نہیں ہوا تو یہ کبھی الیکشن نہیں کروائیں گے، عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوا تو فیصلہ سڑکوں پر ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف ضرورت پڑنے پر آج قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں، اس حوالے سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو ضمنی ایجنڈا تیار رکھنے کی ہدایت کردی گئی۔
وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کے معاملے پر حکومت نے تیاری مکمل کرلی۔ اعتماد کے ووٹ کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کی جانب سے آج انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے بعد کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: انتخابات کیس : 26 اپریل کو سیاسی جماعتوں کا اجلاس، 27 کو عدالت میں رپورٹ طلب
حکومتی اراکین کو آج کے اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدم اعتماد کے ووٹ کی تیاری سپریم کورٹ کی اس کیس مین گزشتہ سماعت کے موقع پر وزیراعظم کے پاس اکثریت نہ ہونے کی آبزرویشن کو مد نظررکھ کر کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لیں: شیخ رشید نے صدر کو خط لکھ دیا
قومی اسمبلی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں ایوان میں حکومتی اتحاد کے 172اراکین موجود تھے۔
وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کے لیے بھی 172 اراکین کی ضرورت ہے، اعتماد کا ووٹ اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہوگا۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف آج اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس نے تمام اتحادی حکومت کے پارلیمانی لیڈران سے رابطہ کرکے آج کے اجلاس میں 180 ممبران کی شرکت یقینی بنانے کی ہدایت کردی ہے۔
حکمران اتحاد اور اپوزیشن میں مذاکرات کی کوششیں تیز ہوگئیں، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وفاقی وزیر اسحاق ڈار اور اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم کو خطوط لکھنے کے بعد سیاسی مذاکرت کے لئے کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
چیئرمین سینیٹ نے سیاسی مذکرات کے لئے حکومت اور اپوزیشن سے 4،4 نام مانگ لیے۔
خط کے متن میں کہا گیا ہے حکمران اتحاد نے موجودہ سیاسی تناؤ ختم کرنے کے لئے رابطہ کیا، حکمران اتحاد نے سیاسی و معاشی کرائسسز اور عام انتخابات کے لئے مذکرات میں سہولت کے لئے رابطہ کیا، سیاسی مذاکرت کے لئے 10 رکنی کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے۔
متن کے مطابق سیاسی ہم آہنگی کے لئے سینیٹ ہی موضوع فورم ہے، سیاسی مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی قائد ایوان اور قائد خزب اختلاف مشترکہ کریں گے، سیاسی مذاکرات کے لئے 2 دنوں میں 4،4 اراکین کے نام تجویز کیے جائیں۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بات چیت کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں سے 5 نام مانگ لئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے فون پر رابطہ کرکے مذاکرات کی حکومتی تجویز سے آگاہ کردیا۔
چیئرمین سینٹ نے تجویز دی ہے کہ دونوں اطراف کے مساوی اراکین پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر مذاکرات کریں۔
صادق سنجرانی کا اسد عمر اور ڈاکٹر شہزاد وسیم سے بھی رابطہ ہوا ہے۔
چیئرمین صادق سنجرانی نے بات چیت کے لئے تحریک انصاف کے رہنماؤں سے 5 نام مانگ لئے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ نے حکومتی پیغام سے متعلق شاہ محمود قریشی کو بھی آگاہ کیا۔
تحریک انصاف کی جانب سے جلد نام چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو دیے جانے کا امکان ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔
پی ٹی آئی کی 3 رکنی کمیٹی میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ نے بات چیت کیلئے پی ٹی آئی رہنماؤں سے 5 نام مانگ لئے
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی 3 رکنی کمیٹی حکومتی وفد سے مذاکرات کر کے صورت حال سے چیئرمین پی ٹی آئی کو آگاہ کرے گی اور پھر کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی صرف الیکشن کے معاملے تک محدود رہتے ہوئے بات چیت کرے گی۔
مزید پڑھیں: حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطوں میں بڑا بریک تھرو
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں حکومت نے پی ٹی آئی سے رابطہ کیا تھا اور 26 اپریل کو ملاقات کی دعوت دی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ میری جان لینے کی کسی بھی کوشش کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جن کی نشاندہی کرچکا ہوں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ٹوئٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وزیرِ داخلہ کہتا ہے کہ میری جان کو بیرونی ایجنسیوں سے خطرہ ہے، میں پوری قوم پر واضح کر دوں کہ میری جان کو صرف 3 افراد سے خطرہ ہے، جنہیں میں نے وزیر آباد کے قاتلانہ حملے کے بعد نامزد کیا، ان تینوں سمیت مزید 3 لوگوں کی نشاندہی میں ایک ویڈیو پیغام میں کرچکا ہوں۔
عمران خان نے کہا کہ اسی طرح اب یہ بیرونی ایجنسیوں کی آڑ میں ایک اور شیطانی چال چلنے کی کوششیں کر رہے ہیں، میں اپنی قوم پر بالکل واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میری جان لینے کی کسی بھی کوشش کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جن کی نشاندہی میں کرچکا ہوں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہا کہ انہیں یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ میں منتخب ہوکر پھر سے اقتدار میں آ جاؤں گا، انہیں خوف ہے کہ میں ان کا محاسبہ کروں گا، میرے قتل کی کوششوں میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔