اسلام آباد ہائیکورٹ کا این اے 48 کی الیکشن ٹربیونل کارروائی بھی روکنے کا حکم
اسلام آباد الیکشن ٹربیونل سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک اور بڑا حکم آگیا، عدالت نے این اے 47 کے بعد این اے 48 کی الیکشن ٹریبونل کی کارروائی بھی روکنے کا حکم دے دیا جبکہ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے امیدوار علی بخاری کی درخواست پر سماعت کی تاہم علی بخاری اور دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے اسلام آباد کے حلقہ این اے 48 سے پی ٹی آئی امیدوار علی بخاری کی درخواست پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے علی بخاری کی پیٹیشن کی حد تک الیکشن ٹربیونل کو کارروائی سے روک دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ این اے 46 کی حد تک الیکشن ٹربیونل کارروائی جاری رکھ سکتا ہے۔
این اے 47: الیکشن ٹریبیونل کیخلاف شعیب شاہین کی درخواست پر حکم امتناع جاری
عدالت عالیہ نے فریقین کو نوٹس جاری کرکے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرلیا، کیس کی آئندہ سماعت رجسٹرار آفس مقرر کرے گا۔
خیال رہے کہ عدالت عالیہ الیکشن ٹربیونل کو این اے47 سے متعلق کارروائی سے پہلے ہی روک چکی ، جس کے بعد الیکشن ٹریبونل این اے 46 کی حد تک کارروائی جاری رکھ سکتا ہے۔
این اے 48 سے راجہ خرم شہزاد نواز رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم تحریک انصاف کے علی بخاری نے ان کی کامیابی کو چیلنج کر رکھا ہے۔
اسلام آباد کے تینوں حلقوں سے ن لیگی امیدواروں کی کامیابی کے نوٹیفکیشن بحال
الیکشن ٹربیونل اسلام آباد کے سربراہ جسٹس (ر) عبدالشکور پراچہ نے اسلام آباد کے تینوں حلقوں سے متعلق کیس 24 دسمبر کے لئے مقرر کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے تینوں ارکان قومی اسمبلی کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو ہٹاکر جسٹس (ر) عبدالشکور پراچہ کو اسلام آباد کے تینوں حلقوں کے الیکشن ٹریبونل کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ 3 علیحدہ مگر ایک جیسے حکم ناموں میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کو الیکشن ٹریبونل کی سربراہی سے ہٹانے کے اقدام کو آئین کی دفعہ 218 (3) اور 10 اے جبکہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 3، 4 اور 151 کے تحت درست قرار دیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل الیکشن ٹریبونل اسلام آباد کا سابقہ نوٹی فکیشن واپس لیا جاتا ہے، دفتر کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اس کے مطابق کارروائی کرے‘۔
یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، راجا خرم نواز اور انجم عقیل خان کی درخواستوں پر کیا گیا تھا۔ درخواست گزاروں میں پی ٹی آئی کے شعیب شاہین، سید محمد علی بخاری اور عامر مغل شامل تھے۔
الیکشن کمیشن کے ایک حکم نامے میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ قانونی کارروائی کا تصور اس خیال پر منحصر ہے کہ قانونی کارروائی طے شدہ قواعد کے مطابق کی جائے، مدعی کے حقوق کا فیصلہ کرنے کے لیے قانونی دفعات اور طے شدہ اصولوں کا اظہار کریں۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں آرٹیکل 10 اے کی شمولیت کے بعد منصفانہ ٹرائل اور مناسب طریقہ کار بنیادی حقوق میں شمار ہوتا ہے۔
حکم نامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جسٹس (ر) عبدالشکور پراچا کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے لیے ٹریبونل کا سربراہ مقرر کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کی واحد بنیاد یہ تھی کہ الیکشن کمیشن نے جلد بازی میں کارروائی کی۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ عدالت نے یہ بھی کہا کہ تبادلے کا اختیار نگرانی اور انتظامی نوعیت کا ہے اور ہر متعلقہ شخص کو موقع فراہم کرنے کے بعد اس کا استعمال کیا جانا چاہیے۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’ہائی کورٹ نے کمیشن کے حکم کو مسترد کرنے کے لیے کسی اور بنیاد کا ذکر نہیں کیا، موجودہ معاملے میں، جو قانونی چارہ جوئی کا دوسرا دور ہے، کمیشن نے فریقین کو اضافی بنیاد، تحریری جوابات، ترمیم شدہ جوابات اور وسیع دلائل داخل کرکے اپنے موقف کا دفاع کرنے کا کافی موقع فراہم کیا ہے‘۔
این اے 46، 47 اور 48 میں مبینہ دھاندلی کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواستیں نمٹا دیں
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی درخواست پر جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جگہ جسٹس ریٹائرڈ عبدالشکور پراچا کو الیکشن ٹربیونل بنایا تھا جسے پی ٹی آئی امیدواروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرکے ریمانڈ بیک کیا تھا، جس پر (ن) لیگی ایم این ایز نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔