سینیٹ: مفاہمت کی تقاریر کے بعد ماحول پھر گرم، ’کیا یہ جعلی حکومت سے مذاکرات کریں گے‘
پاکستان تحریک انصاف کے 26 نومبر کے احتجاج کے معاملہ پر حکومت کا پلڑا بھاری رہا، اپوزیشن جماعت آج بھی ایوان بالا میں مذاکرات مذاکرات آلاپتی رہی جبکہ حکومتی اور اتحادی اراکین نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا۔
آج کے اجلاس میں گزشتہ روز کی مفاہمتی تقاریر کے برعکس حکومتی اور اپوزیشن بنچوں نے ایک دوسرے پر سخت تنقید کی جبکہ اجلاس میں وزرا کی تاخیر سے شرکت پر چیئرمین سینیٹ نے ناراضی کا اظہار کیا۔
اجلاس کے آغاز میں تو بیرسٹر علی ظفر اور عرفان صدیقی نے مفاہمت کی بات کی، تاہم بعد ازاں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر علی ظفر نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس کے جواب میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے بھی پی ٹی آئی کے احتجاج پر سوالات اٹھا دیے جس کے بعد ایوان کا ماحول پھر گرم ہو گیا۔
احتجاج کے نام پر سختی سے نمٹنا کارگر ثابت ہو گیا حکومت اور اپوزیشن احتجاج پر آمنے سامنے آگئی۔ پی ٹی آئی مذاکرات کیلئے تیار تو حکومتی اراکین کا بھرپور جواب سینیٹ میں دوسرے روز بھی بحث جاری رہی۔
پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر نے اپنی تقریر کا آغاز 26 نومبر کے احتجاج کولے کر حکومت پر کڑی تنقید سے کیا۔ جواب میں حکومت اتحادی رکن شیری رحمان نے کہا حکومت تشدد نہیں کرنا چاہتی لیکن آپ نے یہ تشدد کروایا، ہم تشدد کی مذمت کرتے ہیں لیکن پہلے آپ معافی مانگیں۔
اپوزیشن رکن سینیٹر محسن عزیز نے بھی اپنی تقریر میں حکومت کو مفاہمت کا ہاتھ بڑھانے کی دعوت دی جس پر حکومتی بینچز سے سینیٹر طلال چوہدری نےجواب دیتے ہوئے کہا کس بات کی مفاہمت اپنے رویے کو تو دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلے چور چور ہم چوروں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے کہتے تھے کیا اب چور چور نہیں رہے جو مذاکرات کی بات ہو رہی ہے۔
سینیٹ اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان نے پی ٹی آئی کو احتجاج کے نام پر پروپیگنڈا اور اس کے بعد مذاکرات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ حکومتی اقدامات پر بھی ایوان میں کھل کے بات کی جس کے بعد سینیٹ کا اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔