پی ٹی آئی لیڈرشپ نے مایوس کیا، سنجگانی رکنے کی بات نہیں مانی گئی تو استعفے دے دیتے، شوکت یوسفزئی
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی اپنی ہی پارٹی قیادت کے خلاف پھٹ پڑے، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی احتجاج پر حکومت نے پورا ملک بند کردیا تھا، اتنا دباؤ تھا، سنگجانی کا فیصلہ ہوا تو ڈی چوک جانے کا فیصلہ کس نے کیا؟ بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم راجہ کے پاس بھی اتنے بڑے حتجاج کی پلاننگ نہیں تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی نے احتجاج کی فائنل کال کو لے کر پی ٹی آئی لیڈر شپ پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی نے کہا کہ اسلام آباد میں بڑی لیڈر شپ نظر نہیں آئی، چند لیڈرز کے علاوہ دیگر کا نظرنہ آنا بدقسمتی ہے، اتنے بڑے پروگرام کے لیے کوئی پلاننگ ہی نہیں کی گئی، فائنل کال کے بعد مشاورت ہونی چاہیئے تھی۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ سیاسی لوگوں کو آگے آنا چاہیئے تھا، مذاکرات پر بھی توجہ نہیں دی گئی، بانی پی ٹی آئی سنجگانی میں احتجاج پر رضا مند تھے، بیرسٹرسیف کے مطابق بشریٰ بی بی نہیں مانیں، بشریٰ بی بی تو غیرسیاسی خاتون ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی لوگ حکمت عملی سے آگے بڑھتے ہیں، حکومت نے پورا ملک بند کرکے اپنی ناکامی ثابت کردی، ہمیں ڈی چوک جانے کی کیا ضرورت تھی، ہم لاہور یا کسی اور مقام پر بیٹھ سکتے تھے، حکومت نے ہمارے لوگوں پر گولیاں چلائیں۔
پی ٹی آئی رہنما یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی لوگوں سے سیاسی انداز سے نمٹنا چاہیئے تھا، علی امین گنڈاپور کو قربانی کا بکرا بنایا گیا، ہمیں اپنی ناکامی کا جائزہ لینا ہوگا، اپنے لوگوں پر گولیاں چلانے والے ہار چکے ہیں، مجھے ان سے زیادہ اپنی لیڈر شپ پر غصہ ہے۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ تمام دعوے کہاں گئے؟ حکمت عملی کیوں نہیں بنائی، ہم پشاور اور سنگجانی کہیں بھی بیٹھ سکتے تھے، انہوں نے مذاکرات کیوں نہیں کیے، اگر ان کی بات نہیں مانی جاتی تو مستعفی ہوجاتے، احتجاج ختم کرنے کا بیان کہاں سے دیا گیا اور کس کے کہنے پر دیا گیا؟ پارٹی کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا، جس پر خاموش نہیں رہوں گا۔