پی ٹی آئی قافلہ 26 نمبر چونگی پہنچ گیا: ہر صورت ڈی چوک جائیں گے، بشریٰ بی بی کا اعلان
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاج کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا پشاور سے نکلنے والا قافلہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں 26 نمبر چونگی پہنچ چکا ہے۔ قافلے میں بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور، عمرایوب، اسدقیصر، عاطف خان، شہرام ترکئی، مشال یوسفزئی اور صنم جاوید بھی موجود ہیں۔ اسلام آباد کے مقامی کارکنان 26 نمبر چونگی پہنچے تو اسلام آباد پولیس کی جانب سے شیلنگ شروع کردی گئی۔ شیلنگ سے شہریوں اور رہائشیوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔
قافلہ 26 نمبر چونگی پہنچا تو پی ٹی آئی کے کارکنان اور پولیس میں جھڑپیں شروع ہوگئیں، پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے نعرے بازی کی گئی اور پولیس کی جانب سے کارکنان پر شیلنگ کی گئی۔ کارکنان نے جھاڑیوں کو آگ لگا دی۔
26 نمبر چونگی پر کارکنوں سے مختصر خطاب کرتے ہوئے بشریٰ بی بی نے کہا کہ ہماری منزل ڈی چوک ہے اور صورت وہاں پر پہنچیں گے۔ اس کے علاوہ کہیں نہیں جائیں گے۔
انہوں نے کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ گاڑیوں میں بیٹھیں اور سفر کو تیز کردیں، کیونکہ ہماری منزل ڈی چوک ہے۔
قبل ازیں، قافلہ کٹی پہاڑی پہنچا تو وہاں بھی اسے شدید شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا، وہاں سے آگے بڑھے تو پی ٹی آئی کارکنوں کو روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے شدید شلینگ جاری رہی جبکہ کارکنان نے شلینگ سے بچنے کے لئے پارٹی پرچم سے منہ کو لپٹ لیا۔
کٹی پہاڑی سے نکلنے کے بعد قافلے کو کوئی قابل ذکر رکاوٹ پیش نہیں آئی اور یہ ہکلہ انٹرچینج پہنچ گیا جہاں خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع سے آئے قافلے پہلے سے موجود تھے۔ تمام قافلے مل کر اسلام آباد انٹرچینج پہنچے اور وہاں سے 26 نمبر چونگی کی طرف بڑھے۔
26 نمبر چونگی پر رینجرز الرٹ اور پولیس کی بھاری نفری تعینات
پی ٹی آئی کارکنوں کے آنے سے پہلے پولیس اہلکاروں نے پتھروں کا بڑا ذخیرہ 26 نمبر چونگی پر جمع کرلیا جبکہ 26 نمبر چونگی پر رینجرز الرٹ اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ادھر فیض آباد پُل پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، پولیس اہلکاروں سے بندوقیں لے کر غلیلیں فراہم کر دی گئیں۔
پنجاب پولیس کی نفری بھی 26 نمبر چونگی پہنچ گئی جبکہ قیدی وینز بھی 26 نمبر چونگی پہنچا دی گئی۔
اسلام آباد میں 26 نمبر چونگی پر رینجرز کو بھی الرٹ کردیا گیا، رینجرز کے اہلکار 26 نمبر فلائی اوور پر پہنچ گئے۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے معاملے پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں صوابی سے نکلنے والا قافلہ کے بارے میں امکان ظاہر کی جارہا تھا کہ قافلہ پیر دوہہر 12 بجے تک اسلام آباد میں داخل ہو جائے گا۔ قافلے میں ہزارہ کے کارکنوں کی شمولیت کے بعد رفتار سست ہوگئی۔ اور یہ دن ڈھلنے کے بعد اسلام آباد پہنچا۔
ہرو پل سے پیر کی صبح روانگی
وزیراعلیٰ امین گنڈا پور کی قیادت میں پی ٹی آئی کا قافلہ پیر کی صبح ہرو پل سے روانہ ہوا۔ اس سے پہلے غازی بروتھاپل کو کئی گھنٹوں کی مزاحمت کے بعد عبور کیا گیا۔
پی ٹی آئی کارکنوں نے ہزارہ انٹرچینج کے قریب لگے کنیٹنرزبھی ہٹا دیئے۔
ہرو پل سے روانگی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا قافلہ برہان کے قریب پہنچا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق قیادت علی امین کررہے ہيں تاہم بشریٰ بی بی کی گاڑی ان کے پیچھے ہے۔
پی ٹی آئی قافلہ اپنے پلان کے تحت بڑھ رہا ہے، کوئی جلدی نہیں، بیرسٹر سیف
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا کہ پی ٹی آئی اپنے پلان کے تحت پیش قدمی کر رہی ہے، حکومت کے پاس گھڑیاں ہیں لیکن وقت ہمارے پاس ہے۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں۔
انھوں نے وفاقی حکومت کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت مطالبات پورے ہونے کے بغیر پی ٹی آئی احتجاج کے خاتمے کا نہ سوچے۔‘
جب عرفان سلیم سے سوال کیا گیا کہ اس قافلے میں کتنے لوگ ہیں تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ تقریباً 40 ہزار افراد موجود ہیں۔
تاہم پوری کوشش کے باوجود سہ پہر تین بجے تک قافلہ کٹی پہاڑی تک ہی پہنچ سکا تھا۔
اسلام آباد کے راستے بند
پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر حکومت نے اسلام آباد کے راستے بند کر دیے ہیں اور دارالحکومت کو جانے والے زيادہ تر راستوں پر کنٹیرز کھڑے کر دیے گئے ہیں۔
چھبیس نمبر چُنگی کنٹینر لگا کر مکمل سیل کر دی گئی ہے جبکہ سری نگر ہائی وے بھی زیرو پوائنٹ کے مقام پر بند کر دی گئی ہے۔
ایکسپریس وے بھی کھنہ پل کے مقام پر دونوں طرف سے بند کر دی گئی ہے، کھنہ پل پر رکھے گئے ایک کنٹینر میں آگ بھڑک اٹھی تاہم اس کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔ ایئر پورٹ جانے والے راستے پر بھی کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں جبکہ فیض آباد سے اسلام آباد کا راستہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔
فیض آباد آئی جے پی روڈ پر پی ٹی آئی کارکنوں پر لاٹھی چارج
راولپنڈی پولیس نے فیض آباد آئی جے پی روڈ پر پی ٹی آئی کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا اور درجنوں کارکنان کو گرفتار کرلیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ آئی جے پی روڈ پر پی ٹی آئی کے 100 سے 150 کارکن موجود تھے جنہیں منشتر کیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کے مختلف شہروں سے اب تک 490 کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ 100 لاپتہ ہیں۔
پی ٹی آئی احتجاج: اسلام آباد سے 139 سے زائد کارکنان گرفتار
پی ٹی آئی احتجاج کے دوران اسلام آباد سے 139 سے زائد کارکنان کو گرفتار کیا گیا، پولیس ذرائع کے مطابق 26 نمبر چونگی سے گرفتار 28 افراد سے چاقو اور غلیلیں بھی برآمد ہوئیں جبکہ سری نگر ہائی وے موٹر وے لنک روڈ،ایم ون پشاوراور ایم ٹو لاہور سے اسلام آباد کی جانب راستہ کنٹینرز لگا کرمکمل سیل کردیا گیا۔
اسلام آباد میں احتجاج کے دوران فیض آباد سے 35، سوہان انٹرچینج سے 17 افراد کو گرفتار کیا گیا، کھنہ پل سے 7 اور خیابان پلازہ کے پاس سے 29 کارکنان کو حراست میں لیا۔
اس کے علاوہ 26 نمبر چونگی سے 42، روات ٹی کراس چوک سے 2 اور بھارہ کہو سترہ میل سے 3 افراد کو پکڑا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے، قانون کسی کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، سخت کاروائی کی جائے گی۔
سر نگر ہائی وے اسلام آباد سے ایم ون اور ایم ٹو جانے والا راستہ بھی بند کرنے کی ہدایت کی گئی ہیں۔
راولپنڈی میں بھی کارکنان کی پکڑ دھکڑ جاری
دوسری جانب پی ٹی آئی کے احتجاج کے پیش نظر راولپنڈی میں بھی کارکنان کی پکڑ دھکڑ جاری ہے، مختلف تھانوں کی حدود سے 35 سے زائد کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق گرفتار ہونے والے کارکنان کو مختلف تھانوں میں منتقل کردیا گیا، شہر بھر میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے، قانون کی خلاف ورزی پر سخت ایکشن لیا جائے گا، شہر بھر میں پولیس کی جانب سے فلیگ مارچ کیا گیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور پشاور سے قافلے کی صورت میں صوابی کے لیے روانہ ہوئے جہاں دیگر علاقوں سے بھی قافلے جمع ہوئے۔
اسلام آباد میں احتجاج کے لیے پی ٹی آئی کا قافلہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کی قیادت میں حضرو انٹرچینج پہنچا۔
احتجاج میں شرکت کے لیے آنے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں کریک ڈاؤن کیا گیا، ارکان اسمبلی عامر ڈوگر، زین قریشی، معین ریاض ، ایم پی اے بشارت ڈوگر، انفارمیشن سیکرٹری حافظ ذیشان اور صداقت عباسی سمیت سیکڑوں کارکن گرفتار کرلیے گئے۔
اڈیالہ جیل جانے والے تمام راستے بند
اڈیالہ جیل کی طرف جانے والے راستوں مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے جبکہ جیل جانے والی مرکزی شاہراہ کو ہر طرح کی ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔
اڈیالہ جیل روڈ پر جگہ جگہ پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے اور جیل جانے والے راستے پر کنٹینرز کھڑے کر دیے گئے ہیں، اڈیالہ روڈ بند ہونے سے رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اس حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل کی طرف کسی بھی مظاہرے کی اجازت نہیں ہے۔
جڑواں شہروں کو ملانے والے 70 مقامات کی سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی
مظاہرین کو اسلام آباد میں داخلے سے روکنے کیلئے مختلف انٹری پوائنٹس پر 6 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے 70 مقامات کی سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی کی جائے گی، کسی کو بھی مظاہرے، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جڑواں شہروں میں میٹرو بس، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند
راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس بھی معطل ہے جبکہ پمز سے بارہ کہو تک گرین لائن سروس بھی بند کر دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سروس بھی متاثر ہے، اس حوالے سے وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خدشات والے علاقوں میں موبائل ڈیٹا، وائی فائی سروس بندش کا تعین کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے، سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے واضح کیا تھا کہ احتجاج میں رہنماؤں کی کارکردگی کی بنیاد پر اگلے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا۔
بشریٰ بی بی نے پارٹی رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ احتجاج کے دوران گرفتاریوں سے بچیں جبکہ احتجاج کے لیے مؤثر تحریک اور وفاداری کی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی میں ان کے مسقبل کا فیصلہ ہوگا۔
انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ کسی بھی رہنما کی پارٹی کے ساتھ دیرینہ وابستگی بھی انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کی ضمانت نہیں دے گی اگر وہ احتجاج کے دوران توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والا احتجاج آپ لوگوں کی پی ٹی آئی سے وفاداری کا امتحان ہے، ہمارا ہدف عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانا ہے اور ہم ان کے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے۔
Comments are closed on this story.