26 ویں ترمیم کا کیس: جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا
سپریم کورٹ کے 2 سینئر ترین ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا جبکہ دونوں سینئر ججز نے اسی ہفتے 26 ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کے لیے سپریم کورٹ کے 2 سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو مشترکہ خط لکھا، جس میں دونوں سینئر ججز نے اسی ہفتے 26 ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ کیا۔
خط کے متن کے مطابق دونوں سینیئر ججز نے 31 اکتوبر کو چیف جسٹس سے کمیٹی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا، چیف جسٹس کے اجلاس نہ بلانے پر سیکشن 2 کے تحت ہم ججز نے خود اجلاس بلایا اور 31 اکتوبر کی کمیٹی میٹنگ میں 26 ویں ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا فیصلہ کیا۔
خط کے مطابق 2 ججز نے اجلاس میں فیصلہ کیا 26 ویں ترمیم کے خلاف کیس 4 نومبر کو فل کورٹ سنے گی مگر کمیٹی فیصلے کے باوجود کوئی کاز لسٹ جاری نہ ہوئی، فیصلے سے متعلق رجسڑارآفس کو آگاہ کردیا گیا، جس پرعمل درآمد لازمی ہے، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے، فل کورٹ سماعت کی کازلسٹ جاری نہیں ہوئی، کمیٹی اجلاس کا فیصلہ اب بھی برقرار ہے، جس پرعمل درآمد لازمی ہے۔
سپریم کورٹ: 26 ویں ترمیم کے بعد پہلا کیس آئینی بینچ کو بھیج دیا گیا
خط میں مزید کہا گیا کہ دونوں ججز نے 31 اکتوبر کے میٹنگ منٹس رجسٹرار کو ویب سائٹ پر جاری کرنے کی ہدایت بھی کردی اور مطالبہ کیا کہ اسی ہفتے 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں فل کورٹ کے سامنے لگائی جائیں۔
واضح رہے کہ سابق صدر سپریم کورٹ بار سمیت 6 وکلا نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہے ۔ استدعا کی گئی ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کو آئین کے بنیادی حقوق اور آئینی ڈھانچے کے منافی قرار دیا جائے۔
درخواست میں موقف اختیارکیا گیا کہ آئینی ترمیم کے لیے ارکان سے زبردستی ووٹ نہیں لیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ نامکمل ہے۔ اس کی آئینی حیثیت پر قانونی سوالات موجود ہیں۔
درخواست کے متن کے مطابق عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے ۔ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کی تعیناتی عدلیہ میں مداخلت کے مترادف ہے۔ آئینی بینچز کا قیام بھی سپریم کورٹ کے متوازی عدالتی نظام کا قیام ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے سے روکا جائے۔عابد زبیری سمیت چھ وکلا نے درخواست میں وفاق اور صوبوں کو فریق بنایا ہے۔
یاد رہے کہ 20 ستمبر کو صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط بعد سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا تھا۔
آرڈیننس کے مطابق چیف جسٹس آٖف پاکستان، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل کمیٹی کیس مقرر کرے گی، اس سے قبل چیف جسٹس اور 2 سینئر ترین ججوں کا تین رکنی بینچ مقدمات مقرر کرتا تھا۔
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمیٹی میں سینئر جج جسٹس منیب اختر کو ہٹا کر جسٹس امین الدین خان کا شامل کر لیا تھا۔
بعد ازاں، 23 ستمبر کو جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے بعد نئی تشکیل کردہ ججز کمیٹی کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو خط لکھ دیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ آرڈیننس کے اجرا کے چند گھنٹوں میں وجوہات بتائے بغیر نئی کمیٹی کی تشکیل کیسے ہوئی؟ اُس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوسرے اور تیسرے نمبر کے سینئر ترین جج کو کمیٹی کے لیے کیوں نہیں چنا؟۔
صدر مملکت کے دستخط کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری
دونوں ایوانوں سے منظور چھبیسویں ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے حلف لینے کے اگلے روز ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو کرتے ہوئے کمیٹی میں جسٹس منیب اختر کو دوبارہ شامل کر لیا تھا۔
رجسٹرار سپریم کورٹ جزیلہ اسلم کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی مقدمات کو مقرر کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔