ججز کے خط پر سپریم کورٹ فل کورٹ اجلاس میں معاملہ آگے لے جانے پر غور
اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت دو گھنٹے سے زائد جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ اجلاس میں معاملہ فل کورٹ بنچ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں لے جانے پر غور کیا گیا ہے، جبکہ ججز نے خط پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس آج ہی طلب کیا گیا تھا، جس میں سپریم کورٹ کے ججز شریک ہوئے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کا جائزہ لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں معاملہ فل کورٹ بنچ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں لے جانے پر غور کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ ججز کا فل کورٹ اجلاس کل دوبارہ ہونے کا امکان ہے۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خفیہ اداروں کے عدالتی معاملات میں مداخلت سے متعلق خط پر فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے حوالے سے لکھے گئے خط کے بارے میں غور کیا گیا۔
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ججز کے خط کا معاملہ سنجیدہ ہے، جس کی تحقیق ہونی چاہیئے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر پاکستان بار کونسل نے بھی 5 اپریل کو ایگزیکٹو کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کر لیا، جس میں پاکستان بار کونسل موجودہ صورتحال پر آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کرے گی۔
عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت پر خط
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے، ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔
خط میں ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل سے رہ نمائی مانگی ہے، پوچھا ہے کہ ایگزیکٹو بشمول انٹیلی جنس ایجنسیز ارکان کی کارروائیوں پر رپورٹ اور ردعمل سے متعلق جج کی کیا ڈیوٹی ہے؟ یہ کارروائیاں ایک جج کے سرکاری کام میں مداخلت کے برابر ہیں۔
مزید پڑھیں
ججز کے خط کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، بیرسٹر گوہر
ججز کا خط: اسلام آباد، سندھ، لاہور اور خیبرپختونخوا ہائیکورٹ بار کا چیف جسٹس سے کارروائی کا مطالبہ
خط میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس اہل کاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکاناعدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے، درخواست ہے انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت اور ججز کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے، ایسی ادارہ جاتی مشاورت عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے طریقہ کار اور عدلیہ کی آزادی کم کرنے والوں کا تعین کرنے کے میکزم بنانے میں معاون ہوسکتی ہے۔
خط میں کہا گیا کہ یہ جاننا اور تعین کرنا ضروری ہے ریاست کی ایک ایگزیکٹو برانچ سے جاری پالیسی ابھی وجود رکھتی ہے، جاری پالیسی پر انٹیلی جنس اہلکار عمل درآمد کرتے ہیں جو ایگزیکٹو برانچ کو رپورٹ کرتےہیں، ہائی کورٹ کے ایک جج کے بیڈ روم کی خفیہ کیمرے سے ریکارڈنگ کی گئی۔
ججز کے خط پر پاکستان بارکونسل کا تحقیقات کیلئےکمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر پاکستان بارکونسل نے تحقیقات کیلئےکمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا۔
پاکستان بار کے اعلامیہ کے مطابق ججز کے الزامات کی تحقیقات لازمی ہی، عدلیہ کی آزادی پرسمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا، سپریم جوڈیشل کونسل تحقیقات کا فورم نہیں ہے، تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کمیٹی تشکیل دیں۔
آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں گفتگو کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل ریاضت علی نے کہا کہ الزامات کوثابت کرنےکیلئے تحقیقات ہونا چاہئیں ایک خط مئی 2023 اوردوسرا 12 فروری 2024 کا ہے۔
وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل کا مزید کہنا تھا کہ میں نےمطالبہ کیاکہ سینئرججزکی کمیٹی بنی چاہئے خط میں ججزکی جانب سےالزامات لگائےگئےہیں ججزجسٹس قاضی فائزپراعتمادکااظہارکررہےہیں۔
Comments are closed on this story.