کیا مفت بجلی کے ’انتخابی وعدے‘ قابل عمل ہیں؟
پاکستان میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عام انتخابات کی آمد سے قبل سیاسی جماعتیں بلندوبانگ دعوے کررہی ہیں، عوام کے سب سے بڑے مسئلے مہنگائی کے حل کے علاوہ مہنگی بجلی میں ریلیف ’ٹاپ 3‘ دعووں میں سے ایک ہے۔
بجلی تو سستی ہو نہ ہو اسی لیے ووٹرز سے کہا جارہا ہے کہ انہیں بجلی کے مفت یونٹس فراہم کیے جائیں گے۔ ایسے وعدوں اور بجلی بلوں میں ریلیف کے اعلانات کی بڑی وجہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بجلی بلوں میں ہونےوالابےتحاشا اضافہ ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عوامی جلسے سے خطاب میں اعلان کیا ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد پی پی 300 یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت فراہم کرے گی۔
ایسا ہی کچھ ن لیگ کی نائب صدرمریم نواز کی جانب سے بھی کہا گیا کہ حکومت بننے کے بعد صارفین کو 200 یونٹس استعمال کرنے پر بجلی مفت فراہم کرنے کی کوشش ہوگی، تاہم اسی جماعت کے حمزہ شہباز نے 300 یونٹس تک استعمال پر بجلی کی مفت فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔
دو بڑی جماعتوں کے علاوہ سابق وزیراعظم عمران خان کے سابقہ رفیق اور اپنی جماعت بنانے والے علیم خان نے بھی یہی کہہ رکھا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی اقتدار میں آئی تو صارفین کو300 یونٹس تک بجلی مفت دی جائے گی۔
پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح 29 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے تحت بجلی کا بیس ٹیرف رواں مالی سال کے آغازمیں 5 روپے فی یونٹ مہنگا کیے جانے کے بعد 29 روپے اوسط تک ہوچکا ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ بھی بل میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں۔
کیا عملی طور پر مفت بجلی کا وعدہ پورا کرنا ممکن ہے؟
عام آدمی شاید مستقبل کے سہانے خواب دکھانے والی سیاسی جماعتون کے وعدوں کا یقین کربھی لے تاہمتوانائی کے شعبے کے ماہرین انہیں محض ’ایک وعدہ‘ ہی قرار دے رہے ہیں۔
ریوینیوبلز فرسٹ میں کام کرنے والے ماہرتوانائی مصطفیٰ امجد نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے ایسے اعلانات کو حقیقت کے برعکس قراردیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کے شعبے کی موجودہ صورتحال میں ایسے کسی وعدے پرعمل ممکن ہی نہیں۔ کم یونٹس استعمال کرنے والوں کو دو صورتوں میں مفت بجلی دی جاسکتی ہے کہ حکومت یا تو اپنے وسائل سے بجلی کمپنیوں کو پیسے دے کر لوگوں کو مفت بجلی فراہم کرے یا پھر ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ سہولت دی جائے یعنی دوسرے شعبوں کے لیے بجلی کی قیمت زیادہ کر کے300 یونٹس تک استعمال کرنے والوں کو مفت دی جائے۔
مصطفیٰ امجد کے مطابق پاکستان میں بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2700 ارب تک پہنچ چکا ہے، اس لیے اس شعبے کے اندرلوگوں کو مفت بجلی فراہم کرنے کی سکت نہیں ہے۔
انرجی شعبے کے ماہر راؤ عامر نے بھی ایسے اعلانات کو غیرحقیقی قرار دیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے مفت بجلی نہیں دی جا سکتی کیونکہ انڈسٹری پہلے ہی شور مچا رہی ہے کہ ان کا ٹیرف اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ کام کرنا مشکل ہو گیا ہے اور زیادہ لاگت کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں مصنوعات فروخت کرنے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
دوسری جانب حکومت کے اپنے وسائل بھی بہت محدود ہیں۔ رواں سال پاکستان کو ساڑھے 9 ہزار تک ریونیو اکٹھا کرنا ہے، جس میں سے 8500 ارب روپے بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان اعلانات کے مطابق حکومتی خزانے سے رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ سالانہ 750 ارب روپے بنتا ہے جس کے لیے وسائل نہیں ہیں کہ لوگوں کو مفت بجلی دی جا سکے۔’
پاکستان میں کتنے لوگ 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرتے ہیں
پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی گنجائش 40 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے تاہم پیداوار اس سے کم ہے۔ موسم گرما میں بجلی کی طلب 25 ہزار میگاواٹ ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں یہ 10 ہزار تک گرجاتی ہے۔
توانائی کے شعبے کے ماہر عامر اؤ کے مطابق موجودہ مالی سال میں بجلی کے بلوں کی مد میں 3 ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے ہیں جو گھریلو، صنعتی، زرعی اور کمرشل صارفین بجلی بلوں کی مد میں دیں گے۔
سینیئرصحافی برائے معاشی امور شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان میں 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین مجموعی صارفین کی تعداد کا دو تہائی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت نے رواں سال بجلی کے بلوں کی مد میں 2 ہزار ارب اکٹھا کرنا ہ مطلب ہے کہ 300 یونٹس تک بجلی مفت کرنے پر 2 ہزار ارب روپے دینے پڑیں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سےبجلی مفت دینے کے اعلانات لولی پاپ سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں۔
شہباز رانا کے مطابق، ’ آئی ایم ایف کو اگرنظرانداز بھی کریں تو بھی یہ مالی طور پرممکن نہیں ہے۔ آئی ایم ایف تو اس شعبے میں ایک ارب روپے کی سبسڈی دینے کی اجازت نہیں دے گا، دو ہزار ارب روپے کی رقم تو بہت بڑی بات ہے۔’
Comments are closed on this story.