Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے لئے وہی اسپیس ہے جو بانی متحدہ الطاف حسین کے لئے تھی۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ قومی اسمبلی میں 9 مئی کو ہونے والے واقعات کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرنے کا بنیادی مقصد پارلیمنٹ کا فوجی تنصیبات پر حملوں سے متعلق قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے فیصلوں کی تائید کرنا ہے۔
آرمی ایکٹ کے تحت کارروائیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ایک معمول کا معاملہ ہے، اسٹینڈنگ ملیٹری کورٹ پہلے سے موجود ہیں، کیسز کا اے ٹی سی کے تحت ٹرائل کیا جائے گا اور جو کیسز آرمی ایکٹ کے تحت آتے ہیں انہیں اسی طرح دیکھیں گے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ 1952 اور اے ٹی سی کے تحت دو مختلف اقسام کے کیسز ہیں جس پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ کیسز کے ان سیٹ کے مطابق قانونی تقاضے پورے کیئے جائیں گے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ملٹری کورٹ سے سزا پانے والے سزا کے خلاف اپیل کرسکتے ہیں، ملزم پہلی اپیل ملٹری کورٹ اور دوسری ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
** پولیس کور کمانڈر ہاؤس لاہور گئی جہاں ڈی آئی جی سمیت دیگر اہلکار زخمی ہوئے**
فوجی تنصیبات پر حملوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پولیس کور کمانڈر ہاؤس لاہور گئی جہاں ڈی آئی جی سمیت دیگر اہلکار زخمی ہوئے، وہاں آنسو گیس شیلنگ بھی کی گئی، یہ ساری چیزیں انکوائری کے نتیجے میں سامنے آئیں گی، اطلاعات تھیں کہ کارکنان آکر صرف پرامن احتجاج کریں گے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ سیاسی احتجاج میں لوگوں کےگھروں کوآگ نہیں لگائی جاتی، بدبخت ٹولےکی وجہ سے لوگوں کے گھر بھی محفوظ نہیں، ایسی رپورٹس موجود ہیں کہ پی ٹی آئی دہشت گردی میں ملوث ہے، البتہ ہمیں یقین ہے عمران خان شرپسندوں کا سرغنہ ہے اور تحریک انصاف والے ایک خاص حکمت عملی کے تحت کور کمانڈر ہاؤس گئے۔
عمران خان کی گرفتاری میں رینجرز اور اسلام آباد پولیس نے نیب کو مدد فراہم کی
پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری پر ان کا کہنا تھا کہ رینجرز اور اسلام آباد پولیس ہائی کورٹ کی سکیورٹی کے لئے موجود ہوتی ہے، پولیس اور رینجرز نے عمران خان کو گرفتار کرنے کے لئے نیب کی مدد کی تھی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان کو کل گرفتار ہونے کا صرف ابہام ہے، فوجی تنصیبات پر حملوں میں جو بھی ملوث ہوا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ہوسکتا ہے عمران ریاض ایجنسیوں کیخلاف پروپیگنڈا کرنے کے مقصد سے خود ہی اٹھ گئے ہوں
صحافی عمران ریاض کی گرفتاری سے متعلق رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر کوئی انہیں رہائی کے بعد اٹھا کر لیکر گیا ہے اسے پکڑیں گے، البتہ ہوسکتا ہے عمران ریاض ایجنسیوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے مقصد سے خود ہی اٹھ گئے، وہ تحقیقاتی اداروں کے پاس نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو کوئی باہر بھیجنے کا آپشن نہیں دیا جا رہا، مجھے نہیں معلوم میاں جاوید لطیف کی معلومات کا ذریعہ کیا ہے لیکن میں بطور وزیر داخلہ اس بات کی تردید کرتا ہوں۔
پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیئے جانے سے متعلق وزیر داخلہ نے کہا کہ رپورٹس موجود ہیں 9 اور 10 مئی کو دہشت گردی کے پیچھے پی ٹی آئی شامل ہے، لیکن اس معلومات و شواہد کو ٹرائل اور ریفرنس کی حد تک جائزہ لیا جائے گا، اگر اس میں کچھ ثابت ہوا تو ریفرنس فائل کیا جائے گا۔
تحریک انصاف سے مذاکرات کے حوالے سے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عمران خان نے نفرت کی سیاست کی، ہم ان کے ساتھ کیسے بات چیت کرسکتے ہیں، ان سے مذاکرات کریں تو شہدا کی فیملی ہمیں جوتے ماریں گی۔
ایسا نہیں ہو سکتا چیف جسٹس جو چاہیں وہ کہتے رہیں
انہوں نے کہا کہ اس فتنے نے ملک کو کسی حادثے سے دوچار کرنا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ فتنے نے خود اپنی پارٹی کو حادثے دوچار کردیا، ان کے لیے وہی اسپیس ہے جو الطاف حسین کے لیے تھی، عمران خان نے وہی راستہ اپنایا، متحدہ الطاف حسین سے جان چھڑا کر زندہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی کا آپشن نہیں ہوگا، عدالت وزیراعظم شہباز شریف پر الیکشن نہ کرانے پر توہین عدالت کیسے لگا سکتی ہے، کسی بھی کورٹ نے الیکشن کروانے کا فیصلہ نہیں کیا، سو موٹو کی پٹیشن 3-4 سے خارج ہوچکی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا چیف جسٹس جو چاہیں وہ کہتے رہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ برطانیہ سے ملنے والے 190 ملین پاؤنڈ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں موجود ہیں، خدشہ ہے کہ مجھے منگل کو گرفتار کرلیا جائے گا۔
کارکنوں سے خطاب میں ٹویٹر اسپیس پر گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے بڑا انکشاف کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ سے ملنے والے ایک سو نوے ملین پاؤنڈ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں موجود ہیں، اس حوالے سے وفاقی کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ کیس ہار گئے تو یہ پیسہ برطانیہ میں ہی رہ جائے گا، ایک سو نوے ملین پاؤنڈ لے لیں تو یہ پیسہ سپریم کورٹ آجائے گا، کابینہ نے فیصلہ کیا کہ ہم یہ مان لیتے ہیں۔
القادر ٹرسٹ کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں چاہتا تھا پاکستان کے نوجوانوں کو سیرت نبوی پڑھایا جائے، میں اور بشرا بی بی القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹی ہیں، مئی 2019 کی ٹرسٹ ڈیڈ سائن ہوئی، بشری بیگم کو ٹرسٹی اس لیے بنایا کہ ان کو سیرت النبی کا تجربہ ہے، اس ڈیڈ میں لکھا ہے کہ ٹرسٹی کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہوسکتا، دسمبر میں ایک معاہدہ طے ہوتا ہے، پراپرٹی ٹائیکون اور برطانیہ کے ایک ادارے میں معاہدہ ہوتا ہے، این سی اے نے ٹائیکون کے اکاؤنٹ سیز کئے ہوئے تھے۔اگر فیصلہ ہو کہ القادر ٹرسٹ کو ختم کررہے ہیں تو زمین حکومت کو مل جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے اوپر اب کیس بنایا کہ میں نے ان پیسوں کا کوئی مالی فائدہ لیا ہے، القادر یونیورسٹی کے اکاؤنٹس چیک کر لیں، اکاونٹ سب کے سامنے ہیں۔ میں ہر روز جب گھر سے نکلتا ہوں تو کوئی پتا نہیں ہوتا کہ زندہ واپس گھر آؤں گا یا نہیں۔ وزیرآباد واقعہ ہو یا جوڈیشل کمپلیکس ، مجھے مارنے کی کوشش کی گئی تو کسی سیکیورٹی نے نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے بچایا۔
انھوں نے مزید کہا کہ تاثر دیا جارہا ہے کہ میری فوج سے لڑائی ہے، اپنی فوج سے کون لڑتا ہے، مجھے تو کوئی سمجھ نہیں آرہی، میں کدھر جاؤں گا، میرے لیے غلامی سے بہتر موت ہے،یہ سمجھتے ہیں کہ کسی طرح میں ہاتھ کھڑے کردوں گا، میں کہتا ہوں غلامی سے بہتر موت ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ میری نہ پہلے اور نہ آج فوج سے لڑائی ہے، جنرل (ریٹائرڈ) باجوہ سے اختلافات اس لیے تھے کہ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور سابق صدر آصف علی زرداری سے انڈر اسٹینڈنگ کرلی تھی۔
انھوں نے کہا کہ میرا آرمی چیف سے کیا اختلاف ہے، کیا وہ وزیراعظم اور میں آرمی چیف بننا چاہتا ہوں، سن رہا ہوں کہ وہاں سے میرے حوالے سے بہت بڑا اختلاف ہے، میں فوج پر اپنے بچوں کو اصلاح کرنے کی طرح تنقید کرتا ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک مضبوط ہو، ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ فوج کمزور ہو۔
صحافی عمران ریاض سے متعلق پی ٹی آئی سربراہ نے کہا کہ خطرہ ہے کہ عمران ریاض پر بہت تشدد ہوا ہے، لگ رہا ہے کہ اس کے زخم ٹھیک ہونے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ارشد شریف کا کیس سپریم کورٹ میں لگا ہے، افسوس ہے کہ صحافیوں کا اس پر زیادہ ردعمل نہیں آیا۔
حکمراں اتحاد پی ڈی ایم پر تنقید کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ رول آف لا انڈیکس میں پاکستان کا 140 میں سے 129 نمبر ہے، پاکستان میں انقلاب گھروں میں آگیا ہے، جو مرضی کرلیں یہ میچ ہار چکے ہیں، جب قوم فیصلہ کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک سکتی، خیبر سے کراچی تک لوگ فیصلہ کر بیٹھے ہیں، جب بھی الیکشن ہوں گے انہوں نے اڑ جانا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ میں اور بشرا بی بی صبح نیب جارہے ہیں، مجھے اندر کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، زیادہ چانس ہے کہ کل ( منگل کو) مجھے گرفتار کرلیں گے جس کے بعد ہمارے احتجاج پرامن ہونے چاہئیں۔
پی ٹی آئی سربراہ نے کہا کہ جی ایچ کیو کے سامنے پرامن احتجاج جرم نہیں ہے، کنٹونمنٹ میں بھی پرامن مظاہرہ کرنا جرم نہیں ہے ہاں کور کمانڈر کا گھر جلانا ، گھیراؤ کرنا اور ریڈیو پاکستان جلانا جرم ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ہم پر یہ مشکل وقت ہے، اللہ انسان کو آزمانے کے لیے مشکلات بھیجتا ہے، اگر آج ہم ان کے خوف میں آگئے تو ساری زندگی انکی غلامی میں چلے جائیں گے، یہ انکا خوف عارضی ہے جسے یہ زیادہ دیر تک قائم نہیں کرسکتے، انکے پاس اتنی جیلیں بھی نہیں ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو اس طرح میں نے زندگی میں کبھی گرتے نہیں دیکھا، یہ کیسا وقت آگیا ہے کہ فیصلہ کیا گیا کہ ڈنڈے کے زور سے سب کو سیدھا کردو۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منیر کے ایک فیصلے نے ملک تباہ کر دیا، جسٹس منیر کے فیصلے بعد میں بار بار عدلیہ نے طاقتور کے ساتھ مل کر نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کرنے شروع کردیئے، 2007 میں عدلیہ بحالی تحریک شروع کی جس کے بعد عدلیہ نے آزادانہ فیصلے شروع کردیئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ شریف خاندان نے ایک مرتبہ پھر عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی، لیکن مجھے لگتا ہے عدلیہ کھڑی ہوجائے گی اور پاکستان کو اس وقت مشکل وقت سے نکالے گی۔
پنجاب پولیس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رکن صوبائی اسمبلی ارباب جہانداد کو گرفتار کرلیا جبکہ تحریک انصاف نے گرفتار کارکنوں کی تفصیلات کیلئے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر نو مئی کے پُرتشدد واقعات کے خلاف پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
پنجاب پولیس نے پی ٹی آئی رہنما ارباب جہانداد کو مری سے گرفتار کرلیا، وہ پشاور سے تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔
پولیس کو ارباب جہانداد خان موٹروے بند کرنے اور توڑ پھوڑ کے مقدمات میں مطلوب تھے ، ان کے خلاف پشاور کے تھانہ چمکنی میں مقدمہ درج ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے کارکنوں کی رہائی کیلئے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لاہور میں عمران خان کی زیر صدارت قانونی ٹیم کا مشاورتی اجلاس ہوا۔ جس میں گرفتار کارکنوں کی رہائی کیلئے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے کارکنوں کی تفصیلات کیلئےعدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں کارکنوں کی رہائی کے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پرغور کیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتار ہونے والے رہنماؤں کیلئے مؤثر اقدامات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
قومی اسمبلی میں 9 مئی کے واقعات اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق پر حملے کے خلاف مذمتی قراردایں متقفہ طور پر منظور کرلی گئیں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت جاری ہے جس میں 9 مئی کے واقعات قرارداد مذمت پیش کی گئیں جسے متقفہ طور پر منظور کرلیا گیا۔
قومی اسمبلی سے امیر جماعت اسلامی پر حملے کے خلاف بھی مذمتی قرارداد منظور کرلی گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے قرار داد منظور کی گئی، سویلین تنصیبات پر حملوں سے متعلق اے ٹی سی میں مقدمات چلائے جائیں گے، کوئی نیا قانون نہیں بننے جارہا ہے، موجودہ قوانین پر ہی عمل کیا جارہا ہے، میانوالی میں غریب عوام کی جمع پونجی سے خریدے گئے جہاز کھڑے تھے، انھیں بھی نہیں چھوڑا۔ عمران نیازی نے اپنے ٹویٹ میں سفید جھوٹ بولا۔
انھوں نے مزید کہا کہ باہر سے آنے والا پیسا قومی خزانے میں آنا چاہیے تھا، 60 ارب کی کرپشن کو کہاں لے کر جائیں گے۔ دوسرے ملکوں کے سربراہوں سے اس سے بڑا اور کیا مذاق ہوسکتا ہے، سعودی ولی عہد کے نادر تحفے کو بیچ کر جعلی رسید دے دی گئیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان نے سائفر کے نام پر جعلی پرچہ لہرایا، آج اسی امریکا سے مدد لی جارہی ہے جس پر الزام لگائے گئے۔ امریکا میں سفارتخانے کو فعال کررہے ہیں کہ وہ واشنگٹن کے سامنے حقائق رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے دور میں عمران نیازی نے پوری اپوزیشن کو جعلی مقدمات میں دیوار سے لگایا، جب انکی اہلیہ کی کرپشن کا بتایا گیا تو جھرلو الیکشن سے وزیراعظم بننے والے عمران کو یہ بات پسند نہیں آئی۔
چین کی لازوال دوستی کی بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے جی 20 اجلاس مقبوضہ کشمیر میں انعقاد کرکے سازش کی لیکن چین نے وہاں جانے سے صاف انکار کردیا، کوئی سوچ سکتا ہے چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا جائے، چینیوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے کشمیریوں کا ساتھ دیا۔
اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آڈیولیکس کے لیے انکوائری کمیشن بنایا گیا ہے، سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز اس کمیشن کے ارکان ہیں، اس ارادے سے کمیشن بنایا کہ دودھ کا دوھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کمیشن کو چیلنج اور اس ججوں پر اعتراض کیا جب کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے جس طرح اپنےکردار کی جنگ لڑی وہ سب کے سامنے ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات، رہائش گاہوں پر حملےکیے گئے، یہ حملہ فوجی تنصیبات پر نہیں بلکہ پاکستان پر تھا، ایک سابق وزیراعظم کے حامیوں نے میانوالی ایئر بیس پر حملہ کیا، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانی ایئربیس پر پاکستانیوں نے حملہ کیا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جن لوگوں نےحملے کرائے اب وہ رشتہ داریاں گنوا رہے ہیں، وہ کہتے ہیں میں قید میں تھا مجھے پتا ہی نہیں باہر کیا ہو رہا ہے، وہ شخص عدالت میں بیٹھ کر موبائل فون استعمال کرتا رہا لیکن آج تک انہوں نے مذمت کا لفظ استعمال نہیں کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے عدالت میں بیٹھ کر ویڈیو ریلیز کی کہ دوبارہ گرفتار کیا تو باہر نکلیں، یہ عدالت میں بیٹھ کر دوبارہ واردات کی دھمکی دے رہے تھے۔
پی ٹی آئی چیئرمین پر تنقید کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں 9 مئی کو ایجنسی کے لوگوں نے حملے کیے، ایجنسی کے لوگ عمران خان کی 2 بہنیں، ان کا بھانجا، محمود الرشید، یاسمین راشد سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنما تھے۔
اس سے قبل آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی سے متعلق خواجہ آصف کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ حملہ آور کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی، سویلین ٹرائلز کے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں جب کہ کوئی خصوصی عدالت بھی نہیں بنا رہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان میں عدالتی نظام پہلے سے موجود ہے اور موجودہ قوانین کے تحت سویلین کے ٹرائلز کئے جائیں گے، فوج میں مستقل ادارے ہیں جو فیصلےکرتے رہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کل نیب راولپنڈی میں پیش ہوں گے۔
واضح رہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل میں تحقیقات کے لئے نیب راولپنڈی نے عمران خان کو 18 مئی کو طلب کیا تھا تاہم پی ٹی آئی چیئرمین نیب کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے۔
نیب نے عدم پیشی پر عمران خان کو 22 مئی کو دوبارہ طلب کیا، قومی احتساب بیورو کی جانب سے عمران خان کو 22 مئی کو حاضری کا نوٹس بھیجا گیا تھا۔
عمران خان نے نیب راولپنڈی میں پیش ہونے کیلئے نوٹس کا تحریری جواب بھجوایا جس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے 22 مئی کو نیب تحقیقات کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے 23 مئی کو پیش ہونے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔
دوسری جانب عمران خان سے ملاقات کے لئے شفقت محمود اور قانونی ماہرین کی ٹیم زمان پارک پہنچ گئی، ملاقات میں کل نیب دفتر پیشی کے حوالے سے قانونی پہلوؤں اور موجودہ سیاسی صورتحال پر بات چیت کی جائے گی۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی جانے سے ڈر رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے 19 مئی کو تحریک انصاف کے 72 اراکین قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا، تاہم تحریک انصاف کے اراکین کی اسمبلی واپسی کے فیصلے سے متعلق صورتحال تاحال واضح نہیں ہوسکی۔
لاہورہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے 72 ارکان کو اسپیکر قومی اسمبلی سے رابطے کا حکم دے رکھا ہے، تاہم تحریک انصاف نے اپنے اراکین کو اسمبلی جانے کے حوالے سے کوئی ہدایت جاری نہیں کیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اکثر اراکین پر گرفتاری کا خوف طاری ہے اور وہ قومی اسمبلی جانے سے گریز کررہے ہیں، اور نامعلوم مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں، جب کہ بیشتر اراکین سے رابطوں کا فقدان ہے کیوں کہ ان کے فون نمبر ہی بند ہیں۔
ذرائع کے مطابق اراکین کی قومی اسمبلی نہ جانے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شاہ محمود، ملیکہ بخاری اور عامر ڈوگر سمیت کچھ اراکین تاحال زیرحراست یا جیلوں میں قید ہیں، جب کہ حالیہ دنوں میں عامر کیانی اور امین اسلم سمیت کچھ اراکین اپنی جماعت کو ہی خیر آباد کہہ چکے ہیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر راجا پرویز اشرف نے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے، اور جن پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور ہوچکے ہیں وہی فیصلہ حتمی ہے۔
قومی اسمبلی حکام کا موقف ہے کہ لاہور ہائی کورٹ یا الیکشن کمیشن نے کسی رکن کو بحال نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے صرف ضمنی انتخابات کا اپنا نوٹیفیکیشن معطل کیا ہے، عدالت نے بھی اسپیکر کے استعفے منظور کرنے کے فیصلے کو معطل نہیں کیا۔
ذرائع قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی کسی بھی تحریک انصاف رکن کی رکنیت بحال نہیں کی، تحریک انصاف عدالتی فیصلے کی اپنی مرضی سے تشریح کررہی ہے۔
ذرائع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیرصدارت مشاورتی اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اسپیکر کا پی ٹی آئی کے ایم این ایز کے استعفے قبول کرنے کا فیصلہ بھی حتمی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اہم مشاورتی اجلاس میں کہا گیا کہ اسپیکر استعفوں کو قبول کرنے کے معاملے پر رولنگ دے چکے تھے، لاہورہائی کورٹ نے فیصلے میں اسپیکر کی رولنگ کو ختم نہیں کیا، قانونی ماہرین کی رائے کے مطابق اسپیکر کی رولنگ کسی کورٹ میں چیلنج نہیں ہوسکتی، اسپیکر کو ابھی تک لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں ملا۔
عدالت نے تحریک انصاف کی رہنما یاسمین راشد کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
لاہور کی انسداددہشت گردی عدالت میں پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، سروسزاسپتال نے رہنما پی ٹی آئی کی پورٹ عدالت میں پیش کردی۔
سروسز اسپتال کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے یاسمین راشد کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
اس سے قبل 18 مئی کو انسداد دہشتگردی عدالت کی ایڈمن جج عبہر گل خان نے سماعت کی، اے ایم ایس سروسز اسپتال ڈاکٹر احتشام یاسمین راشد کی میڈیکل رپورٹ لے کر پیش ہوئے اور رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کی۔
میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ یاسمین راشد کا بلڈ پریشر کنٹرول نہیں ہو رہا، اور اگر بلڈ پریشر کنٹرول نہ ہوا تو جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
عدالت نے ڈاکٹر سے استفسار کیا کہ مریض کو صحت مند ہونے میں کتنے دن لگ سکتے ہیں۔ جس پر ڈاکٹر احتشام نے عدالت کو بتایا کہ اس بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا، 2 دن بھی لگ سکتے ہیں اور ایک ہفتہ بھی لگ سکتا ہے۔
سرکاری وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ بلڈ پریشر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، جسمانی ریمانڈ سے بچنے کیلئے بہانہ بنایا جارہا ہے۔
عدالت کی یاسمین راشد کو اسپتال میں رہنے کی اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جب تک یاسمین راشد کی فٹنس رپورٹ پیش نہ ہو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا، تفتیشی افسر اسپتال میں یاسمین راشد سے تفتیش کرسکتا ہے۔
عدالت نے بیماری کے باعث یاسمین راشد کا جسمانی ریمانڈ مؤخر کردیا اور ایم ایس سروسزاسپتال کو 22 مئی کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کے خلاف درج مقدمات کی 24 مئی تک تفصیلات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے شاہ محمود قریشی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہمی اور حفاظتی ضمانت کے کیس کی سماعت کی۔
شاہ محمود قریشی کی جانب سے وکلا تیمور ملک اور فائزہ اسد عدالت میں پیش ہوئے اور کہا ہمیں بتایا جائے کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف کوئی اور مقدمہ تو درج نہیں؟۔
انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی اس وقت اڈیالہ جیل میں نظر بند ہیں، عدالت میں پیش کرنے کے احکامات جاری کیےجائیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میڈیا سے سنا تھا شاہ محمود قریشی کو رہا کردیا گیا، جس پر وکیل نے بتایا کہ بیان حلفی جمع کروانا تھا جس کی وجہ سے ابھی تک رہائی نہیں ہو سکی۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 24 مئی تک ملتوی کر دی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ذلفی بخاری، شہبازگل، مخدوم طارق اور دیگر رہنماؤں کو پاکستان آنے سے منع کردیا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اوورسیز رہنماؤں کو پاکستان آنے سے روک دیا ہے، اور تمام رہنماؤں کو گرفتاری سے بچنے کی ہدایت کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے بیرون ملک مقیم رہنماؤں مخدوم طارق، زلفی بخاری، شہبازگل اور دیگر کو پاکستان واپس نہ آنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی کے معاملات ٹھیک ہونے تک وطن واپس نہ آئیں، واپس آنے کی صورت میں آپ کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قیادت کی جانب سے حکم ملتے ہی تمام رہنما وطن واپس آئیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ملک بھر میں آرٹیکل 245 کے نفاذ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے بیرسٹر گوہر کے توسط سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
درخواست میں اختیار کیا گیا کہ آرٹیکل 245 کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے نہیں کیا جاسکتا، ، آرٹیکل 245 کا نفاذ سیاسی مخالفین کو افواج کیسے لڑانے کیلئے ہے، فوجی عدالتوں میں ٹرائل بنیادی حقوق کے خلاف ہے، آئین پاکستان ہر شہری کو شفاف اور منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے، تاریخ میں کبھی ہزاروں سیاسی کارکنوں اور لیڈرز کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہوا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت آرٹیکل 245 کا نفاذ اور اس کے تحت ہونے والے کریک ڈاؤن کو کالعدم قرار دے۔
عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی کو میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کے کیس میں گرفتار تحریک انصاف کےرہنما فردوس شمیم نقوی کی درخواست ضمانت پر انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت ہوئی۔
پی ٹی آئی رہنما کے وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ فردوس شمیم نقوی کینسر سمیت دیگر سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں، مناسب طبی سہولیات کی عدم فراہمی سے ان کی صحت کوسنگین خطرات لاحق ہیں۔
عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو فردوس شمیم نقوی کو میڈیکل بورڈ کے سامنےپیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ میڈیکل بورڈ فردوس شمیم نقوی کی صحت کے حوالے معائنہ کرے، اور ان کی بیماری کی نوعیت پر رائے دے۔ عدالت نے درخواست ضمانت کی سماعت 24 مئی تک ملتوی کردی۔
گزشتہ روز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے فردوس شمیم نقوی کی گرفتاری پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ فردوس شمیم کینسر کے مرض سے شفایابی کے مراحل میں ہیں، انہوں نے اپنے مرض کا بھی پورے وقار اور ہمت سے مقابلہ کیا، ایسے شخص کو دہشتگردی کے الزام میں زندان میں ڈال کر اہلِ اقتدار نے ظاہر کیا ہے کہ کس قدر پستی کے شکار ہیں۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی کے رہنما فردوس شمیم نقوی سمیت 14 ملزمان کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا ہے، ٹیپو سلطان پولیس نے ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں گرفتار رکن سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی سمیت 14 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا، اور بتایا کہ ابتدائی تفتیش اور دیگرکارروائی مکمل کرلی ہے اور 2 ملزمان کے بیانات جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو ریکارڈ کروانا ہیں۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر کو چالان پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے فردوس شمیم نقوی سمیت 14 ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پرجیل بھیج دیا۔
عدالت نے فردوس شمیم نقوی سمیت دیگرملزمان کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جب کہ پولیس نے انہیں کراچی سے سکھر جیل بھیج دیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کراچی کے ترجمان نے کہا ہے کہ گرفتار 190 کارکنان پر مقدمات بنائے گئے۔ 177 کو ایم پی او کے تحت گرفتار کرکے دوسرے شہروں میں منتقل کیا گیا جبکہ 300 سے زائد ایسے افراد کو بھی گرفتار کیا گیا جو پی ٹی آئی کے کارکن نہیں ہیں۔
پی ٹی آئی کراچی کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ان افراد کو بھی گرفتار کیا گیا جن کے ایم پی او جاری نہیں کیے، ہم تمام گرفتار کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں، عدلیہ سےدرخواست ہے کہ کارکنان اور عوام کو انصاف فراہم کریں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے بننے والے جوڈیشل کمیشن کے قیام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
عمران خان نے ایڈووکیٹ بابر اعوان کے توسط سے جوڈیشل کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی، جس میں وزارت قانون و انصاف اور وزارت داخلہ کو فریق بنایا گیا۔
مزید پڑھیں: ججز کی مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات: حکومت نے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ چیف جسٹس کی اجازت کے بغیر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں ہوسکتی اور اس کے لیے کسی جج کو بھی نامزد نہیں کیا جاسکتا۔
آئینی درخواست میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے، اسی حکومت کے ناک کے نیچے آڈیو ٹیپ ہوتی رہیں، یہ بھی تحقیقاتی عمل میں شامل کیا جائے کہ کس نے یہ آڈیو ٹیپ کیں۔
مزید پڑھیں: آڈیولیکس: کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی، جسٹس فائز عیسیٰ
درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ اپنی 1999 کی ججمنٹ کو فالو کرتے ہوئے کمیشن بنانے کا حکم دے جو آڈیو لیکس کی منصفانہ اور شفاف تحقیقات کرے جبکہ اس جوڈیشل کمیشن کے قیام کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔
خیال رہے کہ 2 روز قبل آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا ہے، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں بلوچستان ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شامل ہیں۔
کمیشن جوڈیشری کے حوالے سے لیک ہونے والی آڈیوز پر تحقیقات کرےگا، یہ آڈیو لیکس درست ہیں یا من گھڑت،کمیشن تحقیقات کرےگا۔
کمیشن اپنی رپورٹ 30 دن کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کرے گا، وکیل اور صحافی کے درمیان بات چیت کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوگی، سابق چیف جسٹس اور وکیل کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوگی، کمیشن سوشل میڈیا پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے داماد کی عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے الزامات کی آڈیو لیک کی تحقیقات کرےگا،کمیشن چیف جسٹس کی ساس اور ان کی دوست کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کرے گا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اسد عمر کو طلب کرلیا۔
اسد عمر کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی تفتیش جاری ہے۔ پی ٹی آئی رہنماء کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں شامل تفتیش کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل مقدمہ 14/2022 میں مزید رہنماؤں کو شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے تھری ایم پی اے کے تحت گرفتاری کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کردی۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ فیملی اور وکلاء سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔
مزید پڑھیں: اسد عمر کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری: عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے
درخواست میں اسد عمر کو دن میں 2 بار گھر کا کھانا جیل میں فراہم کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: ہنگامہ آرائی کیس: پولیس کو اسد عمر کی گرفتاری سے روک دیا گیا
یاد رہے کہ پی ٹی آئی رہنما تھری ایم پی او کے تحت اڈیالہ جیل میں زیرحراست ہیں، اسد عمر کا مرکزی کیس بدھ کو سماعت کے لیے مقرر ہے۔
چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے 14 لاکھ 40 ہزار روپے کا لگژری ٹیکس جمع کروا دیا۔
محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو لگژری ٹیکس کا نوٹس بھجوایا تھا۔ اس حوالے سے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا کہنا ہے کہ عمران خان کوزمان پارک کالگژری ٹیکس نوٹس بھجوایا گیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو 14 لاکھ 40 ہزارٹیکس ادائیگی کا نوٹس ملا، پہلے آخری تاریخ 12 مئی تھی، آج پھر آخری تاریخ کا نوٹس بھجوایا گیا۔
ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے مطابق عمران خان کا زمان پارک والا گھر ان کے اور چار بہنوں کے نام ہے، یہ گھر پرانا تھا جس کو گرا کر نیا تعمیر کیا گیا، پی ٹی آئی چیئرمین سے گزشتہ ماہ اس کا ریکارڈ طلب کیا تھا جو انہوں نے جمع کرایا، تخمینہ لگانے کے بعد ان کو لگژری ٹیکس کا چالان بھجوایا گیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کے مقدمے میں سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق گورنرسندھ عمران اسماعیل کو دو دورزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد انسداد دہشت گردی منتظم عدالت میں پیش کیا گیا۔
پولیس کی جانب سےعمران اسماعیل کے ریمانڈ میں توسیع کی استدعا کی گئی، تاہم عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست کو مسترد کر دیا اور عمران اسماعیل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ جب کہ عدالت نے آئندہ سماعت پر مقدمے کا چالان بھی طلب کر لیا۔
عدالت کے باہر میڈیا سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے رہنماپی ٹی آئی عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ مجھے پر پارٹی چھوڑنے کیلئے کوئی دباؤ نہیں ہے، پی ٹی آئی کراچی کے صدر آفتاب صدیقی اپنی مرضی کے مالک ہیں، اور اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔
دوسری جانب مومن آباد ٹاؤن یوسی چئیرمین مصطفیٰ آفریدی کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔
ملزم کو تھانہ ٹیپو سلطان پولیس کی جانب سے عدالت میں پیش کیا گیا اور ملزم سے تفتیش کے لیے ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
عدالت نے ملزم کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ جب کہ تفتیشی افسر سے آئندہ سماعت پر پیشرفت رپورٹ بھی طلب کرلی۔
آڈیو لیکس تحقیقات کے حوالے سے حکومت کی جانب سے بنائے گئے کمیشن نے کام کا باقاعدہ آغاز کردیا۔
ججز کی میبنہ آڈیولیکس کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن نے کام کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔
آڈیو لیکس کیلئے قائم انکوائری کمیشن نے تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ جس کے مطابق حفیظ اللہ کھاجک انکوائری کمیشن کے سیکرٹری ہونگے، کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل ہے نہ ہی اس کا دائرہ کار استعمال کرے گا، کمیشن قانون کے مطابق اپنا کام سر انجام دے گا۔
حکم نامہ میں لکھا گیا کہ شفافیت کے پیش نظر انکوائری کمیشن کی کارروائی پبلک ہوگی، حساس معاملہ سامنے آیا تو کمیشن ان کیمرا کارروائی کرسکتا ہے، کمیشن سے رابطے کیلئے سیکرٹری سے ہی رجوع کیا جائے، آئندہ کارروائی سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 2 میں ہوگی جبکہ نوٹس بذریعہ اٹارنی جنرل آفس جاری کیےجائیں گے۔
آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے تحریری حکم نامہ میں مزید لکھا گیا کہ متعلقہ شخص کے گھر کے باہر نوٹس چسپاں کیا جائے، اٹارنی جنرل متعلقہ فرانزک ادارے کے افسر کی دستیابی یقینی بنائیں، اٹارنی جنرل سے 24 مئی تک تحقیق طلب تمام آڈیوز معہ ٹرانسکرپٹ ، متعلقہ افراد کے نام اور عہدے بھی طلب کرلیے گئے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 7 میں آڈیو لیکس تحقیقات کمیشن پہنچا، کمیشن میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق، چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی کمیشن میں پیش ہوئے، جن سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کمیشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیاَ۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیشن انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 کے تحت تشکیل دیا گیا۔
کمیشن نے آڈیو لیکس کی کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ حساس معاملے کی ان کیمرہ کارروائی کی درخواست کاجائزہ لیں گے، جب کہ کمیشن کی کارروائی سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں ہوگی۔
کمیشن نے اٹارنی جنرل کو کمیشن کیلئے موبائل فون اور سم فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کا کہ جوڈیشل کمیشن کیلئے فراہم کردہ فون نمبر پبلک کیا جائے گا۔
جسٹس قاضی فاٸز عیسی نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل بدھ تک تمام ریکارڈ فراہم کریں۔
کمیشن نے اٹارنی جنرل سے آڈیو ریکارڈنگ کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے آڈیو لیکس میں شامل افراد کی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
کمیشن نے ریمارکس دیئے کہ ٹرانسکرپٹ میں غلطی ہوئی تومتعلقہ افسرکےخلاف کارروائی ہوگی، وفاقی حکومت تمام مواد کی فراہمی بدھ تک یقینی بنائے، جن کی آڈیوز ہیں ان کے نام، عہدے اور رابطہ نمبرفراہم کریں۔
جسٹس فائزعیسیٰ نے انکوائری کمیشن کا دائرہ اختیار بھی واضح کردیا اور ریمارکس دیئے کہ انکوائری کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہے، کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے، کمیشن صرف حقائق کے تعین کیلئے قائم کیا گیا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں ہوگی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن تعاون نہ کرنے والوں کے سمن جاری کرسکتاہے، کوشش ہوگی سمن جاری نہ ہوں نوٹس جاری کریں گے، حکومتی افسران کے پاس پہلےہی انکارکی گنجائش نہیں ہوتی، عوام سےمعلومات فراہمی کیلئے اشتہار جاری کیا جائے گا۔
کمیشن نے کارروائی کے دوران آڈیولیکس چلانے کے انتظامات کی بھی ہدایت کی ہے، اور اٹارنی جنرل کوآڈیوز کی تصدیق کیلئے متعلقہ ایجنسی کے تعین کا بھی کہا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ آڈیو لیکس کی تصدیق کیسے ہوگی۔ جس پر کمیشن نے کہا کہ تصدیق کیلئے پنجاب فارنزک ایجنسی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ فارنزک ایجنسی کارکن کارروائی میں موجود ہو، تاکہ اگر کوئی شخص انکار کرے تو فوری تصدیق ہو۔
کمیشن نے تمام متعلقہ افراد کو نوٹسز جاری کرنے اور تعمیل فوری کرانے کی ہدایت کردی جب کہ نوٹس ملنے پر اس کا ثبوت تصویر یا دستخط کی صورت میں فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔
آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس ختم ہوگیا، اور جوڈیشل کمیشن کی اگلی سماعت 27 مئی کو 10 بجے ہوگی۔
جوڈیشل کمیشن نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل سے ان کیمرہ کاروائی کا پوچھا گیا تو انہوں نے کارروائی کھلی عدالت میں ہونے کی حمایت کی ہے، تاہم حکومت کارروائی ان کیمرہ کرنے یا جگہ تبدیل کرنے کا کہہ سکتی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن کی کارروائی ہفتے کے روزہوگی، کمیشن کا سیکرٹری مقرر کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جوڈیشل کمیشن اپنا آرڈر اپلوڈ کرے گی۔
واضح رہے کہ 20 مئی کو حکومت نے ججز کی آڈیو لیکس پر جوڈیشل کمیشن بنایا تھا، کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بنایا گیا ہے، جب کہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اخترافغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق بھی جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہیں۔
مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے جوڈیشل کمیشن سے متعلق وفاقی حکومت نے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا، جس کے مطابق جوڈیشل کمیشن سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی سپریم کورٹ کے موجودہ جج اور ایک وکیل کے ساتھ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا، سابق وزیراعلیٰ اور وکیل کے درمیان مخصوص بینچز کے لیے مقرر کرنے کی تحقیقات بھی کرے گا۔
جوڈیشل کمیشن موجودہ چیف جسٹس، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائیکورٹ کے داماد سمیت آڈیو لیکس سے جڑے افراد سے بھی تحقیقات کرے گا۔
جوڈیشل کمیشن ذمے داروں کا قانون کے مطابق احتساب کرنے کا بھی فیصلہ کرے گا، یہ بھی دیکھے گا کہ کونسی ایجنسی ذمے داروں کا احتساب کرسکتی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے ہیں کہ عمران ریاض خان کو جس کے حکم پر اٹھایا گیا وہ بھی نہیں بچے گا۔
لاہور ہائیکورٹ میں اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی کی درخواست پر سماعت ہوئی، آئی جی پنجاب نے رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب عثمان انور سے استفسار کیا کہ جی آئی جی صاحب کیا پیشرفت ہے، کیا عمران ریاض خان کے گھر پرچھاپے سے متعلق تفتیش کی۔
آئی جی پنجاب عثمان انور نےعدالت کو بتایا کہ وہ چھاپہ پولیس نے نہیں مارا تھا، ہمیں عمران ریاض مطلوب نہیں تھا، اگر کسی ایجنسی نے اٹھایا ہے تو کہہ نہیں سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ عدالت کے حکم کو سمجھے نہیں، اگر آپ پیش رفت نہیں دکھا رہے تو آپ کے خلاف کاروائی شروع کرتا ہوں۔
آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ جوعدالت نے سوال پوچھا اس کا جواب دیا، خفیہ ایجنسی سے بھی رابطہ کیا ہے، ہم نے تمام ایجنسیوں سے رابطہ کیا، میٹنگز کیں، پاکستان کی کسی بھی ایجنسی کے پاس عمران ریاض موجود نہیں، ہم نے آف دی ریکارڈ سب سے رابطے کیے ہیں، عدالت وزرات دفاع اور وزارت داخلہ کو نوٹس کردے تو معاونت ہو سکے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے عمران ریاض کی زندگی کی فکر ہے، مجھے یہ سمجھ آئی کہ یہ کہہ رہے ہیں عمران ریاض پنجاب میں نہیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم پر شک کیا جا رہا ہے کہ کہیں ہم ملوث ہیں، میرے تابع کوئی ایجنسی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بتائیں آپ نے بازیابی کیلئے کیا اقدامات کیے، ورنہ آپ کے خلاف کارروائی کروں گا۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے کل رات بھی میٹنگ کی ہے ساری ایجنسیوں کے لوگ آئے تھے، پورے پاکستان کی پولیس سے پوچھ لیا ہے کسی کے پاس عمران ریاض نہیں، عدالت سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع سے بھی اس بارے جواب مانگے، انہیں کہا جائے کہ ہماری مدد کریں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو مزید وقت چاہیے۔
آئی جی نے جواب دیا کہ جی بالکل ہم نے خود وزارت داخلہ سے رابطہ کیا ہے لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے تمام کے نوٹس لے ہیں، جو کوئی بھی ذمہ دار ہوگا وہ نہیں بچے گا، جس کے حکم پر عمران خان کو اٹھایا گیا وہ بھی نہیں بچے گا، عدالت چاہتی ہے عمران ریاض کی زندگی کو خطرہ نہ ہو، عدالت ان کو موقع دے رہی ہے کہ ان کے پاس کوئی بہانہ نہ رہ جائے۔
عدالت نے عمران ریاض کی بازیابی کیلئے اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔