Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
لاہور: سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم کے انتخاب پر مشاورت شروع کردی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے معاملے پر عمران خان نے سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر عبدالقیوم نیازی کو زمان پارک طلب کرلیا۔
ذرائع کے مطابق عبدالقیوم نیازی کی عمران خان سے اہم ملاقات جاری ہے، ملاقات میں ایم ایل اےغلام محی الدین دیوان سمیت اہم کشمیری رہنما موجود ہیں جس میں آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم کے انتخاب پر اہم مشاورت کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس کو عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کے کیس میں ہائی کورٹ نے نااہل قرار دیا ہے۔
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا سائفر کے معاملے پر کہنا ہے کہ یہ بیانیے کی نہیں جھوٹ کی جنگ ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ پہلے وہ (عمران خان) کہتے تھے کہ یہ خط آیا ہے اور امریکہ نے خط کے ذریعے میرے خلاف سازش کی ہے، اعلان کرکے تو کوئی سازش کرتا نہیں۔ اس کے بعد پھر یہ ہوگیا کہ جی وہ ہمارے اپنے ہی سفیر کا سائفر تھا وغیرہ وغیرہ۔
سابق سفیر نے کہا کہ ’مختصر سی بات یہ ہے کہ ایک میں بیچارہ رہ گیا تھا جس پر خان صاحب کی نظر عنایت نہیں ہونی تھی، تو وہ بھی ہوگئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ (عمران خان) اگر یوٹرن نہ لیتے تو جس اسٹیبلشمنٹ پر میں بیس برس سے تنقید کررہا ہوں، جو باتیں میں بیس برس سے کہہ رہا ہوں ہو کہ بھائی پاکستان میں ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنا چاہئیے، اور نہ فوج کا سیاست میں کردار ہونا چاہئیے نہ سیاستدانوں کو فوج کے ساتھ زیادہ عمل دخل کرنا چاہئیے، ان کو اپنا کام کرنے دیں وہ ہمارے ملک کا دفاع کریں جس میں وہ بہت اچھا کردار ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لیکن خان صاحب تھے اس وقت جو امپائر کی انگلی کا مطالبہ کر رہے تھے، اگر آپ کو یاد ہو تو کنٹینر پر کھڑے ہوکر وہ کہا کرتے تھے کہ امپائر انگلی اٹھائے اور امپائر سے ان کی مراد پاکستان کی مسلح فوج اور اس کی قیادت تھی۔‘
حسین حقانی کے مطابق ’اب اُن (عمران خان) کا اُن (فوج) کے ساتھ جھگڑا ہوگیا اور اس جھگڑے کے بعد 174 اراکین قومی اسمبلی نے ان کے خلاف عدم اعتماد کو ووٹ دے دیا۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’بیچارہ حسین حقانی بیچ میں کہاں سے آگیا، یہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا، لیکن خان صاحب کی باتوں کا آپ کو پتا ہی ہے کہ ان کی باتوں کو سمجھنے کیلئے، بعض اوقات پیری مریدی میں ایسا ہوتا ہے کہ مریدوں کو اپنے پیر کی بات سمجھ میں آتی ہے کسی اور کو سمجھ میں نہیں آتی، اسی طرح سے خان صاحب کے جو پیروکار ہیں وہی ان کی کہانیاں سمجھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ریکارڈ کیلئے میں عرض کردوں، خان صاحب کے اقتدار سے ہٹائے جانے میں میرا کوئی کردار نہیں۔‘
خیال رہے کہ جنوری 2023 کے آخر میں لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے جولائی 2021 میں حسین حقانی کو واشنگٹن میں لابنگ کے لیے ہائر کیا تھا۔
عمران خان نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ جنرل(ر) باجوہ کا مبینہ ”سیٹ اپ“ اب بھی اسٹیبلشمنٹ میں سرگرم ہے تاکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکا جا سکے۔
گزشتہ مہینے آن لائن پوسٹ کی گئی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد میں سی آئی اے کے ایک سابق اسٹیشن مینیجر، رابرٹ گرینیئر کو جولائی 2021 میں واشنگٹن میں پی ٹی آئی حکومت کے لیے لابنگ کرنے کے لیے رکھا گیا تھا، جس نے پھر حسین حقانی کو ان کے لیے کچھ تحقیقی کام کرنے کے لیے لگایا تھا۔
بعد میں، امریکہ میں پی ٹی آئی کے عہدیداروں نے کہا کہ دونوں افراد گرینیئر اور حقانی پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ایک سینئر شخصیت کے لیے کام کر رہے تھے، اور انہوں نے پارٹی کے لیے کام کرنے کے بجائے، اس کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی۔
پہلے میمو اور اب سائفر میں نام آنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’جن لوگوں کو امریکا کا سیاسی نظام سمجھ میں نہیں آتا، خان صاحب تو اگر آپ کو یاد ہوتو کہا کرتے تھے کہ جی میں مغرب کو سب سے زیادہ جانتا ہوں؟ تو جب وہ مغرب کو سب سے بہتر جانتے تھے تو ایک بیچارہ دو چار کتابوں کا مصنف، ایک یونورسٹی کا پروفیسر، جو ڈھائی ساڑھے تین سال سفیر رہ چکا، وہ (حسین حقانی)ان کو اقتدار سے کیسے فارغ کرسکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جو انہوں نے میرے ساتھ حسن ظن برتا ہے، اس کیلئے میں صرف ان کا شکریہ ہی ادا کرسکتا ہوں، مشہوری کے اوپر میں ان کا ممنون ہوں۔‘
حسین حقانی نے کہا کہ ’مسئلہ سارا یہ ہے کہ پچیس سال جس آدمی نے اپنا بیانیہ یہ بنایا ہو کہ میں امریکا مخالف ہوں، اس کے خلاف امریکیوں کو منانے کی کوئی ضرورت نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ 174 اراکین اسمبلی کو امریکا نے خان صاحب کے خلاف نہیں کیا، اب وہ خود کہتے ہیں کہ یہ امریکا کا معاملہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ سازشی نظریوں کے بارے میں جو ماہرین ہیں انہوں نے ان نظریوں اور ان پر یقین رکھنے والوں پر بڑی ریسرچ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لیڈر اپنی غلطی نہیں ماننا چاہتے وہ سازشی نظریات پھیلاتے ہیں۔
سابق سفیر نے کہا کہ ’یہ ماننا توآسان نہیں کہ بھئی 174 آدمی میرے اپنے حلیف ان میں سے چند ایک اور میری اپنی پارٹی کے کچھ لوگ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے کیونکہ میں ان سے ملتا نہیں تھا۔ زیادہ آسان یہ ہے کہ ملبہ امریکا پر ڈال دو جس کے خلاف میں نے 25 سال تک بیانیہ تیار کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مگر جب بعد میں لوگوں نے سمجھایا کہ بھائی کل کلاں آپ کو دوبارہ حکومت مل گئی تو اسی امریکہ سے معاملات تو کرنے پڑیں گے نا، تو ذرا کچھ تھوڑا سا ہتھ ہولا کیجئے۔ مذہبی ٹچ کی طرح کسی نے انہیں کہا کہ نہ سائیں کبھی آپ کو امریکی ٹچ کی بھی ضرورت پڑے گی ذرا ہتھ ہولا کریں، انہوں نے ہتھ ہولا کرنا شروع کردیا۔ اب ہتھ ہولا کرتے کرتے پہلے فوج پر ملبہ ڈالا، پھر خیال آیا کہ نہیں فوج سے نہیں لڑائی کرنی، پھر اس کے بعد انہیں خیال آیا کہ محسن نقوی صاحب چیف منسٹر بن گئے، ان سے جھگڑا ہوگیا تو ان پر ڈال دیا، اب مجھ پر ڈال دیا ہے۔ اور جس بات کی بنیاد پر ڈالا ہے وہ ایسی مضحکہ خیز ہے کہ جناب میں نے ایک ریسرچ کی اور اس ریسرچ کی بنیاد پر مجھے پیمنٹ (ادائیگی) ہوئی اور وہ پیمنٹ 30 ہزار ڈالر رجیم چینج کیلئے استعمال ہوئی، تو اگر 30 ہزار ڈالر میں رجیم چینج ہو رہی ہے تو آپ بھی 30 ہزار ڈالر دے کر دوبارہ رجیم چینج کرا لیں۔‘
انہوں نے لابنگ فرم کی خدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ افتخار درانی کا جس (لابنگ) فرم سے کانٹریکٹ تھا اس سے میرا بھی کانٹریکٹ تھا لیکن کسی اور کام کیلئے۔ یہ کون لوگ ہیں جو یقین کرلیتے ہیں کہ سازشوں کی رسیدیں رکھی جاتی ہیں، امریکہ میں لابنگ کھل کر ہوتی ہیں، اس کی رسیدیں ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کی جاتی ہیں، اس لئے اس کو ایک سازش سے ملانا لوگوں کو بیوقوف بنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ یہ مغالطہ ہے عمران خان کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے، آپ کو یاد ہوگا کہ 2018 کی جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا تھا کہ میں پاکستان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا، اس کو سبق سکھاؤں گا، اس کو اتنے ارب ڈالرز دیے ہیں اور پاکستان نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیا، الٹا افغانستان میں ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے بعد تھوڑی سی بدمزگی ہوئی تھی۔ اسی دوران ایک سینیٹر لنڈسے گراہم کو بعض پاکستانی نژاد امریکن پاکستان لے کر گئے، وہاں ان کی بڑی خاطر تواضع ہوئی اور واپس آکر انہوں نے عوامی طور پر کہا کہ میں نے صدر ٹرمپ کو بتایا ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم آپ ہی کی طرح کا ہے۔ آپ اس سے ملیں آپ کھل کر بات کریں گے تو آپ کی اچھی بنے گی۔ اس کے بعد عمران خان امریکہ مدعو کیے گئے۔ لیکن پالیسی کی بنیاد پر کوئی بہتری نہیں آئی۔’
حسین حقانی کے مطابق اس دوران انتظامیہ بدل گئی اور جو بائیڈن نے فون تک کرنا گوارہ نہیں کیا، یہ بہت کم ہوتا ہے کہ امریکی صدر ان ممالک کے سربراہان کو فون نہ کرے جن کے ساتھ امریکہ کے اچھے یا خصوصی تعلقات ہوں۔ ان کو جب فون نہیں آیا تو یہ بے چین ہوئے کیونکہ ان کا دوطرفہ معاملہ چلتا ہے کہ پاکستان میں کہنا ہے کہ ہمیں امریکا سے حقیقی آزادی چاہئیے وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف امریکا کو بھی منا کر رکھنا ہے۔ اس وقت افتخار درانی صاحب نے اس فرم کی خدمات حاصل کی ہوں گی، مجھے اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے تو صرف اتنا پتا ہے کہ کئی ماہ بعد جب اس فرم کی سالانہ فائلنگ ہوتی ہے تو اس میں میرا نام بھی تھا کہ ہم نے اس آدمی سے ریسرچ کرائی تھی۔‘
سابق سفیر نے کہا، ’پہلی بات تو یہ کہ اگر جنرل باجوہ نے ہائر کرایا تھا آپ کے آدمی نے ہائر کیوں ہونے دیا، دوسری بات یہ کہ اس سے حسین حقانی کہاں سے ہائر ہوگیا بھائی، یہ تو جھوٹ بولتے ہیں نا جو شارٹ کٹ مارتے ہیں کہ جرل باجوہ نے حسین حقانی کو ہائر کیا اور حسین حقانی نے امریکہ کو میرے خلاف کردیا، دونوں باتیں غلط ہیں، نہ مجھے جنرل باجوہ نے ہائر کیا نہ کوئی ہائر کرسکتا ہے، میں ایک اسکالر ہوں، اپنی تحریروں کےذریعے اپنی تحقیق کے ذریعے، میں اپنی رائے دیتا ہوں اور میری رائے کو لوگ مانتے ہیں اس کی عزت کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے ، میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، اس میں کسی کے ہائر کرنے نہ کرنے کا دخل نہیں ہے۔‘
کیا یہ ریاست کے ریاست سے بگڑے ہوئے معاملات تھے جس میں عمران خان مس فٹ تھے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میرا یہ خیال ہے کہ ریاست کے جو بگڑے ہوئے تعلقات تھے، اس کے بہت سارے اسباب ہیں، پاکستان کی افغان پالیسی، طالبان کے معاملے میں امریکہ کا یہ خیال کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی حمایت کرتا ہے امریکہ کی نہیں کرتا، خود پاکستان کے فیٹف لسٹ میں آنا جس میں یہ بات شامل ہیں کہ پاکستان میں اتنے برسوں سے جو جہادی گروپ ہیں ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ امریکہ نے بہت سارے معاملات کے اوپر پاکستان کو تنبیہ کی ہے اختلاف کیا ہے، لیکن امریکہ کو ہمیشہ سے یہ امید تھی کہ پاکستان سے تعاون ہمارا اختلافات سے کہیں زیادہ ہے، ایک مرحلہ ایسا آیا کہ امریکنوں میں یہ احساس پیدا ہوگیا کہ ہمارے اختلافات اب ہمارے تعاون کی بنیاد سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس میں بہت ساری باتیں ہیں، امریکہ کے بھارت سے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے اور امریکہ نے اسے اپنا اتحادی سمجھنا شروع کردیا، پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کے بارے میں امریکہ میں بدگمانیاں شروع ہوگئیں، امریکہ چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے تو پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مفاد کیا رہ گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سارے عرصے میں عمران خان صاحب جب اقتدار میں آئے تھے تو ان کا بیانیہ یہ تھا کہ میں معیشت ٹھیک کردوں گا، چوروں لٹیروں سے پیسے کھینچ کر لے آؤں گا اس کے بعد ملک دوبارہ امیر اور خوشحال ہوجائے گا۔ جب اسٹیبلشمنٹ کو یہ نظر آیا کہ یہ سب کچھ نہیں ہورہا تو ان کو پھر یہ سمجھ میں آیا کہ ہمیں وہیں واپس جانا ہوگا جہاں سے ماضی میں ہم معاملات ٹھیک کرتے رہے ہیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، چین، ان کے ساتھ مل جل کر معیشت کے معاملات کو ٹھیک کیا جائے۔ اس میں میرا خیال ہے کہ عمران خان صاحب کا مزاج آڑے آرہا تھا۔ اور اسی لئے اسٹیبلشمنٹ نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیا، اور اس پر میں نے تنقید کی کہ یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ وزیر خارجہ کا کردار بھی فوج کا سربراہ ادا کرے، لیکن ان کی سوچ یہ تھی کہ ہم کریں کیا۔ اگر مدد چاہئیے اور سعودی عرب اس لئے مدد نہیں کر رہا ہے کہ عمران خان صاحب کا مزاج نہیں ملتا سعودی عرب کے حکمران کے ساتھ، یا ان کو یہ لگا کہ انہوں نے ان کی بے عزتی کی ہے تو ہم ہی جاکر منا لیتے ہیں۔ پھر انہوں نے امارات کے ساتھ بھی یہی کیا ، پھر ان کو خیال آیا کہ امریکہ کے ساتھ بھی یہی آزمایا جائے۔ اسی وجہ سے ایک نہیں ایک سے زیادہ لابسٹ امریکہ میں ہائر کئے گئے تھے، لیکن میں ان لابسٹوں میں شامل نہیں ہوں کیونکہ میں لابسٹ ہوں نہیں۔‘
حسین حقانی نے کہا کہ کئی سال پہلے جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد صاحب امریکہ تشریف لائے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے عوام یہی سننا چاہتے ہیں، کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ کبھی ہمیں اقتدار مل گیا تو ہمیں بھی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کرکے گزارا کرنا ہوگا۔ عمران خان صاحب کو بھی احساس شاید ابھی بھی ہے کہ امریکہ کے ساتھ حکومت میں ہوتے ہوئے اچھے تعلقات ضروری ہیں۔
جنرل باجوہ سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں کسی منصوبہ بندی کا حصہ بننے کیلئے کسی سے بھی نہیں ملا۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کون مجھ سے ملتا ہے کون نہیں اس کی تفصیلات میں نہیں بیان کرسکتا، لیکن دیار غیر میں ہوتے ہوئے کوئی اپنے ملک سے آتا ہے تو خوشی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر ان لوگوں نے جن کے اداروں نے مجھ پر ناجائز طور پر الزام تراشی کی، مجھے غدار، ملک دشمن اور کیا کیا کہا، اور صرف بیانئے کی بنیاد پر میرے نقطہ نظر کی بنیاد پر۔ میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر میرے خلاف فوجداری مقدمہ بنا ہو کوئی غیرقانونی کام کرنے کی وجہ سے کسی عدالت نے سزا دی ہو۔ یہ سب کرنے کے بعد اگر وہ مجھ سے رابطہ کریں بھی تو میں تو اس کو اپنے لیے مثبت بات سمجھوں گا کیونکہ مجھ پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ جھوٹے تھے غلط تھے اور میں ان کا مستحق نہیں تھا۔ آج میں یہ عمران خان صاحب کو بھی کہتا ہوں، کیونکہ انہوں نے ماشاءاللہ بہت کردار ادا کیا ہے جھوٹے الزام لگانے میں، کہ وہ بھی اپنے جھوٹے الزامات سے تائب ہوجائیں، اعتراف کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جو ان سے سوال کرلے ان سے اختلاف کرلے ان کو لفافہ کہہ دیتے ہیں ، جو کلچر انہوں نے بنایا ہے اس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں کرتا، یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ ان کی عزت کرتے ہیں اور یہ ایک بار پھر لابنگ کیلئے پیسے خرچ کررہے ہیں امریکہ میں، ان کی لابنگ سے علاوہ اس کے کہ پاکستان میں اخباروں میں کچھ خبریں لگ جائیں اور ان کے اپنے یوٹیوب چینلز کیلئے کچھ ویڈیوز نکل جائیں کچھ نہیں نکلنا۔‘
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان کج روی کافی پرانی ہے۔ یہ گڑبڑ کئی سالوں میں ہوئی ہے اور اس کو ٹھیک ہونے والا کام بھی کئی سالوں میں ہوگا۔ پہلے تو ملک میں مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے۔ ایک دوسرے کو غدار کہنا ، ملک دشمن، کافر کہنا ، لڑنا جھگڑنا، چوروں کے ساتھ منہیں بیٹھیں گے، لٹیروں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ اگر سب پاکستانی ہیں تو سب کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ معیشت اور قومی سلامتی کے معاملات پر ہماری ایک واضح حکمت عملی ہونی چاہئے۔ حکومتیں ساری دنیا میں بدلتی ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ پچھلی حکومت کےمنصوبے کینسل کردئے جائیں، ٹھیکے بند کردیے جائیں، اس سے معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اور پھر بہت سے معاملات میں عدلیہ کی مخالفت جیسے کہ ریکوڈک کی لٹیا چودھری افتخار صاحب نے ڈبوئی۔
حسین حقانی نے کہا کہ آئی ایم سے بات چیت تو کرنی پڑے گی، چاہے یہ حکومت کرے چاہے بعد آنے والی حکومت کرے، پاکستان کو آئی ایم ایف کی مدد چاہئیے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو دنیا میں اپنے قد سے چھوٹا بھی نظر نہیں آنا چاہئیے، لیکن اپنے قد سے بڑا دکھنے کی کوشش میں ممالک کے ساتھ منفی صورتحال بھی پیدا نہیں کرنی چاہئیے۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب انتخابات کیلئے فنڈز سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔
پنجاب اسمبلی الیکشن کے انتظامات کے لئے درکار 21 ارب روپے فنڈز سے متعلق الیکشن کمیشن حکام نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے دفتر میں سربمہر رپورٹ جمع کرادی۔
سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرانے کے بعد الیکشن کمیشن حکام کا کہنا تھا کہ سربمہر رپورٹ رجسٹرار آفس میں جمع کرائی گئی، میڈیا نمائندوں کے سوالات پر حکام کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مندرجات کا انہیں علم نہیں ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو وفاقی حکومت کو انتخابات کیلئے 10 اپریل تک 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو 11 اپریل کو فنڈز ملنے یا نہ ملنے کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے اور الیکشن کمیشن، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایات دے رکھی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی اپنی جماعت کے وزیراعظم آزاد کشمیر تنویز الیاس عدالت کے احکامات پر عمل نہیں کر رہے تھے۔
وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کی نااہلی پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آج آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کو توہین عدالت میں نااہل کیا گیا، پاکستان کے وزیراعظم کو بھی اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔
رہنما تحریک انصاف نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، وزیراعظم آزاد کشمیر عدالت کے احکامات پر عمل نہیں کر رہے تھے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے پارلیمنٹ میں بیٹھنے پر وکلا خفا ہیں، اور لگتا ہے اب تو ان پر بھی ریفرنسز فائل ہورہے ہیں، فائز عیسیٰ کے اردگرد آصف زرداری اور اسحاق ڈار بیٹھے تھے، آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ شہبازشریف نے ایک ٹویٹ کیا ہے کہ ایک سال بڑا مشکل تھا، ان کو اس سال کو یاد کرنےکی ضرورت نہیں تھی، پورا سال آئین اور انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا سال رہا، وزیراعظم فوری استعفی دیں،ان کا استعفیٰ ہی سب بحرانوں سے نکلنےکا حل ہے۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ مریم نواز نے شہباز شریف کو ایسے حالات میں لاکھڑا کیا ہے کہ وہ جلد نااہل ہوجائیں گے پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کا مذاق اڑایا گیا، اور ۔ سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج نے پارلیمنٹ میں جاکر اپنی جانبداری ظاہر کی، وکلاء تنظیمیں اس کی مذمت کررہی ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو فوری عہدے سے استعفیٰ دیناچاہیئے سینئر جج نے 2 ایسی شخصیات میں بیٹھ کر اچھا نہیں کیا، اسحاق ڈارکو جس طرح ریلیف دیاہے وہ سب کوعلم ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد اے ٹی سی پیش کیا گیا، جہاں کیس کی سماعت انسداد دہشتگردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے کی۔
عدالت نے علی امین گنڈاپور کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ کیا آپ کو ٹارچر تو نہیں کیا گیا۔ جس پر علی امین نے نفی میں جواب دیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کی جانب سے دہشتگردی کی دفعات ہٹا دی ہیں، اب متعلقہ عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔
علی امین کے وکیل بابر اعوان کے معاون نے عدالت میں استدعا کی کہ بابر اعوان پہنچنے والے ہیں تھوڑا انتظار کر لیا جائے۔
جج نے ریمارکس دیئے کہ یہاں دہشت گردی کی دفعات ہٹانے کے لئے کیس داخلہ کیا گیا تھا اور اب دفعات ہٹ دی گئیں ہیں، آپ کیا چاہتے ہیں کہ دہشتگردی کی دفعات نہ ہٹائی جائیں۔
وکیل نے استدعا کی کہ پہلے دہشتگردی کی دفعات لگا کر عدالت کا وقت ضائع کیا گیا، ہم اس پر دلائل دینا چاہتے ہیں۔
جج راجہ جواد عباس حسن نے ریمارکس دیئے کہ چلیں ہم دونوں سائیڈ کو دس ،دس منٹ سن لیتے ہیں اور عدالت نے بابر اعوان کی آمد تک سماعت میں وقفہ کر دیا۔
کچھ دیر بعد وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ ہوئی تو پرویز خٹک اور اسد قیصر وکیل بابراعوان کے ہمراہ کمرہ عدالت پہنچ گئے۔
وکیل بابر اعوان نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ تفتیشی افسر نے کل عدالت کا وقت ضائع کیا، اس نے وکیلوں کا وقت بھی ضائع کیا، اور ملزم کو ذلیل و خوار کیا۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کے خلاف نجی چینل مدعی نہیں، عدالتی وقت ضائع کرنے پر تفتیشی افسر کو شوکاز نوٹس جاری کیا جائے، چھ ماہ بعد مجسٹریٹ نے جھوٹ پر مبنی مقدمہ درج کیا۔
جج نے استفسار کیا کہ کیا اسے ایمانداری نہیں کہیں گے کہ دہشتگردی کی دفعات حذف کردیں۔ عدالت نے علی امین گنڈاپور کو ضلعی کچہری لے جانے کی ہدایت کردی۔
پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈا پور کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد پہنچایا گیا، جہاں جوڈیشل مجسٹریٹ احتشام عالم نے محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا۔ اور علی امین کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے علی امین گنڈا پور کی مقدمات کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر سماعت کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے علی امین گنڈا پور کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں، اور کہا کہ فریقین جمعے تک علی امین گنڈا پور کے خلاف درج مقدمات کی رپورٹ پیش کریں۔ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت جمعے تک ملتوی کردی۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ پارلیمان سپریم ادارہ ہے اور عدلیہ اس کے اختیارات و قانون سازی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاون خصوصی وزیر اعظم عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ملک میں نظام عدل و انصاف کی بالادستی چاہتے ہیں، اور قانون کی بالادستی کیلئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا آنا ضروری تھا، صدر دستخط کریں یا نہ کریں بل 10دن کے بعد قانون بن جائےگا۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ انصاف ہونا اور انصاف ہوتا نظر آنا ضروری ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، پارلیمان سپریم ادارہ ہے، جو آئین میں تبدیلی کا اختیاررکھتی ہے، عدلیہ پارلیمان کےاختیارات اور قانون سازی میں مداخلت نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ میں تمام ججز برابری کی سطح پر ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ عمران خان اور دیگر سیاسی سربراہان میں فرق ہے، عمران خان نے ذاتی انا کیلئے ملک کو داؤ پر لگایا، اور اب عدالتوں سے بھاگے ہوئے ہیں، ہم عمران خان کی طرح یوٹرن نہیں لیتے اور کیسز کو نہیں لٹکاتے، ہمارے دستخط بھی اصلی ہیں اورحکومت بھی اصلی ہے۔
عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ مرضی ہو تو فرد واحد ترامیم کرنےچل پڑتا ہے، چیف جسٹس پر 2 ریفرنس دائر ہو چکے ہیں، ہم نے ریفرنس کی تیاری شروع نہیں کی مگر مشاورت کر رہے ہیں، جلد کوئی نہ کوئی فیصلہ سامنے آجائے گا۔
لاہور ہائیکورٹ نے سابق خاتون اول بشری بی بی کی دوست فرح گوگی کی درخواست پر نیب حکام سے انکوائری سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔
لاہور ہائیکورٹ میں سابق خاتون اول بشری بی بی کی دوست فرحت خان کی نیب نوٹسز کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس علی باقرنجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر نیب حکام سے انکوائری سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کر لی، اور سماعت 22 مئی تک ملتوی کردی۔
ذرائع کے مطابق نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دیرینہ ساتھی فرحت شہزادی عرف فرح خان گوگی پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی سیاسی اثرو رسوخ سے اربوں روپے کمائے، سرکاری افسران پر دباؤ کے ذریعےکروڑوں روپے بطور رشوت لیے جب کہ ان کے نام پر اربوں روپے کے بینک اکاؤنٹ ملنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے فرح گوگی کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
وکیل سعید آفتاب نے عدالت سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجرمجوزہ ایکٹ کو کالعدم قراردینےکی استدعا کردی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ اور محمد شافع منیر ایڈووکیٹ نے عدالت میں درخواست دائر کردی۔
درخواست گزار نے عدالت میں مؤقف پیش کیا ہے کہ ایکٹ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا جائے، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہے۔
بل کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست
سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجرترامیم کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا ہے، وکیل سعید آفتاب نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔
درخواست گزار نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر مجوزہ ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا ہے کہ اپیل کا حق چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی لائے بغیر دیا جا سکتا تھا، اور ہائی کورٹ کی طرز پر انٹرا کورٹ اپیل کا حق دیا جا سکتا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیرصدارت ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیرقانون اعظم نزیر تارڑ نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل پیش کیا تھا جسے پارلیمان نے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
اس سے قبل صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ ریگولیشنز بل پر دستخط کیے بغیر پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا تھا تاہم اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظوری کے بعد بل کو دستخط کے لئے دوبارہ صدر مملکت کو بھجوایا جائے گا۔ اگر صدرعارف علوی نے دستخط نہیں کیے تو 10 دن بعد یہ بل خود ہی قانون بن جائے گا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج
دوسری جانب مذکورہ بل کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے اور درخواست میں وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو شہری منیر احمد کی جانب سے ان کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے چیلنج کیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 آئین پاکستان کے خلاف ہے اور ایسا کوئی قانون نہیں بن سکتا جو آئین سے متصادم ہو۔
درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کے رولز بنے ہوئے ہیں لہٰذا آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قانون بدنتیی پر مبنی ہے۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے اور درخواست کے حتمی فیصلے تک اس قانون پر عملدرآمد سے حکومت کو روکا جائے۔
درخواست میں یہ بھی مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے پنجاب میں انتخابات کو التواء میں ڈالنے کے لیے موجودہ بل کو منظور کیا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیخلاف 10 مقدمات میں تحقیقات جاری ہیں، ڈی جی اینٹی کرپشن نے لاہور ہائیکورٹ میں رپورٹ جمع کرا دی۔
لاہور ہائیکورٹ میں ڈی جی اینٹی کرپشن کی جانب سےجمع کروائی جانے والی رپورٹ کے مطابق عثمان بزدار کیخلاف ڈی جی خان ڈویژن میں 10 انکوائریز جاری ہیں۔
ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے علاوہ عثمان بزدار کیخلاف کہیں کوئی انکوائری نہیں۔
سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے انکوائریز کی تفصیلات حاصل کرنے کی درخواست ہائیکورٹ میں دائر کی تھی جس کے بعد عدالتی حکم پر ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی۔
اینٹی کرپشن نے عثمان بزدار کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کر دی ہے۔
حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل صدر مملکت کو دوبارہ بھجوا دیا گیا، صدر نے دس دن میں دستخط نہ کیے تو بل از خود قانون بن جائے گا۔
عدالتی اصلاحات سے متعلق یہ بل گزشتہ روزپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کثرت رائے سے ترامیم کے ساتھ منظور ہوا تھا۔
![. (https://www.aaj.tv/news/30323487/)
بل پرصدر کے دستخط کے بعد نیا قانون بننے کی صورت میں چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہوجائے گا اور تین سینئر ترین ججز ازخود نوٹس سے متعلق فیصلہ کرسکیں گے۔
صدر عارف علوی نے عدالتی اصلاحات سے متعلق یہ بل 3 روزقبل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظرثانی کے لئےپارلیمنٹ کو واپس بھجوایا تھا۔
صدر کا کہنا تھا کہ پارلیمٹ اس بل پر از سر نو غور کرے، مسودہ بل بادی النظر میں پارلیمٹ کے دائرہ اختیارسے باہرہے، بل قانونی طورپر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کاروائی، خود مختاری اورآزادی میں مداخلت کے مترادف ہوسکتی ہے، آرٹیکل 67 پارلیمان اور آرٹیکل 191 سپریم کورٹ تحفظ فراہم کرتا ہے یہ آرٹیکل دونوں اداروں کواختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔
صدر کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر دستخط سے انکار کے بعد بل صدر کے اعتراضات کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس موصول ہوا تھا جسے کل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ منظور کیے جانے کے بعد صدر مملکت کو بھجوایا گیا ہے۔
صدرعارف علوی کی جانب سے بل پر10 دن میں دستخط نہ کیے جانے کی صورت میں ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل‘ ازخود قانون بن جائے گا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سو موٹو نوٹس لینے کا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا
بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا، بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے۔
نئی قانون سازی کے تحت نواز شریف، کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق ملے گا جبکہ نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور دیگر فریق بھی اپنے خلاف فیصلوں کو چیلنج کرسکیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عمران حکومت نے پاکستان کے سفارتی تعلقات کو شدید دھچکا پہنچایا، عمران خان کی طرف سے بچھائی گئی اقتصادی بارودی سرنگوں کے باوجود معیشت رواں دواں ہے، ملک کے ڈیفالٹ کی تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وزیراعظم نے وزارت اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے کا ایک سال مکمل ہونے پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ جب اقتدار سنبھالا تو حالات انتہائی مشکل تھے اور متعدد چیلنجز کا سامنا تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اتحادی حکومت پاکستان کے سفارتی تعلقات کی بحالی اور مضبوط کرنے کے لئے کوشاں ہے، عمران حکومت نے پاکستان کے سفارتی تعلقات کو شدید دھچکا پہنچایا، ہم نے پاکستان کی ساکھ قائم کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔
شہباز شریف نے اپنے ٹویٹ میں مزید لکھا کہ عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد اس لیے نہیں تھی کہ پی ڈی ایم اقتدا میں آئے، تقریبا تمام سیاسی قوتیں پارلیمنٹ کے فورم کے ذریعے غیر مقبول حکومت کو ووٹ دینے کے لئے اکٹھی ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی طرف سے بچھائی گئی اقتصادی باردی سرنگوں کے باوجود ملکی معیشت بدستور رواں دواں ہے، ملک کے ڈیفالٹ کی تمام پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ملکی معیشت کی بحالی کےلئے مخلصانہ کوششیں جاری ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی نفی کی گئی، الیکشن کمیشن کو فنڈز نہیں ملے، فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ حکومت توہینِ عدالت کی مرتکب ہو چکی، دوسری بار سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹویٹ میں سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کمیشن کو21 ارب نہیں ملے اور فیصلے کی نفی کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سارے ہتھکنڈے چوروں کے ٹولے کوعوام پر مسلط رکھنے کے لئے کیے جارہے ہیں اور عوام کی امنگوں کو کچلا جارہا ہے۔
شیخ رشید نے مزید کہا کہ الیکشن روکنے اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھاگنے کے لئے 10 روز میں کابینہ کے ریکارڈ 10 اجلاس ہوئے ہیں، جو آئین کےساتھ آنکھ مچولی کھیلے گا اس کا انجام برا ہوگا۔
ایک اور ٹویٹ میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کو ڈبیٹنگ کلب بنادیا گیا ہے جہاں عوام کی خواہشوں اور ان کے ووٹ کے حق کا خون ہورہا ہے، عوام ووٹ کے ذریعے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آئین اور قانون کو نہ تھاما گیا تو یہ نہ ہو سب ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ آج انشاءاللہ اپنے وطن واپس آجاؤں گا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل جاوید نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ حکومت توہینِ عدالت کی مرتکب ہو چکی، دوسری بار سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی، پہلی بار عدالت نے انتہائی نرمی کا مظاہرہ کرکے ایک مہلت دی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے دنوں کے ضایع ہونے کے بعد نئی تاریخ دی مگر ایک بار پھر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی گئی۔
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ پنجاب میں الیکشن سے عام انتخابات متاثر ہوں گے، بحران کے حل کے لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، تمام ججز اجتماعی دانش سے آئینی بحران کا حل نکالیں۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خرم دستگیر نے کہا کہ عمران خان کے دور میں مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا، چاہتے ہیں 2023 کے انتخابات شفاف اور مداخلت سے پاک ہوں، چاہتے ہیں انتخابات میں سب کو برابر کا موقع ملے۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی، 2018 کے انتخابات کے بعد ن لیگ کو نشانہ بنایا گیا، پی ٹی آئی دور میں ن لیگ میں توڑپھوڑ کی سازش کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں الیکشن سے عام انتخابات متاثر ہوں گے، پنجاب ملک کی 55 فیصد آبادی والا صوبہ ہے، پنجاب انتخابات پر چھوٹے صوبوں کو تحفظات ہیں۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک ساتھ انتخابات کی قرار داد منظور ہوئی، مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیاں اور پھرانتخابات ہوں گے، ہماری نظر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ 4،3 کا فیصلہ ہے۔
خرم دستگیر کا مزید کہنا تھا کہ پی ڈی ایم جماعتوں کو 2018 میں دوتہائی سے زیادہ ووٹ ملے تھے، ہمارے فیصلوں کے پیچھے دوتہائی عوام کے ووٹ کی حمایت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی بحران کے حل کے لئے سپریم کورٹ فل کورٹ تشکیل دے، تمام ججز اجتماعی دانش سے آئینی بحران کا حل نکالیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ نوازشریف کو تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل کیا گیا، چاہتے ہیں وہی معیار دوسرے وزرائےاعظم پر لاگو ہونا چاہیئے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس انوار حسین نے سابق وزیراعظم عمران خان کو پارٹی چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کی درخواست چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو ارسال کردی۔
لاہور ہائیکورٹ میں عمران خان کو پارٹی چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
جسٹس انوار حسین نے درخواست چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو ارسال کردی ۔
عدالت نے نوٹ تحریر کیا ہے کہ جسٹس عابد حسین اسی نوعیت کی درخواست پر سماعت کررہے ہیں۔
جسٹس انوار حسین نے سفارش کی کہ اس درخواست کو بھی اسی عدالت میں مقرر کیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ نے رجسٹرار آفس کے اعتراض کے ساتھ درخواست چیف جسٹس کو ارسال کی۔
رجسٹرار آفس نے کہا کہ ایک درخواست بار بار دائر نہیں ہوسکتی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد حسین چھٹہ کل درخواستوں پر سماعت کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔
پشاورہائیکورٹ میں درخواست پی ٹی آئی رہنماء اور اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی مشتاق غنی کی جانب سے دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ گورنرخیبرپختونخوا نے انتخابات کے لئے 8 اکتوبر کی تاریخ دی ہے، گورنر حاجی غلام علی نے 28 مئی کا اعلان کیا، الیکشن کمیشن نے نوٹیفائی نہیں کیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانا لازمی ہے، گورنر کی جانب سے 8 اکتوبر کی تاریخ غیرقانونی وغیرآئینی ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ 90 دن میں اگر انتخابات نہیں ہوسکتے تو کم سے کم وقت میں کرائے جائیں، گورنر خیبرپختونخوا کو فوری الیکشن کے لئے تاریخ دینے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں الیکشن کمیشن ،وفاقی وصوبائی حکومت، گورنر خیبرپختونخوا اور صدر مملکت کو فریق بنایا گیا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی مشتاق غنی نے کہا کہ ہم نے اپنی 2 اسمبلیاں ختم کیں، ہم الیکشن چاہتے ہیں، نالائق حکومت اس وقت اقتدار میں ہے، حکومت بہانے بنا کر الیکشن ملتوی کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہر فورم پر قانونی کارروائی کررہے ہیں، پنجاب سے متعلق فیصلے پر سپریم کورٹ کے شکر گزار ہیں، سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ ہم دوبارہ درخواست دائرکریں، آج ہم نے درخواست جمع کرا دی ہے۔
مشتاق غنی نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کی آج بھی کوئی آئینی حیثیت نہیں، نگراں حکومت کا کام صرف الیکشن کرانا ہے، حکومت میں سب جماعتوں نے اپنا کوٹہ رکھا ہوا ہے۔
اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہم نے نگراں وزیراعلیٰ کو سپورٹ کیا، آج ان کے قلم کی سیاہی بھی گورنرہاؤس سے آتی ہے، نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا بے بس ہے، وزیراعلیٰ اپنی ساکھ خراب نہ کریں اور مستعفی ہوجائیں، ہم ان کے خلاف ریفرنس داخل کرنے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کا فیصلہ کریں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے تھانہ رمنا میں درج بغاوت کا مقدمہ خارج کرنے کی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرتے ہوئے ڈائری نمبر لگا کر کل کیس سماعت کے لئے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے عسکری اداروں کے افسران کے خلاف تقاریر پر عمران خان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کی۔
وکیل فیصل چوہدری نے رجسٹرار آفس کے دونوں اعتراضات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک اعتراض ہے کہ اخراج مقدمہ سے قبل ضمانت کیوں نہیں کروائی ، دوسرا اعتراض عمران خان کے پاور آف اٹارنی سے متعلق ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ مقدمہ خارج کرنے کی درخواست سنی۔
عدالت نے دونوں اعتراضات جوڈیشل سائیڈ پر دور کر کے درخواست کو بدھ کے روز سماعت کے لئے مقرر کر دیا ۔
عمران خان کی لاہور میں تقاریر پر اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں 6 اپریل کو مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو رجسٹرار آفس کے دونوں اعتراضات سے آگاہ کیا۔
عدالت میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ عمران خان کے خلاف سیاسی مخالفین کی ایماء پر جعلی مقدمات بنائے جارہے ہیں، سیاسی مخالفین کا مقدمات بنوانے کا مقصد عمران خان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ کرپشن کا کیس نہ ملا تو ساکھ کو نقصان پہنچانے اور بلیک میل کرنے کے لیے ایسے مقدمات بنائے جا رہے، ایف آئی آر کے الزامات کو سچ بھی مان لیا جائے تو لاہور میں تقریر پر اسلام آباد میں کیسے مقدمہ درج کیا گیا؟۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی جلد سماعت مقرر کرنے کی الیکشن کمیشن کی درخواست درخواست خارج کردی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس جلد سماعت کی جلد سماعت مقرر کرنے کی الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس ہے کیا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز اور سعد حسن جبکہ عمران خان کے وکلاء خواجہ حارث اور فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جج نے عمران خان کے وکلاء سے سوال کیا کہ توشہ خانہ کیس کی جلد سماعت مقرر کرنے کی درخواست پر کیا کہتے ہیں؟ ۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم، نوٹس بھی جاری
جس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جلد سماعت مقرر کرنے کا جواز کیا ہے؟ پیسہ ضائع ہوتا ہے، آج کل تحریکِ انصاف کے کیسز کی وجہ سے بہت مصروفیات ہیں، کیسز کی بھر مار کے باعث وکلاء کو تیاری کے لئے بھی وقت چاہیئے ہوتا ہے، گزشتہ سماعت پر وکلاء کی جانب سے ہڑتال بھی تھی۔
عمران خان کے دوسرے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی مرضی سے 29 اپریل کی تاریخ لی، 2 دن بعد خیال آیا ہے کہ تاریخ جلد مقررکروانی ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی جان کو خطرہ ہے حاضری کی ضرورت نہیں، عدالتی فیصلہ جاری
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ہم تو 2 دن کی تاریخ مانگ رہے تھے، ایک ماہ کی نہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کے خلاف کیس ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے دائر کیا، علی حیدرگیلانی کے خلاف بھی الیکشن کمیشن نے پرائیویٹ شکایت دائرکی ہوئی ہے، علی حیدرگیلانی کے خلاف کیس گزشتہ سال دائر کیا گیا تھا، ایک سال ہوگیا اور علی حیدر گیلانی پر اب تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی، کیا بات ہے الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف کیس میں زیادہ دلچسپی ظاہر کررہا ہے، علی حیدر گیلانی کے خلاف کیس میں ڈیڑھ ماہ کی تاریخ دی گئی۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ کیس: نئی آرڈر شیٹ تیار،عمران خان کو گاڑی سے حاضری لگوانے کی ہدایت
عمران خان کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کی ایسی درخواست سے سارا نظام درہم برہم ہو رہا ہے، کیس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے اثر و رسوخ کے بغیر ہونا ہے، ملزم کے حقوق ہوتے ہیں، یہ نہ سمجھا جائے کہ کیس کو تاخیر کا شکار بنایا جا رہا ہے، عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ توشہ خانہ کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی کوشش کیس میں مداخلت کرنے کے مترادف ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ عمران خان پر جرم عائد کی جائے، پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان پر کیسز درج ہیں، وہ تو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، نیب کے کیسز کے حوالے سے تو کسی ملزم کو درخواست نہیں گئی، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ جلد فیصلہ نہ ہوا تو ہمارا پیشہ ورانہ کام متاثر ہو گا، عمران خان کو آج بھی سیکیورٹی کے خدشات ہیں، جس کے لیے درخواستیں ہائی کورٹ میں دائر ہیں، حکومت یہ بھی نہیں بتاتی کہ عمران خان کو سیکیورٹی کب دینی ہے؟
عمران خان کے وکلاء کی جانب سے علی حیدر گیلانی کے کیس کا فیصلہ عدالت میں پیش کیا گیا۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ علی حیدر گیلانی کے خلاف کیس میں جتنی دلچسپی لی گئی وہ سامنے ہے، عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کی دلچسپی دیکھی جا سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ خواجہ حارث نے 15 روز مانگے، فیصل چوہدری کے کہنے پر 1 ماہ کا وقت مانگا گیا۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر سیاسی اثر و رسوخ نظر نہیں آنا چاہیئے، جب ضرورت ہوئی عمران خان عدالت کے سامنے پیش ہوں گے۔
وکیل خواجہ حارث نے کیس کی جلد سماعت مقرر کرنے کی درخواست کی مخالفت کر دی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے جوابی دلائل میں کہا کہ عمران خان اور علی حیدر گیلانی کے کیسز مختلف نوعیت کے ہیں، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے پاس پرائیویٹ کمپلینٹ دائر کرنے کا اختیار ہے، رشوت دینا اور گوشواروں میں اثاثے ظاہر نہ کرنا مختلف کیسز ہیں۔
وکیل امجد پرویز نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کرنے کا الزام لگانا غلط ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کرپٹ پریکٹسز پر 3 ماہ میں ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے، سپریم کورٹ نے کہا کہ ایک بار شکائت دائر ہو تو 3 ماہ کے اندر فیصلہ کیا جائے، الیکشن کمیشن کی درخواست میرٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر دائر کی گئی، مجھے سپریم کورٹ نے کرپٹ پریکٹسز پر درخواست دائر کرنے کا حق دیا ہے۔
دوران سماعت وکیل خواجہ حارث نے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کردی اور دلائل میں کہا کہ عمران خان کے خلاف 100 سے زائد کیس درج ہو چکے ہیں ۔ عمران خان کو حفاظتی ضمانت لے کر عدالتوں میں پیش ہونا پڑ رہا ہے۔
عدالت نے کہا کہ حاضری سے ستثنا کی درخواست کی ضرورت نہیں، مقصد یہ تھا کہ عمران خان یا وکیل عدالت میں پیش ہوں ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ علی حیدر گیلانی کیس میں ڈیڑھ ماہ کی تاریخ پڑ گئی تو کچھ نہیں ہوا ۔ عمران خان کیس میں ایک ماہ کی تاریخ ہوئی تو ان کو تکلیف ہو گئی ہے ۔ ابھی تو کیس کے قابل سماعت ہونے پر بھی بات ہونا ہے ۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ تین چار ماہ سے الیکشن کمیشن کے کیس کو جھوٹا کہہ رہے، سچے ہیں تو عدالت آئیں۔ عمران خان کی بریت کی کوئی درخواست اب تک نہیں آئی۔
بعدازاں عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد توشہ خانہ کیس کی جلد سماعت پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور کہا کہ فیصلہ 10 منٹ میں سنایا جائے گا۔
عدالت نے مقررہ وقت پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے جلد سماعت مقرر کرنے کی درخواست خارج کر دی۔
واضح رہے کہ توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کی سماعت 29 اپریل کو مقرر ہے اور الیکشن کمیشن نے کیس کی جلد سماعت کی درخواست دائر کی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لئے آج پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرے گی۔
اس سے قبل یہ درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی تاہم گزشتہ روز رجسٹرار سپریم کورٹ نے کچھ اعتراضات کے ساتھ درخواست واپس کردی۔
جس کے بعد تحریک انصاف نے پشاور ہائی کورٹ میں الیکشن پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ممتاز قانون دان بیرسٹر گوہر کی ثالثی سے اب یہ درخواست معمولی تبدیلیوں کے بعد آج 11 بجے پشاور ہائیکورٹ میں جمع کرائی جائے گی۔
درخواست خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق احمد غنی اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی جانب سے دائر کی جائے گی۔
اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی صوبائی قیادت بھی وکلاء کے ہمراہ ہو گی۔
پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے ترجمان شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے، تاہم حکومت الیکشن سے بھاگ کر آئین کی سنگین خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم آئین کے تحفظ کے لئے ہر عدالت میں جائیں گے کیونکہ آئین کا تحفظ عدلیہ ہی کر سکتی ہے۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر سے ملک سنگین بحران کا شکار ہے، مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو 2 مقدمات میں آج پولیس لائنز میں طلب کرلیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سی ٹی ڈی سمیت 9 تھانوں میں مقدمات درج ہیں۔
عمران خان کو تھانہ رمنہ اور سی ٹی ڈی میں درج 2 مقدمات میں تفتیش کے لئے وفاقی پولیس نے عمران خان کو آج بلالیا۔
وفاقی پولیس نے طلبی کے نوٹسز عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک بھجوا دیے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو اپنے ہمراہ تمام دستاویزات لانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
نوٹس کے مطابق عدم پیشی کی صورت میں قانونی کارروائی ہوگی۔
دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے عمران خان کو دیگر 7 کیسز میں کل 12 اپریل کو طلب کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہمی کی ڈیڈلائن ختم ہوگئی، واضح حکم کے باوجود وفاقی حکومت پنجاب میں انتخابات کے لئے 21 ارب جاری نہ کرسکی۔
الیکشن کمیشن آج سپریم کورٹ میں فنڈز کی عدم فراہمی کی رپورٹ جمع کرائے گی۔
مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ نے الیکشن فنڈ کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوانے کی منظوری دے دی
حکومت نے انتخابی اخراجات کا بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بل پیش کیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے الیکشن اخراجات بل قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا، قومی اسمبلی کا اجلاس اب اگلی جمعرات کو ہوگا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی : اسحاق ڈار نے پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات اخراجات بل پیش کردیا
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ فوری الیکشن ملک کے مفاد میں نہیں، ایوان فیصلہ کرے، رقم الیکشن کمیشن کو فراہم کی جائے یا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آناً فاناً منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش بچھا دی گئی جس کے تحت کامیاب حکومت کی معاشی پالیسیوں کو نقصان پہنچایا گیا، غیرملکی دورے پر بھی شکوک و شبہات پھیلائے گئے۔
مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے فنڈز کی فراہمی پر کشمکش کا شکار
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹرز کی تجاویز جمعرات تک طلب کرلی اور کہا کہ منی بل پر کمیٹی رپورٹ جمعہ تک ایوان میں جمع کرائی جائے۔
اس سے پہلے وفاقی کابینہ نے فنڈز کی منظوری کے بجائے معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی۔
واضح رہے کہ 4 اپریل کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔