Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ ن نواز شریف نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال پر پی ٹی آئی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا الزام عائد کردیا۔
اپنی ایک ٹویٹ میں نواز شریف نے کہا کہ عدالتیں قوموں کو بحرانوں سے نکالتی ہیں نہ کہ بحرانوں میں دھکیلتی ہیں۔
انہوں نے پنجاب میں الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے تناظر میں لکھا کہ چیف جسٹس نے نہ جانے کون سا اختیار استعمال کر کے اکثریتی فیصلے پر اقلیتی رائے مسلط کردی۔
سابق وزیراعظم نے چیف جسٹس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ اپنے منصب اور آئین کی توہین کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والا چیف جسٹس مزید تباہی کرنے کے بجائے فی الفور مستعفی ہوجائے۔
دوسری جانب چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مسلم لیگ ن مریم نواز نے بھی چیف جسٹس پاکستان سے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے۔
ایک ٹویٹ میں مریم نواز نے لکھا کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے عمران کخان اور پی ٹی آئی کی حمایت کے لئے آئین و قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی، اختیارات کے ذغلط استمعال نے سپریم کورٹ میں بغاوت جیسی غیر معمولی صورتحال کو جنم دیا جب کہ نامور ججز نے چیف جسٹس کے طرز عمل اور تعصب پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔
مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ آج تک کسی چیف جسٹس پر اس قسم کے مِس کنڈکٹ کے الزامات نہیں لگے، چیف جسٹس کا پی ٹی آئی کی جانب نمایاں جھکاؤ نمایاں ہے، لہٰذا چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو استعفیٰ دینا چاہیے۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ سیکشن 57 اور 58 میں ترامیم کے مجوزہ مسودہ کی تیاری شروع کردی۔
ذرائع کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترامیم کا مجوزہ مسودہ وزارت پارلیمانی امور کے حوالے کیا جائےگا، ترامیم الیکشن کمیشن کو مزید بنانے کے لئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکشن 58 میں الیکشن شیڈول کے اجراء کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہے، سیکشن 58کے تحت الیکشن کمیشن کے کردار کو مزید واضح کیا جائے گا تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سیکشن 58 میں مجوزہ ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کا کردار مضبوط کیا جائے گا جب کہ سیکشن 57 کے تحت تاریخ دینے کا اختیار صدر مملکت کو ہے جس میں ترمیم تجویز کی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ حکومت کی جانب سے ترمیم کر کے اختیار الیکشن کمیشن کو دینے کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر توانائی اور رہنما مسلم لیگ (ن) خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ قانونی حق حاصل ہونے کے بعد الیکشن التواء کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ عمران خان کی کسی بھی بات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے 10 ماہ امریکی سازش اور آرمی چیف سے متعلق جھوٹ بولا جس سے وہ خود پیچھے ہٹ چکے ہیں۔
از خود نوٹس کیس کے حوالے سے خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن نہیں روکنا چاہتے، یہ فیصلہ آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے، چار ججز اختلافی نوٹ جاری کر چکے ہیں، ہماری ہر وقت استدعا ہے کہ چیف جسٹس فُل کورٹ بنائیں۔
چیف جسٹس سمیت تین ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا آپشن بھی موجود ہے، خرم دستگیر
انہوں نے کہا کہ کورٹ کے پاس یہ سہولت نہیں کہ وہ غلط فیصلہ کرکے کہیں ہم سے غلطی ہوگئی، البتہ جیسے ہی ہمیں قانونی حق حاصل ہوگا ہم اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے جب کہ چیف جسٹس سمیت تین ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ نے 63 اے کا انتہائی نا مناسب فیصلہ کیا جس سے 12 کروڑ سے زائد افراد کی حکومت بدل گئی جس کے بعد کورٹ نے کہا ہم سے غلطی ہوگئی، لہٰذا ہماری استدعا ہے سپریم کورٹ میں بھی اب شفافیت کی روشنی پہنچنی چاہئے۔
جس دن فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس دائر ہوا، اس وقت سے آج تک سپریم کورٹ میں دراڑ ہے، خرم دستگیر
خرم دستگیر کا مزید کہنا تھا کہ جس دن عمران خان نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا اس وقت سے سپریم کورٹ میں دراڑ ہے لیکن کورٹ کے ریکارڑ پر سوالات ہیں جسے درست کرنے کے لئے چیف جسٹس تمام ججز سے مشاورت کریں۔
اس موقع پر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے متعلق پی ٹی آئی رہنما اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ آج کا اجلاس کافی اہمیت کا حامل تھا، توقع یہ کی جا رہی تھی کہ اداروں کے سربراہاں حکومت کو سمجھائیں گے کہ معاملات آئین و قانون کے مطابق حل ہونا چاہئے۔
پنجاب الیکشن سے متعلق عمران اسماعیل نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم نہیں کر سکتی، البتہ عمران خان اور پارٹی کا خیال ہے کہ قانونی کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے آرمی چیف اپنا کردار ضرور ادا کریں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، سابق گورنر سندھ
جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹس کے حوالے سے سابق گورنر سندھ نے کہا کہ یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں، جسٹس اطہر کی اپنی رائے ہے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
الیکشن قریب آتے ہی ایم کیو ایم کشتی سے چھلانگ لگا لے گی، عمران اسماعیل
ایم کیو ایم کے تحفظات پر عمران اسماعیل نے کہا کہ ایم کیو ایم کبھی ڈوبتی کشتی کے مسافر نہیں رہے، ایم کیو ایم نے لائف جیکٹ پہن لی ہے، چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں، جیسے ہی انتخابات نظر آئے تو ایم کیو ایم چھلانگ لگا دے گی۔
ایم کو ایم کے دفاتر کھولنا میرے اختیار میں نہیں تھا، عمران اسماعیل
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم فون پر آتی جاتی رہی ہے، یہ اپنا فیصلہ خود کبھی نہیں کر پائے، ان کے دفاتر کھولنا ان لوگوں کےاختیار میں تھا جن کے کہنے پر یہ چلتے ہیں، میرے اختیار میں دفاتر کھولنا نہیں تھا۔
عمران اسماعیل نے کہا ہم الیکشن آگے لیکر جانے کے لئے تیار نہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے، لہٰذا ہم پنجاب اور کے پی الیکشن کے علاوہ دیگر اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملے پر مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہیں۔
پاکستان کے کلیدی دشمن سی پیک کو کامیاب ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے، لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد
پروگرام روبرو میں سابق وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل جنرل نعیم خالد کا بلوچستان کی سکیورٹی کے حوالے سے کہنا تھا کہ صوبے میں کچھ لوگوں کی جائز شکایات ہیں، بلوچستان ایک بہت بڑا علاقہ ہے جہاں کئی منصوبے بنائے گئے لیکن ہر جگہ پانی کے ساتھ کوئی ڈویلپمنٹ وغیر نہیں پہنچی۔
بلوچستان نینشل الائنس (بی این اے) اور گلزار امام سے متعلق نعیم خالد کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے علاقے میں آپریٹ کرنا دشمنی کی انٹیلی جسن ایجنسی کے لئے آسان ہو جاتا ہے، بلوچستان پر دشمنوں کی نظر ہے، کلیدی دشمن سی پیک کو کامیاب ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ بی این اے کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے علاوہ دیگر دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات ہیں، البتہ گلزار امام زندہ پگڑا نہیں جانا لیکن ہماری آئی ایس آئی نے اسے زندہ پکڑ لیا جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے، ہوسکتا ہے اسے پہلے سے پکڑا ہو جس کا اعلان آج کیا گیا۔
اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ون آن ون ملاقات ہوئی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے قبل ہوئی جس میں نیشنل سکیورٹی امور سمیت اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس 3 گھنٹے سے زائد عرصہ جاری رہا جس میں ملکی معاشی وسیاسی صورتحال، ملکی داخلی وخارجی سلامتی کی صورتحال پرتبادل خیال کیا گیا۔
اجلاس میں آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی سمیت اعلیٰ عسکری حکام نے اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دی ج بکہ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنز سے متعلق آگاہ کیا گیا اوردہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنزکی کامیابی پراظہار اطمنان کیا گیا۔
اجلاس میں انسداد دہشت گردی آپریشنز جاری رکھنے پربھی اتفاق کیا گیا ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی برقراررکھنےکاعزم کیا اور کالعدم تنظیم کےسربراہ کی گرفتاری پراداروں کوخراج تحسین کیا گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جسٹس اطہرمن اللہ کا فیصلہ عدالتی کارروائی پرسوالیہ نشان ہے، چیف جسٹس نے ناقابل سماعت پٹیشن پر3 رکنی بینچ بنایا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے چیف جسٹس سےمستعفی ہونےکا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی ساکھ خراب ہوچکی ہے انھیں عہدہ چھوڑ دینا چاہئے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ کا پنجاب کے پی الیکشن التوا کیس سے متعلق اختلافی نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس اطہرمن اللہ کا فیصلہ بہت اہم ہے ان کا فیصلہ عدالتی کارروائی پرسوالیہ نشان ہے۔
انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے ناقابل سماعت پٹیشن پر3 رکنی بینچ بنایا، ججز کی اکثریت پٹیشن کو مسترد کرچکی تھی، اکثریتی فیصلے کو مسترد کرکے اقلیتی فیصلے کو مان لیا گیا، سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز نے کہا کہ پٹیشن قابل سماعت نہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ سے فل کورٹ کی اپیل کی، پنجاب کے پی الیکشن التوا کیس میں عدالتی فیصلے پر سپریم کورٹ میں بھی تقسیم ہے، کیسے مان لیا جائے کہ فیصلہ آئین کے مطابق اور شفاف ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ متنازع بینچ کے فیصلے کو حکومت پر مسلط کردیا گیا، آئین شکن لاڈلے کی سہولت کاری قبول نہیں، لاڈلے نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سے آئین شکنی کروائی، الیکشن کمیشن کے آئینی کردارمیں مداخلت کی گئی، الیکشن کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، عمران خان نے نہیں، اب یہ ثابت ہوچکا ہےکہ ملک میں عمران داری ہورہی ہے۔
مریم اورنگزیب نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب کے پی الیکشن التوا کیس میں 13 جماعتوں کو کیوں نہیں سنا ، 22 کروڑ عوام بھیڑ بکریاں نہیں جو انہیں کچھ نظر نہ آئے، آئین کی غلط تشریح اور اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا، سازشی ٹولے کو ملک اور ملکی مفادات سے کوئی سروکار نہیں، کسی کو بھی آئین کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت نہیں دیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کا قومی اسمبلی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف قرارداد کی منظوری پر قانونی کارروائی کا فیصلہ، ماہر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے اسپیکر کو خط لکھ دیا۔
ڈاکٹر بابر اعوان کے چیمبر سے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو خط لکھا گیا۔ خط میں“رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ“ کے تحت تفصیلات مانگی گئی۔
بابر اعوان نے خط میں لکھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق قرار داد کی مصدقہ کاپی فراہم کی جائے اور اجلاس میں موجود ارکان کے نام اور حلقوں کی تفصیلات فراہم کی جائے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کو لکھے گئے خط میں لکھا گیا کہ قرارداد سے متعلق آرڈر آف دی ڈے کی کاپی فراہم کی جائے، قرار داد پر تقریر کرنے والے ارکان کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔
لاہور ہائیکورٹ نےآٹے کی تقسیم کےدوران ہلاکتوں اور تقسیم کیے طریقہ کارکے خلاف درخواست کاتحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئےعدالت نے سبسنڈی کی مد میں بنیادی اشیائے ضروریہ کی تقسیم کی میڈیا پر تشہیر روکنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس شاہد جمیل نے عبوری تحریری فیصلہ جاری کیا، عدالت نے فیصلے میں کہاکہ تقسیم کےعمل کی کوئی خبر، میڈیا اور پریس پر جاری نہ کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ انسانی وقار کو مجروع کرنے والے تقسیم کے ہرعمل کو روکنے کا حکم دیا جاتا ہے،عوامی رقم سے مستحقین کولائنوں میں کھڑا کرکے سبسڈی کی تقسیم انسانی وقار کے منافی ہے۔تقسیم کےعمل کی تشہیر جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔
مزید کہا کہ حکومتی کارکردگی کی اس انداز سے تشہر بےایمانی اور بددیانتی ہے جبکہ عدالتی فیصلے میں قرآنی آیات کےحوالے دئیے گئے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ قرآن ذاتی حیثیت سے دی گئی خیرات کی تشہیر کےعمل سے بھی روکتا ہے، قرآن پاک اور ملکی آئین انسانی تقدس اور تکریم کے تحفظ کی ہدائت کرتا ہے، خاص طور پر ایسے مستحقین کی جو حکومتی امداد وصول کرتے ہوں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اسمبلی انتخابات کا فیصلہ سامنے آنے پر سابق صدر آصف علی زرداری بھی متحرک ہوگئے۔
سابق صدر آصف زرداری نے اہم مشاورتی اجلاس طلب کرلیا، جو آج شام چار بجے زرداری ہاوس میں ہوگا جس میں پارٹی کے سینئررہنماؤں کو طلب کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں انتخابات سے متعلق اہم مشاورت کی جائے گی۔
اجلاس میں نیربخاری، فرحت اللہ بابر، شیری رحمان، اسپیکرراجا پرویز اشرف، قمرزمان کائرہ، ساجد طوری شرکت کریں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا دورہ امریکا ملکی سیاسی صورتحال کی وجہ سے منسوخ کیا گیا ہے۔
اسحاق ڈارنے آئی ایم ایف بہاراجلاس میں شرکت کرنی تھی لیکن وزیرخزانہ نے دورہ سیاسی صورتحال کے باعث منسوخ کیا ہے جبکہ اجلاس 10اپریل کو واشنگٹن میں ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی بینک، آئی ایم ایف کے اجلاس میں پاکستانی وفد شرکت کرے گا جس میں سیکرٹری خزانہ اور اقتصادی امور شرکت کریں گے۔
ملک بھر سے مارچ کے مہینے میں لاپتہ افراد کے 141 مقدمات درج ہوئے، 59 نمٹائے گئے۔
لاپتہ افراد کمیشن نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ نمٹائے گئے کیسز میں سے 52 لاپتہ افراد کا سراغ لگایا گیا ہے۔
مزید کہا کہ مارچ میں 47 لاپتہ افراد گھروں کو واپس پہنچے، 3 کی لاشیں ملیں، دو لاپتہ افراد ملک کی مختلف جیلوں میں پائے گئے۔
رپورٹ میں بتایا کہ نمٹائے گئے سات مقدمات جبری گمشدگی کے کیسز نہیں بنتے تھے کمیشن کو لاپتہ افراد کے مجموعی طور پر 9534 مقدمات موصول ہوئے اور 31 مارچ تک لاپتہ افراد کمیشن نے 7105 مقدمات نمٹائے گئے۔
لاپتہ افراد کمیشن کے پاس اس وقت زیرالتواء مقدمات کی تعداد 2370 ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکن ظل شاہ کے قتل سمیت 10 مقدمات کی تحقیقات کے معاملے میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے آج بھی جے آئی ٹی کے روبرو پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ بھی جے آئی ٹی کے روبرو پیش نہیں ہوں گی کیونکہ انہوں نے جےآئی ٹی کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔
خیال رہے کہ ظل شاہ کے قتل سمیت 10 مقدمات کی تحقیقات کے لئے قائم جے آئی ٹی نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو آج طلبی کا نوٹس بھجوا رکھا ہے۔
وزارت خارجہ نے مختلف ممالک میں پاکستانی سفیروں کی تقرری کا فیصلہ کرلیا، مدثر ٹیپو کو ایران میں سفیر بنانے جبکہ ڈاکٹر فیصل کو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزارت خا رجہ کے مطابق ڈاکٹر بلال احمد جنیوا میں پاکستان کے مستقل مندوب ہوں گے، جبکہ شعیب سرور کو ڈنمارک، ثقلین سیدہ کو جرمنی بھیجنے کی تجویز دی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سہیل محمود کو چین میں سفیر لگانے کی تجویز سامنے آئی ہے، احسن رضا شاہ کو ملایشیا میں ہائی کمشنر لگایا جارہا ہے جبکہ امیرخرم راٹھور کو جکارتہ، خلیل ہاشمی کو ماسکوبھیجا جارہا ہے۔
جاوید عمرانی کو تیونس، مدثرچوہدری کو مراکش میں سفیر بنایا جائےگا جبکہ عائشہ علی کو جمہوریہ چیک میں سفیر، حامد اصغرخان کو اشک آباد میں سفیرمقرر کیا جارہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء علی امین گنڈا پورکے خلاف اسلام آباد میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
مقدمہ میں حکومت کے خلاف سازش اوردہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں ہیں۔
متن میں کہا گیا کہ ملزم اداروں کے خلاف مسلح جنگ کی تیاری کرنے کی ہدایت کررہے۔
لاہورہائیکورٹ نے بغاوت کے قانون 124 اے کو غیرآئینی قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئےعدالت نے قانون کوغیرآٸینی اور کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس شاہدکریم نے ابوذرسلمان نیازی کی درخواست کا 48 صفحات کا فیصلہ جاری کیا جس میں بغاوت کے قانون کوغیرآٸینی اور کالعدم قرار دیا ہے۔
فیصلہ کےمطابق بغاوت کا قانون 124 اے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم ہے، 124 اے بنیادی حقوق کے خلاف ہے اس لئےغیرقانونی قراردیا جاتا ہے۔
جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی آفس کو 3 دن میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیے دیا جبکہ کمشنر آفس سے ڈسٹرکٹ منجمنٹ کی رپورٹ 28 اپریل تک طلب کرلی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ واقعات اور عدالتی آرڈر شیٹ گم ہونے سے متعلق کیس میں عمران خان کے خلاف اسسٹنٹ کمشنر کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
ٹرائل کورٹ کی رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی گئی۔
اسٹیٹ کونسل نے بتایا کہ آئی جی آفس کی رپورٹ جمع کرانے کا وقت دیا جائے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ توہین عدالت کی بھی درخواست آئی ہوئی ہے، آئی جی آفس 3 روز میں رپورٹ دیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آئندہ کی سماعت کا لائحہ عمل بھی دیکھا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آئی جی کا مؤقف آ جائے تو پھر دیکھا جائے گا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیئے، آپ کو ٹرائل کورٹ کی رپورٹ پڑھنے کے لئے دے دیتے ہیں۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کی بھی رپورٹ منگوانے کی استدعا کی جسے عدالت نے مںظور کر لیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ رپورٹ آجائے گی تو ایک ساتھ توہین عدالت اور آئیندہ کا لائحہ عمل دیکھ لیں گے۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت28 اپریل تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو مقدمات کی تفصیلات آنے تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما مراد سعید کی گرفتاری سے روک دیا۔
سابق وفاقی وزیر مراد سعید کی مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے اور گرفتاری سے روکنے کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ آئندہ سماعت تک مراد سعید کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ کی جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ فریقین کوبلا کر پوچھ لیتے ہیں، مناسب احکامات جاری کریں گے۔
عدالت نے پولیس اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلے ہفتے تک جواب طلب کرلیا۔
مراد سعید کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کی تفتیش کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں، درخواست پر فیصلہ آنے تک مراد سعید کو گرفتار کرنے سے روکا جائے۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے استفسار کیا کہ کیا درخواست میں سیکورٹی کی استدعا کی ہے؟ اس پر مراد سعید کے وکیل نے جواب دیا کہ جی ہم نے سیکیورٹی کی استدعا بھی کی ہے۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ اس پر ہم مناسب احکامات جاری کریں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مقدمات کی تفصیلات آنے تک مراد سعید کی گرفتاری سے پولیس کو روک دیا۔
عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی
پنجاب میں پی ٹی آئی رہنماؤں پر مقدمات کی تفتیش کے معاملے پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمیں عمران خان اور دیگر رہنماؤں کو تیسری بار طلب کرلیا۔
عمران خان اور دیگر رہنماؤں کو آج 12 بجے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے، اب تک صرف اسد عمر نے جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کروایا ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت کا پرتشدد واقعات کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ
عمران خان کے علاوہ جن پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو جے آئی ٹی نے تیسری بار طلب کیا ہے، ان میں فواد چوہدری، حماد اظہر، اعجاز چوہدری، مسرت جمیشد چیمہ، فرخ حبیب، میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال اور ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔
جے آئی ٹی تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مختلف تھانوں میں درج ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور پولیس پر تشدد کے مقدمات کی تفتیش کر رہی ہے۔
جے آئی ٹی نے دو روز قبل 5 مارچ کو بھی سابق وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو طلب کیا تھا تاہم چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر رہنما پیش نہیں ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی نے ظل شاہ قتل سمیت 10 مقدمات کی تحقیقات کیلئے قائم جے آئی ٹی چیلنج کردی
جے آئی ٹی کی طرف سے پہلی دفعہ بلانے پر صرف اسد عمر نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا، ان کے علاوہ پی ٹی آئی کا کوئی رہنما پیش نہیں ہوا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت مسلم لیگ کی قانونی ٹیم اور پارٹی رہنماؤں کے اجلاس میں صدر کو بھجوائے گئے مجوزہ بل پر مشاورت کی گئی ۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم آفس اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت مسلم لیگ کی قانونی ٹیم اور پارٹی رہنماؤں کا رات گئے اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزراء وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، احمد خان، اٹارنی جنرل، لیگل ٹیم اور دیگر شامل تھے۔
اجلاس میں آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پر مشاورت جاری رہی اور آج نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
اجلاس کے دوران قومی اسمبلی کی قرارداد اور مختلف قانونی آپشنز پر بھی غور کیا گیا اور صدر کو بھجوائے گئے مجوزہ بل سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔
قومی سلامتی کمیٹی اجلاس نے قوم اور حکومت سے مل کر دہشت گردی کے خلاف ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دے دی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل کا 41واں اجلاس پی ایم ہاﺅس میں منعقد ہوا جس میں وفاقی وزراء، چئیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، سروسز چیفس اور متعلقہ اداروں کے اعلی حکام نے شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس 2 جنوری 2023 کو پشاورپولیس لائنز میں دہشت گردی کے حملے کے بعد منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے تسلسل میں ہوا۔اجلاس کے آغاز میں 7 اپریل 2012 کو سانحہ گیاری سیکٹر کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس نے جامع قومی سلامتی پر زور دیا جس میں عوام کے ریلیف کو مرکزی حیثیت قرار دیا گیا اور فورم کو بتایا گیا کہ حکومت اس ضمن میں اقدامات کر رہی ہے۔
اجلاس نے قوم کو پائیدار امن کی فراہمی کے لئے سکیورٹی فورسز کی قربانیوں اور کاوشوں کا اعتراف کیا۔ فورم نے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے تک اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اجلاس کے اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ لہر، کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جو کہ عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے، جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی ناصرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتماد سازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کیا گیا۔
واپس آنے والے اِن خطرناک دہشت گردوں اور افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود مختلف دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مدد ملنے کے نتیجے میں ملک میں امن واستحکام منتشر ہوا جو بے شمار قربانیوں اور مسلسل کاوشوں کا ثمر تھا۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس نے پوری قوم اور حکومت کے ساتھ مل کر ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی جو ایک نئے جذبے اور نئی عزم و ہمت کے ساتھ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرے گا۔
پاکستان سے ہر طرح اور ہر قسم کی دہشت گردی کے ناسُور کے خاتمے کے لئے اِس مجموعی، ہمہ جہت اور جامع آپریشن میں سیاسی، سفارتی سیکیورٹی، معاشی اور سماجی سطح پرکوششیں بھی شامل ہوں گی۔
اجلاس نے اس سلسلے میں اعلی سطح کی ایک کمیٹی تشکیل بھی دی گئی جودو ہفتوں میں اس پر عمل درآمد اور اس کی حدود و قیود سے متعلق سفارشات پیش کرے گی۔
اس کے علاوہ نیشنل سکیورٹی اجلاس میں مقتدر انٹیلیجنس ایجنسی کے کامیاب آپریشن کوبہت سراہا گیا جس میں انہوں نے انتہائی مطلوب دہشت گرد گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کیا جو دہشت گرد بلوچ نیشنل آرمی اور ’براس‘ کے بانی و رہنما اور ایک عرصے سے مختلف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔
کمیٹی نے بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی معاشرے میں تقسیم اور در پردہ اہداف کی آڑ میں ،ریاستی اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف بیرونی سپانسرڈ زہریلا پراپیگنڈا سوشل میڈیا پرپھیلانے کی کوششوں کی شدید مذمت کی اور کہاکہ اس سے قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔
اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے ملک دشمنوں کے مذموم عزائم ناکام بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کی عظیم قربانیوں اور مسلسل کاوشوں سے حاصل ہونے والے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کو یقینی بنایا جائے گا۔
دوسری جانب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا نیشنل سکیورٹی اجلاس کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’انتخابات کو التواء میں ڈالنے کی کوشش کرنے اور سیکیورٹی کو اس کے ایک جواز کے طور پر استعمال کرنے کیلئے کل قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ان کا یہ اقدام مسلح افواج کو عدلیہ ہی نہیں بلکہ براہِ راست قوم کے سامنے لاکھڑا کرے گا۔‘
ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں انہوں نے لکھا کہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ پی ڈی ایم ہر حال میں انتخابات سے فرار ہی چاہتی ہے۔
عمران خان نے لکھا کہ یہ سپریم کورٹ کے حوالے سے ایک غیرآئینی قانون لے کر آئے اور انہوں نے عدلیہ کے خلاف قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کی۔
خیال رہے کہ حکومت نے جمعرات کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی جو منظور بھی کر لی گئی۔
تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کل قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس نہایت ہی اہم ہے، آئندہ چار سے پانچ روز بہت اہم ہیں۔ دس اپریل کو حکومت نے الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے ہیں۔ حکومت ایسا نہیں کرتی تو یہ فیصلہ توہین عدالت شمار ہوگا۔
اسد عمر نے نجی ٹی وی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر تنقید کرنا آئینی حق ہے، فیصلے کو تسلیم نہ کرنا اور اس کے خلاف قرارداد لانا غیرآئینی ہے۔ ہم نےالیکشن ہی نہیں کرانے ملک کو بحران سے بھی نکالنا ہے۔ مارشل لاء کے نفاذ سے ملک کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
حالیہ مقدمے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل، سابق اٹارنی جنرل اور وفاقی کابینہ کا حصہ رہ چکے عرفان قادر کا سپریم کورٹ کے پنجاب انتخابات فیصلے کے خلاف قرارداد کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ پارلیمان کی آواز ہے، پارلیمان کا یہ احتجاج سڑکوں پر احتجاج سے بہتر ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ جس بینچ نے یہ فیصلہ دیا اس نے آئین کی توہین کی ہے، اس قانون کی توہین کی ہے جو پارلیمان نے بنایا، اس بینچ نے سپریم کورٹ کے ان ججز کی توہین کی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ چار تین سے ہوچکا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو اگر آپ میرٹ پر دیکھیں تو پہلے ایک تاریخ دی گئی جو صدر پاکستان نے دی، جبکہ صدر پاکستان تاریخ دے ہی نہیں سکتے تھے، اس کے بعد سپریم کورٹ نے احکامات جاری کردئے اور اس کے تحت صدر پاکستان نے پنجاب اسمبلی کی تاریخ دے دی، وہ بھی صدر پاکستان نہیں دے سکتے تھے۔ گورنر خیبرپختونخوا نے بھی یہ اسمبلی تحلیل نہیں کی تھی، سپریم کورٹ انہیں بھی کہہ رہا تھا کہ وہ تاریخ دیں، اور میں نے سپریم کورٹ کو بتا دیا تھا کہ ایک ہی صورت میں گورنر یا صدر تاریخ دیتے ہیں کہ اسمبلی کی تحلیل انہوں نے اپنی صوابدید پر کی ہو، صدر پاکستان بھی جب اسمبلی کی تحلیل اپنی صوابدید پر کرتے تھے تو وہ آرٹیکل 58 (2 بی) کے تحت دیا کرتے تھے، اب تو وہ آرٹیکل بھی ختم ہوگیا۔
عرفان قادر کے مطابق سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو صریحاً آئین کی بھی سمجھ نہیں آئی، قانون کی بھی سمجھ نہیں آئی، اور تمام خلاف ورزیاں کرکے انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو کہ کالعدم ہے۔ ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، اور سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے ہیں کہ ایسے فیصلوں کو نظر انداز کردینا چاہئیے۔
دورانِ سماعت وکلاء کو نہ سنے جانے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت زیادتی ہے کہ تین دن تک جج صاحبان بولتے رہے، بلاوجہ بال کی کھال اتارتے رہے اور بڑے بڑے سینئیر وکلاء کو نہیں سنا۔ مجھے تو انہوں نے مہربانی فرما کر 25 منٹ یا آدھا گھنٹہ سن لیا۔ میں جب نوجوان تھا تو تین چار گھنٹے ججز سے مخاطب ہوتا تھا اور وہ میری بات بڑے آرام سے سنتے تھے، آج جبکہ میں ایک زندگی اس پیشے میں گزار چکا ہوں یہ میرے ساتھ ایسا برتاؤ کررہے تھے جیسے کہ میں ایک بھکاری ہوں اور ان سے بھیک مانگ رہا ہوں کہ مجھے سن لیں، اور جیسے کہ وہ لوگ بہت اعلیٰ منصب پر بیٹھے ہوئے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے فریڈم آف اسپیچ کی کوئی حیثیت نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق نہیں ہیں، صرف ایک سیاسی جماعت کے بنیادی حقوق ہیں اور ہم انہیں ہی دیکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب جو صدر پاکستان بھی رہ چکے ہیں ، چئیرمین سینیٹ بھی رہ چکے ہیں ، کیا تھا اگر آپ انہیں سن لیتے۔
عرفان قادر نے کہا کہ میں یہ ساری باتیں نہیں کرتا لیکن آج میں مجبور ہوگیا ہوں، کیونکہ اگر یہ باتیں نہ کی گئیں تو ساری عدلیہ اوور ریچ (حد سے تجاوز) کا شکار رہے گی اور فرد واحد سارے ادارے کی تفرید کردے گا۔
دس اپریل کو وزیراعظم اور پوری کابینہ کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آرٹیکل 248 میں صاف طور پر لکھا ہے کہ کابینہ اور وزیراعظم اپنے فرائض منصبی میں کسی بھی عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔‘ یوسف رضا گیلانی صاحب کے خلاف ایک غلط فیصلہ آیا تھا، میں اٹارنی جنرل تھا وہ فیصلہ تو میں نے بھی نہیں مانا تھا نہ گیلانی صاحب نے مانا تھا۔ گیلانی صاحب نے خود استعفا دیا تھا کیونکہ اس وقت ایک انتشار کی کیفیت پیدا کردی گئی تھی اور دنیا کو بتایا جارہا تھا کہ کوئی انسٹیٹیوشنل تصادم ہوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم بالکل گھر نہیں جائیں گے‘۔
انتخابات نہ ہوئے تو کسی نہ کسی کو تو گھر جانا پڑے گا، وہ کون ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جتنا مس کنڈکٹ چیف جسٹس کرچکے ہیں، بہتر تو یہ ہوگا کہ وہ استعفا دے دیں، اگر انہوں نے استعفا نہ دیا تو مجھے افسوس سے کہنا یہ پڑ رہا ہے کہ مجھے لگ رہا ہے پھر چیف جسٹس صاحب کو غالباً گھر جانا پڑے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 184(3) کے قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جو سپریم کورٹ کو کمزور کرے، اس قانون سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک فرد واحد کے بجائے سپریم کورٹ کو مضبوط کر رہے ہیں، یہ سپریم کورٹ میں فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ کا قلع قمع کرنے کیلئے ہے ، اس لئے اسے کالعدم قرار نہیں دیا جاسکے گا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد سے محاز آرائی مزید بڑھے گی، آج منظور ہونے والی قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
شفقت محمود نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننا آئین میں لکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 97ء میں جو کچھ ہوا اس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔ 1997 جیسی صورتحال ہوئی تو بہت افسوسناک ہوگا۔ 97 واقعہ ایک بدنما داغ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں فل کورٹ یا کسی بینچ سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ آئین کا آرٹیکل 224 بہت زیادہ واضح ہے، کوئی بھی آرٹیکل کے خلاف جانے کا تصور نہیں کرسکتا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم صرف رائے دے سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروانا تمام اداروں کا فرض ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا آئین اجازت دیتا ہے کہ الگ الگ الیکشن ہوں، تین اسمبلیاں مدت پوری کرنے جارہی ہیں، اس کے بعد اگر عمل ڈی ریل ہو تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوگی جو تصادم کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پنجاب میں الیکشن کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کردیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں لائرزکمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے پنجاب میں الیکشن کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت فیصلہ پر نظرثانی کرکے فل کورٹ بنائے، غلطی سے رجوع کرنا بڑے پن کا ثبوت ہوتا ہے، ملک کے بہترین مفاد میں فیصلہ کرنے کا وقت ہے۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ججز کا احترام کرنا چاہئے لیکن وہ قانون کسی کے لیے بنائیں تو خود اپنے اوپر بھی لاگو کریں، 9 رکنی بینچ آخر میں 3 رکنی رہ گیا، اگر فل کورٹ کا مطالبہ تسلیم کرلیا جاتا تو پاکستان میں کوئی اس کی مخالفت نہیں کرتا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کوئی سیاسی جماعت الیکشن سے بھاگ نہیں سکتی، اسٹیک ہولڈرز کے لیے فیصلہ کرنے کا وقت آگیا، 63 اے کے قانون کو ری رائیٹ کیا گیا۔ کالے کوٹ والے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد آج تک اپنے کردار سے فلاح کی جنگ لڑی ہے۔