Aaj News

اتوار, مارچ 23, 2025  
22 Ramadan 1446  

وزیر داخلہ سندھ نے کراچی کے اسٹریٹ کرائم میں 60 فیصد کمی کا دعویٰ کر دیا

ڈکیتی کے دوران مزاحمت قتل کے واقعات میں بھی 50 فیصد کمی آئی ہے، ضیا الحسن لنجار
شائع دن پہلے

وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں 60 فیصد کمی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت داخلہ امن و امان کیلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانا اس وزارت کی اولین ذمہ داری ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ نے سندھ اسمبلی میں کہا کہ پہلے روزانہ 3 سے زائد افراد اسٹریٹ کرائم کا شکار ہوتے تھے، لیکن اب یہ تعداد کم ہو کر روزانہ ایک فرد رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈکیتی کے دوران مزاحمت قتل کے واقعات میں بھی 50 فیصد کمی آئی ہے، لیکن ان کا مقصد مکمل طور پر ایسے واقعات کا خاتمہ ہے۔

ضیا الحسن لنجار کے مطابق، پہلے چھینی گئی موٹر سائیکلیں اور کاریں کباڑیوں کے پاس پہنچ جاتی تھیں، لیکن حکومت نے کارروائی کرتے ہوئے 300 کباڑیوں کو گرفتار کیا ہے۔ کراچی کے تاجروں نے اس مہم میں حکومت کا ساتھ دیا۔

انہوں نے کراچی میں اسلحہ کے پھیلاؤ کو بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کا گارڈز کے ساتھ سفر کرنا ایک مسئلہ ہے، جسے ختم کرنے میں وقت لگے گا۔ تاہم، حکومت اسلحہ کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ برس مارچ میں وزارت داخلہ کا عہدہ سنبھالا اور تب سے کئی چیلنجز کا سامنا کیا۔

سندھ بھر میں 1149 ترقیاتی اسکیمیں جاری ہیں، سعید غنی

صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے بجٹ کے حوالے سے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اس وقت سندھ بھر میں 1149 ترقیاتی اسکیمیں جاری ہیں، جن کی مجموعی لاگت 436 ارب روپے ہے۔ ان میں سے 333 ارب روپے کی اسکیمیں کراچی کے لیے مختص کی گئی ہیں، جبکہ 102 ارب روپے کی لاگت سے جاری منصوبے رواں سال مکمل کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں جاری اہم منصوبے 175 سے زائد اسکیمیں اس سال مکمل ہونے کی توقع ہے۔ کراچی میٹرو پولیٹن کی 262 اسکیمیں جبکہ ایل ڈی اے کی 54 اسکیمیں جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میگا پراجیکٹس کے تحت 10.7 ارب روپے کے منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ سویپ منصوبے کے تحت چار گاربیج سینٹر اس سال مکمل کیے جائیں گے۔ گلشن اقبال میں نئی پانی کی لائن اور کلفٹن میں نیا پمپنگ اسٹیشن قائم کیا گیا ہے۔ ملیر ہالٹ سے ماڈل کالونی تک 12 انچ کی پانی کی لائن بچھائی جا رہی ہے۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ شہر میں پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ ہے، کراچی کو 40 سے 50 فیصد کم پانی ملتا ہے۔ کےفور منصوبہ واپڈا کو دیا گیا ہے، لیکن یہ دسمبر 2025 تک مکمل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت کا مستقل حل صرف کےفور منصوبے کی تکمیل سے ممکن ہوگا۔ حب ڈیم سے پانی کا مکمل کوٹا استعمال نہیں کیا جا سکتا اور حب کینال کی حالت خراب ہے۔ حب سے نیا کینال تعمیر کیا جا رہا ہے، جس پر تیزی سے کام جاری ہے۔

وزیر بلدیات نے کہا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر کے منصوبے جاری ہیں، کورنگی کازوے کا منصوبہ اس سال مکمل ہوگا۔ جام صادق پل آئندہ تین ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ شاہراہ بھٹو، کورنگی روڈ اور جام صادق پل پر نیا انٹرچینج بنانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ پرانا جام صادق پل گرا کر نیا پل بنایا جائے گا۔ شاہراہ بھٹو کا پہلا مرحلہ دسمبر تک اور دوسرا مرحلہ قائد آباد تک اپریل میں مکمل ہوگا۔

سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے، اور نئے مالی سال میں کراچی کے لیے مزید منصوبے رکھے جائیں گے۔

انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ سندھ حکومت کراچی سے مخلص نہیں، کہا مسائل دیگر شہروں میں بھی موجود ہیں، لیکن کراچی کو نظر انداز کرنے کا تاثر دوریوں کو جنم دیتا ہے، جنہیں ختم کرنا ضروری ہے۔

سندھ میں 1656 کلسٹر اسکول قائم کیے جا رہے ہیں، وزیر تعلیم سردار شاہ

وزیر تعلیم سردار شاہ نے کہا ہے کہ جس کے تحت ڈسٹرکٹ کلسٹر بورڈ اور صوبائی کلسٹر بورڈ تشکیل دیے جائیں گے۔ اس منصوبے سے دیگر انتظامی عہدے ختم کر دیے جائیں گے اور مانیٹرنگ کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں 41 ہزار اسکولوں کو بہتر کرنے کا منصوبہ جاری ہے، جو اس سال یا آئندہ سال تک مکمل ہوگا۔ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے دو سال تک اس منصوبے کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اساتذہ کا کردار سب سے اہم ہے، اس لیے 15300 نئے اساتذہ بھرتی کیے گئے ہیں اور مزید آسامیاں بھیجی گئی ہیں۔ اسکول سے باہر بچوں کا مسئلہ پورے پاکستان میں موجود ہے، لیکن ہم اپنے ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں اور قومی سطح پر دیے گئے 26 ملین کے اعداد و شمار سے اتفاق نہیں کرتے۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ اپریل سے 500 نان فارمل اسکول سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، جہاں ٹیکنیکل ایجوکیشن دی جائے گی۔ 12 سال سے اوپر کے بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف منتقل کیا جائے گا۔ 5 ہزار اسکولوں کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیمی معیار بلند ہو سکے۔

سردار شاہ نے کہا کہ پوری دنیا میں نصاب تیزی سے بدل رہا ہے، اس لیے سندھ میں بھی نصابی اصلاحات جاری ہیں۔ ماضی میں نصابی کتب ہر تین سال بعد بدلی جاتی تھیں، مگر اب دنیا ہر سال نصاب تبدیل کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پچھلے دو سال میں نصاب میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں اور چاہتے ہیں کہ تعلیم کو حقیقت پر مبنی بنایا جائے، جھوٹ سے دور رکھا جائے۔ 50 فیصد پرانی کتابیں برقرار رکھی جائیں گی، جبکہ نئی کتب جدید رجحانات کے مطابق شامل کی جائیں گی۔

سردار شاہ ٹیکسٹ بک بورڈ کا کام صرف کتابوں کی پرنٹنگ تک محدود رکھا جائے گا تاکہ نصاب کی تیاری اور تحقیق پر توجہ دی جا سکے۔ سائنس کی تعلیم کو مزید بہتر بنانے کے لیے حکومت مکمل طور پر پرعزم ہے۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ یہ تمام اصلاحات سندھ میں تعلیمی بہتری کے لیے کی جا رہی ہیں اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

سردار شاہ کا مزید کہنا تھا کہ تعلیم ہر گھر کے لیے ضروری ہے، اسی لیے بجٹ کو ڈی سینٹرلائز کیا جا رہا ہے۔ اب تمام اسکولوں کے فنڈز براہ راست ہیڈ ماسٹرز کو دیئے جائیں گے۔

سندھ اسمبلی اجلاس: پری بجٹ بحث کا آخری دن، بجٹ تجاویز پیش

سندھ اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر انتھونی نوید کی زیرصدارت ہوا، جہاں پری بجٹ بحث کے آخری دن وزیراعلیٰ سندھ اور اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی بجٹ تجاویز پیش کیں۔

اجلاس میں مختلف جماعتوں کے اراکین نے سندھ کے ترقیاتی منصوبوں، پانی کی قلت، تعلیمی اصلاحات اور دیگر اہم مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

پیپلز پارٹی کی رکن ماروی فصیح راشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھو دریا کا پانی پینے والا سندھ سے غداری کا نہیں سوچ سکتا۔ کالا باغ ڈیم کے خلاف سندھ اسمبلی نے کئی قراردادیں منظور کیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی کچھ پالیسیوں سے سندھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ 6 کینالوں کا مسئلہ کالا باغ ڈیم سے زیادہ خطرناک ہے۔ سندھ کو بنجر بنانے کی سازش کی جا رہی ہے، جو عوام اور معیشت کے خلاف ہے۔ سندھ کی نسلوں اور فصلوں کی تباہی قبول نہیں کریں گے۔

ایم کیو ایم کے رکن نجم مرزا نے سندھ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کورنگی کو ٹراما سینٹر کی ضرورت ہے، جو کورنگی اور ملیر کے عوام کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی حیدرآباد موٹر وے بندرگاہ سے شروع ہونی چاہیے تاکہ ہیوی ٹریفک شہر میں داخل نہ ہو۔ کورنگی کی 112 ترقیاتی اسکیموں میں سے 32 ابھی تک منظور نہیں ہوئیں۔ اگر فنڈز جاری نہ ہوئے تو ترقیاتی منصوبے ضائع ہو جائیں گے۔

پی ٹی آئی کے رکن محمد شبیر قریشی نے کہا کہ میرا حلقہ سب سے زیادہ آمدنی دینے والا ہے، مگر سہولیات سے محروم ہے۔ مساجد میں گٹر کا پانی داخل ہو رہا ہے اور بارش میں پورا علاقہ بند ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ منصوبوں کے ٹھیکے ایسی کمپنیوں کو دیے جا رہے ہیں جو ”راتوں رات“ سڑکیں بنا کر خراب کر دیتی ہیں۔ منشیات دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے، حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

ایم کیو ایم کے افتخار عالم کا کہنا تھا کہ ترقیاتی اسکیمیں برسوں مکمل نہیں ہوتیں، جس سے لاگت بڑھ جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کی اسکیموں پر 33 فیصد فنڈز جاری کیے گئے، مگر میئر ان پر اپنی تختی لگا رہے ہیں۔

افتخار عالم نے کہا کہ سندھ میں دیہی اور شہری علاقوں کا فرق احساس محرومی پیدا کرتا ہے، جسے ختم کیا جانا چاہیے۔ اگر بلاول بھٹو وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو سندھ کی ترقی کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

واضح رہے کہ سندھ اسمبلی میں پری بجٹ بحث کا آج آخری دن ہے، اور تمام جماعتوں کے نمائندے اپنے اپنے حلقوں کے مسائل کو اجاگر کیا، جبکہ وزیراعلیٰ سندھ آج بجٹ تجاویز پیش کریں گے۔

Sindh government

Sindh Assembly

sindh