دوسروں کو چور چور کہتے مسک کی کمپنی نے ٹرمپ سے بڑا کنٹریکٹ لے لیا
امریکی محکمہ خارجہ نے ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا کے لیے 400 ملین ڈالر کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے، حالانکہ جس ”آرمڈ ٹیسلا“ گاڑی کے لیے یہ معاہدہ کیا جا رہا ہے، وہ فی الحال موجود ہی نہیں۔ یہ ترمیم 13 دسمبر کو کی گئی تھی، جس کے بعد یہ معاملہ مزید توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایلون مسک کی ایک اور کمپنی اسپیس ایکس کو پیر کے روز 38.8 ملین ڈالر کا نیا سرکاری کنٹریکٹ ملا، جس پر کئی حلقوں میں ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے پر 10 فروری کو دستخط ہوئے اور اسے ناسا نے منظور کیا، جو ایک آزاد ایجنسی کے طور پر کام کرتی ہے۔
ایلون مسک، جو خود کو شفافیت کا داعی کہتے ہیں، اب اس تنقید کی زد میں ہیں کہ ان کی کمپنیوں کو ایسے وقت میں بڑے سرکاری معاہدے دیے جا رہے ہیں جب حکومت مختلف اداروں کے بجٹ میں سخت کٹوتیاں کر رہی ہے۔
اسرائیل غزہ کا الحاق کرے گا، اسے خریدیں نہیں امریکی انتظامیہ کے ماتحت لیں گے، ٹرمپ
مسک نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران سرکاری کنٹریکٹس اور مفادات کے ٹکراؤ کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنیاں سرکاری کنٹریکٹس کے لیے بہترین بولی لگاتی ہیں اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایلون مسک کی نگرانی میں ”ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی“ (DOGE) مختلف سرکاری اداروں میں اخراجات کم کرنے کے اقدامات کر رہا ہے۔ حال ہی میں، ٹرمپ انتظامیہ نے یو ایس ایڈ کو بند کر دیا، جبکہ محکمہ تعلیم میں 900 ملین ڈالر کے معاہدے ختم کیے گئے۔ اسی طرح، نیویارک میں غیر قانونی تارکین وطن کے لیے عیش و آرام کے ہوٹلوں میں 59 ملین ڈالر خرچ کرنے پر فیما (FEMA) کے چار اعلیٰ مالیاتی افسران کو برطرف کر دیا گیا۔
مسک کے اقدامات پر شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سرکاری ادارے شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں اور متعدد منصوبے منسوخ کیے جا رہے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے نشاندہی کی کہ میڈیکیڈ اور محکمہ تعلیم کو بھی ممکنہ طور پر بجٹ میں کمی کا سامنا ہے، جبکہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی کینسر فنڈنگ بھی منجمد کر دی گئی ہے۔
سالہ امریکی قانون ساز تقریر کے دوران ایوان میں جم گئے
اسی دوران، جب متعدد اداروں میں سخت مالیاتی کٹوتیاں کی جا رہی ہیں، مسک کی اسپیس ایکس کو 38.8 ملین ڈالر کا نیا سرکاری معاہدہ مل گیا، جس پر کئی حلقے سوالات اٹھا رہے ہیں کہ آیا یہ واقعی شفافیت پر مبنی فیصلہ تھا یا کسی خاص فائدے کے تحت کیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.