’پیکا ایکٹ‘ پیش کرنے سے قبل صحافیوں سے مشاورت کرنا چاہیے تھی، خلیل طاہر سندھو
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ ’پیکا ایکٹ‘ پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل صحافیوں اور میڈیا اداروں سے مشاورت کرنا چاہیے تھی، ایکٹ کے حوالے سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سے بات کریں گے، جعلی خبروں سے متعلق قانون پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کریں گے۔
آج نیوز کے پروگرام ’اسپاٹ لائٹ‘ میں میزبان منیزے جہانگیر کے ساتھ پیکا ایکٹ کے بارے میں بات چیت کے لئے پی پی رہنما و رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی اور پی ٹی آئی کے ایم این اے شیر علی ارباب بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شو میں موجود تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ منظورکرایا گیا، متنازع بل صرف ایک دن پہلے ضمنی ایجنڈے کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ بل کو تیزی سے منظور کرانے کے لیے قواعد وضوابط کو معطل کر دیا گیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے بل پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ ’پیکا ایکٹ‘ آزادی اظہار پر پابندی کے لیے لایا گیا ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ قانون سازی آئینی حقوق کی وکالت کرنے والوں کو خاموش کرنے کے لیے فریم ورک قائم کر سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر سندھو کا کہنا تھا کہ ’پیکا ایکٹ‘ کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل صحافیوں اور میڈیا اداروں سے مکمل مشاورت ضروری تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایوان سے منظور ہونے پر بل کو بالآخر عدالت میں چیلنج کرنا ہوگا۔ ”ہم جانتے ہیں کہ اسے معاملے کوعدالت میں ہی لے جانا ہے۔“
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی رہنما شرمیلا نے کہا کہ شاید اس بل کو ”پانی“ لگا دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جعلی خبر کے ایک ٹکڑے کی اصل سزا 10 سال بتائی گئی تھی اور ان کی پارٹی کے اصرار پر اسے تین سال کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بل پر شامل کرے۔ ”ہمیں بتایا گیا کہ ہم نے اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا ہے۔“ اگر یہ قانون نافذ بھی ہو جائے تو اس پر سو فیصد عملدرآمد کیسے ہو گا؟ یہ بات واضح نہیں ہے۔
شرمیلا فاروقی نے انکشاف کیا کہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں پیش نہیں کیا گیا۔ ہماری پارٹی چاہتی ہے کہ معاملے پر صحافیوں کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے اور بلاول بھٹو اس بات پرمتفق ہیں کہ بل پر مکمل اتفاق رائے ہونا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیر علی ارباب نے کہاکہ حکمراں جن سے “ 26ویں آئینی ترمیم کے دوران جن سے ہدایات لے رہے تھے، انہی سے ہی پیکا ایکٹ پر بھی ہدایات لے رہے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ہماری پارٹی نے بل کی مخالفت کی اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا، 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے چیئرمین کا کردار پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ پی ٹی آئی متنازع بل کے خلاف پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھرپور آواز اٹھائے گی، اس طرح کے بل کے پاکستان پر منفی اثرات ہوں گے۔
شیر علی ارباب نے کہا کہ فیصل سلیم ہماری پارٹی کا حصہ ہیں، ہم نے اسے شوکاز نوٹس دیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں، یہ کوتاہی ہے، ہمیں سینیٹ میں اعتراض کرنا چاہیے تھا۔ ہم نے ایسا نہیں کیا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ ہماری غلطی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، تاہم یہ کہنا غلط ہے کہ متنازع بل کو پی ٹی آئی کی رضامندی سے منظور کیا گیا۔
Comments are closed on this story.