اپوزیشن کا دباؤ ہرگز برداشت نہ کیا جائے، نواز شریف کی شہباز شریف کو ہدایت
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور تحریری مطالبات پر غور کیا گیا، ن لیگ کے صدر نوازشریف نے وزیراعظم شہباز شریف کو دباؤ میں نہ آنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا دباؤ ہرگز برداشت نہ کیا جائے، صرف جائز مطالبات ہی پورے کیے جائیں۔
پارٹی ذرائع کے مطابق لاہور میں قیام کے دوران جاتی امرا رائیونڈ میں وزیراعظم شہباز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کے درمیان ہونیوالی اہم ملاقات ختم ہوگئی، جس میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی شریک تھیں۔
حکمران جماعت کے ذرائع نے بتایا کہ تینوں رہنماؤں نے ملکی سیاسی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور ملاقات میں پی ٹی آئی سے ہونے والے سیاسی مذاکرات بھی زیرغور آئے۔
اس کے علاوہ ملاقات میں مذاکراتی کمیٹیوں کی ملاقات کے دوران پیش کیے جانے والے تحریک انصاف کے تحریری مطالبات کے جواب پر بھی غور کیا گیا۔
پی ٹی آئی کور کمیٹی اجلاس کی اندرونی کہانی، سزا پر احتجاج نہ ہونے پر اظہار برہمی
ذرائع کے مطابق نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان اپوزیشن سے مذاکرات پر تفصیلی تبادلہ ہوا، ملاقات میں اپوزیشن سے مذاکرات پر اتحادیوں کو اعتماد میں لینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
نوازشریف نے وزیراعظم کو دباؤ میں نہ آنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اپوزیشن کے دباؤ کو ہرگز برداشت نہ کیا جائے، صرف جائز مطالبات ہی پورے کیے جائیں۔
پارٹی ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے تحفظات بارے بھی نواز شریف سے مشاورت کی جبکہ پیپلز پارٹی کے پنجاب میں تحفظات دور کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات 2 گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی اور اس کے بعد وزیراعظم واپس ماڈل ٹاؤن روانہ ہوگئے۔
واضح رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹوں کے درمیان اب تک 3 ملاقاتیں ہوچکی ہیں، پہلی ملاقات 23 دسمبر 2023 کو ہوئی تھی جب کہ دوسری ملاقات 2 جنوری کو اور 16 جنوری کو ہونے والی تیسری ملاقات میں پی ٹی آئی نے 7 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا تاہم وہ انتخابی دھاندلی کی عدالتی تحقیقات کے دیرینہ مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی۔
پی ٹی آئی نے چارٹر آف ڈیمانڈ میں 2 کمشین آف انکوائری بنانے کا مطالبہ کیا ہے، چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی زیر سربراہی یا 3 سنیئرججز پر مشتمل کمیشن بنایا جائے جس کے لیے ججز کا انتخاب حکومت اور پی ٹی آئی ملکر کریں گی۔
حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کمیشن کا اعلان 7 دن میں کیا جائے اور کمشین کی کارروائی کو اوپن رکھا جائے۔
چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا گیا ہے کہ پہلا کمیشن 9 مئی کے واقعات کے تحقیقات کرے جبکہ بانی کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کی بھی تحقیقات کی جائیں اور گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پیش آنے والے واقعات کی ویڈیوز کا جائزہ لیا جائے۔
پی ٹی آئی کے اندر مذاکرات کے حوالے سے اختلاف ہیں، مولانا فضل الرحمان
تحریک انصاف نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام گرفتاریوں کا قانونی حیثیت اور انسانی حقوق کے حوالے سے جائزہ لیا جائے جبکہ ایک ہی فرد کے خلاف متعدد ایف آئی آرز کے اندراج کا جائزہ لیا جائے۔
چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا گیا ہے کہ سنسر شپ، رپورٹنگ پر پابندیوں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کی تحقیقات کی جائے، کمشین انٹرنیٹ کی بندش اور اس ہونے والے نقصانات کے ذمہ داران کا بھی تعین کرے۔
Comments are closed on this story.