ملک میں کوئی بھی بندہ ٹیکس نہیں دینا چاہتا، وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ایوان بالا کی کمیٹی کو بتایا ہے کہ ملک میں کوئی بھی بندہ ٹیکس نہیں دینا چاہتا، معاشی شرح نمو بڑھانے کے لیے ٹیکس نظام میں موجود خامیاں دور نہ ہوئیں تو نتیجہ صفر ہوگا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈی والا کی زیر صدارت ہوا، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک سمیت چیئرمین ایف بی آر و دیگر حکام نے شرکت کی۔
اجلاس میں کمیٹی کو ٹیکس ترمیمی بل پر بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہ بل کا مقصد دراصل ٹیکس کمپلائنس کو بہتر بنانا ہے۔
رکن کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے استفسار کیا کہ کیا یہ بل ترمیمی بل ہے یا منی بل ہے؟ جس پر وزیر خزانہ نے کہا کہ اس معاملے پر سیکرٹری قانون وضاحت دے سکتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم اس وقت کم ٹیکس وصولیوں کے مسائل کا شکار ہیں، معاملے کو بھی دیکھنا چاہیے کہ لوگ ٹیکس کیوں نہیں دینا چاہتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکسوں کو ریشنلائز کرنا ہے وہ اسی صورت ہوسکتا ہے جب ٹیکس نیٹ بڑھے، ایسے افراد اور اداروں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے جو یا تو ٹیکس نہیں دیتے ہیں یا پھر کم ٹیکس دیتے ہیں، تنخواہ دار اور پہلے سے ٹیکس کے بوجھ تلے طبقے پر مزید ٹیکس نہیں لگائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین ایف بی آر لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ ٹیکس گزاروں کا پسہ کہاں استعمال کیا جاتا ہے، ٹیکس گزاروں کا ٹیکس اتھارٹی پر اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ٹیکس کے شعبے میں اصلاحات لا رہے ہیں، جس کا مقصد سسٹم میں کرپشن کا عنصر کم یا ختم کیا جائے ، یہ بات درست ہے کہ لوگ ٹیکس دے رہے تو بدلے انہیں کیا مل رہا ہے؟
سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت کا سائز بھی کم کرنے جا رہے ہیں، اس حوالے سے کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال پالیسی یونٹ کو ایف بی آر سے نکال دیں گے، کوشش کر رہے ادارہ صرف ٹیکس وصولی پر توجہ دے، 6 ماہ میں پالیسی ڈیپارٹمنٹ ایف بی آر سے نکال دیں گے۔
اس موقع پر وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ اس بل میں جو بھی اقدامات لئے جارہے ہیں، وہ ٹیکس قوانین کو ریگولیٹ کرنے کیلئے لائے جارہے ہیں۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ مجھے جو سمجھ آیا ہے کہ اس بل کے ذریعے کوئی ٹیکس نہیں لگایا جارہا، بل ٹیکس ریونیو بڑھانے کیلئے ریگولیشن بہتر بنانے سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے، یہاں لوگ سوال ہی یہ اٹھاتے ہیں کہ ان سے لئے گئے پیسے انکی بھلائی کیلئے استعمال نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ انکا پیسہ ان پر خرچ نہیں ہوتا، عوام کے ان تحفظات کو دور کرنا چاہیے، لوگوں میں آگاہی پیدا کی جائے۔
پی ٹی آئی رہنما نے وفاقی وزیر خزانہ سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ پارلیمنٹرین کی تنخواہیں کتنی کم ہیں؟ آپ نجی شعبہ سے آئے، آپ کو معلوم ہوگا وہاں کیا تنخواہیں ہیں؟
انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ پارلیمنٹرین کی تنخواہیں بڑھائیں مگرعوام میں تاثر ہے کہ پارلیمنٹرین عیاشیاں کررہے اور بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی ججز کی بھی تنخواہیں بڑھائی ہیں جب تک عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے کم نہیں ہونگے، جتنے مرضی قانون بنالیں وہ زیادہ سود مند نہیں ہونگے۔
اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کمیٹی کو ترمیمی بل پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کافی لوگ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں، لوگ ڈر کی وجہ سے ٹیکس سسٹم میں نہیں آتے ہیں۔
رکن کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ٹیکس بڑھانے کے لئے جتنی بھی اسکیمیں شروع کیں، وہ ناکام ہوئی ہیں، ہم اس وقت 30 لاکھ کاروباری افراد کی بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اس بل کے حوالے سے کیا 50 فیصد لوگ ان بورڈ ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کل پھر ہم اس معاملے پر بات کر رہے ہوں گے ۔
انہوں نے کہاکہ کیا اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ حکومت نے بات چیت کی ہے؟ اس قانون سے 50، 60 لاکھ افراد متاثر ہونگے، اگر یہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آجائیں تو پاکستان کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے معاملے پر لوگوں سے بات کرلی ہے تو اس قانون کی منظوری دینے کو تیار ہیں، جس پر وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم ٹیکس نہیں بڑھاتے تو اگلے سال کے بجٹ میں پھر کیا کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ اگر نئے لوگوں کو نہیں لائیں گے تو کیا پرانے لوگوں پر ہی ٹیکس بڑھاتے رہیں گے؟ ہم نے ان لوگوں سے ٹیکس لینا ہے جو یا تو ٹیکس دے نہیں رہے یا کم دے رہے ہیں۔
اس موقع پر وزیر مملکت علی پرویز ملک نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ ٹیکس عوام سے لے لو، مگر حکومت کو جمع نہ کرائو، ہم اس قانون کے ذریعے کملائنس کو بہتر کرنے جا رہے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہم کمیٹی کے پاس نئے ٹیکس لگانے پر بات کرنے نہیں آئے ہیں، اگلے 4 ، 5 سالوں میں ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب تقریبا 13 فیصد تک بڑھ سکتا ہے، جو کہ سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی سے ہونے والی آمدنی میں اضافے کے باعث ہے۔
بعد ازاں کمیٹی نے بل کی سیلز ٹیکس شقوں پر غورکیا، انکم ٹیکس، آئی سی ٹی (سروسز پر ٹیکس) اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پر بحث اگلے اجلاس تک موخرکر دی گئی۔