عدالت حکومت کو کلائمیٹ چینج سے متعلق کام کا حکم دے سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی آئینی عدالتیں انوائرمنٹ کے معاملہ کو دیکھ رہی ہے، ہم نے کلائمٹ چینج اتھارٹی کو ٹیک اپ کیا ہے، عدالت حکومت کو کلائمیٹ چینج کے اوپر کام کرنے پر کہہ سکتی ہے، عدالتیں کوشش کریں گی کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ افراد کی بات سنی جائے، فضائی آلودگی پاکستان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، کلائمیٹ کورٹ قائم ہونی چاہیئے۔
اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس 2024 کے اگلے مرحلے کے حوالے سے فرانسیسی سفارت خانے اور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کی شراکت داری سے مباحثے کا اہتمام کیا گیا جس میں آذربائیجان کے باکو میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے نتائج اور حکمت عملی کا تجزیہ کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصورعلی شاہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے جب کہ سینیٹر شیری رحمان اور رومینہ خورشید عالم نے بھی اس میں شرکت کی، ان کے علاوہ اراکین پارلیمنٹ، سفارتی برادری، موسمیاتی ماہرین اور ماہرین تعلیم بھی شریک ہوئے۔
کانفرنس میں آمد کے موقع پر سفیر سہیل محمود، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی نے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔
موسمیاتی تبدیلی کی تقریب سے وڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم نے کلائمیٹ چینج اتھارٹی کو ٹیک اپ کیا، پاکستان کی آئینی عدالتیں انوائرمنٹ کے معاملہ کو دیکھ رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج کا کہنا تھا کہ ملک کو شدید ترین موسمیاتی تبدیلی کے مسائل کا سامنا ہے، پاکستان کے جج کو کلائمیٹ چینج پر بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے، ڈیزاسٹر مینجمنٹ و دیگر مسائل کو دیکھنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کلر کہار میں سیمنٹ پلانٹ کا کیس سامنے آیا، اس میں کلائمیٹ چینج کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا، اس سے پانی کا مسئلہ بن رہا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ سی ڈی اے کیس میں کہا کے پلاننگ ماحول دوست ہونی چاہیئے، ماربل کرشنگ پلانٹس کو ری لوکیٹ کرنے یا اس میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا کہا۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا کہ کلائمٹ فائنانس بہت ہی لازم ہوچکا ہے، کلائمیٹ فائنانس پاکستان کی جانب نہیں آرہا، کلائمیٹ فائنانس پبلک پرائیویٹ سیکٹرز سے کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ فائنانس ہی نیا کلائمیٹ جسٹس ہے، پاکستان کو ماضی میں بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کلائمیٹ فائنانس پر کام نہ کیا تو ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں بہت بڑا فرق پیدا ہوگا، کلائمیٹ سائنس پر پاکستان کی گرفت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے کی گئی 100 بلین ڈالر کا وعدہ پورا نہیں کیا جا رہا ہے، گلوبل فنڈ پاکستان کی جانب نہیں آرہا، 20 بلین ڈالر کا ہمیں نقصان ہوا، ہمیں ملا کیا، ٹرک کی بتی کے پیچھے ہم اچھل رہے ہیں لیکن مل کچھ نہیں رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کلائمیٹ میکنزم پر کام کرنا ہوگا، کیا پاکستان گرین کاربن بانڈز پر کام کر رہے ہیں؟ کیا پاکستان بلائنڈڈ فنڈز پر کام کر رہے ہیں ؟
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا کہ یہ سب ایگزیکٹو کے دیکھنے کا کام ہے، ہمیں کلائمیٹ ڈپلومیسی پر کام کرنا چاہیے ،اسلامک کلائمیٹ فائنانس سامنے آرہا ہے، انڈونیشیا اور ملیشیا میں گرین سکوک پر کام ہوا، سعودی عرب میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان بھی سکوک بونڈز پر کام کر سکتا ہے، کیا حالیہ بجٹ میں کلائمیٹ چینج فنڈ پر کام ہوا؟ کوئی ڈھانچہ ہی نہیں ہے جس کے ذریعہ کلائمیٹ چینج فنڈ کو دیکھا جا سکے، دیکھنا ہوگا کہ کلائمیٹ جسٹس پر عدالتیں کیا کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت حکومت کو کلائمیٹ چینج کے اوپر کام کرنے پر کہہ سکتی ہے، عدالتیں کوشش کریں گی کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ افراد کی بات سنی جائے، کلائمیٹ فنانس میں آنے والے فنڈز پر عدالتیں نظر رکھیں۔
اپنے خطاب میں عدالت عظمیٰ کے جج نے کہا کہ فضائی آلودگی پاکستان کے لئے مسئلہ ہے، نیچر فائنانس سے فضائی آلودگی پر کام ہوسکتا ہے، انٹرنیشنل کلائمیٹ کورٹ قائم ہونی چاہیئے، گرین کونسٹیٹیوشن کی سوچ لانی ہوگی، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کو انسانی حقوق کا مسئلہ گرداننا ہوگا، میڈیا کو بھی موسمیاتی مسائل پر بات کرنی ہوگی۔
پاکستان موسمیاتی اعتبار سے سب سے زیادہ خطرے والے 10 ممالک میں شامل ہے، شیری رحمان
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ باکو نے دنیا کی سب سے بڑی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس کی میزبانی کی، لیکن بدقسمتی سے کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی، تمام جماعتیں نتائج سے مایوس ہو کر تقریب سے الگ ہوئیں، خاص طور پر وہ لوگ جو عالمی جنوب سے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان موسمیاتی اعتبار سے سب سے زیادہ خطرے والے 10 ممالک میں شامل ہے، پاکستان کو شدید موسمی واقعات کا سامنا ہے، جیسے کہ بے مثال سیلاب، مون سون کی شدید بارشیں، تباہ کن گرمی اور تیزی سے برف کا پگھلنا۔
شیری رحمان نے کہا کہ گزشتہ سال، امیر شمالی ممالک نے موسمیاتی آفات سے متاثر غریب ممالک کی مدد کے لیے ”نقصان کا فنڈ“ قائم کیا، اب تک تقریباً 700 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، فرانس، اٹلی، جرمنی اور متحدہ عرب امارات سب سے زیادہ تعاون کرنے والے ممالک ہیں۔