Aaj News

جمعرات, دسمبر 12, 2024  
09 Jumada Al-Akhirah 1446  

جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل

سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی
شائع 12 دسمبر 2024 01:29pm

سپریم کورٹ کےآئینی بینچ نے خصوصی عدالتوں سے متعلق فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کردی جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جبکہ دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خصوصی عدالتوں کے زیرحراست افراد کی ایف آئی آر کی نقول نہیں دی گئی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ خصوصی کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ 2 حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا، دوسرے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم ہونے کا کیا جواز فیصلے میں دیا گیا۔

سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: مقدمے کی جلد سماعت کیلئے درخواست سپریم کورٹ میں دائر

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ خصوصی کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے۔

جس پر وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، ایک شخص محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، اگر کوئی شخص کسی محکمے میں سرے سے ہے نہیں اس پر آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا غیرمتعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی، جو شخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں اس کو بنیادی حقوق کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے اس نقطہ پر کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہے، ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کے آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی اور شیخ ریاض علی کیس میں یہی قرار دیا گیا، 4 ججز نے فیصلے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کیا۔

خواجہ حارث نے نکتہ اٹھایا کہ عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل 8 کے سیکشنز 1 کو غیرمؤثر نہیں کر دیا، کیا سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ملٹری کورٹ فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں کو یہاں سنا جا رہا ہے، عدالتی فیصلہ میں سب سے پہلے نقائص کی نشاندہی کرے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئینی بینچ انٹراکورٹ اپیلوں میں بھی آئینی نقطہ کا جائزہ لے سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ برادر جج کے آبزرویش سے میرا اختلاف نہیں، فیصلے میں نقائص کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر پاکستان کا ہے، اگر صدر ہاؤس پر حملہ ہوتا ملزم کو ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوگا، اگر آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چھائونی کا تصور سب سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ نے دیا تھا، حضرت عمر فاروقؓ نے سخت ڈسپلن کی وجہ سے ہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا، آئین کے آرٹیکل آٹھ میں آرمی قوانین کا ذکر ان کے ڈسپلن کے حوالے سے ہے، فوج کا ڈسپلن آج بھی قائم ہے اور اللہ اسے قائم ہی رکھے، فوج کے ڈسپلن میں اگر عام لوگوں کو شامل کیا تو خدانخواستہ یہ تباہ نہ ہوجائے، فوجی کو قتل کرنے والے کا مقدمہ عام عدالت میں چلتا ہے، فوجی تنصیبات پر حملہ بھی تو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہی جرم ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے بھی کہا کہ ذاتی عناد پر فوجی کا قتل الگ اور بلوچستان طرز پر فوج پر حملہ الگ چیزیں ہیں۔

سپریم کورٹ نے نو اور دس مئی کی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ملٹری کورٹ کیس کی سماعت کل جمعہ تک ملتوی کردی۔

Supreme Court

اسلام آباد

Justice Aminuddin

military court trail

militray court

justice jamal mandokhail

Military Court Trial