الیکشن دھاندلی کیس: طارق فضل چوہدری کی درخواست ناقابل سماعت قرار دینے کی استدعا
اسلام آباد کے حلقے این اے 47 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف الیکشن ٹریبونل میں اپیل پر سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے امیدوار طارق فضل چوہدری نے درخواست ناقابل سماعت قراردینے کی استدعا کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونل میں این اے 47 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کی اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ آر او کا جواب جمع ہو گیا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ابھی جمع ہو رہے ہیں، فارمز آج جمع کروا دیں گے، فائل جمع کروا دی ہے۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے درخواست کو ناقابل سماعت ہونے کی استدعا کر دی، ان کے وکیل نے کہا کہ ہم نے شعیب شاہین کی درخواست ناقابل سماعت ہونے پر درخواست دائر کی ہے۔
الیکشن دھاندلی کیس: طارق فضل چوہدری پر 20 ہزار، خرم نواز پر 30 ہزار روپے جرمانہ عائد
طارق فضل چوہدری کے وکیل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 145 نے سو موٹو کی پاور ٹریبونل کو دی ہے، ٹریبونل درخواست مسترد بھی کر سکتا ہے، پہلے عدالت نے تحریر جواب طلب کیا میں نے جمع نہیں کروائے، آج ہم جمع کروا رہے ہیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ آپ کی درخواست پر جواب لے لیتے ہیں ، پھر اس پر دلائل سن لیں گے، شعیب شاہین نے کہا کہ ہم جواب جمع کروا دیں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ای ایم ایس کو کوئی الگ ریکارڈ نہیں ہے، یہ ایک سسٹم ہے جس نے الیکٹراک کلی کام کرنا تھا، شعیب شاہین نے کہا کہ پریزائڈنگ افسر نے تصویر بنا کر سسٹم پر اپلوڈ کرنی تھی، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ای ایم ایس سسٹم ار او کے پاس تھا، پریزائڈنگ افسران کے پاس نہیں تھا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ پریزائڈنگ افسران نے سنیپس بھیجے یا نہیں، الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لا نے بتایا کہ پریزائڈنگ افسران نے سنیپ ساٹس بھیجنی ہیں لیکن ای ایم ایس الگ سسٹم ہے، ای ایم ایس سسٹم پر ڈیٹا فیڈ کرنے سے فارمز 47 خود ہی جنریٹ ہو جاتا ہے،۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ پریزائڈنگ افسر تصویر لیتا اور وٹس ایپ کرتا دوسرا راستہ یہ تھا فیزیکلی ار تک فارمز پہنچے، کیا وٹس ایپ کے ذریعے فارمز بھیجے گئے۔
فارم 47 کیا چیز ہے اور اسے قانون میں کیا کہتے ہیں؟ چیف جسٹس کا سوال
ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ پریزائڈنگ افسران کی جانب سے فارمز فیزیکلی ار او تک پہنچائے گئے، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ فارمز 45، 46 پریزائڈنگ افسران نے بنانے ہیں، فارمز بنانے کے بعد دس پیکٹ بنائے گا اور تمام امید واروں سے سائن کروائے گا، فارمز 47, 48 اور فارمز 49 آر او نے بنانے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے نمائندے نے کہا کہ فارمل 49 آر او الیکشن کمیشن کو دیتا ہے، پھر الیکشن کمیشن نوٹیفیکیشن جاری کرتا ہے،۔
شعین شاہین کے وکیل نے کہا کہ ہم نے جو پوچھا اس کا جواب نہیں ملا، آر او نے کس وقت سنیپ بنائی اور کب فارمز الیکشن کمیشن تک پہنچائے ہمیں اس کا ریکارڈ چاہیے، آر او کی ذمہ داری ہے جب بھی رزلٹ آئے وہ اس کو سسٹم پر اپلوڈ کر دے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جو فارمز اپلوڈ ہوئے جمع کروا دیئے، شعیب شاہین کے وکیل نے کہا کہ آر او نے ریکارڈ کب اپلوڈ کیا، اس کا جواب چائیے، ای ایم ایس سسٹم میں فارمز میں کوئی تبدیلی کی جائے تو اس کا وقت بھی وہاں آتا ہے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ جب آپ نے فارمز جمع کروائے وہ وقت فارمز پر موجود ہیں، آر او کے وکیل نے کہا کہ نہیں وقت تو فارمز پر نہیں لکھا ہوا، وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن نے ای ایم ایس سسٹم کے ریکارڈ کی سرٹیفائیڈ کاپیاں مانگیں جو نہیں دی گئیں۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری کا وکیل ار او سے مکالمہ کیا کہ آپ تو پارٹی نہیں ہیں ناں آپ تو پبلک سرونٹ ہیں جو مانگا جائے آپ دیں، آپ کو کون روک رہا ہے۔
ٹریبونل نے کیس کی سماعت 15 جولائی تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed on this story.