Aaj News

اتوار, اکتوبر 06, 2024  
02 Rabi Al-Akhar 1446  

جج کی بیٹی کیخلاف ہٹ اینڈ رن کیس: ’جوڈیشل مجسٹریٹ‘ کے ہاتھوں اسلام آباد پولیس رل گئی

جولائی 2022 میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک اہلکار کو 'گاڑی' اس یقین دہانی پر دی تھی کہ کہ جب ضرورت ہو گی گاڑی کو عدالت میں پیش کریں گے۔
شائع 21 جون 2024 03:23pm

جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے دو سال پرانے ہٹ اینڈ رن کیس میں ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے تعلق رکھنے والی گاڑی کے قبضے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ انہوں یہ کہہ کر پولیس کی درخواست مسترد کردی کہ کھنہ پولیس کی طرف سے کی گئی کارروائی جائز نہیں۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج کی بیٹی کی اسپورٹس گاڑی کی ٹکر سے ایکسپریس وے پر سوہان پل کے قریب دو افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ واقعہ آدھی رات کو تیزی رفتاری کے باعث پیش آیا جس کے بعد سے کیس کی تفتیش تعطل کا شکار تھی۔

سُسر کو مارنے کیلئے سرکاری افسر بہو نے ایک کروڑ کی سپاری دے دی

عدالتی ریکارڈ میں دستیاب تفصیلات کے مطابق 8 جون کو شکیل تنولی اور ان کے ساتھی حسنین علی آدھی رات کو گھر جا رہے تھے کہ انہیں مبینہ طور پر ایک خاتون ڈرائیور نے گاڑی کی ٹکر مار دی تھی۔

تفصیلات کے مطابق خاتون گاڑی چھوڑ کر موقع سے فرار ہوگئی۔ پولیس نے گاڑی کو اپنی تحویل میں لے لیا جسے بعد ازاں جولائی 2022 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک اہلکار کو اس یقین دہانی پر ’سپر داری‘ پر دیا گیا کہ وہ ”جب ضرورت ہو گی گاڑی کو عدالت میں پیش کریں گے“۔

چونکہ پولیس اس کیس کی تفتیش نہیں کر رہی تھی، اس لیے مقتول کے والد رفاقت تنولی نے گزشتہ برس دسمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت سے درخواست کی کہ وہ پولیس کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا حکم دے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

ہٹ اینڈ رن : احمد شہزاد اور خاتون کے درمیان صلح

اس معاملے میں حالیہ سماعت کے دوران پولیس افسران نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو مطلع کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے اہلکار تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہے اور انہوں نے ہٹ اینڈ رن میں ملوث گاڑی کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

رفاقت تنولی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے زیر التوا درخواست میں کہا کہ ملزم کے خاندان کے افراد بشمول اس کے بھائی وجاہت خان بھی مانسہرہ ضلع میں اس کے گھر آئے اور اسے خبردار کیا کہ اگر اس نے کیس کی پیروی کی تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ پولیس کو تحقیقات کرنے اور ملزم کے خلاف دفعہ 279 (جلدی اور لاپرواہی سے ڈرائیونگ) اور 322 (بغیر ارادے کے قتل) کے تحت کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کرے۔

اس کے بعد پولیس نے اس ماہ کے آغاز میں جوڈیشل مجسٹریٹ کھنہ صہیب بلال رانجھا سے گاڑی کی ’سپر داری‘ کی منسوخی کے لیے رابطہ کیا۔ تاہم، مجسٹریٹ نے کھنہ کے ایس ایچ او کی جانب سے دائر درخواست کو تین بار موخر کرنے کے بعد مسترد کر دیا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی درخواستوں کا فیصلہ عام طور پر دنوں میں کیا جاتا ہے لیکن ابتدائی سماعت کے بعد مجسٹریٹ نے اسے کم از کم تین بار موخر کر دیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ وقوعہ کے دن سے مدعا علیہ (لاہور ہائیکورٹ کا ڈپٹی رجسٹرار پروٹوکول) تحقیقات کے مقصد کے لیے مقامی پولیس پی ایس کھنہ اسلام آباد کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا ہے، “ملزمہ جو مذکورہ گاڑی چلا رہا رہی تھی جس کی رجسٹریشن نمبر LEJ-17-666 تھی، جواب دہندہ کی جانب سے عدم تعاون کے رویے کی وجہ سے اب بھی لاپتا ہے۔

پاکستان

اسلام آباد

Islamabad High Court

Lahore High Court