’آپ نے بہت دیرکردی‘، بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے ڈار کا غفور حیدری کو جواب
بلوچستان میں حکومت سازی پر مشاورت کے حوالے سے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی وفد کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔
مسلم لیگ (ن) اور جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے وفد کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں بلوچستان میں حکومت سازی پر مشاورت کی گئی۔
جے یو آئی کی جانب سے ملاقات میں مولانا عبدالغفور حیدری موجود تھے جبکہ ن لیگ کی جانب سے اسحاق ڈار نے نمائندگی کی۔
سیکرٹری جنرل جے یو آئی عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور ن لیگ کم از کم بلوچستان میں تو مل کر حکومت بناسکتی ہیں، اس پر ن لیگ کے رہنما اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ہم تو چاہتے تھےکہ مل کر چلا جائے لیکن مولانا آپ نے بہت دیر کردی، گزشتہ چار دن سے آپ سے رابطہ کر رہے تھے لیکن رابطہ نہیں ہوا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے اب پیپلزپارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ کرلیا ہے، ن لیگ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے والی ہے۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ جے یو آئی اور ہمارا پرانا ساتھ ہے، ہم گرم سرد موسم میں ساتھ چلے ہیں، جے یو آئی کی پیشکش کے حوالے سے اعلیٰ قیادت کو آگاہ کیا جائے گا۔
اسحاق ڈار نے جے یو آئی وفد کو جواب دیا کہ اب اعلیٰ قیادت ہی اس پرکوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔
ن لیگ بلوچستان کے نومنتخب ارکان کو وزیراعلیٰ کا منصب پیپلزپارٹی کو دینے پر تحفظات
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے نومنتخب ارکان اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کا منصب پیپلزپارٹی کو دینے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں مسلم لیگ کے مرکزی رہنماء اسحاق ڈار کی صدارت میں مسلم لیگ ن بلوچستان کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں بلوچستان سے نومنتخب ارکان اسمبلی اور عہدیداروں نے شرکت کی۔
اجلاس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے کہا کہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن ایک بڑی پارٹی کے طور پر منتخب ہوکر آئی ہے اور مرکزی قیادت کی جانب سے بلوچستان میں حکومت سازی کے عمل میں وزیر اعلیٰ شپ پیپلزپارٹی کو دینے پر بلوچستان مسلم لیگ کو شدید تحفظات ہیں۔
جس پر اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ ن لیگ کے منتخب ارکان اسمبلی کے تحفظات دور کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت بلوچستان بارے نیا معاہدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ڈھائی سال بلوچستان میں وزیراعلیٰ پیپلزپارٹی سے اور اس کے بعد ڈھائی سال ن لیگ سے ہوگا، اگر پہلے ن لیگ کو وزیر اعلیٰ شپ نہیں مل رہی ہے تو انہیں اچھی وزارتیں دی جائے گی جبکہ مسلم لیگ ن بلوچستان کے رہنماؤں کو مرکز میں بھی ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد سابق وزیر اعلٰی بلوچستان اور نومنتخب لیگی ایم این اے جام کمال خان نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی اور قیادت نے اجلاس میں ڈار صاحب کے سامنے اپنے تحفظات رکھے تاہم جو مرکزی قائدین نے جو بھی فیصلہ کیا ہم ان کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے دیگر جماعتوں سے بھی رابطوں میں اور بلوچستان کی خوشحالی اور بہتری کے لیے جو اچھا ہوگا وہ کریں گے، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں یہاں کے عوام کو بہتر ڈلیور کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں گے، 5 سال کے بعد ایسا نہ ہو کہ عوام کچھ نہ کرنے پر سوال کرے ہماری کوشش ہوگی کہ یہ مخلوط حکومت بلوچستان میں گڈ گورنس اور عوام کے لیے بہتر کام کرے اور 5 سال بعد ہماری بدنامی کا سبب نہ بن سکے۔
Comments are closed on this story.