کیا عمران خان رہا ہو کر وزیراعظم بن جائیں گے
پاکستان میں عام انتخابات سے قبل اور بعد کا سیاسی منظرنامہ خاصا تبدیل نظرآتا ہے، الیکشن سے قبل مشکل میں دکھائی دینے والی پی ٹی ائی بڑی تعداد میں اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی کے بعد اکثریتی نشستوں کے باعث اسمبلیوں میں پہنچنے کے لیے تیار ہے۔
منظر نامہ بدلنے کے بعد صورتحال کچھ یوں ہے کہ مرکز میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے کامیاب امیدواروں سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی دوسرے نمبر پرہے تو خیبرپختونخوا میں اس کے آزاد امیدوار دو تہائی اکثریت رکھتے ہیں۔
نتائج کے بعد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے بہت سے امیدواروں نے اپنی ناکامی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیلنج کردی ہے اور رکھا ہے پی ٹی آئی قیادت کا دعویٰ ہے کہ شکایات کی شنوائی اور شفاف تحقیقات نتائج کی صورتحال کو اُن کے حق میں مزید بہترکرے گی۔
بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کی کامیابی کے باوجود فی الحال پی ٹی آئی کو وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی ’اکثریت‘ ثابت کرنے کا مسئلہ درپیش ہے ، بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ آزاد امیدواروں کو دوسری جماعتوں میں جانے سے کیسے روکے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ابتدائی تجزیے کے مطابق پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے مجموعی طور پرایک کروڑ 68 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عوامی مقبولیت جیل میں قید بانی عمران خان کے حوالے سے فی الوقت رائج سوچ اور پالیسی کی تبدیلی میں مددگارہوگیَ
برطانوی نشریاتی ادارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اسی حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے کہ ’کیا عمران خان جیل سے باہرآجائیں گے؟‘
قانونی ماہرین کے مطابق مستقبل قریب میں اسکے امکانات بہت کم ہیں۔
ماہر قانون حافظ احسن کھوکھرکا کہنا ہے کہ عمران خان کو کئی مقدمات میں ملنے والی سزائیں معطل یا ختم کروانے کے لیے بھی انِہی عدالتوں میں جانا پڑے گا۔ بدلی ہصورتحال کا سیاسی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے عدالتوں میں کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آتا۔
انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے میں اس لیے بھی مشکلات کا سامنا ہو گا کہ ’وہ کئی مقدمات جیسے سائفر کیس، توشہ خانہ یا اثاثہ جات کیس میں بظاہر غلطی تسلیم کرچکے ہیں۔ سزاؤں پر عدالتی ریلیف ملنے کے امکانات اسلیے بھی کم نظر آتے ہیں کہ مرکز میں پی ٹی آئی حکومت بناتی نظر نہیں آرہی۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کی موجودگی سے اس حد تک فائدہ ضرور ہو گا کہ ا طرح کے فورمز پر سابق وزیراعظم کے حق میں آوازیں تواتر سے بلند ہوں گی اور اُن کیسز اورطریقہ کار پر بھی دوسری رائے سامنے آئے گی جن کے تحت عمران خان کو سزائیں ہوئیں۔
سزائیں ختم ہونے کا کیا امکان ہےَ؟
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی بات کرتے ہوئے لاہور سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر اور آئینی قوانین کے ماہروکیل نے کہا عمران خان کی سزا ختم ہونے اور جیل سے باہر آنے کے دو راستے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی جماعت مرکز میں حکومت بنا لے، اُن کا وزیراعظم بن جائے، وہ صدر کو ایڈوائس کرے کہ عمران خان کی سزائیں ’کمیوٹ‘ یعنی کم کر دی جائیں۔اس صورت میں عمران خان باہرتو آ جائیں گے لیکن لیگل سٹیٹس بری ہونے کا نہیں ہو گا۔ یعنی اخلاقی طور پر وہ عدالتی عمل سے گزرکر اور بری ہو کررہائی نہیں پا رہے ہوں گے۔
دوسرا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ ’انکی جماعت کی حکومت بن جائے اور پھر وہ ادارے جو ان کے خلاف مقدمات میں استغاثہ ہیں وہ عدالتوں سے اپنے مقدمات یا درخواستیں واپس لے لیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں بھی سیاسی رہنماؤں کے کیسوں میں ایسا متعدد مرتبہ ہو چکا ہے۔‘
وکیل اور قانونی ماہر اسد جمال کا بھی کہنا ہے کہ یہ ایک راستہ ہو سکتا ہے تاہم استغاثہ کیس واپس نہ بھی لے تو سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس راستہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ، ’وہ اپنی سزاؤں کے خلاف اپیلیں کر سکتے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات کمزور قانونی بنیادوں پر قائم ہیں جن میں بہت سی بے ضابطگیاں ہیں، اس لیے عدالتیں سزائیں فوری طور پر معطل کرسکتی ہیں بلکہ ختم بھی کر سکتی ہیں۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے امکانات تب ہی ہوں گے اگر مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت بن جائے۔
ایسا نہیں ہو پائے گا
صحافی اور تجزیہ کارسلمان نے کہا کہ عمران خان کے پاس موجودہ صورتحال میں بھی جیل سے باہر آنے کا ’ایک راستہ ہو سکتا تھا مگر حالیہ بیانات کے بعد لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہو پائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے جیل میں دیے گئے اس بیان سے کہ وہ کسی بڑی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کریں گے یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے حالیہ مینڈیٹ کی وجہ سے ذاتی طور پر کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
کیا عمران خان وزیراعظم بن سکتے ہیں؟
وکیل اور قانونی ماہرحافظ احسن کھوکھر کے مطابق ایسا ممکن ہوتا نظرنہیں آتا۔ اگر عمران خان کسی طریقے سے ضمانت یا سزائیں معطل ہونے پر جیل سے باہر بھی آ جائیں تو وہ سزا یافتہ مجرم ہوں گے۔ وہ مجلسِ شوریٰ کے ممبر نہیں اور نہ بن سکتے ہیں کیونکہ انہیں 2 مقدمات میں لمبی سزائیں ہو چکی ہیں اور احتساب عدالت سے بھی سزا یافتہ ہیں، اس لیے وہ انتخاب لڑنے یا عوامی منصب رکھنے کے لیے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی نااہلی کی مدت کم از کم 5 سال ہے اور اس کے علاوہ وہ سزا یافتہ مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرنے والے آئینی ماہرنے بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت اگر سزا کی مدت 3 سال سے زیادہ ہو تو اس صورت میں 5 سالہ نااہلی کی مدت عمران خان کی سزا ختم ہونے کے بعد شروع ہو گی، عنی اس دن سے جس دن وہ سزا پوری کر لیں گے۔’
تاہم وکیل اسد جمال سمجھتے ہیں کہ عمران خان وزیراعظم بن سکتے ہیں اگر پی ٹی آئی کی حکومت بن جائے اور عدالتوں سے عمران خان کی سزائیں ختم ہو جائیں تونااہلی بھی ختم ہو جائے گی اور وہ انتخاب لڑ کر وزیراعظم بن سکتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
Comments are closed on this story.