Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

نوازشریف وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر، ن لیگ میں سوگ

سوالات بھی اُٹھ گئے، مایوس لیگی کارکنوں نے پارٹی کو خیرباد کہہ ڈالا
اپ ڈیٹ 14 فروری 2024 02:14pm
تصویر: راحت ڈار/ای پی اے
تصویر: راحت ڈار/ای پی اے

عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی مدد سے حکومت سازی کا اونٹ ایک کروٹ بٹھانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے پارٹی صدرشہباز شریف کو وزیراعظم اور سینیئر نائب صدر مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کردیا ہے۔

ترجمان مسلم لیگ ن کی جانب سے اس خبر کا اعلان سماجی رابطوں کی سائٹ ’ایکس‘ پر پوسٹ میں کیا گیا۔

پوسٹ میں نواز شریف کی جانب سے پیغام دیا گیا کہ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اورانکے قائدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس پختہ یقین کا اظہارکیا ہے کہ ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان معاشی خطرات اور عوام مہنگائی سے نجات پائیں گے۔

ن لیگ کے پیش نظراس فیصلے کے محرکات جو بھی ہوں، تاہم ہوا کچھ یوں کہ ’ لیگی کارکنوں’ کی ایک بہت بڑی تعداد سمیت کئی اہم پارٹی رہنماؤں کو بھی یہ فیصلہ ایک آنکھ نہ بھایا۔

ردعمل آنے کے بعد ن لیگ کے آفیشل ٹوئیٹر ہینڈل سے ایک گھنٹے میں نواز شریف کی تصاویر پر مبنی چار پوسٹیں لگائی گئیں جن میں کہا گیا کہ نواز شریف پاکستان کے ’واحد لیڈر‘ ہیں جنہوں نے اس ملک کی حقیقی خدمت کی۔

تاہم مسلم لیگ ن کے ورکرز پارٹی قیادت کے اس فیصلے کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں تو خود اہم پارٹی رہنماؤں میں بھی اس فیصلے کے حوالے سے خاصی مایوسی پائی جاتی ہے۔

سینیئر لیگی رہنما میاں جاوید لطیف نے ’الزام‘ نہ جانے کس کے سرڈالتے ہوئے پوسٹ میں شرمندگی کااظہار کیا کہ وہ اپنے قائد کے بیانیے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم زیادتیوں و ناانصافیوں کا بدلہ نہ چکا سکے۔

جاوید لطیف نے لکھا، ’ہم آپ کی ملک اور قوم سے محبت، خدمت اور وفاؤں کے مقروض ہیں۔ آپ کے احسانات کا بدلہ چکانے کا وقت آیا مگرہم نے ضائع کر دیا۔شاید ہم بحیثیت قوم احسان فراموش ہیں‘۔

نواز لیگ کے ایک اور رہنما ناصر بٹ نے کہاکہ میری آنسو میں آنکھوں ہیں، ہم نے نواز شریف سے وفا نہیں کی۔

سنییٹر ڈاکٹر افنان اللہ نے کہا کہ نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کی پوسٹ ہاتھ میں ہونے کے باوجود قبول نہ کر کے تاریخ رقم کردی۔

کئی مایوس کارکنوں نےاپنے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے پارٹی ہی چھوڑنے کا اعلان کرڈالا۔

یہ تو تھا تصویر کا ایک رُخ، ذرائع ابلاغ میں بھی اس فیصلے کو کڑی کسوٹی پر پرکھا جارہا ہے، کئی معروف صحافیوں نے اس فیصلے پر مسلم لیگ ن کو آڑے ہاتھوں لیا۔

سینیئر صحافی وتجزیہ کار کامران خان نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ’ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی’۔

کامران خان نے الزام عائد کیا کہ لیگی قیادت اچھی طرح سے جانتی تھی کہ نوازشریف کی پاکستان واپسی سے پہلے سے طے ہے، مخلوط حکومت بننی ہے اور شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے، عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے انتخابی مہم میں وزیر اعظم نوازشریف کا ڈرامہ رچایا گیا۔

کامران خان کی جانب سے 2 دسمبر کو خواجہ آصف کی میڈیا ٹاک کا ایک ویڈیو کلپ بھی شیئر کیا گیا جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ، ’ن لیگ کی جانب سے شہباز شریف وزرات عظمیٰ کے امیدوارہیں‘۔ کامران خان نے کہا کہ سچ ’اُگلنے‘ پر نواز شریف کے قریبی لیڈر خواجہ آصف کی جان کو آرہے ہیں۔

اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے بھی ن لیگ کی جانب سے انتخابات سے عین قبل تقریباً تمام اخبارات کے فرنٹ پیجز پر ’وزیراعظم نواز شریف‘ کے اشہارات کے حوالے سے سوال اُٹھایا۔

غریدہ نے لکھا، ’ن لیگ نے اب ان کا کیا کرنا ہے۔۔۔ ؟ کیا نواز شریف صرف پوسٹر بوائے تھے ۔۔؟‘

PMLN

Nawaz Sharif

Shehbaz Sharif

Maryam Nawaz

Election 2024

انتخابات 2024

GENERAL ELECTION 2024