چوری ڈاکے کے بغیر مصنوعی ذہانت کام نہیں کر سکتی، کمپنی کا اعتراف
مصنوعی ذہانت کے بڑے پلیٹ فارم اوپن اے آئی نے کہا ہے کہ کاپی رائٹ مٹیریل کو بروئے کار لائے بغیر چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ٹولز تیار کرنا ممکن ہی نہیں۔
اوپن اے آئی کا اعترافِ حقیقت ایسے وقت سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کیے جانے والے آئی ٹی ٹولز کے حوالے سے کمپنیوں کو مقدمات کا سامنا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی جیسے معیاری اور تیز رفتار چیٹ بوٹس کو دنیا بھر سے، انٹرنیٹ کے ذریعے، لیے گئے ایسے مواد کی مدد سے تیار کیا گیا ہے جو کاپی رائٹ قوانین کے تحت آتا ہے یعنی ایسے مواد کو استعمال کرنے کے لیے یا تو ادائیگی کرنا پڑتی ہے یا پھر اظہارِ تشکر لازم ہوتا ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنے لاکھوں صفحات کے مواد سے استفادہ کرنے پر مائیکرو سوفٹ اور اوپن اے آئی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا تھا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ٹولز کی تیاری میں اس کے لاکھوں نیوز آئٹمز، انٹرویوز، تجزیوں اور مضامین سے اجازت لیے بغیر استفادہ کیا گیا۔
برطانوی دارالامرا کی کمیونی کیشنز اینڈ ڈجیٹل سلیکٹ کمیٹی کے روبرو اے آئی نے کہا تھاکہ جی پی ٹی فور جیسے بڑے لینگویج ماڈل تیار کرنے کے لیے اُسے دنیا بھر سے مواد لینا پڑتا ہے۔ ایسے میں کاپی رائٹ مٹیریل سے استفادہ بھی ناگزیر ہوتا ہے۔
اپنے بیان میں اوپن اے آئی نے کہا تھا کہ فی زمانہ بلاگز، کالم، انٹرویو، مضامین، تجزیوں اور تصاویر سمیت اظہار پر مبنی تمام ہی مواد کاپی رائٹ قوانین کے تحت آتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ٹولز کے لیے کوئی بھی بڑا لینگویج ماڈل تیار کرنے کے لیے اس مواد سے مستفید ہونا لازم ہے۔ ایسے میں کاپی رائٹ مٹیریل استعمال کیے بغیر بات بنتی نہیں۔
اوپن اے آئی کا کہنا تھا کہ محض کاپی رائٹ کی حدود سے باہر کا مواد استعمال کرنے سے معیاری اے آئی لینگویج ماڈل تیار کرنا ممکن نہ ہوگا کیونکہ ایسے ماڈلز میں بہت سی خامیاں اور کمزوریاں رہ جائیں گی۔
نیو یارک ٹائمز کی طرف سے دائر کیے بغیر مقدمے کے بعد اوپن اے آئی کی ویب سائٹ پر ایک بلاگ پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم صحافت اور خبروں کی دنیا میں اپنے پارٹنرز کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ ایسے میں نیو یارک ٹائمز کا مقدمہ میرٹ پر پورا نہیں اترتا۔ اس سے قبل اوپن اے آئی نے کہا تھا کہ مواد تیار کرنے والوں کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔
Comments are closed on this story.