Aaj News

اتوار, ستمبر 08, 2024  
03 Rabi ul Awal 1446  

ڈی آر اوز پر حکم امتناع معطل، لاہور ہائیکورٹ کے جج نے حدود سے تجاوز کیا، سپریم کورٹ

پی ٹی آئی کے عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس، کسی کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، چیف جسٹس
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ نے ریٹرننگ افسران (آر اوز) اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے حدود سے تجاوز کیا، کسی کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، لاہورہائیکورٹ مزید کوئی کارروائی نہ کرے، ہائی کورٹ نے یہ بھی نا دیکھا افسران نے ملک بھرمیں خدمات سرانجام دینی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر ججز سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔

الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس میں میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ 8 فروری کوانتخابات کرانے کے فیصلے پرعمل درآمد کرائے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔

اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے سوال کیا کہ آپ نے الیکشن 8 فروری کو کرانے تھے، اتنی کیا جلدی ہو گئی؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن شیڈول جاری کرنے میں وقت بہت کم ہے، الیکشن کمیشن کی کوشش ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہی کرائے جائیں۔

جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کوشش کیوں؟ آپ نے تو الیکشن ہر حال میں کرانے ہیں۔

سجیل سواتی نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے عمیر نیازی نے درخواست دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ عمیر نیازی کی درخواست انفرادی ہے یا پارٹی کی جانب سےدائر کی گئی ہے؟۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ظاہر ہے عمیر نیازی پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہیں، اس لیے یہ درخواست بھی پارٹی کی سطح پر ہی دی گئی ہے۔

سجیل سواتی نے کہا کہ عمیر نیازی نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انتظامی عہدوں پر فائز آفیسران کی تعیناتی صاف و شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان ہو گا اس لیے آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی کو کالعدم قرار دیا جائے، لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 50 اور 51 چیلنج کی گئی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن 3 رکنی بینچ کا حصہ نہیں بنے، جسٹس اعجاز الاحسن کی کچھ اور مصروفیت تھی، جسٹس منصور علی شاہ کو سینئر جج ہونے پر گھر سے بلایا ہے، آج کے بینچ کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اب بینچز تشکیل دیے جاتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ میری خواہش تھی کہ موسٹ سینٸرججز بینچ میں شامل ہو، میں نے موسٹ سنیٸر ججز کے نام بینچ کے لیے تجویز کیے تھے، جسٹس اعجاز الاحسن مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے، ہم نے جسٹس منصور علی شاہ کو پھر تکلیف دی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننک افسران اور ریٹرننگ افسران کی فہرست حکومت دیتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ درخواست گزارکیا چاہتے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے بتایا کہ درخواست گزار چاہتے ہیں ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں، درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آراو تعیناتی ہمیشہ کے لیے ختم کی جائے، درخواست میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی اب ہی کیوں؟۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےعدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کیلئے خط لکھا تھا، عدلیہ نے زیرالتواء مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کرانا چاہتے تھے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب نہیں دیا، پشاور ہائیکورٹ نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی سے رجوع کریں۔

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمیر نیازی آخر چاہتے کیا تھے؟ ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کی خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟ پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے ریٹرننگ افسران لیے تھے؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ملک بھر میں کتنے ڈی آر اوز اور آر اوز تھے؟ جو ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ہیں وہ تو چیلنج ہی نہیں تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمشن افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کرائیں تو کون کرائے گا؟ تمام ڈی آر اوز متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنرز ہیں، اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ نگراں حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کیے گئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تو تحریک انصاف درخواست گزار تھی، کیا عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ درخواست آئی لگ بھی گئی، حکم امتناع دینے والا جج ہی لارجر بینچ کا سربراہ بن گیا، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کوئی بھی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔

سجیل سواتی نے کہا کہ درخواست گزار کا مؤقف ہے یہی ڈپٹی کمشنرز نظربندی کے احکامات جاری کرتے ہیں، درخواست گزار کا مؤقف ہے انہیں انتظامی افسران پر اعتماد نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل وہ کہیں گے عدلیہ پر بھی اعتماد نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ 7 دن کی ٹریننگ تھی ایک دن کی ہوئی پھر نوٹیفیکیشن معطل کر دیا گیا، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے؟ ہائیکورٹ نے ٹریننگ دینے سے نہیں روکا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے، الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج الیکشن شیڈول جاری ہونا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل کا موقف سنا گیا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل مںصور عثمان اعوان نے کہا کہ معاونت کے لیے نوٹس تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آئین میں اٹارنی جنرل کا ذکر ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت سے قبل مجھ سے ہدایات لی تھیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اگر آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہوجائے تو کبھی الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست دی گئی ہے؟ جس پر سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کیا ریٹرننگ افسر جانبدار ہو تو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟ ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد افسر اکیلے عمیر نیازی کے خلاف جانبدار کیسے ہوسکتے ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن حد ہوگئی ہے، ابھی تک الیکشن شیڈیول کیوں نہیں دیا گیا؟ الیکشن شیڈیول اور ٹریننگ الگ چیزیں ہیں، شیڈول پیش کریں تیار تو کیا ہی ہوگا، کیا الیکشن شیڈیول آج جاری کریں گے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا کہ ٹریننگ کے بعد شیڈیول جاری کریں گے، سیکرٹری الیکشن کمیشن شیڈول کب جاری کریں گے؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ قانون کہاں کہتا ہے ٹریننگ سے الیکشن شیڈیول مشروط ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹریننگ کے فوری بعد الیکشن شیڈیول جاری ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 8 فروری میں کتنے دن رہتے ہیں؟ جس پر وکیل الیکشن کمشن سجیل سواتی نے جواب دیا کہ آج سے 55 دن رہتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابی پروگرام 54 دن کا ہونے کے لیے آج شیڈیول جاری ہونا لازمی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ڈی آر اوز کی ضرورت کب ہے؟

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ٹریننگ بلاوجہ کیوں روکی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن بھی انتخابات نہیں چاہتا؟ الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز کی معطلی کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟ الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ نے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، ہائیکورٹ تو خود ہی نوٹیفکیشن معطل کر چکی تھی ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتیں نوٹیفکیشن معطل کریں تو متعلقہ ادارہ معطلی کا نوٹیفیکیشن نہیں جاری کرتا، جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ افسران کو الیکشن کمیشن نے حکم دینا ہوتا ہے۔

عدالتی فیصلہ

سپریم کورٹ نے لاہورہائیکورٹ کا آراوز اور ڈی آر اوز سے متعلق فیصلہ معطل کردیا اور درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے انڈرٹیکنگ دی کہ آج شیڈول جاری کردیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو الیکشن کمیشن کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیا اور کہا کہ عمیرنیازی جواب دیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟

عدالت نے الیکشن کمیشن کی اپیل باضابطہ سماعت کے لیے منظور کرلی اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔

الیکشن کمشین نے ہائیکورٹ آرڈر کے بعد جاری اپنا نوٹیفکیشن واپس لینے کی یقین دہانی کرا دی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنا کام کریں ہمیں اپنا کرنے دیں،اجازت دیں تومیں چھٹی پرچلا جائوں۔

بعدازاں عدالت ععظمیٰ نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے حکم نامہ لکھوادیا

الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے حکم نامہ لکھوادیا۔

حکم نامے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے 13 دسمبر کے حکم کے خلاف اپیل دائر کی گئی، سپریم کورٹ میں انتخابات کیس کرنے والوں کو ہائیکورٹ میں فریق بنایا گیا، درخواست میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 50 اور 51 غیرآئینی قرار دینے کی استدعا تھی۔

عدالتی حکم نامے میں لکھا گیا کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عدالتی ہدایات پر 8 فروری کی تاریخ مقرر کی، تمام فریقین 8 فروری کی تاریخ پر متفق تھے، وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق عدالت نے پابند کیا تھا کوئی انتخابات میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا، انتخابات کے انعقاد کے لیے تعینات ڈی آر اوز اور آر اوز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کیا گیا، الیکشن کمیشن کے مطابق ہائیکورٹ آرڈر کے بعد انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، وکیل کے مطابق ہائی کورٹ حکم کی وجہ سے الیکشن شیڈیول جاری کرنا ممکن نہیں۔

عدالتی حکم نامے میں لکھا گیا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تعینات ڈی آر اوز اور آر اوز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کیا گیا، الیکشن کمیشن کے مطابق ہائیکورٹ آرڈر کے بعد انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، وکیل کے مطابق ہائیکورٹ حکم کی وجہ سے الیکشن شیڈیول جاری کرنا ممکن نہیں، سجیل سواتی کے مطابق ہائی کورٹ کے حکم میں تضاد پایا جاتا ہے، وکیل کے مطابق کیس لارجر بینچ کو بھیجتے ہوئے نوٹیفیکیشن معطل کیا گیا۔

آرڈر لکھوانے کے دوران مداخلت پر چیف جسٹس نے خاتون وکیل کو جھاڑ پلا دی

چیف جسٹس کے فیصلہ لکھوانے کے دوران پی ٹی آئی کی وکیل مشعل یوسفزئی روسٹرم پر آگئیں، جس پر چیف جسٹس نے خاتون وکیل کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ ہم حکم نامہ لکھو رہے ہیں مداخلت نہ کریں، آپ کون ہیں کیا آپ وکیل ہیں؟ جا کر اپنی نشست پر بیٹھیں، آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشعل یوسفزئی سپریم کورٹ وکیل نہیں ان کا بولنا نہین بنتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دوبارہ مداخلت کی تو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے۔

حکم نامے میں لکھا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے 1011 ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز کو کام سے روکا، ہائیکورٹ نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ افسران نے ملک بھر میں خدمات انجام دینی ہیں، ہائیکورٹ نے اپنے علاقائی حدود سے بڑھ کر حکم جاری کیا، عدالت نے استفسار کیا کسی ریٹرننگ افسر کے خلاف درخواست آئی تھی؟ الیکشن کمیشن نے بتایا کسی نے کوئی درخواست نہیں دی۔

حکم نامے میں مزید لکھا گیا کہ عمیر نیازی اسی پارٹی سے ہیں جس نے انتخابات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، عمیر نیازی کہتے ہیں وہ بیرسٹر ہیں تو انہیں سپریم کورٹ احکامات کا علم ہونا چاہیئے تھا، بظاہر عمیر نیازی نے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی۔

سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا

سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟ بظاہر عمیر نیازی نے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی۔

چیف الیکشن کمشنر کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات

اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی، جس میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجازالاحسن بھی شریک تھے، اس کے علاوہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی ملاقات میں موجود تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر چیف جسٹس کی دعوت پر سپریم کورٹ آئے اور انہوں نے ججز کو لاہور ہائیکورٹ کے حکم امتناع سے آگاہ کیا۔

ملاقات میں چیف الیکشن کمشنر نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا اور فیصلے کو چلینج کرنے سے آگاہ کیا۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات سے پہلے 2 سینئر ججز سے بھی ملاقات کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر سے متعلق سینئر ججز سے مشاورت کی، جس کے بعد اٹارنی جنرل اور چیف الیکشن کمشنر کو طلب کیا گیا۔

لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

بعدازاں الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور اپیل دائر کردی، اپیل میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی اور کہا گیا کہ سپریم کورٹ 8 فروری کوانتخابات کرانے کے فیصلے پرعمل درآمد کرائے۔

سپریم کورٹ کا کورٹ روم نمبرایک کھول دیا گیا

عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے لیے جمعے کو جلدی بند کیے جانے والے سپریم کورٹ کے دفاتر کھول دیے گئے اور سپریم کورٹ کا کورٹ روم نمبر ایک کھول دیا گیا، کمرہ عدالت نمبر ایک میں 3 ججز کی کرسیاں لگا دی گئیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان کے کورٹ روم نمبر ایک میں عملہ پہنچا جبکہ درخواست وصول کرنے والا عملہ بھی پہنچا۔

الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم کا سپریم کورٹ کی متعلقہ برانچ سے رابطہ

ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ کی متعلقہ برانچ سے رابطہ کرکے ممکنہ درخواست دائر کرنے کے حوالے سے آگاہ کیا۔

الیکشن کمیشن نے بتایا کہ درخواست تیار ہوتے ہی سپریم کورٹ میں دائر کردی جائے گی۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی سول برانچ کا ضروری عملہ گھروں سے واپس دفاتر پہنچ گیا۔

الیکشن کمیشن کی لیگل ٹیم اور جسٹس منصورعلی شاہ سپریم کورٹ پہنچ گئے

ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ پہنچ گئے، جسٹس منصور علی شاہ اپنی یونیفارم میں سپریم کورٹ پہنچے ہیں۔

اُدھر الیکش کمیشن کی 2 رکنی لیگل ٹیم میں سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمیدخان اور ڈی جی لاء بھی درخواست کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچے۔

صحافیوں کی سیکرٹری الیکشن کمیشن پر سوالات کی بوچھاڑ

صحافیوں نے سیکرٹری الیکشن کمیشن پر سوالات کی بوچھاڑ کردی، صحافی نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے درخواست تیار کردی، جس کے جواب میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ جی بالکل الیکشن کمیشن درخواست تیار کردی۔

لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کا فریق بننے کا فیصلہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور مختلف سیاسی جماعتوں نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے فریق بننے کا فیصلہ کرلیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن)

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی پارٹی بننے کا فیصلہ کرلیا، 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کا فیصلہ کرلیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ(ن) کا لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) لاہور ہائیکورٹ کے ریٹرننگ افسران (آر او) سے متعلق فیصلے کے خلاف لارجر بینچ میں فریق بنے گی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف اور صدر شہباز شریف نے پارٹی کو گرین سگنل دے دیا، مسلم لیگ (ن) کی لیگل ٹیم نے پٹیشن تیار کرنا شروع کر دی۔

پیپلزپارٹی

پاکستان پیپلز پارٹی نے لاہور ہائیکورٹ کے عام انتخابات کے کیس میں پارٹی بننے کا فیصلہ کرلیا۔

اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنڑیرین کے سربراہ اور سابق صدر آصف زرداری نے فوری طور پر پیٹیشن فائل کرکے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

استحکام پاکستان پارٹی

استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) نے بھی لاہور ہائیکورٹ کے عام انتخابات کے کیس میں پارٹی بننے کا فیصلہ کرلیا۔

استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن انچیف جہانگرترین نے فوری طور پر پیٹیشن فائل کرکے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

آئی پی پی کے ترجمان عون چوہدری نے کیس میں فریق بننے کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہماری لیگل ٹیم فریق بننے کی پٹیشن دائر کر ے گی۔

پاکستان مسلم لیگ (ق)

ادھر پاکستان مسلم لیگ (ق) نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیش نظر ریٹرننگ افسران (آر او) اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر او) کے جوڈیشل یا سول ہونے کے کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کرلیا۔

15 دسمبر 2023 کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کا لاہور میں سابق وزیراعظم و صدر پاکستان مسلم لیگ چوہدری شجاعت حسین کی زیر صدارت اپنی رہائش گاہ پر ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا، جس میں پارٹی کی سنیئر قیادت شریک ہوئی۔

پارٹی اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیش نظر ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کے جوڈیشل یا سول ہونے کے کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا گیا۔

الیکشن شیڈول کتنے دن کا ہوتا ہے؟

خیال رہے کہ اگر عام انتخابات 8 فروری کو ہونے ہیں تو الیکشن کمیشن کو آج یا کل تک الیکشن شیڈول جاری کرنا ہوگا اور انتخابی شیڈول 54 دن کا ہوتا ہے، انتخابی شیڈول کے مطابق 17 دسمبر پہلا دن اور 8 فروری 54 واں دن بنتا ہے۔

اس سے قبل سیکرٹری الیکشن کمیشن بھی سپریم کورٹ پہنچے اور میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 8 فروری کو انتخابات سے متعلق ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے 8 فروری 2024 کو ملک بھر میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عام انتخابات کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر عام انتخابات ایگزیکٹو سے کروانے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کردی کی تھی، جس کے بعد آج لاہور ہائیکورٹ نے عام انتخابات کے لیے بیورورکریسی کی خدمات کے خلاف درخواست پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔

جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ 18 دسمبر کو درخواست پر سماعت کرے گا۔

Supreme Court

اسلام آباد

Attorney General

Lahore High Court

mansoor usman awan

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)

Election 2024