Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

نواز شریف کیخلاف نہ چارج صحیح فریم ہوا اور نہ نیب کو پتا تھا کہ شواہد کیا ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 29 نومبر تک ملتوی
اپ ڈیٹ 27 نومبر 2023 05:17pm
فوٹو — رائٹرز/ فائل
فوٹو — رائٹرز/ فائل

سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 29 نومبر تک ملتوی کردی گئی ہے، جسٹس میاں گل حسن نے دورانِ سماعت کہا کہ فیصلے کا وہ پورشن دکھائیں جہاں ریفرنس دائرکرنے کا حکم دیا گیا، دیکھنا چاہتے ہیں سپریم کورٹ نے نیب کو کیا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب نے نوازشریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

وکیل امجد پرویز کے دلائل

وکیل امجد پرویز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں دلائل کا آغاز کردیا، عدالت نے استفسار کیا کہ یہ جوفیکٹ دیے کیا یہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے کے ہیں؟ جس پر امجد پرویز نے کہا کہ 3 حقائق ریفرنس سے پہلےاو باقی بعد کے ہیں۔

جسٹس میاں گل اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کہ ریفرنسز دائر ہونے سے پہلے کے حقائق بہت اہم ہیں، جے آئی ٹی کےٹی او آرز کہاں ہیں؟

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ کہا گیا معاملے پر مکمل تفتیش کی ضرورت ہے، جس پر 5 مئی 2017 کو 5 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی کی تشکیل معاونت کیلئے کی۔

امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے رپورٹ 10 جولائی 2017 کو جمع کرائی جو 12 والیمز پر مشتمل تھی، اس کے بعد فریقین کو دلائل کیلئے بلایا گیا۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ پاناما کا حتمی حکم نامہ 28 جولائی 2017 کو جاری ہوا جس کے مطابق نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا، عدالت نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کیا احکامات جاری کیے تھے، کیا عدالت عظمیٰ نے چیئرمین نیب کو احکامات جاری کیے تھے؟

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ احتساب عدالت کو 6 ماہ میں ریفرنس پر فیصلہ کرنےکی ہدایت کی گئی، نئے شواہد سامنے آنے پر نیب ضمنی ریفرنس بھی دائر کر سکتا تھا، تینوں ریفرنسز ایک ہی دن دائر کیے گئے تھے، جولائی کوسپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا جب کہ نیب ریفرسنز ستمبر میں دائر ہوئے۔

اکتوبر2017کو تینوں ریفرنسز میں ملزمان پر فردجرم عائد کی گئی، بعد میں ریفرنسز کو الگ الگ چلایا گیا، تاہم ہمیں استغاثہ کی طرف سے والیم 10 کی کاپی نہیں دی گئی، والیم 10 میں سے کوئی دستاویزات ریکارڈ پر نہیں لائی گئیں، البتہ جرح کے دوران کچھ سوالات کے جواب ضرور دیئے گئے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین نیب نے معاملہ تفتیش کیلئے ڈی جی نیب لاہور کو بھیجا، ہم نے نیب سے پوچھا کہ فیصلے کے بعد تفتیش کیوں کر رہے ہیں؟ یہ بیان تحریری طور پر موجود ہے، نیب نے 8 ستمبر کو ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نواز شریف ایک ریفرنس میں بری ہوئے تھے، اس موقع پر پراسیکیوٹر نیب بولے کہ احتساب عدالت نے فلیگ شپ میں نواز شریف کو بری کیا تھا۔

عدالت نے پراسیکیوٹر نیب سے پوچھا کہ کیا نیب نے بریت کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اپیل دائرہے لیکن نوٹس نہیں ہوئے اور اپیل آج سماعت کیلئے مقرر بھی نہیں ہے۔

امجد پرویز کا کہنا تھا کہ جج محمد بشیر نے ایک ریفرنس پر فیصلہ سنایا تھا جب کہ دیگر ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست دی تھی، جج محمد بشیر نے خود ہی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب کی ایک رپورٹ میں جے آئی ٹی کی تحقیقات کا ذکر تھا، دوسری رپورٹ میں ٹی وی انٹرویوز اور جے آئی ٹی گواہوں کو حصہ بنایا گیا، رابرٹ ریڈلے کیلبری فونٹ ایکسپرٹ تھا، جسے نیب بطور گواہ لائی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا کسی ملزم کو بلایا گیا تھا؟ جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ نیب نے کال اپ نوٹسز دیے، ہم نے جواب بھی دیا تھا۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا نیب نے ڈاکیے کا کام کرنا تھا یا اپنا مائنڈ بھی استعمال کرنا تھا؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ پوری جے آئی ٹی رپورٹ نیب نے ریفرنس میں شامل کردی؟

جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ نیب کی جانب سے الگ سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی تھی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب کا سارا انحصار جے آئی ٹی رپورٹ پر تھا۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نیب کے کال اپ نوٹس میں تفتیش سے متعلق کچھ نہیں ہے۔ جس پر جسٹس گل حسن نے کہا تو نیب نے اپنی طرف سے الگ سے کوئی تفتیش نہیں کی؟

امجد پرویز نے جواب دیا کہ جی بالکل، نیب نے صرف جے آئی ٹی کے سامنے بیان کی تصدیق چاہی، نیب نے نواز شریف کو خود سے کوئی سوالنامہ نہیں دیا، نیب نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنسز دائر کیے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ نیب نے کہیں اپنا مائنڈ استعمال کرتے ہوئے بھی کچھ کیا؟ جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ نیب نے ضمنی ریفرنس میں کچھ مزید شواہد ریکارڈ پر لائے، نیب نے نواز شریف کے قوم سے خطاب کا ٹرانسکرپٹ قبضے میں لیا، نیب نے مریم، حسن اور حسین نواز کے بیانات کا ٹرانسکرپٹ قبضے میں لیا، نیب نے کیلبری فونٹ سے متعلق ایکسپرٹ رابرٹ ریڈلے کا بیان شامل کیا، نیب نے گواہوں کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔

اس کے بعد نواز شریف کے وکیل نے ایون فیلڈ ریفرنس میں عائد کی گئی فرد جرم کا متن پڑھ کر سنایا اور کہا کہ نواز شریف نے چارج فریم ہونے کے بعد صحت جرم سے انکار کیا۔

امجد پرویز کا مزید کہنا تھا کہ نیب نے ایک ابتدائی تفتیشی رپورٹ اور بعد میں ضمنی تفتیشی رپورٹ دی، ‏ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں صرف سپریم کورٹ فیصلے کا حوالہ دیا گیا، ‏نیب نے ٹی وی انٹرویوزپیش کیے، نواز شریف کی اسمبلی فلور پر کی گئی تقریرکا حوالہ دیا، رابرٹ ریڈلے پیش کیا جو نواز شریف کی حد تک کیس میں متعلقہ گواہ نہیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ نیب کے کال اپ نوٹس میں تفتیش سے متعلق کچھ نہیں ہے۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا تو نیب نے اپنی طرف سے الگ سے کوئی تفتیش نہیں کی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی بالکل، نیب نے صرف جے آئی ٹی کے سامنے بیان کی تصدیق چاہی، نیب نے نواز شریف کوخود سے کوئی سوالنامہ نہیں دیا۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو مالک اور مریم نواز سمیت دیگر بچوں کو بے نامی دار ثابت کرنے کا بوجھ پراسیکیوشن پر تھا، ہمارا موقف یہی رہا کہ چارج بھی غلط فریم ہوا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ نہ چارج صحیح فریم ہوا اور نہ نیب کو پتہ تھا کہ شواہد کیا ہیں۔

عدالت آںے سے پہلے

نواز شریف جاتی امرا لاہور سے منسٹر انکلیو اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر کچھ دیر قیام کیا اور وکلاء سے مشاورت کی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے۔

نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ عدالت پیش ہوگئے، ن لیگ کے قائد کے وکلاء اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز روسٹرم پر موجود ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات، پولیس اور ایف سی تعینات

ن لیگی قائد کی پیشی کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں، خواتین اہلکاروں سمیت بھاری نفری سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔

اسلام آباد پولیس کے541 اہلکاروں کے علاوہ ایف سی اہلکار موجود ہیں جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت پر رینجرز اہلکار بھی تعینات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

نواز شریف کا فیصلہ 21 نومبر کو، عمران خان کا 22 نومبر کو متوقع- اپیلیں سماعت کے لیے مقرر

نواز شریف پر بے بنیاد کیسز بنے، عمران خان عدالتوں کے لاڈلے ہیں، نگراں وزیرداخلہ

رجسٹرار آفس کی جانب سے جاری سرکلر کے مطابق غیر متعلقہ اشخاص کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں داخلہ ممنوع ہوگا، کمرہ عدالت میں وکلاء اور صحافیوں کا داخلہ خصوصی پاسز سے مشروط ہوگا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اکتوبر کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کر دی تھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اپیلوں کے خلاف درخواست پر فیصلہ سنایا تھا۔

اس سے قبل پنجاب کی نگران حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی سزا معطل کردی تھی۔

نگران پنجاب کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سزا معطلی کی منظوری دی تھی۔

PMLN

Nawaz Sharif

Islamabad High Court