Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ نے کہا ہے کہ اسلامی ممالک اسرائیل سے سیاسی تعلقات ختم کرنے کے ساتھ توانائی اور دیگر اشیا کی برآمدات بند کردیں، غزہ کے واقعے نے مغرب کا چہرہ عیاں کردیا۔
ایران کی عاشورہ یونیورسٹی آف ایرو اسپیس سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں منعقدہ نمائش کے موقع پر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ کچھ اسلامی ممالک کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی حکومت کے مظالم کی مذمت کی گئی جبکہ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک مذمت نہیں کی، ایسا رویہ قابل قبول نہیں ہے۔
خامنہ ای نے مزید کہا کہ اسلامی ممالک اسرائیل کو توانائی اور دیگر اشیا کی برآمدات بند کرنے کے ساتھ صیہونی حکومت سے سیاسی تعلقات بھی ختم کرنے چاہئیں، مستقل نہیں تو اسلامی ریاستیں محدود وقت کیلئے ہی اسرائیل سے سیاسی تعلقات ختم کریں۔
انھوں نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی حکومت شکست سے دوچار ہے، اسپتالوں اور گھروں کو تباہ کرنا کوئی فتح نہیں ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ غزہ میں شکست اسرائیل کی نہیں امریکا، مغرب کی بھی ہے، دنیا غزہ میں ہونے والے ظلم کو فراموش نہ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپ اور امریکی عوام کو اس صورت حال پر اپنے مؤقف کو واضح کرنا چاہیے اور یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ وہ نسلی امتیاز کے حق میں نہیں ہیں۔ امریکی صدر، جرمنی کے چانسلر، فرانسیسی صدر اور برطانوی وزیر اعظم نسل پرستی کے خلاف اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود نسل پرست صیہونی حکومت کی حمایت اور مدد کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب دنیا میں نسلی امتیاز کے سب سے بڑے حامی ہیں۔
یاد رہے کہ ایرانی سپریم لیڈر سے قبل سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا بھی غزہ سے متعلق بیان سامنے آیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کیلئےعرب، مسلم ممالک کے سربراہان چین کا دورہ کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مذکورہ دورہ رواں ماہ ریاض میں ہونے والی مشترکہ عرب اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں طے پانے والے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی جانب پہلا قدم ہو گا۔
شہزادہ فیصل نے کہا تھا کہ پہلا پڑاؤ چین میں ہوگا، پھر ہم ایک واضح پیغام دینے کے لیے دوسرے دارالحکومتوں میں جائیں گے کہ فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا جائے اور مدد کی جائے۔
سعودی وزیر خارجہ نے واضح کہا تھا کہ ہمیں اس بحران اور غزہ پر جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہے۔
انکشاف ہوا ہے کہ غزہ کی جنگ کے دوران اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک سے چند عناصر گھناؤنا پروپیگنڈا کر رہے ہیں، اور ایک سیاسی جماعت کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے، جس میں پاکستان پر اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے کا گھناؤنا الزام لگایا گیا ہے۔
فلسطین کے معاملے پر سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈا کی اصل حقیقت سامنے آگئی ہے، اور انکشافس ہوا ہے کہ غزہ کی جنگ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لئے اندرون ملک اور بیرون ملک سے چند عناصر گھناؤنا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
انکشاف ہوا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر بدنیتی پر بنی پروپیگنڈا مہم شروع کر رکھی ہے، اس مہم میں پاکستان پر اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے کا گھناؤنا الزام لگایا گیا ہے، جب کہ سوشل میڈیا پر اس جھوٹی اور من گھڑت کہانی کو بھارتی میڈیا نے خبر بنا کر پیش کر دیا ہے، اور ایک جہاز کو پاکستان سے اسرائیل اسلحہ لے جانےکی جھوٹی کہانی بھی بیان کردی، جب کہ اس کے برعکس بحرین سے راولپنڈی جانے والی پرواز افغان مہاجرین کے انخلا کا حصہ ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی ہر سطح پر پُر زور مذمت کے ساتھ ساتھ ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے، اور اس سلسلے میں وزارت خارجہ بارہا فلسطین پر اپنا واضح موقف دے چکی ہے جو کے بہت کلیئر، بولڈ اور غیر مبہم ہے۔
سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھی پاکستان نے مظلوم فلسطینیوں کی بھرپور اور کھل کر حمایت کی۔ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے کہا کہ فلسطینی بھی انسان ہیں اور اُنکے ساتھ بھی انسانوں جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ جب کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں اور غزہ میں شہری آبادی کے خلاف اسرائیلی حکام کی طرف سے طاقت کے ”اندھا دھند اور غیر متناسب“ استعمال کی مذمت کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی متعدد بار فلسطین کی حمایت اور سپورٹ میں کھل کر بھرپور طریقے سے آواز اٹھا چکے ہیں۔ 24 اکتوبر 2023 کو فلسطینی سفیر سے خصوصی ملاقات میں آرمی چیف نے بھرپور طریقے سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کی اور یہ بتایا کہ ”غزہ میں کشیدگی کی ساری ذمہ داری اسرائیل کے غاصبانہ قبضے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی وجہ سے ہوئی“۔
17 نومبر2023 کو آرمی چیف کی علماء سے ملاقات میں بھی فورم نے غزہ میں جاری جنگ اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالِم کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا۔
پاکستانی عوام کی فلسطینی عوام سے محبت اور حمایت میں کسی کو کوئی شک نہیں، پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں کے لئے امدادی سامان کی دو فلائٹس بھی بھیجوا چکا ہے اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔
پاکستان کے اس واضح موقف کے باوجود سوشل میڈیا پر یہود اور ہنود کی طرف سے گُمراہ کن پروپیگنڈا جاری اور ساری ہے، ایسے مذموم عناصر موقع ہاتھ لگتے ہی کوئی نا کوئی من گھڑت جھوٹ اور پروپیگنڈا کا پرچار سوشل میڈیا پر لے آتے ہیں، اور اِسی جھوٹ کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہُوئے یہی یہود اور ہنود اور انکے پیرو کار یہ جھوٹ بھی پھیلا رہے ہیں جو ایک انتہائی شرمناک اور گھٹیا جھوٹا پروپیگنڈا ہے جسکی جتنی مذمت کی جاے کم ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے “ ملک دشمن عناصر ہر قیمت پر دشمن کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لئے ہر سطح تک گر سکتے ہیں“، ایسے شر پسند عناصر پاکستان کو یہود و ہنود کے کہنے پر ہر طرح سے نقصان پہنچا سکتے ہیں جس سے بچنے کے لئے ہمیں اس زہریلے پروپیگنڈے کو پہچاننا اور اسکی سرکوبی کرنا اہم ہے۔
در حقیقت پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، من گھڑت جھوٹے پروپیگنڈا کا مقصد اپنے مذموم سیاسی مقاصد کا حصول اور پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کیلئےعرب، مسلم ممالک کے سربراہان چین کا دورہ کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مذکورہ دورہ رواں ماہ ریاض میں ہونے والی مشترکہ عرب اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں طے پانے والے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی جانب پہلا قدم ہو گا۔
شہزادہ فیصل نے کہا کہ پہلا پڑاؤ چین میں ہوگا، پھر ہم ایک واضح پیغام دینے کے لیے دوسرے دارالحکومتوں میں جائیں گے کہ فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا جائے اور مدد کی جائے۔
سعودی وزیر خارجہ نے واضح کہا کہ ہمیں اس بحران اور غزہ پر جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہے۔
دوسری جانب فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکی صدر جوبائیڈن سے فوری جنگ بندی اور غزہ میں امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
صدر محمود عباس نے اپنے بیان میں امریکی صدر جوبائیڈن سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی کارروائی کو روکنے کے لیے مداخلت کریں۔
یہ بات ہے 1997 کی، حماس کے رہنما خالد مشعل اردن کے ایک اسپتال میں بستر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے، ان کے خون میں زہر بہہ رہا تھا اور اس سے ان کا نظام تنفس آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ رہا تھا۔ ان کے پھیپھڑوں میں ہوا مشین سے پمپ کی جارہی تھی اور خالد مشعل کے پاس زندہ رہنے کے لیے کچھ ہی دن تھے۔
ایک ہی تریاق تھا جو حماس کے رہنما کی جان بچا سکتا ہے۔ لیکن جو واحد شخص یہ تریاق فراہم کر سکتا تھا وہ وہی تھا جس نے انہیں مارنے کی کوشش کی تھی، اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو۔
ستمبر 1997 میں اسرائیل کے اندر کئی خودکش حملوں کا بدلہ لینے کیلئے موساد کے جن ایجنٹس نے اردن کے دارالحکومت عمان کی ایک سڑک پر ایک فلسطینی کے کان میں زہر کا اسپرے کیا وہ فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ اور وہ فلسطینی کوئی اور نہیں بلکہ حماس کے سربراہ خالد مشعل تھے۔
اردن کے شاہ حسین نے خالد مشعل کی موت کی صورت میں اسرائیلیوں پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ جرم ثابت ہونے پر ایجنٹوں کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑتا۔
جس کے بعد ایک بین الاقوامی بحران سے بچنے کے لیے امریکی صدر بل کلنٹن نے مداخلت کی۔ کیونکہ اس سے اسرائیل کے عرب ممالک سے امن معاہدوں پر اثر پڑتا۔
انہوں نے نیتن یاہوپر زور دیا کہ وہ اس زہر کا توڑ فراہم کریں۔
اسرائیلی وزیراعظم امریکی حکم پر مجبور ہوگئے اور بادشاہ سے ذاتی طور پر معافی مانگنے کے لیے عمان بھی جا پہنچے
خالد مشعل کو ایک نئی زندگی ملی اور ان کا قد ”زندہ شہید“ کے طور پر بلند ہوگیا۔
اسرائیل اپنے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک کو مارنے کے بجائے اسے زندہ کرنے کر مجبور ہوگیا تھا۔
چند سال پہلے الجزیرہ نے ایک 90 منٹ کی دستاویزی فلم نشر کی جس میں یہ کہانی بیان کی گئی۔
اس میں 25 ستمبر 1997 کی صبح خالد مشعل کے دفتر کے باہر موساد کے دو ایجنٹوں کو انتظار کرتے دکھایا گیا، جیسے ہی خالد مشعل قریب آئے، ایک اسرائیلی ایجنٹ نے بازو پر بندھی پٹی میں چھپائے ایک ڈیوائس سے خالد مشعل کے کان میں پین کلر فینٹینائل کا اسپرے کیا۔
اسرائیلیوں کو امید تھی کہ ان کا تبدیل شدہ فینٹینائل کایہ اسپرے مورفین سے سو گنا زیادہ طاقتور ہے جو مشعل کو ایسی نیند سلا دے گا جس سے وہ کبھی بیدار نہیں ہو پائیں گے۔ جبکہ ایجنٹس خاموشی سے کھسک جائیں گے، جس سے کارروائی کا کوئی ثبوت نہیں بچے گا۔
لیکن یہ منصوبہ شروع سے شک کی نظر میں آگیا تھا، مشعل کے محافظوں کو موساد ایجنٹوں کے حملہ کرنے سے پہلے ہی شبہ ہوچکا تھا، اور وہ ان کا پیچھا کرنے اور پکڑنے میں کامیاب رہے۔ تین دیگر ایجنٹ بعد میں شہر میں دیگر مقام پر ملے، سبھی کینیڈا کے پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہوئے اردن میں داخل ہوئے تھے۔
مشعل کو معلوم تھا کہ حملہ آوروں نے کچھ تو عجیب کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن سوچا کہ وہ اسے نقصان پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔
بعد میں مشعل نے بتایا کہ ’میں نے اپنے کان میں ایک تیز آواز محسوس کی، یہ ایک تیز چیز کی طرح تھا، بجلی کے جھٹکے کی طرح۔ تب میرے جسم میں بجلی کے جھٹکے کی طرح سنسنی پیدا ہوئی۔ لیکن بظاہر میں ٹھیک تھا۔
لیکن پھر ان کے سر میں شدید درد ہوا اور اس دن کے بعد انہیں الٹیاں آنا شروع ہوئیں، تب مشعل نے جانا کہ اس حملے سے درحقیقت اس کی جان کو خطرہ ہے۔ انہیں اردن کے ایک اسپتال لے جایا گیا۔
اردن کے شاہ اردن کو صورت حال پر بریفنگ دی گئی، جس کے بعد شدید غصے میں شاہ حسین نے آدھی رات تک اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دی۔
واشنگٹن میں، بل کلنٹن کے مشرق وسطیٰ کے چیف مذاکرات کار ڈینس راس کو صبح سویرے نیتن یاہو کی کال موصول ہوئی، جنہوں نے بحران کی وضاحت کی اور کلنٹن سے فوری بات کرنے کا مطالبہ کیا۔ راس اسرائیل کی لاپرواہی سے دنگ رہ گئے۔
ان کی 2004 کی یادداشت، دی مسنگ پیس کے مطابق ڈینس راس نے اسرائیلی وزیراعظم سے پوچھا، ’آپ سوچ کیا رہے تھے؟‘۔
راس نے نیتن یاہو سے پوچھا کہ آپ اردنیوں کے زریعے مشعل کو خاموشی سے پکڑنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیا آپ کے ذہن میں یہ نہیں آیا کہ کچھ غلط ہو سکتا ہے؟’
راس لکھتے ہیں کہ ’میں یہ سن کر حیران رہ گیا تھا جب نیتن یاہو نے جواب دیا، ”نہیں“۔‘
کلنٹن نے اردن اور اسرائیل کے درمیان ایک بڑے امن معاہدے کو بچانے کی کوشش میں آنے والے سفارتی بحران سے بچنے کیلئے ثالثی کی جس پر چند ہفتوں بعد دستخط کیے جانے تھے۔
نیتن یاہو نے بالآخر اردنی ڈاکٹروں کو تریاق کا فارمولا فراہم کیا، جنہیں اسرائیلیوں کی طرف سے براہ راست فراہم کردہ کسی کیمیکل پر بھروسہ نہیں تھا۔
نیتن یاہو نے بادشاہ کے بھائی سے ذاتی طور پر معافی بھی مانگی، جس نے انہیں ملنے سے انکار کر دیا تھا۔
گرفتار اسرائیلی ایجنٹس کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے نیتن یاہو نے حماس کے نابینا اور مفلوج روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کو بھی جیل سے رہا کیا۔
راس لکھتے ہیں کہ ’حماس کی قیادت کو ملک سے باہر ہونے والے نقصان کا اندازہ لگوانے کے لیے جو آپریشن شروع ہوا، اس کا اختتام اسرائیل نے حماس کے روحانی پیشوا کو ایک ہیرو کے طور پر غزہ واپس آنے کی اجازت دے کر کیا۔‘
مشعل بھی ہیرو بن کر ابھرے۔ ان کے بڑھے ہوئے قد نے انہیں سات سال بعد 2004 میں حماس کا اعلیٰ سیاسی عہدہ سنبھالنے میں مدد فراہم کی، کیونکہ اسرائیل نے اس بار ان کے پیشرو عبدالعزیز الرنتیسی کو ان کی گاڑی پر میزائل داغ کر ہلاک کردیا تھا۔ شیخ یاسین بھی مارچ 2004 میں غزہ سٹی کی مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیلی ہیلی کاپٹر کا نشانہ بن گئے تھے۔
مقبوضہ فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے اسرائیل سے 5 دن کی جنگ بندی کے بدلے 70 یرغمال خواتین اور بچوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کر دی جب کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ کے الشفا اسپتال کو بچانا ہوگا۔
غزہ میں اسرائیلی بربریت اور وحشیانہ کارروائی میں ساڑھے 12 ہزار سے زائد فلسطینی شہید جب کہ غزہ کے اسپتال قبرستان بن گئے ہیں، الشفا اسپتال کے قریب اسرائیلی فورسز نے فائرنگ اور گولہ باری کی جس سے اسپتال میں امراض قلب کا وارڈ بھی تباہ اور تمام مریض شہید ہوگئے۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں صحافی اور مصنف ڈیوڈ اگناٹیئس نے ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے ممکنہ معاہدے میں پانچ روزہ جنگ بندی بھی شامل ہو سکتی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق ایک اسرائیلی عہدیدار نے بتایا کہ اگر جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی حتمی تفصیلات پر اتفاق ہو جاتا ہے تو معاہدے کا اعلان چند دنوں کے اندر کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عارضی معاہدے میں اسرائیلی خواتین اور بچوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی خواتین اور نوجوانوں کے ساتھ گروپوں میں رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات قطر کی ثالثی میں ہو رہے ہیں۔
اس سے قبل حماس کے ترجمان اسامہ حمدان نے بتایا تھا کہ ثالث قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں لیکن اسرائیل نے آخری لمحات میں بار بار شرائط میں تبدیلی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ معاہدے کے تحت اسرائیل پانچ روز میں 50 قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں 200 بچوں اور 75 خواتین کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کر سکتا تھا۔
حمدان نے کہا کہ حماس یہ بھی چاہتی ہے کہ اسرائیل مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ تک بلا روک ٹوک امداد کی رسائی کی اجازت دے، جس میں محصور فلسطینی علاقے میں ایندھن کا داخلہ بھی شامل ہے۔
ادھر ایک آڈیو بیان میں ترجمان القسام بریگیڈز ابو عبیدہ نے اسرائیل سے 5 دن کی جنگ بندی کے بدلے 70 یرغمال خواتین و بچوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے قطری ثالثیوں کو بتایا ہے کہ 5 روز کے دوران مکمل جنگ بندی اور ہر انسانی امداد کی اجازت ہونی چاہیے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ کے الشفا اسپتال کو بچانا ہوگا، اس معاملے پر اسرائیلی حکام سے رابطے میں بھی ہوں۔
گزشتہ روز اسرائیلی فوج غزہ کے سب سے بڑے الشفا اسپتال کے دروازوں تک پہنچ گئی جب کہ وہاں موجود طبی عملے نے خبردار کیا کہ نوزائیدہ بچوں سمیت مریضوں کی شہادتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج نے کئی روز سے الشفا اسپتال کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور اس کے اندر موجود ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بجلی کے جنریٹرز کے لیے ایندھن نہ ہونے کے باعث وہ مریضوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں۔
اس سے قبل عالمی ادارہ صحت نے بتایا تھا کہ الشفا اسپتال مکمل طور پر غیر فعال ہو چکا ہے جب کہ فلسطینی حکام نے کہا کہ اسپتال کے محاصرے اور ایندھن کی کمی کے باعث 3 دن میں 32 مریض انتقال کر چکے ہیں۔
الشفا اسپتال میں 45 نومولود بچے انکوبیٹرز میں موجود ہیں جن میں سے 6 شہید ہوچکے ہیں۔
پیر کو امریکی صدر جو بائیڈن نے پریس بریفنگ میں کہا کہ اسرائیل کو غزہ کے الشفا اسپتال کو بچانا ہوگا، امید اور توقع ہے کہ اسپتال کے حوالے سے کم دخل اندازی کی جائے گی جب کہ قطر کی مدد سے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پربھی بات چیت جاری ہے۔
اسرائیلی فورسز کی غزہ کے الشفا اور انڈونیشین اسپتال پر بدترین بمباری کے نتیجے میں متعدد فلسطینی شہید ہوگئے، شہدا کی تعداد11 ہزار سے تجاوز کرگئی، غزہ کی پٹی میں اوسطاً ہر 10 منٹ میں ایک بچہ مارا جاتا ہے۔
صیہونی فورسز نے الشفا سمیت دیگر اسپتالوں پر زمینی کارروائی کی تیاری کرلی ہیں، بمباری کی وجہ سے احاطے میں موجود ڈاکٹرز اورعملے نے شیلٹرز میں پناہ لی ہوئی تھی، حملوں میں مزید 260 فلسطینی شہید، جبکہ 29000 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
بمباری کاشکار ہونے والے بچوں کی تعداد 4500 سے زائد ہے، جبکہ 1500 سے زائد بچےلاپتہ ہیں، غزہ میں زمینی آپریشن کے دوران 42 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے۔
جنگ کے دوران غزہ میں 198 ہیلتھ ورکرزاسرائیلی بمباری کا شکار ہوئے،21 اسپتال اور47 ہیلتھ مراکزغیرفعال ہیں، جبکہ اسرائیل نے صحت کے135 مراکزکو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل کی مسلسل انخلا کی دھمکیوں کے نیتجے میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینوں نے دو دن میں نکل مکانی کی ہے۔
دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی میں اوسطاً ہر 10 منٹ میں ایک بچہ مارا جاتا ہے، کہیں بھی کوئی محفوظ نہیں ہے۔
ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ اسرائیلی بمباری سے غزہ میں صحت کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے، 36 اسپتالوں میں سے نصف کام نہیں کر رہے ہیں، اسپتالوں کی راہداریاں زخمیوں اور بیماروں سے بھری پڑی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہزاروں بے گھر افراد اسپتالوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح زندگی بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
نگراں وزیرِاعظم انوارالحق نے دورہ سعودی عرب کے دوران فلسطین کے صدر محمود عباس سے ملاقات کی ہے۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کرتا رہے گا۔
وزیرِاعظم اور فلسطینی صدر کی ملاقات میں غزہ میں صیہونی فوجوں کی جانب سے نہتے فلسطینیوں کے قتلِ عام پر گہرے دکھ کا اظہار کیا گیا۔
انوار الحق کاکڑ نے محمود عباس کو یقین دلایا کہ پاکستان فلسطین کی سفارتی مدد جاری رکھے گا، پاکستان عالمی سطح پر فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کرتا رہے گا۔
وزیراعظم نے عالمی قوتوں کی غزہ میں جاری بربریت پر خاموشی کو شرمناک قرار دیا اور کہا کہ عالمی قوتیں غزہ میں جنگ بندی، نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے غزہ میں فوری طور پرغیرمشروط جنگ بندی اور اشیاءِ ضروریہ و طبی امداد کی فراہمی کیلئے راہداری کے قیام کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں :
یرغمالیوں کی رہائی کیلئے اسرائیل اور حماس کے درمیان اتفاق، شہدا کی تعداد 11,078 ہوگئی
امریکا میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہرہ، ’کارکن نیویارک ٹائمز کی لابی میں داخل‘
صدر محمود عباس نے مشکل وقت میں ساتھ دینے پروزیراعظم اور پاکستانی عوام کا بھی شکریہ ادا کیا۔
امریکا میں احتجاج کے دوران مظاہرین نیویارک ٹائمز کے دفتر میں داخل ہوگئے۔ شرکاء نے غزہ پر اسرائیلی بمباری کے دوران میڈیا سے وابستہ افراد سمیت دیگر کی اموات کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔
انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی سڑکوں پر فلسطینی جھنڈے اٹھائے ہزاروں مظاہرین ، غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے مڈ ٹاؤن مین ہیٹن سے ہوتے ہوئے نیویارک ٹائمز کے دفتر پہنچے۔
غصے میں بھرے کارکن نیویارک ٹائمز کے دفتر کی لابی میں گھس گئے۔ انھوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور علامتی طور پر اخبار کی کاپیاں فرش پر بکھیرتے ہوئے غزہ میں جان سے ہاتھ دھونے والے صحافیوں سمیت فلسطینیوں کے نام پڑھ کر سنائے۔
مظاہرین نے میڈیا پر الزام عائد کیا کہ اسرائیل حماس جنگ کی کوریج میں اس کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف دکھائی دیا۔
احتجاج کے حوالے سے انڈیا ٹو ڈے نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’مقامی وقت کے مطابق شام 5 بجے کے قریب میڈیا کارکنوں کی قیادت میں لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروپ، جو خود کو ’رائٹرز بلاک‘ کہتے ہیں، بینرز کے ساتھ نیویارک ٹائمز کی لابی میں داخل ہوا‘۔
کارکنوں نے نیویارک ٹائمز کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ عوامی طور پر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرے۔ ان میں سے کچھ نے فلسطینی جھنڈے لہرائے جبکہ دیگر نے غزہ میں مارے گئے فلسطینی شہریوں کے نام پڑھے جن میں 36 صحافی بھی شامل تھے۔ جن کی اموات کی تصدیق اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے بعد سے ہوئی تھی۔
مظاہرین کی جانب سے فرش پر بچھائے گئے اخبار کے جس صفحے پر فرائض کی انجام دہی کے دوران مرنے والے صحافیوں کی خبر تھی ، اس کا عنوان تھا، ”ہم نے اپنے ساتھیوں کو قتل کیا“۔
عمارت کی لابی میں موجود پولیس نے ایک گھنٹے کے اندر علاقے کو صاف کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ احتجاج کے سلسلے میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں۔
غزہ جنگ کے تناظر میں ایلون مسک کا بڑا بیان سامنے آگیا۔ دنیا کی امیر ترین شخصیت اور ٹیسلا کے مالک نے کہا ہے کہ اسرائیل کو چاہیے کہ غزہ کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرے، موبائل اسپتالوں کی فراہمی کی کوشش کرے۔ بظاہر غزہ کی حمایت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ غزہ میں بچوں کو قتل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے حماس کے مزید چند ارکان کو بنایا ہے جو مستقبل میں اسرائیلیوں کو ہلاک کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان کریں گے۔
پوڈ کاسٹر لیکس فریڈ مین کو دیے گئے انٹرویو میں ایلون مسک نے کہا کہ اسرائیل اگر غزہ میں مکمل نسل کشی کی طرف جائے گا تو یہ کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ بہت سے لوگوں کو زندہ چھوڑ دیں گے جو بعد میں اسرائیل سے نفرت کرتے رہیں گے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر آپ حماس کے زیادہ ارکان کو قتل کرتے ہیں تو آپ کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ یہ کہنا درست ہے کہ اگر آپ غزہ میں کسی کے بچے کو قتل کرتے ہیں، تو آپ نے حماس کے کم از کم چند ارکان بنائے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آپ اسرائیل اور غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کی امید کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ کون سا راستہ دیکھتے ہیں جو دنیا کے اس حصے میں طویل مدت میں انسانی مصائب کو کم کرسکتا ہے؟
مسک نے کہا کہ حماس کا مقصد اسرائیل کو بھڑکانا تھا تاکہ وہ ردعمل دے۔ وہ بدترین مظالم کا ارتکاب کرنا چاہتے تھے جو وہ کر سکتے تھے تاکہ اسرائیل کی طرف سے ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ جارحانہ جواب دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو چاہیے کہ غزہ کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرے، ’یہ اصل چیز ہے جو حماس کی کال کو ناکام بنا دے گی‘۔ یہ کچھ ایسا ہے جسے کرنے کی ضرورت ہے۔
انٹرویو لینے والا ان سے پوچھتا ہے کہ کیا یہ مسک کا فلسفہ ہے، جس پر انھوں نے جواب دیا کہ اسرائیل کے لیے یہ ’مناسب‘ ہے کہ وہ حماس کے ارکان کو تلاش کرے اور یا تو انہیں قتل کرے یا انہیں قید میں ڈال دے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری میں ہونے والی شہادتوں کے باوجود لب کشائی اور کارروائی نہ کرنے والے عالمی اداروں کو غیرت دلانے کی کوشش کی ہے۔
جمائما نے غزہ میں جنگ بندی کی مخالفت کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر جاری بیان میں لکھا، ’اس مرحلے پر، وہ لوگ جو 4000 سے زائد مردہ بچوں کے بارے میں پریشانی کا ظہار کر رہے ہیں لیکن پھر بھی ہزاروں مزید بچوں کو ہلاک ہونے سے روکنے کے لیے جنگ بندی کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ ناقابل رسائی ہیں، افسوس ہے کہ وہ تمام تر ہمدردی اور انسانیت کھو چکے ہیں‘۔
جمائما نے مزید لکھا کہ ’اسرائیل نے 30 دنوں میں غزہ میں 600 دن پہلے شروع ہونے والی یوکرائن کی پوری جنگ میں روس سے زیادہ شہریوں کو ہلاک کیا ہے‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10,000 سے زیادہ ہو گئی ہے، جن میں 4,100 بچے بھی شامل ہیں‘۔
جمائما نے اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین کا ایک بیان بھی شئیر کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ ’گزشتہ ایک مہینے سے، غزہ کی پٹی میں لوگوں کو امداد سے محروم رکھا گیا ہے، انہیں بمباری کرکے بے گھر کر دیا گیا ہے۔ روٹی اور پانی تلاش کرنے کے لیے روزانہ کی جدوجہد۔ بلیک آؤٹ نے لوگوں کو اپنے پیاروں اور باقی دنیا سے کاٹ دیا ہے۔ یہ زبردستی نقل مکانی اور بڑے تناسب کا انسانی المیہ ہے‘۔
وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی اور مشرق وسطی علامہ طاہر محمود اشرفی کا کہنا ہے پاکستان او آئی سی اجلاس میں شریک ہوگا۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر بات کرتے ہوئے علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ غزہ میں فلسطینی شہید ہورہے ہیں، اس حوالے او آئی سی اجلاس میں شرکت کی جائے گی ، ان معاملات پر پوائنٹ اسکورنگ نہ کی جائے۔
ملک کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سرمایہ کاری سہولت کونسل کے قیام کے بعد اہم پیشرفت ہوئی ہے جبکہ ڈالر پچاس روپے تک کم ہوا، نتائج نظر آتے ہی دہشت گردی کے واقعات شروع ہو گئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر تبادلہ خیال کیلئے 12 نومبر کو غیر معمولی اسلامی سربراہی اجلاس بلانے کا اعلان کیا۔
او آئی سی اعلامیہ میں کہا گیا کہ اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس سعودی عرب کی دعوت پر بلایا گیا، سعودی عرب کے پاس اس وقت او آئی سی کی صدارت ہے، اجلاس ”ریاض“ میں منعقد ہوگا۔ جس میں فلسطینی عوام کےخلاف وحشیانہ اسرائیلی جارحیت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری کا سلسلہ ایک ماہ بعد بھی جاری ہے،اب تک شہید فلسطینیوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
اس ساری صورتحال میں امریکا نے ایٹمی آبدوز مشرقِ وسطیٰ میں تعینات کردی ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نے حماس کے خلاف جنگ کو ’عالمی جنگ‘ قرار دیا ہے۔
غزہ میں تیسری بار انٹرنیٹ اور ذرائع مواصلات بند ہوچکے ہیں۔ پانی، غذائی اشیا، فیول کا بحران پیدا ہونے کے باعث اقوام متحدہ سمیت اٹھارہ عالمی اداروں نے جنگ بندی کا مطالبہ کا مطالبہ کیا ہے۔
غزہ میں صیہونی جارحیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں سب سے بڑے طبی مرکز الشفا اسپتال کی چھت پر لگے سولر پینلز کو نشانہ بنایا۔
فلسطینی میڈیا کے مطابق توانائی کی فراہمی میں خلل ڈالنے کیلیے پینلز کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
الشفا اسپتال نے متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کچھ برا کرنے کی تیاری کررہا ہے، اسرائیل تمام حدیں پار کر رہا ہے۔
الشفا میڈیکل کمپلیکس کی حفاظت کرنا اقوام متحدہ، ڈبلیو ایچ او، ریڈ کراس اور دیگر کی ذمہ داری ہے اور انہیں اس کے لیے فیصلہ کن طریقہ کار اپنانا چاہیے۔
اسرائیلی وحشیانہ بمباری پر الشفا میڈیکل کمپلیکس نے مزید کہا کہ اگر اسپتال غیر فعال ہوا تو مریضوں، زخمیوں کو کوئی طبی امداد نہیں ملے گی۔
تین دن پہلے غزہ میں محکمہ صحت نے کہا تھا کہ اسرائیل نے الشفا اسپتال سے نکلنے والی ایمبولینسوں کے قافلے کو نشانہ بنایا۔ جس کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ ایمبولینس پر حملے کی تصدیق کی تھی۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کے سب سے بڑے اسپتال کے باہر ایک ایمبولینس کو نشانہ بنانے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اسے حماس استعمال کر رہی تھی۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی طیاروں نے ایک ایمبولینس کو نشانہ بنایا جس کی نشاندہی فورسز نے حماس کے ایک دہشت گرد سیل کی جانب سے جنگی علاقے میں ان کی پوزیشن کے قریب استعمال کے طور پر کی تھی۔
دوسری طرف غزہ میں صحت کے حکام کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے جس ایمبولینس کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ زخمیوں کو لے جا رہی تھی۔
واقعہ کے بعد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے کہا تھا کہ غزہ میں الشفا اسپتال کے قریب مریضوں کو نکالنے والی ایمبولینسوں پر حملوں کی خبروں پر ’مکمل صدمے‘ میں ہوں۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت پر تبادلہ خیال کیلئے 12 نومبر کو غیر معمولی اسلامی سربراہی اجلاس بلانے کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف قوام متحدہ کی اٹھارہ ایجنسیوں اور این جی اوز کے سربراہان نے مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔
اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ بمباری میں تیزی کے بعد اسلامی تعاون تنظیم نے فلسطینیوں کی شہادتوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کےخلاف تنظیم کا سربراہی اجلاس بلانے کا اعلان کردیا ہے۔
اعلامیہ کے مطابق اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس سعودی عرب کی دعوت پر بلایا جارہا ہے، سعودی عرب کے پاس اس وقت او آئی سی کی صدارت ہے، اجلاس ”ریاض“ میں منعقد ہوگا۔ جس میں فلسطینی عوام کےخلاف وحشیانہ اسرائیلی جارحیت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اس سے قبل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے اسرائیلی وزیر ثقافت امیچائی الیاہو کی جانب سے غزہ کی پٹی پر جوہری بم گرانے کی دھمکی کو انتہا پسندی، نفرت انگیزی ، تشدد اور منظم دہشت گردی پر اکسانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے پیر کو جدہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ فلسطینی عوام کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی نسل کشی بین الاقوامی قانون، معاہدوں اور قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بیان میں اسرائیل کے نسل پرستانہ بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ او آئی سی اس بیان کو دہشت گرد نسل پرستانہ نظریے کی توسیع کے طور پر دیکھتی ہے۔
بیان میں عالمی برادری سے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت، روزانہ قتل عام اور نسل کشی کی مذمت کرنے اور اسے روکنے کے لیے موثر اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی اٹھارہ ایجنسیوں اور این جی اوز کے سربراہان نے مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔
خط میں لکھا گیا کہ غزہ میں پوری آبادی کا محاصرہ اور حملہ کیا گیا ہے، ضروری اشیاء تک کی رسائی سے انکار کیا گیا ہے۔ لوگوں کے گھروں، پناہ گاہوں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں پر بمباری کی گئی جو ناقابل قبول ہے۔
مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ غزہ میں سیکڑوں امدادی کارکن مارے جا چکے ہیں جن میں انروا کے اٹھاسی کارکن بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی اٹھارہ ایجنسیوں اور این جی اوز کے سربراہان نے مطالبہ کیا کہ فریق بین الاقوامی قانون کا احترام کریں۔ یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کی جائے۔ غزہ میں ایندھن سمیت خوراک، پانی، ادویات کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے۔
اسرائیلی فوج مقبوضہ مغربی کنارے میں چھاپے کے دوران معروف 22 سالہ فلسطینی ایکٹوسٹ احد تمیمی کو گرفتار کیا ہے۔
فوج کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ احد تمیمی کو رام اللہ شہر کے قریب نبی صالح قصبے میں تشدد اور دہشت گردی کی سرگرمیوں پر اکسانے کے شبے میں گرفتار کیا گیا۔
تمیمی کو مزید پوچھ گچھ کے لیے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
تمیمی 14 سال کی عمر میں اس وقت مشہور ہوئیں جب انہیں ایک اسرائیلی فوجی کو کاٹتے ہوئے فلمایا گیا تاکہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو گرفتار ہونے سے بچاسکیں۔
وہ فلسطینی کاز کی آئیکون بن چکی ہیں اور یروشلم کے قریب بیت لحم میں مغربی کنارے کے ساتھ اسرائیل کی علیحدگی کی دیوار پر ان کی ایک بڑی تصویر پینٹ کی گئی ہے۔
7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے ، اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے حماس سے روابط یا تشدد پر اکسانے کے شبہ میں فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اس کے بعد سے مغربی کنارے میں کشیدگی اور تشدد میں اضافے سے 150 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر اسرائیلی فوجیوں یا آباد کاروں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اسرائیلی وزیر کی غزہ پر ایٹمی حملے کی دھمکی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہا ہے کہ نہتے فلسطینیوں پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی جنگی جنون اور اسرائیلی سفاکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اسرائیلی وزیر کے بیان پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ نہتے فلسطینیوں پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی اسرائیل کی سفاکانہ ذہنیت اور جنگی جنون کا عکاس ہے، اسرائیل طاقت کے اسی نشے میں غزہ پر اندھا دھند بمباری کر رہا ہے۔
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ لاکھوں فلسطینی شہری بالخصوص معصوم بچے، خواتین اور بزرگ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں، عالمی طاقتوں کو اسرائیل کے پاگل پن اور جنگی جنون کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور ان کی ہر ممکن مدد جاری رکھیں گے۔
’غزہ پر نیوکلئیر حملے کا امکان‘، ایران کی امریکا کو سخت وارننگ
غزہ پر ایٹم بم گرانے کی اسرائیلی وزیر کی دھمکی: شہبازشریف کی شدید مذمت
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہبازشریف نے غزہ پر ایٹم بم گرانے کی اسرائیلی وزیر کی دھمکی کی شدید مذمت کی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ بیان ثبوت ہے کہ صیہونی ریاست اور ایٹمی قوت انتہاپسند جنونیوں کے ہاتھ میں ہے، بے گناہوں کے قاتلوں کا پوری دنیا پر خود کش حملہ کرنے کا منصوبہ ہے، آئی اے ای اے فی الفوراسرائیل کی جوہری تنصیبات پر مانیٹر مقرر کرے۔
مسلم لیگ ن کے صدر نے کہا کہ دنیا اسرائیل کی انتہاپسندی اورایٹمی پاگل پن پر ٹھوس ردعمل دے، یہ پاگل پن پوری دنیا کو بھسم کرنے کے مترادف ہے، نہتی اور بے گناہ آبادی کے قتل عام پر خاموشی کے مزید بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
شہباز شریف نے مزید نے کہا کہ ایٹم بم گرانے کا بیان مستقبل کی سوچ اور ارادوں کا پتہ دے رہا ہے، جنونیوں کو نہ روکا گیا تو دنیا جہنم بن جائے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی برادری، سلامتی کونسل اور اسلامی دنیا دھمکی کا سنجیدگی سے نوٹس لے، اسلامی ممالک سفارتی سطح پر مشترکہ مہم کا بھرپور آغاز کریں۔
ایک طرف اسرائیل کے وزیر نے غزہ پر نیوکلیئر حملے کی دھمکی دی ہے تو دوسری جانب ایران نے بھی امریکا کو خبردار کردیا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہ ہونے کی صورت میں امریکا کو ”سخت نقصان“ اٹھانا پڑے گا۔
فلسطین کی وزارت خارجہ نے ایک اسرائیلی وزیر کے تبصرے کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے غزہ پر نیوکلئیر بم گرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اسرائیل کے یروشلم امور اور ثقافتی ورثہ کے وزیر امیچائی الیاہو نے اتوار کو کہا کہ غزہ کی پٹی پر نیوکلئیر بم گرانا ”ایک آپشن“ ہے۔
ایک ریڈیو انٹرویو میں بات کرتے ہوئے انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر نے کہا کہ ’غزہ میں کوئی غیر جنگجو نہیں ہے‘۔
اس کے بعد الیاہو سے پوچھا گیا کہ چونکہ ان کی نظر میں غزہ کا کوئی شہری غیر جنگجو نہیں ہے تو کیا غزہ کی پٹی پر جوہری حملہ ایک آپشن ہے؟
جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ ایک راستہ ہے‘۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ تبصرے نسل کشی کی اس جنگ کی ترجمانی ہیں جو اسرائیل غزہ پٹی کے خلاف 30 دنوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔‘
اسرائیلی میڈیا نے وزیر اعظم کے دفتر کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ نیوکلئیر حملوں کے تبصروں کے بعد الیاہو کو حکومتی اجلاسوں سے غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب ایران نے کہا ہے کہ اگر واشنگٹن نے غزہ میں جنگ بندی پر عمل درآمد نہ کیا تو امریکا کو ”سخت نقصان“ اٹھانا پڑے گا۔
ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی ”تسنیم“ نے ایران کے وزیر دفاع محمد رضا اشتیانی کے حوالے سے کہا کہ ’امریکیوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ غزہ میں جنگ کو فوری طور پر روکیں اور جنگ بندی پر عمل درآمد کریں، بصورت دیگر انہیں سخت نقصان پہنچے گا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران امریکا کو تنازع میں ’عسکری طور پر ملوث‘ سمجھتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اور غزہ میں اس کی مسلسل فوجی کارروائی کے خلاف احتجاج کے لیے ہفتے کی سہ پہر فلسطین کے ہزاروں حامیوں نے واشنگٹن ڈی سی کے مرکز میں سڑکوں پر احتجاج کیا۔
فلسطین کا علاماتی اسکارف ”کیفیۃ“ پہنے اور پرچم تھامے مظاہرین نے ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا‘ جیسے نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین وائٹ ہاؤس کی طرف جانے والی سڑک پر جمع ہوئے، ان مظاہرین میں زیادہ تر نوجوان تھے۔
جب مارچ وائٹ ہاؤس پہنچا تو مظاہرین نے غزہ میں خونریزی کی علامت کے طور پر امریکی صدر رہائش گاہ کا شمال مغربی دروازہ سرخ رنگ سے رنگ دیا۔
مظاہرین نے 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے ’ہمیں یہودی ریاست نہیں چاہیے۔ ہم 48 چاہتے ہیں!‘ کے نعرے بھی لگائے۔
ان کا اہم مطالبہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل کے لیے امریکی امداد کا خاتمہ تھا۔
مزید پڑھیں: برطانیہ بھر میں ہزاروں افراد فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے
مظاہرے کے دوران غزہ میں شہید ہوئے بچوں کے ناموں والی سفید علامتی لاشیں سڑک پر رکھی گئیں۔
مظاہرین کی تعداد کم از کم 10 ہزار تھی، جنہوں نے قریبی لافائیٹ پارک میں واقع جنرل مارکوئس ڈی لافائیٹ کے مجسمے کو بھی گریفیٹی اور فلسطینی جھنڈوں سے ڈھانپ رکھا تھا۔
![. (https://www.aaj.tv/news/30353875/)
مظاہرین نے صدر جو بائیڈن پر ”نسل کشی کی حمایت“ کا الزام بھی لگایا اور اسرائیل کو مزید امداد فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔
حماس نے غزہ شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والی اسرائیلی زمینی افواج کو گھیرنے اور زیر کرنے کی مکمل تیاریاں کر رکھی ہیں۔
فلسطینی آزادی پسند عسکری تنظیم حماس کی اعلیٰ قیادت کے قریبی ذرائع نے خبر رساں ایجنسی ”روئٹرز“ کو بتایا کہ حماس نے غزہ کی پٹی میں نتیجہ خیز جنگ کے لیے تیاری کرلی ہے۔
حماس کا خیال ہے کہ وہ اپنے دشمن اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کے لیے اُس کی پیش قدمی طویل عرصے تک روک سکتی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حماس کے اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ حماس نے ہتھیاروں، میزائلوں، خوراک اور ادویات کا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے۔
روئٹرز ذرائع کا کہنا تھا کہ حماس کو یقین ہے اس کے ہزاروں جنگجو فلسطینی علاقے کے نیچے کھودی گئی سرنگوں کے شہر میں مہینوں تک زندہ رہ سکتے ہیں اور شہری گوریلا ہتھکنڈوں سے اسرائیلی فورسز کو مایوس کر سکتے ہیں۔
حماس کا خیال ہے کہ اسرائیل پر محاصرہ ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھے گا کیونکہ شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے اسرائیل جنگ بندی اور مذاکرات کے ذریعے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس سے حماس تنظیم اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی جیسے ٹھوس مطالبوں کے ساتھ جنگ بندی کا مطالبہ کرے گی۔
اسرائیلی فوج نے غزہ ایمبولینس پر حملے کی تصدیق کر دی
روسی ویگنر گروپ حزب اللہ کو فضائی دفاعی نظام فراہم کرنیوالا ہے، امریکی اخبار
سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات میں دلچسپی رکھتا ہے، امریکا کا دعویٰ
حماس کے اعلیٰ حکام اور وائٹ ہاؤس کی سوچ سے واقف شخص کے مطابق حماس نے قطر کی ثالثی میں یرغمالیوں کی رہائی کے مذاکرات میں امریکا اور اسرائیل پر واضح کر دیا ہے کہ وہ یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کرانے کے مطالبے پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ حماس کا بنیادی ہدف اسرائیل کی غزہ کی 17 سالہ ناکہ بندی کو ختم کرنا ہے۔ حماس، اسرائیلی بستیوں کی توسیع کو بھی روکنا چاہتی ہے۔
حماس یروشلم میں مسجد الاقصیٰ میں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی بھاری موجودگی کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔
کینیڈا کی وزیرخارجہ میلانی جولی کو اسرائیل کی حمایت کرنے پر فلسطینی نژاد شہری کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
شہری نے ایئرپورٹ پر وزیرخارجہ میلانی جولی کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فلسطینی نژاد شہری ایئر پورٹ پر کہہ رہا ہے کہ آپ کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہیں۔
تنقید کرتے ہوئے شہری کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل چار ہزار سے زائد بچوں کو قتل کرچکا ہے۔
کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی نے جب تنقید سنی تو خاموشی سے مذکورہ شخص کو دیکھا اور چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔
میلانی جولی پہلے تو کچھ دیر تک وہیں کھڑی رہیں اور پھر بظاہر شرمندہ ہوکر تنقید کرنے والے سے دور چلی گئیں۔
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل حکومت کو ان اندھا دھند حملوں کو ختم کرنا چاہیے، حملوں سے ہزاروں بےگناہ فلسطینی بچے اور خاندان شہید ہورہے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری ہے۔ ملالہ نے ”ایکس“ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ “بچوں اور اسکولوں کو کبھی بھی نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔ یہ رائے کا معاملہ نہیں ہے، یہ بین الاقوامی قانون ہے، “
ملالہ یوسف زئی نے مزید کہا کہ میں جنگ بندی کا مطالبہ دہرا رہی ہوں اور اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ ایسے حملے بند کرے جن سے ہزاروں فلسطینی بچے اور ان کے اہل خانہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے سب سے بڑے اسپتال کے باہر ایک ایمبولینس کو نشانہ بنانے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اسے حماس استعمال کر رہی تھی۔
اسرائیل کے ایمبولینسوں پر حملے کے بعد خبر رساں ادارے اے ایف پی کے صحافی نے دیکھا کہ ایک بچے کو اٹھا کر لے جایا جا رہا ہے اور ایک مردہ گھوڑے کو خون میں لت پت فلسطینی ہلال احمر کی ایمبولینس کے پاس پڑا دیکھا جاسکتا ہے۔
غزہ میں ایمبولینسوں پر حملے کے بعد اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایک ایمبولینس پر فضائی حملہ کیا ہے جس کی نشاندہی فورسز نے حماس کے ایک دہشت گرد سیل کی جانب سے جنگی علاقے میں ان کی پوزیشن کے قریب استعمال کرنے کے طور پر کی تھی۔
اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایمبولینس پر حملے کی تصدیق کر دی، غزہ میں محکمہ صحت نے کہا ہے کہ اسرائیل نے الشفا اسپتال سے نکلنے والی ایمبولینسوں کے قافلے کو نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کے سب سے بڑے اسپتال کے باہر ایک ایمبولینس کو نشانہ بنانے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اسے حماس استعمال کر رہی تھی۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے ایک ایمبولینس کو نشانہ بنایا جس کی نشاندہی فورسز نے حماس کے ایک دہشت گرد سیل کی جانب سے جنگی علاقے میں ان کی پوزیشن کے قریب استعمال کے طور پر کی تھی۔
دوسری طرف صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جس ایمبولینس کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ زخمیوں کو لے جا رہی تھی۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے جمعے کے روز کہا کہ اسرائیل نے غزہ شہر میں الشفا اسپتال سے نکلنے والی ایمبولینسوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا۔
واقعہ کے بعد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے کہا ہے کہ غزہ میں الشفا اسپتال کے قریب مریضوں کو نکالنے والی ایمبولینسوں پر حملوں کی خبروں پر ’مکمل صدمے‘ میں ہوں۔
انھوں نے ”ایکس“ پر اپنی ایک پوسٹ میں مزید کہا کہ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ مریضوں، ہیلتھ ورکرز، سہولیات اور ایمبولینسوں کو ہر وقت تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری کا 28 واں روز ہے، اسرائیلی فوج کی فضائی اور زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں 24 گھنٹے میں مزید 500 سے زائد فلسطینی شہید ہوجانے کے بعد شہدا کی تعداد 9 ہزار 225 سے تجاوز کرگئی ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد عارضی جنگ بندی کو مسترد کر دیا۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے فلسطینی گروپ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے بعد پہلے عوامی خطاب میں ہے کہ ہم نہ جھکیں گے اور نہ کسی کے دباؤ میں آئیں گے، حزب اللہ 8 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے اچانک حملے کے ایک دن بعد جنگ میں داخل ہوئی تھی۔ غزہ میں جاری جنگ کا ذمہ دار امریکا ہے، اسرائیل مذاکرات کرکے اپنے قیدی واپس لے سکتا ہے۔ عرب، مسلم ممالک کو غزہ میں جنگ روکنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ کے شہدا کو سلام پیش کرتا ہوں، اسرائیل کے حملوں میں ہزاروں شہری شہید ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کیلئے جاری جنگ کا دائرہ طویل ہوگیا ہے، مسجد اقصیٰ کیلئے جنگ میں مزید محاذ کھول دیئے ہیں۔
سربراہ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ہم نہ جھکیں گے اور نہ کسی کے دباؤ میں آئیں گے، ہمیں شہدا کےاہل خانہ کےعزم اور ہمت پر فخر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہادت ہماری طاقت ہے جس پر ہمیں فخر ہے، اس بات پر بھی فخر ہے کہ عراقی اور یمنی براہ راست جنگ میں شامل ہوچکے۔
حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں اسرائیل کی مذمت کی جارہی ہے، حماس کا حملہ فلسطین کے چھپے ہوئے دشمنوں کو سامنے لے آیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی اسرائیل کی قید میں ہیں، طوفان الاقصیٰ آپریشن صرف فلسطین اور فلسطینیوں کیلئے تھا، اس آپریشن نے بہت سی چیزوں کو بےنقاب کر دیا ہے، دنیا نے اسرائیلی مظالم پر مجرمانہ طور پر آنکھیں بند کرلی ہیں، امریکا اسرائیل کی پوری طرح سے مدد کر رہا ہے، اسرائیل کےخلاف جنگ حق کی جنگ ہے۔
سربراہ حزب اللہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسرائیل کی حماقت اور نااہلی کا عکاس ہے، کیونکہ وہ بچوں اور خواتین کو قتل کر رہا ہے۔
حزب اللہ کے رہنما نے اسرائیل کو ”کمزور“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پورے ایک مہینے تک وہ ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکا، اسرائیل مذاکرات کے ذریعے غزہ میں قید اپنے لوگوں کو واپس لا سکتا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک فیصلہ کن جنگ ہے یہ پچھلی جنگوں کی طرح نہیں ہے۔ اس کے لیے ہر ایک کو ذمہ داری قبول کرنے کی ضرورت ہے۔
حسن نصراللہ نے دو مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پہلا غزہ میں جنگ کو روکنا اور دوسرا حماس کو اس جنگ میں فتح حاصل کرنا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ اپنی کارروائیوں میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے اور اسرائیل کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ غزہ یا مقبوضہ مغربی کنارے کے بجائے لبنان کی سرحد کے قریب اپنی افواج رکھے۔
اپنے خطاب میں حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ حزب اللہ 8 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے اچانک حملے کے ایک دن بعد جنگ میں داخل ہوئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ لبنان کی سرحد پر اسرائیلی افواج کے ساتھ روزانہ فائرنگ کا تبادلہ معمولی لگ سکتا ہے لیکن یہ بہت اہم ہے اور اسے 1948 کے بعد سے بے مثال قرار دیا ہے۔
نصراللہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اب تک حزب اللہ کے 57 جنگجو شہید ہوچکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ لبنانی محاذ پر مزید کشیدگی کا حقیقی امکان ہے، اس طرح کی پیش رفت کا انحصار غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر ہے، لبنانی محاذ پر تمام آپشنز کھلے ہیں، حزب اللہ تمام امکانات کے لیے تیار ہے۔
خطے میں امریکی جنگی جہازوں کی تعیناتی سے متعلق بات کرتے ہوئے نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ خوفزدہ نہیں ہے، جو کوئی بھی علاقائی جنگ کو روکنا چاہتا ہے اسے غزہ کی پٹی پر جنگ فوری طور پر بند کرنی چاہیے۔
دوسری طرف لبنان اسرائیل سرحد پر شدید لڑائی جاری ہے۔ تقریر کے موقع پر حزب اللہ نے تین ہفتوں سے زائد عرصے کی لڑائی میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اسرائیلی فوج کے ٹھکانوں پر بیک وقت 19 حملے کیے اور پہلی بار دھماکہ خیز ڈرونز کا استعمال کیا۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایرانی حمایت یافتہ لبنان کی ایک طاقتور فوجی قوت حزب اللہ سرحد پر اسرائیلی افواج سے رابطے میں ہے، جہاں 2006 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑنے کے بعد سے اب تک اس کے 55 جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ جنگ کے آغاز کے بعد اپنی پہلی عوامی تقریر کرنے والے ہیں جبکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن حالیہ ہفتوں میں ان کا تیسرا دورہ اسرائیل ہے۔
الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 9,227 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل میں 1400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کی صورتحال کی رپورٹ دینے والے صحافی نے جب اپنے ساتھی کی شہادت کی خبر دی تو وہ بے اختیار آبدیدہ ہوگیا جب کہ خاتون اینکر بھی آنسو ضبط نہ کرسکی، اور براہ راست نشریات میں رونے لگی۔
فلسطین میں جہاں اسرائیل کی جانب سے بمباری اور حملوں کے دوران آئے روز بچوں اور خواتین کی شہادت کے دلسوز مناظر دنیا بھر میں دیکھے جارہے ہیں، وہیں اب تک متعدد صحافی اپنے دیگر ساتھیوں کی موت کی خبر دیتے ہوئے روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
انڈیا ٹوڈے کا رپورٹر عاجل بھی اپنے چینل کو غزہ سے براہ راست آگاہ کرتے ہوئے رو پڑا، جب کہ اسے اپنے ہی ساتھی کی موت کی خبر اینکر کو بتانی پڑی۔
عاجل نے بیپر دیتے ہوئے کہا کہ صرف آدھا گھنٹہ پہلے ہمارا ساتھی رپورٹر محمد ابو حاتب یہاں تھا اور اب وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ’مگر مچھ کے آنسو‘، وائٹ ہاؤس ترجمان لائیو ٹی وی پر اسرائیل کیخلاف حملے پر روپڑے
ساتھی صحافی کی شہادت کی خبر دینے والا رپورٹر عاجل آبدیدہ ہوگیا، اور لائیو رپورٹنگ میں پریس جیکٹ اور ہیلمٹ اتار دیا۔ جب کہ ٹی وی اینکر بھی لائیو نشریات کے دوران رونے لگی اور مجبوراً اسے اپنا منہ ٹی وی کیمرہ کی طرف سے موڑنا پڑا، تاہم اس کے رونے کے مناظر کیمرے کی آنکھ نے عکس بند کرلئے، اور یہ ویڈیو دنیا بھر میں ہزاروں افراد نے دیکھ لی ہے۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری کا 28 واں روز ہے، اسرائیلی فوج کی فضائی اور زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں 24 گھنٹے میں مزید 500 سے زائد فلسطینی شہید ہوجانے کے بعد شہدا کی تعداد 9 ہزار 225 سے تجاوز کرگئی ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد عارضی جنگ بندی کو مسترد کر دیا۔
صیہونی فوج نے جبالیہ کیمپ کو ایک بار پھر نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں متعدد فلسطینی شہید، 100سے زائد افراد لاپتہ اور 77زخمی ہوگئے۔
سات اکتوبر سے اب تک کی بمباری میں شہدا کی تعداد 9 ہزار 225 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں 38 سو 25 سے زائد بچے شامل ہیں، جبکہ متعدد فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج پکڑ کر لے گئی۔
اسرائیلی کارروائیوں میں مرنے والوں میں اقوام متحدہ کے 70 ارکان اور 135 ہیلتھ ورکرز بھی شامل ہیں، جبکہ شہید فلسطینی صحافیوں کی تعداد 40 ہوگئی ہے۔
غزہ میں 25000 سے زائد فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں جبکہ بمباری سے 25 اسپتال تباہ ہوگئے ہیں اور بمباری کے نتیجے میں 16اسپتال غیر فعال ہوچکے ہیں۔ اسرائیل نے القدس اسپتال کے گرد دوبارہ بمباری بھی کی۔
دوسری طرف مغربی کنارے میں 40 بچوں سمیت 135 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
غزہ میں حماس کےخلاف زمینی کارروائی کے دوران 23 اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔
النصر اسٹریٹ پر بیکری کے سامنے جمع افراد پر بھی بم گرا دیا گیا، امدادی کارکنوں اور ایمبولینس کو بھی نہ چھوڑا، ہرطرف لاشوں اور ملبے کے ڈھیر لگے ہیں، تباہ شدہ مکانات کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہوگئی۔
ادھر اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں آنے والے نمازیوں پر بھی آنسو گیس کی شیلنگ کی اور مسجد جانے والے راستے بند کر دیے گئے۔
اسرائیل کا پناہ گزینوں کے کیمپ پرحملہ، 195 سے زائد فلسطینی شہید
سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات میں دلچسپی رکھتا ہے، امریکا کا دعویٰ
’7 اکتوبر آخری نہیں، مزید حملے کیے جائیں گے‘
ملبے سے لاشوں کی تلاش جاری ہے، ایندھن ختم ہونے سے کینسر کے واحد ترک اسپتال میں کام بند ہوگیا، 70مریضوں کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہے۔ غزہ کے 35 اسپتالوں میں سے 16نے کام بند کردیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ میں ضروری امداد کی اجازت دینے کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقفے کے لیے بڑھتے ہوئے مغربی دباؤ کے باوجود عارضی جنگ بندی کو مسترد کر دیا ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی واپسی تک جنگ بندی ممکن نہیں۔
امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل کی جنگ پوری طاقت کے ساتھ جاری ہے، اسرائیل عارضی جنگ بندی سے انکار کرتا ہے جس میں یرغمالیوں کی واپسی شامل نہیں ہے۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن دوسری بار اسرائیل پہنچے تھے، امریکی وزیر خارجہ انیٹونی بلنکن نے تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی۔ جس میں غزہ کی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔
دوسری جانب رفاح راہداری سے غیر ملکی شہریوں اور دہری شہریت کے حامل شہریوں کو غزہ سے نکلنے کے اجازت ملنے کا امکان ہے، جن میں 400 امریکی شہری ہیں۔
مغربی کنارے پر اسرائیلی فوج نے 14 سالہ لڑکے سمیت تین فلسطینیوں کو شہید کردیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی ٹینک غزہ شہر کے مرکز کی جانب بڑھنے لگے، حماس اور اسرائیلی ٹینکوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔
غزہ کی دو اہم سڑکیں اسرائیل کے کنڑول میں آگئیں، حماس بھی صہیونی فوج کا بھر پور مقابلہ کر رہی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں مشرق وسطیٰ کے اپنے دوسرے دورے پر روانہ ہوگئے۔
ائیرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو میں انٹونی بلنکن نے کہا کہ بات چیت میں غزہ کے مستقبل پر توجہ مرکوز رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں جانی نقصان کم کرنے اور مزید انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے طریقہ کار پر اسرائیل سے بات چیت ایجنڈے میں شامل ہے۔
فلسطینی شہری تنازعات کا مسلسل خمیازہ بھگت رہے ہیں، لبنان سمیت تمام محاذوں پر کشیدگی روکنے کے لیے پرعزم ہیں۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ حماس کی قید سے 200 سے زائد یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنائیں گے۔
غزہ میں رفع کراسنگ سے امدادی سامان پہنچ رہا ہے، فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے میں 102 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔
ٹرکوں پر خوراک، پانی، امدادی سامان، ادویات اور طبی آلات موجود تھے لیکن غزہ میں ابھی تک ایندھن لانے کی اجازت نہیں ملی ہے۔