’حماس کا اسرائیل پر حملہ بدترین انٹیلی جنس ناکامی کے طور پر یاد رکھا جائے گا‘
امریکی خبر رساں ادارے ”دی گارڈین“ کا کہنا ہے کہ یوم کپور جنگ کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر حماس کا اسرائیل پر اچانک حملہ ایک طویل عرصے تک انٹیلی جنس کی ناکامی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ چند گھنٹوں میں ہی غزہ سے درجنوں حملہ آور سرحدی باڑ کو توڑ کر جنوبی اسرائیل میں داخل ہوئے، جنہیں دیکھ کر اسرائیلی فوجی پوزیشنز حیران رہ گئیں۔
بندوق برداروں نے جنوبی سرحدی علاقے میں کئی اسرائیلیوں کو اغوا کیا اور متعدد کو لاک کیا، اس دوران ان کی جانب سے پیش قدمی اور حملے فلم بندی بھی کی جاتی رہی۔
لڑائی میں وقتاً فوقتاً آنے والی تبدیلیوں کے دوران آسمان پر اڑتے کئی ہزار راکٹوں کی ویڈیوز نظر آئیں، حماس کی حملہ آور ٹیموں کی فوٹیجز بھی وائرل ہوئیں جو سڈروٹ جیسی کمیونٹیز کی گلیوں سے گزر رہے ہیں، گیٹ اڑا رہے ہیں اور فائرنگ کر رہے ہیں۔
گزرنے والی کاروں اور پیدل چلنے والوں نے ایسے مناظر دیکھے جو زیادہ تر اسرائیلیوں نے سوچے بھی نہیں ہوں گے۔
لیکن یہ سب حیران کن اس وجہ سے ہے کیونکہ فلسطینی سوسائٹی پر اسرائیل کی نگرانی انتہائی نفیس اور جارحانہ ہے، خاص طور پر حماس کی سرگرمیوں کی نگرانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے سب سے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔
2014 میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز سائبر وار فیئر 8200 یونٹ کے وسل بلورز نے گارڈین اور دیگر ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں ممکنہ مخبروں کی شناخت کے لیے نیٹورک کام کر رہا ہے۔
جس سے کہا گیا تھا کہ ایسے مالی اور صحت کے مسائل سے دوچار افراد پر نظر رکھیں جو جنسی بے راہ روی کی وجہ سے کمزور دکھائی دیتے ہیں، ان فلسطینیوں کے لیے داخلے اور خارجی انٹرویوز اور ساحلی پٹی سے نکلنے کی اجازت میں آسانی ہوتی ہے۔
اسرائیلی جیلوں کے اندر موجود عسکریت پسند گروپوں کے ارکان کو بھی تاریخی طور پر انٹیلی جنس کوششوں کے لیے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، یہ سب کچھ اسرائیل پر حماس کے منصوبہ بند حملے کو نظر انداز کیے جانے کو مزید حیران کن بنا دیتا ہے۔
پیگاسس اسپائی ویئر اسکینڈل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی سرویلنس ٹیکنالوجی انڈسٹری دنیا کی سب سے ترقی یافتہ صنعتوں میں سے ایک ہے۔ ان سب کے باوجود حماس کی تیاری اسرائیل کی نظروں سے بچ گئی۔
یہ سچ ہے کہ حماس، اگرچہ ہمیشہ پرعزم اور طویل المدتی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، درپیش فوجی چیلنجز سے نمٹنے میں بہت زیادہ قابل ہو گئی ہے، اور اکثر اپنی منصوبہ بندی اور اسرائیلی کمزوریوں کی نشاندہی میں بڑی کوششیں صرف کرتی ہے۔ لیکن اسرائیل کی دفاعی افواج کو بہت قابل سمجھا جاتا رہا ہے۔
اگرچہ غزہ میں ہوئی پچھلی لڑائیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حماس نے آزاد اور بڑے فوجی مواصلاتی نیٹ ورک تیار کرنے کے لیے کام کیا ہے، جس میں ان کے اپنے میدان جنگ کے ری براڈکاسٹ سسٹمز بھی شامل ہیں، اس سے دو چیزیں سامنے آتی ہیں۔
پہلا یہ کہ اس حملے کی منصوبہ بندی نہ صرف حماس کے اندر بلکہ غزہ کے حریف دھڑوں کے ساتھ آپریشنل سیکورٹی لیول کے ساتھ کی گئی تھی، پچھلی لڑائیوں میں اس کی مثال نہیں ملتی، جیسا کہ پچھلی لڑائیوں میں حماس کے اسلحہ کے ذخیرے کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی اور اسرائیل کے ذریعے اسے نشر بھی کیا گیا۔
عسکری تجزیہ کار پہلے ہی یہ تجویز کرچکے ہیں کہ حماس نے زیادہ سے زیادہ افراتفری پیدا کرنے کے لیے ممکنہ طور پر اہم دھوکہ دہی کے ساتھ ساتھ راکٹ اور دراندازی سمیت متعدد ڈومینز سے حملوں کا استعمال کیا ہے۔
جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ حماس کئی مقامات پر ممکنہ تیاریوں سے محروم رہ گئی تھی، جیسا کہ منصوبہ بندی، ہتھیاروں کا ذخیرہ وغیرہ۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ حماس کے حملے کے فوراً بعد جب اس کے جنگجو باقاعدہ گشت سرحدی علاقوں میں جمع ہو رہے تھے تو گراؤنڈ موشن سینسرز اور ریموٹ کنٹرول منی کینن جو ماضی میں سرحدی باڑ پر حملہ کرنے کی کوششوں کے خلاف مؤثر ثابت ہوئی ہیں وہ ناکام نظر آئیں۔
یہ ساری چیزیں ایک ایسا آپریشن کی تجویز کرتی ہیں جس میں بہت زیادہ تیزی کی ضرورت تھی۔
شاید یہ حقیقت بہت اہم ہے جیسا کہ اسرائیلی میڈیا نے نشاندہی کی ہے کہ حالیہ مہینوں میں حماس کے ساتھ لڑائیوں کے واقعات کو اسرائیلی دفاعی افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے جنگ کے ایک حصے کے طور پر نہیں دیکھا۔
یہاں تک کہ جب جنوبی اسرائیل میں حماس کے دراندازوں کے ساتھ فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا، اسرائیلی میڈیا یہ ناگزیر سوال پوچھ رہا تھا کہ یوم کپور جنگ کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ایسا کیسے ہونے دیا جا سکتا تھا، جسے خود ایک بڑی انٹیلی جنس ناکامی سمجھا جاتا ہے۔
اسرائیلی بحریہ کے سابق سربراہ ایلی ماروم سے براہ راست ٹیلی ویژن پر پوچھا ’سارا اسرائیل خود سے پوچھ رہا ہے کہاں ہے آئی ڈی ایف، کہاں ہے پولیس، کہاں ہے سیکورٹی؟ یہ ایک زبردست ناکامی ہے، خفیہ ایجنسیز بڑے پیمانے پر نتائج کے ساتھ ناکام رہی ہیں۔‘
سوشل میڈیا اور دوسری جگہوں پر اسرائیلی رہنما بشمول وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو حکام کی جانب سے گھنٹوں تک کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
خیال رہے کہ حماس لمبے عرصے تک اپنی دراندازی کو برقرار رکھنے میں ناکام نظر آتا ہے، یہ خوفناک حد تک واضح نظر آتا ہے کہ اس کا اختتام ہولناکیوں کے ساتھ ہوگا۔
Comments are closed on this story.