عمران خان کا مقابلہ فوج نہیں ریاست کے ساتھ ہے، کاکڑ
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑکا کہنا ہے کہ چاہتےہیں نوازشریف کی واپسی پرقانون اپناراستہ اختیارکرے، وطن واپسی پرممکنہ گرفتاری یا جیل بھیجنے کے معاملے پر وزارت قانون سے رائے مانگی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ قطعاً کوئی سختی نہیں برتی جائے گی
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں لگ رہا ہے کہ عمران خان کا مقابلہ فوج سے نہیں بلکہ ریاست سے ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد پاکستان واپسی سے قبل لندن میں قیام کے دوران بی بی سی کو دیے جانے والے اس خصوصی انٹرویومیں عام انتخابات سے متعلق سوالات کے جواب دینے کے علاوہ نوازشریف کی پاکستان واپسی اوراڈیالہ جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی کو درپیش قانونی مشکلات پربات کی۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ انہوں نے نوازشریف کی پاکستان واپسی سے متعلق وزارت قانون سے رائے لی ہے کہ جب وہ واپس آئیں گے تو قانون کے مطابق نگراں حکومت کا انتظامی رویہ کیا ہوناچاہیے۔ انہوں نےبتایا کہ اس ضمن میں ایک اجلاس بھی طلب کیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ، ’میں نے عمران خان کی سزا کے بارے میں جو اشارتاً بات کی اس کا مقصد تھا کہ عدالتی نظام میں جتنے بھی مواقع ہیں اگرانہیں استعمال کرنے کے بعد بھی قوانین کے تحت عمران خان کو الیکشن سے روکا گیا، تو یہ ہمارے مینڈیٹ سے باہر ہو گا کہ ہم کوئی ریلیف دے سکیں۔ قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ اگرعدالتوں سے ریلیف نہ ملاتو پھر بدقسمتی سے عمران خان کو ان نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
موجودہ تناظر میں ملکی ماحول کو بطورعمران خان اور فوج کے مقابلے کے طورپردیکھنے سے متعلق سوال پران کاکہنا تھاکہ ، ’ نہیں، میں عمران خان بمقابلہ ریاست دیکھ رہا ہوں’۔
نوازشریف کی واپسی سے متعلق سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ، ’ُن کے معاملے میں بھی ہم چاہیں گے کہ قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے، آپ کو یاد ہو گا کہ وہ ایک عدالتی حکمنامے کے ساتھ ملک سے باہر گئے تھے‘۔
انہوں نے کہا کہ، ’نواز شریف کے معاملے کے دو پہلو ہیں، ایک سیاسی ہے تاہم اس بحث میں جائے بغیر مروجہ قوانین کے تحت دیکھا جائے تو فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔ ایک سزا یافتہ شخص کو عدالتوں نے اجازت دی تھی، ایگزکٹیو نے نہیں دی تھی‘۔
نگراں وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ، ’نوازشریف کے خلاف جو فیصلہ آیا تھا وہ فردِ واحد کیخلاف فیصلہ تھا۔ جس پرکچھ نے شادیانے بجائے لیکن اسی سیاسی شخص کی جماعت نے اگلے انتخابات میں 90 کے قریب نشستیں بھی حاصل کی تھیں‘۔
پی ٹی آئی کے ساتھ قطعاً کوئی سختی نہیں برتی جائے گی
انتخابات میں غیرجانبداری یقینی بنانے سے متعلق سوال پرانوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ، ’پی ٹی آئی کے ساتھ قطعاً کوئی سختی نہیں برتی جائے گی۔ ہاں اُن لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق ضرور نمٹا جائے گا جو منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اور وہ مخصوص افراد ہیں جو پچیس کروڑ کی آبادی میں پندرہ سو، دو ہزار بنتے ہوں گے، اُنہیں پی ٹی آئی سے جوڑنا منصفانہ تجزیہ نہیں ہو گا‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کیخلاف کارروائی کا جنرل ضیاء کے زمانے میں پیپلز پارٹی کیخلاف یاجنرل مشرف کے زمانے میں مسلم لیگ کیخلاف ہونے والی کارروائی سے موازنہ کرنا ’بیہودہ تجزیہ اورغلط بات‘ ہو گی۔
بحران روکنا نگراں حکومت کا مسئلہ نہیں
نگراں وزیراعظم نے واضح کیا کہ اگرکوئی سیاسی رہنما انتخابات میں حصہ نہیں لے پاتا تو اس سے بحران پیدا ہو یا نہ ہو، یہ نگراں حکومت کا مسئلہ نہیں کیونکہ ہمارا مقصد بحران روکنا یا پیدا کرنا نہیں، قانون کے تحت ہمارا کردار الیکشن کروانا ہے۔الیکشن کے نتیجے میں بحران پیدا ہونا پورے معاشرے اور ریاست کا معاملہ ہے، نگراں حکومت کا نہیں’۔
عام انتخابات کی 90 روزہ آئینی مدت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بنیادی طور پرالیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ’جہاں آئین میں 90 دن کی مدت ہے وہیں 254 آرٹیکل میں یہ بھی درج ہے کہ کوئی چیز وقت کے اندرنہیں ہوتی تو وہ محض تاخیر کے باعث غیرآئینی اور غیرقانونی نہیں ہوجاتی‘۔
Comments are closed on this story.