Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ابہام دور کرنے کیلئے آج پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے سوالات کے جوابات دئیے اور یہ بھی بتایا کہ کن چیزوں پر اس بجٹ کا اثر نہیں پڑے گا۔
وزیر خزانہ نے کاروباری طبقے کو تسلی دی کہ ان کے تحفظات دور کئے جائیں اور اس کیلئے دو کمیٹیاں بھی قائم کردی گئی ہیں۔ وزیر خزانہ کسانوں کو خوشخبری کے طور پر بتایا کہ اس بجٹ میں زراعت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سالانہ 24 ہزار ڈالرز آئی ٹی ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو گھر خریدنے پر ٹیکس سے استثنا دیا گیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ڈائمنڈ کارڈ متعارف کرا رہے ہیں، سالانہ 50 ہزار ڈالر بھجوانے پر سہولیات دی جائیں گی، جن میں سفارتخانوں میں آسان رسائی اور فاسٹ ٹریک امیگریشن بھی شامل ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بیواؤں کے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قرض حکومت ادا کرے گی۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ توانائی کے شعبے میں سولر وغیرہ کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی ہے۔
حکومت نے بجٹ میں کم از کم پنشن 12 ہزار روپے اور کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے کردی ہے۔
وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ کھلے دودھ پر کوئی ٹیکس نہیں، دودھ پر ٹیکس کی خبریں غلط ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ بجٹ میں خورنی تیل پر ٹیکس ختم کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا، یہ بھی بتایا کہ پیٹرولیم لیوی 50 روپے فی لیٹر سے نہیں بڑھائی گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ بجٹ 24-2023 معیشت کے طویل المدتی مسائل ٹھیک کرنے کے عمل کا آغاز ہے۔
ایک ٹویٹ میں شہباز شریف نے لکھا کہ سیلاب سے متعلقہ ریلیف اور بحالی، عالمی سپلائی چین میں رکاوٹوں اور جیو اسٹریٹیجک تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسلسل چیلنجوں کے پیش نظر بجٹ بنانا ایک مشکل کام تھا۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جس سے معیشت کو نقصان پہنچا، غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے پورا ملک ایک سال مشکلات کا شکار رہا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بجٹ 24-2023 معیشت کے طویل مدتی مسائل ٹھیک کرنےکے عمل کا آغاز ہے، معیشت کو خود کفیل بنانے والے شعبے حکومتی ترجیحات میں شامل ہیں۔
اپنی ٹویٹ میں شہباز شریف نے لکھا کہ مہنگائی کے اثرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، حکومت نے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں میں بالترتیب 35 اور 17.5 تک اضافے کی صورت میں ریلیف فراہم کیا اور کم از کم اجرت بڑھا کر 32 ہزار روپے کر دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت کو اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جو کہ ایک مستحکم سیاسی ماحول میں کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ معاشی ترقی کا سیاسی استحکام سے تعلق ہے، البتہ چارٹر آف اکانومی ہی سیاسی جماعتوں اور عوام کو خوشحال کرنے کا واحد راستہ ہے۔
مالی سال 2023 - 24 کے بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کے لئے موجودہ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ تعلیم کا شعبہ صوبائی ذمہ داری ہے لیکن وفاقی اس کی ترویج میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتا ہے، اس حوالے کچھ اقدامات کئے گئے ہیں۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق آئندہ بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کے لئے موجودہ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لئے پاکستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، جس کے لئے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جارہے ہیں، یہ فنڈ میرٹ کی بنیاد پر ہائی اسکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا۔
لیپ ٹاپ اسکیم کو صوبہ پنجاب میں 2013 سے 18 تک کامیابی سے چلایا گیا تھا، رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے 1 لاکھ لاکھ لیپ ٹاپ میرٹ کی بنیاد پر مستحق طلبا میں تقسیم کا اجرا کیا، اسی اسکیم کو جاری رکھنے کے لئے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
کھیل تعلیم کا لازمی حصہ ہے، بجٹ میں اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لئے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
عوام کو صحت کی بہتر خدمات کی فراہمی، متعددی بیماریوں کے سدباب اور ان پر قابو پانے، طبی آلات کی فراہمی، ویکسینیشن اور صحت کے اداروں کی صلاحیت کار میں اضافے کے لئے 24 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
ہر برس وفاقی بجٹ کے مجموعی حجم اور بجٹ خسارے کے حوالے سے نہ صرف عوام بلکہ کئی صحافی بھی ابہام کا شکارہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب بجٹ دستاویزات میں بجٹ کا حجم کچھ اور تحریر ہوتا ہے اور قومی اسمبلی میں یا ٹی وی چینلز پراعدادشمار کچھ اوربتائے جا رہے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ بجٹ خسارے کو سمجھنے میں لوگوں کو پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔
ان الجھے سوالات کے انتہائی سادہ جوابات ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں مالی سال یکم جولائی کو شروع ہو کر 30 جون کو ختم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بجٹ کے ساتھ دو عیسوی سال لکھے ہوتے ہیں۔ ایک وہ برس جس میں بجٹ پیش کیا جا رہا ہوتا ہے اور دوسرا اس کے بعد آنے والا سال۔ مثال کے طور پر جمعہ کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2023 اور 2024 کا بجٹ پیش کیا۔ یہ بجٹ سال 2023 کے آخری چھ ماہ اور سال 2024 کے پہلے چھ ماہ کا بجٹ ہے۔ عام طور پر لوگ اسے بجٹ 2023-24 لکھتے ہیں۔ لیکن اگر صرف ایک برس لکھنا ہو تو ہمیشہ آخری برس لکھا جائے گا۔ یعنی یہ سال 2024 کا بجٹ ہے۔
اردو کا ارب اور انگریزی کا بلین مساوی ہیں لیکن انگریزی کا ٹریلین اور اردو میں کھرب دو الگ الگ اعداد ہیں۔ اردو میں کھرب کا مطلب ہے ایک سو ارب۔ جبکہ انگریزی میں ٹریلین کا مطلب ہے ایک ہزار ارب۔
اس لحاظ سے رواں مالی سال کا بجٹ 14 اعشاریہ 46 ٹریلین روپے کا ہے۔ جسے اردو میں 144 کھرب 60 ارب لکھا جائے گا۔ یا پھر ابہام سے بچنے کیلئے اسے 14460 ارب روپے لکھ سکتے ہیں۔
بجٹ کا ایک سادہ مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے پاس موجود اخراجات کو کیسے اس انداز میں خرچ کرتی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں سمیت تمام اخراجات پورے ہو جائیں۔ دوسرے لفظوں میں بجٹ کا حجم حکومت کے مجموعی اخراجات ہیں۔
اصولاً تو حکومت کواپنے اخراجات آمدن کے اندر اندر رکھنا چاہییں لیکن پاکستان کے اخراجات آمدن سے بہت بڑھ چکے ہیں۔
بجٹ کے معاملے میں آمدن کا مطلب ہے ٹیکس اور نان ٹیکس محصولات۔ حکومت ملک بھر سے 9200 ارب روپے جمع کرنے کی تیاری کررہی ہے لیکن اس میں سے 5,276 صوبوں کو مل جائیں گے۔ باقی ماندہ 6,887 ارب روپے سے وفاقی حکومت کے تمام اخرجاات پورے نہیں ہو سکتے۔ لہذا اسے 7,572 روپے دیگر ذرائع سے حاصل کرنا ہوں گے۔ یعنی یا تو قرض لینا ہوگا یا کچھ بیچنا پڑے گا۔ یہ بجٹ خسارہ ہے۔
رواں برس حکومت کو نجکاری سے صرف 15 ارب روپے حاصل ہوگے۔ باقی ماندہ بجٹ خسارہ قرضوں کے ذریعے اور بانڈز کی فروخت سے پورا کیا جائے گا۔
ملک میں کھیلوں کے ادارے پاکستان اسپورٹس بورڈ کے لیے آٸندہ مالی سال 24-2023 کے لیے25 کروڑ روپے اضافے کے ساتھ 2 ارب 34 کروڑ 63 لاکھ روپے کا بجٹ تجویز کیا گیا ہے۔
آٸندہ مالی سال کے بجٹ دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال پاکستان اسپورٹس بورڈ کا بجٹ 2 ارب 5 کروڑ 46 لاکھ مختص تھا، جس میں 25 کروڑ کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں 22 کروڑ 87 لاکھ ، اسپورٹس بورڈ ملازمین کے الاؤنسز کی مد میں 25 کروڑ 98 لاکھ ، آپریٹنگ اخراجات کے لیے 51 کروڑ 33 لاکھ روپے تجویز کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ ملازمین کی پینشن اوردیگر اخراجات کے لیے 17 کروڑ 90 لاکھ ، اسپورٹس انفراسٹکچر کی بہتری اور کھیلوں کی ترقی کے لیے 50 کروڑ، اسپورٹس بورڈ ملازمین کے انتظامی اخراجات کی مد میں 48 کروڑ 45 لاکھ روپے بجٹ میں تجویز کیے گٸے ہیں
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے بعد فنانس بل 24-2023 کی کاپی سینیٹ میں بھی پیش کردی، ایوان میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا۔ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی فنانس بل کی کاپی پیش کی۔
بل پیش کیے جانے پر ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے بجٹ بل نامنظور کے نعرے لگائے گئے۔
ایوان میں شور شرابے کے باعث چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹرز سے بجٹ پر سفارشات 13جون تک مانگ لیں۔
چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹ خزانہ اور پلاننگ اینڈ ڈولپمنٹ کمیٹی 16جون تک سفارشات پر رپورٹ جمع کرائیں۔
سینیٹ اجلاس میں گزشتہ دنوں آرمی اور پولیس کے شہداء کے لیے مولانا فیض محمد نے ایوان میں فاتحہ خوانی بھی کروائی۔
بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے اجلاس پیر کی سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کردیا۔
قبل ازیں مالیاتی بجٹ 24-2023 پر بحث کی تحریک قومی اسمبلی سے منظور کی گئی جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس پیر تک ملتوی کردیا گیا۔
ملک میں حزب مخالف کی متعدد جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے آج قومی اسمبلی میں 14460 ارب روپے کا مالی سال 2023-24 کا بجٹ پیش کیا۔
آج نیوز نے موصول ہونے والی بجٹ دستاویزات میں سے اخراجات اور ریونیو دونوں کا مختصر جائزہ لیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نصف سے زیادہ رقم قرض کی ادائیگی میں گئی ہے، یہ وفاقی حکومت کے پورے ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو سے زیادہ ہے۔
نتیجتاً پاکستان بین الاقوامی برادری سے ٹی بلز اور بانڈز کے ذریعے مزید رقم اُدھار لے گا، جبکہ سُود کی مد میں 7303 ارب روپے ادا کرے گا، جوکُل بجٹ کا 50.5 فیصد حصہ بنتا ہے۔ سال بہ سال شرح سود کی ادائیگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مالی سال کے بجٹ میں سے 1074 ارب روپے سبسڈی پر خرچ کی جائے گی۔ وفاقی حکومت تنخواہوں سمیت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے 714 ارب روپے استعمال میں لائے گی۔
دفاعی بجٹ تین سال کے بعد اضافہ کرکے 1804 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت ترقیاتی منصوبوں کیلئے950 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو مجموعی بجٹ کا صرف 6.6 فیصد حصہ ملتا ہے، اور پنشنرز کو761 ارب روپے یا بجٹ کا 5.3 فیصد حصہ ملنا ہے۔
یہ تمام اخراجات تو ایک طرف لیکن پاکستان کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بہت قلیل رقم موجود ہے جبکہ وفاقی حکومت کی کُل آمدن 6887 ارب روپے، جوکُل اخراجات کا 47.6 فیصد بنتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے بین الاقوامی برادری سے مزید رقم قرض لے گا اور گرانٹس بھی۔ اگر بیرونی اداروں اور ممالک سے ملنے والی کا تخمینہ لگایا جائے، تو کُل رقم 2527 ارب روپے بنتی ہے، جو اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
لہٰذا حکومت 3124 ارب روپے جمع کرنے اور مقامی بینکوں سے کم از کم 1906 روپے قرضہ لینے کے لیے ٹی بلز، سکوک اور دیگر بانڈز جاری کرے گی۔
حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 1300 سی سی سے زائد گاڑیوں پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد ختم کردی۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ 1300 سی سی سے زائد کی وہ گاڑیاں جو ایشیا میں تیار کی گئیں ہیں اُن پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد ختم کی جارہی ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایشیا میں تیار کی جانے والی پرانی اور استعمال شدہ 1800 سی سی تک کی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو محدود کردیا گیا تھا، تاہم اب 1300 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد بندی ختم کی جاری رہی ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق مقامی سطح پر تیار نہ ہونے والی کمرشل گاڑیوں کی سی کے ڈی کی صورت میں درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی کی شرح کو 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومت نے بجٹ میں الیکشن کمیشن کے لیے آئندہ انتخابات کیلئے 48 ارب روپے مختص کردیے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آج نئے مالی سال کا بجٹ پییش کردیا ہے، مالی سال 2023 - 24 کے بجٹ میں الیکشن کمیشن کے لیے آئندہ انتخابات کیلئے 48 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
آئندہ انتخابات کے لئے حکومت کی جانب سے خصوصی گرانٹ کی مد میں یہ رقم مختص کی گئی ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق الیکشن کمیشن کے سالانہ اخراجات کیلئے 7 ارب 78 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں 9200 ارب روپے کے ٹیکس ریونیو کا ہدف مقرر کرلیا، ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 3759 ارب اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حجم 5441 ارب روپے ہے جبکہ تمام ضروری اشیاء کی درآمد پر ٹیکس میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 3759 ارب روپے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حکم 5441 ارب روپے ہے، انکم ٹیکس کی مد میں 3713 ارب روپے، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 1178 ارب روپے، ورکر ویلفیئر فنڈ کے ذریعے 13 ارب 84 کروڑ روپے جمع ہوں گے۔
کیپٹل ویلیو سے 81 کروڑ 70 لاکھ روپے، سیلز ٹیکس کی مد میں 3578 ارب روپے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 725 ارب روپے جمع ہوں گے۔
نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 2963 ارب روپے، سرکاری اداروں کے منافع سے 398 ارب روپے، اسٹیٹ بینک کے ذریعے 1113 ارب روپے، دفاعی خدمات سے 41 ارب روپے سے زیادہ اور سرکاری کارپوریشن سے 118 ارب روپے کی نان ٹیکس آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
سرکاری کمپنیوں کے شیئرز کے ذریعے 121 ارب روپے اور پیٹرولیم لیوی کی مد میں 869 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
فنانس بل کے مطابق پوائنٹ آف سیل کے ذریعے لیدر اور ٹیکسٹائل مصنوعات پر سیلز ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پی او ایس پر سیلز ٹیکس کی شرح 12 سے بڑھا کر 15 فیصد کر دی گئی۔
کوکنگ آئل اور خوردنی تیل پر سیلز ٹیکس ختم کرنےکرنے کے علاوہ تمام ضروری اشیاء کی درآمد پر ٹیکس میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے مطابق قرآن پاک کی طبعات کے درآمدی کاغذ پر ڈیوٹی، سولر پینل کی مینوفیکچرنگ کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی، سولر پینل کی بیٹریز کی تیاری کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی، سولر پینل کی مشینری کی درآمد اور سولر پینل کے انورٹر کے خام مال پر بھی ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ڈائپرز کی مینوفیکچرنگ کے خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی ختم اور سابق فاٹا کے لیے مشینری کی درآمد پر ٹیکس کی چھوٹ میں توسیع کا فیصلہ ہوا ہے، فاٹا میں مشینری کی امپورٹ کے لیے ٹیکس چھوٹ 30 جون 2024 تک جاری رہے گی۔
ملک میں تھنر کی مینوفیکچرنگ اور پولی ایسٹر کی مینوفیکچرنگ کے لیے متعلقہ خام مال پر ڈیوٹی ختم کی گئی ہے، معدنیات کے شعبے کی مشینری امپورٹ کرنے اور ٹیکسٹائل کے شعبے کے رنگ اور دیگر متعلقہ خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر میں کہا ہے کہ اس سال سود کی ادائیگی میں کل اخراجات 3 ہزار 144 ارب روپے ہوں گے، جس میں بیرونی سود کی ادائیگی 373 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے جبکہ اگلے سال اس مد میں کل ادائیگی 3 ہزار 950 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے، جس میں سے 3 ہزار 439 ارب اندرونی اور 511 ارب روپے غیر ملکی قرضوں پر خرچ ہوں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ملکی قرض جو کہ 18-2017 میں 25،000 ارب روپے تھا۔ مارچ 2022 میں 44 ہزار 365 ارب روپے تک پہنچ گیا جو جی ڈی پی کا 72.5 فیصد ہے۔ ہم نے مالی سال کے آخری 2 ماہ میں اخراجات میں کمی کے ذریعے قرض میں اضافے کی رفتار کو کم کیا ہے۔ قانون کے مطابق حکومت کے قرض لینے کی حد جی ڈی پی کا 60 فیصد مقرر کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف آر ڈی ایل اے 2005 میں ترمیم کے ذریعے وزارت خزانہ کے دفتری انتظام کے محکمہ کو ماہرین فراہم کیے جائیں گے۔ فرائض کی بجا آوری کے لیے اس مینڈیٹ اور اختیارات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جارہا ہے تاکہ قرضوں کا انتظام موزوں بنیادوں پر استوار کیا جاسکے۔ یہاں پر میں ایوان کو آگاہ کرنا چاہوں گا کہ سابقہ حکومت نے قرض کی دوبارہ پروفائلنگ کرتے وقت 2029 میں 5 ہزار 400 ارب یعنی 5 لاکھ 40 کروڑ روپے ایک ساتھ ادا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ کیا پوری ملکی کرنسی مارکیٹ ایک ہی بار اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرسکتی ہے؟ ہم اس بہت بڑی قرض ادائیگی کی رقم کو ٹکروں میں بانٹ کر حکومت اور مقامی مارکیٹ کے لیے قابل ادائیگی بنارہے ہیں۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹ ممالک میں ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا تقریبا 16 فیصد ہے مگر پاکستان میں اس وقت یہ شرح 8.6 فیصد ہے۔ اگلے مالی سال کے دوران یہ شرح 9.2 فیصد تک لے جانے کی تجویز ہے۔ 18-2017 میں ہم یہ شرح 11.1 فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری حکومت برآمدات میں اضافے کے لیے اہم اقدامات اٹھارہی ہے اور درآمدات کے بڑھتے ہوئے رحجان پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے تاکہ توازن عمل میں لایا جائے اور ڈالر کی قیمتوں کا تعین خود بخود صحیح راستے پر گامزن ہوجائے۔ درآمدات جو اس وقت 76 ارب ڈالر تک متوقع ہیں، اگلے مالی سال کے دوران ان میں کمی لاکر 70 ارب ڈالر کی سطح پر لائی جائیں گی۔ برآمدات اس وقت 31.3 ارب ڈالر ہیں۔ اگلے مالی سال ان کو 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں گے، ان اقدامات سے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو جی ڈی پی کے منفی 4.1 فیصد سے گھٹا کر اگلے مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی 2.2 فیصد پر لایا جائے گا۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے مطابق رواں مالی سال ترسیلات زر 31.1 ارب ڈالر ریکارڈ ہوں گی۔ اگلے مالی سال میں ترسیلات زر 33.2 ارب ڈالر تک بڑھنے کی توقع ہے۔
دوسری جانب چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز عائد کیے گئے، 175 ارب روپے کے براہ راست ٹیکسز لگائے گئے ہیں، 25 ارب روپے کے انڈائریکٹ ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز غیر ممالک میں استعمال پر ود ہولڈنگ میں اضافہ کیا گیا، غیر ممالک میں ڈیبٹ کریڈٹ کارڈز نان فائلرز پر 10 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد ہوگا، فائلرز پر 5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بینکوں سے کیش رقوم نکلوانے پر نان فائلرز پر 0.6 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس بحال کرنے کی تجویز ہے، غیر ملکی گھریلو ملازمین پر سالانہ 2 لاکھ روپے ایڈوانس ایڈجسٹمنٹ ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
عاصم احمد کا کہنا تھا کہ برانڈڈ ٹیکسٹائل، لیدر اور اسپورٹس سامان کے پی او ایس ریٹیلرز ٹیکس 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے، 1300 سی سی سے زائد کی ایشیائی گاڑیوں کی درآمد پر مقرر حد ختم کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے مالی سال 24-2023 کے لیے 50 کروڑ روپے کے اضافہ کے ساتھ 3 ارب 55 کروڑ 50 لاکھ روپے وفاقی بجٹ میں تجویز کیے گٸے ہیں۔
جمعے کے روز قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے وفاق بجٹ میں آٸندہ مالی سال کے لیے سپریم کورٹ کے بجٹ میں 50 کروڑ روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
رواں مالی سال میں سپریم کورٹ کا بجٹ 3 ارب 5 کروڑ 40 لاکھ مختص تھا، ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں 66 کروڑ 93 لاکھ جبکہ الاؤنسز کی مد میں 2 ارب 17 کروڑ 6 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ آپریٹنگ اخراجات کے لیے 40 کروڑ 59 لاکھ روپے، ملازمین کی پینشن کے لیے 17 کروڑ 90 لاکھ روپے، گرانٹس اور سبسڈیز کی مد میں ایک کروڑ 75 لاکھ روپے جبکہ ساز و سامان کی خریداری کے لیے 7 کروڑ 65 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز وفاقی بجٹ میں دی گٸی ہے۔
دوسری جانب وفاقی بجٹ 24-2023 میں وزارت قانون کے لیے 16 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھنے کی تجویز ہے جبکہ نیب کے لیے 6 ارب اور اسلام آباد کی مقامی عدالتوں کے لیے سوا ارب روپے سے زائد رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
مالی سال 24-2023 کے دوران وزارت قانون کے لیے 16 ارب 13 کروڑ 86 لاکھ 86 ہزار روپے کا بجٹ تجویزکیا گیا ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق لاء اینڈ جسٹس ڈویژن کے لیے 7 ارب 37 کروڑ 71 لاکھ 2 ہزار روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے لیے 29 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت کے لیے 82 کروڑ 70 لاکھ 31 ہزار روپے جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے لیے 22 کروڑ 47 لاکھ 66 ہزار روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق احتساب کے ادارے نیب کے لیے 6 ارب 15 کروڑ 86 لاکھ 8 ہزار روپے کا بجٹ مختص کرنے کی تجویز ہے۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹس کے لیے ایک ارب 26 کروڑ 11 لاکھ 79 ہزار روپے رکھے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ پہلی بار بجٹ میں ورکنگ جرنلسٹ کے لئے ہیلتھ انشورنس کے لئے1 ارب روپے مختص کی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹر اپنے بیان میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ اعلان کرتے ہوئے مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ پہلی بار بجٹ میں ورکنگ جرنلسٹ کے لئے ہیلتھ انشورنس کی رقم مختص کی گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں مالی سال 2023-24 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ ورکنگ جرنسلٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجرا کیا جارہا ہے۔
مریم اورنگزیب نے حکومت کے اس اقدام پر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ بطور وزیراطلاعات یہ میرے اولین مقاصد میں سے ایک تھا کہ ورکنگ جرنلسٹس کو خاص طور پر ان کی مُشکل کی گھڑی میں یہ سہولت میسر آئے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بیرون مُلک مقیم پاکستانیوں کیلئے خصوصی ”ڈائمنڈ کارڈ“ کا اجراء کیا جارہا ہے ساتھ ہی خصوصی مراعات بھی دی جائیں گی۔
قومی اسمبلی میں مالی سال 2023-24 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی رقوم کے لیے ایک نئے“ڈائمنڈ کارڈ“ کا اجراء کیا جا رہا ہے، صرف سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زیادہ رقم بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔
ڈائمنڈ کارڈ رکھنے والوں کو خاص مراعات دی جائیں گی، جن میں ایک غیرممنوعہ ہتھیار کا لائسنس، گریٹیز پاسپورٹ، پاکستانی سفارتخانوں اور قونصل خانوں میں ترجیحی بنیادوں پر رسائی اور پاکستانی ایئرپورٹس پر جلد از جلد امیگریشن کی سہولت شامل ہے۔
اسحاق ڈار نے تقریر کے دوران یہ بھی کہا کہ ریمینٹنس کارڈ ہولڈرز کو قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لیے اسکیم کا اجراء بھی کیا جائے گا۔
پاکستان کا عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوا لیکن حکومت نے بجٹ تخمینے میں آئی ایم ایف قرض کے تقریبا 2.4 ارب ڈالر شامل کرلیے ہیں۔
وفاقی بجٹ ستاویزات کے مطابق آئی ایم ایف سے بجٹ سازی کے لئے 969 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا جائے گا۔ یہ رقم 2.4 ارب ڈالر بنتی ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق ختم ہونے والے مالی سال 2022-23 میں آئی ایم ایف سے بجٹ سازی کے حصول کے لیے 558 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا تاہم جو رقم موصول ہوئی وہ 172.84 ارب روپے تھی۔
نئے مالی سال میں حکومت کو اسلامی ترقیاتی بینک سے 145 ارب روپے موصول ہونے کی توقع ہے۔
مزید پڑھیں: بجٹ میں لنڈے کے اشیا پر ڈیوٹی ختم
اسی طرح سعودی عرب پاکستان کے بینکوں میں 870 ارب روپے کے مساوی رقم بطور ٹائم ڈیپازٹ رکھوائے گا۔
یورو بانڈز کی نیلامی سے پاکستان کو435 ارب روپے حاصل ہوں گے۔
مزید پڑھیں: وزیر خزانہ کا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے خصوصی ”ڈائمنڈ کارڈ“ کا اعلان
پاکستان کو ای سی او ممالک سے تیل ساڑھے 29 ارب روپے کی تیل کی سہولت حاصل ہونے کی توقع ہے۔
آئی ایم ایف سے قرض لینے کے باوجود پاکستان کے اخراجات پورے نہیں ہوں گے لہٰذا حکومت حکومت تجارتی بینکوں سے 1305 ارب روپے کے مساوی قرض حاصل کرے گی۔
پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے مختلف منصوبوں کےلیے ملنے والے قرضے اور گرانٹس اس کے علاوہ ہیں۔
وفاقی بجٹ 2023-24 میں لنڈے سمیت پرانی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے جس کے بعد غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لیے سستے داموں پرانے کپڑوں کا حصول ممکن ہو جائے گا۔
دو برس سے پرانے اور دیگر پرانے سامان پر 5 سینٹ سے 50 سینٹ فی کلوگرام تک ڈیوٹی وصل کی جا رہی تھی۔
پرانے کپڑوں پر 5سینٹ فی کلو درآمدی ڈیوٹی عائد کی گئی۔ جوتوں پر 13سینٹ، لیدر جیکٹس پر امپورٹ ڈیوٹی 28 سینٹ فی کلو ہے۔
ہینڈ بیگز پر 49 سینٹ، کھلونوں پر47 اور برتن وغیرہ پر50 سینٹ فی کلو درآمدی ڈیوٹی الگ سے وصول کی جارہی تھی۔
نئے مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے پرانے کپڑوں پر ڈیوٹی ختم کردی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام غریب طبقے کو ریلیف پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔
اسی طرح حکومت نے 151 استعمال شدہ اشیا پر ریگولٹری ڈیوٹی ختم کی ہے جن میں کھیلوں کا سامان بھی شامل ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال کا 14 کھرب 460 ارب روپے کا خسارے کا بجٹ پیش کردیا۔ بجٹ کا خسارہ 7570 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 6.5 فیصد بنتا ہے۔
معاشی شرح نمو 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ، مہنگائی کی شرح 21 فیصد تک ہوگی، ایف بی آر کے لئے ٹیکس وصولی کا ہدف 92 کھرب روپے مقرر کیا گیا ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا وفاقی حکومت کی کل آمدنی کا تخمینہ 6887 روپے ہے۔ مجموعی اخراجات کا اندازہ 14460 ارب روپے ہے، سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے مجموعی طور پر 1150 ارب روپے خرچ ہوں گے، بجلی، گیس اور دیگر شعبوں پر سبسڈی کی مد میں ایک ہزار 74ارب روپے مختص، آئندہ مالی سال برآمدات 30 ارب ڈالر ہوں گی، کراچی میں پینے کے پانی کے منصوبے کے فور کے لئے ساڑھے 17 ارب روپے مختص، ، ایک لاکھ افراد کو لیپ ٹاپ دیے جائیں گے، اوورسیز پاکستانیوں کو خصوصی مراعات دینے کا اعلان، پچاس ہزار سے زائد ڈالر بھجوانے والوں کو ڈائمنڈ کارڈ جاری کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ خدائے برزگ و برتر کا شکر گزار ہوں، اتحادی حکومت کا دوسرا بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 2018 میں معاشی ترقی 6.1 فیصد پر پہنچ چکی تھی، مہنگائی کی شرح کم ہو کر 4 فیصد پر آچکی تھی، زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کا ریکارڈ قائم کر چکے تھے، 12 سے 16 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات ملی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2018 تک خوشحالی کا دور تھا، دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا، تھری ایز ہمارا مشن تھا لیکن پھر منتخب حکومت کے خلاف سازشوں کے جال بچھادیے گئے، ملک مشکل مراحل سے گزر رہا ہے، صورتحال کی اصل ذمہ دار سابق حکومت ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کبھی پاکستان کی معیشت دنیا میں 5 ویں نمبر پر تھی، پاکستان خوشحالی کے راستے پر گامزن تھا، پھر 2022 میں یہی معیشت 47 ویں نمبر پر آگئی، آج کی خراب معاشی صورتحال کی اصل ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابق حکومت ہے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل اہم تھی، لیکن سابق حکومت نے پروگرام کو جان بوجھ کر خراب کیا، سابقہ حکومت کے وزیرخزانہ نے فون کر کے 2 صوبائی وزراء خزانہ سے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل نہ کرو۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے حالات کی ذمہ داری نئی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی، ان کو یقین تھا کہ پاکستان کو کوئی دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا سکے گا، اس وقت مشکل فیصلے کیے جارہے ہیں، لیکن دشمنوں کے عزائم پورے نہیں ہورہے، حکومت نے مشکل فیصلوں سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا،اور سیاست نہیں ریاست بچاؤ پالیسی پر عمل کیا، اور سازشی عناصر کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کردیا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ سابق حکومت کے دور میں مالی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ گیا، شرح سود میں اضافے سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا، سابق حکومت کے 4 سال میں قرضوں میں 98 فیصد اضافہ ہوگیا، موجودہ حکومت نے کفایت شعاری سے کام لیا، اَن ٹارگٹڈ سبسڈی کو کسی حد تک کم کیا، بجٹ خسارے میں 1 فیصد کمی ہوئی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھاکہ 9 مئی کو رونما ہونے والے شرمناک واقعات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں، دفاعی تنصیبات کو بریت کا نشانہ بنایا گیا، ایسے عناصر نرمی کے حقدار نہیں، ایسے عناصر کو سخت سزائیں دی جانا چاہیے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت کو معیشت کو اندرونی و بیرونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کی ناگہانی کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب سے نقصانات کا اندازہ 30 ارب ڈالر ہے، عالمی خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد اضافہ ہوا، روس یوکرین جنگ، عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مشکلات بڑھیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 77 فیصد کمی آئی، 30جون تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4 ارب ڈالر پر آجائے گا، لگژری اشیا کی درآمد کو روکا گیا، مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا، آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی شرائط پورا کرچکےہیں، کوشش ہے کہ پروگرام پر جلد دستخط ہوجائیں، اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی گئی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی میں کمی آنا چاہیئے، زرعی شعبے کےلئے2000 سے زائد کسان پیکیج دیا، گندم کی بمپر کراپ سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مزید مراعات کا ارادہ ہے، صنعتی شعبے کے لئے آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، ایل ایس ایم سیکٹر میں بھی بہتری آئے گی، تاحال معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے، آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد ہے، بجٹ کو الیکشن بجٹ کے بجائے ذمہ دارانہ بنایا ہے، زرعی قرضوں کی حد 2250ارب روپے کی جا رہی ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ تاحال معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے، تاہم بجٹ کو الیکشن بجٹ کے بجائے ذمہ دارانہ بنایا ہے، آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد ہے، 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، معیاری بیجوں کی درآمد پر ڈیوٹیز ختم کردی ہیں، چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے بیج کو ڈیوٹیز سے مستثنی کردیا۔
وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ بزنس ایگری کلچر لون اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے ، بزنس ایگری کلچر لون کے لیے 10 ارب روپے مختص کر دیے، چھوٹے کسانوں کو کم منافع پر قرضہ دیا جائے گا، چھوٹے کسانوں کو 10 ارب روپے کے قرضے دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کا شعبہ آنے والے دنوں میں انجن آف گروتھ ثابت ہوگا، آئی ٹی سیکٹر پر انکم ٹیکس کی شرح سال 2026 تک برقرار رہے گی، فری لانسر کی 24 ہزار ڈالر سالانہ آمدن پر ٹیکس سے چھوٹ ہوگی، وینچر کیپٹل فنڈ کے لیے 5 ارب روپے مختص کردیے، آئی ٹی سیکٹر پر 15 فیصد سیلز ٹیکس کم کر کے 5 فیصد کردیا، آئندہ سال 50 ہزار آئی ٹی گریجویٹس تیار کیے جائیں گے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ چھوٹے کاروبار کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں، ایس ایم ایز کے لیے 6 فیصد مارک اپ پر 20 فیصد رسک حکومت برداشت کرے گی، ایس ایم ایز کے لیے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے، برآمدات کے لیے ایکسپورٹ کونسل کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ رائس ملز اور مائننگ مشینری کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دے دیا، ترسیلات زر برآمدات کے 90 فیصد کے برابر ہیں، بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے اگر پراپرٹی خریدیں گے تو ٹیکس ختم کردیا، ریمیٹنس کارڈ کے ساتھ ڈائمنڈ کارڈ کا اجراء کیا جارہا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تعلیم کی اہمیت پر دو رائے نہیں ہوسکتیں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 135 ارب روپے مختص کردیے، ایک لاکھ افراد کو لیپ ٹاپ دیے جائیں گے، ویمن ایمپاورمنٹ کے لیے 5 ارب روپے مختص کردیے، کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں چھوٹ دی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ تعمیراتی شعبے سے 40 سے زائد صنعتیں جڑی ہوئی ہیں، آئندہ 3 سال تک کنسٹرکشن اینٹرپرائز کی آمدنی پر 10 فیصد رعایت دی جائے گی، اطلاق یکم جولائی اور بعد میں شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 450 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں، یوٹیلیٹی اسٹورز کو 35 ارب روپے سے ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے گی، استعمال شدہ کپڑوں پر 10 فیصد ڈیوٹی کو ختم کردیا، کم آمدنی والوں کے لیے مائیکرو ڈیپازٹ اسکیم شروع کی جارہی ہے، سولر پینل، انورٹرز اور بیٹریز پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ رواں سال ایف بی آر کے محاصل 7200 ارب روپے رہنے کا اندازہ ہے، کل اخراجات کا تخمینہ 11 ہزار 90 ارب روپے ہے، دفاع پر 1510 ارب روپے خرچ ہوں گے، سول حکومت کے اخراجات 553 ارب ہوں گے، پنشن پر 654 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد ہے، آئندہ مالی سال بجٹ خسارے کا تخمینہ 6.54 فیصد ہے، آئندہ مالی سال برآمدات 30 ارب ڈالر اور ترسیلات کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے، آئندہ مالی سال ایف بی آر کے لئے ٹیکس وصولی کا ہدف 9200 ارب روپے ہے، وفاقی حکومت کی کل آمدنی 6887 ارب روپے ہوگی، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14460 ارب روپے ہوگا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ آئندہ مالی سال پی ایس ڈی پی کے لیے 950 ارب روپے رکھے ہیں، آئندہ مالی سال مجموعی ترقیاتی بجٹ کا حجم 1150 ارب روپے ہوگا، آئندہ مالی سال دفاع کے لیے 1804 ارب روپے رکھے ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجلی، گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے سبسڈی کی مد میں 1074 ارب روپے جبکہ اعلیٰ تعلیم اور ریلوے سمیت دیگر شعبوں کے لیے 1464ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے، ورکنگ جرنسلٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا جارہا ہے، پنشن فنڈ کے قیام کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال افراط زر کا ہدف 21 فیصد ہے، سماجی شعبے کی ترقی کے لیے 244 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، بلوچستان پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کے لیے 107 ارب روپے مختص کیے ہیں، کراچی میں پینے کے پانی کے منصوبے کے لیے 17ارب 50 کروڑ روپے مختص کردیے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے آئی ٹی سیکٹر کی حوصلہ افزائی کی ہے، اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا، حکومت کی کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے، رواں سال زیادہ آمدن والے افراد پر سپر ٹیکس لگایا تھا، سپر ٹیکس کے نفاذ کے لیے آمدن کی حد 15 کروڑ روپے ہے، برانڈڈ ٹیکسٹائل اور لیدر کی اشیا کی درآمد پر ٹیکس 15فیصد کردیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ای او بی آئی کے لیے کم از کم پنشن 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے، بیواؤں کے لیے 10 لاکھ روپے تک قرضہ جات حکومت ادا کرے گی، ریسٹورنٹ میں آن لائن ادائیگی پر ٹیکس 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کردیا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے، ایک سے 16 گریڈ تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک 35 فیصد اور 17 سے 22 گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا ہے، سرکاری ملازمین کی پنشن میں 17.5 فیصد تک اضافہ کردیا۔
وفاقی کابینہ نے ایک سے 16 گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد جبکہ 17 سے 22 گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کی منظوری دے دی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی گئی جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافے کا بھی حتمی فیصلہ کیا گیا۔
وفاقی کابینہ نے گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔
وفاقی کابینہ نے کم سے کم تنخواہ 30 ہزار روپے مقرر کرنے کی منظوری دی تاہم وزیراعظم نے مزدور کی تنخواہ میں مزید 2 ہزار کا اضافہ کرتے ہوئے کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے مقرر کرنے کی منظوری دی۔
اس کے علاوہ پینشنرز کی پینشن میں ساڑھے 17فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اندازہ ہے مہنگائی نے عام آدمی کی مشکلات بڑھا دی ہیں، عوامی مسائل کے حل پر توجہ ہے، چھوٹے کسانوں کے لیے بلاسود قرضوں میں توسیع کی جائے گی۔
وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے تنخواہوں اور پینشن میں اضافے کی خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ کیا جائے گا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عوام کو درپیش مشکلات کا احساس ہے، اندازہ ہے مہنگائی نے عام آدمی کی مشکلات بڑھا دی ہیں، عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ ہے۔
انہوں نے معاشی ٹیم کی ملکی معیشت کے استحکام کے لیے کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ چیلنجز اور سیلاب کے باوجود معاشی ٹیم کی خدمات قابل ستائش ہیں، حکومت زراعت اور آئی ٹی کی جدت پر خطیرسرمایہ کاری کرے گی، چھوٹے کسانوں کے لیے بلاسود قرضوں میں توسیع کی جائے گی۔
وفاقی کابینہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کا اہم ایجنڈا آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری ہے، ایک ایڈوائزر کی نشست خالی تھی، شیخ روحیل اصغر کو اپنا مشیرمقررکردیا ہے، شیخ روحیل اصغر کو کابینہ میں خوش آمدید کہتا ہوں۔
شہبازشریف نے کہا کہ وزیرخزانہ نے معاشی صورتحال پر کل بھرپور پریس کانفرنس کی، 14 ماہ میں پہلا امتحان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تھا، سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب سے نقصانات تباہ کن تھے، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے اقوام عالم سے امداد کی اپیل کی گئی، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے وفاق نے ایک سو ارب روپے خرچ کیے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ روس یوکرین جنگ سے عالمی منڈیوں میں چیزوں کی قیمتیں بڑھیں، آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کی جاچکی ہیں، امید ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری دے دی جائے گی، کوئی چیز ایسی باقی نہیں جو آئی ایم ایف معاہدے میں رکاوٹ بنے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عام آدمی پر مہنگائی کا بے پناہ بوجھ بڑھا ہے، پوری دنیا میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، مغربی ممالک کی معیشت اتنی طاقتور ہے کہ عوام کو ریلیف دے سکے، بدقسمتی سے ہمارے معاشی حالات ایسے نہیں ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دیرینہ دوست چین نے پاکستان کی مدد کی، آئی ایم ایف کے حوالے سے سعودی عرب، یو اے ای نے ہمارا ہاتھ تھاما، سعودی عرب اور یو اے ای نے پاکستان کو 3 ارب ڈالر فراہم کیے، سعودی عرب اور یواے ای کے بے حد شکر گزار ہیں۔
وزیرعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ مہنگائی نےغریب آدمی پر بے پناہ بوجھ ڈالا ہے، پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں واضح کمی آئی ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ زرعی شعبے میں بہت جلد اچھے نتائج مل سکتے ہیں، کسان کو گندم کی قیمت اچھی ملی تو ریکارڈ پیداوار ہوئیں، ویلیو ایڈیشن سے زرمبادلہ میں اضافہ ہوسکتا ہے، دنیا میں معیشت کا پہیہ سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے، سیاسی استحکام کے بغیرمعاشی استحکام نہیں آسکتا، ایک سال سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی استحکام نےمعاشی سرگرمیوں کا پہیہ جام کردیا، ملک میں سیاسی استحکام لانے کیلئےکوشاں ہیں، غریب آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے پس چکا ہے ، کم از کم تنخواہ میں خاطرخواہ اضافہ کرنا ہوگا، تنخواہیں اور پنشن آدھی سے بھی کم ہوگئی ہیں۔
وفاقی کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کی منظوری دے دی۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں 9200 ارب روپے کے ٹیکس ریونیو کا ہدف مقرر کر لیا ہے۔
ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 3759 ارب اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حجم 5441 ارب روپے ہے۔
ادھر بجٹ میں کم سے کم تنخواہ 30 ہزار مقرر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔
گریڈ ایک سے 16 کی تنخواہ میں 35 فیصد جبکہ گریڈ 17 سے 22 کے لیے 30 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ پینشن میں 17 اعشاریہ 5 فیصد اضافہے کی منظوری دی گئی۔
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 24-2023 بجٹ کے ساتھ اہم قوانین بھی متعارف کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈالر اور دیگر کرنسی کی ذخیرہ اندوزی پر قانون سازی کی جائے گی، غیر ملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی پر قید اور جرمانے کی سزا ہوگی۔
ذرائع کے مطابق غیر ملکی کرنسی ملک میں لانے کی حد بڑھانے کے لئے قانون متعارف کروایا جائے گا، قانون کا اطلاق غیر ملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے اداروں اور افراد پر ہوگا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس قانون کے تحت ملک میں ایک لاکھ ڈالر تک لانے والوں سے ذریعہ آمدن نہیں پوچھا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق کسٹمز کو اسمگلنگ کے خلاف آپریشن میونسپل کی حدود میں آپریشن کا اختیار دیا جائے گا، جب کہ لیویز اور خاصہ دار فورسز بھی کسٹمز کی مدد کرنے والے ڈیپارٹمنٹس میں شامل کئے جائیں گے.
دوسری جانب بجٹ میں ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے والوں کے ساتھ تاخیر سے فائل کرنے پر جرمانہ لگانے کی تجویز کی گئی ہے۔
سیکشن 165 کے تحت ودہولڈنگ اسٹیٹمنٹ فائل نہ کرنے پر 2 ہزار روپے جرمانے جب کہ ٹیکس ڈیفالٹ کرنے پر یومیہ 200 روپے اضافی جرمانے کی تجویز دی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ اس کے علاوہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ 25 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کریں گے، بجٹ میں پینشن اورسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا امکان ہے۔
اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے 1150 ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی منظوری دے دی، جب کہ آئندہ مالی سال کیلئے ترقی کی شرح 3.5 فیصد کا ہدف مقرر کی گئی ہے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کی کمیٹی روم نمبر 2 میں جاری ہے جہاں کابینہ اراکین کے لئے بجٹ دستاویزات اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے تیار کردہ ٹیکس اہداف کی دستاویزات پہنچائی گئیں۔
وفاقی کابینہ نے 1150 ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی منظوری دے دی ہے، آئندہ مالی سال کیلئے ترقی کی شرح 3.5 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں پیٹرولیم پروڈکٹس لیوی آرڈنیننس میں بھی ترمیم کی گئی ہے، جب کہ فارن ڈومیسٹک ورکرز پر 2 لاکھ روپے ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں انفراسٹرکچر کے لئے 491.3 ارب روپے، توانائی کے شعبے کے لئے 86.4 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے، کابینہ نے آبی ذخائر اور شعبہ آب کے لئے 99.8 ارب روپے مختص کرنے، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے لئے 263.6 ارب روپے جب کہ فزیکل پلاننگ اور تعمیرات کے لئے 41.5 ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دی ہے۔
فزیکل پلاننگ اور تعمیرات کے لئے 41.5 ارب روپے، سماجی شعبے کی ترقی کے لئے 241.2 ارب روپے، صحت کے شعبے کے لئے 22.8 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے لئےبجٹ میں81.9 ارب روپے رکھے گئے جب کہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے پروگراموں کے لئے 90 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔
دفاع کی مد میں 1804 ارب روپے مختص کیئے گئے، دفاعی بجٹ تینوں مسلح افواج کےعلاوہ وزارت دفاع، دفاعی پیداوار اور ذیلی اداروں کے لئے مختص کیئے گئے ہیں۔
مالی سال 24-2023 میں دفاعی بجٹ 1530 ارب روپے مختص کیا گیا تھا، روپے کی قدر کی مناسبت سے دفاعی بجٹ بہت کم رکھا گیا ہے۔
رواں مالی سال میں مسلح افواج نے قومی بچت مہم میں حصہ لیتے ہوئے اپنے کئی اخراجات کم کردیئے تھے۔
واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کریں گے، بجٹ میں پینشن اورسرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا امکان ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ شام 6 بجے سینیٹ کا رُخ کریں گے جہاں وہ بجٹ دستاویزات پیش کریں گے۔
سینیٹ اجلاس میں بجٹ، سفارشات کے لیے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھجوایا جائے گا لیکن بجٹ کے حوالے سے حکومت سینیٹ سفارشات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہوتی۔
اسلام آباد: نئے مالی سال 24-2023 کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر جرمانہ عائد کرنے کی تجویز بھی کردی گئی۔
ٹیکس ریٹرن تاخیر سے فائل کرنے پر جرمانہ لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔ سیکشن 165 کے تحت ودہولڈنگ اسٹیٹمنٹ فائل نہ کرنے پر 2 ہزار روپے جرمانے کی تجویز دی گئی ہے۔
ٹیکس ڈیفالٹ کرنے پر یومیہ 200 روپے اضافی جرمانے جب کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ 25 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئند مالی سال کے بجٹ میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کر دیا۔
دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال کے لئے جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی گروتھ 3.2 فیصد، الیکٹرسٹی جنریشن اور گیس ڈسٹریبیوشن کی گروتھ کا ہدف 2.2 مقررکیا گیا ہے۔
آئندہ مالی سال کے دوران تعلیم کی گروتھ کا ہدف 3.0 فیصد، ہول سیل اینڈ ریٹیل سیکٹر کی گروتھ کا ہدف 2.8 فیصد جب کہ ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن کےشعبےکی گروتھ کا ہدف 5 فیصد مقرر کی گئی۔
دستاویزات کے مطابق نجی شعبے کی پیداواری گروتھ کا ہدف 5 فیصد، رئیل اسٹیٹ کے شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.6 فیصد جب کہ فنانشل اینڈ انشورنس کے شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.7 فیصد مقرر کر دیا گیا ہے اور مہنگائی کیلئے 21 فیصد کا ہدف مقررکیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ زرعی شعبے کا ہدف 3.5 فیصد، اہم فصلوں کا ہدف 3.5 فیصد، لائیو اسٹاک کا ہدف 3.6 فیصد، کاٹن جین گروتھ کا ہدف 7.2 فیصد، جنگلات کی گروتھ کا ہدف 3.0 فیصد اور فشنگ شعبے کی گروتھ کا ہدف 3 فیصد ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار مالی سال 24-2023 کا بجٹ پیش کردیا، جس میں دفاع کے لیے 1804ارب روپے بجٹ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
دفاعی بجٹ کے حوالے سے عام تاثر یا غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ کُل بجٹ کا 70 یا 80 فیصد لے جاتا ہے، اس بار حکومت کی جانب سے کہا جاچکا ہے کہ تمام شعبوں میں بچت پالیسی اپنائی جائے گی۔
نئے مالی سال 2023-24 میں دفاع کے لئے بجٹ 1530 ارب سے بڑھا کر 1804 ارب کیا گیا ہے، مجوزہ تخمینہ میں سے پاک آرمی کو 824 ارب روپے ملیں گے، پاک آرمی کے بجٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 81 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق پاک فضائیہ کے لیے 368 ارب روپے دستیاب ہوں گے، بجٹ میں صرف 45 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جب کہ بحریہ کو 188 ارب روپے دینے کی تجویز ہے، اس بجٹ میں معمولی 18 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
نئے مالی سال کے بجٹ میں دفاعی امور اور خدمات کے لِئے 18 ارب 94 کروڑ 67 لاکھ ، دفاعی خدمات کے لئے 18 ارب 4 کروڑ، دفاعی ملازمین سے متعلق اخراجات کے لئے 705 ارب اور دفاع کے شعبے میں عملی اخراجات کے لئے 442 ارب روپے سے زیادہ مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔
دفاع کے شعبے میں مادی اثاثوں کی ترقی کے لئے 461 ارب سے زیادہ، ترقیاتی اخراجات کے لیے 3 ارب 40 کروڑ، شعبہ دفاعی پیداوار کے ترقیاتی اخراجات کے لئے 2 ارب ، دفاعی شعبے میں سول ورکس کے لئے 195 ارب اور دفاعی انتظامیہ کے لئے 5 ارب 40 کروڑ سے زیادہ رکھے جائِیں گے۔
دستاویزات کے مطابق ایف جی ایمپلائز بینوولینٹ فنڈ دفاع کے لئے 3 ارب 39 کروڑ سے زیادہ، گروپ انشورنس فنڈ دفاع کے لئے 16 کروڑ اور دفاع سے متعلق ڈیپازٹس اکاؤنٹس کے لِئے 2 ارب 92 کروڑ، وفاقی حکومت کے کینٹ و گیریژن میں تعلیمی اداروں کے لئے 12 ارب 51 کروڑ، ایٹمی توانائی کے شعبے میں نئے مالی کے دوران 16 ارب 63 کروڑ سے زیادہ، ایٹمی توانائی کے شعبے کی ترقی پر مصارف کا سرمایہ 26 ارب سے زیادہ اور پاکستان نیوکلئیر ریگولیٹری اتھارٹی کی ترقی پر مصارف کا سرمایہ 15 کروڑ ہو گا۔
دفاعی بجٹ کا خطے کے دیگر ممالک کے بجٹ کے ساتھ تقابلی جائزہ لیں تو بہت سے غور طلب نکات سامنے آتے ہیں۔
خطرے کے اِدراک، متفرق چینلجز اور پاکستان آرمی کی صف آرائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے دفاعی بجٹ کا تنقیدی اور تقابلی جائزہ غورطلب ہے، پڑوسی ملک کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ ہمیشہ ایک سے چیلنج رہا ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 76 ارب ڈال ہے، یعنی بھارت پاکستان کی نسبت اپنے ایک فوجی پر سالانہ 4 گنا زیادہ خرچ کر تا ہے۔
پاکستان میں ایک فوجی پر اوسطاً سالانہ13400 ڈالر، بھارت میں 42000 ڈالر، امریکا 392,000 ڈالر، ایران 23000 ڈالرجبکہ سعودی عرب371,000 ڈالر خرچ کرتا ہے۔
سالانہ دِفاعی اخراجات کے حوالے سے بھارت دْنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے جس کا دِفاعی بجٹ پاکستان کی نسبت 7 گْنا زیادہ ہے، اس کے علاوہ بھارت 5 سال کے دوران سالانہ 19ارب ڈالر خرچ کرکے دْنیا کا دوسرا بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک بھی بن چکا ہے، یہ اخراجات پاکستان کے دفاعی بجٹ سے دوگنا ہیں۔
دیگر ممالک کے دفاعی بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب کا دفاعی بجٹ 55.6 بلین ڈالر، چین کا 293 بلین ڈالر، ایران کا 24.6 بلین ڈالر، متحدہ عرب امارات کا 22.5 بلین ڈالر اور ترکی کا 20.7 بلین ڈالر ہے۔
اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو 2022 میں دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھا، جو 2023ء میں کم ہوکر 16 فیصد سے بھی کم ہو گیا، جس میں سے 7 فیصد پاکستان آرمی جب کہ باقی نیوی اور ائر فورس کے حصے میں آتا ہے۔ افراط زر کے دفاعی بجٹ پر اثرات اس کے علاوہ ہیں ، سال 2020 کے بعد سے پاک فوج کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ، نہ ہی مسلح افواج کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ کیاہے۔
سال 2017/18کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھا جبکہ :
2018-19میں دفاعی بجٹ 19فیصد 2019-20میں دفاعی بجٹ 14 فیصد 2020-21کا دِفاعی بجٹ 17.7فیصد 2021-22کا دفاعی بجٹ 16 فیصد اور 2022-23کا دفاعی بجٹ 16 فیصد رہا۔
سال 2018 کے بعد کولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش کے باوجود دِفاعی اور سیکیورٹی ضروریات کو ملکی وسائل سے پورا کیا گیا، متفرق آپریشنز کے اہداف اور دائرہ کار سمیت دیگر سیکیورٹی اْمور میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار آئندہ مالی سال 24-2023 کا خسارے کا بجٹ پیش کردیا۔ بجٹ کا مجموعی حجم 14460 ارب روپے ہے۔ تاہم اس میں سے نصف سے زائد رقم قرضوں کے سود کی ادائیگی میں جائے گی۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق خسارہ 7570 ارب روپے ہے۔
بجٹ میں ٹیکسوں کے خاتمے یا کمی کے نتیجے میں سولر سسٹم کی اشیا، ہائبرڈ گاڑیاں، ڈائپرز، ادویات کا خام مال اور دیگر کئی اشیا سستی ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب ٹریڈ مارک اور برانڈ پر فروخت ہونے والی اشیا پر ٹیکس لگا دیا گیا،
باہر کھانا کھانے والوں سے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی پر صرف 5 فیصد سیلز ٹیکس لیا جائے گا جبکہ دیگر افراد کے لیے یہ شرح 15 فیصد ہی رہے گی۔
حکومت نے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا ہے۔
بجٹ اجلاس سے پہلے وفاقی کابینہ نے اپنے خصوصی اجلاس میں بجٹ 24-2023 کی منظوری دے دی، اور وزیراعظم شہباز شریف نے بجٹ تجاویز پر دستخط کردیئے۔ جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی صدارت میں شروع ہوا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار آئندہ مالی سال 24-2023 نے بجٹ پیش کیا، اتحادی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔
فنانس بل 2023 -24 کی تفصیلات آج نیوز نے حاصل کرلی ہیں۔
ذرائع کے مطابق بجٹ کا حجم 14 ہزار 500 ارب روپے سے زائد تجویز کیا گیا ہے، جس میں اربوں روپے کے نئے ٹیکسز بھی عائد کیے جائیں گے، وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں 9200 ارب روپے کے ٹیکس ریونیو کا ہدف مقرر کرلیا ہے، ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 3759 ارب اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حجم 5441 ارب روپے ہے۔ بجٹ میں آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد اور بجٹ خسارے کا تخمینہ 6.54 فیصد ہے۔
نئے بجٹ میں شیئر ہولڈرز کی سالانہ 15کروڑ سے کم آمدن پر ٹیکس صفر ہوگا، تاہم شیئرہولڈرز کی 15سے 30 کروڑ آمدن پر1 فیصد، 20 سے 25 کروڑ آمدن پر 2 فیصد، 25 سے 30 کروڑ آمدن پر 3 فیصد، 30 سے 35 کروڑ آمدن پر 4 فیصد، 30 سے 35 کروڑ آمدن پر 4 فیصد، 35 سے 40 کروڑ آمدن پر 6 فیصد، 40 سے 50 کروڑ آمدن پر 8 فیصد جب کہ 50 کروڑروپے سے زائد آمدن پر 10 فیصد ٹیکس ہوگا، بونس شیئر پر بھی 10 فیصد ٹیکس دینا ہوگا، اس کے علاوہ غیر معمولی منافع کمانے والوں پر بھی اضافی ٹیکس لگے گا۔
نئے بجٹ کے مطابق اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کمپنی کی 25 کروڑ سے زائد آمدن پر 1.25 فیصد ٹیکس ہوگا، سالانہ 25 کروڑ سے 80 کروڑ ٹرن اوور پر 20 فیصد ٹیکس ہوگا۔
بجٹ میں فارن ڈومیسٹک ورکرز پر 2 لاکھ روپے ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، جب کہ بجٹ کے بعد مشروبات اور گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا امکان ہے، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح بھی مزید بڑھائے جانے کا امکان ہے۔
بجٹ میں 50 ہزار روپے بینک ٹرانزکشن پر 0.6 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، تاہم اس میں جن افراد کا نام ٹیکس پیئر لسٹ میں موجود نہیں ان پر یہ ٹیکس لگایا جائے گا، ایک روز میں 50 ہزار روپے سے زائد کی ٹرانزکشن پر ٹیکس ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں پیٹرولیم پروڈکٹس لیوی آرڈنیننس میں بھی ترمیم کی گئی ہے، فارن ڈومیسٹک ورکرز پر 2 لاکھ روپے ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، اور شیشے سے متعلق سامان پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے، اور سیور کےعلاوہ بلب پر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔
بجٹ 2023 - 24 میں ٹریڈ مارک اور برانڈ پر فروخت ہونے والی کھانے پینے کی اشیاء پر اب سیلزٹیکس عائد ہوگا، باہرکھانا کھانے اور کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی پر 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا، بیرون ملک سے ملازم رکھنے والوں کو ورک پرمٹ پر 2 لاکھ ایڈجسٹ ایبل ایڈوانس ٹیکس دینا ہوگا۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مزید مراعات کا ارادہ ہے، صنعتی شعبے کے لئے آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، ایل ایس ایم سیکٹر میں بھی بہتری آئے گی، تاحال معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے، آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد ہے، بجٹ کو الیکشن بجٹ کے بجائے ذمہ دارانہ بنایا ہے، زرعی قرضوں کی حد 2250 ارب روپے کی جا رہی ہے۔
کابینہ نے نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک 30 فیصد اضافے کی منظوری دے دی ہے۔
بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 کی تنخواہ میں 35 فیصد، گریڈ 17 سے 22 کے لیے 30 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے، اور پینشن میں 17 اعشاریہ 5 فیصد اضافہ کی منظوری دی گئی ہے، پنشن پر 654 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ جب کہ کم سے کم تنخواہ 30 ہزار مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق سرکاری ملازمین کے ڈیوٹی سٹیشن سے باہر سرکاری سفر، رات کے قیام کے ڈیلی الاؤنس، معالج الاؤنس میں اضافہ کی تجویز دی گئی ہے۔
بجٹ میں سولر انورٹرز کے پارٹس پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے، اس کے علاوہ کنٹرول بورڈ، پاور بورڈ اور چارج کنٹرولر، اے سی ان پٹ اور آؤٹ پٹ ٹرمینل، اور زرعی بیجوں پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے، بجلی کی پیداوار اور ترسیل پر بھی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔
بجٹ میں ڈائپرز اور سینیٹری نیپکن پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے، مائننگ مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے، ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر ڈیوٹی ایک فیصد کردی گئی ہے، ہابرڈ وہیکلز کے پرزہ جات کی درآمد پرڈیوٹی 4 فیصد کردی گئی ہے، ایشین میک 1300 سی سی گاڑیوں کی امپورٹ کی فکسڈ ڈیوٹی کی پابندی واپس لے لی گئی ہے۔
آئندہ بجٹ میں ضروی اشیاء کی درآمدات پر ڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، قرآن کی چھپائی کے لیے آرٹ کارڈ اور بورڈ ایکسائز ڈیوٹی سے مستثنی کیا گیا ہے۔
بجٹ میں فارما کمپنیز کے لیے سہولت دی گئی ہے اور فارما کمپنیز کے لیے مزید 3 ڈرگز ڈیوٹی فری ریجیم میں شامل کی گئی ہے۔
بجٹ میں ڈائپرز اور سینیٹری نیپکنز پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، جب کہ سولر پینلز کے لیے استعمال اشیاء اور مشینری پر کسٹمز ڈیوٹی نہیں ہوگی، انورٹرز اور بیٹریز پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔
بجٹ میں آئی ٹی کے ایکسپورٹرز کے لیے بھی بجٹ میں سہولت دی گئی ہے، آئی ٹی سے متعلق سامان پر کوئی امپورٹ ڈیوٹی نہیں ہوگی، مانیٹرز اور پروجیکٹرز پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔
آئی ٹی سیکٹر پر انکم ٹیکس کی شرح سال 2026 تک برقرار رہے گی، فری لانسر کی 24 ہزار ڈالر سالانہ آمدن پر ٹیکس سے چھوٹ ہوگی، وینچر کیپٹل فنڈ کے لئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، آئی ٹی سیکٹرپر 15 فیصد سیلز ٹیکس کم کر کے 5 فیصد کردیا گیا ہے، اور آئندہ سال 50 ہزار آئی ٹی گریجویٹس تیار کئے جائیں گے۔
بجٹ کے مطابق چھوٹے کاروبار کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں، ایس ایم ایز کےلئے 6 فیصد مارک اپ پر 20 فیصد رسک حکومت برداشت کرے گی، ایس ایم ایز کے لئے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے۔
بجٹ کے مطابق ایک لاکھ افراد کو لیپ ٹاپ دیئے جائیں گے، جب کہ خواتین کو خود مختار کرنے کے لئے 5 ارب روپے مختص کیے ہیں، اور کاروباری خواتین کے لئے ٹیکس کی شرح میں چھوٹ دی جائے گی۔
بجٹ میں آئندہ 3 سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائز کی آمدنی پر 10 فیصد رعایت دی جائے گی، اور اس کا اطلاق یکم جولائی اور بعد میں شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔
بجٹ میں کپیسیٹرز مینوفیکچررز کے لیے بھی کسٹم ڈیوٹی میں رعایت دی گئی ہے، جب کہ کھانے میں استعمال ہونے والے پاؤڈر کی امپورٹ پر جون 2024 تک رعایت دی گئی ہے، مولڈ اور ڈائس میں استعمال سامان پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے جبکہ رائس مل مشینیری کے لیے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کی گئی ہے، مشینیوں کے ٹولز کی درآمد پر بھی کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں ہوگی۔
بجٹ میں اسپورٹس کے پرانے سامان کی امپورٹ پر بھی ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے، فلیٹ پینلز پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے اور سلیکون اسٹیل شیٹس پر بھی کوئی ریولیٹری ڈیوٹی نہیں ہوگی۔
بجٹ میں زرعی شعبے کے لیے بھی بجٹ میں سہولت دی گئی ہے، تجارتی سہولتوں اور پیداواری لاگت میں کمی پر توجہ دی گئی ہے اور سرمایہ کاری اور انڈسٹرلائزیشن کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔
بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مراعات کا اعلان کیا ہے، اور ہیوی کمرشل وہیکلز پر کسٹم ڈیوٹی 10سے کم کر کے 5 فیصد کردی گئی ہے۔ ہر قسم کے بیج کی درآمد کسٹم ڈیوٹی سے مستثنی ہوگی، جھینگے اور چھوٹی مچھلی کی امپورٹ پر ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے جبکہ 75 کلو واٹس سے کم زرعی ٹریکٹرز کی درآمد پر ڈیوٹی 15 فیصد کردی گئی ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اس حوالے سے بتایا کہ زرعی شعبے کے لئے2000 سے زائد کسان پیکیج دیا، بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مزید مراعات کا ارادہ ہے، صنعتی شعبے کے لئے آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، جب کہ زرعی قرضوں کی حد 2250ارب روپے کی جا رہی ہے۔
بجٹ میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، معیاری بیجوں کی درآمد پر ڈیوٹیز ختم کردی گئی ہیں چاول کی پیداوار بڑھانے کےلئے بیج کو ڈیوٹیز سے مستثنی کردیا گیا ہے، رائس ملز اور مائننگ مشینری کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنی دے دیا گیا ہے۔
بجٹ میں بزنس ایگری کلچر لون اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے، جس کے لئے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، چھوٹے کسانوں کو کم منافع پر قرضہ دیا جائے گا، اور انہیں 10 ارب روپے کے قرضے دیئے جائیں گے۔
بجٹ کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے اگر پراپرٹی خریدیں گے تو ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ 2023-24 میں لنڈے سمیت پرانی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، جوتوں پر 13 سینٹ، لیدر جیکٹس پر امپورٹ ڈیوٹی 28 سینٹ فی کلو ہے۔ ہینڈ بیگز پر 49 سینٹ، کھلونوں پر47 اور برتن وغیرہ پر50 سینٹ فی کلو درآمدی ڈیوٹی الگ سے وصول کی جارہی تھی۔
بجٹ اجلاس سے پہلے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، جس میں بجٹ 24-2023 کی منظوری دی گئی، اور وزیراعظم شہبازشریف نے بجٹ تجاویز پر دستخط کیے، جس کے بعد وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔
قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس تاخیر کا شکار ہوا، بجٹ اجلاس 4 بجے شروع ہونا تھا جو تاخیر کے بعد تقریباً 6 بجے شروع ہوا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی بجٹ دستاویزات پیش کیا۔ سینیٹ اجلاس میں بجٹ، سفارشات کے لیے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھجوایا جائے گا، لیکن بجٹ کے حوالے سے حکومت سینیٹ سفارشات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہوتی۔