Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
اسلام آباد: سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مولانا فضل الرحمان نے ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مزاکرات کرنے سے انکار کردیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور مولانا فضل ارحمان کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں پی ڈی ایم سربراہ نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کے اصرار پر فضل الرحمان نے مشاورت کے لئے وقت مانگ لیا ہے۔
ملاقات میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی 10 سال میں خیبر پختونخوا کو برباد کردیا، مذاکراتی عمل سے کوئی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے لئے اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے شہباز شریف کو پی ڈی ایم سربراہ کے ساتھ ملاقات کی تفصیل سے آگاہ کیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے کچھ تجاویز دی ہیں سیاسی جماعتیں اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت طکوئی فیصلہ کرے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان اور سینئیر صحافی عاصمہ شیرازی سے خصوصی گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ ایک سوال ذہن میں ضرور ابھرتا ہے کہ خیبر پختونخوا کیلئے اتنا اصرار نہیں الیکشن کے اوپر جتنا پنجاب پر ہے۔ آپ کا صوبہ 65 فیصد آبادی کا ہے اس میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ اکتوبر کے الیکشنز پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین میں یہ چیز رکھی گئی تھی کہ ایک ہی دن الیکشن ہوں تاکہ حکومتیں جہاں بھی بننی ہیں وہ ایک ہی دن بنیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ’یہ معاملہ بھی جو اس نہج پر پہنچا ہے، اس میں عدلیہ کے فیصلے ہیں دو کہ پہلے ایک انٹرپریٹیشن (وضاحت) قانون کی ہوئی جس کے تحت ووٹ دے سکتے تھے لوگ، پھر ہوا کہ ووٹ نہیں دے سکتے‘، جس پر عاصمہ نے واضح کیا کہ 63 اے کی جو تشریح تھی جسے آپ لوگ کہتے ہیں کہ ری رائٹ کیا گیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ’ایک چیز حالات میں آپ جائز قرار دے رہے ہیں اور ایک حالات میں ناجائز قرار دے رہے ہیں تو اس طرح تو نہیں ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ حالات میں اب عدم استحکام کا عنصر شامل کیا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ کو انتخابات کے حوالے سے وزارت دفاع کی بریفنگ پرخواجہ آصف نے کہا کہ اگربریفنگ بند کمرے کے بجائے عدالت میں مانگی جاتی تو وہ دی جاسکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عدالت چاہتی تھی کہ اوپن کورٹس میں دیتے ریمارکس تو ان کو کہہ سکتے تھے ، انہوں نے ہی اجازت دی نا‘۔
اقنہوں نے کہا کہ یکم اپریل کے آس پاس وزارت دفاع نے ایک بریفنگ دی تھی اور کہا تھا کہ اگر عدالت چاہے تو اس پر تفصیلی بریفنگ دے سکتے ہیں۔
عاصمہ نے سوال کیا، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈی جی آئی بی ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی کورٹ میں بھی پیش ہوسکتے تھے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ’اگر کورٹ کی خواہش ہوتی ہے تو اس کو ڈینائی (انکار) نہیں کیا جاسکتا تھا، ان کی خواہش ہوتی کہ بھئی نہیں ہم نے بند کمرے میں نہیں لینی ہے آپ عدالت میں کردیتے، تو بریفنگ عدالت میں دیدی جاتی‘۔ حساس باتیں لکھ کر بھی دی جاسکتی تھیں، سوال جواب ادھر بھی ہوسکتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر دفاع نے کہا کہ پارلیمنٹ نے جو کرنا تھا آج سے دو تین روز قبل وہ فیصلہ کرلیا، ہم فنڈز نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی کہہ دیا کہ اگر ایک وقت پر انتخابات ہوں تو بہتر ہوگا، یہ جو فساد ہوگا اس سے انارکی پھیلے گی۔ اس صورتحال میں اتنے ادارے جو ہیں پاور اسٹرکچر کے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ میں بھی ایک دراڑ ہے، اس میں بھی ایک لکیر آئی ہوئی ہے، اس میں بھی چار ججز کا نوٹ جو سامنے آیا ہے ریکارڈ پر ہے تو اس ملک کی اشرافیہ کا ایک بہٹ بڑا حصہ ایک پیج پر ہے۔ لیکن اصرار کیا جارہا ہے، ’میں نہایت ادب کے ساتھ کہوں گا کہ پارلیمنٹ کا بھی ایک رول (کردار) ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میں اس ادارے کا ایک حصہ ہوں، ممبر ہوں اس کا ، تو وہ رول جو ہے وہ میرا خیال ہے کہ میں ایک ایسے ادارے کا حصہ ہوں جو سپریم ہے‘ تو اس لئے باقی تمام تر اداروں کو نکارنا وہ بھی انتخاباً آپ پنجاب کیلئے کر رہے ہیں۔
مئی اور اکتوبر کے درمیان میں انتخاب کی تاریخ پر انہوں نے کہا کہ یہ تو ملک میں ایک ریت پڑ جائے گی نا، ’ایک آدمی جو کوڑے والی بالٹی سر پر لے کر پھر رہا ہے کہ جی مجھے سیکیورٹی کا خطرہ ہے، اس نے بلیک میل کیا ہے، اس نے تو اسٹیٹ کو ریاست کو بلیک میل کیا ہے، اپنی ڈکٹیٹ کروائی ہیں خواہشات، یہ تو نہیں ہوگا‘۔
خواجہ آصف نے عمران خان کے حوالے سے کہا کہ وہ کہتا ہے مجھے دو تہائی اکثریت نہ ملی تو میں الیکشن کا رزلٹ نہیں مانوں گا، میں اسمبلی تحلیل کردوں گا، اور ساتھ وہ کہہ رہا ہے کہ میرے مقدمے بھی ختم کرو، ’یہ جو ٹیم آئی ہے انہوں نے کہا ہے کہ مقدمے ختم کریں، یہ جو مذاکرات والا جو سلسلہ چلا ہوا ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ مقدمے بھی ختم کریں‘.
انہوں نے کہا کہ ’مذاکرات غیر مشروط اور جامع ہونے چاہئیں، مذاکرات صرف سیاستدانوں میں نہیں ہونے چاہئیں، اس میں سارے لوگ جو وقتاً فوقتاً یا تو اقتدار کو دوام بخشتے رہے ہیں، یا اقتدار میں غیر آئینی طریقوں سے آتے رہے ہیں، اور جو لوگ ان کے اوپر انگوٹھا لگاتے رہے ہیں ان کو لیجٹمائز کرتے رہے ہیں، حرام کو حلال کرتے رہے ہیں، یہ سارے لوگ جو ہیں سب قصور وار ہیں اس میں ہم سیاستدان بھی قصوروار ہیں، ہم سب لوگ جو ہیں ہم سارے بیٹھیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کیلئے نیت ٹھیک ہو تو پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کریں، جو کمیٹی بن سکتی ہے وہاں اس میں اُن (پی ٹی آئی) کو مدعو کیا جاسکتا ہے ۔ ’اس میں اگر آپ نے اسٹبلشمنٹ کو بلانا ہے ، بیوروکریسی کو بیچ میں پارٹ کرنا ہے، یا میڈیا یا بگ بزنس کو بیچ میں لانا ہے، یہ سارے پلئیرز ہیں نا، یہ سارے ایکٹرز ہیں ایک قومی اسٹیج کے اوپر۔‘ پارلیمنٹ جو ہے ان مذاکرات کا ایک حصہ ہوگی۔
انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ وہ (عمران خان) این آر او مانگتا ہے ، وہ کہتا ہے مقدمے ختم کرو میرے، الیکشن کی تاریخ دو مجھے۔ اس قسم کی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔
سپریم کورٹ نے اگر وزیراعظم کو گھر بھیج دیا؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ اس کا بھی حل نکالا جاسکتا ہے، ’اس نہج پر پہنچیں گے یا اس اسٹیج پر پہنچیں گے تو حل اس کا بھی نکل آئے گا‘۔
عاصمہ نے سوال کیا کہ اگر بھاری نااہلیت ہوجاتی ہے کابینہ کی اور اس دوران اعتماد کو ووٹ مانگ لیا جاتا ہے وزیراعظم سے تو کیا ہوگا؟
جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ایک شخص کی خواہشات کے اوپر ساری قربان کی جاسکتی بھینٹ چڑھایا جاسکتا ہے سارا کچھ تو بدقسمتی ہے۔ ہم اس کیلئے تیار ہیں۔ یہ چیزیں آنی جانی ہیں۔
خواجہ آصف نے سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان کوئی فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں کہا کہ اللہ کرے کہ ڈیڈلاک نہ ہو کوئی ایسا رستہ نکل آئے، ہماری 75 سال کی تاریخ ہے کہ آئین جو واضح کرتا ہے وہ نہیں ہوتا، ہر کوئی اپنی کریز سے نکل کر کھیلتا ہے، ہو کرئی دوسرے کی حدود لانگتا ہے۔
مارشل لاء اور مداخلت کے سوال پر وزیر دفاع نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ خیر کرے گا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل 2023 پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام اداروں میں اگر نوک پلک سدھارنے کی گنجائش ہے، یا کہیں مضمل ہوئے ہیں کوئی ادارہ مضمل ہے اس میں انہیں تقویت دینے کی ضرورت ہے تو جو قانون ابھی ہم نے پاس کیا ہے یہ بھی اسی طرف ایک قدم ہے۔ اگر یہ اقدامات اٹھا لئے جائیں اور عدلیہ ان کا حصہ ہو اور وہاں بھی ایسے فیصلے کئے جائیں جو مساوات کی بنیاد پر ہوں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں جامع مذاکارت ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جو صورتحال ہے اس میں فیصلے اجتماعی ہونے چاہئیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان گرفتار ہوجائے تو قوانین موجود ہیں جن سے انہیں ریلیف بھی مل سکتا ہے اور سزا بھی مل سکتی ہے۔
نواز شریف کی واپسی کے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ اس کنفیوژن میں ہم میاں صاحب کو اگر بلالیں کہ کل کا کچھ پتا نہ ہو تو بہت کچھ داؤ پر ہے، فیصلہ تھوڑا سوچ سمجھ کر کرنا چاہئیے۔
جماعت اسلامی نے چیف جسٹس کے ریمارکس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ سپریم کورٹ کچھ وقت سیاسی جماعتوں کو دے، ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، تمام لیڈرز کے اشارے مثبت ہیں امید ہے کہ ان کوششوں کا مثبت نتیجہ نکلے گا۔
سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی قیصر شریف کا کہنا ہے کہ امید ہے سیاسی جماعتیں ایک ہی دن الیکشن کی تاریخ پر اتفاق کر لیں گی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آج وزارت دفاع کی جانب سے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو گنجائش نکال سکتی ہیں، اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا۔
اٹارنی جنرل نے بھی عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہورہی ہیں، امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے ہیں، اور دونوں فریقین نے مذاکرات کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے صحت عبدالقادر پٹیل نے قومی اسمبلی میں دئیے گئے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک واقعہ پر بات کی جس کا غلط تاثر گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل نے وضاحتی بیان میں کہا کہ تاثر مل رہا تھا کہ کوئی زیادہ معتبر اور کوئی چھوٹا ہے، اس معاملے پر میں نے کوئی بات کردی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی ادارے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کرتے ہیں، سیکیورٹی ادارے ملک کی دفاع کے لیے فرنٹ لائن ہیں، ان سیکورٹی اداروں کے لیے ہمارے دل میں احترام اور عزت ہے۔
عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ کسی کی دل آزاری ہوئی تو وہ نہیں ہونی چاہئے تھی، ہمارا مقصد کسی کی حوصلہ شکنی نہیں ہے، روانی میں دو چار باتیں ہوئیں تو میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔
عبد القادر پٹیل نے 17 اپریل کو قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ جرنیل، ججز کو اتنا پروٹوکول ملتا ہے لیکن مفتی عبدالشکور کے ساتھ ایک پولیس والا بھی نہیں تھا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے قادر پٹیل نے کہا کہ مفتی عبدالشکور ایک بہترین عالم دین کے ساتھ ایماندار وفاقی وزیر تھے، وہ ہمارا قیمتی سرمایہ تھے، ایک صاف گو وفاقی وزیر جس طرح چل بسا وہ بھی انتہائی افسوسناک ہے، لینڈ کروزر لے کر ایک وفاقی وزیر کو 1300 سی سی گاڑی دی گئی جو مکمل طور پر پچک گئی اور بڑی بڑی گاڑیاں خراب ہونے کیلئے کھڑی کر دی گئی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے مزید کہا کہ ہمارے وفاقی وزیر کے پاس گاڑی ہوتی اور سکواڈ ہوتا تو کم از کم اسے ہسپتال تو پہنچایا جا سکتا تھا، مولانا عبدالشکور تروایح کے بعد اپنے دفتر جا رہے تھے، مولانا عبدالشکور کو تھریٹ بھی تھے، ایک لاکھ 68 ہزار سے ہمارا گزارا نہیں ہوتا، اسی لیے مفتی عبدالشکور نے کہا تھا تنخواہ میں گزارا نہیں ہو رہا، سفید پوش وفاقی وزیر کس طرح تنخواہ پر گزارا کر رہا تھا۔
وفاقی وزیر صحت نے مزید کہا ہے کہ ایئر پورٹ پر ڈی جی اے ایس ایف کا پروٹوکول دیکھ کر حیران رہ گیا، ایئرپورٹ پر ہمیں ہٹا کر ڈی جی اے ایس ایف کو پروٹوکول دیا جا رہا تھا، وہاں مجھے سمیت 3 وفاقی وزراء کو دھکے پڑے، ہم کفایت شعاری کے نام پر کیا کر رہے ہیں، اگر ہم اپنے لیے سچ نہیں بولیں گے تو عوام کیلئے بھی نہیں بول سکیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ جس انداز میں ہم نے ایک بنانا ریپبلک کا روپ دھارا ہے جہاں قانون کی حکمرانی کی بجائے محض جنگل کا قانون ہی رائج ہوتا ہے، اسے دیکھ کر اب یہ واضح ہوچلا ہے کہ ’ملک میں خوف و دہشت کے راج کی ڈوریاں پی ڈی ایم نامی کٹھ پتلیوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس قوت کے ہاتھ میں ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔‘
ٹوئٹر پر جاری ایک تھریڈ میں انہوں نے لکھا کہ ’ہمارے لوگ اغواء کئے جاتے ہیں جنہیں بعد میں جعلی مقدموں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ ایک مقدمے میں ضمانت ملتی ہے تو دوسرا مقدمہ سامنے آجاتا ہے۔‘
عمران خان نے لکھا کہ ’145 سےزائد مقدمات تو صرف مجھ پر قائم ہیں۔ جھوٹے پرچوں کا ایک سرکس ہے جو لگایا گیا ہے۔ میری بنی گالہ کی رہائشگاہ کےمنتظم، میرے زمان پارک کے باورچی، سوشل میڈیا کے ہمارے ذمہ دار اظہر مشوانی، وقاص اور میرے سیکورٹی انچارج افتخار گھمن وغیرہ سب کو اغواء کیا گیا اور ”سافٹ ویئر آپ ڈیٹ“ کی کوششوں کے تحت انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘
عمران خان نے مزید لکھا کہ ’علی امین کو ایک جعلی مقدمے میں ضمانت ملی تو ایک اور پرچہ نکل آیا، اور اب تو ایک اور مقدمہ بھی سامنے آچکا ہے جس کے تحت پولیس اسے لاہور منتقل کررہی ہے۔ رستے میں ناسازی طبع کے باعث اسپتال منتقلی کے باوجود طبعیت میں بہتری و استحکام سے پہلے ہی اسے اسپتال سے بھی لے جایا گیا ہے۔ ملک پوری طرح فسطائیت کے نرغے میں ہے۔‘
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا۔ اے این پی کا کہنا ہے کہ تین رکنی بنچ اپنی ساکھ کھوچکا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی سے مذاکرات کی ضرورت محسوس ہوئی تو براہ راست بات کریں گے۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ اے این پی تین رکنی بنچ عرف گینگ آف تھری کے سامنے پیش نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اس تین رکنی پراکسی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ عدالتی مصروفیات کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکا۔
آئین پاکستان کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر لکھے گئے خط میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آئین پارلیمنٹ کو ریاست میں قوانین وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ پارلیمان اچھے قوانین تشکیل دے، ایسے قوانین جو آئین کےاعلیٰ معیار پر پورے اتریں، اور یہ قوانین آئین کے مطابق قوم کی ترقی کریں، یہ قوانین قوم کی خوشحالی اور امن میں رہنمائی بھی کریں۔
وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ عمران خان کو عدالت جانے کیلئے منہ چھپانا پڑتا ہے، ٹکٹ فروخت ہونے کے بعد کی بھی آڈیو آنا باقی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ 4 سال ملک پر ایک غیر آئینی ٹولہ مسلط رہا، تحریک انصاف نے ملک کی خارجہ پالیسی کونقصان پہنچایا، عمران خان کی چوری اورکرپشن سے ملک کو نقصان پہنچا، اور اس کی ناقص پالیسیوں سے ملک میں مہنگائی ہوئی۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے دور میں ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا، اور ترقی کرتی ہوئی معیشت کا پہیہ روک دیا، اس کے دور میں 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، اور 2 کروڑ خط غربت سے نیچے چلے گئے، اب عمران خان کو عدالت جانے کیلئے منہ چھپانا پڑتا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اتحادی حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، وزیراعظم کی قیادت میں حکومت عوام کو ریلیف فراہم کر رہی ہے، اتحادی حکومت نے بی آئی ایس پی کے فنڈز کو بڑھا کر 400 ارب کیا، اور 1800 ارب کا تاریخ کسان پیکج دیا۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے دور میں ملک تیزی سے ترقی کررہا تھا، ان کے دور میں لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کاخاتمہ ہوا، جب کہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی، اور اس کے دور میں ملکی تاریخ کا ریکارڈ قرض لیا گیا۔
وزیراطلاعات نے کہا کہ عمران خان آج عدالت میں منہ پر بالٹی ڈال کر اپنے اعمال کی وجہ سے جاتا ہے، 4 سال کی مہنگائی کے ذمہ دار کو کچھ لوگ کنستر اور کچھ بالٹی کہہ رہے ہیں، عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا ہوگا تو کوئی عوام کو منہ نہیں دکھا سکتا، آپ کی شکل بالٹی سے چھپ تو سکتی ہے لیکن آپ کی چوری اور کرپشن کسی بالٹی سے نہیں چھپ سکتی۔
مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ شرم کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ 1 کروڑ میں بک رہا ہے، ٹکٹ فروخت ہونے کے بعد کی بھی آڈیو آنا باقی ہے، پیسہ کس کے اکاؤنٹ میں جائے گا وہ بھی آڈیو آنا باقی ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ حکومت زمان پارک پرحملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، اسے روکا جائے۔
عید کی چھٹیوں میں گرفتاری کے پیش نظر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آبادہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔
عمران خان نے اپنے وکیل فیصل چوہدری کے ذریعے عدالت میں درخواست دائر کی ہے، جس میں استدعا کی ہے کہ اسلام آباد میں درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں عمران خان نے استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا ہے کہ حکومت عید کی چھٹیوں میں گرفتار کرنا چاہتی ہے، اور زمان پارک پر حملے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، عید کے دنوں میں گرفتاری کو عدالتی اجازت سے مشروط کیا جائے۔
عمران خان نے اپنی درخواست میں وفاق بذریعہ سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے کو فریق بناتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ فریقین عمران خان کو پی ڈی ایم حکومت کی ایما پر ہراساں کر رہے ہیں۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران خان کرپشن کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، اسی وجہ سے ان پر وزیرآباد میں قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کی گئی، اور ان کے خلاف ملک بھر میں مقدمات درج کئے گئے، خدشہ ہے کہ اسلام آباد آنے پر گرفتارکرلیا جائے گا، کسی بھی مقدمہ میں گرفتاری کو عدالتی اجازت سے مشروط کیا جائے۔
پشاور ہائیکورٹ میں خیبرپختونخوا انتخابات کیس میں الیکشن کمیشن نے جواب جمع کرانے کے لئے وقت مانگ لیا۔
پشاور ہائیکورٹ میں جسٹس ابراہیم خان اور جسٹس عبدالشکور نے پی ٹی آئی کی جانب سے خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لئے کیس کی سماعت سماعت کی۔
اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی مشتاق غنی پشاور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے ۔
وکیل بیرسٹر گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ 18 اپریل کو نگراں حکومت کی مدت ختم ہوگئی ہے، مدت ختم ہونے کے باوجود الیکشن کی تاریخ نہیں دی گئی۔
بیرسٹر گوہر خان نے عدالت سے استدعا کی کہ الیکشن کا معاملہ ہے، جلد تاریخ دی جائے۔
جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے جواب تیار ہے، الیکشن کی تاریخ گورنر اور الیکشن کمیشن نے دینی ہے۔
الیکشن کمیشن نے جواب جمع کرانے کے لئے وقت مانگ لیا۔
جسٹس ابراہیم خان نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت پر اس کیس کو سنے گے اور کیس کسی طور مزید ملتوی نہیں کریں گے۔
عدالت نے 4 مئی کو کیس کا فیصلہ سنانے کا عندیہ دیتے ہوئے انتخابات کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی سے متعلق کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی پٹیشن واپس لینے کی متفرق درخواست پر حتمی دلائل کے لئے 5 مئی کی تاریخ مقرر کردی جبکہ میانوالی میں ضمنی الیکشن روکنے کے حکم امتناع میں بھی توسیع کر دی گئی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی الیکشن کمیشن نااہلی فیصلے کے خلاف اور پٹیشن واپس لینے کی متفرق درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کی۔
عمران خان نے لاہور ہائیکورٹ میں کیس زیر التوا ہونے پر واپس لینے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جب ایک فورم سے رجوع کرلیا تو کیا زیر التوا ہوتے دوسرے سے رجوع کیا جا سکتا ہے ؟ اور کیا ایسی صورت میں ایک فورم سے درخواست واپس لے کر دوسری کی پیروی کر سکتے ہیں ؟
درخواست گزار محسن شاہ نواز رانجھا کے وکلاء نے درخواست واپس لینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت میں کیس زیر التوا تھا، اس دوران لاہور ہائیکورٹ میں پٹیشن فائل کی، عدالت کو لاہور ہائیکورٹ میں پٹیشن فائل کرنے سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حتمی دلائل کے لئے 5 مئی کی تاریخ مقرر کردی۔
دوسری جانب عدالت نے میانوالی میں ضمنی الیکشن روکنے کے حکم امتناع میں 5 مئی تک توسیع کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے بشریٰ بی بی سے دوران عدت نکاح کے کیس کی سماعت جونیئر وکیل کی استدعا پرکچھ دیر کے لئے ملتوی کردی گئی۔
کیس کی سماعت سینئر سول جج نصر من اللہ نے کی ۔ سماعت کے آغاز پر درخواست گزار محمد حنیف عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
جونیئروکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سینئر کونسل راجہ رضوان عباسی سپریم کورٹ میں مصروف ہیں تھوڑی دیر تک پہنچ جائیں گے، ان کی آمد تک سماعت میں وقفہ کیا جائے۔
عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔
اس سے قبل 12 اپریل کو عمران خان اور بشری بی بی کا نکاح پڑھانے والے مفتی سعید نے اپنا بیان حلفی ریکارڈ کروایا تھا۔
انہوں نے بیان حلفی میں کہا تھا یکم جنوری 2018 کو خاتون کی یقین دہانی پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کا نکاح پڑھا دیا۔ عمران خان نے کہا کہ نومبر 2017 میں بشریٰ بی بی کو (سابقہ خاوند خاور مانیکا سے ) طلاق ہوئی تھی۔
مفتی سعید کے مطابق عمران خان نے مجھے بتایاکہ بشریٰ بی بی نے پیشگوئی کی تھی کہ سال 2018 کے پہلے دن نکاح کرنے پر وہ (عمران خان) وزیراعظم بن جائیں گے۔عمران خان نے مجھے بتایاکہ پہلا نکاح غیرشرعی تھا۔ دونوں نے سب جانتے ہوئے بھی نکاح اور شادی کی تقریب منقعد کی اور نکاح کے بعد دونوں اسلام آباد میں ساتھ رہنے لگے۔
مفتی محمد سعید خان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے مجھ سے فروری 2018 کو دوبارہ رابطہ کر کے درخواست کی کہ بشریٰ بی بی سے دوبارہ نکاح پڑھانا ہے کیونکہ پہلے نکاح کے وقت بشریٰ بی بی کی عدت کا دورانیہ مکمل نہیں ہواتھا۔
عدالت عظمیٰ نے وزارت دفاع کی دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی جب کہ سردار کاشف کی درخواست پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سمیت الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کو بھی نوٹس جاری کر دیٸے۔
سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کی جانب سے داٸر درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کی، جب کہ بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
پنجاب اور کے پی فنڈز سے متعلق سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات کے لیے وفاقی حکومت کو 27 اپریل تک فنڈز جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنا وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے، فنڈز ادا نہ کرنے اور عدالتی احکامات کی نافرمانی کے سنگین نتائج ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے لئے دائر دو درخواستوں سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات سے متعلق ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ نے ملک میں عام انتخابات اور دو صوبائی انتخابات سے متعلق آج سماعت کے تحریری حکمنامے میں کہا کہ رخواست گزار کے وکیل نے موجودہ صورتحال میں سیاسی ڈائیلاگ کی بات کی ہے جو خوش آئند ہے، چار اپریل کو انتخابات سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے۔
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی رائے دی ہے تاہم سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے ہی انتخابات کا عمل بہتر ہوگا، دوسرا کوئی راستہ سپریم کورٹ کے انتخابات کرانے کے فیصلے کو ختم نہیں کرسکتا۔
تحریری حکم نامے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواستگزارکے مطابق سیاسی جماعتوں کا باہمی احترام ضروری ہے، 14مٸی کو انتخابات کے عدالتی حکم پر مزاحمت کا سامنا ہے، ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کا تجربہ الگ الگ کرانے سے بہتر رہا، انتخابات سیاسی میدان میں سیاسی قوتوں کے درمیان لڑے جاتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں درخواست گزار کے اٹھاے گٸے نکات غور طلب ہیں، الیکشن اسی صورت بہتر ہوں گے جب سیاسی جماعتوں کی مشاورت شامل ہو، سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ایک اچھی تجویز ہے، جماعتیں سینٸر عہدیدار کو نماٸندہ مقرر کرکے عدالت بھیجیں۔
سپریم کورٹ نے حکمنامے میں کہا کہ وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 4 اپریل کا فیصلہ واپس لیا جائے، یہ استدعا ناقابل سماعت ہے جس پر کوئی ریلف نہیں دیا جاسکتا ہے، وزارت دفاع کی جانب سے کی گئی استدعا عدالت قبول نہیں کرسکتی ہے جب کہ فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق وزرات خزانہ کی رپورٹ بھی ناقابل قبول قرار دی جاتی ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے موقف کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن عدالتی کارروائی کو دوبارہ سے نکتہ آغاز پر لانا چاہتی ہے، الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کی تاریخ بحال کرانے کی استدعا کی ہے، جن نکات پر پہلے فیصلہ ہوچکا ہے اسے دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
تین رکنی بینچ کا کہنا تھا کہ عدالت کے احکامات کا مقصد آئین میں دی گئی پابندی پر عملدرآمد کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی یا نافرمانی کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جب کہ آٸین کہتا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر الیکشن ہوں۔ کیس کی سماعت جمعرات کو دوبارہ ہوگی۔
اس سے قبل وزرات دفاع کی درخواست پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں، وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑھیں۔
اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آ کر رپورٹ پڑھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد فنڈز کی منظوری لی جائے گی، اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا، کیا الیکشن کیلئے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کیسے روکاجاسکتا ہے، وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہئے، مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ گرانٹ کی بعد میں منظوری لینا رسکی تھا۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت کی بجٹ کے وقت اکثریت نہیں ہونا تھی، جو بات آپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے، کیا کبھی گرانٹ کی منظوری میں حکومت کو شکست ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سال 2013 میں کٹوتی کی تحریکیں منظوری ہوچکی ہیں۔ جسٹسں منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قومی اسمبلی معاملے میں قرارداد منظوری کرچکی تھی۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا قرارداد منظوری کے وقت گرانٹ منظوری کیلئے پیش کی تھی، وفاقی حکومت کی اسمبلی میں اکثریت لازمی ہے، حکومت کی گرانٹ اسمبلی سےکیسے مسترد ہوسکتی ہے، کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کاعلم ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس سوال کا جواب دیں پھرآگے چلیں گے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کوہے، اسمبلی پہلے قرارداد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا سپلیمنٹری گرانٹ منظور نہیں کرواسکتی تھی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ گرانٹ جاری ہونے کے بعد منظوری نہ ملے تو اخراجات غیر آئینی ہوتے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ توقع ہے حکومت اپنے فیصلے رہ نظر ثانی کرے گی، حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے، اس معاملہ کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں، فی الحال غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے، حکومت کوعدالتی احکامات پہنچا دیں۔
سپریم کورٹ نے فنڈز کی فراہمی سے متعلق وزارت خزانہ سے دوبارہ جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، الیکشن کمیشن کی اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی ملک میں 1992 سے جاری ہے، 1987 سے 2018 تک کئی الیکشن ہوئے، سیکیورٹی کے مسائل ان انتخابات میں بھی تھے، 2008 میں تو حالات بہت کشیدہ تھے، 2007 میں بھی تو بے نظیربھٹو کی شہادت ہوئی تھی، 2013 میں بھی دہشت گردی تھی، اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے کہ الیکشن نہیں ہوسکتے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تمام سیکیورٹی فورسز نے فرائض سرانجام دئیے تھے، اب 2 صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف دیا کہ آپریشنزمیں متعین ٹارگٹ حاصل کرنے کی کوشش ہے، توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی تھی، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ برطانیہ میں جنگ کےدوران بروقت انتخابات ہوئے تھے، بم دھماکوں کےدوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوئے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کروانے کا کہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو مؤقف پیش کیا کہ سیکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سے نمٹنا ہے، سال2001 سے سیکیورٹی ادارے سرحدوں پر مصروف ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے پر انتخابات کا کہا، عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جو پیغام آپ دینا چاہ رہے ہیں وہ سمجھ گیا ہوں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو الیکشن ہو جائیں گے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا 2018 کے انتخابات میں بنیادی حقوق معطل تھے، حکومت آرٹیکل 245 کا اختیارکیوں استعمال نہیں کررہی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 27 مارچ کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی اور 4 اپریل کو فیصلہ آیا، پہلے 4/3 کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا، بائیکاٹ ہوا لیکن کسی نے سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ میری درخواست پرڈی جی ملٹری آپریشنزنےبریفنگ دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی ملٹری آپریشنز نے اصل تصویر سے آگاہ کیا، ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری دفاع بھی موجود تھے، انہوں نے بہت اچھی بریفنگ دی تھی، افسران کو بتایا تھا دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا، اس کیس میں فیصلہ سنا چکے ہیں واپس نہیں جاسکتے، عدالت اب آگے جائے گی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ کیا آئین بالادست نہیں ہے، افواج نے ملک کے لیے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، افواج پاکستان کا تو سب کو شکر گزار ہونا چاہیئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں، الیکشن کمیشن نے پہلے کہا کہ وسائل دیں الیکشن کروالیں گے، اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی، الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے، وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے، سنا ہے وزراء کہتے ہیں اکتوبرمیں بھی الیکشن مشکل ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کل بلاول بھٹو اور آج وزیراعظم سے ملا تھا، کوشش ہے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو، وزیرخارجہ آج مولانافضل الرحمان سے مل کر انہیں مذاکرات پر قائل کریں گے، معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہورہی ہیں، امیر جماعت اسلامی بھی شہبازشریف اور عمران خان سے ملے ہیں، اور دونوں فریقین نے مذاکرات کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے، منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے، 14 مئی قریب آ چکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو گنجائش نکال سکتی ہیں، اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا، 5 دن عید کی چھٹیاں آ گئی ہیں، میرے ساتھی ججز کہتے ہیں 5 دن کا وقت بہت ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل شاہ خاور نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد ضروری ہے، لوگ کنفیوز اور ٹینشن میں ہیں، عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کیلئے درخواست دائر کی۔
شاہ خاور نے مؤقف پیش کیا کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہییں، انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی، صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثرانداز ہوں گی۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ جب بحث ہورہی تھی تواٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے 4/3 پر زور دینے کا کہا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے یہ مؤقف اپنانے سے روکا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہوجائیں توآئیڈیل حالات ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جاسکتی، یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 90 دن کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے، آئین کے مطابق 90 دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں، آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں، عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا، حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی ہے، سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں، نگراں حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔
عدالت نے وزارت دفاع کی درخواست پر سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردی۔ عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سینٸر لیڈر شپ عدالت پیش ہو۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو مہلت دے۔
عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے۔
فیصل چوہدری نے عدالت کو جواب دیا کہ ایک طرف امیر جماعت اسلامی سراج الحق مذاکرات کے لئے زمان پارک آئے، تو دوسری طرف ہمارا سندھ کا صدر گرفتار ہو گیا۔
چیف جسٹس نے فیصل چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا، قوم کی تکلیف اور اضطراب کا عالم دیکھیں۔
فیصل چوہدری نے چیف جسٹس سے کہا کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے آپ سے بہت امید ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے فیصل چوہدری سے کہا کہ پارٹی قیادت سےہدایات لیکرعدالت کوآگاہ کریں۔
فیصل چوہدری نے ایک بار پھر مؤقف پیش کیا کہ ملک کا وزیر داخلہ ہر گھنٹے بعد عدالت کو دھمکیاں دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ 14مئی کو الیکشن نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی اتفاق رائے ہوا تو 14مئی کا فیصلہ نافذ کرائیں گے، کیا آپ سڑکوں پر تصادم چاہتے ہیں، سیاسی عمل آگے نہ بڑھا تو الیکشن میں تصادم ہوسکتا ہے۔
وزارت دفاع کی جانب سے گزشتہ روز سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ ملک میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں۔ اس حوالے سے قومی ، سندھ اوربلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے دی جائے۔
وزارت دفاع کی جانب سے دائرسربمہردرخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کا حکم دیا جائے، ساتھ ہی سپریم کورٹ پنجاب میں انتخابات کا حکم واپس لیتے ہوئے عدالت سندھ اور بلوچستان اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر انتخابات کا حکم دے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ کہ دہشتگردوں اور شرپسندوں کی جانب سے انتخابی مہم پر حملوں کا خدشہ ہے۔ ملک میں جاری سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ 4 اپریل کا فیصلہ واپس لے۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو 17 اپریل تک انتخابی اخراجات کیلئے 21 ارب کے فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا فنڈز فراہم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم قومی اسمبلی نے قائمہ کمیٹی کی رپورٹ منظور کرتے ہوئے فنڈز کے اجرا کی قرارداد مسترد کردی تھی۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بنک نے پنجاب میں انتخابات کیلئے فنڈز کی فراہمی سے متعلق رپورٹس عدالتی حکم پرسپریم کورٹ میں جمع کروائی تھیں۔
وزارت خزانہ نے اٹارنی جنرل آفس کے ذریعے رپورٹ جمع کرائی، لیکشن کمیشن کے حکام نے مؤقف تحریری طور پر جمع کرایا جبکہ اسٹیٹ بینک حکام کی جانب سے بھی تحریری رپورٹ جمع کرائی گئی۔
رپورٹس میں وفاقی کابینہ کے فیصلے اور پارلیمان کو معاملہ بھجوانے کی تفصیلات شامل ہیں، جب کہ عدالتی حکم پر اسٹیٹ بینک کو فراہم کردہ معاونت کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہے۔
بھکر میں چیک پوسٹ پر حملہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی امین گنڈاپور کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
علی امین گنڈاپور ان کے 20 ساتھیوں کے خلاف تھانہ صدر میں درج مقدمات کی عدالت میں سماعت ہوئی۔
سینئر سول جج محمد آصف نیاز ی نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور کو 50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
لاہور پولیس کی بھاری نفری عدالت کے باہر موجود ہے۔
مزید پڑھیں: علی امین گنڈا پور کیخلاف چیک پوسٹ حملہ کیس میں دہشت گردی کی دفعات ختم
گزشتہ روز سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت نے علی امین گنڈا پور کے خلاف چیک پوسٹ حملہ کیس میں دہشت گردی کی دفعات ختم کردی تھیں۔
عدالت نے مقدمہ بھکر کی عام عدالت میں منتقل کرنے اور ایک روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد پی ٹی آئی رہنما کو بھکر کی مقامی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
علی امین گنڈا پور کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا، اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈا پور اشتہاری قرار
پولیس کی جانب سے علی امین گنڈا پور کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی اور مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ملزم سے واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی اور اسلحہ برآمد کرنا ہے۔
علی امین گنڈا پور کے وکلاء نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کا مقدمہ بنتا ہی نہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈا پور 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
علی امین گنڈا پور کے خلاف دہشت گردی سمیت 17 دفعات کے تحت داجل چیک پوسٹ پر حملے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ملیر کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماء علی زیدی کے وکلا نے درخواست ضمانت دائر کردی ہے۔
پی ٹی آئی رہنماعلی زیدی کے خلاف 18کروڑ کے فراڈ اور دھمکیاں دینے کا مقدمہ درج ہے جبکہ فوری سماعت کی استدعا پر مدعی مقدمہ کو نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں۔
علی زیدی کے وکیل کا کہنا ہے کہ درخواست کی سماعت آج ہی ہوگی اور پی ٹی آئی رہنماء کا جسمانی ریمانڈ آج ختم ہوجائے گا اور کل دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: علی زیدی کی عدالت پیشی پر غفلت برتنے والے دو ڈی ایس پیز اور تفتیشی معطل
یاد رہے کہ پی ٹی آئی رہنما علی زیدی کو کراچی میں 15 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا جس کی تحریک انصاف کے رہنماؤں نے تصدیق کرتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔
مزید پڑھیں: تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی گرفتار
ترجمان پی ٹی آئی سندھ کے مطابق علی زیدی پی ٹی آئی سندھ سیکریٹریٹ میں تنظیمی عہدیداران سے ملاقات کررہے تھے کہ اس دوران سول اور یونیفارم میں ملبوس اہلکاروں نے علی زیدی کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پرمنتقل کردیا تھا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہمارے سیاسی ڈھانچے میں نقائص ہیں، بدقسمتی سے سیاست کو بے معنی بیان بازی سے جوڑ دیا گیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ ہماری سیاست ڈھانچہ جاتی نقائص کا شکار ہے، بدقسمتی سے سیاست کو بے معنی بیان بازی سے جوڑ دیا گیا۔
شہبازشریف نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے لوگوں کی خدمت کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔
آزاد کشمیر کو 5 روز گزرنے کے باوجود نیا وزیراعظم نہ مل سکا۔
ڈپٹی اسپیکر قانون ساز اسمبلی کی جانب سے بار بار اجلاس ملتوی کرنے کے خلاف متحدہ اپوزیشن نے آج آزاد کشمیر ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
گزشتہ روز بھی ڈپٹی اسپیکر قانون ساز اسمبلی چوہدری ریاض نے اجلاس ملتوی کردیا تھا جس کی وجہ سے نئے قائد ایوان کا انتخاب نہیں ہوسکا تھا۔
مزید پڑھیں: نئے قائد ایوان کا انتخاب: آزاد کشمیر اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اجلاس ملتوی کرکے فرار
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کا اجلاس آج دوپہر 2 بجے پھر ہوگا۔
ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تاخیری حربوں کو ناکام بنانے کے لیے متحدہ اپوزیشن نے فائنل راؤنڈ کی تیاریاں مکمل کرلیں ہیں۔
گزشتہ روز بھی نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لئے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا، قانون ساز اسمبلی پانچویں روز بھی نئے وزیراعظم کا انتخاب نہ کرسکی۔
مزید پڑھیں: عدلیہ کے خلاف بیان پر وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس نااہل قرار
افطار کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو ڈپٹی اسپیکر چوہدری ریاض اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کرتے ہی ایوان سے بھاگ گئے۔
پی ٹی آئی کے اراکین نے بھی ایوان سے دوڑ لگادی، اجلاس ملتوی ہونے پر متحدہ اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔
مزید پڑھیں: آزاد کشمیرکی وزارت عظمیٰ کا امیدوار پی ٹی آئی فارورڈ گروپ سے ہوگا
مظفرآباد میں آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کا اجلاس 7 گھنٹے کی تاخیر کے بعد شروع ہوا تھا۔
دوسری جانب آزاد کشمیر ہائیکورٹ میں سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی جانب سے دائر رٹ پٹیشن کی سماعت بھی آج ہوگی۔