Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
وزیر خارجہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) الیکشن التواء کیس پر لارجر بینچ نہ بنا تو مارشل لاء کا خدشہ ہے۔
لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران دور کے ناقص فیصلوں کی وجہ سے ملک کو ایک بار پھر دہشت گردی کا سامنا ہے جسے شکست دینےکے لئے ہم جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بہادر افواج بے جگری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہیں، لہٰذا ہم نے دہشت گردوں کو پہلے بھی شکست دی تھی اور اب بھی دیں گے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے18ویں ترمیم کے ذریعے 73 کے آئین کو بحال کیا، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آئین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کی ہے، ملک کے موجودہ مسائل کا حل آئین و قانون کی عملداری میں ہے۔
الیکشن التواء کیس پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انتخابات کے معاملے پر جو کچھ ہو رہا ہے قوم کے سامنے ہے، انتخابی معاملے کی سماعت کرنے والا بینچ 9 سے کم ہو کر 3 ججز تک محدود ہوا، البتہ گزارش کی کہ اس معاملے کی سماعت فُل کورٹ کرے۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ اہم ترین قومی معاملے پر فُل کورٹ نہ بننے سے آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے، جو تنقید اعلیٰ عدلیہ پر ہو رہی ہے ججز کی طرف سے وہ تاریخی ہے، چیف جسٹس سمیت تینوں جج صاحبان کو سوچنا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس ختم ہوگیا ہے۔
شہباز شریف کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس وزیر اعظم ہاؤس میں ہوا۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس نے دو نکاتی ایجنڈے پر تفصیلی غور کیا، وزیر قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ اور اٹارنی جنرل نے کابینہ کو مختلف امور پر بریفنگ دی۔
کابینہ نے عدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے سرکلر جاری کرنے کے معاملے پر غور کیا۔
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ کابینہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی خدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا اور انہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔ ذرائع کے مطابق فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خط کی روشنی میں کیا گیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے صدر عارف علوی سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر فی الفور دستخط کریں تاکہ ملک کو آئینی وسیاسی بحران سے نجات مل سکے۔
سینیٹ نے سود کے خاتمے سے متعلق قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ پاکستانی اشیاء کی اسرائیل میں فروخت ہونے کا معاملہ بھی سینیٹ میں اٹھایا گیا۔ چئیرمین سینیٹ نے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر مظالم کے خلاف قرارداد کا ڈرافٹ تیار کرنے کی ہدایت بھی کر دی۔
سینیٹ اجلاس کی صدارت چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کی جس میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے سود کے خاتمے سے متعلق قرارداد پیش کی۔
وزیرِ مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث بخش پاشا نے قرارداد پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح ہے ملک کی معیشت سود فری ہو۔ حکومت سود کے خاتمے کے حوالے سے اقدامات کررہی ہے۔
سینیٹ نے سود کے خاتمے سے متعلق قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔
سینیٹ اجلاس میں سینیٹر پلوشہ نے بھارت میں اقلیتوں پر مظالم کے خلاف سینیٹ میں قرارداد منظور کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی پنجاب میں سکھوں پر بھی ظلم کیا جا رہا ہے۔
چئیرمین نے قرارداد کا ڈرافٹ تیار کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ آئندہ اجلاس میں قرارداد منظورکرلی جائے گی۔
محسن عزیز کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے پر بھارت کی جانب سے بہت سی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اور اب ایک خط گردش کررہا ہے جو بھارت کی جانب سے وزیراعظم کو لکھا گیا، اس کو بھی چھپایا جا رہا ہے۔ خط کی بھی ڈیڈلائنز ہیں اور کچھ ایشوز رکھے گئے ہیں اس خط پر ایوان میں وضاحت کی جائے۔
سینیٹر مشتاق کا پیش کردہ توشہ خانہ دیکھ بھال، انتظام اور انصرام بل 2023 چئیرمین نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔
پاکستان انسٹیوٹ برائے تحقیق اور رجسٹریشن کوالٹی ایشورینس بل 2023 کی بھی ایوان نے منظوری دی، یہ بل سینیٹر کہدہ بابر نے پیش کیا۔
منشیات پر مبنی مواد کی روک تھام ترمیمی بل 2022 ایوان سے منظور کرلیا گیا۔
سینیٹ اجلاس منگل کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
ماہر قانون اور رہنما پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت کی خواہش ہے الیکشن کی تاریخ بڑھائی جائے۔
ایک بیان میں اعتزاز احسن نے کہا کہ نگراں حکومت آئین کے مطابق 90 دن تک رہتی ہے، اسمبلیاں تحیل ہو چکی ہیں تو مطلب صوبے میں حکومت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر آچکا ہے اب اس پر عمل ہوگا لیکن موجودہ حکومت کی خواہش ہے انتخابات کی تاریخ بڑھائی جائے۔
وزیر خزانہ پر تنقید کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ڈالر اور اوپر جاتا ہے تو اسحاق ڈار بھی اوپر جاتا ہے مگر ملک نیچے جاتا ہے،ان کے اثاثے بیرون ملک ہیں، یہ لوگ ڈالرائزڈ ہیں۔
اعتزاز احسن کا مزید کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کہتے ہیں ہمارے پاس پیسے نہیں، ڈالر کی قیمت بڑھے تو اسحاق ڈار کے اثاثوں کی ویلیو بھی بڑھتی ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ فل کورٹ کی استدعا کے باوجود عدالت عظمیٰ کے موجودہ بینچ نے کیس سنا، سپریم کورٹ بڑی عدالت ہے اس کی شفافیت نظر آنی چاہیے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں عمران خان کی انا کی بھینت چڑھ گئیں، ہماری فل کورٹ کے استدعا کے باوجود موجودہ بینچ نے کیس سنا، کیس کی سماعت کیلئے ابتداء میں 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ سب چاہتے تھے کہ ایسا بینچ بنے جس پر سب کو اعتماد ہو، سب چاہتے ہیں کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے، انتہائی حساس اور قومی معاملات پرعجلت میں اقدامات درست نہیں۔ سپریم کورٹ بڑی عدالت ہے اس کی شفافیت نظر آنی چاہیے، عدالت عظمیٰ کی اجتماعی ورکنگ نظر آنا ضروری ہے، نصف سپریم کورٹ اپنی رائے کا اظہار کرچکی ہے۔
وزیرقانون نے کہا کہ عدالت میں ناراضگی کا اظہار ہوا کہ آپ نے بائیکاٹ کیا، ہمارے تحفظات بینچ سے متعلق ہیں مگر ان سنی کردی گئی، درخواست کرتا ہوں کہ اپنا گھر درست فرمائیں، گھرمیں تقسیم ہے، نصف سپریم کورٹ اپنی رائے کا اظہارکرچکی ہے۔
اعظم نذیر نے مزید کہا کہ معزز ججز انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس خارج کرنے کا کہہ چکے ہیں، پہلے بھی کہا گیا تھا کہ معاملہ فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے، چیف جسٹس صاحب نے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا۔
وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ قومی اسمبلی اورایوان بالا بھی بل پاس کرچکا ہے، صدر مملکت 4 روز سے بل اپنے پاس رکھ کر بیٹھے ہیں، صدر مملکت ریاست کے سربراہ کا کردارادا کریں، صدرکو اپنے کردار پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے کہا ہے کہ قوم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے، پاکستان کو مشکل وقت سے نکالنے کا وقت آگیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے باہر میڈیا سے گفتگو میں اسد عمر نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے الیکشن التوا کرنے کا آئینی عذر نہیں رکھا گیا۔ حکومتی عہدیداروں نے عدلیہ اور ججز میں دراڑ اور ابہام ڈالنے کی کوشش کی، پاکستان الیکشن کی طرف جارہا ہے، قوم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ حکومت نے ازخود نوٹس پر اعتراض اٹھایا لیکن موجودہ کیس میں اسپیکرپنجاب اسمبلی اور میں مدعی تھے، حکومت کے پاس کیس سے متعلق نہ دلائل ہیں اور انھوں نے کیس لڑنے کی کوشش بھی نہیں کی، سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ الیکشن کیلئے21 ارب روپے نہیں ہیں، حیرت ہے ایٹمی طاقت والےملک کے پاس21 ارب روپے نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت کی تبدیلی پر بھی 5 رکنی بینچ نےفیصلہ سنایا تھا لیکن عمران خان اور پی ٹی آئی عدلیہ پر حملہ آور نہیں ہوئی بلکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کیا۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے، حریفوں کو الیکشن میں سیاسی موت نظر آرہی ہے، یہ لوگ نہ حقیقی کیس چاہتے ہیں اور نہ مذاکرات کرنے کے خواہاں ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ کل فیصلہ سنائےگی پاکستان کو مشکل وقت سے نکالنے کا وقت آگیا۔ پی ڈی ایم کے مؤقف میں تضاد ہے انھوں نے بند کمرہ عدالت میں پوری عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کی بات کی لیکن عدالت میں ان کے وکلا نے مختلف بیان دیا، پی ڈی ایم کے وکلا عدالت میں بات کرنے کیلئے وقت مانگتے رہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بینچ نے تحمل سے تمام فریقین کا نقطہ نظرسنا، چیف جسٹس نےکہا کہ ہم آئین و قانون کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل کوئی ٹھوس دلائل پیش نہ کرسکے، الیکشن التوا کیس میں دلائل مکمل ہوگئے قوم کو انتظار ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم آئینی تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں، اس راستے سے ہم ترکیہ بن سکتے ہیں یا میانمار، فیصلہ کرنا ہوگا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ آج ہم آئینی تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں، اس راستے سے ہم ترکیہ بن سکتے ہیں یا پھرمیانمار، ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ کیا ہم جمہوریت، قانون کی بالادستی کا ساتھ دیں گے، یا پھر ہم کرپٹ مافیا، فاشزم، جنگل کے قانون کے ساتھ ہیں۔
رہنما ن لیگ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن تاخیر کیس کی سماعت کیلئے ان ججز کا بینچ بنایا جائے جنہوں نے اب تک کیس نہیں سنا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے معاون خصوصی وزیراعظم عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے اعتراضات سے بھری درخواست جمع کرائی، لیکن سپریم کورٹ رجسٹری نے درخواست لینے سے انکار کیا اور کہا کہ درخواست بینچ کے سامنے رکھی جائے۔
بری فوج مصروف ہے تو نیوی، ائیرفورس سے مدد لی جا سکتی ہے، عدالت
عطا تارڑ نے بتایا کہ درخواست میں کہا گیا کہ 7 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کا فیصلہ سنایا، 7 رکنی بینچ نے 4،3 سے کیس کو خارج کیا، سپریم کورٹ نے درخواست واپس ہائیکورٹ میں بھیجی، اعتراض عائد کیا گیا کہ عملدرآمد کیس کی کوئی حیثیت نہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ کیس میں 9 ججز صاحبان اپنی رائے کا اظہارکرچکے ہیں، جواب میں جسٹس فائز کے فیصلے کا بھی ریفرنس دیا گیا ہے، جسٹس اعجازالاحسن پہلے بینچ سے علیحدہ ہو چکے ہیں، وہ دوبارہ بینچ کاحصہ نہیں بن سکتے، چیف جسٹس اور جسٹس منیب کو بھی کیس نہیں سننا چاہئے۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اتحادی رہنماؤں کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرنے پر اتفاق ہوا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ 9 ججز کو الگ کر کے 6 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے، ان ججز کا بینچ بنایا جائے جنہوں نے اب تک کیس نہیں سنا۔
عطا تارڑ نے مزید کہا کہ ن لیگ انتخابات کیلئے تیار ہے، مریم نواز انتخابی مہم کا آغاز کرچکی ہیں، آئی ایم ایف اور سیکیورٹی معاملات دیکھ کر الیکشن ہوگا۔
عدالت نے عمران خان، بشریٰ بی بی کی نیب تحقیقات کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں نیب تحقیقات اور نوٹسز کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی نیب نوٹسز کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے درخواست پر سماعت کی، جب کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی جانب سے خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔
توشہ خانہ کے تحائف: نیب عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کرلیا
خواجہ حارث نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ نیب نوٹس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس حیثیت میں معلومات مانگی جارہی ہے، عدالتی فیصلے آچُکے نوٹس کی مکمل معلومات دینا ضروری ہے، نیب پر لازم ہے وہ مکمل معلومات فراہم کرے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو نیب قانون میں ترامیم آئی ہیں ان میں نوٹس کا کیا طریقہ ہے۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ترمیمی قانون کہتا ہے کہ بتانا لازم ہے آپ کسی کو کیوں بلا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کو طلبی کے نوٹس آگئے ہیں۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی کال اپ نوٹس آگئے ہوئے ہیں۔
خواجہ حارث نے نیب کے نوٹس عدالت میں پیش کر دیئے اور مؤقف اختیار کیا کہ ان نوٹسز میں نیب نے ہمیں معلومات فراہم نہیں کیں، نوٹس میں صرف لکھا گیا کہ پبلک آفس ہولڈرز کیخلاف انکوائری ہے۔
عدالت نے عمران خان، بشریٰ بی بی کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد درخواست قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، اور بعد میں محفوظ فیصلہ سنادیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کی درخواست قابل سماعت قراردے دی، اور نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
لاہور کے شہری نے عمران خان کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کے لئے درخواست دائر کردی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو پارٹی عہدے سے نااہل قرار دینے کیلیے ایک اور درخواست دائر کردی گئی ہے۔
درخواست شہری محمد جنید نے ایڈووکیٹ آفاق احمد کی وساطت سے دائر کی، جس میں عمران خان، چیف الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن عمران خان کو این اے 95 میانوالی سے نااہل قرار دے چکا ہے، اور الیکشن کمیشن نے عمران خان کو حقائق کو چھپانے پر نااہل قرار دیا۔
درخواست میں موقف اختیار کرتے ہوئے استدعا کی گئی کہ اس سے قبل نواز شریف کو بھی عدالت نا اہل کر چکی ہے، جس کے بعد نواز شریف پارٹی صدر نہیں رہے، کیوں کہ نااہلی کے بعد کوئی پارٹی ہیڈ نہیں رہ سکتا۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اب سپریم کورٹ ہی ملک کو بچا سکتی ہے، حکم پر عمل نہ ہوا تو عدالت تیسرے وزیراعظم کو بھی گھر بھیج سکتی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹویٹ میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ فیصلہ اسی ہفتے ہوجائے گا کہ ملک آئین اور قانون کے تحت چلے گا یا شریفوں اور زرداریوں کی خواہش پر چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئین 90 دن میں انتخاب کا تقاضا کرتا ہے لیکن یہ بضد ہیں کہ آئین اور جمہوریت کو ڈبو دیں گے لیکن الیکشن نہیں کرائیں گے، عدالتی حکم پرعمل نہ ہوا تو سپریم کورٹ تیسرے وزیراعظم کو بھی گھر بھیج سکتی ہے۔
اپنے ٹویٹ میں شیخ رشید نے مزید کہا کہ مذاکرات کی گاڑی چھوٹ گئی فیصلے کا وقت آپہنچا، لوگوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر فیصلے کا حق نہ دینے والے اپنے فیصلوں پر پچھتائیں گے۔
سابق وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف ناکام انٹرنیشنل ڈونیشن زیرو، بجلی گیس آٹا نایاب، حکومت پر طاقت سے قبضہ، یہ ہے ان کا ایجنڈا، اب سپریم کورٹ ہی ملک کو بچا سکتی ہے، حکومت اداروں اور عوام کا ٹکراؤ چاہتی ہے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے مزید کہا کہ حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا، نواز شریف واپس نہیں آیا، گندم 100 فیصد، پیٹرول 123 روپے فی لیٹر اور گھی 200 روپے فی کلو مہنگا ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت مفتی تقی کی بات مان لے اور ملک کو سنگین حالات سے نکالے۔
شیخ رشید نے کہا کہ عمران خان پر 140 مقدمے بن تو سکتے ہیں لیکن وہ نااہل نہیں ہوسکتے اور اگرجیل گئے تو 13 پارٹیوں کا سیاسی جنازہ بھی نکل جائے گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی ریڈ زون داخلی راستے کھلوانے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 2 رکنی بینچ ایک کیس کی سماعت کررہا تھا کہ پی ٹی آئی رہنماء فواد چوہدری نے ریڈ زون کی صورتحال سے بینچ کو آگاہ کیا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ریڈ زون کے داخلی راستے سیل کردیے گئے ہیں، لگتا ہے ہم غزہ میں ہیں، وکلاء کو بھی آنے سے روکا جا رہا ہے، ریڈ زون کے داخلی راستوں پر جھگڑے ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی رہنما کی ریڈ زون کے داخلی راستے کھلوانے کی استدعا مسترد کردی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حکومت اور انتظامیہ اپنے سیکیورٹی اقدامات کررہی ہے، کیس کی سماعت کررہے ہیں، ہزاروں وکلاء کا آنا ضروری نہیں، وکلاء کو آپ نے کال دی ہے تو ان سے بات کریں۔
فواد چوہدری نے وکلاء کو کال دینے کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ وکلاء کا کنونشن ہے اس کے لئے بھی روکا جارہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا اس سب سے کیا لینا دینا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سوموٹو پر پہلے ہی مسائل بنے ہوئے ہیں، آپ پھر سے سوموٹو لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالتی احاطے میں معمول کی شناخت کے بعد وکلاء آسکتے ہیں، گنجائش کے مطابق ہی عدالت میں داخلے کی اجازت ہوگی، ہر وکیل کو کمرہ عدالت میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
لاہور ہائیکورٹ نے دفتری اعتراضات پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف 121 مقدمات کے اخراج کے لئے دائر درخواست پر دلائل طلب کر لیے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بطور اعتراضی درخواست سماعت کی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ سپریم کورٹ مصروفیت کے باعث پیش نہیں ہوسکے، اعتراضات پر دلائل کی سماعت کے لئے کوئی اور دن مقرر کر دیا جائے۔
عدالت نے دفتری اعتراضات پر 5 اپریل کو دلائل طلب کرلیے۔
اس سے قبل عمران خان کے خلاف 121 مقدمات کے اخراج کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔
رجسٹرار آفس نے مقدمات کی تصدیق شدہ نقول اور دیگر صوبوں میں درج مقدمات کے اخراج کا اعتراض عائد کیا ہے۔
عمران خان کے وکیل کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کے مؤکل کے خلاف ملک بھر میں 121 جھوٹے مقدمات درج کر دیے گئے ہیں، یہ آئین کے آرٹیکل 4،9،15،16 کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت مقدمات کو خارج کرنے کے احکامات جاری کرے۔
بعدازاں عدالت نے عمران خان کے خلاف درج 121 مقدمات خارج کرنے کی درخواست آج ہی سماعت کے لئے مقرر کردی تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بیان پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سیکیورٹی فراہمی کی درخواست پر وزارت داخلہ اور وفاق کو 6 اپریل کے لئے نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے دھمکی آمیز بیان پر عمران خان کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کو بطور سابق وزیر اعظم سیکیورٹی نہیں مل رہی؟ جس پر عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے بتایا کہ عمران خان کی سیکیورٹی واپس لے لی گئی تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ کسی کو خطرات لاحق ہونے پر سکیورٹی کے کیا ایس او پی ہیں؟ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بہت سی سیکیورٹیز واپس لی تھیں، سابق چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی کو خطرہ ہو تو سیکیورٹی دی جا سکتی ہے، کیا وہ ایس او پیز اب بھی فعال لاگو ہیں یا نہیں یہ بھی دیکھ لیں۔
فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس جس کے ماتحت ہے وہی دھمکیاں دے رہا ہے۔
عدالت نے وزارت داخلہ اور وفاق کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا اور کیس کی سماعت 6 اپریل تک ملتوی کردی۔
لاہور ہائیکورٹ نے عدالتی حکم امتناعی کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تقاریر کی نشریات پر پابندی سے متعلق کیس میں چیئرمین پیمرا سلیم بیگ اور ڈائریکٹر آپریشنز پیمرا کو نوٹس جاری کردیے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے عدالتی حکم کے باوجود عمران خان کی تقاریر نشر کرنے کی اجازت نہ دینے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: پیمرا نے جوڈیشل کمپیلکس سے لائیو کوریج پر پابندی لگادی
عمران خان کے وکیل بئیرسٹر احمد پنسوتہ نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی تقاریر کی نشریات پر پابندی کے خلاف حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے ، عدالت نے پیمراء کی پابندی کے نوٹیفیکیشن کو معطل کررکھا ہے، عدالتی حکم امتناعی کے باوجود تقاریر کی نشریات پر پابندی توہین عدالت ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی تقاریر دکھانے پر پابندی کے خلاف حکم امتناع میں توسیع
وکیل احمد پنسوتہ نے کہا کہ عمران خان کی تقاریر پر پابندی آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، آئین پاکستان شہریوں کو آزادی اظہار کی اجازت دیتا ہے، عمران خان کی تقاریر پر پابندی آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے، پاکستان میں آزادی اظہار پر پابندی کو کبھی بھی شہریوں نے قبول نہیں کیا، آزادی اظہار پر پابندی سے افراتفری اور سیاسی ہیجان پیدا ہوگا، موجودہ سیاسی صورتحال میں اس قسم کی پابندی میں ملک افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی تقاریر کی نشریات پر پابندی کا حکم نامہ معطل کردیا
عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت چئیرمین پیمرا سلیم بیگ اور ڈائریکٹر آپریشنز پیمرا کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے، عدالت مدعلیہان سے رپورٹ طلب کرے۔
بعدازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی تقاریر پر پابندی کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
یاد رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے توہین عدالت کی درخواست بیرسٹر احمد پنسوتہ کے توسط سے دائر کی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ آج ایک اور وزیراعظم فارغ ہوسکتا ہے۔
ایک انٹرویو میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ الیکشن کرانے کے کیس میں فیصلہ تو دے چکی ہے، اب 3 رکنی بینچ صرف عمل درآمد کا بینچ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ایک اور وزیراعظم فارغ ہوسکتا ہے، عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو سپریم کورٹ ایک اور وزیراعظم کو فارغ کر دے گی۔
اپنے ایک ٹویٹ میں فواد چوہدری نے لکھا کہ الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مفرور ملزم اس پارٹی کے فیصلے کر رہا ہے، نون لیگ کی بحیثیت پارٹی رجسٹریشن منسوخ کرانے کے لئے ریفرنس دائر کرنے پر مشاورت شروع کردی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ حکومت ہر اجتماع سے خوفزدہ ہے، وکلاء کو روکنے کے لئے رکاوٹیں انتہائی غیر ضروری ہیں، وکلاء اگر آئین اور سپریم کورٹ سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں، اس پر ریاست کو وکلاء کا شکر گزار ہونا چاہیئے یہاں حکومت ہی آئین سے خوفزدہ ہے اور عدالت کو کام کرنے سے روک رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو جنگ والے اہلکار درکار ہیں، بری فوج مصروف ہے تو نیوی، ائیرفورس سے مدد لی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت نے انتخابات کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔ اور عدالت سے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کردی۔
حکومتی جواب میں کہا گیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، 3 رکنی بینچ متبادل کے طور پر درخواست پر سماعت نہ کرے۔
جواب میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی درخواست مؤخر کی جائے۔
مزید پڑھیں: الیکشن تاخیر کیس پر فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد، سماعت پیر تک ملتوی
وفاقی حکومت کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ جسٹس اعجازالاحسن پہلے ہی کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ 4،3 کی اکثریت سے دیا گیا، چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس اورجسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ ناٸیک کے دلائل
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ ناٸیک روسٹرم پرآٸے تو جسٹس منیب اختر نے ان کے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات توکچھ اورکہہ رہے ہیں، کیا آپ نےبائیکاٹ ختم کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات میں بائیکاٹ کا چھپا ہوا ہے۔
فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا، ہم کارروائی میں شامل ہوں گے، بینچ سے متعلق ہم کچھ تحفظات ہیں۔
سپریم کورٹ کا حکومتی اتحادکےوکلاء کو سننے سے انکار
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ابھی آپ کوسن نہیں رہے اس پر وضاحت کریں، اگر آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تو تحرہری طور پر بتائیں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ کا بیان
وکیل ن لیگ اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارا وکالت نامہ اپ کے پاس ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ن لیگ کے وکیل سے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ موجود ہے، لیکن بیان دیئے گئے ہیں اس کا کیا۔ جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ہم وکلا اپ کے سامنے آئے ہیں، اس کا مطلب آپ پر اعتبارہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک طرف اعتراض دوسری طرف کارروائی کاحصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زباں اس میں استعمال کی گئی ہے۔
جمیعت علمائے اسلام ف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت سے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان کے دلائل
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی استدعا کی گئی، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، الیکشن کمیشن کا حکم برقراررہا تو تمام استدعا ختم ہو جائیں گی۔
عرفان قادر کا اٹارنی جنرل کو لقمہ
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کا اٹارنی جنرل عثمان منصور کے کان میں لقمہ دیا تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا عرفان قادراٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں۔ عرفان قادر نے جواب دیا کہ 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ 3 منٹ سے15سیکنڈ پر آگئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5 رکنی تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے والے اراکین شامل کرنے کا پابند نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کوبھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں 5 رکنی بینچ بنا نہیں تھا، کس قانون کے تحت آرڈر آف دی کورٹ ضروری ہوتا ہے، ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کیلئے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں، عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے، ججز کی مشاورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 4/3 والی منطق مان لی تو معاملہ 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا 5 رکنی بینچ کا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کےازسرنوتشکیل کانقطہ شامل نہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسر نو تشکیل انتظامی اقدام تھا، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے معذرت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نوٹ کے مطابق 4 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا، بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ 4 ججز کو بینچ سے نکالا گیا، فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہو رہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا، عدالت بینچ کی ازسر نو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ازسر نو تشکیل میں تمام 5 نئے ججز آ جاتے تو کیا ہوتا، کیا نیا بینچ پرانے 2 ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے، نیا بینچ تشکیل دینا جوڈیشل حکم تھا انتظامی نہیں۔
اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ 2 ججز نے جو رائے دی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس یحییٰ نے کہا اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، 5 رکنی بینچ نے 2 دن کیس سنا، کیا کسی نے کہا 2 ارکان موجود نہیں، کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ 7 رکنی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2 ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور از سرِ نو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ 4 آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا نقطہ سمجھ گئے اگلے نقطے پر آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زیر حاشیہ میں بھی لکھا کہ 2 ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہے، فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تومتفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ بینچ سے الگ ہو جائیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ رجسٹرارآفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے، سرکلر جسٹس فائز کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا، عدالتی حکم کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے، عدالتی حکم نظرثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا، جسٹس فائزعیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ 184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، ازخودنوٹس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی، فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کرتے ہوئے استدعا کی کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکرہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت موخرکی جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروائی کیسے مؤخر کریں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا سوموٹونوٹس لیا تھا، 2 اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، اسپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے، ازخود نوٹس کیلئے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا، از خود نوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں، 184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں اور ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پہلے طے تو کر لیں سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی، جسٹس قاضی فائز فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو الگ کرلیا، کیسے ہو سکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز مقدمہ سنیں؟، جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا، سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تمام 15 ججز مختلف آراء اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعاء نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا، عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جسٹس فائزعیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہوسکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ 3 دن میں سینئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، لارجر بینچ کے نکتے پردلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس د یئے کہ ایک فیصلہ 3 رکنی اکثریت نے دیا، ایک 2 رکنی اقلیت نے، بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے، سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہو سکتا ہے، سماعت کے بعد کیے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے، کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہو جاتا ہے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بینچ میں تھے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 2 الگ الگ بینچز نے الگ الگ کارروائی کی تھی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صورتحال سب کیلئے ہی مشکل ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو بتایا کہ سیکرٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے، دونوں افسران کوسن کر بھیج دیتے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ یہ حساس معاملہ ہے،سیکیورٹی معاملات پران کیمرا سماعت کی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیرفورس کا ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیرفورس سے مدد لی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ اسٹیشنز محفوظ ہیں، فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو، کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبرمیں سن لیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام چیزیں ریکارڈ پرموجود ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں۔
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمود الزمان
سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حساس معلومات نہیں لیں گےمجموعی صورتحال بتا دیں، فل حال پنجاب کا بتائیں، خیبرپختونخوا میں ابھی تاریخ ہی نہیں، کیا پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں۔
سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں، کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا، نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر
عدالت نے پی ٹی آئی کے علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا مؤقف ہے۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکارصرف ایک دن کیلئے دستیاب ہو سکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا، سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا، کیا الیکشن کمیشن کو جنگ والے اہلکار درکار ہیں۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سیکرٹری دفاع نے عدالت سے کہا کہ ریزورفورس موجود ہے مخصوص حالات میں بلایا جاتاہے، ریزورفورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع کو حکم دیا کہ سر بمپر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کردیں گے، اور کوئی سوال ہوا تو اس کا جواب آپ سے لیں گے، آپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس د یئے کہ حساس معاملات کو سمجھتے ہیں، پبلک نہیں ہونے چاہیئے۔
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔
سیکرٹری دفاع نے مؤقف پیش کیا کہ ریزروفورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، اور اس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے، الیکشن ڈیوٹی کیلئے لڑنے والے اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، انتخابات کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئے گا۔
وکیل علی ظفر نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز، بحری اور فضائیہ سے بھی معلومات لیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہاں سیکیورٹی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں، الیکشن کمیشن نے 45 فیصدپولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا، جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں، جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصورہوتا ہے۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع سے دو گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی اور جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اپنی پوری کوشش کریں۔
سیکریٹری دفاع نے عدالت سے کل تک مہلت مانگ لی۔ جس پر عدالت نے سیکرٹری دفاع کوکل تک کی مہلت دیدی۔
سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی
ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ عامر محمود عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، کرنٹ اکاؤنٹ اورمالی خسارہ کم کیا جارہا ہوگا، آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کرکے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے، درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز پلاننگ کمیشن جاری کرتاہے، ترقیاتی فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے، عدالت فیصلہ کرے، 450 ارب روپے خرچ نہ ہونے کی وجہ اخراجات میں کمی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کردیں، حکومت نے اخراجات کم کرنے کیلٸے اقدامات کٸے ہیں، آٸینی تقاضہ پورا کرنے کیلٸے آرٹیکل 254ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ مثال بن گٸی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آٸندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل
عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا وقفے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل شروع کئے، اور کہا کہ کوشش ہے اپنی بات مختصررکھوں، اور کوشش کروں گا کہ 30 منٹ میں تک اپنی بات مکمل کرلوں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف پیش کیا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہو جاتے ہیں، ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں، بینچ سے جانبداری منسوب کی جارہی ہے، پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کامطالبہ کرچکی۔
عرفان قادر نے کہا کہ عدالت پرعدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیئے، عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے، فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا، میری نظر میں انصاف نہیں ہو رہا، ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں، 3 ججزنے حکم جاری کیا، یکم مارچ کاعدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا، عدالت اس تنازعہ کوحل کرنےکیلئےاقدامات کرے، فیصلے کی تناسب کا تنازعہ ججز کا اندرونی معاملہ نہیں۔
عرفان قادر نے مطالبہ کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ درخواستیں خارج کرنے والے ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے، سرکلر سے عدالتی فیصلے کا اثر زائل نہیں کیا جا سکتا، چیف جسٹس اپنے سرکلر پر خود جج نہیں بن سکتے، ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ قومی مفاد آئین اور قانون پرعملدرآمد میں ہے، آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہوگی، قومی اسمبلی انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے، صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ ہائیکورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں، خیبرپختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دے دی ہے، پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں، کیوں کہ صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاذ نہیں، ان کو تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے، صدر ہرکام میں کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے، الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کیلئے ہے، اور ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونےہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا استدعا کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز کے فیصلے نے 184/3 کے مقدمات پر سماعت سے روکا، چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں تنازع حل کیا جائے، 184/3 تنازع حل کرنے تک مقدمے پر سماعت روکی جائے، جسٹس فائزعیسی کے فیصلے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس فائزعیسی سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے، ان معاملات پر تمام ججزجلد ملیں گے، جسٹس فائزعیسی ملاقات میں کچھ ایشو زہائی لائٹ کیے ہیں، رولز بنانے کیلئے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس عیسیٰ والے فیصلے کے بعد ایک جج نے معذرت کی، عرفان قادر نے کیس سے متعلق نکات اٹھائے ہیں، آپ نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے جو میں دوبارہ نہیں اٹھاؤں گا۔
عرفان قادر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی تعریف کردیا کریں، سوشل میڈیا پر آپ ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں،
چیف جسٹس نے عرفان قادر کو جواب دیا کہ ہم صرف اللہ سے خیر مانگتے ہیں، آپ سوشل میڈیا کی بات کرکے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
عرفان قادر نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ اس وقت عوامی چیف جسٹس ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا نہیں دیکھتے۔
عرفان قادر نے مؤقف دیا کہ 6 ججز کی رائے کے بعد 3 رکنی بینچ سماعت نہیں کرسکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی تحلیل درست تھی یا نہیں، پرویز الٰہی کی آڈیو لیک آئی جو فواد چوہدری سے متعلق تھی، پرویز الٰہی نے کہا فواد چوہدری پہلے گرفتار ہوتے تو اسمبلی نہ ٹوٹتی، پنجاب اسمبلی نہ وزیراعلی نے توڑی نہ گورنرنے۔
عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن کو 5 رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، مناسب ہوتا شفافیت کیلئے جسٹس اعجاز کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو وجہ میں نے سوچ کر بینچ بنایا وہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔
عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا بہت مداح ہوں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مداحی پر آپ کا مشکور ہوں۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے استفسار کیا کہ ریکارڈ سے دکھائیں جسٹس اعجازالاحسن کب بینچ سے الگ ہوئے۔ عرفان قادر نے جواب دیا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا جسٹس اعجازالاحسن نے معذرت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکمنامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی مرتبہ 3 ججز اٹھ کر جاتے تھے اور 2 ججز واپس آتے تھے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شوکس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے جواباً ریمارکس میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز سے پوچھا تھا ”ون مین شو“ کس کوکہا، انہوں نے کہا عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا، ماحول پورے ملک کی طرح عدالت اور باہرخراب ہے، ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی، یہ ایشو پارلیمنٹ کوخود حل کرنا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل مکمل ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دلائل سے محظوظ ہوئے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک کی دوبارہ استدعا
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائک نے اجازت مانگی کہ عدالت میں دلائل دینا چاہتا ہوں، پی ڈی ایم کے اعلامیے میں بائیکاٹ کا ذکر نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں۔ وکیل کامران مرتضی بھی کیس میں وکالت سےالگ ہو گٸے۔
وکیل مسلم لیگ ن اکرم شیخ نے استدعا کی کہ عدالت کی معاونت کیلئے پیش ہورہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شیخ صاحب، کامران مرتضیٰ اور فاروق نائیک کا احترام کرتے ہیں، حکومت میں شامل جماعتوں نے 3 رکنی بینچ پرعدم اعتماد کیا ہے، آپ ذاتی حیثیت میں نہیں آئے، جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا وکالت نامہ ذاتی حیثیت میں نہیں ہے، عدالتی عملے نے ن لیگ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اعلامیہ نکال کر دیا ہے۔
وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دے سکتا تو کیا آرٹیکل لکھوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری معروضات دے دیں جائزہ لے لیں گے۔ وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ خود کو مزید شرمندہ نہیں کرسکتا۔
وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں گورنر کا بھی وکیل تھا سیاسی جماعت کا بھی، مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے گورنر کی وکالت چھوڑ رہا ہوں۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کرسکتا۔ الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین اور قانون واضح ہے انتخابات کی تاریخ کون دے گا، کیا صدر الیکشن کی تاریخ ایڈوائس کے بغیر دے سکتے ہیں، عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے لیے بیٹھی ہے، سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے، اکرم شیخ تیاری سے آئے تھے ان کے موکل نے ان کو بولنے نہیں دیا، اکرم شیخ کے موکل کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے اس نقطے پر گفتگو نہیں کی، ان سے گلہ ہے کہ وہ 3/4 پر ہی زور دیتے رہے، اس نقطے پر اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں۔
عدالت نے کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو کل سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس نے اپنے آخری ریمارکس میں کہا کہ انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی، اور حکومت نے الیکشن کرانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے، ماضی میں حالات مختلف تھے، ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی۔
مزید پڑھیں: مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک جج کوسزا دوں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا
اس سے قبل 31 مارچ کو انتخابات سے متعلق کیس کی ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا تھا، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
3 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحیٰ آفریدی کے اختلافی نوٹس
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ کل اور آج 2 ججز نے سماعت سے معذرت کی، ججز کے آپس میں تعلق اچھے ہیں، اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے اور بعد میں بھی ہوئی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ کچھ نقاط پر ہماری گفتگو ضروری ہے، سیاسی معاملات پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی تھی۔
اس سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ 3 روز سے سماعت کررہا تھا۔
30 مارچ بروز جمعرات کو چوتھی سماعت پر 5 رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس امین الدین بینچ سے الگ ہو گٸے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پانچوں سماعت پر جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی۔
پی ٹی آئی درخواست کی سماعت کا بینچ اب تک 2 بار ٹوٹ چکا ہے، گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ کے بینچ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کی تھی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر اور الیکشن کمیشن کے وکیل اپنے اپنے دلائل مکمل کرچکے ہیں۔
اب اٹارنی جنرل، نگران حکومت پنجاب اور گورنرخیبرپختونخوا حاجی غلام علی کے وکلاء دلائل دیں گے۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یوآئی (ف) نے فریق بننے اور فل کورٹ کی استدعا کررکھی ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے باہر بھاری سیکیورٹی نفری تعینات کردی گئی۔
سپریم کورٹ بلڈنگ کے باہر پولیس، ایف سی اور رینجرز تعینات ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے اظہار یکجہتی کے لئے وکلاء سپریم کورٹ کے باہر پہنچ گئے۔
کسی بھی غیرمتعلقہ شخص کے سپریم کورٹ میں داخلے پر پابندی ہے جبکہ وکلاء، صحافیوں اور سائلین کو عدالت میں جانے کی اجازت ہے۔
اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے سپریم کورٹ میں الیکشن التوا کیس کی کل سماعت کے لئے اہم ہدایات جاری کردیں۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق آج سپریم کورٹ میں وہی افراد داخل ہوسکیں گے جن کے مقدمات زیر سماعت ہوں گے یا جن کو سپریم کورٹ انتظامیہ کی طرف سے اجازت نامہ جاری ہوگا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ قانون کا احترام سب پر لازم ہے اور اس کا نفاذ برابری کی سطح پر کیا جائے گا۔
ترجمان نے عوام سے اپیل کی کہ ریڈ زون میں تعینات پولیس اور دیگر معاون قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں، شہری کسی بھی مشکوک سرگرمی کے متعلق اطلاع پکار 15 پر دیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات پر حکومت اور اپوزیشن کا اختلاف برقرار ہے جبکہ حکومت نے سپریم کورٹ میں آج ہونے والی سماعت سے متعلق اہم فیصلہ کرلیا۔
ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا کہ آج سماعت میں اگر فل کورٹ کی استدعا مسترد ہوئی تو حکومت عدالتی بائیکاٹ کرے گی۔
اٹارنی جنرل اور سیاسی جماعتوں کے وکلا بینچ پر اعتراضات اٹھائیں گے۔
حکومتی اتحاد میں شامل 3 بڑی جماعتیں چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کریں گی۔
بینچ سے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس امین الدین خان پہلے ہی علیحدہ ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف بھی میدان میں کود چکی ہیں، ہم خیال سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
سپریم کورٹ نے الیکشن التوا سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی 31 مارچ کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
حکم نامے کے مطابق ’اٹارنی جنرل پاکستان سے عدالت نے گزشتہ سماعت پر ان چند سوالات کے جوابات طلب کیے جو الیکشن کمیشن نے سیکیورٹی اور مالی مسائل کے حوالے سے عدالت کے سامنے پیش کیے تھے۔‘
حکم نامے کے مطابق ’اٹارنی جنرل نے جوابات کے لئے وقت مانگا اور عدالت نے ان کی استدعا قبول کی۔‘
حکم نامے کے مطابق ’سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ بھی آئندہ سماعت کو پیش ہوں جو پیر تین اپریل کو صبح 11:30 بجے ہو گی۔‘
تحریری حکم نامہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات کے حوالے سے ہو تو وہ کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں، تاہم انہوں نے خود کسی بھی مذاکراتی ٹیم کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیا۔
اردو نیوز کے دئے گئے خصوصی انٹرویو میں عمران خان نے موجودہ فوجی قیادت سے رابطے کے سوال پر کہا کہ ’کوئی بات نہیں ہوئی، کوئی کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوا۔ الیکشن پر کرنا چاہتے ہیں بات تو ہم کسی سے بھی کر لیں گے۔‘
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے اور اگر بات چیت ہوئی تو وہ ان کی پارٹی کے دیگر اراکین کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ صرف الیکشن کے نقطے پر ہوں گے، ’میں نے تو خیر ان لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھنا، ہماری ٹیم بیٹھے گی لیکن بات تو صرف الیکشن کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر بات انتخابات کی طرف نہیں جاتی تو پھر مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے قومی اسمبلی اجلاس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج طلب کرلیا۔ وزیراعظم اراکین کو سیاسی حکمت عملی پربریفنگ دیں گے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں دوپہر ایک بجے منعقد کیے جانے والے اجلاس کی صدارت وزیراعظم کریں گے، جس میں قومی اسمبلی اجلاس سے متعلق حکمت عملی پر مشاورت ہوگی، شہباز شریف سیاسی حکمت عملی پر بریفنگ بھی دیں گے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ پنجاب کے انتخابات ملتوی کئے جانے کے معاملہ پر سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے حوالے سے لیگی اراکین کو اعتماد میں لیں گے۔
گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پارٹی رہنماؤں اور قانونی ماہرین کا اجلاس ہوا، جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے پر بریفنگ دی۔
سپریم کورٹ میں فل بینچ کی استدعا مسترد ہونے کی صورت میں نظرثانی درخواست سمیت دیگر قانونی آپشنز کا بھی جائزہ لیا گیا۔
اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں انتخابات ممکن نہیں، یہ وقت تخریبی سیاست کا نہیں، ملکی معیشت ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف سے پارٹی رہنماوں نے بھی ملاقات کی، ملاقات میں ایاز صادق، ملک احمد خان ،عطا تارڑ اور احد چیمہ سمیت دیگر شامل تھے۔
اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ الیکشن ضرور ہونے چاہئں لیکن موجودہ صورت حال میں ایسا ممکن نہیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کا اجلاس آج دوپہر 2 بجے منعقد ہوگا، جس کا 20 نکاتی ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے۔
ایجنڈے میں ماہ رمضان میں خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور ملک میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران جانی نقصانات پر تشویش پر توجہ دلاؤ نوٹسز بھی شامل ہیں۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی طرف سے اجلاس کے جاری کردہ ایجنڈے کے مطابق کالام بی بی انٹرنیشنل ویمن انسٹیٹیوٹ بنوں کے قیام کا بل2023 منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
اجلاس میں پٹرولیم، خارجہ امور، پارلیمانی امور، سائنس و ٹیکنالوجی، پاور ڈویژن، میری ٹائم افیئرز، کشمیر افیئرز انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ اور لاء اینڈ جسٹس کی قائمہ کمیٹیوں کے چیئرپرسن اپنی اپنی کمیٹیوں کی یکم جولائی2021 سے 31 دسمبر2021 تک کی رپورٹس پیش کریں گے۔
صدر کے مشترکہ اجلاس سے خطاب پر شکریہ کی قرارداد اور وقفہ سوالات بھی ایوان کی کاروائی کا حصہ ہوں گے۔
ادھر سینیٹ اجلاس آج صبح 11 بجے ہوگا، جس کی صدارت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کریں گے۔
اجلاس کا 25 نکات پر مشتمل ایجنڈا جاری کردیا گیا، اجلاس میں مختلف بلز، قراردادیں اور تحاریک شامل ہیں۔
اس کے علاوہ دی کنٹرول آف نارکوٹکس ترمیمی بل 2022 ایجنڈے میں شامل ہے جبکہ پاکستان انسٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ رجسٹریشن کوالٹی بل 2023 ایجنڈے کا حصہ ہوگا۔
قومی زبان متعارف کروانے اور بلوچستان کی خواتین کو زرعی ٹیکنالوجی بارے تحاریک پیش کی جائیں گی اورخواتین کے عالمی دن اور سرکاری نوکریوں میں اقلیتوں کے کوٹے بارے قراردادیں ایجنڈے میں شامل ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے آئین کی بالادستی اور عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے پارٹی رہنماوں کو سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی سے رابطوں کا ٹاسک دے دیا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے لاہور زمان پارک میں اہم ملاقات کی۔
عمران خان نے رول آف لا اور آئین کی بالادستی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں و سول سوسائٹی سے رابطے کا ٹاسک دے دیا۔
اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں عدلیہ پر حملہ کیا جارہا ہے جسے روکنے کے لیے پوری قوم کو اکٹھا کرنا ہے، جو سیاسی جماعتیں آئین کی بالادستی کے لیے کھڑا ہونا چاہتی ہیں ان سب سے رابطہ کیا جائے۔
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ کل ہمیں ذمہ داری ملی ہے جس کے بعد اب سندھ کی سیاسی، مذہبی، قوم پرست جماعتوں اور سول سوسائٹی سے بھی رابطہ کیا جائے گا، آئین کی بالادستی اور رول آف لا کے لیے پوری قوم کو اکٹھا ہونا ہوگا۔
عمران خان سے وکلا کی ملاقات
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے زمان پارک میں وکلا کے وفد نے ملاقات کی، جس میں پاکستان بار کونسل کے رکن چوہدری حفیظ الرحمٰان نے ساتھیوں سمیت پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
سپریم کورٹ کے وکلاء کا وفد بھی تحریک انصاف میں شامل ہوا اور چیئرمین تحریک انصاف کے مؤقف کی مکمل تائید کا اعلان کیا۔ جب کہ عمران خان نے چوہدری حفیظ اورساتھیوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کا خیرمقدم کیا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرنے والا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرنے والا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔
پنجاب اور خیبرپختون خوا کے انتحابات میں تاخیر کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے شروع کی، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل اور آج 2 ججز نے سماعت سے معذرت کی، ججز کے آپس میں تعلق اچھے ہیں، اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے اور بعد میں بھی ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ نقاط پر ہماری گفتگو ضروری ہے، سیاسی معاملات پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔
پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کونسل حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے، تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو بعد میں سنیں گے۔
حسن رضا پاشا نے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کرلیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں، باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، چیمبر میں آئیں آپ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، اس معاملہ پر مجھے چیمبرمیں ملیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کر دیتے ہیں، عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
اٹارنی جنرل پاکستان کے دلائل
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں، ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا۔ جس پر اتارنی جنرل نے جواب دیا کہ وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے، ہم نے آئین و جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے، ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر میں آگئے، 90ء کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی مدت ہوتی ہے، سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
اٹارنی جنرل کی بھی عدالت سے فل کورٹ بنانے کی استدعا
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس نکتے پرآپ دلائل ضرور دیں، فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 9 رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا، جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منیب اخترآئینی ماہرہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہرنقوی کیوں شامل کیے گئے، جسٹس مظاہر نقوی کوشامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا، 2 سال جسٹس فائزعیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی، جسٹس فائزعیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا۔
حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد کی تاریخ دی، کیوں کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو حالات نہیں بتائے تھے، اگر حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہورہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردارادا کریں گے، عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کو لگے گا کہ بااختیار فیصلہ ہے، عدالت 20 ارب روپے کے اخراجات پر پہلے بتائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوسرا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے، نصف پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس یاحساس ہیں، صرف یہ کہناکافی نہیں کہ ملک میں دہشتگردی ہے، دہشتگردی تو 90 کی دہائی سے ہے، عدالت کوبتایاگیا افواج بارڈرپرمصروف ہیں، اس معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ آج عدالت کا جاری سرکلردیکھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھاہے، وہ بینچ سے الگ ہو چکے ہیں، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے، عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے۔
اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی از سرنو تشکیل کیلئے بھیجا گیا تھا، میں چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کرسکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا ہے تو یہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو جواب دیا کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیربحث لائیں گے، آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کررہے تھے، ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججزکی اندرونی گفتگوعوام میں نہیں کرنی چاہئے، درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کوسلجھا دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، تمام ججزکو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ متحد ہے کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا، اہم عہدوں پرتعینات لوگ کس طرح عدلیہ کونشانہ بنارہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک جج کوسزا دوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں، سپریم کورٹ میں 20 سال کی نسبت بہترین ججزہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا، آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کرکیا، جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا ، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس معاملے پرکیسے جج کا ٹرائل کریں، جسٹس اقبال حمید الرحمان کواستعفی سے روکا تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ مرحوم باپ کوکیا منہ دکھاؤں گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کی استدعا
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کا موقف پورا نہیں سنا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اپنے دلائل جلدی ختم کردوں گا۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرتا ہوں، روزمجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے کہ تو آپ کو سنیں گے۔
عرفان قادر نے جواب دیا کہ 3 منٹ نہیں بلکہ مختصرا بات مکمل کرنےکی کوشش کروں گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیس کی بات کریں، میں ادھر ادھرکی باتوں میں جذباتی ہوگیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے فل کورٹ کی دوبارہ اپیل کی تو عدالت نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈزمیں کتنی رقم موجود ہے، اگر20 ارب خرچ ہوتےہیں توخسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، 1500ارب خسارے میں 20 ارب سے کتنا اضافہ ہوگا، الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہوگیا۔
جسٹس منیب اختر نے دوبارہ استفسار کیا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے، پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کاجائزہ لیں، رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز اسٹیٹ بینک میں ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے، الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے، کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو 30 اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈزمیں رقم ہونا اور خرچ کیلئے دستیاب ہونا الگ چیزیں ہیں، اسٹیٹ بینک کو رقم اور سونا ریزرو رکھنا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت پیر ساڑھے11بجے تک ملتوی کردی۔
درخواست پر سماعت کرنے والا بینچ دو بار ٹوٹا
اس سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ 3 روز سے سماعت کررہا تھا۔
بینچ ٹوٹنے کے باوجود انتخابات التوا کیس کی سماعت آج بھی ہوگی
گزشتہ روز جمعرات کو 5 رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس امین الدین بینچ سے الگ ہو گٸے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت آج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کا ن لیگ، پی پی پی، جے یو آئی کی فریق بننے کی درخواست لینے سے انکار
آج سماعت کے آغاز سے قبل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ حکمنامہ پڑھ کرسنائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس امین الدین نےبینچ میں بیٹھنےسےمعذرت کی تھی، ان کے اس فیصلے کے بعد حکم نامہ کا انتظارتھا۔ عدالتی حکم نامہ کل گھر پر موصول ہوا جس پر میں نے علیحدہ نوٹ لکھا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ میں بینچ کا ممبرتھا تاہم میرے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ میں اس بینچ میں مس فٹ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم آٸین کے پابند ہیں، دُعا ہے اس کیس میں جوبھی بینچ ہو،ایسا فیصلہ آئے جو سب کو قبول ہو۔اللہ ہمارے ادارے پررحم کرے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ میں اورمیرے تمام ساتھی ججز آئین کے پابند ہیں، اسی دوران چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے کا ’آپ کا شکریہ‘ کچھ دیرمیں نئے بینچ کا فیصلہ ہوگا۔
بینچ ٹوٹنے اور سماعت معطل ہونے کے بعد عدالتی عملے نے اعلان کیا کہ کیس کی سماعت نماز جمعہ کے بعد 2 بجے ہوگی۔
پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے لئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا، جس میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ درخواست پر سماعت کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ ہوں گے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی یقین دہانی کرائے، سپریم کورٹ
اس سے قبل سپریم کورٹ نے کازلسٹ جاری کرتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پرگزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا۔
کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس عمرعطا بنیادل سربراہی کی میں 4 رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کرنی تھی جس کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز، جسٹس منیب اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے۔
مزید پڑھیں: پاکستان بار کونسل کی الیکشن التواء کیس پر فُل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز
حکمنامے میں کہا گیا کہ جسٹس امین الدین خان اپنے فیصلے کی روشنی میں بنچ سے علیحدہ ہوئے، بینچ کے 3 ارکان نے ان کے موقف سے اختلاف کیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب نے سماعت جاری رکھنے کا مؤقف اپنایا۔
اس حکمنامہ میں جسٹس جمال مندوخیل کی سماعت جاری رکھنے یا نہ رکھنے پرکوئی رائے شامل نہیں ہے۔