Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  
Live
politics march 28 2023

پاکستان بار کونسل کی الیکشن التواء کیس پر فُل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز

سپریم کورٹ نے جس ایشو پر از خود نوٹس لیا وہ دو ہائی کورٹس میں زیر التواء تھا، پاکستان بار کونسل
شائع 28 مارچ 2023 11:02pm
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

اسلام آباد: پاکستان بار کونسل نے انتخابات التواء کیس پر فُل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی۔

اعلامیے میں بار کونسل نے کہا کہ فل کورٹ ملک اور عوام کو انارکی سے محفوظ رکھنے کے لئے آئین کی تشریح کرے، فل کورٹ میں گذشتہ راونڈ میں مقدمے سے انکار کرنے والے دو ججز کو شامل نہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: وقت آگیا چیف جسٹس آفس کا ون مین شو اختیار ختم کیا جائے، اختلافی نوٹ

پاکستان بار کونسل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ججز کی کردار کشی سے گریز اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر رائے زنی کریں۔

اپنے اعلامیے میں بار کونسل نے سپریم کورٹ میں پولرائزیشن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو سیاسی معاملہ پر سو مو نوٹس لینے کی ضرورت نہیں تھی، جس ایشو پر از خود نوٹس لیا گیا وہ دو ہائی کورٹس میں زیر التواء تھا۔

پاکستان بار کونسل نے مزید کہا کہ سی سی پی او لاہور کے سروس میٹر میں الیکشن معاملہ کا از خود نوٹس لیا گیا، سو موٹو کیس سے اختلافی فیصلہ سامنے آیا جس سے اس کی تکریم میں کمی ہوئی۔

واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر آج سپریم کورٹ میں مسلسل دوسرے روز سماعت ہوئی۔

درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کر رہا ہے، دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔

’حکومت سپریم کورٹ کو تقسیم کر رہی ہے، نیوٹرلز اپنا راستہ درست کرلیں‘

جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے دوران میرے ساتھ کوئی لوگ نہیں تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کا دعویٰ
شائع 28 مارچ 2023 10:29pm
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان۔ فوٹو — اسکرین گریب
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان۔ فوٹو — اسکرین گریب

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے جا رہی ہے۔

ویڈیو لنک کے ذریعے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انہوں نے الیکشن سے بھاگنے کی پوری کوشش کی، ہم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وائٹ پیپر جاری کیا، ہم اس دلدل سے نکلیں گے تو عدالتی اصلاحات کریں گے۔

یہ سپریم کورٹ پر الیکشن نہ کرانے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ جنتی جلدی انصاف دے سکیں ملک اتنی تیزی سے اوپر جائے گا، یہ کبھی عدلیہ کو آزاد اور مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے، یہ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ الیکشن نہ کرائیں، 1990 میں نواز شریف نے اربوں کے پلاٹس رشوت میں دیئے جس پر ایک جج نے نوٹس لیا تو انہوں نے رشوت دے کر اس جج کو زیرو کیا۔

پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ رفیق تارڑ بریف کیس میں رقم لے کر کوئٹہ گئے، انہیں کبھی نیوٹرل امپائر کو تصور نہیں کیا، غلط کام کرنے والا آزاد عدالت کو کبھی نہیں آنے دے گا، انہوں نے اداروں پر اپنے لوگ بٹھائے، اب نیب اور ایف آئی اے کی ساکھ نہیں۔

ہم عدالتی اصلاحات چاہتے ہیں لیکن ان کا مقصد الیکشن سے بھاگنا ہے

عدالتی اصلاحاتی بل سے متعلق عمران خان نے کہا کہ ہم سب چاہتے ہیں عدالتی اصلاحات ہوں لیکن ان کا مقصد الیکشن سے بھاگنا ہے، ان لوگوں کی کرپشن پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔

اپنے کارکنان کی گرفتاری پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ نامعلوم افراد رات گئے بغیر وارنٹ کے ہمارے سوشل میڈیا ورکرز کو اٹھا رہے ہیں، اگر وہ نہیں ملتے تو ان کے بھائیوں اور باپ کو اٹھا لیتے ہیں، ان پر تشدد کیا جاتا ہے، انہیں معلوم نہیں کہ سوشل میڈیا کیسے کام کرتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ زمان پارک آپریشن مجھے اغوا کرنے کے لئے کیا گیا، وہ آپریشن قانون کے مطابق نہیں تھا، آج معلوم ہوا مجھ پر اسلام آباد میں 40 کیسز کردیئے، میرے خلاف ایک ہی دن میں 15 پرچے کاٹ دیئے تاہم میں لاہور میں بیٹھا ہوں۔

جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے دوران میرے ساتھ کوئی لوگ نہیں تھے

عدالت میں پیشی کے حوالے سے سابق وزیراعظم نے کہا جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے دوران میرے ساتھ کوئی لوگ نہیں تھے، وہاں پولیس اور رینجرز موجود تھی، جب وہاں کارکنان پہنچے تو ان پر آنسو گیس شیلنگ کی گئی اور کارکنان پر پولیس نے پتھراؤ کیا۔

جو لوگ الیکشن چاہتے ہیں وہ انتشار نہیں چاہتے

ان کا کہنا تھا کہ نامعلوم افراد ڈنڈے مار کر کارکنان کو پکڑ کر لے گئے، جب میری گاڑی کہیں سے گزر رہی ہوتی ہے ڈنڈے مار کر شیشے توڑ دیتے ہیں، واضح کردوں جو لوگ الیکشن چاہتے ہیں وہ انتشار کے حامی نہیں ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف نے دعویٰ کیا کہ شہباز گل سے گرفتاری کے بعد پوچھا گیا کہ عمران کھانے میں کیا کھاتا ہے، وزیراعظم ہونے کے باوجود ایجنسیز نے میرے دو نوکروں کو بھرتی کیا، ان کا مجھے زہر دینے کا منصوبہ تھا۔

عمران خان نے کہا کہ حکومت کے پیچھے وہ لوگ ہیں جو خود کو نیوٹرل کہتے ہیں، میرے ٹوئٹر پر ایک کروڑ کے قریب فولوورز ہیں میں انہیں کنٹرول نہیں کر سکتا، مجھے نہیں معلوم وہ لوگ کون ہیں، ڈکٹیٹر شپ میں نہیں بلکہ جمہوریت میں تنقید ہوتی ہے جس سے اصلاح کی جاتی ہے۔

اگر اس راستے پر چلتے رہے تو آپ کے ہاتھ سے گیم نکلنے والی ہے

لاہور جلسے پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ مینار پاکستان جلسے سے قبل شہر کے داخلی وار خارجہ راستے بند کردیئے گئے، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا، آپ اس راستے پر نکل گئے جس سے ملک کی تباہی ہوگی، اگر اسی طرح چلتے رہے تو آپ کے ہاتھ سے گیم نکلنے والی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ظلم کے خلاف پوری قوم کو اپنی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے، حکومت سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے جا رہی ہے، ملک میں قانون کی حکمرانی خطرے میں ہے۔

عمران خان نے کہا کہ نیوٹرلز اپنا راستہ درست کرلیں کیونکہ یہ خوف پھیلانے، دھمکانے کا راستہ جو اپنایا ہے اس سے کوئی نہیں ڈر رہا بلکہ یہ بیک فائر کر رہا ہے، لہٰذا حل صرف صاف و شفاف انتخابات ہے۔

پی ٹی آئی کا وزیر داخلہ کیخلاف ملک گیر مقدمات درج کرانے کا اعلان

امید ہے سپریم کورٹ سے کل مثبت فیصلہ آ جائے گا، اعجاز چوہدری
شائع 28 مارچ 2023 06:33pm
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ۔ فوٹو — فائل
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ۔ فوٹو — فائل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے خلاف ملک بھر میں مقدمات درج کرانے کا اعلان کردیا۔

زمان پارک میں الیکشن ملتوی کیس پر گفتگو کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی اعجاز چوہدری نے کہا کہ ہمیں امید ہے سپریم کورٹ سے کل مثبت فیصلہ آ جائے گا، جس کے بعد باقائدہ انتخابی مہم شروع ہوگی، مہم میں متعدد جلسے ہوں گے۔

اعجاز چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات کو توجہ سے سنیں، یہ سب لوگ عمران خان کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں، ایسی باتیں اس وقت ہوتی ہیں جب کسی کو قتل کرنا ہو، پہلے بھی عمران خان پر حملہ ہوچکا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے وزیر داخلہ کے خلاف مقدمات درج کرانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم رانا ثناء اللہ پر پورے ملک میں مقدمات درج کرا رہے ہیں، ان کے خلاف ہر ضلع اور تحصیل میں مقدمہ درج کرائیں گے۔

دوسری جانب کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹر کے صدر سے ملاقات میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ میرے قتل کی سازش میں رانا ثناء اللہ کلیدی کردار ہے، سازش کے باقی دو کرداروں کے نام پہلے ہی بتا چکا ہوں، میرے قتل کی تحقیقات کو سبوتاژ کرنے میں تینوں کا اہم کردار ہے۔

عمران خان نے کہا کہ رانا ثنا اللہ ایک بزدل آدمی ہے، یہ وزیر داخلہ نہیں، دہشت گرد مافیا کا رکن ہے، رانا ثنا اللہ کا کردار عابد شیر علی کے باپ سے پوچھ لیں، قتل کی دھمکیاں دینے والے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کروں گا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ عدالت عظمی پر الزام تراشی اور دباو میں لانا ن لیگ کا پرانا وطیرہ ہے، یہ وہی ہیں جن کے مسلح جتھے سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے۔

ملاقات کے دوران الیکشن ملتوی کیس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ انتخابات اگر مقررہ تاریخ سے آگے گئے تو سمجھیں قانون ختم ہوگیا، البتہ پی ٹی آئی کے امیدوار 30 اپریل کے حساب سے مہم جاری رکھیں۔

الیکشن سے پہلے اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ چار تین کو تین دو میں کیوں بدلا گیا، مریم

اس کے پیچھے مقاصد کیا تھے اور اس میں کون کون شامل تھا، مریم نواز
شائع 28 مارچ 2023 05:38pm
فوٹو ــ فائل
فوٹو ــ فائل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ الیکشن کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ چار تین کو تین دو میں کیوں بدلا گیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر مریم نواز نے ٹویٹ کیا کہ الیکشن کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ 4/3 کو 3/2 میں کیوں بدلا گیا؟

مریم نواز نے اپنے ٹویٹ میں سوالات اٹھاتے ہوئے مزید لکھا کہ اس کے پیچھے مقاصد کیا تھے اور اس میں کون کون شامل تھا؟

مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے مزید لکھا کہ کیا اس اہم ترین نقطے کا احاطہ کیے بغیر، زور زبردستی سے قانون کے خلاف فیصلے کو قالین کے نیچے چھپا کر کوئی بھی فیصلہ قابل قبول ہو گا؟ ہرگز نہیں!

ممنوعہ فنڈنگ کیس : پی ٹی آئی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری

الیکشن کمیشن سے 31 مارچ تک رپورٹ طلب کرلی گئی
شائع 28 مارچ 2023 04:36pm

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ممنوعہ فنڈنگ کیس شوکاز نوٹس کی کارروائی میں دفاع کا مناسب موقع نہ دئیے جانے سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کی، جب کہ پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل انور منصور عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل درخواست گزار نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن کی طرف سے مؤقف بیان کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، الیکشن کمیشن کا 22 مارچ 2023 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

عدالت نے تحریک انصاف کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 31 مارچ تک رپورٹ طلب کر لی۔

لائیو

سپریم کورٹ میں پچھلے فیصلے کے بجائے الیکشن تاریخ کے اختیار پر زور، پی ٹی آئی رہنماؤں کو آخری موقع

سپریم کورٹ میں انتخابات میں درخواست کی سماعت، جانیے تازہ سیاسی صورتحال
اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023 05:01pm
تصویر: روئٹرز
تصویر: روئٹرز

سپریم کورٹ کا پورا زور الیکشن تاریخ پر، اٹارنی جنرل پچھلے فیصلے کی تشریح کیلئے مصر

چیف جسٹس نے انتخابی اخراجات کیلئے ججوں کی تنخواہ سے کٹوتی کی تجویز دے دی
اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023 03:33pm
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات مؤخر کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت ہورہی ہے۔

درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کررہا ہے، دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔

نئے اٹارنی جنرل منصور اعوان، فاروق نائیک اور بیرسٹر علی ظفر کے علاوہ فواد چوہدری اور شیخ رشید بھی کمرہ عدالت موجود ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے، کارروئی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کیا الیکشن کمیشن کو فیصلے کا اختیار تھا، الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر اس کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت کیلیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا ذیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے، کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلاء میں حل نہیں کی جاسکتا، معاشرے اور سیاسی قیادت میں ڈسپلن کی ضرورت ہے۔

فاروق ایچ نائیک روسٹم پرآئے اور عدالت کے سامنے مؤقف پیش کیا کہ آئین زندہ دستاویز ہے اس کی تشریح زمینی حالات پر ہوسکتی ہے، موجودہ سیاسی حالات میں ملک کیلئے کیا بہتر ہے وہ تعین کرنا ہے، سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں انہیں لازمی سنا جائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا جاتا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے 2 ججز نے پہلے فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کرلیا جائے، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدرتاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے کا معاملہ اٹھانا ہے تو الگ سے درخواست دائر کریں، اس وقت مقدمہ تاریخ دینے نہیں منسوخ کرنے کا ہے، دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کواختیار تھا یا نہیں، جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملک میں اس وقت انار کی اور فاشزم ہے، عدالت ہمیں موقع دے تو کیس تیار کریں گے۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سینئر وکیل ہیں، کیس تو آپکے دل میں ہے، معاشرے اور سیاسی قیادت میں ڈسپلن کی ضرورت ہے۔

اٹارنی جنرل نےانتخابات کیس کیلئے فل کورٹ بینچ کی استدعا کر دی، اور پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی اعتراض کردیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 2 ججز کے اختلافی نوٹ کو دیکھا جن کا اپنا نقطہ نظر ہے، ان کے اختلافی نوٹ کا کیس سے براہ راست تعلق نہیں، فیصلہ کتنی اکثریت کا ہے اس کا جائزہ بعد میں لیاجاسکتاہے، فی الحال سنجیدہ معاملات سے توجہ نہ ہٹائی جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی استدعا ہم نے سن لی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پرعملدرآمد کی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بینچ کے ارکان درخواست کے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پرہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ فیصلہ کتنےارکان کا ہے یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روزمیں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں، کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کرسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکورہوں، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کی اعلی قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، پی ٹی آئی کو پہل کرنا ہو گی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کیلئے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست وگریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو بحران مزید بڑھے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تحریک انصاف پہل کرےگی توہی حکومت کوکہیں گے۔

جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیارہے، اور وہ بظاہر90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ 90 روز اب بھی گزر گئے ہیں، آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا، الیکشن توہرصورت ہونے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا، سوال یہ بھی ہے کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی منتحب نمائندے ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہیے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی۔ جسٹس جمال نے وکیل علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلہ پرعمل ہوچکا ہے، صدر کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا، سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر کی تاریخ تبدیل کردے، کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیرکرسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسا کرسکتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلہ پر عمل کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کااختیارہے، کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کرسکتا ہے۔ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتحابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا، 2008 میں انتحابات تاخیر کا شکارہوئے تھے۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے دو آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی بھی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا۔

جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کیلئے صدر سے رجوع کر سکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں توہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا، ہر ادارہ آئین اور شخص آٸین وقانون پرعمل کرنے کاپابند ہے۔

چیف جسٹس نے انتخابات کیلئے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کیلئے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پربھی لگایاجاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کرکے 20 ارب نکال سکتی ہے۔

وکیل پی ڈی ایم فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکریٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کہ پیسے کہاں سے آنے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک معاشی بحران سے گزررہا ہے، معاشی بحران کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، بحران سے نمٹنے کیلئے قربانی دینا ہوتی ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں ابتک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں367 اور خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورتحال خیبر پختونخوا سے مختلف ہے، ترکی زلزلہ متاثرہ علاقوں کےعلاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کردیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں، کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنےکی بات کرتا ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ابسلوٹلی ناٹ۔

علی ظفر کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا۔

جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے بال وفاقی حکومت کی کورٹ میں پھینکی، جواب بالاخر وفاقی حکومت کو ہی دینا ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ چیلنج کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اضافی دستاویزات کیلئے وقت مانگتے ہوئے استدعا کی کہ جو اجلاس ہوئے ان کے منٹس پیش کرنا چاہتے ہیں کل تک وقت دیں۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ریمارکس دیئے کہ کل تک وقت نہیں دے سکتے، آپ دلائل کا آغاز کریں کل دوبارہ موقع دیں گے۔

دوران سماعت ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے سیاسی جماعتوں کو بھی سننے کا کہا تھا، عدالت فریق بنائے اور تحریری جواب کے بغیر کیسےسن سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے قانونی نکتے طے ہو جائیں پھر آپ کو بھی موقع دیں گے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا، گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنچ ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلےک ا دفاع اس کے وکلاء کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت سے فنڈز اور سیکورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا، پولنگ اسٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا، اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے تخمینہ 170 ارب سے زیادہ کا ہی لگایا ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 30 جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے، آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرح سود میں اضافہ کیاجائے، شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کیلئے مشکل کام ہے، کیا عام انتحابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟، صوبوں کوخطرات سےبچانا وفاق کی آئینی ذمہ داری ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 18وں ترمیم کے بعد وفاقی غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں، معاشی صورتحال سے کل آگاہ کروں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نےکہا الگ الگ انتخابات کرانے کے پیسے نہیں ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ ترجیحات کا ہے، لیپ ٹاپ کیلئے 10 ارب روپے نکل سکتے تو انتخابات کیلئے 20 ارب کیوں نہیں۔

تحریک انصاف کے فواد چوہدری نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے بھی اراکین کو فنڈز دیے گیے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اراکین کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے، کیا ترقیاتی فنڈز کے اعلان کی وقت آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈ والی بات شاید 5 ماہ پرانی ہے، اس حوالے سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کیلئے فنڈز دینا صوبے کی ذمہ داری ہے یا وفاق کی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کیلئے فنڈزفراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے تحت سپلمنٹری گرانٹ جاری کی جاسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ آئینی اختیارکا نہیں وسائل کی کمی کا ہے۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے، کیا ہم سمجھیں کہ قوم دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، کیا یہ پھر بنانا ریپبلک بن گیا ہے، آرمڈ فورسزحکومت کے ماتحت ہوتی ہیں، ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے۔

سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنےکیخلاف درخواست پرسماعت کل تک ملتوی کردی۔

گزشتہ روز کی سماعت

اس سماعت کا آغاز کل ہوا تھا، جس کے مطابق عدالت نے آئین کے مطابق الیکشن کا وقت پر ہونا لازم قراردیا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے وفاق، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتوں، دونوں صوبائی گورنرز سمیت درخواست گزاروں کو بھی نوٹس جاری کیے تھے۔

تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے درخواست میں اٹھائے گئے قانونی سوالات کے جواب طلب کیے تھے۔

توہین الیکشن کمیشن: عمران خان، پی ٹی آئی رہنماؤں کو جواب جمع کرانے کیلئے آخری موقع

آئندہ سماعت پر دلائل نہ دیے تو چارج فریم کردیں گے، الیکشن کمیشن
شائع 28 مارچ 2023 11:49am

توہین الیکشن کمیشن کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے جواب جمع کرانے کے لئے پھر مہلت مانگ لی، الیکشن کمیشن نے فریقین کو آخری موقع دیتے ہوئے کہا کہ واضح بتا رہے ہیں بالکل آخری موقع دے رہے ہیں، آئندہ سماعت پر دلائل نہ دیے تو چارج فریم کردیں گے۔

توہین الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کیسز کی سماعت ممبر نثار درانی کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن نے کی۔

عمران خان اور فواد چوہدری کی جانب سے وکیل فیصل چوہدری جبکہ اسد عمر کی جانب سے انور منصور پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران الیکشن کمیشن ممبران اور وکیل فیصل چوہدری کے درمیان انتخابات سے متعلق دلچسپ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

فیصل چوہدری کی جانب سے الیکشن کمیشن میں التواء کی درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا کہ عمران خان سے سابق وزیر اعظم کی سیکیورٹی واپس لی گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، عدالتی فیصلے تک عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج تو آپ نے دلائل دینے تھے۔

وکیل انور منصور نے اسد عمر کے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہونے کا عذر پیش کیا۔

ممبر کمیشن نے کہا کہ مسلسل فریقین الیکشن کمیشن سے غیر حاضر ہیں، ہم کارروائی آگے بڑھا کر چارج فریم کرتے ہیں، ہمیں صرف عدالتوں نے حتمی فیصلہ دینے سے روکا ہے، واضح بتا رہے ہیں بالکل آخری موقع دے رہے ہیں، آئندہ سماعت پر دلائل نہ دیے تو چارج فریم کردیں گے، الیکشن کمیشن کو اہمیت دیں تو ہم بھی کیسز نمٹانا چاہتے ہیں۔

وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ہم پر ہر روز ایف آئی آرز درج ہورہی ہیں۔

ممبر نثار درانی نے کہا کہ آپ ایف آئی آر درج کرنے کا موقع ہی نہ دیں، ہم چاہتے ہیں الیکشن کمیشن کو پیروں پر کھڑا کریں۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن وقت پر انتخابات کراتا تو کمیشن پائوں پر کھڑا ہوتا، الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرانے والوں کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹس جاری کرے، کیسے وزارت خزانہ انتخابات کے لئے فنڈز جاری کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔

ممبر خیبرپختونخوا نے ریمارکس دیے کہ کس نے آپ سے کہا الیکشن نہیں ہورہے۔

الیکشن کمیشن نے فریقین کو جواب جمع کے لئے آخری موقع فراہم کرتے ہوئے سماعت 18 اپریل تک ملتوی کر دی۔

عمران خان کیخلاف مقدمات کی تفصیلات اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش

پولیس نے 28 جبکہ ایف آئی اے نے ایک مقدمے کا ریکارڈ عدالت میں جمع کروایا
اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023 11:24am

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف مقدمات کی تفصیلات اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کردی گئیں جبکہ عدالت نے عمران خان کی درخواست ہدایت کے ساتھ نمٹا دی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف مقدمات کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس کی حد تک عمران خان کیخلاف مقدمات کی تفصیلات طلب

اسلام آباد پولیس نے عمران خان کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف اسلام آباد میں29 مقدمات درج ہیں، پولیس نے 28 اور ایف آئی اے نے ایک مقدمے کا ریکارڈ جمع کرایا، 20 مقدمات ٹرائل کورٹ میں زیرسماعت ہیں، 7 کیسز تفتیشی مراحل میں اور ایک مقدمہ خارج ہوچکا ہے، ایف آئی اے فارن ایکسچینج ایکٹ کا مقدمہ بنکنگ کورٹ میں زیرسماعت ہے۔

عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے مؤقف اپنایاکہ کوئی ایک مقدمہ ہو تو سمجھ آتی ہے، یہاں بہت سے ہیں، آئی جی کے نمائندہ بھی یہاں عدالت میں ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد پولیس کو ہدایت کی کہ بیٹھ کر تمام صورتحال کو دیکھیں، فیصل چوہدری کے ساتھ رابطے میں رہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے پولیس کو ہدایات دیتے ہوئے عمران خان کی مقدمات کی تفصیلات فراہمی سے متعلق درخواست نمٹا دی۔

وقت آگیا چیف جسٹس آفس کا ون مین شو اختیار ختم کیا جائے، اختلافی نوٹ

پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر دو ججز کا اختلافی فیصلہ جاری
اپ ڈیٹ 27 مارچ 2023 07:52pm
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا۔

اختلافی فیصلہ 28 صفحات پر مشتمل ہے دو ججز کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کا ون مین شو جمہوری اصولوں کے منافی ہے، چیف جسٹس کا اختیار ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، وقت آ گیا ہے کہ چیف جسٹس آفس کا ون مین شو کا اختیار ختم کیا جائے۔

اختلافی فیصلے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹس میں کیس زیرالتواء ہونے کے باوجود سوموٹو لیا گیا۔ ازخودنوٹس کیس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا لیکن جسٹس یحیی آفریدی اورجسٹس اطہر من اللہ کو انکی مرضی کے بغیر بینچ سے نکال دیا گیا۔ چیف جسٹس کے پاس بھی کسی جج کو بینچ سے نکالنے کا اختیارنہیں۔ ہماری رائے کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات سے متعلق فیصلہ چار تین کے تناسب سے دیا گیا۔

دو ججز کے اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کے پاس از خود نوٹس لینے، اسپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید اور اس کی عزت و تکریم میں کمی ہوتی ہے۔ صحیح وقت ہے ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔

جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ سپریم کورٹ کو ایک مضبوط ادارہ بنانے کے لیئے اسے رول بیسڈ ادارہ بنانا ہوگا۔ بینچ کی تشکیل اور سوموٹو کی شنوائی کی شفافیت ہونی چاہئے۔ سوموٹو کیسز سننے کے لئے ہرسال پانچ یا سات رکنی بینچ ایک ہی مرتبہ تشکیل دیا جائے جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ججز کو شامل کیا جائے، چیف جسٹس یا سینئرجج بینچ کو ہیڈ کرے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں اختلافی فیصلے کے مطابق عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی، عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی ہے نہ کہ اس سے جڑے مفادات، اگر عدالتی فیصلے میں ججز کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے۔

اختلافی فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اسکی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، دو ججز کے فیصلے میں تاکید کی گئی ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو۔

مزید کہا گیا کہ پوری عدالت کو صرف ایک شخص پر چھوڑا نہیں جا سکتا، آئینی درخواست مسترد اور سو موٹو کارروائی ختم کی جاتی ہے، ہائیکورٹ زیرالتوا درخواستوں پر تین دن میں فیصلہ کرے۔

اختلافی نوٹ میں پانامہ کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ابتدائی فیصلہ تین دو کے تناسب سے آیا تھا۔ اختلافی نوٹ دینے والے ججز پانامہ کیس کی دیگر کسی کارروائی کا حصہ نہیں بنے۔

یکم جنوری کا فیصلہ جاری ہوا ہی نہیں

تفصیلی فیصلے میں بالخصوص پیراگراف نمبر 35 میں دونوں جج صاحبان نے وضاحت کی کہ کیسے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ 3 کے مقابلے میں چار ججوں کا تھا اور کس طرح چیف جسٹس اور دیگر دو جج صاحبان کا فیصلہ 3-2 سے ہونے کا موقف درست نہیں۔

جج صاحبان کا کہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کو بینچ سے الگ کرنے کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا اور پانچ رکنی بینچ تشکیل ہونے سے قبل دونوں جج صاحبان انتخابات 90 دن میں کرانے سے متعلق پٹیشنز اور اس حوالے سے سو موٹو سماعت کے خلاف فیصلہ دے چکے تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندوخیل نے لکھا کہ ان کے خیال میں اس بنا پر یہ فیصلہ 4-3 سے ہوا تھا اور پٹیشنز مسترد ہوگئی تھیں لیکن دیگر تین ججوں کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ 3-2 کا تھا۔ اس اختلاف رائے کی بنا پر عدالتی آرڈر جاری نہیں ہوسکا۔

جج صاحبا نے کہا کہ ہماری واضح رہے کہ سوموٹو سماعت اور پٹیشنز مسترد کرنے سے متعلق ہمارا فیصلہ اور ہمارے ساتھ دو ججوں کا فیصلہ تین کے مقابلے میں چار ججوں کا ہے۔

الیکشن میں تاخیر : وفاق، الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی کو نوٹسز جاری

عدالت نے شفاف انتخابات کیلئے پی ٹی آئی اورحکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی مانگ لی
اپ ڈیٹ 27 مارچ 2023 03:23pm

تحریک انصاف کی انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ نے وفاق، الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی غلامی علی کو نوٹس جاری کردیئے۔

سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔

پی ٹی آٸی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر روسٹرم پر آٸے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخات کرانے کا حکم دیا، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کا شیڈول جاری کیا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ شیڈول کب جاری ہوا؟۔

وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ 8 مارچ کو الیکشن شیڈول جاری کیا گیا، سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ دیا، جب کہ گورنر کے پی نے عدالتی حکم عدولی کرتے ہوئے تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کیسے غلط ہے آگاہ کریں۔

وکیل علی ظفر نے مؤقف پیش کیا کہ عدالتی حکم پر صدر نے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کی، الیکشن کمیشن نے صدرکی دی گئی تاریخ منسوخ کردی، عدالتی حکم کی تین مرتبہ عدولی کی گئی، الیکشن کمیشن ازخودانتخابات کی تاریخ نہیں دےسکتا، دوسری خلاف ورزی90دن کے بعد انتخاب کی تاریخ دینےکی ہے، اگر فنڈز نہ ہونے کی بات مان لی جائے تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ فنڈزوفاقی حکومت نے جاری کرنے ہوتے ہیں یا صوباٸی حکومت نے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ دونوں حکومتوں نے فنڈزجاری کرنے ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ عدالت سے کیا چاہتے ہیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پرعملدرآمد کرائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی حکم پرعملدرآمد ہائیکورٹ کا کام ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ معاملہ صرف عدالتی احکامات کا نہیں، دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائیکورٹ نہیں سن سکتی، سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرچکی ہے، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی ختم نہیں ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، عدالت ہی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، اس کی کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوگی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن کمشن صدر کی دی گئی تاریخ کو ختم کرسکتا ہے، اس معاملے پر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ نہیں، انتحابات صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، اہم ایشوزاس کیس میں شامل ہیں، فیصلے پر عملدرآمد بھی ایک معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملکی تاریخ میں الیکشن کی تاریخ بڑھانے کی مثالیں موجود ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر بھی الیکشن تاخیر سے ہوئے، لیکن ان کی شہادت کے وقت تاریخ بڑھانے کو قومی سطح پرقبول کیا گیا، اور معاملے کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 1988میں نظام حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہوئی، کیا آئین میں نگراں حکومت کی مدت کے تعین کی کوئی شق موجود ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ معاملہ 90 روز میں الیکشن کروانے سے بھی منسلک ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا صدر کی تاریخ 90 روز میں تھی یا نہیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ نگران حکومت کا مقاصد انتخابات ہوتا ہے، جو 90 روزمیں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ الیکشن 90 دن سے پانچ ماہ آگے کردیئے جائیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا وہ پولنگ کی تاریخ مقررنہیں کرسکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام پانچ ججز کے دستخط ہیں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ معمول کی بات ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا آرٹیکل 254 کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جا سکتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کرسکتا، اور یہ آرٹیکل آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کوچلانے کیلٸے بہت اہم ہے، اس کا عمل شفاف اور پرامن ہونا چاہیے، آرٹیکل 218 انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے، ہمارے لیڈرز نے اب تک کیا کیا۔

عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواست پروفاق کو نوٹس جاری کردیا، الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی کو پرنسپل سیکرٹری کےذریعے بھی نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے تمام فریقین سے کل تک جواب مانگ لیا اور سماعت ملتوی کردی۔

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے اہم ریمارکس دیئے اور کہا آئین اور قانون عوام کے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں، آئین اور قانون کی تشریح حقیقت پر مبنی کرنی ہے خلاء میں نہیں، قیام امن کیلئے تحریک انصاف نے کیا کردارادا کیا ہے الیکشن چاہتے ہیں تو فریقین کو پرامن رہنا ہوگا۔

عدالت نے شفاف انتخابات کیلئے پی ٹی آئی اورحکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی مانگ لی، اور ریمارکس دیئے کہ یقین دہانی کیسی ہوگی یہ فیصلہ دونوں فریقین خود کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام کیلئے کیا اچھا ہے کیا نہیں فریقین خود جائزہ لیں، آئین صرف حکومت بنانے اور گرانے کیلئے نہیں ہے، عدالت کو دونوں اطراف سے یقین دہانی چاہیے، انتخابات پرامن، شفاف اورمنصفانہ ہونے چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن صرف ایک آئینی ادارہ ہے، انتہائی افسوناک صورت حال ہے تمام فریقین دست وگریبان ہیں۔