Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان آض عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کے کئی سیکیورٹی گارڈ زخمی ہوگئے۔
عمران خان کی گاڑی عدالت کی جانب تیز رفتاری سے گامزن تھی، جس کی چھت اور سائیڈوں پر کئی لوگ چڑھے بیٹھے تھے۔
گاڑی اچانک گیلی سڑک سے گزری اور چار پانچ لوگ اپنا توازن برقرار نہ رکھ دکے اور چلتی گاڑی پر سے نیچے آگرے۔
گرنے والے افراد سڑک گیلی ہونے کی وجہ سے کافی آگے تک پھسلتے گئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی پیشی کے موقع پر اسلام آباد پولیس کی جانب سے ہجوم کے درمیان ایک مشکوک شخص کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پربتایا گیا ہے کہ مذکورہ شخص نے کیموفلاج جیکٹ اور سیاہ ٹوپی پہنی ہوئی ہے اور عمران خان کی گاڑی کے پاس ہی موجود ہے۔
پولیس نے عدالت کے باہراوراندر موجود کارکنوں کی بڑی تعداد سمیت عوام سے متنبہ کیا ہے کہ ہجوم اکٹھا مت کریں، بصورت دیگرمنتشر کرنے کیلئے آنسو گیس استعمال کی جا سکتی ہے۔
صورتحال کے پیش نظرڈی آئی جی آپریشنز بھی موقع پر پہنچ گئے ہیں۔
اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں مظاہرین کی قیادت کرنے والوں اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔
مظاہرین کی قیادت کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ترجمان پولیس کا مزید کہنا ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جا رہا ہے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کیخلاف مقدمہ درج کرنےکے حکامات جاری کردیئے گئے، اور مقدمے میں عمران خان، مراد سعید، علی نوازاعوان سمیت 32 کو نامزد کیا جائے گا، جب کہ مقدمہ سرکارکی مدعیت میں تھانہ رمنا میں درج کیا جائے گا۔
اس سے قبل چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان 4 مختلف مقدمات میں پیشی کے لئے اسلام آباد پہنچ گئے، عمران خان مقدمات میں پیشی کے لیے بڑے ہجوم کے ہمراہ جوڈیشل کمپلیکس پہنچے جہاں وہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس آمد پر شدید بدنظمی دیکھنے میں آئی، پی ٹی آئی کارکنان نے جوڈیشل کمپلیکس کا دروازہ توڑ دیا اور بڑی تعداد میں جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوگئے۔
جی 11 جوڈیشل کمپلیکس پر سیکیورٹی کے انتظامات درہم برہم ہوگئے، پی ٹی آئی کارکنوں نے تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے بذریعہ سڑک اسلام آباد پہنچے، عمران خان نے طیارے سے جانا تھا تاہم بعد ازاں روانگی کا پروگرام تبدیل کر کے بذریعہ موٹروے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، جوڈیشل کمپلیکس اور اطراف میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔
جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف کی سڑکوں کو خار دار تار لگا کر بلاک کیا گیا جبکہ غیر متعلقہ افراد کے جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی۔
واضح رہے کہ عمران خان بینکنگ کورٹ میں پیشی کے بعد لاہور واپس آئیں گے، لاہور واپس آکر زمان پارک میں ہی رہیں گے۔
پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات میں تاخیر پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سیاسی جماعتوں نے فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی۔
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے، عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو روسٹرم پر بلایا تو فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ الیکشن ہوں گیے تو حصہ بنیں گے۔
فاروق ایچ نائیک نے پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی کی فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی، اور مؤقف دیا کہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے کہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے، چیف جسٹس نے پانچ رکنی لارجربنچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے۔
فاروق ایچ نائیک نے موقف پیش کیا کہ اب ممکن نہیں کہ دو صوبوں میں الیکشن پہلے ہوں اور دو ماہ بعد باقی صوبوں میں، عدالت نے از خود نوٹس قبل از وقت لیا ہے، دو ہائی کورٹس میں انتخابات کا مقدمہ زیر التوا ہے، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کوفیصلہ کرنے دے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اولین ترجیح آئین کے مطابق چلنا ہے، آئین کومنسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ تو دیں، ہوسکتا ہے حالات ٹھیک ہو جائیں فنڈز بھی آجائیں، نگران حکومت گورنر نے بنائی ہے، توالیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دینی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر اور الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں آئی۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت اور بینکنگ کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی 2 مختلف کیسز میں ضمانتیں منظور کرلیں۔
الیکشن کمیشن کے توشہ خانہ فیصلے کے بعد احتجاج پر درج دہشت گردی کے مقدمے میں عمران خان اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد نے عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔
اسلام آباد کی بینکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین نے عمران خان کی درخواست ضمانت پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت منظور کرلی۔
عمران خان کے خلاف مقدمہ تھانہ سنگجانی میں درج کیا گیا تھا۔
دوسری جانب بینکنگ کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بھی عمران خان کی ضمانت کنفرم کردی۔
بینکنگ کورٹ اسلام آباد میں فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت ہوئی۔
جج رخشندہ شاہین نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے اُن کی ضمانت کی درخواست منظورکی۔
عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلےکی روشنی میں عمران خان کو 28 فروری کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
اس سے قبل چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان 4 مختلف مقدمات میں پیشی کے لئے اسلام آباد پہنچ گئے، عمران خان مقدمات میں پیشی کے لیے بڑے ہجوم کے ہمراہ جوڈیشل کمپلیکس پہنچے جہاں وہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس آمد پر شدید بدنظمی دیکھنے میں آئی، پی ٹی آئی کارکنان نے جوڈیشل کمپلیکس کا دروازہ توڑ دیا اور بڑی تعداد میں جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوگئے۔
جی 11 جوڈیشل کمپلیکس پر سیکیورٹی کے انتظامات درہم برہم ہوگئے، پی ٹی آئی کارکنوں نے تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے بذریعہ سڑک اسلام آباد پہنچے، عمران خان نے طیارے سے جانا تھا تاہم بعد ازاں روانگی کا پروگرام تبدیل کر کے بذریعہ موٹروے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، جوڈیشل کمپلیکس اور اطراف میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔
جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف کی سڑکوں کو خار دار تار لگا کر بلاک کیا گیا جبکہ غیر متعلقہ افراد کے جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی۔
واضح رہے کہ عمران خان بینکنگ کورٹ میں پیشی کے بعد لاہور واپس آئیں گے، لاہور واپس آکر زمان پارک میں ہی رہیں گے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اورجسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس کی دوسرے بینچ منتقل کے معاملے کا نوٹس لے لیا۔
سپریم کورٹ میں مقدمات سماعت کیلئے مقررہونے کا کیا طریقہ کار ہے؟ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو تمام ریکارڈ سمیت فوری طورپرطلب کر لیا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میں سپریم کورٹ کا جج ہوں، پانچ سال تک چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بھی رہ چکا ہوں، ہم چاہتے ہیں شفافیت ہونی چاہیے، اگر رجسٹرار کیس ایک سے دوسرے بنچ میں لگا دے تو شفافیت کیسے ہوگی۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا ہے کہ لگتا ہے ایک رجسٹرار تو میرے جیسے جج سے بھی زیادہ طاقتور ہے، میں 2010 کے کیسز نہیں سن سکتا کیوں کہ کیسز رجسٹرار سماعت کیلئے مقررکرتا ہے، کیا میں فون کرکے رجسٹرار کو یہ کہہ سکتا ہوں فلاں کیس فلاں بنچ میں لگا دیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ بینچ میں جسٹس حسن رضوی تھے، بینچ کیوں تبدیل ہوا، کیسز فکس کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔
سابق صدرسپریم کورٹ بار نے عدالت کو بتایا کہ لوگ پوچھ پوچھ کرتھک گئے لیکن ہمارے کیسز نہیں لگتے۔
عدالت کی طلبی پر رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کیس میں پیش ہوئے، لیکن بار بارعدالتی سوالات پوچھنے کے باوجود رجسٹرار تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب کی منظوری سے ہی مقدمات سماعت کیلئے مقرر ہوتے ہیں۔
جسٹس قاضی فاٸزعیسی نے ریمارکس دیئے کہ رجسٹرار آفس میں شفافیت نام کی کوٸی چیز نہیں ہے، 1999 کے مقدمات سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہے، ہم 2022 کی اپیلیں سن رہے ہیں کوٸی تو وضاحت ہونی چاہیے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ رجسٹرار آفس میں شفافیت ہونی چاہیے۔ جسٹس قاضی فاٸزعیسی نے کہا کہ رجسٹرارسپریم کورٹ عشرت علی کوکچھ نہیں پتہ۔
جسٹس قاضی فاٸزعیسی نے ایڈیشنل رجسٹرار سے استفسار کیا کہ کیا آپ ڈی فیکٹو رجسٹرار کے طور پر کام کر رہے ہیں، ہمیں بتائیں کہ پھر ہم کس کو بلائیں، کیا ہم سکیشن آفیسر کو اس معاملے پر بلائیں، ہمیں بتائیں کیسز سے متعلق سپریم کورٹ کا کیا طریقہ کار ہے، پرانے کیسز کیوں نہیں لگائے جارہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے آج مقدمات سننے سے انکار کرتے ہوئے رجسڑار سے استفسار کیا کہ بینچ کیوں تبدیل کیا گیا۔
رجسڑارسپریم کورٹ نے جواب دیا کہ مجھے چیف جسٹس کے سیکرٹری نے زبانی بینچ تبدیل کرنے کا کہا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا سپریم کورٹ ججز کے بینچ اسٹاف افسر چلاتا ہے، پوری دنیا اس کیس کودیکھ رہی ہے، اپنا موقف سوچ کربتائیں، آپ نے کس کے کہنے پر میرا بینچ تبدیل کیا۔
رجسٹرارسپریم کورٹ نے اپنا جواب دہراتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ بینچ چیف جسٹس کے اسٹاف آفیسر کی زبانی ہدایات پر تبدیل کیا، اور اس کی منظوری چیف جسٹس نے دی تھی، کیونکہ 9 رکنی لارجر بینچ ختم ہوگیا تھا اس لیے بینچ تبدیل ہوئے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ لوگ اس لیے پریس کانفرنس کرتے کہ مرضی کا بنچ تھا انصاف نہیں ملا۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ رجسٹرار نے بینچ کی تبدیلی سے متعلق عدالت میں متضاد بیانات دیئے، پرانے کیسز کے بجائے نئے مقدمات لگا دینا انصاف کا آدھا قتل ہے، 56 ہزار سے زائد مقدمات سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہیں، 1999 سے زیرالتوا مقدمات کی جگہ2021 کی اپیلیں لگانا ناانصافی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ شفافیت کا یہ تقاضا ہے کہ پرانے کیسز پہلے سماعت کیلئے مقرر کیے جائیں، لوگ انصاف مانگنے آتے ہیں لیکن سپریم کورٹ میں تو شفافیت ہی نہیں ہے، کل میں کہوں میرے بھائی کا کیس لگا دیں تو کیا مقررکردیں گے، کیا کل میرا بینچ پھر تبدیل ہو جائے گا، مجھے بتا دیں میں نے کل کس جج کے ساتھ بیٹھنا ہے۔
عدالت نے کہا کہ رجسٹرار نے جو مؤقف عدالت میں اپنایا وہ فائل سے مختلف ہے۔ عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل عبدالرزاق، ڈائریکٹر آئی ٹی ڈاکٹر عابد حسین سے مقدمات فکس سے متعلق طریقہ کار کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔
لاہور: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی رہائشگاہ زمان پارک کے باہر سے سکیورٹی ہٹا لی گئی۔
اس ضمن میں پولیس نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اہلکاروں کو زمان پارک سے ہٹا دیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے پوزیشن چھوڑنے کے فوری بعد پی ٹی آئی کارکنان نے زمان پارک کے باہر کی پوزیشن سنبھال لی
اس سے قبل عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر سٹرک کلیئر کروانے کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔
درخواست شہری محمد جاوید نے مدثر چوہدری ایڈووکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی ہے۔
درخواست میں پنجاب حکومت سی ٹی او لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کے کارکن سٹرک پر بیٹھے ہیں، جس کی وجہ سے کینال روڑ پر ٹریفک جام رہتی ہے۔ اس سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف وزری ہورہی ہے۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ زمان پارک کے باہر سٹرک کو کلئیر کرنے کا حکم دے۔
اس سے قبل عمران خان کی اسلام آباد روانگی کے بعد زمان پارک لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر سیکیورٹی کے لئے لگائے گئے بیرئیرز ہٹا دیے تھے، پولیس تمام سکیورٹی بیرئیرز ساتھ لے گئے تھے۔
عمران خان کے اسلام آباد روانہ ہونے کے ساتھ ہی پولیس نے بھی پیک اپ کرنا شروع کردیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی سیکیورٹی پر لگائے گئے بیریئرز، خاردار تاریں پولیس نے ہٹا دیں تھیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھاکہ بیریئرز اور خاردار تاریں پی ایس ایل کے باعث دوسری جگہ منتقل کی جا رہی ہیں۔
سینئر صحافی عمران ریاض خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پولیس کی جانب سے زمان پارک لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ پر سیکیورٹی بیرئیرز لے جانے کی ویڈیو شیئر کی تھی۔
توشہ خانہ فیصلے کے بعد احتجاج پر درج دہشت گردی کے مقدمے میں اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں سابق وزیراعظم عمران خان کی عبوری ضمانت کے لئے درخواست دائر کردی گئی۔
عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت کی درخواست انسدادِ دہشت گردی کے جج راجہ جواد کی عدالت میں دائر کی۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی تھانہ سیکٹریٹ میں درج مقدمہ خارج کرنے کی درخواست
عمران خان نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ سیاسی انتقام کے باعث مقدمے میں نامزد کیا گیا، پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کا لیڈر ہوں، مجھ پر دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا جس کا میں مرتکب نہیں ہوں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے کیس میں ضمانت کنفرم ہونے سے پہلے عبوری ضمانت منظور کی جائے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی توشہ خانہ کیس جوڈیشل کمپلیکس منتقل کرنے کی درخواست مسترد
یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران خان کی درخواست ضمانت عدم حاضری کے باعث خارج کر دی تھی۔
توشہ خانہ احتجاج میں تھانہ سنگجانی کے مقدمے میں عمران خان نامزد ہیں۔
اسلام آباد کی بینکنگ کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں درخواست ضمانت پر سماعت سے قبل اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔
بینکنگ کورٹ میں مقرر تمام کیسز بغیر کارروائی ملتوی کردیے گئے۔
آج صرف عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوگی، تمام دیگر کیسز میں سائلین کو نئی تاریخیں دی جارہیں، یہ فیصلہ سیکیورٹی کے پیش نظر کیا گیا۔
عمران خان کی پیشی سے قبل بینکنگ کورٹ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی پہنچ گئی ہے۔
کارکن عمران خان کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں جو لاہور سے موٹروے کے راستے اسلام آباد جا رہے ہیں۔
دوسری جانب بنکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین عمران خان کے خلاف فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت مقدمے کی سماعت کریں گی۔
جوڈیشل کمپلیس میں ایف آئی اے کی غیرمعمولی تعداد میں نفری پہنچ گئی ہےجبکہ ایف آئی اے کی قیدی وین بھی پہنچا دی گئی، ایف آئی اے کے 35 اہلکار اب تک جوڈیشل کمپلیکس پہنچے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبرپختونخوا اور پنجاب کی تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز میں کرانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت میں تمام فریقین کے دلائل کے بعد گزشتہ روز فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ 13 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے پڑھ کر سنایا اور فیصلے کے مطابق خیبرپختونخوا اور پنجاب میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کے 3 ججز نے درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دیا۔ جب کہ جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے کی مخالفت کی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے، انتخابات دونوں صوبوں میں 90 روز میں ہونے ہیں۔ خیبر پختوانخوا میں الیکشن کروانے کی تاریخ مسترد کرتے ہیں، خیبرپختون میں انتخابات کی تاریخ گورنر جب کہ صدر مملکت الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے۔
فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ ازخود نوٹس میں نے تین بنیادی سوالات کا جاٸزہ لیا گیا۔
پہلا سوال یہ ہے کہ انتخاب کی تاریخ کون دے گا؟۔
دوسرا سوال: آئینی کردار کون اور کب ادا کرے گا؟۔
تیسرا سوال: وفاقی وصوبائی حکومتوں کا انتخابات میں کیا کردار ہوگا؟
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو صدر مملکت تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے، اور اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ بھی گورنر ہی دے گا، خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر فیصلہ نہ کرے تو صدر تاریخ دے سکتا ہے، تاہم گورنر اپنے آئینی کردار فوری ادا کرنے کے پابند ہیں۔
فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو عام انتخابات میں تمام سہولیں قائم مقام حکومتیں فراہم کرنے کا پابند ہے، اور یہ وفاق کی ڈیوٹی بھی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کرے گا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن یقینی بنائے کہ صدر کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، اور صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب میں فوری تاریخ کا اعلان کریں، اور ہر ممکن حد تک 90 دن میں انتخابات یقینی بنائے جائیں، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 اور 58 کو مدنظر رکھ کر تاریخ دی جائے، فیصلہ میں کہا گیا کہ 9 اپریل کوانتخابات ممکن نہیں تو مشاورت سے پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ عام حالات میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن 9 اپریل 2023 کو ہونے ہیں، الیکشن کی تاریخ صدر نے 20 فروری 2023 کو اپنے حکم میں دی، اور ہمیں بتایا گیا کہ 90 دن کی ڈیڈ لائن پر عمل نہیں ہوسکتا، شاید کچھ غلط فہمی کے باعث الیکشن کمیشن مشاورت کے لئے نہ آسکا۔
فیصلے میں حکم دیا کہ الیکشن کمیشن کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ صدر کو ایک تاریخ کی تجویز دے، الیکشن کمیشن وہ تاریخ دے جوکہ ڈیڈ لائن کے مطابق ہو، اگر ممکن نہ ہو تو الیکشن کمیشن ایک تاریخ دے جو ڈیڈ لائن سے دورنہ ہو، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب الیکشن کا اعلان کرے گا۔
فیصلہ میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا بھی الیکشن کمیشن سے مشاورت کرے، اور گورنر خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہر صوبے کی آئینی حکومت کو یقینی بنانا وفاق کی ذمہ داری ہے، ان ذمہ داریوں میں صوبے میں الیکشن کو یقینی بنانا بھی شامل ہے، الیکشن کمیشن کے امور کی تکمیل کروانا بھی ایگزیکٹو اتھارٹیز کی ذمہ داری ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو تمام تر سہولیات فراہم کرے، الیکشن کمیشن کو افرادی قوت اور سیکیورٹی کی ضرورت ہوسکتی ہے، نگراں حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہائی کورٹ کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہائی کورٹس میں معاملہ از خود نوٹس کی وجہ سے تاخیرکا شکار ہوا، ہائی کورٹس زیرالتواء مقدمات کا جلد فیصلہ کریں۔
جسٹس منصورعلی شاہ اورجسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں سے دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندو خیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کاوقت دیا گیا ہے، ہائیکورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے، سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں زیر التوا معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ منظورالہی اور بے نظیر کیس کے مطابق ازخود نوٹس لینا نہیں بنتا، لاہورہائیکورٹ پہلے ہی مقدمہ کا فیصلہ کرچکی ہے، از خود نوٹس لینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، از خود نوٹس جلد بازی میں لیا گیا، ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کواستعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی گورنر کی منظوری پرتحلیل ہوتی ہے، جنرل انتخاب کا طریقہ کار مختلف ہے، انتخابات پر از خود نوٹس اور 90 روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کی صورتحال
سماعت سے قبل سپریم کورٹ کا کمرہ عدالت نمبر ایک کو کھول دیا گیا، کمرہ عدالت میں وکلاء اور سیاسی رہنماؤں اور میڈیا نمائندگان کی بڑی تعداد فیصلہ سننے کے لئے عدالت میں موجود تھی۔
علی ظفر، فیصل چوہدری، شعیب شاہین دیگرسینئر وکلاء، شیریں مزاری، شیخ رشید، فواد چوہدری بھی عدالت میں موجود رہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے بعد کے پی اور پنجاب دونوں صوبوں میں نگراں حکومت ہے۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ عبوری سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نئے انتخابات کی تاریخوں کا تعین نہیں کررہے ، صدر عارف علوی نے20 فروری کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو خط میں کہا تھا کہ دونوں اسمبلیوں کے عام انتخابات 9 اپریل کو ہوں گے۔
سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا
ازخود نوٹس کی تیسری سماعت سے قبل سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا، جن میں سے 4 ججز جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا۔
گزشتہ روز ازخود نوٹس کی چوتھی سماعت
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات میں تاخیر پراز خود نوٹس کیس کی چوتھی سماعت کی۔
لارجر بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔
سماعت کے آغاز پراٹارنی جنرل نے کہا کہ میں دلائل دینے کے لیے تیار ہوں، عدالتی حکم میں صدرسپریم کورٹ بارکا نام نکال دیاگیا تھا، سپریم کورٹ بارایسویشن کو ادارے کے طور پرجانتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ 90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ کیا نگران وزیراعلی الیکشن تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے، یا گورنر نگراں حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے۔
صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارکے وکیل کے دلائل
صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بارکے وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ اورنگراں حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے، الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیارگورنرکا ہے وزیراعلی کا نہیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے اعتراض اٹھایا کہ عابد زبیری درخواست گزارکے وکیل ہیں بارکی نمائندگی نہیں کرسکتے۔
وکیل عابد زبیری نے اٹارنی جنرل کے اعتراض پر جواب دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بارکا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ صدر اور گورنرمعاملہ میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آٸین واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر گورنر تاریخ دے گا، گورنر کا تاریخ دینے کا اختیار دیگرمعمول کےعوامل سے مختلف ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا نگراں حکومت پر پابندی ہے کہ گورنر کو تاریخ تجویز کرنے کا نہیں کہہ سکتی، کیا گورنر کو اب بھی سمری نہیں بھجواٸی جاسکتی۔
عابد زبیری نے جواب دیا کہ نگران کابینہ نے آج تک ایڈواٸس نہیں دی تو اب کیا دے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نگران کابینہ کی ایڈواٸس کے اختیار پر اٹارنی جنرل کو بھی سنے گا۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سیف اللہ کیس میں 12ججز نے انتخاب کے عمل کولازمی قرار دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدرکا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آیا موجودہ یا سابقہ حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس کے مطابق الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔
عابد زبیری نے کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے چار طریقے بتائے گئے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت تو7 روز بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب کے کیس میں گورنرنے نہیں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 112 کے تحت عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے، اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کر سکتا ہے۔
عابد زبیری نے جواب دیا کہ نگران حکومت کا اختیار روزمرہ کے امور چلانا ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ صدر اور گورنر معاملہ میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنرز اپنے طور پر دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نگران حکومت کی تعیناتی اورالیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا، صدر کو بعض اختیارات آئین اور الیکشن ایکٹ دیتا ہے، صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے انتحابات کی تاریخ دے سکتا ہے، الیکشن ایکٹ آئین کے آرٹیکل 222 کی تحت بنایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ دینے میں تاخیرکیوں کی، شاید صورتحال واضح نہ ہونے پر تاخیرہوئی ہو۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدر کے وکیل اس سوال کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ گورنر انتحابات کی تاریخ کیلئے کس سے مشاورت کریں گے۔ عابد بیری نے جواب دیا کہ مشاورت الیکشن کمیشن سے ہی ہوسکتی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا، اگر الیکشن کمیشن معذوری ظاہر کرے تو کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے۔
عابد زبیری نے جواب دیا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیارنہیں، گورنر الیکشن کمیشن کے انتطامات مدنظر رکھ کرتاریخ دے گا۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا صدر کابینہ کی ایڈوائس کے بغیر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔ جسٹس جمال خان صدرکے اختیارات آئین میں واضح ہیں، صدر ہر کام کیلئے ایڈوائس کا پابند ہے۔
وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدر مملکت ہر کام کیلئے ایڈوائس کے پابند نہیں، صدر ہر وہ اختیار استعمال کر سکتے ہیں جو قانون میں دیا ہوا ہے، انتحابات کی تاریخ پر صدر اور گورنر صرف الیکشن کمیشن سے مشاورت کے پابند ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدر بطور سربراہ مملکت ایڈوائس پر ہی فیصلے کرسکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہوگا، قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہوگا، گورنرجب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں۔
وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے مشاورت کیلئے خط لکھے ہیں۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگرمان لیا قانون صدر کواجازت دیتا ہے پھر صدرایڈوائس کا پابند ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔
اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہیے، الیکشن کو 90 روز سے آگے نہیں لے کر جانا چاہیے، انتخابات 90 روز سے آگئے کون لے کر جاسکتا ہے یہ الگ بات ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔
اٹارنی جنرل کے دلائل
کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا گیا، جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل شروع کئے۔
اٹارنی جنرل شہزاد الہی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آزاد ادارہ اور ذمہ داری انتخابات کرانا ہے، گورنر پنجاب کا موقف ہے کہ الیکشن کمیشن خود تاریخ دے، گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں مشاورت کی ضرورت نہ ہونے کو موقف اپنایا، الیکشن کمیشن کاموقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتا ہائیکورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا، بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے، تو کن نکات کی تیاری کیلئے وکلاء کو 14 دن درکار تھے، ہائیکورٹ میں تومقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ صدر نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون کا استعمال کیا ہے، اگر صدر کا اختیار نہیں تو سیکشن 57 ون غیر موثر ہے، اور اگر سیکشن 57 ون غیر موثر ہے تو اسے قانون سے نکال دیں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہے تو کسی مشاورت کی ضرورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں، الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے، آپ کے مطابق الیکش کمیشن کا کردارحتمی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدرنے 20 فروری کو الیکشن کی تاریخ دی ہے، الیکشن پروگرام پرعمل کریں تو انتخابات 90 روز کی مدت میں ممکن نہیں، پنجاب میں 90 روز کی مدت 14 اپریل کو ہورہی ہے، صوبائی عام انتخابات 25 اپریل سے پہلے ممکن نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نیت ہو تو راستہ نکل ہی جاتا ہے، الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام چاہتے تو حل نکال سکتے تھے، انتخابی مہم کیلئے قانون کے مطابق 28 دن درکار ہوتے ہیں، 90 روز کے اندر انتخابات کیلئے مہم کا وقت کم کیا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن با اختیارہے، کیا شیڈول میں تبدیلی کرسکتا ہے، آئین پرعملدرآمد ہر صورت میں ضروری ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو یا چار دن اوپر ہونے پر آرٹیکل 254 لگ سکتا ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کی انتخابات کی تیاری کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیاجاسکتا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے وقت درکار ہوتا، انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا، 2008 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون، الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی، اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح ہوتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ کا اختیار آئین سے بالا تر نہیں ہوسکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کا اختیار الیکشن کمیشن سے متضاد نہیں ہوسکتا۔
اٹارنی جنرل سے سوال
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل قانون کا دفاع کرنے کے بجائے خلاف بول رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 57 ون ختم کر دیں توالیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخاب تاریخ کا اعلان کرے، الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ 14 اپریل تک الیکشن ممکن نہیں، ٹھوس وجوہات کے ساتھ الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے کا مجازہے، کسی نے ابھی تک تاریخ ہی نہیں دی سب کچھ ہوا میں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 روز سے تاخیر کا اختیار کہاں سے آیا، جھگڑا ہی سارا 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹھوس وجوہات پر آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ تاریخ کا اعلان کئے بغیر آرٹیکل 254 کا سہارا کیسے لئے جاسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون واضح نہیں تو کیسے کہیں الیکشن کمیشن غلطی کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 90 دن سے تاخیر پر عدالت اجازت دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس یہ نہ سمجھیں عدالت کسی غیر آئینی کام کی توسیع کرے گی، آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہوا وہاں کی کریں گی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا نگران کابینہ گورنرز کو سمری بھجوا سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اور کابینہ دونوں آئین کی پابند ہیں، نگران کابینہ الیکشن کی تاریخ کیلئے سمری نہیں بھجوا سکتی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اگر وزیراعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو کب تک صدر نے انتظار کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے آج بھی قانون بنا کر ذمہ داری دے دیتے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آج کی پارلیمنٹ کی قانون سازی پر ویسے ہی سوالات اٹھائے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن کوانتخابات کی تاریخ دینی چاہیے، 90 روز کی مدت مکمل ہو رہی ہے، الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کر رہا، لیکن الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے نہیں نکل سکتا۔
ازخود نوٹس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریارسواتی کے دلائل شروع ہوگئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ نے مشاورت کرکے تاریخ دینے کا حکم دیا تھا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے گورنرسے ملاقات کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنرکے پی سے تاریخ کےلئے بات ہوئی ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ گورنر کے پی کو یاد دہانی کا خط بھی لکھا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائیکورٹ بھی نوٹس نوٹس ہی کررہی ہے۔ جسٹس محمد علی نے ریمارکس دیئے کہ تمام ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ گورنر کے پی نے مشاورت کیلئے تاریخ نہیں دی، گورنر نے دیگر اداروں کے ساتھ رجوع کرنے کا کہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ گورنرخیبرپختونخواہ کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کرکے تاریخ کا تعین کیا جائے، انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن مشاورت سے کیوں کترا رہا ہے، آپ نے انٹرا کورٹ اپیل کیوں دائرکی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ انٹرا کورٹ اپیل قانونی وجوہات کی بنیاد پر دائر کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گورنر سے مشاورت کیلئے آپ کو عدالتی حکم ضروری ہے، کیا الیکشن کمیشن خود سے گورنر کے پاس نہیں جاسکتا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ کچھ رکاوٹیں بھی ہیں جن کا عدالت کوبتایا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود مشاورت کرنی ہے جوکرنا ہے کریں۔
وکیل گورنر خیبرپختون خوا
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل ختم ہونے کے بعد گورنر خیبرپختونخواہ کے وکیل کو روسٹرم پر بلا لیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ نگران حکومت گورنرنے بنائی ہےتوالیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دینی۔ چیف جسسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گورنر اور الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ الیکشن کمیشن کی تاریخ کیوں نہیں آئی۔
ایڈوکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ کے پی کے حکومت مالی خسارے کا شکارہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کرسکتی۔
سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک
عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو روسٹرم پر بلا لیا۔ فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ الیکشن ہوں گیے تو حصہ بنیں گے۔
فاروق ایچ نائیک نے پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی کی فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی، اور مؤقف دیا کہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے کہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے، چیف جسٹس نے پانچ رکنی لارجربنچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے۔
فاروق ایچ نائیک نے موقف پیش کیا کہ اب ممکن نہیں کہ دو صوبوں میں الیکشن پہلے ہوں اور دو ماہ بعد باقی صوبوں میں، عدالت نے از خود نوٹس قبل از وقت لیا ہے، دو ہائی کورٹس میں انتخابات کا مقدمہ زیر التوا ہے، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کوفیصلہ کرنے دے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اولین ترجیح آئین کے مطابق چلنا ہے، آئین کومنسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ تو دیں، ہوسکتا ہے حالات ٹھیک ہو جائیں فنڈز بھی آجائیں، نگران حکومت گورنر نے بنائی ہے، توالیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دینی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر اور الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں آئی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت عدالت سے کون رجوع کرسکتا ہے واضح نہیں، آئین کے مطابق گورنرکے پاس تاریح دینے کیلئے 90 دن کا وقت ہے، پنجاب اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی، گورنر خیبرپختونخوا کے پاس17 اپریل تک تاریخ دینے کا وقت ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اس حساب سے 90 دن میں انتحابات کیسے ہوں گے اور آرٹیکل 224 پرعمل کیسے ہو گا۔
فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ اس نقطہ پربعد میں آؤں گا، اسمبلی از خود تحلیل ہو تو آئین خاموش ہے تاریخ کون دے گا، پنجاب میں اسمبلی از خود تحلیل ہوئی گورنر نے نہیں کی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون کے اس حصے کا بتائیں جہاں لکھا ہے فنڈزکی کمی کی صورت میں کیا ہوگا۔ وکیل فاروق بائیک نے جواب دیا کہ معاشی صورتحال اور فنڈنگ پر قانون خاموش ہے۔
سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ناٸیک نے کل تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ وزیراعظم ،آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے مشاورت کرنی ہے، قیادت سے ہدایت لے کر آؤں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا سارا کام اس مقدمہ کی وجہ سے رکا ہوا ہے، آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں۔ آٸین اور جمہوریت کی منشا یہی ہے کہ انتخابات 90 روز سے آگے نہ جاٸیں، ہم فیصلہ کر بھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی، جو عوام اورسیاسی جماعتوں کیلئے مہنگی ہوگی، عدالت صرف یہ اتھارٹی بنائے گی کہ انتخاب کی تاریخ کااعلان کون کرے گا۔
جسٹس منصور علی نے ریمارکس دیئے کہ جہموریت کی ہی بہتری ہے، کچھ الیکشن کمیشن آگے جائے کچھ آپ پیچھے آئیں، آرٹیکل 254 سب ٹھیک کر دے گا تاریخ تو آجائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اصل طریقہ یہی ہے کہ ملکرفیصلہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا کام رکا ہوا ہے اس لیے کل تک انتطار نہیں کرسکتے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپس میں تاریخ طے کرنی یا نہیں فیصلہ کرکے عدالت کو بتائیں، عدالت صرف یہ بتا سکتی ہے کہ تاریخ کس نے دینی ہے۔
وکیل فاروق نائیک نے مؤقف پیش کیا کہ معلوم نہیں آصف زرداری کہاں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے فون پر ہی بات کرنی ہے ابھی کریں، پی ٹی آئی بھی اپنی قیادت سے بات کرے تاریخ کیا ہوسکتی ہے، عدالت صرف تاریخ دینے والے کا ہی بتا سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے فواد چوہدری نے کہا کہ یہ فیصلہ ہوگیا کہ الیکشن 90 دن سے آگے جاسکتا ہے تو مستقبل میں مشکل ہوگی، اسمبلی جاکر آئینی ترمیم کے لیے تیار ہیں، ایسی روایت نہیں ڈالنی چاہتے کہ الیکشن 90 دن سے آگے جائیں۔
عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکلا سے آج چار بجے تک رائے مانگ لی، اور سماعت میں چار بجے تک وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی لیکن پنجاب خیبر پختونخوا انتخابات کی تاریخ پر فریقین میں اتفاق نہ ہوسکا۔
ن لیگ کے وکیل نے عدالت میں استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ اتحادیوں کے درمیان مشاورت ہوئی ہے، مشاورت کیلئے مزید وقت درکار ہے، مناسب ہوگا عدالت کیس آگے بڑھائے۔
سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ میری اپنی قیادت سے بات ہوٸی ہے، یہ سیاسی جماعتوں کامینڈیٹ نہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔ صدر نے الیکشن کی تاریخ وزیراعظم کی ایڈوائس کےبغیردی، اور بغیر ایڈوائس الیکشن کی تاریخ دینا خلاف آئین ہے، صدرنےالیکشن کمیشن سے بھی مشاورت نہیں کی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی مدت پوری کرے تو صدر کو ایڈوائس کون کرے گا، اسمبلی مدت پوری کرے تو 2 ماہ میں الیکشن لازمی ہیں، ایڈوائس تو صدر 14 دن بعد واپس بھی بھجوا سکتا ہے، سمری واپس بھجوانے کی صورت میں 25 دن تو ضائع ہوگئے، وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کا کہنا صدر کی صوابدید ہے، صدر کو اعتماد کے ووٹ کا کہنے کے لیے سمری کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں، پشاور ہائی کورٹ نے 2 ہفتے نوٹس دینے میں لگائے، لاہور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ التواء میں ہے، سپریم کورٹ میں آج مسلسل دوسرا دن ہے اورکیس تقریباً مکمل ہوچکا ہے، عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کررہی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت ہائی کورٹس کو جلدی فیصلے کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت معاملہ آگے بڑھانے کیلئے محنت کر رہی ہے، ججز کی تعداد کم ہے پھر بھی عدالت نے ایک سال میں 24 بڑے کیسزز نمٹائے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے، اسمبلی مدت پوری ہو تو صدر کو فوری متحرک ہونا ہوتا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم کورٹ رولز میں بینچ تشکیل کا طریقہ کار موجود ہے، سپریم کورٹ رولز کے مطابق یہ آگاہ کرنا ضروری ہے کہ معاملہ ہائیکورٹ میں ہے یا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہو تو بتانا ضروری ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ میں سینیٹرہوں ابھی سینیٹ اجلاس نہیں ہورہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 3 ہفتے سے ہائیکورٹ میں صرف نوٹس ہی چل رہے ہیں، اعلی عدلیہ کو سیاسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہیے، صرف مخصوص حالات میں عدالت ازخودنوٹس لیتی ہے، گزشتہ سال 2 اس سال صرف ایک ازخود نوٹس لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں الیکشن لازم ہیں، عدالت تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے، مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دے گا اس کا تعین کرنا ہے، صرف قانون کی وضاحت کرناچاہتے ہیں، عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے نا دے رہی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم میں تحمل پر عدالت کا مشکور ہوں۔
ن لیگ کے وکیل مقصود اعوان کے دلائل
فاروق ایچ نائیک کے بعد ن لیگ کے وکیل مقصود اعوان کے دلائل شروع کردیئے۔
ن لیگ کے وکیل منصور اعوان نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ 1975 میں آرٹیکل 184/3 کی پہلی درخواست آئی تھی، عدالت نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے مقدمہ سنا تھا، ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا جو سپریم کورٹ میں چینلج نہیں ہے، اگر عدالت کہتی ہے کہ گورنر تاریخ دے گا تو کوئی مسئلہ نہیں، عدالت کسی اور نتیجے پر گئی تو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہو جائے گا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ حالات میں مقدمات دو مختلف ہائی کورٹس میں ہیں، ایسا بھی ممکن ہے دونوں عدالتیں متضاد فیصلے دیں، وقت کی کمی کے باعث معاملہ اٹک سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی ممکن ہے ہائی کورٹس کا فیصلہ ایک جیسا ہو اور کوئی چیلنج نہ کرے۔
وکیل ن لیگ نے جواب دیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے دو آئینی اداروں کو مشاورت کا کہا ہے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ وقت کا ہے جو کاقی ضائع ہو چکا، 90 دن کا وقت گزر گیا تو ذمہ دار کون ہوگا۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہورہا۔
ن لیگ کے وکیل منصور اعوان نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ امکان ہے ہائی کورٹس کے فیصلے مختلف ہی آئیں گے۔
جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضی کے دلائل
ن لیگ کے وکیل کے بعد جمیعت علمائے اسلام (ف) کے وکیل کامران مرتضی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا گورنر کا اختیار ہے، گورنر کے علاوہ کسی کو تاریخ دینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ مردم شماری ہو چکی ہے، ایسا ممکن نہیں کہ دو صوبوں میں سابقہ مردم شماری پر الیکشن ہو۔
وکیل کامران مرتضیٰ نے فاروق ایچ نائیک کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا ایک صوبے میں گورنر تاریخ دے اور دوسری میں نہ دے، آرٹیکل 105-3 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا، الیکشن ایکٹ میں صدر کا اختیار آئین کے مطابق نہیں ہے، الیکشن ایکٹ بناتے ہوئے شاید غلطی ہوئی ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل جے یو آئی سے استفسار کیا کہ غلطی کو درست اپ نے کرنا ہے یا عدالت نے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان نے جو قانون بنایا ہے اسکا کوئی مقصد ہو گا۔
جسٹس جمال خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ اسمبلی کو قانون سازی کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔ جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ وفاق میں تو تیز رفتاری سے قانون سازی ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان نے کامران مرتضی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ گورنر آپ کی پارٹی کے ہیں، انہیں کہیں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیں۔
صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل
کامران مرتضیٰ کے بعد صدر پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کیا تو کہا کہ صدر تسلیم کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن کیلٸے انہیں تاریخ نہیں دینی چاہیے تھی، صدر کو کے پی الیکشن کیلٸے تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا، صدر مملکت اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ گورنر کے پی کا موقف معاملے کو پیچیدہ بناتا ہے، پنجاب میں صدر کو اختیار تھا کے پی میں نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ صدر کو رائے آپ نے کس بنیاد پر دی یہ بتاٸیں۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ صدر مملکت نے فیصلہ کیا ہے کہ کے پی میں انتخابات کی تاریخ لینے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیں، صدر مملکت کا کہنا ہے کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی، صدر مملکت نے کہا ہے کہ کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر ہی کا اختیار ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اب تک صدر مملکت نے کے پی کی حد تک ایڈوائس واپس کیوں نہیں لی۔ جس پر صدر کے وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ صدر مملکت جلد ایڈوائس واپس لیں گے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کو مشاورت کے بلوایا تھا، لیکن الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کردیا، صدر مملکت نے آئین و قانون کے مطابق تاریح دی، 90 روز میں ہر صورت انتحاب ہونے چاہیئے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت از خود نوٹس لینے اور درخواستیں سننے کے لیے با اختیار ہے، صدر کو آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کی دھمکیاں مل رہی ہیں، کابینہ نے صدر کو کہا ہے، آپ کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ جہاں آرٹیکل 6 لگتا ہے وہاں لگاتے نہیں۔
صدر پاکستان کے وکیل کے دلاٸل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ صدر کا حکم کوٸی نہیں مان رہا اس لٸے عدالتی کاروواٸی کی حمایت کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کا مؤقف
صدر مملکت کے وکیل کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ 2013 اور 2018 میں انتخابات کا اعلان صدر نے وزیراعظم کی ایڈواٸس پر کیا تھا، صدر مملکت لاہور ہاٸی کورٹ کے حکم سے باخبر تھے۔
عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد سماعت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ کچھ دیرمیں سنایا جائے گا۔ فیصلہ جلدی سنانے کی کوشیش کریں گے، آج کسی وقت فیصلہ سنایا جائے گا۔
بعد ازاں کہا گیا کہ فیصلہ اب کل 11 بجے سنایا جائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی عبوری ضمانت ایک لاکھ روپے مچلکوں کے تحت 9 مارچ تک منظور کی جس پر پی ٹی آءی چیئرمین نے کھڑے ہو کر عدالت کا شکریہ ادا کیا۔
عدالتوں میں پیش ہونے اور کیسز میں ضمانتیں حاصل کرنے کے بعد عمران خان اسلام آبباد سے واپس لاہور کے لئے روانہ ہوگئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی پیشی کے دوران پولیس نے میڈیا کو داخلے سے روکا اور پولیس اہلکاروں نے صحافیوں کو دھکے دیئے۔
پولیس کی جانب سے سابق صدر اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن ثاقب بشیر جب کہ صحافی ذیشان سید، صحافی ادریس عباسی اور عباس شبیر کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
واضح ررہے کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیئے تھے۔
اس سے قبل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ظفر اقبال نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس سے متعلق الیکشن کمیشن کی جانب سے فوجداری کارروائی کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کے ناقابل وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے چیئرمین پی ٹی آئی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
عدالت نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کی سماعت 7مارچ تک ملتوی کردی۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نےعمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست خارج کردی۔
جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو بار بار موقع دیا گیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔عدم پیشی پر عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو آج طلب کر رکھا تھا۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں ان کے وکیل نے سماعت 5 دن کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا کردی جس پر جج نے برہمی کا اظہار کیا۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں عمران خان کےخلاف توشہ خانہ ریفرنس سے متعلق فوجداری کیس کی سماعت ہوئی جس میں ان کے وکیل علی بخاری عدالت میں پیش ہوئے جبکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے سعد حسن بطور وکیل پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت الیکشن کمیشن اور عمران خان کے وکیل کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس میں عمران خان کے وکیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آپ الیکشن کمیشن کے وکیل ہیں، وکیل ہی رہیں، ترجمان نہ بنیں۔
علی بخاری نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کچھ دیر پہلے لاہور سے نکل پڑے ہیں، انہیں آج جوڈیشل کمپلیکس کی دو عدالتوں میں پیش ہونا ہے، وہ آج اس عدالت میں پیش نہیں ہو سکیں گے۔
عمران خان کے وکیل نے سماعت 5 دن کے لئے ملتوی کرنے کی استدعا کی تو جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کون سا طریقہ ہے، عمران خان جی الیون کورٹس میں پیش ہوسکتے ہیں،کچہری میں نہیں، عمران خان جوڈیشل کمپلیکس پیش ہوجائیں گے اِدھر کے لئے ٹائم نہیں بچےگا، یہ کونساطریقہ ہے، ادھر فرد جرم عائد ہونا ہے ادھر آجائیں، فرد جرم عائد ہو جائے پھر چلے جائیں۔
جج کے ریمارکس پر علی بخاری نے کہا کہ خواجہ حارث اس کیس میں عمران خان کے وکیل ہیں، آج یہاں اس عدالت میں پیش ہونے کے لیے وہ دستیاب نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: توشہ خانہ کیس: عمران خان پر فرد جرم کی کارروائی ملتوی
بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج ظفراقبال نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں آج پھر طلب کرلیا۔
دوسری جانب اسی عدالت نے عمران خان کے خلاف اقدام قتل کے تحت تھانہ سیکرٹریٹ میں درج مقدمہ کی سماعت کی۔
وکیل کی یقین دہانی پر عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دی۔
بینکنگ کورٹ اسلام آباد میں بھی عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت سے قبل اہم پیش رفت ہوئی ہے،عدالت نے سیکیورتی کے پیش نظر مقرر تمام کیسز بغیر کارروائی ملتوی کر دیے۔
عدالت میں عمران خان کی پیشی سے قبل سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں، ایف آئی اے کے سادہ لباس میں مرد اور خواتین کثیر تعداد میں احاطے بلڈنگ میں موجود ہیں، جوڈیشل کمپلیکس کے مرکزی گیٹ پر نئے دو کیمرے نصب کر دئیے گئے۔
عمران خان نے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں عبوری ضمانت کی درخواست دائر کر دی ہے۔
وکیل نعیم حیدر نے درخواست میں کہا ہے کہ سیاسی انتقام کے باعث موکل کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا، عمران خان پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں، انسدادِ دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا جس کا مرتکب نہیں ہوا۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی آج اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشی کے حوالے سے پارٹی رہنماؤں نے سوال اٹھا دیے۔
پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے عمران خان پر دوبارہ حملہ کا خدشہ ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالتوں کےاحترام میں پیش ہوں گے لیکن 22کروڑعوام کےلیڈرکی جان خطرے میں نہ ڈالی جائے۔
محفوظ مقام پر سماعت کے بندوبست کا مطالبہ کرنے والے فرخ حبیب نے مزید کہا کہ دوبارہ حملہ کا خدشہ موجود ہے تو ایسے میں عمران خان کی سیکیورٹی کی گارنٹی کون دے گا؟۔ جن کی ذمہ داری سیکورٹی فراہم کرنا ہے ان میں سے وزیر داخلہ پچھلے قاتلانہ حملہ کے ملزم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم کی انتقامی کاروائیوں پر مبنی جعلی مقدمات کی ایسے مقامات پرعدالتی پیشیاں جہاں شدید سیکیورٹی خطرہ ہے۔
مسرت جمشید چیمہ نے بھی اپنی ٹویٹ مین انہی خدشات کااظہارکرتے ہوئے لکھا کہ، ’عمران خان کو اسلام آباد بلایا جارہا ہے وہ قطعی محفوظ نہیں، انہیں سیکیورٹی دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘
انہوں نےکہا کہ اگر کوئی سازش ہوئی تو اس کے ذمہ داران کا تعین قوم کرے گی۔
فیصل جاوید نے بھی انہی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ، ’ایسا لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے- ہمیں قدرکرنی چاہیے-‘
واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف آج چارمختلف کیسز کی سماعت ہوگی، انہوں نے آج اسلام آباد کی عدالتوں میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
عمران خان اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشی کیلئے زمان پارک سے روانہ
توشہ خانہ کیس میں بھی عمران خان کی ضمانت کی مدت آج ختم ہوجائے گی، کیس جوڈیشل کمپلیکس منتقل کرنے اور پمز سے طبی معائنے کی درخواستیں گزشتہ روز مسترد کی جاچکی ہیں۔
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج اور محسن شاہنواز پرحملے کے کیس میں بھی عمران خان عدالت میں پیش ہوں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین (پی ٹی آئی) عمران خان 4 مختلف مقدمات میں پیشی کے لئے جوڈیشل کمپلیکس پہنچ گئے۔
عمران خان کچھ دیر قبل جوڈیشل کمپلیکس پہنچے ہیں جہاں وہ عدالتوں میں پیش ہوں گے۔
کارکنان کی بڑی تعداد جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوگئی جبکہ وکلاء کی بڑی تعداد نے بھی جوڈیشل کمپلیکس میں موجود ہے۔
کارکن سیکیورٹی حصار توڑ کر جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوگئے، پولیس بے بس اور کارکنوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے بذریعہ سڑک اسلام آباد پہنچے ہیں، عمران خان نے طیارے سے جانا تھا تاہم بعد ازاں روانگی کا پروگرام تبدیل کرکے بذریعہ موٹروے جانے کا فیصلہ کیا۔
متعدد بار طلبی اور بار بار استثنیٰ مانگنے کے بعد عدالت کے حکم پر عمران خان نے آج پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں 4 مختلف کیسز میں چیئرمین پی ٹی آئی کی انسداد دہشت گردی عدالت اور بینکنگ کورٹ سمیت سیشن عدالت کے 2 کیسز میں پیشی ہے۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی ضمانت کی مدت آج ختم ہو رہی ہے اس بنا پر بھی ان کا آج پیش ہونا لازمی ہے۔
جی11 کورٹس اور کچہری میں عمران خان کی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
عمران خان فارن فنڈنگ ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں بینکنگ کورٹ اور دہشت گردی کی دفعات کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی توشہ خانہ میں فوجداری مقدمے میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پیش ہوں گے جبکہ اقدام قتل سے متعلق درج دفعات کے کیس میں سیشن کورٹ میں پیشی ہوگی۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے تو کارکنان کی بڑی تعداد قافلے کی شکل میں عمران خان کے ساتھ موجود تھی جبکہ قافلے کے ساتھ سیکیورٹی اور جیمبرز کی گاڑیاں بھی موجود تھیں۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ فول پروف سیکیورٹی انتظامات ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی پیشی کے موقع پر ایف آئی اے کی غیرمعمولی تعداد میں نفری جوڈیشل کمپلیکس پہنچی ہے۔
ایف آئی اے کی قیدی وین بھی جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پہنچائی گئی ہے۔
عمران خان کی اسلام آباد روانگی کے بعد زمان پارک لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر سیکیورٹی کے لئے لگائے گئے بیریئرز، خاردار تاریں پولیس نے ہٹا دیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ بیریئرز اور خاردار تاریں پی ایس ایل کے باعث دوسری جگہ منتقل کی جا رہی ہیں۔
اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشی کے بعد عمران خان واپس لاہور آئیں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنما میاں اسلم اقبال کا کہنا ہے کہ عمران خان طیارے کے بجائے موٹروے سے اسلام آباد روانہ ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ عمران خان لاہور میں اپنی رہائش گاہ سے صبح ساڑھے 7 بجے روانہ ہوں گے،سابق وزیر اعظم کے ساتھ پی ٹی آئی کارکن بھی اسلام آباد جائیں گے۔ تاہم منگل کی صبح عمران خان 8 بجے کے لگ بھگ روانہ ہوئے۔
عمران خان کی روانگی سے قبل ایک ٹوئیٹ میں تحریک انصاف کی رہنما مسرت چیمہ نے کہاکہ جنہوں نےعمران خان پر قاتلانہ حملہ کیا، خان صاحب کواب بھی ان سے خطرہ لاحق ہے،عمران خان جہاں بلایا جا رہا ہے وہ قطعی طور پر محفوظ نہیں۔
انہوں نے کہاکہ اگر کوئی سازش ہوئی تو اس کے ذمہ داران کا تعین قوم کے لیے مشکل نہیں ہے، خان صاحب کو سکیورٹی دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، اگرکوئی سازش ہوئی تو اس کی ذمہ داری انہی پرعائد ہوگی جوانہیں بار بار بلا رہے ہیں۔
عمران خان کی اسلام آباد روانگی پر پی ٹی آئی کی جانب سے #آرہا_ہے_کپتان_اسلام_آباد کا ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے۔
اگرچہ پارٹی کی جانب سے کارکنوں کو عدالت میں نہیں بلایا گیا تاہم آفیشل ٹوئٹر ہینل سے کہا گیا، ”چئیرمین عمران خان زخمی ہونے کے باوجود آج عدالت میں پیشی کےلئے اسلام آباد تشریف لا رہے ہیں۔ جوڈیشل کمپلیکس، G-11،اسلام آباد“
تاہم سابق وزیراعظم کو صرف G11 میں ہی نہیں بلکہ ضلع کچہری میں بھی پیش ہونا ہے جہاں توشہ خان کیس کی سماعت ہوگی۔
عمران خان نے درخواست کی تھی کہ توشہ خان کیس کی سماعت بھی جوڈیشل کمپلیکس میں منتقل کردی جائے لیکن عدالت نے یہ درخواست گذشتہ روز مسترد کردی۔
جج نے ریمارکس دیے کہ پہلی دفعہ یہ سن رہے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے عدالت ہی وہاں لے جائیں یہ تو یہیں رہے گا عمران خان کوپیش تو کچہری میں ہی ہونا پڑے گا۔
پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس پر بننے والے 9 ججز میں سے 3 ججز کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ اوپن کورٹ میں دیاگیا حکم تحریری حکم نامےسےمطابقت نہیں رکھتا، ہمارےسامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جاسکتا، اسمبلیاں توڑنے کی آئینی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیا اسمبلیاں آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ قانونی حیثیت پرسوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سےمتعلق ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ میں لکھا کہ سامنے آنے والا معاملہ صوبائی عدالت کے سامنے موجودہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے، چیف جسٹس نے مجھ سے معاملے پر سوالات مانگے، کیاوزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے؟ کیا کسی بنیاد پر وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ میرے پاس بینچ سے الگ ہونے کا کوئی قانونی جواز نہیں، اپنے خدشات کو منظر عام پر لانا چاہتا ہوں۔ نوٹ میں جسٹس منصورعلی شاہ نے بینچ میں شامل جج کی آڈیو لیکس کا تذکرہ کیا اور لکھا کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے بینچ میں شامل جج پر اعتراض کیا، اور دیگر سینئر ججز کی بینچ میں عدم شمولیت پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 2 سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کیلئے ضروری ہےکہ شفافیت برقرار رہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ الیکشن کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس ہائی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات پر اثرانداز ہوں گے۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا کوئی جواز نہیں، میری بینچ میں شمولیت سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کی 23 فروری کو سماعت کا تحریری حکم جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے 14 صحفات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔
23 فروری کے حکم نامے میں 4 جسٹس صاحبان کے الگ الگ نوٹ شامل ہیں۔
جن ججز کے الگ الگ نوٹ شامل ہیں ان میں جسٹس مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل ہیں۔
آرڈر کے مطابق بینچ کی از سرِ نو تشکیل پر معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ میں کہنا ہے کہ 2 سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ اس کی شفافیت برقرار رہے۔
تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس کی آئینی ذمہ داری ہے؟ اس نکتے پر ازخود نوٹس لیا۔
تحریری حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چاروں جج صاحبان کے نوٹ لکھنے پر طے کیا گیا کہ بینچ کی تشکیل کا معاملہ از سرِ نو چیف جسٹس کو بھجوایا جائے۔
سپریم کورٹ کا پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر پرازخود نوٹس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔
سپریم کورٹ میں پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی تیسری سماعت آج صبح 10 کے لیے شیڈول تھی جو دوپہر ڈیڑھ بجے تک شروع نہ ہوسکی۔
دوپہر ایک بجے ذرائع سے خبر سامنے آئی تھی کہ سماعت سے قبل سپریم کورٹ کے ججز کا غیر رسمی اجلاس جاری ہے، جس کے باعث ازخود نوٹس کی سماعت تاخیر کا شکار ہے۔
دوپہر 1 بجکر 35 منٹ پر خبر سامنے آئی کہ انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ٹوٹ گیا۔ اور 4 ججز جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔
لارجر بینچ کے 9 میں سے الگ ہونے والے 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا، جس کے بعد چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کمرہ عدالت پہنچا اور کیس کی سماعت کی۔
5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چار ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے، اور خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے، اور معاملہ دوبارہ چیف جسٹس کو بھیجا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، اب عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، اور آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، پہلے بھی جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے سوشل میڈیا پر آگیا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں استدعا کی کہ ہم نے فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست بھی سن کرنمٹائی جائے گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ گورنرپنجاب نے نگراں وزیراعلی کیلئے دونوں فریقین سے نام مانگے، ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی کا انتخاب کیا، الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کرپولنگ کی تاریخ دینے کا کہا، گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی توتاریخ کیسے دیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، اور 90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنرپنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ گورنر کو کون مقرر کرتا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہونے میں فرق ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ توہین عدالت کی آپشن کیا استعمال کی گئی۔ وکیل اظہر صدیق نے جواب دیا کہ 14 فروری کو توہین عدالت دائر کی گئی، توہین عدالت کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگا گیا۔ انٹرا کورٹ اپیل بغیر تاریخ کے ملتوی کر دی گئی، اٹارنی جنرل ایڈوکیٹ جنرل نےتاریخ کیلئےکوشش کی، آج ہائیکورٹ نےکہامعاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتواہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ نے پہلے کتنے روز میں فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیا کہ سنگل بنچ نے تو بڑی تیزی سے کیس چلایا، یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں، کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدرمملکت کا خط ہائیکورٹ حکم کے متضاد ہے، ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا کہا تھا، صدرمملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا کہا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ صدر مملکت نے معاملے پر دو خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنے کا کہا گیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کےمطابق تاریخ کیلٸےمشاورت آٸین میں نہیں، ہاٸیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کا کہہ دیا۔
جسٹس محمدعلی مظہر نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن خود تاریخ دے دے تو کیا توہین عدالت ہوگی۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آٸینی عمل ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سوال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ الیکشن 10 سال تاخیر کا شکار ہو جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ 22 جنوری کے نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے نگراں وزیراعلی کا تقرر کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 90 دن سے تاخیر کے حوالے سے آئین کی کوئی شق نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کی تاریخ کون دیتا ہے، کیا الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو سکتی ہے۔
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی، گورنر نے کہا میں نے اسمبلی توڑنے کی سمری دستخط نہیں کی، اس وجہ سے الیکشن کی تاریخ نہیں دے سکتا، اور گورنر نے اپنے جواب میں الیکشن کمشنر کوتاریخ دینے کا کہہ دیا، لیکن تاریخ کی ذمہ داری نہ الیکشن کمیشن لے رہا ہے نہ گورنر۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ کیس میں یہی استدعا نہیں جو آپ یہاں کر رہے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کروانے کیلئے سب سے پہلے تاریخ کا اعلان ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کی تاریخ الیکشن کا حصہ ہے۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ 14، 15 فروری کو الیکشن کمیشن نمائندوں نے گورنر پنجاب سے تاریخوں کیلئے ملاقات کی، لیکن رپورٹس کے مطابق ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے، عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا، اور 4 بجے سماعت دوبارہ شروع ہوئی، تو جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔
جسٹس جمال نے استفسارکیا کہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں، گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی 48 گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 112تھری کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے، آرٹیکل 112 میں 2 صورتیں ہیں کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں، آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ون میں گورنر کی صوابدید ہے کہ تحلیل کریں یا نہیں، اب بتائیں کہ کیا گورنر کے پاس صوابدید ہے یا ان کا کردار مکینیکل ہے۔
گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ علی صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں ”جی بالکل“، کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48 گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی ریمارکس دیئے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری کو واپس نہیں بھیج سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کیلئے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جہاں گورنر اسمبلی کی تحلیل میں کچھ نہیں کرتا وہاں تاریخ کون دے گا؟ جہاں وزیراعلی اسمبلی توڑتا ہے اورگورنرپیکچر میں نہیں آتا تو وہاں گورنر کا کیا اختیار ہوگا؟ ملک میں ایمرجنسی لگ جائے تو ان حالات میں الیکشن کے حوالے سے آٸین کیا کہتا ہے۔
انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ صرف جنگ اور سیلاب کی صورت میں ایمرجسنی لگاٸی جا سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ استفسار کیا کہ اگر الیکشن کے دن ملک میں جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا، انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ سمری آنے پراسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنرکی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 112(3) کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 112 میں دو صورتیں ہیں کہ یا گورنراسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں دیتا۔
عدالت نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنےحکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دےگا، گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن از خود انتخابات کرا سکتا ہے؟ جس پر دونوں اسپیکرز کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اسے ہی اختیار ہونا چاہیے۔
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے صدر مملکت بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟
کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہو سکتی ہے، جسٹس مظہر
سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لئے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہو سکتی ہے۔
عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ کیسے ہو سکتا ہےکہ پیسے نہ ہوں تو الیکشن نہ کرایا جائے، یہ عجیب نہیں، صدر مشاورت کرے اور گورنر مرضی سے تاریخ دے؟ گورنر ایک ہفتے کی تاریخ دے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ انتخابات کا سارا کام تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، الیکشن کے دن جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا؟ گورنر تاریخ دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں۔
علی ظفر نے اپنے جواب میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کر رکھی ہیں، قانون میں جنگ کا کہیں ذکر نہیں، ایمرجنسی ہی لگائی جا سکتی ہے۔
از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، صدر،گورنر کس قانون کے تحت الیکشن کی تاریخ دیں گے، ابھی ہائی کورٹ سے اسٹاف مانگا تو انکار کردیا گیا، البتہ کل کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اس دوران جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ملک میں کرکٹ ہو رہی ہے، انتخابات نہیں ہوسکتے؟ جس پر جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ابھی صرف تاریخ کی بات ہو رہی ہے، رشتہ نہیں ہوا، اس کی تاریخ بعد میں ہوگی۔ جسٹس منصور کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
بیرسٹر علی ظفر کے دلاٸل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
اختلافی نوٹ
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ الیکشن کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، ازخود کیس میں سپریم کورٹ کی رائے لاہور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرنی تھی۔
سپریم کورٹ نے کیس میں وفاق، الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل سمیت پی ڈی ایم کی جماعتوں کو نوٹس جاری کررکھے ہیں، جب کہ پاکستان بار، سپریم کورٹ بار، اسلام آباد بار اور ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی عدالتی کی معاونت کے لئے نوٹس جاری کئے گئے تھے۔
دوسری جانب حکمران اتحاد مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اورجے یوآئی نے 2 ججز پر اعتراض کرتے ہوئے مطالبہ کررکھا ہے کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی بینچ سےعلیحدہ ہوجائیں۔ جب کہ پاکستان بارکونسل سمیت حکمران اتحاد نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر رکھی ہے۔
بینچ میں شامل جسٹس جمال خان مندوخیل نے از خود نوٹس لینے پر بھی اعتراض اٹھایا ہے۔
سپریم کورٹ کے9 رکنی لاجر بینچ نے فریقین کے سامنے 4 سوال رکھے ہیں۔
اسمبلی تحلیل کی صورت میں انتخاب کی تاریخ کااعلان کرناکس کی ذمہ داری ہے؟
نوے روزمیں انتخابات کی ذمہ داری کس نے اور کیسے نبھانی ہے؟
انتخابات کے حوالے سے وفاق اورصوبوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
کیا صوبائی اسمبلیاں آئینی طریقے سے تحلیل ہوئی ہیں یا نہیں؟
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے16 فروری 2023 کو سی سی پی اولاہورغلام محمود ڈوگرکیس کا معاملہ ازخودنوٹس کیلئےچیف جسٹس کوبھیجا تھا۔ جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے پنجاب اورخیبرپختونخوااسمبلیوں کی تحلیل کےباوجود الیکشن کی تاریخ نہ دیے جانے پراز خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن نہ کرانے کے معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ آج دوپہر 2 بجے کیس کی سماعت کرے گا۔
16 فروری کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کے تحریری فیصلے میں پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے چیف جسٹس کو بھجوایا تھا۔
فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ انتخابات کا معاملہ براہ راست بینچ کے سامنے نہیں، چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو نوٹس لے کر سماعت کے لئے بینچ تشکیل دیں۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کا معاملہ سنجیدہ نوعیت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہے۔ آئین کا دفاع کرنا عدالت کا قانونی، آئینی اور اخلاقی فرض ہے، پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے بہترین کیس ہے۔
سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے 9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس 3 سوالات پر لیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں 14 اور 17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224 (2) کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے 90 روز میں ہونے چاہئیں۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آئین لازم قرار دیتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کی تاریخ کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ بار، خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکرز کی درخواستیں بھی آئیں۔
واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد دونوں صوبوں میں نگران سیٹ اپ کام کر رہے ہیں تاہم گورنرز کی جانب سے تاحاک انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی۔
اس معاملے پر دو بار صدر مملکت نے مشاورت کے لئے الیکشن کمیشن کو خط کر ایوان صدر میں مشاورتی اجلاس میں شرکت کی دعوت تھی مگر الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کردیا تھا جس کے بعد صدر مملکت نے ازخود دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے 9 اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا۔