Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
پشاور پولیس لائن مسجد خودکش حملے میں زخمی ہونے والے ڈی ایس پی فضل الرحمان طویل علالت کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔
شہید ڈی ایس پی فضل الرحمان کی نماز جنازہ پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ملک سعد شہید پولیس لائن پشاور میں ادا کی گئی۔
نماز جنازہ کے موقع پر پولیس کے چاق و چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔ نماز جنازہ کے بعد شہید کی مغفرت اور بلند درجات کے لئے دعا کی گئی۔
ایڈیشنل آئی جی ایلیٹ فورس محمد وصال فخر سلطان راجہ، ایڈیشنل آئی جی ہیڈ کوارٹرز صابر احمد، سی سی پی او محمد اعجاز خان، ایس ایس پی آپریشن ہارون الرشید اور دیگر پولیس افسران نے شہید کے جسد خاکی پر پھول چڑھائے۔
واضح رہے کہ ڈی ایس پی فضل الرحمان اس وقت ڈی ایس پی انوسٹی گیشن صدر سرکل تعینات تھے، جوکہ پولیس لائنز مسجد حملے میں زخمی ہو کر لیڈنگ ریڈنگ اسپتال میں زیر علاج تھے۔
پولیس لائنزکی مسجد میں خودکش حملہ 30 جنوری کو ہوا تھا جس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر پولیس اہلکاروں سمیت 59 افراد شہید جبکہ 140 زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ دوران علاج کئی زخمی دم توڑ گئے جس کے بعد شہداء کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔
فیضان اللہ خان اپنی قابلِ بھروسہ ساتھی ”طیارہ شکن بندوق“ کے ساتھ ایک پولیس چوکی پر ریت کی بوریوں کے ڈھیر کے پیچھے کھڑے ہیں، جو شمال مغربی پاکستان کی غیر سرکاری سرحد کے ساتھ بنائی گئی ہے، یہ علاقہ ملک کے شورش زدہ سابقہ قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے اور فیضان اللہ خان چوکی پر کھڑے علاقے کو بغور دیکھ رہے ہیں۔
فروری کی اس سرد اور بارش والی صبح، ان کی آنکھیں کسی ہوائی جہاز کو نہیں بلکہ اپنی فورس، خیبر پختونخواہ پولیس پر حملے کرنے والے دہشتگردوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
وہ اپنے روایتی بستر پر بیٹھے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر خان نے روئٹرز کو بتایا کہ دن کا وقت تھا، اس لیے وہ تھوڑا آرام کر سکتے تھے۔
انہوں نے منظور شہید نامی اس چوکی پر برسائی گئی گولیوں کے نشانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’لیکن رات اپنے ساتھ ایک مختلف کہانی لے کر آئی۔‘
منظور برسوں پہلے باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے ان کے ایک ساتھی کا نام تھا۔
یہ چوکی ان درجنوں میں سے ایک ہے جو طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقے میں موجود خفیہ ٹھکانوں سے پاکستانی پولیس پر تازہ حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف دفاع فراہم کرتی ہے۔
یہ علاقہ صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اور کالعدم دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا گڑھ ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں بڑھتی شورش کی انتہا گزشتہ ماہ پشاور کی ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں دکھائی دی، جس میں 80 سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ ٹی ٹی پی کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے اس حملے ذمہ داری قبول کی۔
رواں ماہ شمال مغربی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے، رائٹرز نے پولیس چوکیوں تک رسائی حاصل کی اور ایک درجن سے زائد لوگوں سے بات کی، جن میں اعلیٰ پولیس حکام بھی شامل ہیں۔
ان میں سے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ کس طرح پولیس فورس کو دہشتگرد حملوں اور وسائل کی کمی کے باعث نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
پاکستانی حکام ان چیلنجز کو تسلیم کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ دگرگوں معاشی حالات کے باوجود فورس کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہاں کی پولیس برسوں سے کالعدم تنظیموں کے دہشتگردوں سے نبرآزما ہے، اور اسی لڑائی میں 2001 سے اب تک 2100 سے زیادہ اہلکار شہید اور 7 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
لیکن پولیس کبھی بھی دہشتگردوں کی کارروائیوں کا مرکز اس طرح نہیں بنی جیسا کہ آج ہے۔
منظور شہید چوکی کو کنٹرول کرنے والے سربند اسٹیشن کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر جمیل شاہ ان دہشتگدروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ، ’ہم نے ان کا پشاور جانے کا راستہ روک دیا ہے۔‘
مقامی پولیس کے مطابق، سربند اور اس کی آٹھ چوکیوں کو حالیہ مہینوں میں چار بڑے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے ساتھ ہی چوکیوں کو بھاری فائرنگ اور اسنائپر فائر کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
خیبرپختونخوا میں پولیس ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے بڑھ کر 119 ہو چکی ہے، جو 2021 میں 54 اور 2020 میں 21 تھی۔
رواں سال اب تک تقریباً 102 افراد مارے جا چکے ہیں، ان میں سے زیادہ تر مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں مارے گئے جبکہ کچھ دوسرے حملوں میں جان گنوا بیٹھے۔
اس کے علاوہ دہشتگردوں نے 17 فروری کو کراچی میں ایک پولیس دفتر پر دھاوا بولا، سیکیورٹی فورسز نے عمارت پر قبضہ واپس حاصل کرنے کے بعد تین حملہ آوروں کو ہلاک کیا۔
ٹی ٹی پی گروہ، جسے ”پاکستانی طالبان“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، افغان طالبان سے وفاداری کا عہد تو کرتا ہے لیکن وہ براہ راست اس گروپ کا حصہ نہیں ہے جو کابل میں حکومت کرتا ہے۔ اس کا بیان کردہ مقصد پاکستان میں اسلامی مذہبی قانون نافذ کرنا ہے۔
ٹی ٹی پی کے ایک ترجمان محمد خراسانی نے روئٹرز کو بتایا کہ اس کا اصل ہدف پاکستانی فوج تھی، لیکن پولیس اس کے مقصد کے راستے میں کھڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کو کئی بار کہا گیا ہے کہ ہمارے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالیں، پولیس نے اس پر دھیان دینے کے بجائے ہمارے ساتھیوں کو شہید کرنا شروع کر دیا ہے۔ ’یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔‘
فوج کے تعلقات عامہ کے ونگ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، فوج نے خیبرپختونخوا پولیس کے ساتھ مل کر آپریشنز کئے ہیں اور ٹی ٹی پی کے حملوں کا سامنا کیا ہے، اس سال صوبے میں ایک فوجی کی شہادت کی تصدیق کی گئی ہے۔
دسمبر میں، ٹی ٹی پی نے ایک ویڈیو جاری کی جسے مبینہ طور پر اس کے ایک دہشتگرد نے دارالحکومت اسلام آباد کے آس پاس کے پہاڑوں سے ریکارڈ کیا، جس میں پاکستان کی پارلیمنٹ کی عمارت دکھائی گئی۔
اس نامعلوم دہشتگرد کے پاس موجود ایک نوٹ میں درج تھا ”ہم آرہے ہیں“۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ اس کے جنگجو اپنے اثر و رسوخ والے موجودہ علاقوں سے باہر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ان کی صلاحیت محدود ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، ’پروپیگنڈا اس جنگ کا ایک بڑا حصہ ہے اور ٹی ٹی پی اس میں کامیاب ہو رہی ہے‘۔
خیبرپختونخوا پولیس کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں، لیکن وسائل کی کمی کی طرف اشارہ بھی کیا۔
سربند اسٹیشن کے شاہ نے کہا، ’سب سے بڑا مسئلہ اہلکاروں کی تعداد ہے، جو کافی کم ہے۔‘ اسٹیشن اور آٹھ منسلک چوکیوں میں ڈرائیور اور کلرک سمیت 55 افراد ہیں۔
’یہ ایک ٹارگیٹ علاقہ ہے، اور ہم (عسکریت پسندوں) کے ساتھ بالکل منہ در منہ ہیں۔‘
روئٹرز کے سربند دورے سے چند دن پہلے، دہشتگردوں نے اسٹیشن کے باہر گھات لگا کر ایک پولیس افسر پر حملہ کیا، فائرنگ کے تبادلے پولیس افسر شہید ہوگیا۔
اس حملے سے دہشتگردوں کے جدید فائر پاور کا اندازہ بھی ہوا، جنہوں نے شاہ کے مطابق، اندھیرے میں افسر کو نشانہ بنانے کے لیے تھرمل چشموں کا استعمال کیا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا، تقریباً ایک سال قبل ٹی ٹی پی نے اپنے اسنائپرز کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جو تھرمل امیجنگ کا استعمال کرتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے تھے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے شورش کے بارے میں روئٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب تو نہیں دیا، لیکن رواں ماہ مقامی ٹی وی کو بتایا کہ دہشتگرد پولیس کو ”سافٹ ٹارگٹ“ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ پولیس کے عوامی کردار نے پولیس تنصیبات میں گُھسنا آسان بنا دیا تھا۔
ایک صحافی اور دہشتگردوں پر کتابوں کے مصنف زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے وسائل اور تربیت کے پیش نظر فوج سے زیادہ کمزور ہے۔
’میرا مطلب ہے، وہ وہاں آسان ہدف ہیں۔‘
خیبر پختونخواہ پولیس کے سابق سربراہ معظم جاہ انصاری نے رواں ماہ روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ عسکریت پسندوں کی حکمت عملی تیار ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ آپریشن کرنے کے لیے زیادہ مؤثر طریقے اور زیادہ مہلک ہتھیار تلاش کرتے ہیں۔‘
پولیس حکام کے مطابق دہشتگردوں نے امریکی ساختہ ایم 4 رائفلیں اور دیگر جدید ترین ہتھیار مغربی افواج کے ذخیرہ سے حاصل کیے ہیں جو 2021 میں افغانستان سے انخلاء کے وقت پیچھے چھوڑ دئے گئے تھے۔
کچھ پولیس گارڈز نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اپنی چوکیوں پر چھوٹے جاسوس ڈرون اڑتے ہوئے دیکھے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان خراسانی نے تصدیق کی ہے کہ گروپ نگرانی کے لیے ڈرون استعمال کر رہا ہے۔
سربند اسٹیشن کے متعدد پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ صوبائی حکومت اور فوج نے جنگ میں مدد کے لیے جنوری کے آخر میں انہیں اور دیگر چوکیوں کو تھرمل چشمے فراہم کیے تھے۔ لیکن انہیں ایک اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
شاہ نے سربند میں روئٹرز کو بتایا، ’ہمارے پاس دن کے تقریباً 22 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے، چشموں کو چارج کرنے کے لیے بجلی نہیں ہے۔‘
اسٹیشن کے سربراہ قیوم خان کے مطابق، اسٹیشن کی چھت پر ایک سولر پینل ہے، جسے نصب کرنے کے لیے افسران نے اپنی جیب سے ادائیگی کی۔
ایک پولیس اہلکار، جس نے تادیبی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کہا کہ پولیس اپنی گاڑیاں استعمال کرتی ہے یا اپنے چشموں کو چارج کرنے کے لیے بیک اپ جنریٹر سے لیس پٹرول اسٹیشن پر جاتی ہے۔
پولیس نے کہا کہ انہوں نے دیگر حفاظتی اقدامات کیے ہیں، جن میں اسنائپر فائر سے بچاؤ کے لیے دیواریں کھڑی کرنا، اور امریکی زیرقیادت فورسز کے پیچھے چھوڑے گئے سامان کو فروخت کرنے والے بازار سے بلٹ پروف شیشے کی خریداری شامل ہے۔
روئٹرز نے چار دیگر اعلیٰ حکام اور ایک درجن سے زیادہ نچلے درجے کے افسران سے بات کی، جن میں سے سبھی نے کہا کہ صوبائی فورس کو اس کے کلیدی کردار کے باوجود نظرانداز کیا گیا۔
انہوں نے بھی تادیبی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہی بات کرنے آمادگی ظاہر کی۔
ان اہلکاروں نے روئٹرز کو بتایا کہ مطلوبہ وسائل آنے والے نہیں تھے، اور ان کی تنخواہیں اور مراعات پاکستان میں دیگر جگہوں کے ہم منصبوں سے کمتر تھیں، فوج کو تو چھوڑ دیں۔
کیا پولیس کو مزید وسائل کی ضرورت ہے؟
نگراں حکومت کے انتظام سنبھالنے سے پہلے جنوری تک صوبائی وزیر خزانہ رہنے والے تیمور سلیم جھگڑا نے کہا، ’بالکل ہے‘۔
تیمور جھگڑا نے کہا کہ ان کی حکومت نے مالی رکاوٹوں کے باوجود تنخواہوں میں اضافے اور چشموں جیسے آلات کی خریداری میں پولیس کی جتنی مدد کی جا سکتی تھی کی۔
پاکستان کی قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشت ایک سال سے زبوں حالی کا شکار ہے، اور ملک ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا کو اس کی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے‘۔
سابق پولیس چیف معظم جاہ انصاری نے کہا کہ وسائل میں بہتری آئی ہے لیکن جب کوئی خطرہ سامنے آتا ہے تو بجائے اس کے کہ مستقل حمایت حاصل ہو وقتی رد عمل ظاہر ہوتا ہے۔
انہوں نے بھی اس کی وجہ معاشی حالات کو قرار دیا، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنا کہ کچھ لوگوں نے بتایا۔
اگست 2021 میں مغربی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد، پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں افغان طالبان کی ثالثی میں ایک ماہ کی جنگ بندی اور مذاکرات ہوئے۔
اس کوشش کے ایک حصے کے طور پر افغانستان سے بہت سے دہشتگردوں کو پاکستان میں دوبارہ آباد کیا گیا۔
ٹی ٹی پی نے نومبر 2022 میں جنگ بندی ختم کر دی، اور اس کے فوراً بعد دوبارہ منظم ہونے والے دہشتگردوں نے پاکستان میں دوبارہ حملے شروع کر دیے۔
پشاور بم دھماکے کے بعد، پولیس اہلکاروں نے عوامی احتجاج کیا جہاں کچھ نے اپنی قیادت، صوبائی اور قومی حکومتوں اور یہاں تک کہ فوج کے خلاف غصے کا اظہار کیا، دہشتگردوں سے لڑنے کی پالیسی کے بارے میں مزید وسائل اور وضاحت کا مطالبہ کیا۔
معظم جاہ انصاری نے حملے کے بعد فورس میں ”گہرے نقصان کے احساس“ اور ”غصے کی شدت“ کا اعتراف کیا۔
پشاور دھماکے میں تباہ مسجد کے پیچھے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر دولت خان اور آٹھ رشتہ دار تنگ پولیس کوارٹرز میں رہتے ہیں جس میں 25 مربع میٹر کی جگہ صرف ایک کمرہ ہے۔ اس کے ارد گرد گرتی ہوئی، دھماکے سے تباہ شدہ دیواریں ہیں۔
انہوں نے صدیوں پرانے، برطانوی نوآبادیاتی دور کے کوارٹرز کی قطاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’ہر کوئی پولیس کی قربانیوں کو دیکھ سکتا ہے، لیکن ہمارے لیے کچھ نہیں کیا جاتا، آپ حالات اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔‘
پاکستان کی افواج نے مؤثر طریقے سے ٹی ٹی پی کو ختم کیا اور 2014 کے بعد سے اس کی زیادہ تر اعلیٰ قیادت کو ایک سلسلہ وار کارروائیوں میں ہلاک کیا، جس سے زیادہ تر جنگجو افغانستان چلے گئے، جہاں وہ دوبارہ منظم ہوگئے۔
لیکن حالیہ مہینوں میں لڑائی کی نوعیت بدل گئی ہے، جس سے جزوی طور پر پتہ چلتا کہ فوج کے بجائے پولیس نشانے پر کیوں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشتگرد اب سابق قبائلی علاقوں میں اپنے اڈوں سے کام کرنے کے بجائے ملک بھر میں چھوٹے گروپوں میں اور شہری آبادی میں پھیل چکے ہیں۔
فوج کو جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں بھی ایک اور شورش کا سامنا کرنا پڑا ہے، جہاں علیحدگی پسند ریاستی انفراسٹرکچر اور چینی سرمایہ کاری کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
وزارت دفاع نے خیبرپختونخوا میں دہشتگردوں کے خلاف مزاحمت میں مسلح افواج کے کردار کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
اس دوران، فلیش پوائنٹس سے میلوں دور پولیس گریجویٹس نوشہرہ کے وسیع ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر میں عسکریت پسند مخالف آپریشنز میں چھ ماہ کے کریش کورسز حاصل کرتے ہیں۔
اہلکار بشمول خواتین، چھاپے مارنا، عمارتوں سے ریپل کرنا اور راکٹ سے چلنے والے دستی بموں اور طیارہ شکن بندوقوں کا استعمال کرنا سیکھتے ہیں۔
لیکن ٹریننگ اسکول کی دیواروں سے پرے، وہاں کوئی دہشتگرد کیمپ نہیں ہے، حملے رات کو ہوتے ہیں، اور پولیس کی مدد کیلئے کوئی نہیں ہوتا۔
فیضان اللہ خان کہتے ہیں کہ، کچھ راتوں کو ان کی چوکی پر عسکریت پسند انہیں یا ان کے ساتھی محافظوں کو پکارتے ہیں۔ ’وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں، اپنے ہتھیار ڈال دو۔‘
انہوں نے کہا کہ گارڈز کبھی کبھار اندھیرے میں اپنی بندوقیں چلا کر جواب دے دیتے ہیں۔
پشاور پولیس لائنز مسجد دھماکے کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے سیکیورٹی کیلئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
حکومت نے پولیس لائنز میں پین ٹلٹ زوم (پی ٹی زی) کیمرے نصب کرنے کیلئے یونیورسٹی آف انجینئرنگ سے رابطہ کر لیا۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر نیشنل سینٹر آف آرٹیفیشل انٹیلیجنس ڈاکٹر گل محمد نے آج نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ مردان میں تجرباتی طور پر نو کیمرے نصب کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر گل محمد کا کہنا ہے کہ پی ٹی زی کیمرے غیرقانونی سرگرمیوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں، اسی لئے پولیس لائنز کیلئے بھی پی ٹی زی کیمرے تجویز کئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز کیلئے پراجیکٹ پر 5 سے 6 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔
ڈاکٹرگل محمد نے کہا کہ پی ٹی زی کیمروں سے کوئی غیرمتعلقہ شخص داخل نہیں ہوسکتا، اس سے کسی بھی وردی میں ملبوس شخص کی نشاندہی ہوگی۔
ڈاکٹر گل محمد کے مطابق یہ سسٹم سائبر حملے سے مکمل محفوظ ہے، پولیس لائنزکےتمام گیٹس پرپی ٹی زی کیمرے لگیں گے، سسٹم گاڑی میں سوار شخص کی شناخت بھی کرسکتا ہے۔
پشاورکی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے کے بعد ہیلمٹ سے ملنے والے سرکے بال حملہ آور کے ڈی این اے سے میچ کرگئے۔
آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ نے تفتیش آگے بڑھنے سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ مبینہ خودکش کے ہیلمٹ سے ملنے والے سر کے بال ڈی این اے سے میچ کرگئے ہیں، وہ نماز کے دوران کیے جانے والے اس حملے میں تیسری یا چوتھی صف میں تھا۔
آئی جی کے مطابق خود کش حملے میں ٹی این ٹی بارود استعمال ہوا۔
دوسری جانب کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ خودکش بمبار کہاں سے روانہ ہوااس حوالے سے نیٹ ورک کا سراغ لگاتے ہوئے سہولت کار تک پہنچ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ 30 جنوری کو نماز ظہرکے دوران پولیس لائنز مسجد خودکش دھماکے میں افسران و اہلکاروں سمیت 84 افراد شہید ہوئے تھے ۔
پشاور پولیس لائن کی مسجد میں خودکش حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی 100 سے زائد شہادتوں کے بعد حکومتِ پاکستان نے افغان طالبان کے ”روپوش“ سپریم لیڈر سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ کے مطابق اسلام آباد افغان طالبان کے سربراہ ملّا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کو لگام ڈالنے کے لیے کہے گا۔
کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے افغان سرحد سے متصل علاقوں میں ہونے والے حملوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔
عسکریت پسند حملے کرنے اور بچنے کے لیے ان ناہموار علاقوں کا استعمال کرتے ہیں۔
تفتیش کاروں نے پشاور میں پیر کو ہونے والے دھماکے کے لیے خطے کی سب سے بدنام عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ایک ذیلی تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
ٹی ٹی پی، افغان طالبان جیسے ہی نظریات رکھتی ہے اور افغان طالبان کی قیادت ہیبت اللہ اخوندزادہ کر رہے ہیں، جو جنوبی شہر قندھار میں اپنے کسی ٹھکانے سے احکام جاری کرتے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی نے اے ایف پی کو بتایا کہ وفود تہران اور کابل بھیجے جائیں گے تاکہ ”ان سے کہا جائے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں دہشت گرد ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کریں۔“
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک سینئر پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابل کا وفد ”اعلیٰ حکام سے بات چیت“ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ، ”جب ہم اعلیٰ حکام کہتے ہیں، تو اس کا مطلب ہوتا ہے… افغان طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ۔“
افغان حکام نے اس خبر پر تبصرے کے لیے اے ایف پی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
لیکن بدھ کو افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے خبردار کیا کہ پاکستان کو ”الزام دوسروں پر نہیں ڈالنا چاہیے“۔
پاکستان پر 20 سالہ امریکی اقتدار کے دوران افغان طالبان کی خفیہ مدد کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، حالانکہ ملک نے امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد کا اعلان کیا تھا۔
لیکن 2021 میں جب سے افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات میں تناؤ آگیا ہے۔
جس کی ایک وجہ پاکستانی طالبان، جنہیں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے دوبارہ سر اٹھانا بھی ہے۔
افغان طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے پاکستانی عسکریت پسندوں نے 2007 میں ٹی ٹی پی تشکیل دی تھی۔
ایک وقت میں ٹی ٹی پی شمال مغربی پاکستان کے بڑے حصے پر اپنا تسلط رکھتی تھی، لیکن 2014 کے بعد فوجی کارروائی کے ذریعے اسے شکست دی گئی۔
لیکن پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق، طالبان حکومت کے پہلے سال کے دوران پاکستان نے عسکریت پسندوں کے حملوں میں 50 فیصد اضافہ دیکھا، جو افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں میں مرکوز تھے۔
مئی 2022 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کو گولی مارنے کے لیے بھی مشہور ٹی ٹی پی نے ”طالبان کے قبضے سے افغانستان میں تمام غیر ملکی انتہا پسند گروپوں میں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا“۔
گزشتہ سال کابل نے اسلام آباد اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن مذاکرات کیلئے ثالثی کی تھی، لیکن اس ثالثی کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی اب ختم ہو گئی ہے۔
پشاور میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر دس دنوں کے لئے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی، جس کے تحت پانچ یا پانچ سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہوگی۔
ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) پشاور شفیع اللہ خان کا کہنا ہے کہ ضلع پشاور میں دفعہ 144 دس دنوں کے نافذ العمل رہی گی۔
ڈی سی پشاور نے کا کہنا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف دفعہ 188 کے تحت کارروائی کی جائی گی۔
تعزیرات پاکستان کا سیکشن 188 کہتا ہے کہ جو شخص سرکاری حکام کی طرف سے نافذ کردہ وقتی اور ہنگامی احکامات کی خلاف ورزی کرے گا اسے 6 ماہ کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
پشاوردھماکے کے واقعے میں گرفتار مشتبہ خاتون کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا، خاتون پہلے ہی ضمانت پررہا ہے۔ پولیس کی جانب سے ایف آئی آرمیں مزید دفعات شامل کی جائیں گی۔
گزشتہ روزتفتیشی ٹیم نے مختلف زاویوں سے تفتیش کے بعد خودکش حملہ آور کا چہرہ اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے نکالی جانے والی تصویرمیچ کی تھی اور مشتبہ خاتون کا ڈی این اے بھی لیا گیا تھا لیکن وہ میچ نہیں ہوا۔
پولیس نے دہشتگرد کے خاندان تک پہنچنے کیلیے تفتیش کا عمل تیز کردیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دہشتگرد سے ملنے والے ہیلمٹ اور جوتوں کا بھی جائزہ لیاجارہاہے۔
تحقیقاتی ٹیم کے مطابق خود کش بمبار ہیلمٹ رکھ کر مسجد میں داخل ہوا، ہیلمٹ مسجد کے باہر جوتوں والی جگہ پر رکھا ہوا تھا۔
پشاورپولیس لائنزمسجد میں دھماکے کی ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔
دوسری جانب لیڈی ریڈنگ اسپتال میں دھماکے کے 22 زخمی زیرعلاج ہیں جن میں سے 6 تشویشناک حالت کے باعث آئی سی یومیں ہیں۔
پشاور پولیس لائنز خودکش دھماکا کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔
تفتیشی ٹیم نے مختلف زاویوں سے تفتیش کی تازہ ترین اپ ڈیٹ یہ ہے کہ خودکش حملہ آور کا چہرہ اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے نکالی جانے والی تصویرمیچ کرگئی ہے۔
مزید پڑھیں: پشاوردھماکا: مبینہ خود کش حملہ آور کی نئی فوٹیج سامنے آگئی
تحقیقاتی ٹیم کے مطابق خود کش بمبار ہیلمٹ رکھ کر مسجد میں داخل ہوا، ہیلمٹ مسجد کے باہر جوتوں والی جگہ پر رکھا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: پشاور دھماکا: خودکش حملہ آورکی ڈی این اے رپورٹ تیار
خود کش حملہ آور کی شناخت کے لئے خاتون کو حراست میں لے لیا، خاتون کا ڈی این اے لے لیا گیا، خودکش بمبار کی فیملی سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔
پشاور پولیس لائنز کے مبینہ خود کش بمبار کی ایک اور ویڈیو سامنے آگئی ۔ حملہ آور کے جسمانی اعضا اور ہیلمٹ بھی مل گیا۔
سامنے آنے والی نئی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خود کش حملہ آور موٹرسائیکل پر گھومتا رہا لیکن پولیس یونیفارم میں ملبوس ہونے کے باعث کسی نے اس پر شک نہیں کیا۔
پولیس کو خود کش حملہ آور کے جسمانی اعضا ، جوتے اور ہیلمٹ بھی مل گیا ہے۔
گزشتہ روز آئی جی خیبرپختونخواہ معظم جاہ نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج آگئی ہے، ایک فوٹیج سے پولیس لائن کی طرف آتے ہوئے خود کش بمبارکویکھا ہے، وہ اور مسجد سے سربریدہ ملنے والا ایک ہی آدمی ہے جو پولیس یونیفارم میں تھا، فوٹیج میں اس نے عام جیکٹ پہنی ہوئی ہے اورسر پر ہیلمٹ ہے، جس موٹرسائیکل پر آیا تھا وہ تلاش کرلی ہے، انجن چیسز نمبر مٹایا یوا تھا، لیکن اسے بھی ٹریس کرلیا ہے۔
آئی جی معظم جاہ نے مزید بتایا تھا کہ انہوں نے بتایا کہ خودکش حملہ آور 12 بج کر 37 منٹ پر گیٹ سے اندر داخل ہوا اور ہمارے حوالدار سے پوچھا کہ مسجد کس طرف ہے ، وہ اندر سے واقف نہیں تھا، یقینناً کسی نے ٹارگٹ دیا ریکی بھی ضرور ہوئی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس لائنزمیں لگے کیمروں سے چہرہ نظرآگیا، اگلا مرحلہ شناخت کا ہے اوردہشتگرد کے سہولت کاروں تک پہنچنے کا ہے۔
ایپکس کمیٹی نے افغانستان کے ساتھ دو ٹوک بات کرنے اور کالعدم تنظیموں کے خاتمے کے لئے ٹارگیٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
گورنر ہاؤس پشاور میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں دہشت گردی کا یکجا ہوکر مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، وفاقی وزراء، گلگت بلتستان اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، آزاد کشمیر کے وزیراعظم، پولیس حکام اور اعلیٰ سرکاری افسران شریک ہوئے۔
اجلاس میں فیصلہ ہوا دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پڑوسی ممالک سے بات کی جائے گی، البتہ اجلاس کے فیصلے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں پیش کئے جائیں گے جہاں اس ضمن میں حتمی فیصلے ہوں گے۔
اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین کا استعمال برداشت نہیں ہوگا، افغان حکام کو پاکستان مخالف عناصر کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گے۔
ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ بارڈرز کو مکمل محفوظ بنانے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خاتمے کے لئے انٹیلی جنس شیئرنگ ہوگی، آپریشن میں تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے شریک ہوں گے اور ادارے دہشت گردوں کا ازسرنو ڈیٹا بھی تیار کریں گے۔
اس سے قبل ایپکس کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 30 جنوری کو پشاور میں پولیس لائنز مسجد میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا، مسجد میں 85 نمازیوں کو شہید کیا گیا، آج ہم سب یہاں شہداء کے خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آئے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سول لائن میں دہشت گرد چیک پوسٹ سے گزر کر مسجد تک پہنچا، اے پی سی کے بعد پشاور میں اندوہناک واقعہ پیش آیا، اس وقت پوری قوم اشکبار ہے، قوم سوال کرتی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد یہ واقعہ کس طرح رونما ہوا، پشاور واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ناجائز تنقید قابل مذمت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی کمزوری کی ضرور تحقیقات ہوں گی لیکن یہ کہنا کہ ڈرون حملہ تھا نامناسب ہے، قوم سوچ رہی ہے کہ کس طرح اس ناسور کو قابو کیا جائے، قوم سوچ رہی ہے دہشت گردی کے اس ریلے کو کس طرح ختم کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ وفاق اور صوبے مل کر اس کی اونر شپ لیں، سیاسی اور علاقائی اختلافات کو پس پشت ڈالیں، یک جاں دو قالب کی طرح اکھٹے ہوکر دہشت گردی کا مقابلہ کریں، قومیں بنتی بھی ہیں اور ٹوٹتی بھی ہیں، یقین ہے کہ ہم مل کر دہشت گردی پر قابو پائیں گے، ہم تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا، ضرب عضب اور ردالفساد کے نتیجے میں دہشت گردی دم توڑ گئی تھی، ہمارے دوست اور مخالف بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے شدید دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ افواج پاکستان نے دہشت گری کے خلاف بے پناہ قربانیاں دیں، ہزاروں افسران، سپاہی اور ان کے خاندان کے افراد شہید ہوئے، پولیس اور سول آرمڈ فورس نے قربانیاں دیں، عام شہریوں نے دہشت گردی کا دلیری سے مقابلہ کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ تاریخ شہیدوں اور ہیرو کو سنہری الفاظ میں یاد رکھے گی، ان قربانیوں کو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا، ہمیں تنقید برائے تنقید سے پرہیز کرنا ہوگا، ہمیں حق بات کہنا ہوگی، اگر واقعہ سازش کا حصلہ تھا تو پچھلے چند سالوں کے واقعات کس چیز کا حصہ تھے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پشاور دھماکا ایک دہشت گردی کا واقعہ تھا، ہر بار طعنہ ملتا تھا کہ وفاق ساتھ نہیں دے رہا اور وسائل کی کمی ہے، 417 ارب 2010 کا این ایف سی ایوارڈ دیا گیا، 13 سال میں یہ رقم 35،36 ارب روپے بنتی ہے یہ کہاں گئیِ۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر دہشت گردی کا مقابلہ کررہا ہے، خیبرپختونخوا میں کوئی شہید ہوتا ہے تو پاکستان کا سپوت ہے، یہاں فرانزک لیب بناتے، سیف سٹی بناتے، کے پی میں ایک چھوڑ کر 10 فرانزک لیب بنائے جاسکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ پاکستان کس معاشی بحران سے گزر رہا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ جو شرائط طے کرنی ہیں وہ ناقابل تصور ہے، اگر رقم جائز طور پر خرچ ہوتی تو عوام آج چین کی نیند سوتے، ہمیں ہر قسم کے اختلافات کو ایک طرف کر کے سیسہ پلائی قوم کی طرح خود کو ڈھالنا ہوگا، جب تک قوم کو اکھٹا نہیں کریں گے بات نہیں بنے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج پھر ہمیں یکجہتی کی ضرورت ہے، بغیر یکجہتی کے ہم دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے، منگل کو اسلام آباد میں آل پارٹیزکانفرنس ہوگی، آل پارٹیزکانفرنس میں تمام جماعتوں کو مدعو کیا ہے، جو مجھ سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے ان کو بھی مدعو کیا ہے، ابھی عمل نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
شہبازشریف کا مزید کہنا تھا کہ ذاتی پسند نا پسند سے بالا تر ہوکر اقدامات اٹھانا ہوں گے، امید ہے نفی میں جواب نہیں آئے گا، ہمیں شہداء کے لواحقین کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، دہشت گردوں کا صوبے کے ایک انچ پر بھی قبضہ نہیں ہے، کچھ دوستوں نے کہا تھا کہ کے پی دھیان کرو، حالات خراب ہورہے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے شہداء کے لواحقین کے لئے معاوضے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کے لواحقین کو 20 لاکھ روپے دیے جائیں گے، زخمیوں کو 5 لاکھ روپے فی کیس دیے جائیں گے۔
ایپکس کمیٹی اجلاس میں شہداء کے لئے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔
برطانوی شاہی خاندان نے بھی سانحہ پشاور میں قیمتی جانوں کے ضیائع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
برطانوی ہائی کمیشن کے مطابق برطانوی شاہی خاندان کی جانب صدر پاکستان کے نام پیغام میں شاہ چارلس نے کہا کہ برطانوی شاہی خاندان پاکستانی عوام کے غم میں برابر کا شریک ہے، پشاور بم حملے پر صدمہ پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل فہم سفاکانہ اور وحشیانہ حملہ تھا، ایسی کارروائیاں کہیں بھی ہوں وہ ہماری مشترکہ انسانیت، ہماری افہام وتفہیم اور ہمدردی کی اقدار پر ہوتی ہیں، سب سے خوفناک یہ ہے کہ دہشت گردی کے متاثرین عبادت گاہ میں تھے۔
انسپکٹر جنرل (آئی جی) معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس کی اپنی ایک شناخت ہے، اس کا ایک ماضی، ایک تاریخ ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں مزیبان عاصمہ شیرازی کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں آئی جی معظم جاہ نے کہا کہ گزشتہ سال دہشتگردی کے واقعات دوبارہ شروع ہونے کے بعد خیبرپختونخوا پولیس کو ٹارگٹ کیا جانا ایک بڑے ڈیزائن کا حصہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا پولیس کی فورس ایک لاکھ 30 ہزار ہے، ان میں سے اگر ایک اہلکار 12 گھنٹے ڈیوٹی دے تو 65 ہزار باوردی اہلکار آپ کو شہر میں نظر آئیں گے، ہر ایک جوان کا نام نظر آتا ہے، رینک لکھا ہوتا ہے، اس لئے اس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے کہ وہ آسان ہدف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اہلکار کو نہیں پتا کہ اس کے گرد جو ہزار پانچ سو لوگ پھر رہے ہیں ان میں کون دہشتگرد ہے۔
آئی جی معظم جاہ نے کہا کہ دور سے فائر کرنا، انفرادی حملے کرنا، پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنانا بھی عام بات ہے، کیونکہ ان کی بھی اپنی شناخت ہے۔
آئی جی خیبر پختونخوا نے کہا کہ پچھلے ایک گھنٹے کے اندر پولیس پر حملے کے مزید دو واقعات ہوچکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس کو نشانہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ مقامی بطور پر پولیس کو لوگ فخریہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، انہیں یہاں اپنایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کا پہلا قدم ہے پولیس پر حملے کرنا، ان کا حوصلہ توڑنا تاکہ یہ اپنے گھروں میں محصور ہوجائیں، احتجاج کریں، تھانے خالی ہوجائیں اور جب عوام کی حفاظت کیلئے کوئی نہ ہو تو دہشتگرد اپنی رٹ قائم کریں۔ آئی جی کے پی نے کہا کہ پولیس کو ایک منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے، لیکن ہم نے ان میں سے کئی حملوں کا جواب دیا ہے یا انہیں ٹریس اور ٹریک کیا ہے۔
معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ ہم ایک جنگ کی حالت میں ہیں، جنگ میں ہمارا بھی نقصان ہوتا ہے اور ان کا بھی، ہم نے یہ جنگ نقصان سے بالکل قطع تعلق ہوکر لڑنی ہے اور اس جذبے سے آگے نہیں بڑھے تو اس جنگ کو جیتنا مشکل ہوجائے گا۔
سیکورٹی لیپس کے سوال پر آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ میں نے تسلیم کیا سیکیورٹی لیپس تھا، حملہ آور کیونکہ پولیس کی وردی میں تھا، جس طرح اس نے خود کو جس طرح پیش کیا ہمارے لوگوں کو لگا کہ وہ اپنا پیٹی بند بھائی ہے، وہ موٹر سائیکل کو کھینچتا ہوا پولیس لائن میں لایا اور بڑے آرام سے چلتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیکیورٹی پر نظر ثانی کر رہے ہیں، آج میں پولیس لائن میں داخل ہوا تو میری گاڑیوں کی بھی تلاشی لی گئی، میں نے تمام کو ہدایات دی ہیں کہ چیکنگ پر اب کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئیے، سینئیر افسر ہو یا کوئی بھی سب کی گاڑی کی جامع تلاشی لینی ہے۔
پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور دہشتگردوں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اندرونی مدد کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا، ہم پورے نیٹ ورک تک پہنچیں گے تو آگے مزید لیڈ پر کام کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب برطانیہ میں پلے بڑھے اور تعلیم یافتہ لوگ داعش اور القاعدہ میں شامل ہوسکتے ہیں تو یہ کہیں بھی ہوسکتا ہے، جب لبرل معاشرے میں ایسے لوگ ہوسکتے ہیں پاکستان میں تو ویسے ہی قدامت پسند معاشرہ ہے۔
سیاسی جماعتوں پر دہشتگردی کا باعث بننے کے الزامات پر آئی جی کے پی نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ہم ریاست، حکومت پاکستان اور عوام کے ملازم ہیں، ہم ہر ایک کیلئے وہ خدمات کریں گے جو قانون ہمیں کہتا ہے۔ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا۔
دہشتگردوں کی دوبارہ گروہ بندی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 15 اگست 2021 میں افغانستان حکومت کی تبدیلی کے بعد وہاں جو لوگ تھے ان میں سے بہت سے یہاں آئے ہیں۔ ان دہشتگردوں کے ساتھ مجرموں کا ساتھ بھی ہے جو اپنے علاقوں میں کچھ نہیں تھے لیکن اب یہ عوام کو ڈراتے دھمکاتے اور بھتے لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ڈیڑھ دو سال سے ہمارے پاس بھتے کی کالز آرہی تھیں اور تمام نمبرز افغانستان سے تھے، ہمارے پاس حکومتی سطح پر کوئی قانونی مدد نہیں تھے۔ ہم افغان نمبرز کو بلاک بھی کردیں تو واٹس ایپ بلاک نہیں کرسکتے۔
معظم جاہ انصاری نے آخر میں بتایا کہ ہم نے سیف سٹی پروجیکٹ کو دوبارہ سے لانچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، 2023 میں اس کا فیز 1 مکمل کر لیں گے۔
پاکستان دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے عبوری افغان حکومت سے مخلصانہ تعاون کی امید رکھتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ افغانستان اس سلسلے میں پاکستان اور عالمی برادری سے کئے گئے وعدے پورے کرے گا۔
یہ بات دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے آج اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کے لئے مشترکہ خطرہ ہے اور ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بے گناہ شہریوں کو پر تشدد کارروائیوں میں نشانہ بنانے والے عناصر کے خلاف بھرپور انداز میں کھڑا ہونا چاہیے۔
ترجمان نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے اور ہر شہری کا تحفظ یقینی بنانے کے پاکستان کے عزم کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم الزام تراشی پر یقین نہیں رکھتے۔ تاہم، ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی بھی ملک اپنے علاقے کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا، یہ وقت ہے کہ عالمی برادری سے کئے گئے وعدوں کو ایمانداری اور مخلصانہ طریقے سے پورا کیا جائے۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی ایک خارجہ پالیسی ہے جس کی ترجیحات میں تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بنانا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک، یورپی یونین، امریکا اور روس سمیت تمام ممالک کے ساتھ تعمیری مذاکرات کئے ہیں۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ مستقبل میں روس کے ساتھ اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔
انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ امور خارجہ کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر کل سے سری لنکا کے دو روزہ دورے پر روانہ ہوں گی۔
ترجمان نے کہا کہ وزیر مملکت سری لنکا کے 75 ویں یوم آزادی میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کریں گی ، یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت کے ساتھ ساتھ دوسری فسطائی قیادت سے ملاقاتیں کریں گی اور سری لنکا کے وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کریں گی۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور سر ی لنکا کے تاریخی تعلقات میں جو دوطرفہ تعاون کے تمام شعبوں میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم نے سارک سمیت کثیر جہتی فورمز پر اکھٹے کام کیا ہے، وزیر مملکت کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان سمجھوتوں کو فروغ دینے اور مشکل وقت میں سری لنکا کیلئے پاکستان کی حمایت کا مظہر ہوگا۔
سانحہ پولیس لائن کی ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی، جس میں مبینہ دہشتگرد کا چہرا صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
فوٹیج کے مطابق مبینہ دہشت گرد 12 بج کر 39 منٹ پر پولیس لائن میں داخل ہوا۔
ذرائع کے مطابق میبنہ دہشت گرد نے 37 منٹ پولیس لائن میں گزارے، حملہ آور نے مسجد میں جماعت شروع ہونے کا انتظار کیا اور جماعت کھڑے ہوتے ہی مسجد میں خود کو اڑا دیا۔
مبینہ دہشت گرد کو ماسک پہنے دیکھا جاسکتا ہے۔
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پشاور دھماکے سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پر الزام نہ لگائیں اپنے اندر خرابی تلاش کریں۔
پشاور کی پولیس لائن مسجد میں مبینہ خودکش دھماکے کے بعد وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے دہشت گردی کی منصوبہ بندی پروسی ملک میں کئے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔
دھماکے کے بعد جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ سے گفتگو میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو ہمارے ایک ہمسایہ دوست ملک میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں، وہ وہاں بیٹھ کر پلاننگ کرتے ہیں اور یہاں آکر بڑے آرام سے کارروائی کر ڈالتے ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ کارروائی کرنے کے بعد جب کبھی کالعدم ٹی ٹی پی کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہاں محفوظ نہیں، تو سرحد پار چلے جاتے ہیں جہاں انہیں سیفٹی حاصل ہے۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں پاکستانی حکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پشاور دھماکے کی باریکی سے تحقیقات کریں، اپنا بوجھ ہم پر نہ ڈالیں۔
امیر خان متقی نے کہا کہ 20 برس جنگ لڑی، لیکن ایسی کوئی خودکش جیکٹ نہیں دیکھی جو چھت اڑائے۔
افغان وزیر خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر الزام نہ لگائیں اپنے اندر خرابی تلاش کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم مسئلہ ہوتے تو چین اور ایران میں بھی دہشتگردی ہوتی، دشمنی کے بیج نہ بوئیں بھائیوں والا رویہ رکھیں۔
پیر کو پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں نماز ظہر کے دوران خودکش حملے کے دوران 100 سے زائد پولیس اہلکار شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔
پشاور پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے حملہ آور کی تصویر اور ویڈیو آج نیوز کو موصول ہوگئی۔
تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ موٹرسائیکل سوارنے پولیس کا یونیفارم اورہیلمٹ پہنا ہوا ہے اور منہ ماسک سے ڈھکا ہے۔
اس حلیے کے باعث حملہ آور کو پولیس اہلکار ہی سمجھتے ہوئے باآسانی اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔
مزید پڑھیں: خودکش حملہ آور پولیس یونیفارم میں تھا، آئی جی خیبرپختونخوا
پشاورپولیس لائنز میں جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہیں، تو یقینناًحملہ آور نے کسی جگہ ماسک اتارا ہوگا اس لیے آئی جی کے کہنے کے مطابق اس کی شکل شناخت کرلی گئی۔
دوسری جانب پشاور خودکش دھماکے کے حملہ آور کی ویڈیو آج نیوز کو موصول ہوگئی۔
ویڈیو میں حملہ آور کو پولیس لائنز میں داخل ہوتا دیکھا جاسکتا ہے، حملہ آور 12 بج کر 36منٹ پر پولیس لائنز میں داخل ہوا۔
ویڈیو میں حملہ آور کو پیدل آتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ کا کہنا ہے کہ قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے، دہشت گرد نیٹ ورک کے نزدیک پہنچ چکے ہیں، پشاورپولیس لائنز مسجد میں خود کش حملہ کرنے والا دہشت گرد موٹرسائیکل پرآیا تھا، فوٹیج میں خیبرروڈ سے پولیس لائن کی طرف آتے ہوئے خود کش بمبارکو دیکھ لیا ہے، وہ پولیس یونیفارم میں آیا تھا۔
پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا نے انتہائی غم وغصے کی حالت میں کہا کہ میں ثبوت کے ساتھ بات کروں گا، میں اور میرے جوان تکلیف میں ہیں، گزارش ہے کہ ہماری تکلیف میں اضافہ نہ کیا جائے، یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم بے حس ہیں، ہم عزت دار لوگ ہیں اور دکھ میں ہیں جن کا مرہم چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایک شہید کا بدلہ لیں گے، قربانیاں رائیگاں نہیں ہونے دیں گے۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے نزدیک ہیں جو اتنی زیادہ شہادتوں کی وجہ بنا اور کے پی کا امن خراب کیا۔
گزشتہ روز کے پولیس اہلکاروں کے احتجاج کے حوالے سے آئی جی نے کہا کہ میرے جوانوں کے غم میں اضافہ کرنا، انہیں گمراہ کرنا ، سڑکوں پر لانا کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا۔ افواہیں پھیلانے سے گریز کیا جائے، اہلکاروں کو احتجاج پر اکسانا قوم کی خدمت نہیں ہے، پولیس فورس پورے عزم کے ساتھ میدان میں کھڑی ہے۔
سیکیورٹی میں خامی کا اعتراف کرتے ہوئے آئی نے کہا کہ معاملات کو دیکھ رہے ہیں، سازشی عناصر باز رہیں، قوم کا مورال گرانے کی کوشش نہ کریں۔ سازش کی گئی کہ یہ ڈرون حملہ تھا لیکن میڈیا نے دیکھا مسجد کی چھت ایک ٹکڑے میں زمین پر گری ہے۔
پولیس لائنز مسجد کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسجد 50 سال قبل اپنی مدد آپ کے تحت بنائی گئی تھی، جب دھماکا جب ہوا تو باہر نکلنے کا راستہ نہیں تھا، سامنے محراب ہے اور بند دیوار ہے۔ ایک سائیڈ پر فیملی کوارٹرز ہیں، کھڑکیاں نہیں ہیں، پیچھے پوری دیوار ہے اور ایک دروازہ ہے جہاں سے لوگوں کا آنا جانا ہے۔ جب 10 سے 12 کلو ہائی ایکسپلوژو ٹی این ٹی کا دھماکا ہوا تو شاک ویوز سے دیواریں گریں، ستون نہیں ہیں تو دیواریں گرنے سے چھت بھی نیچے آئی اور تمام نمازی اس کے نیچے آئے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے سامنے 36 گھنٹے سے ملبہ ہٹا رہے تھے، چاہتے تو 2 گھنٹے میں ہٹا دیتے لیکن احتیاط کی کیونکہ نیچے نمازی دبے ہوئے تھے اور آج جو بچ جانے والے سانس لے رہے ہیں،اسی احتیاط کی وجہ سے لے رہے ہیں۔
آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ دائیں بائیں سے رنگ برنگے لوگ میرے بچوں کی لاشوں پر سیاست نہ کریں،تحقیقات مکمل ہوجائے گی تو شفافیت سے سامنے کھڑا کروں گا کہ یہ کون سا گروپ تھا اور کہاں سے آئے تھے، مجھے اتنا تنگ نہ کریں کہ میں کہوں اپنا بدلہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج آگئی ہے، میرے پاس 5 ،10 ،20 ہزار فون ہیں جن کا ڈیٹا نکالنا ہے اور اس کے لیے وقت چاہیے۔ ایک فوٹیج سے پولیس لائن کی طرف آتے ہوئے خود کش بمبارکویکھ لیا ہے، وہ اور مسجد سے سربریدہ ملنے والا ایک ہی آدمی ہے جو پولیس یونیفارم میں تھا، فوٹیج میں اس نے عام جیکٹ پہنی ہوئی ہے اورسر پر ہیلمٹ ہے، جس موٹرسائیکل پر آیا تھا وہ تلاش کرلی ہے، انجن چیسز نمبر مٹایا یوا تھا، لیکن اسے بھی ٹریس کرلیا ہے۔
آئی جی معظم جاہ نے مزید کہا کہ پولیس لائنز میں لگے کیمروں سے چہرہ نظرآگیا، اگلا مرحلہ شناخت کا ہے اور دہشتگرد کے سہولت کاروں تک پہنچنے کا ہے، برائے مہربانی جلد بازی نہ کریں ، مجھے کام کرنے دیں۔
انہوں نے بتایا کہ خودکش حملہ آور 12 بج کر 37 منٹ پر گیٹ سے اندر داخل ہوا اور ہمارے حوالدار سے پوچھا کہ مسجد کس طرف ہے ، وہ اندر سے واقف نہیں تھا، یقینناً کسی نے ٹارگٹ دیا ریکی بھی ضرور ہوئی ہوگی اور طریقہ کار سمجھایا گیا تو یہ اکیلا آدمی نہیں تھا۔
معظم جاہ انصاری نے مزید کہا کہ جو بات کریں گے پورے ثبوت سے کریں گے، بال بیرنگز ہمارے پاس ہیں، راتوں کو جاگ کر بہت تیزکام کررہے ہیں۔ انہوں نے شعرپڑھتے ہوئے کہا کہ میرے بچے جنہیں لڑنے کے لئے ٹرینڈ کیا وہ اگر اپنے تحفظ کی بات کرنا شروع کردیں تو میں کیا کہوں۔ ’تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے ، میں کس کے ہاتھ پراپنا لہو تلاش کروں“۔
انہوں نے کہا کہ میرے جوان اپنا تحفظ خود کریں گے، ہم نے سب سے بات کی ہے انہیں بتایا ہے کہ آپ کا راستہ احتجاج کا نہیں دشمن کو ڈھونڈنے اور بدلہ لینے کا ہے۔
آئی جی نے شہداء کے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ خون کی جنگ ہے ایندھن کی نہیں، جنگ میں نقصان ہوتا ہے۔ مفروضات بند کریں اور ہمیں غمزدہ نہ کریں، آج حلف لیا ہے کہ خون کا آخری قطرہ بھی دینا پڑا تو دیں گے ، کسی کو صوبے کے امن سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے بھی پشاور میں دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔
ترجمان نیڈپرائس نے کہا دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں اسے ختم ہونا چاہیے، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمارے دل متاثرین اور لواحقین کے ساتھ ہیں۔
گزشتہ روز ہی امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا تھا کہ یہ افسوسناک اور دل دہلا دینے والی خبر ہے امریکا دہشت گرد حملے کی مذمت کرتا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دہشت گردی ناقابل دفاع ہے
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما صداقت علی عباسی پوچھتے ہیں کہ کیا شہباز شریف حکومت کے 10 مہینوں میں کوئی بھی ایسا کام کیا جو عمران خان دہشتگردی کے خلاف پالیسی کا متبادل ہو؟ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ اب بھی سربریدہ مرغی کی طرح دیوار میں ٹکریں مار رہے ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان اور سینئیر صحافی عاصمہ شیرازی کے ساتھ گفتگو میں صداقت علی عباسی نے کہا کہ عمران دور میں جو بھی پالیسی بنتی تھی وہ تمام ریاستی اور سیکیورٹی اسٹیک ہولڈرز کے تحت بنتی تھی۔
عاصمہ شیرازی نے جب لقمہ دیا کہ وہ (اسٹیک ہولڈرز) کون تھے تو صداقت عباسی نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ تھے۔ جس پر عاصمہ نے مزید لقمہ دیا کہ جنرل (ر) باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض تھے، تو آپ ان کے نام لیں نا۔
جس پر پی ٹی آئی رہنما نے جواب دیا کہ اس وقت کے سیکیورٹی اسٹیک ہولڈرز ایک ہوکر عمران خان کی ویژن کے مطابق چل رہے تھے، پھر عمران خان کی حکومت توڑ دی گئی اور ان کا اتحاد امریکا کے ساتھ ہوگیا۔
پروگرام میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے توانائی انجینئیر خرم دستگیر سے جب پوچھا گیا کہ دہشتگردی کیلئے عمران خان کو مورد الزام کیوں ٹھہرایا جارہا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ”کیونکہ عمران خان جس بزدلانہ مصالحت کے داعی ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان میں 83 ہزار پاکستانیوں کی قبریں ہیں، وہ قبریں میں کہاں لے کر جاؤں؟“
انہوں نے کہا کہ ”کہا گیا جی یہ تو اچھے لوگ ہیں ان سے بات کرنی چاہئیے، ان اچھے لوگوں نے 93 ہزار پاکستانی، چھ ہزار فوجی شہید کردئیے، کہاں لے کر جاؤں میں۔“
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ نے عمران خان کو غلط ثابت کیا ہے، سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ہم نے کامیابی سے جنگ لڑی، لیکن عمران خان کی حکومت میں بزدلانہ مصالحت کی پالیسی کی وجہ سے یہ عفریت دوبارہ آیا ہے۔
خرم دستگیر نے کہا کہ 11 ستمبر 2021 کو صدر عارف علوی نے تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی کی پیشکش کی تھی، پانچ دن بعد 16 ستمبر کو وزیر خارجہ نے دوبارہ پیشکش کی اور 19 ستمبر 2022 کو طالبان نے اسے مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے کہا ہم تو آپ کے آئین کو مانتے ہی نہیں، آپ ہمیں کونسی معافی دے رہے ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ مذاکرات ہوئے اور سیز فائر ہوا، لیکن نومبر 2022 میں جس کی ان کے پاس سوائے بزدلانہ مصالحت کے کوئی توجہی نہیں ہوسکتی انہوں نے عمران خان کی حکومت نے 100 ٹی ٹی پی کے پکڑے ہوئے لوگوں کو آزاد کردیا۔
خرم دستگیر نے کہا کہ ”یہ نومبر 2022 کا لگایا ہوا فیوز تھا جو کل پشاور میں پھٹا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے معاملے میں کوئی گڈ ٹیررسٹ یا بیڈ ٹررسٹ نہیں ہوسکتے، جو پاکستانیوں اور افواج پاکستان کے قاتل ہیں ان کے ساتھ مصالحت نہیں ہوسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس لائن میں ہونے والا واقعہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ان کی 9 سالہ حکومت سیکیورٹی کے معاملات میں مکمل طور پر ناکام تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے شروع میں بنوں میں بھی جیل توڑی گئی اور آخر میں بھی جیل توڑی گئی اور یہ بے بس تھے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار منیب فاروق نے کہا کہ ہمارے ملک میں کوئی وزیراعظم کُلی طور پر بااختیار نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا جو ذہنی طور پر جھکاؤ رہا ہے اور انٹرویوز میں انہوں نے باتیں کہیں ہیں کہ وہ سیٹلمنٹ (بسانا) چاہتے تھے، چالیس پینتالیس ہزار لوگوں نے آنا تھا اور ان میں ٹی ٹی پی کے فائٹرز بھی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس گروہ کے ڈی این اے میں دہشتگردی ہو آپ اسے عام انسانوں میں کیسے شامل کیسے کرسکتے ہیں۔ جو افواج کے سر کاٹ کر اس سے کھیلتے رہے ہوں، مسجدوں میں عام لوگوں کو مارا ہو وہ مسلمان تو دور کی بات انسان بھی نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ قومی دھارے میں شامل کرکے کس احمقانہ سوچ اور مشن پر خود کو لگا لیتے ہیں اور ریاست بھی اس جانب چل پڑتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ایسے لوگوں کی سوچ پر ماتم کرتا ہوں کہ جو ناحق لوگوں کو ماریں، دہشت پھیلائیں اور آپ ان کے ساتھ معاہدے کریں۔
ایک سوال کے جواب میں خرم دستگیر نے کہا کہ پچھلے 10 مہینوں میں مغربی سرحد سے ہمارے اوپر حملے ہورہے تھے، اگچہ تشہیر نہیں کی گئی لیکن ہم نے دہشتگروں کے خلاف آپریشنز کئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ضرب عضب کے دوران قبائلی علاقوں میں جنگی سطح پر آپریشن ہوئے تھے، لیکن اب کیونکہ پاکستان میں کوئی قبائلی علاقے نہیں ہیں تو کیا ہم اس طرح کے آپریشن کرنے کا سوچ سکتے ہیں؟
وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے، پارلیمان کے پاس بھی جائیں گے، آٹھ تاریخ کا پارلیمانی اجلاس نئی پالیسی بنانے کے حوالے سے بڑا اہم ہے۔
خرم دستگیر کی بات کا جواب دیتے ہوئے صداقت علی عباسی نے کہا کہ ن لیگ کی دہشتگردی کے خلاف کوئی پالیسی نہیں رہی، دہشتگرد چھوڑنے کی جو بات کی گئی وہ جون 2022 میں چھوڑے گئے تھے، اس وقت کس کی حکومت تھی وہ آپ ان سے پوچھ لیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کا دہشت گردی کنٹرول کرنے میں اتنا زیادہ رول نہیں ہوتا، اصل رول انٹیلی جنس اداروں کا ہوتا ہے۔ اداروں کو تو ان لوگوں کے کن کاموں پر لگایا ہوا ہے، سیاستدانوں کی آڈیو ویڈیو ٹیپ آرہی ہیں، کسی نے کسی کو منشی کہہ دیا تو یہ ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
صداقت علی عباسی نے کہا کہ سیلاب کے بہانے انہوں نے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرائے، اب انتخابات میں 90 سے سوا 90 دن ہوئے تو گورنرز پر عدالتوں سے آرٹیکل 6 لگوائیں گے، اس حکومت کو الیکشن کرانے پڑیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں خرم دستگیر نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے واضح طور پر اپنے استعفے کی تردید کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ایسا کوئی استعفا نہیں دیا وہ ابھی بھی پارٹی کے سینیر وائس پریزیڈنٹ ہیں۔
خیبرپختونخوا میں بڑھتے دہشتگردی کے واقعات کے پیش نظر جمعے کو ایپکس کمیٹی کا اجلاس پشاور میں طلب کرلیا گیا ہے جس میں متعلقہ اداروں کے سربراہان شرکت کریں گے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں دہشت گردی کے روک تھام سمیت دیگر اہم امور زیر بحث ہوں گے۔ صوبے میں امن وامان کے لئے ٹھوس اقدامات اور ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا جائے گا۔
اجلاس میں دہشت گردی میں ملوث عناصر، سہولت کاروں اور ٹھکانوں کی تازہ فہرست بھی پیش کی جائے گی۔
پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے تیسرے روز باجماعت نماز کی ادائیگی کی گئی ہے۔
پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے تیسرے روز باجماعت نماز کا اہتمام کیا گیا، باجماعت نماز ظہر پولیس لائنز مسجد ہال میں ادا کی گئی۔
نماز ظہر میں چیف کیپٹل پولیس آفیسر اعجاز خان، ایس ایس پی کوآرڈینیشن ظہور بابر آفریدی اور پولیس جوان شریک ہوئے۔
یاد رہے کہ 29 جنوری کو پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 101 ہوگئی ہے جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
خادم حرمین شریفین نے پشاور میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تعزیت کا اظہارکیا ہے۔
سعودی باشادہ شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کے نام خط لکھا، جس میں انہوں نے ہم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہارکیا۔
شاہ سلمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں ہونے والا دھماکا دہشت گردی ہے، ہم ہر قسم کی انتہا پسندی کو مسترد کرتے ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے ساتھ ہیں سعودی عرب ہر طرح کی دہشت گردی کو مسترد کرتا ہے، جبکہ جاں بحق افراد کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
پشاورخودکش حملے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اہم ریمارکس دیے ہیں کہ کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے قتل کے مقدمے کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے، جس میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟
عدالت عظمیٰ کے جج نے ریمارکس دیے کہ دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ دو وہ دو اور کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آج دہشت گرد 2 بندے ماریں گے کل کو 5 مار دیں گے، پتہ نہیں ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں، ایک جج نے دہشت گردی کے واقعے پر رپورٹ دی لیکن اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
سپریم کورٹ کے جج نے مزید ریمارکس دیے کہ لمبی داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان یا اچھا انسان نہیں بن جاتا، ہمارے ایک جج کو مار دیا گیا کسی کو پرواہ ہی نہیں۔
واضح رہے کہ 29 جنوری کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں اب تک امام مسجد اور اہلکاروں سمیت 101 افراد شہید ہوچکے ہیں، دھماکا عین نمازِ ظہر کے وقت ہوا جہاں حملہ آور پہلی صف میں موجود تھا۔
اطلاعات کے مطابق حملہ آور نمازیوں کے ساتھ تھانے کے مرکزی دروازے سے داخل ہوکر تین حفاظتی حصار عبور کرکے مسجد میں داخل ہوا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
پشاور میں پولیس لائن مسجد دھماکے کے خلاف احتجاج میں باوردی پولیس اہلکار سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ احتجاج میں مختلف مکتبہ فکر کے نمائندگان بھی شریک ہیں۔
مظاہرین کی جانب سے ”کے پی پولیس زندہ باد“ اور ”امن غواڑو“ کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پولیس لائنز مسجد دھماکے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے۔
دوسری جانب دھمکے کے خلاف مردان پولیس بھی سڑکوں پر نکل آٸی ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق پشاور پولیس لائنز دھماکے میں شہداء کی تعداد 101 ہوگئی ہے، اسپتالوں میں 59 زخمی زیرِ علاج ہیں جن میں آٹھ کی حالت تشویش ناک ہے، جبکہ 51 کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
خیبرپختونخوا میں پولیس فورس کے جونیئررینک فسران نے پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کی مناسب تحقیقات نہ کروانے پرحکومت کو اجتماعی استعفے کی دھمکی دے دی۔
واٹس ایپ گروپ میں اس طرح کے پیغامات زیرگردش ہونے کے بعد اسپیشل برانچ کی جانب سے ڈی آئی جی پولیس اسپیشل برانچ، صوبائی افسران اور سی سی پی کو خط میں تفصیل بتائی گئی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ کے مختلف گروپس میں نامعلوم شخص کی جانب سے تحریری اور وائس میسجز چل رہے ہیں جن میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کیخلاف تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل اور اصل حقائق منظرعام پرلا کرذمہ داران سے بدلہ لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ بصورت دیگر جونیئررینک کے اہلکاروں کی جانب سے متعلقہ یونٹ میں اجتماعی طور پر استعفے جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
خط میں تحریری پیغامات بھی نقل کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
1- ہمارے جوانوں کے خون کا بدلہ نہ لیا گیا تو پوری کے پی پولیس ڈیوٹی چھوڑ دے گی اور سارے جوان ایک ہی دن ایک ہی ساتھ استعفے جمع کروائیں گے۔ (منجانب آل کے پی کے پولیس جونیئررینکس)
2- آپ سب کو ایک ہونا پڑے گا ورنہ روز یہ جنازے اٹھانے پڑیں گے۔(منجانب آل کے پی کے پولیس جونیئررینکس)
تیسرا پیغام پشتو زبان میں ہے جس کا ترجمہ خط میں یوں درج ہے:
3- یہ تمام دوستوں کیلئے ایک واٹس ایپ میسج ہے جس کو زیادہ سے زیادہ اپنے واٹس ایپ گروپس میں شیئرکرنے کا کہاگیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ کل ہونے والے کھیل کی شفاف انکوائری کے لیے جے آئی ٹی نہ بنائی گئی اور پریس کانفرنس میں حقائق کو منظرعام پرنہ لایا گیا اور اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اسی طرح کاکوئی دوسرا واقعہ پیش آیا تو تقریباً ایک لاکھ 6 ہزار پولیس اہلکاروں میں سسے جونیئررینکس کے ایک لاکھ پولیس اہلکار ایک ہی دن ایک ہی وقت میں اجتماعی استعفے لکھ کراپنے اپنے یونٹ میں جمع کروائیں گے۔ افسوس ان سے رکشوں والے، نانبائی اور ٹرانسپورٹرزبہترہیں جو کم از کم اپنے حق کیلئے بطور احتجاج نکلتے ہیں۔ وہ بھی دو تین تنخواہیں نہیں لیں گے لیکن یہ کھیل مزید برداشت نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ پیر30 جنوری کو نمازظہرکے دوران پشاورمیں پولیس لائن میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کا عمل رات کو بھی جاری رہا۔ ریسکیو اہلکاروں نے مزید لاشیں ملبے سے نکالی ہیں جس کے بعد شہید ہونے والوں کی تعداد 101 ہوگئی ہے۔
پشاورپولیس لائنزکی مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں 100 سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ سیز فائرکا فیصلہ درست تھا کیونکہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے مقتدر حلقے ایسے خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اب پھر سے منظم ہو گی۔
آج نیوز کے پروگرام، ’فیصلہ آپ کا ’میں میزبان عاصمہ شیرازی نے ایسے ہی سوالوں کا جواب جاننے اور موجودہ فضا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے مستقبل پربات کرنے کے لیے خیبرپختونخوا کے سینیئرصحافیوں فخرکاکاخیل، محمود جان بابر اورعادل شاہ زیب کو مدعو کیا جو ان معاملات پرگہری نظررکھتے ہیں۔
پشاوردھماکے کے بعد گزشتہ روزایوان میں کی گئی تقاریراور ماضی میں عمران خان کی جانب سے سیز فائراور طالبان کے فیصلے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ اے پی ایس کے بعد یہ دوسرا بڑا دہشتگردی کا واقعہ تھا۔ 100 گھروں کی بربادی کا ذمہ دار پالیسیوں کوقراردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے جیسے لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان آگئے ہیں اور ہمارے یہاں کاکلعدم تنظمیں ٹی ٹی پی کی صورت میں مضبوط ترہوں گی کیونکہ یہ 20 سال امریکا کیخلاف افغان طالبان کی لڑائی میں شامل رہے ہیں۔ طلبان نے ملا ہبت اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہےاور ٹی ٹی پی والے ان کا حکم مانتے ہیں، افغان طالبان اسی لیے کھل کران واقعات کی مذمت نہیں کررہے ۔ چیزیں واضح تھیں لیکن ہمارے سیاستدان اور پالیسی ساز سوئے رہے، ہم چیخ چیخ کرکہتے رہے کہ سوات، شانگلہ ، بونیرمیں ان کی واپسی ہوچکی ہے، لوگوں نے مدد کی اہیل کی لیکن سابق وزیراعظم (عمران خان )سمجھتے تھے کہ طالبان غلامی کی زنجیریں تڑوارہے ہیں۔
عادل شاہ زیب نے شیخ رشید کی بطوروزیرداخلہ گزشتہ سال 22 فروری کی تقریرکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگری کے واقعات میں اضافے کا پتہ تھا تو کس مینڈیٹ کے تحت آپ نے ٹی ٹی پی سے معاہدہ کیا۔
ری گروپنگ سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومت کی بےخبری سے متعلق سوال پرفخرکاکا خیل نے کہا کہ اگست 2022 میں یہ سوات کے اندرآئے، جنرل فیض اور پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ مذاکرات کی بات شروع کی گئی، ایڈجسٹمنٹ کے تحت 100 یا زائد طالبان کو رہا کیا گیا، سوات ، باجوڑ اور ملحقہ علاقون میں یہ آئے تو لوگ سڑکوں پرنکل آئے جس کے بعد اس معاملے میں کمی دیکھی گئی لیکن موجودہ معاملات میں ہمیں توجہ دینی چاہیئے کہ امریکی ڈیفنس کمیٹی کا خود ماننا ہے کہ وہ افغانستان میں 7 ارب ڈالرکا اسلحہ چھوڑ کرگئے ہیں، دوسری جانب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت نے صوبے کو ساڑھے 3 ارب کا مقروض بنادیا ہے۔
پشاور دھماکے کی ذمہ داری لینے پر ایک جانب ٹی ٹی پی کی جانب سے انکار کیا جارہا ہے تو دوسری جانب اسی گروپ کے کچھ لوگ اسے قبول کررہے ہیں۔ یہ صورتحال نومبر1989میں لے جاتی ہے، 40 سال کہا جاتا رہا روس کیخلاف جہاد ہے پھر خانہ جنگی شروع ہوئی اور ہھر امریکا آیا،20 سال سے کہا گیا جب تک امریکا افغانستان میں ہے پاکستان میں امن نہیں ہوسکتا۔ ٹی ٹی پی کے کچھ جہادی گروپوں کا ماننا ہے کہ امریکا چلا گیا اورپاکستان کبھی اس جنگ میں اس کا اتحادی نہیں رہا تو اب ہمیں شریعت کے تحت وقت گزارنا چاہیے لیکن دوسری جانب جہادیوں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے، کفری نظام ہے تو اب ہمیں پاکستان کو بھی شکست دینی ہوگی۔ ان معاملات پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔
محمود جان بابرسے دھماکے کا نتیجہ سیکیورٹی لیپس اور طالبان کے اپنے اندر تقسیم کا شاخسانہ ہونے سے متعلق پوچھا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ واضح ہے کہ یہ سیکیورٹی لیپس تھا اور عین ممکن ہے آئی اور چیف سیکرٹری کوتبدیل کردیا جائے۔ یطالبان کے معاملے پر یکسوئی نہیں ہے، یہ کہاجاتا رہا کہ ہم ان سے نمٹ چکے ہیں ، آپریشن کرچکے ہیں لیکن 2014 میں اے پی ایس حملے کے بعد جب آپریشن ہوا تو5 گروپ بنے تھے سب سے بڑا گروپ افغانستان چلاگیا،ایک نے تبلیغ کا راستہ اختیار کیا،جماعت الاحرار والے بھی افغانستان چلے گئے لیکن محسود یہیں رہے تو یہ کہنا کہ سب باہرسے آئے ہیں، درست نہیں کیونکہ زیادہ تر یہیں تھے اور خاموش تھے۔ کچھ لوگ یہاں آئے لیکن سب کے سب باہرسے نہیں آئے۔
عمران خان کی جانب سے پاکستان میں 5 سے 7 ہزار افراد کی آمد اور ان کی ری سیٹلمنٹ والے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے محمود جان بابرنے مزید کہا کہ گزشتہ سال کے اختتام پرمینافغانستان گیا تو ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بات ہوئی، مذاکرات کرنے والوں کے علاوہ بہت سے دیگرگروپ ان سے ناراض تھے کہ پاکستان سے بات نہ کریں،ٹی ٹی پی کل کے واقعے کی ذمہ داری لیتی تو اس کا قدکاٹھ بڑھ جاناتھا لیکن انہوں نے فاصلے پررہنے کو ترجیح دی جس کی وجوہات ہیں، ان سے ہٹنے والے لوگوں کے کچھ دوست افغانستان میں مارے گئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہم اس کا بدلہ پاکستان سے لیں گے۔
عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پالیسی ساز اداروں کو پارلیمان میں آکر واضح بتانا چاہیے کہ کیا افغان طالبان اور ریاست پاکستان کیخلاف لڑنے والے طالبان میں ابھی بھی گڈ اور بیڈ کی تفریق ہے یا ایک ہی سکے کے 2 رخ ہیں۔ کے پی میں پی ٹی آئی حکومت تھی تو کتنے ہی ایسے واضح بیانات آئے کہ وزیراعلٰی سمیت کئی وزراء اور ایم پیز طالبان کو بھتہ دے رہے ہیں تو انہوں نے لوگوں کی حفاظت کیسے کرنی تھی۔ اگر ملک کا وزیرداخلہ آج کرسوال اٹھائے کہ طالبان سے بات کا فیصلہ کس نے کیا تو عمران خان تو اس بات کو قبول کررہے ہیں کہ فیصلہ ان کا تھا لیکن کیا قومی قیادت کو اس حوالےسے اعتمادمیں لیا گیا، آج کورکمانڈر کانفرنس میں پی ٹی آئی نہیں تھی تو اس حوالے سے تمام قیادت کو آن بورڈ لیا جائے۔
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سےمتعلق بات کرتے ہوئے عادل شاہ زیب نے کہا کہ معاشی صورتحال اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دیکھتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو بھول ہی جائیں۔ پی پی اور ن لیگ کو بھی دھمکیاں مل چکی ہیں تو ایک آدھ جلسے میں ایسا واقعہ ہوجاتا ہے تو ان کے ووٹرزہی باہر نہیں نکلیں گے۔ فرنٹ لائن پرجو پولیس ان کیخلاف لڑ رہی ہیں ان کے پاس اپنے تھانے تک نہیں ہیں اور وہ اسکولوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
کالعم ٹی ٹی پی کے ساتھ سیزفائرکے معاہدے کے پس پردہ محرکات کے حوالے سے فخر کاکا خیل نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرت میں ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ پی ٹی آئی اس تمام عمل میں کمزور گراؤنڈ پر کھیلتی رہی اور اندرونی حلقوں کا مانناتھا کہ ملا کنڈ سمیت ملحقہ علاقے ٹی ٹی پی کے حوالے کردیں گے۔ طالبان کو پی ٹی آئی کی شکل میں علی الاعلان سپورٹرز اورمالی امداد ملی۔ ڈھنگ کی حکومت ہوتی تو پی ٹی آئی کیخلاف یہی کیس بناتی کیونکہ ثبوت موجود ہیں، پی ٹی آئی نے اس سے انکار نہیں کیا اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ میڈیا پر آکرپی ٹی آئی کے لوگ طالبان کو اخلاقی سپورٹ دے رہے تھے۔
دھماکے کیلئے سہولت کاری کے سوال پرمحمود جان بابرکا کہنا تھا کہ ان دہشتگردوں، خود کش حمہ آوروں کو پرائیویٹ لگژری گاڑیوں میں لایا جاتا ہے جنہیں روکنے کا تصورہی نہیں کیا جاتا کیونکہ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کسی کی ہیں،تو مسجد دھماکے میں جو بندہ اندرآیا دانستہ یا نادانستہ طور پر پولیس والے استعمال ہوئے ہیں۔ اندررہنے والے سویلین بھی دانستہ یا نادانستہ استعمال ہوئے۔ یہاں سیکیورٹی صبح 8 سے شام 5 تک الرٹ رہنے کے بعد آسان باش اورچیک پوسٹیں بھی ہٹ جاتی تھیں اور گیٹ پر بھی ایک یا دوسپاہی ہوتے تھے کہ افسرتو چلے گئے، یہ پولیس کا خیال تھا لیکن دہشتگردوں نے اس کمزوری کو استعمال کیا۔ بیرکوں میں بھی ہر قسم کے سپاہی رہتے ہیں، شام کو ان کے دوست بھی پاس آتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2013 اور2014 میں بھی اسی قسم کے حالات تھے، کرانا چاہیں تو الیکشن تو ہوسکتے ہیں کیونکہ ایسا نہیں کہ دھماکے تسلسل سے ہورہے ہیں لیکن الیکشن اگرنہ ہوں تو بہترہیں کیونکہ پولیس سیکیورٹی دے گی اور انہیں ہی ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے، پولیس کا مورال ڈاؤن ہے۔