Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
معاون خصوصی اور ترجمانِ وزیراعظم فہد حسین کا کہنا ہے کہ اہم تعیناتی پر مشاورت میں وقت لگتا ہے لیکن معاملہ ایک دو روز میں طے ہوجائے گا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے فہد حسین نے کہا کہ اہم تعیناتی کا عمل طریقےکار کے مطابق چل رہا ہے، جب تک آئینی مدت ختم نہیں ہوتی اس وقت تک اہم تعیناتی پر کوئی بحران نہیں لیکن معاملہ ایک دو روز میں طے ہو جائے گا۔
فہد حسین نے کہا کہ فیصلوں کے لئے مشاورت میں کچھ وقت لگتا ہے، افواہوں پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں، آئینی طریقہ کار میں کوئی ڈیڈلاک نہیں ہوتا البتہ ایسے فیصلوں میں دیر سویر ہو جاتی ہے۔
وزیراعظم کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان جانتے ہیں کہ معاملات درست انداز میں چل رہے ہیں، وہ ظاہر کر رہے ہیں ملک میں عدم استحکام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ عمران خان دور میں شروع ہوا، معاشی مسائل عمران دور میں پیدا ہوئے اور آج ان کی تقریر ہارے ہوئے شخص جیسی تھی۔
فہد حسین نے کہا کہ تمام ادارے ملک میں استحکام چاہتے ہیں، اہم تعیناتی وقت پر ہو جائے گی، ابھی کوئی مارچ نہیں کارنر میٹنگز ہو رہی ہیں اور جب کوئی مارچ ہوگا تو دیکھیں گے۔
ایک سوال پر ترجمانِ وزیراعظم نے کہا کہ ’ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خدشہ نہیں، یہ آخری حربے تھے، عمران خان کا ڈرانے سے متعلق ایک ٹرینڈ نظر آئے گا جس میں انہوں نے اداروں سمیت بین الاقوامی کمیونٹی اور لوگوں کو ڈرانا کہ اگر میں نہ آیا تو یہ ہوجائے گا جب کہ ڈراتے ڈراتے اب لوگوں کا ڈر ختم ہوگیا ہے اور ہمارے آئینی، سیاسی و ادارہ جاتی معاملے اب ٹھیک ہونے جا رہے ہیں۔‘
اس موقع پر رہنما پی ٹی آئی صداقت عباسی کا کہنا تھا کہ اہم تعیناتی کے معاملے پر 2 ماہ پہلے شور شروع ہوا، شہباز شریف نے 2 ماہ پہلے کہا کہ لندن میں مشاورت ہوگی۔
صداقت عباسی نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر شہباز شریف نے نواز شریف سے ملاقات کی، ہم نے لگنے والوں پر نہیں بلکہ لگانے والوں پر اعتراض کیا، ہمارا اعتراض تعیناتی کے طریقہ کار پر ہے۔
توشہ خانہ گھڑی کے معاملے پر پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’ایک چھوٹی سی گھڑی پر شور مچایا گیا، اگر عمران خان ایک شرٹ پر سائن کریں انہیں گھڑی جتنے پیسے مل جائیں۔‘
صداقت عباسی نے کہا کہ ’آج ملک کے اداروں نے اسحاق ڈار جس پر اربوں روپے کی کرپشن کی آپ اور میں نے کہانیاں سنیں کہ اداروں، ججز، نیب، جے آئی ٹی اور خفیہ اداروں نے ان کے بارے میں ثبوت کیے تھے، آج جو این آر او ہوا جس کے ذریعے رجیم چینج ہوا تھا اور پاکستان کی تباہی ہوئی تھی، عدالت نے انہیں کہا کہ بھئی آپ جائیں، این آر او مل گیا ہے، قانون بدل گیا، قانون بدل گیا ہے، اب اسحاق ڈار کی اربوں روپے کی چوری معاف ہے، یہ وہ چوری ہے جسے پیپلز پارٹی بھی چوری کہتی تھی۔‘
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رہنما پیپلز پارٹی مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ صادق و امین چند دنوں میں بد نام ہوگیا ہے، یہ کہتے ہیں ہماری گھڑی ہماری مرضی، انہیں ملک کی نہیں بلکہ اپنی ذات کی پرواہ ہے۔
اسلام آباد کے تاجروں کا کہنا ہے کہ آئے روز جلسوں اور دھرنوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر پاکستان ریٹیلرز سردارطاہر نے کہا کہ تاجر پہلے ہی ایک عذاب سے گزر رہےہیں، کاروبار کی حالت پہلے ہی خراب ہے، دھرنوں کی وجہ سے پہلے بھی تاجروں کا بہت نقصان ہوا۔
سردار طاہر نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اور احتجاجی گروپ اسلام آباد آکر بیٹھ جاتے ہیں، اس سے کاروبار کو نقصان ہوتا ہے، اب 26 نومبر کو جو دھرنا ہونے جارہا ہے اس وجہ سے بھی تاجر پریشانی کا شکار ہیں۔
سردار طاہر کہتے ہیں کہ ملک میں ان دھرنوں کی وجہ سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، غیرملکی سرمایہ کار یہاں آنے کو تیار نہیں، محمد بن سلمان کا دورہ بھی ان احتجاجوں کی وجہ سے منسوخ ہوا۔
تاجر برادری کا کہنا ہے کہ سیاسی فیصلے پارلیمنٹ ہاؤس میں کئے جائیں سڑکوں پر نہیں۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
عدالت نے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف کارروائی روک دی ہے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دئے کہ نئے ترمیمی آرڈیننس کے تحت کیس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں۔
عدالت نے ریفرنس نیب کو واپس بھجوا دیا۔
گزشتہ روز اسلام آباد کی احتساب عدالت میں آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس جج محمد بشیر نے بریت کی درخواستوں پر سماعت کی اور دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جبکہ گزشتہ ہفتے ہونے والی سماعت میں احتساب عدالت نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی حاضری سے مستقل استثنا کی درخواست منظور کی تھی۔
گزشتہ ہفتے ہونے والی سماعت میں اسحاق ڈار کی جانب سے تین درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
اسحاق ڈار نے اپنی پہلی درخواست میں حاضری سے مستقل استثنا کی استدعا کی تھی، جبکہ دوسری درخواست میں اثاثہ جات کی ڈی اٹیچمنٹ اور تیسری درخواست میں بریت کی استدعا کی گئی تھی۔
**اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں توشہ خانہ ریفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی چیئرمین) عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا آغاز ہوگیا، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کا بیان حلفی لیا گیا۔ **
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت کی، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر وقاص ملک اپنے وکیل سعد حسن کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے ۔
ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرسے عدالت کے سامنے حلف لیا گیا، وقاص احمد ملک نے بیان حلفی میں کہا کہ مجھے اتھارٹی دی گئی ہے 21 نومبر کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی پیروی کروں ، الیکشن ایکٹ کی سیکشن 190 کو 167 اور 173 کے ساتھ ملا کر کارروائی کی اتھارٹی دی گئی ، یہ کارروائی عمران خان کے کرپٹ پریکٹیسسز سے متعلق ہیں، الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ ریفرنس کی بنیاد پر ممبر اسمبلی کے نااہلی معاملے کو دیکھ سکتا ہے۔
وقاص احمد نے بیان حلفی کے متن میں کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت سالانہ 31 دسمبر تک ممبر اسمبلی اور سینیٹرز کو گوشواروں کی تفصیلات جمع کرانا ہوتی ہیں ، عمران خان نے 2018 ، 2019 ، 2020 ، 2221 کے گوشوارے جمع کروائے ۔
جج نے مسکراتے ہوئے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر سے مکالمہ کیا کہ آپ کو پریشر ڈال کر تو نہیں بھیجا گیا کہ جا کر دائر کرو ؟ میں ویسے کہہ رہا ہوں نہیں موڈ تو بتا دیں ، جس پر ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرنے عدالت کے سامنے جواب دیا کہ میں اپنی ڈیوٹی نبہا رہا ہوں۔
ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر وقاص ملک کا بیان قلمبند ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 8 دسمبر تک ملتوی کردی۔
الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو بھیجوایا تھا، ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشنر نے ڈسٹرکٹ کورٹ کو بھجوائی گئی شکایت میں کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ عمران خان پر کرپٹ پریکٹس کا ٹرائل کرے، عمران خان نے اثاثوں کی جھوٹی تفصیلات جمع کرائیں ، وہ کرپٹ پریکٹیسسز کے مرتکب ہوئے، سیکشن 174 کے تحت جھوٹی تفصیلات جمع کرانے کی سزا بھی ہے۔
عدالت شکایت منظور کرکے عمران خان کو سیکشن 167 اور 173 کے تحت سزا دے، عمران خان کو 3 سال جیل کی اور جرمانہ کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا تھا، توشہ خانہ ریفرنس الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 ،170 ،167 کے تحت بھجوایا گیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لئے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمران جماعت کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف کو فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ڈکلیئر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا تھا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے جب کہ سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو بھی آئین کی اسی شق کے تحت اسی نوعیت کے معاملے میں تاحیات نااہلی قرار دیا گیا تھا، ان پر اپنے بیٹے سے متوقع طور پر وصول نہ ہونے والی سزا گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام تھا۔
راولپنڈی انتظامیہ اورقانون نافذ کرنے والےاداروں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 26 نومبر کو راولپنڈی میں دھرنے کا وینیو تبدیل کرنے کی تجویز دے دی۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی فیض آباد کے قریب 26 نومبر کو دھرنا دینا چاہتی ہے، راولپنڈی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دھرنے کا مقام علامہ اقبال پارک تک لانے کی تجویز دی۔
پی ٹی آئی راولپنڈی کے قائدین نے جگہ کی تبدیلی پر مشاورت کے لئے مزید وقت مانگ لیا۔
راولپنڈی میں 26 نومبر کو ہونے والے پی ٹی آئی کے دھرنے کے باعث حساس عمارتوں کی سیکورٹی اور پاکستان انگلینڈ کرکٹ سیریز متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم بھی 26 نومبر کو اسلام آباد پہنچے گی۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ عمران خان براستہ ہیلی کاپٹر راولپنڈی پہنچیں گے، ہیلی کاپٹر سے اسٹیج تک سیکیورٹی کے انتظامات پر بھی نظر ثانی جاری ہے۔
راولپنڈی میں فیض آباد کے قریب انتہائی اہم تنصیبات بھی موجود ہیں، راولپنڈی انتظامیہ نے پی ٹی آئی قائدین کو تمام خدشات سے آگاہ کردیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے توہین کمیشن کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اورسابق وفاقی وزیرفواد چوہدری کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکرلی۔
ممبرسندھ نثاردرانی کی سربراہی میں 4 رکنی کمیشن نے عمران خان توہین عدالت کیس کی سماعت کی ۔
عمران خان اور فواد چوہدری کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کروائی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا کہ عمران خان قاتلانہ حملہ میں زخمی ہیں کچھ مہلت دی جائے جبکہ فواد چوہدری ڈینگی وائرس کا شکار ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکے انہیں 15دن کی مہلت دی جائے۔
الیکشن کمیشن نے استدعا منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی۔
الیکشن کمیشن نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق محفوظ شدہ فیصلہ سُنا دیا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق کراچی میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق فیصلہ آج ساڑھے 11 بجے سنایا جانا تھا، جس کا وقت تبدیل کرکے سہ پہر 3 بجے کردیا گیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے بعد 15نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سندھ حکومت نے مزید 90 دن کے لئے بلدیاتی انتخابات مؤخر کرنے کی استدعا کی تھی جبکہ جماعت اسلامی نے 45 روزمیں انتخابات کرانے کا کہاتھا۔
پی ٹی آئی کو بھی بلدیاتی انتخابات مؤخر ہونے پر کوئی اعتراض نہیں جبکہ ایم کیوایم نے مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے اعتراض اٹھائے۔
چیف الیکشن کمیشنر نے کہا تھا کہ صوبائی حکومتیں کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتیں، 120 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں
الیکشن کمیشن نے سیکریٹری داخلہ،چیف سیکریٹری سندھ اور آئی جی سندھ پیپلز پارٹی ، ایم کیوایم، پی ٹی آئی اورجماعت اسلامی کو نوٹسز بھی جاری کئے تھے۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گری عدالت نے پی ٹی آئی رہنما ؤں اسد عمر،علی نوازاعوان سمیت دیگر6 ملزمان کی ضمانت منظورکرلیں جبکہ سینیٹر فیصل جاوید ،خرم نواز اورعامرکیانی کی ضمانتوں پر فیصلہ کل سنایا جائے گا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور کارسرکار میں مداخلت سے متعلق کیسز کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت اسد عمر،علی نواز اعوان کے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
دلائل کے بعد عدالت نے پی ٹی آئی رہنما ؤں اسد عمراورعلی نواراعوان سمیت دیگر6 ملزمان کی ضمانتیں منظورکرلیں۔عدالت نے فیصل جاوید کو 161 کی اسٹیٹمنٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔
فیصل جاوید، خرم نوازاور عامرکیانی کے خلاف تھانہ آئی نائن میں درج مقدمے پر محفوظ شدہ فیصلہ کل بروز منگل کوسنایا جائے گا۔
میڈیا سے گفتگو میں اسدعمر کا کہنا تھاکہ حکومت ہمارے خلاف مقدمات کی بجائے اگرمعیشت پرتوجہ دیتی تو ملکی معاشی صورتحال آج ایسی نہ ہوتی۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف تھانہ سنگجانی اور تھانہ آئی نائن میں مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسلام آباد میں جلسے اور دھرنے کی اجازت سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوران سماعت درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست واپس لینے کی استدعا منظور کرلی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ لانگ مارچ کی مخالفت اور تاجروں کی درخواست پر سماعت آخر میں سنیں گے۔
31 اکتوبر کو پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں جلسے کے اجازت نامے کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست پی ٹی آئی اسلام آباد کے صدر علی نواز اعوان کی طرف سے دائر کی گئی جس میں وزارت داخلہ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد کو فریق بنایا گیا۔
علی نوازاعوان کی وساطت سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائرکردہ درخواست میں موقف اختیارکیا گیا کہ پی ٹی آئی 4 نومبر کواسلام آباد میں جلسہ کرنا چاہتی ہے جس کی اجازت کے لئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے رجوع کیا تھا۔
پی ٹی آئی نے تحریری درخواست میں بتایا تھا کہ یہ خط 26 اکتوبر کو لکھا گیا تھا لیکن تاحال این او سی جاری نہیں کیا گیا۔
درخواست میں عدالت سے ڈپٹی کمشنرکو این او سی کے اجراء کے لئے ہدایات جاری کیے جانے کی استدعا کرتے ہوئے مزید کہا گیاکہ ڈپٹی کمشنر بلاوجہ معاملے کو طول دے رہے ہیں، احتجاج اور آزادی اظہار رائے آئینی حق ہے۔
2 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں جلسے کی اجازت نہ ملنے پر پی ٹی آئی کی درخواست پر اسلام آباد انتظامیہ کو نوٹس جاری کیا تھا۔
وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء کا کہنا ہے کہ سمری آئے نہ آئے دونوں صورتوں میں آرمی چیف کی تعیناتی ہوجائے گی۔ روایت ہے کہ تعیناتی کا نوٹیفکیشن آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے دو تین دن پہلے ہوتا ہے۔
رانا ثناء کے مطابق آرمی چیف کی تقرری کیلئے 18 نومبرکی جو بات کی جا رہی تھی، اس کی ایک وجہ تھی، اس دن ایک افسر کی ریٹائرمنٹ ہونی تھی، آرمی چیف کی تقرری کا عمل شروع ہوگیا ایک دو روز میں مکمل ہو جائے گا، میرا خیال ہے کہ 22 یا 23 تاریخ تک سمری آجائے گی۔
جیوٹی وی پر پروگرام ”آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ“ میں شریک وزیرداخلہ نے کہا کہ یہ فرض نہیں کرنا چاہئے کہ وزارت دفاع کی طرف سے سمری نہیں آئے گی، وزیراعظم ہاؤس نے سمری طلب کی ہے اور وزارت دفاع نے سمری بھیجنے کیلئے دو دن کا وقت مانگا ہے سمری میں سے ایک نام بھی فائنل ہوگا جس پر سول وعسکری قیادت پوری طرح متفق ہوگی۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جو نام بھیجیں گے وہی ان کی طرف سے ہوں گے، وزیراعظم انہی ناموں میں سے کسی ایک کو آرمی چیف تعینات کریں گے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کوکڑی تنقید کا نشانہ بنانے والے رانا ثناء نے کہا کہ عمران خان کا مارچ اب لانگ مارچ نہیں رہا اب وہ جتماع کرنا چاہتا ہےجو اس معاملہ پر کسی بھی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتا۔عمران خان کی احمقانہ سوچ ہے کہ اس طرح اس معاملہ کو پریشرائز کرسکے گا، یہ سب آرمی چیف کی تعیناتی پر اثرانداز ہونے کیلئے کیا جارہا ہے لیکن عمران خان کی آخری کوشش بھی ناکام رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان گزشتہ 2 ماہ سے دو ماہ سے فوج کو زچ کرنے کیلئے برا بھلا کہہ رہے ہیں۔، آرمی چیف رہنے والوں نے اس عہدے کی طاقت سے کم ازکم 30 سال ملک پرحکومت کی ہے، ادارہ خود کو سیاست سے دور کرے اور آئینی کردار تک محدود کرے۔
وزیرداخلہ نے مزید کہا کہ ادارہ اب غیرسیاسی اورآئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے، عمران خان ادارے کو بلیک میل کرکے سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں،امید ہے ادارہ اپنے فیصلے پر قائم رہے گا اسی میں ملک کی بقا ہے۔