طالبان کو تسلیم کرنا ہے یا پابندیاں عائد کرنی ہیں؟ فیصلہ آج جی-7 اجلاس ہوگا
دنیا کی سات بڑی معیشتوں کےحامل ممالک (جی-7) ایک ورچوئل اجلاس میں شریک ہورہے ہیں جہاں وہ اس متعلق فیصلہ کریں گے کہ آیا افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے یا ان پر پابندیاں عائد کرنی ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے دو سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جی سیون رہنماؤں کا یہ اجلاس منگل کو ہوگا۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر اس اجلاس کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔
جی سیون اجلاس میں مغربی ملکوں کے فوجی اتحاد (نیٹو) کے سیکریٹری جنرل یینز اسٹولٹنبرگ اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی شریک ہوں گے۔
رائٹرز کے مطابق واشنگٹن میں غیرملکی سفارتکاروں نے بتایا ہے کہ امریکا کے اتحادی ممالک کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد واشنگٹن کی جانب سے رابطوں میں فقدان پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں ورچوئل اجلاس کا مقصد تعاون ہے۔
یورپی سفارتکاروں نے کہا ہے کہ جی سیون ممالک کے رہنماء اس بات پر اتفاق کریں گے کہ آیا طالبان کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں اور اگر انہیں تسلیم کرنا ہےتو وہ وقت کون سا ہوگا۔
امریکا،برطانیہ،اٹلی،فرانس،جرمنی،کینیڈا اور جاپان کے رہنماء اس اجلاس میں ممکنہ طورپرطالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے یا پھر ان پر نئے سرےسےپابندیاں لگانے پر اتفاق کریں گے تاکہ طالبان کو خواتین کے حقوق اور بین الاقوامی تعلقات کے ضابطوں کی تعمیل کا پابند بنایا جاسکے۔
برطانیہ کے وزیرِاعظم بورس جانسن جی سیون ممالک کے اجلاس میں ایک متفقہ پالیسی پر زور دیں گے۔
جی-7 ممالک امریکا کے صدر جو بائیڈن کی جانب سے 31 اگست تک افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلاء کی مہلت میں ممکنہ توسیع پر بھی تبادلہ خیال کریں گے تاکہ امریکا اور دیگرممالک کو مزید وقت مل سکے کہ وہ اپنے شہریوں اور ان افغان شہریوں کو افغانستان سے نکال سکیں جنہوں نے نیٹو اور امریکی فورسز کی مدد کی تھی اور ان افراد کو بھی نکالا جاسکے جن کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔
واضح رہے کہ برطانیہ اور فرانس شہریوں کے انخلا کے لیے مزید وقت لینے پر زور دے رہے ہیں لیکن طالبان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی فورسز نے توسیع کی درخواست نہیں کی ہے اور اگر وہ درخواست کرتے بھی ہیں تو اسے منظور نہیں کیا جائے گا۔
Comments are closed on this story.