Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ 50 سال گزرنے کے باوجود بھی پارلیمان اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے، پارلیمان اپنےمقام کیلئے لڑ رہی ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میثاق جمہوریت کے جتنے معاملات تھے میں ان میں شامل تھا، اُس وقت میں پارلیمنٹیرینز کا سیکرٹری جنرل تھا۔ اُس وقت ایک احساس نے جنم لیا کہ اگر ہم نے معاملات چلانے ہیں تو ہمیں اپنے آئین، اپنی جمہوریت اور اپنی پارلیمان کی حفاظت کرنی ہوگی۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ کوئی جماعت اگر اپوزیشن میں ہے تو تعمیری اپوزیشن کرنے کے بجائے اس میں پڑ جائے اور کہے کہ میں آپ کو نہیں رہنے دوں گا اور ہر روز ایسے ایشو کھڑے کرے کہ حکومت وقت اپنی پوری توجہ اپنے کام سے ہٹا لے۔
کیا اسٹبلشمبنٹ کے علاوہ آئین کو خطرات موجود ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ نے سنا ہوگا پارلیمان تمام اداروں کی ماں ہے، یہیں سے تمام ادارے اپنی قوت حاصل کرتے ہیں، یہی وہ ماں ہے جو سب کو ان کے حصے کی چیز بانٹ کر دیتی ہے، ان کو اختیارات تفویض کرتی ہے۔ اگر آپ اس ماں کو ہی بے عزت کرنا شروع کردیں، اس کے اختیارات کو چیلنج کرنا شروع کردیں، پھر تو سارا معاملہ ہی دھڑام سے گر جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمان 23 کروڑ عوام کے جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک قانون ابھی پاس بھی نہیں ہوا، اس نے سارے مراحل طے ہی نہیں کئے اس پر عدالت کہہ دے کہ اس پر اسٹے کرتے ہیں، اسٹرائک ڈاؤن کرتے ہیں، اور ایسے سخت الفاظ ہوں کہ اس کو صدر قبول کریں یا نہ کریں یہ قانون نہیں بنے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان کو اگر کوئی قانون سازی کرنی ہے تو کیا پہلے وہ اجازت کیلئے عدالت کے پاس جائے گی؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ایسی بات ہے تو پارلیمان کی خودمختاری کدھر گئی؟ پھر اس کا مقتدر ہونا کہاں گیا؟ پھر اس کی اداروں کی ماں ہونے کی حیثیت کہاں گئی؟
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اس لئے یہ بات بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے کہ آج بھی ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر پارلیمان کی عزت نہیں ہوگی تو کسی ادارے کی عزت قائم نہیں رہ سکے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹبلشمنٹ سمجھ گئی ہے کہ اگر دخل دیتے ہیں تو اس میں اسٹبلشمنٹ کا بھی نقصان ہوتا ہے اور سیاست کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ ’اسی طرح اب اگر عدالت جو ہے وہ پارلیمان کی راہ میں کوئی روڑے اٹکائے گی اور اس کے راستے میں آئے گی، یا کوئی ایسا سسٹم جو نہیں کرنا چاہئیے اس سے سرزد ہوگا نوئنگلی یا ان نوئنگلی، دانستہ یا نادانستہ تو نقصان تو پورے ملک کا ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک کی پارلیمنٹ کمزور ہو وہ ملک طاقت ور ہوہی نہیں سکتا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا کیا مستقبل ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون سازی کا ایک طریقہ ہے، قومی اسمبلی بل کو سینیٹ کے پاس بھیجتی ہے، وہاں سے پاس ہونے کے بعد وہ صدر مملکت کے پاس جاتا ہے، صدر اسے مخصوص مدت تک روک سکتے ہیں یا واپس کردیتے ہیں، واپسی کی صورت میں جوائنٹ سیشن ہوتے ہیں جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی مل کر غور کرتے ہیں، وہ دوبارہ پاس کرتے ہیں تو دوبارہ صدر مملکت کے باس چلا جاتا ہے، اگر صدر مملکت دوبارہ اس کو روکتے ہیں تو ایک مخصوص مدت کے بعد وہ قانون بن جاتا ہے۔ یہ ہے صحیح طریقہ، اس کے علاوہ جو بھی طریقہ ہوگا وہ زیادتی کے ضمرے میں آئے گا۔
جس پر پروگرام کی میزبان عاصمہ شیرازی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کل یہ قانون بن جائے گا کیونکہ یہ دن پورے ہوجائیں گے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لیکن سپریم کورٹ اب کسی بھی وجہ سے سوموٹو لے کہ یہ جو قانون بنا ہے یا پاس ہوا ہے اسے روک دیا جائے تو پھر آپ پارلیمان سے اس کا جو قانون سازی کا حق، اختیار اور جو اس کا فرض ہے وہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عاصمہ شیرازی نے پوچھا کہ تو کیا یہ جوڈیشل مارشل لاء ہے؟
جس پر انہوں نے کہا کہ ’اس کو آپ جوڈیشل مارشل لاء نہیں جوڈیشل مارشل لاء پلس کہیں‘۔ یہ تو اس سے زیادہ خوفناک چیز ہے۔ اگر کوئی قانون آئین یا اسلامی قوانین سے متصادم ہو تو آپ اسے اسٹرائیک ڈاؤن کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک قانون سازی کا تعلق ہے تو یہ قانون بن گیا ہے، اب اگر سپریم کورٹ کہتا ہے کہ یہ قانون نہیں بنا تو ’وہ میں نافذ العمل نہیں ہونے دوں گا‘۔
راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں کہ ہم نے یہ نہیں کہا تمام سولہ سترہ ججز بیٹھیں، ہم نے کہاں کہ تین ججز بیٹھ جائیں اور وہ اس سوموٹو کا فیصلہ کرلیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نو ججز سے شروع کرتے ہیں، اس میں سے دو چلے جاتے ہیں سات بچتے ہیں، آپ سماعت جاری رکھتے ہیں، ان سات سے پھر دو چلے جاتے ہیں پانچ رہ جاتے ہیں آپ جاری رکھتے ہیں، پانچ میں سے پھر تین چلے جاتے ہیں آپ دو کے ساتھ سماعت جاری رکھتے ہیں۔ یہ اسی طرح ہے کہ فرض کریں وزیراعظم کابینہ کو بلاتا ہے کسی فیصلے کیلئے، اور کابینہ کے سارے ممبرز اٹھ کر چلے جائیں اور صرف ایک یا دو رہ جائیں اور وہ ان کے ساتھ فیصلہ کرلیں تو کیا اس کو آپ کابینہ کا فیصلہ مان لیں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ میں تعریف کرتا ہوں کہ چیف جسٹس نے کہا آپ لوگ آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کرلیں، تکنیکی طور پر وہ یہ بات نہیں کرسکتے، یہ ان کا کام نہیں ہے، یہ کام سیاستدانوں کا ہے، یہ کام پارلیمان کا ہے، ہمیں کرنا چاہئیے تھا، ہم نے کیوں نہیں کیا، ہمیں بیٹھنا چاہئیے۔ ہم اپنا کیس لے کر عدالت چلے گئے، ہم نے خود اپنی داڑھی دوسرے کے حوالے کردی۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ 14 مئی تک کیا بیلٹ پیپر کی چھپائی اور ترسیل ہوجائے گی؟ آپ خود ایسا ٹارگٹ دے رہے ہیں کہ فیصلے پر عمل ہی نہ ہوسکے۔
ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں الیکشن میں جانا خون خرابے کا باعث بن سکتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر سے آگے انتخابات لے جانا بہت بری بات ہوگی بلکہ نقصاندہ ہوگا، لیکن قسطوں میں انتخابات کروانا بہت خطرناک بات ہوگی۔ کشمیر اور گلگت بلتستان والوں کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ ہمارے الیکشن بھی پاکستان کے ساتھ کرائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کو آخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ بغیر پارلیمان کی سربلندی اور توقیر اور اسے بغیر عزت دئے کوئی بھی عزت والا نہیں رہ سکتا، کسی کی پھر عزت نہیں ہوگی۔ سب کی عزت ہو تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنی پارلیمان کی عزت کریں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی ہمارا ہی ہے، کیا سپریم کورٹ کی پارلیمنٹ نہیں ہے؟ اگر پالیمنٹ نہ ہو تو آپ کے پاس قانون کہاں سے آئے گا؟
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ’میں اب چاہتا ہوں کہ پارلیمان جو ہے، یہ پارلیمان یا آنے والی پارلیمان وہ کنٹیمپٹ آف پارلیمان (توہینِ پارلیمان) کا قانون بھی پاس کرے۔ اگر کنٹیمپٹ آف کورٹ ہے تو کنٹیمپٹ آف پارلیمان کیوں نہیں ہے جو مدر آف انسٹیٹیوشنز ہے، اس کا کنٹیمپٹ بھی ہے، اس کی عزت بھی ہے اس کی بھی توقیر ہے، تو جب تک ہم یہ نہیں کریں گے تو بالکل میں کھلے الفاظ میں کہتا ہوں کہ ہم پاکستان میں استحکام نہیں لاسکیں گے۔‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر چوہدری پرویز الہٰی نے اپنے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔
تحریک انصاف کے صدر پرویز الہٰی نے اشتیاق اے خان ایڈووکیٹ کے توسط سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ جس میں مقدمات کی تفصیلات فراہم نہ کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا گیا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار کو خدشہ ہے ان کیخلاف مقدمات درج ہیں جو ان کے علم میں نہیں۔ عدالت تمام مقدمات کی تفصیل طلب کرے، جب تک تفصیلات فراہم نہ ہوجائیں پولیس کو پرویز الہٰی کی گرفتاری سے روکا جائے۔
درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ پولیس سمیت دیگر اداروں کو چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے سے روکا جائے، پرویز الہیٰ اور انکے خاندان کے ارکان کو غیر قانونی طور پر ہراساں نہ کیا جائے۔ پرویز الہیٰ کو مقدمے کی صورت میں گرفتاری سے پہلے عدالت میں پیش ہونے کا موقع دیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان دیگر رہنماؤں سے تحقیقات کےلئے قائم جے آئی ٹی کی کارروائی کو عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں لاہورہائیکورٹ کے تین رکنی فل بنچ نے عمران خان اور دیگر رہنماؤں سے تحقیقات کےلئے قائم جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب چوہدری خلیق الزمان عدالت پیش ہوئے۔
عمران خان اور فواد چوہدری کے وکلاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت روز کے معمولات نمٹانے کا اختیار رکھتی ہے، اسے جےآئی ٹی کی تشکیل کا قانونی اختیار نہیں ہے، ہم تفتیش نہیں رکوانا چاہتے ہیں، ہمیں انتخابات سے دور رکھنے اور ڈرانے کیلئے دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے جے آئی ٹی کو کام سے روکنے کیلئے دائر درخواست کی مخالفت کی۔ شان گل نے کہا کہ امن و امان قائم رکھنا نگران کابینہ کا قانونی اختیار ہے، کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے قانونی طریقہ کار کے مطابق جے آئی ٹی تشکیل دی۔
لاہورہائیکورٹ نے حکم امتناعی کی درخواست پرمحفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی کارروائی کو عدالتی فیصلے سے مشروط کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ عدالت تفتیش کےعمل کو نہیں روک سکتی۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے تحفظات اور دلائل کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما میاں جلیل احمد شرقپوری نے جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ان کے استعفے کی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات 20 اپریل کو میاں جلیل احمد شرقپوری کے نام سے بنے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کچھ پیغامات جاری کئے گئے جن میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر عمران خان اور پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کیا گیا تھا۔
مبینہ جعلی ٹوئٹس میں لکھا گیا کہ شدید ترین دباؤ کے باوجود مشکل وقت میں عمران خان کا ساتھ دیا، آج جب صوبائی اسمبلی کی پارٹی ٹکٹس بانٹی گئیں تو وعدوں کےباوجود میری قربانیوں کو نظرانداز کردیا گیا، میں آج ابھی پاکستان تحریک انصاف چھوڑنےکا باضابطہ اعلان کرتا ہوں۔
ایک اور ٹوئٹ میں کہا گیا کہ عمران خان صاحب ٹکٹ کا ایک کروڑ نذرانہ مانگتے ہیں، شوکت خانم کے لیے الگ ڈونیشن مانگتے ہیں جو کہ میرے پاس نہیں ہے ۔خدا گواہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں ٹکٹ کے نام پر ایسی لوٹ مار نہیں ہوتی۔
مبینہ جعلی اکاؤنٹ JalilShraqpuri@ کا ہینڈل استعمال کررہا ہے جبکہ، جلیل شرقپوری کا اصل اکاؤنٹ JalilSharaqpuri@ سے ہے۔
جلیل احمد شرقپوری نے اپنے اصل اکاؤنٹ پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں ان جعلی ٹوئٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے نام سے ایک جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ پروان چڑھ رہا ہے ، ہمارا جو اصل ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے وہ یہ ہے جس پر یہ ویڈیو میسیج آرہا ہے ، جو ہم نے آج سے دو ہفتے پہلے بنایا ہے، اس سے پہلے میرا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں تھا، جو یہ فراڈ کر رہا ہے ہم اس کیخلاف ایف آئی آر کروانے جا رہے ہیں۔ غلط خبریں میری طرف سے چلائی جارہی ہیں ، ہم عمران خان صاحب کے ساتھ ہیں، میں نے خود یہ فیصؒہ کیا تھا اور پارٹی قائدین کو بھی انفارم کردیا تھا کہ ابھی جو صوبائی انتخابات ہو رہے ہیں، جیسے ضمنی الیکشن میں میں نے خود ودڈرا کیا تھا خود الیکشن نہیں لڑنا چاہ رہا تھا، ابھی بھی میرا صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ نہیں تھا، ہم پارٹی کے ساتھ ہیں اور بھرپور طریقے سے ہمارے حلقے کے امیدوار انہیں سپورٹ کریں گے‘۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ مبینہ جعلی اکاؤنٹ نے جلیل شرقپوری کا ویڈیو پیغام بھی اپنے اکاؤنٹ پر شئیر کردیا۔ حالانکہ اس جعلی اکاؤنٹ پر ”فین اکاؤنٹ“ واضح کیا ہوا ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ فیصلے عمران خان کی خواہش پر ہوں گے تو ماحول خراب ہوگا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران سعید غنی نے کہا کہ ملک بھر میں انتخابات ایک وقت میں ہونے چاہئیں، ایک ہی وقت پرانتخابات کیلئے کسی صوبے کا مؤقف رد نہیں ہونا چاہئے، یہ سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کی آواز ہے جو سپریم کورٹ کو سننی چاہیے، الگ الگ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔
صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک میں جوڈیشل مارشل لاء ہے اور سب بے بس ہیں، ملک میں آئینی بحران کا حل سیاستدانوں کے پاس ہے۔ پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، اسٹیٹ بینک عدلیہ کا ماتحت ادارہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ فیصلے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی خواہش کے مطابق ہوں گے تو ماحول خراب ہوگا، عمران خان ملکی اداروں کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں انھیں اپریل 2022 کو ہی جیل میں ہونا چاہئے تھا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی نے عید کی تعطیلات میں زمان پارک میں ممکنہ آپریشن کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں عید کی تعطیلات میں زمان پارک میں ممکنہ آپریشن کو روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔
بشریٰ بی بی کی جانب سے پی ٹی آئی وکلا نے درخواست دائر کی ہے، جس میں مؤقف پیش کیا گیا ہے کہ اطلاعات ہیں کہ عید کی تعطیلات میں زمان پارک میں آپریشن ہوگا، پہلے بھی عمران خان کی غیرموجودگی میں پولیس نے گھر پر حملہ کیا تھا۔
دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پولیس کوعید تعطیلات میں زمان پارک میں آپریشن روکنے کا حکم دیا جائے۔
بشریٰ بی بی کی درخواست پر سماعت ہوئی، تو عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ یہ معاملہ تو پہلے ہی لارجر بینچ کے سامنے ہے، آپ کو پہلے ہی ریلیف مل چکا ہے، یہ درخواست عدالت کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے، عدالت نے بشریٰ بی بی کی درخواست خارج کردی۔
بشریٰ بی بی کے وکیل اظہر صدیق نے مؤقف پیش کیا کہ ہم بنیادی حقوق کی بات کررہے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح کی پٹیشن سے عدالت کا وقت ضائع ہوتا ہے، آپ 2 دن پہلے لارجر بینچ میں آئے تھے، میں بھی لارجر بینچ میں شامل تھا، جو ریلیف بنتا تھا آپ کو دے دیا گیا تھا، آپ کی پٹیشن نہیں بنتی، آپ کو ریلیف دیا جا چکا ہے۔
عدالت نے بشریٰ بی بی کے وکیل اظہر صدیق پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا اور بشری بی بی کی درخواست خارج کردی۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں اسی حوالے سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان بھی درخواست دائر کرچکے ہیں، جس میں پی ٹی آئی چیئرمیں نے دعویٰ کیا تھا کہ مجھے انفارمیشن ہے کہ عید پر زمان پارک آپریشن دوبارہ ہوگا، اور مجھے خوف ہے وہاں خون ہوگا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن ہارنے سے ڈرے ہوئے ہیں، یہ مجھے صرف جیل میں ڈالنا نہیں، مجھے ختم کرنا چاہتے ہیں، مجھ پر پہلے بھی حملہ ہوا اور اللہ نے مجھے بچا لیا، انہوں نے عید کی چھٹیوں میں آپریشن پلان کیا ہوا ہے، اس لئے آپ کو کہہ رہا ہوں کہ عدالت پولیس آپریشن سے روکے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ یہاں تو جنگل کا قانون ہے، یہاں توہین عدالت کا خوف بھی نہیں رہا، یہ جانتے ہیں کہ میں جیل بھی چلا جاوں تو یہ ہار جائیں گے، مجھے اطلاعات ہیں کہ یہ حملہ کریں گے، مجھے پتا ہے انہوں نے کیا کرنا ہے، خون خرابے کا خطرہ ہے، ہمیں اس سسٹم (نظام) پر کانفیڈنس (اعتماد) ہی نہیں رہ گیا، علی زیدی کے ساتھ بھی ایسا ہوا اسے پکڑ لیا گیا۔
عدالت لاہور نے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور کو دو روزہ راہداری ریمانڈ پر سندھ پولیس کے حوالے کردیا ہے۔
انسداد دہشتگردی عدالت کے جج عبہرگل خان نے سماعت کی جہاں عدالت نےعلی امین گنڈا پورکا 2 روزہ راہداری ریمانڈ منظورکیا ہے۔
خیال رہے شکارپور میں پی ٹی آئی رہنما علی امین کے خلاف ریاست مخالف تقاریر کا مقدمہ درج ہے۔
پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کی ملیرکورٹ میں پیشی کے دوران ہنگامہ آرائی کے معاملے پر پی ٹی آئی کے 200 کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنماوں کے خلاف ملیر سٹی تھانے میں مقدمہ درج کرلیا گیا، جس میں کار سرکار میں مداخلت اور ہنگامہ آرائی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مقدمہ خرم شیرزمان اور ارسالان تاج سمیت 200 کارکنوں کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں عمران اسماعیل اور آفتاب صدیقی کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے اسموگ کے تدارک سے متعلق کیس میں ہیٹ ویو کی روک تھام کے لئے اقدامات کا حکم دے دیا، عدالت نے نجی ہاؤسنگ اسکیموں میں درخت کاٹنے میں ملوث افراد کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں اسموگ کے تدارک سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، درخواست گزار اظہر صدیق ایڈووکیٹ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: اسموگ تدارک کیس: عید تک بیکریوں کو رات ایک بجے تک کام کرنے کی اجازت
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایشیاء میں ہیٹ ویو بڑی تیزی سے آرہی ہے، ریلوے اور پی ایچ اے درختوں کی آبیاری کے لئے مل کرکام کرے۔
لاہور ہائیکورٹ نے نجی ہاؤسنگ اسکیموں میں درخت کاٹنے میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں: اسموگ تدارک کیس میں چیئرمین پلاننگ کمیشن کو توہین عدالت کا نوٹس جاری
عدالت نے قرار دیا کہ جم خانہ، رائل پام اور نشاط سرکاری پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے سے متعلق مل کر لائحہ عمل بنائیں، ایسا نہ کیا گیا تو سخت کارروائی کا سامنا کرنے کو تیار رہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں الیکشن کے لئے کسی بھی امیدوارکو ٹکٹ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پارٹی ذرائع کے مطابق قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ لیگی امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی فی الحال واپس نہیں لیے جائیں گے۔
پارٹی قیادت کا کہنا ہے کہ 14 مئی کے انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ ن کا مؤقف بڑا واضح ہے۔
لیگی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی امیدوار کے ٹکٹ اور شیر کے نشان کی درخواست الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائی جائے گی۔
واضح رہے کہ الیکشن شیڈول کے مطابق آج الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو پارٹی نشان الاٹ کرنے ہیں۔
دریں اثنا لیگی رہنما عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے پنجاب الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا، امیدواروں کو ٹکٹیں جاری نہیں کی ہیں، سپریم کورٹ میں ہمارا مؤقف ہے کہ 14 مئی کے الیکشن کو نہیں مانتے۔ بائیکاٹ اس وقت ہوتا ہے جب امیدوار کاغذات واپس لے لیں۔
یاد رہے کہ آج پنجاب میں الیکشن کیلئے ٹکٹ جمع کروانے کا آخری روز ہے، تحریک انصاف کی جانب سے تمام امیدواروں کو ٹکٹ جاری کردیے گئے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عیدالفطر کی چھٹیوں میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ہراساں نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست پر حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق نے سابق وزیراعظم عمران خان کی عید کے دوران گرفتاری روکنے اور کیسز کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے ایڈووکیٹ فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سراج الحق زمان پارک آئے مذاکرات کی اچھی کاوش ہوئی،اگلی صبح ہم نے دیکھا کہ سندھ کے ہمارے صدر کو اٹھا لیا گیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اس واقعے سے ظاہر ہے ایک ”بیڈ ٹیسٹ“ پیدا ہوا۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے عید کی 5 چھٹیوں میں پھر یہ کوئی آپریشن کریں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ مقدمات کی تفصیلات تو طلب کر سکتا ہوں، میں اور کوئی خالی آرڈر کیسے کروں؟۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عید کی چھٹیوں میں عمران خان کو ہراساں نہ کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے عمران خان کی درخواست پر حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی درخواست عید کے بعد تک زیر التوا ہی رکھنے کی استدعا منظور کرتے ہوئے وفاق اور پولیس سے 27 اپریل تک عمران خان کے خلاف کیسز کی تفصیل طلب کرلی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عام انتخابات پر تمام سیاسی جماعتوں کو آج ہی مذاکرات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، لیکن سیاسی قائدین عید منانے کیلئے روانہ ہوگئے، جس پر عدالت نے 27 اپریل تک سماعت ملتوی کردی۔
پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تمام سیاسی جماعتوں کو آج ہی مذاکرات کرنے کی ہدایت کردی ہے، اور حکم دیا کہ مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
پنجاب میں انتخابات روکنے کے لئے وزارت دفاع کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کا تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے، بینچ کے دیگر2 ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: فیصلے سے واپسی ناممکن، حکومت 27 اپریل تک 21 ارب روپے جاری کرے، سپریم کورٹ
آج سماعت کے آٖغاز پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے علاوہ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: دومراحل میں الیکشن کروانے سے انارکی پھیلے گی، الیکشن کمیشن کی رپورٹ
چیف جسٹس نے سماعت کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کرنے کے بعد سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مکالمہ کیا کہ “آپ نے نیک کام (مذاکرات) کو شروع کیا اللہ کامیاب کرے، عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی’۔
مزید پڑھیں: انتخابات فنڈز : الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک نے رپورٹس جمع کرادیں
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالت کی تجویزکی حمایت کرتے ہیں۔ جس پر وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ تحریک انصاف عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتی ہے، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے، سپریم کورٹ جو بھی حکم کرے قبول ہوگا۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان کی درخواست پر چیف جسٹس نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کیا جس کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر وزارت دفاع کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ بیشترسیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہیں، مناسب ہوگا، عدالت تمام قائدین کو سن لے۔ جمہوریت کی مضبوطی الیکشن ایک دن ہوناضروری ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی قائدین کی تشریف آوری پر مشکور ہوں اور صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے۔ قوم میں اضطراب ہے اس لیے سیاسی قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔ عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام وتفہیم سےمسئلہ حل کریں توبرکت ہوگی۔
چیف جسٹس نے وزارت دفاع کی جانب سے گزشتہ روز دی جانے والی بریفنگ کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آج 29 رمضان ہے، ہمیں ایک بریفنگ دی گئی تھی۔ درخواست گزار بھی ایک ہی دن میں الیکشن چاہتے ہیں، ایک ہی دن کی بات اٹارنی جنرل نے کی تھی لیکن وہ بات ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکی۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ نےاس عمل کی حمایت کا اظہارکیا اور فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا کہ ایک ساتھ انتحابات ہوں۔ ہم آصف زرداری کےمشکورہیں، انھوں نے تجویزسےاتفاق کیا۔ ن لیگ نے بھی تجویزسے متعلق بات کی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ مذاکرات سےاتفاق رائے پیدا ہو، الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو، ایک ہی دن ہونے چاہئیں۔
اس کے بعد رہنما ن لیگ خواجہ سعد رفیق نے روسٹرم پرآکرکہا کہ میری قیادت کےمشورے سے عدالت کے سامنے آئے ہیں،ملک میں انتشار اور اضطراب نہیں ہونا چاہیے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک ہی دن الیکشن ہونے چاہیے۔ سیاسی لوگوں کو مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے چاہئیں، ہم مقابلے پر نہیں مکالمے پر یقین رکھتے ہیں۔
لیگی رہنما نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار ہیں، ہم نے عید کے بعد اتحادیوں کا اجلاس بلایا ہے۔ ہم جومیڈیا پربات کرتے ہیں اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کچھ کردار سوشل میڈیا کا بھی ہے۔
سعد رفیق کے بعد ایازصادق بی این پی مینگل کی نمائندگی کیلئے روسٹرم پر آئے اور کہا کہ سیاست اپنی جگہ مگر سب اکٹھے اچھے لگتے ہیں، بی این پی مینگل کے لوگ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، قیادت دبئی میں ہے اور ہم ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرت ہوں۔
پی پی رہنما قمرالزمان کائرہ نے کہا کہ کوشش تھی اس ہیجان کوختم کیا جائے، پہلے ہم نے اپنی پارٹی اور پھراتحادیوں سےمشاورت کی۔ جب جب تلخیاں بڑھیں،اس کے نقصانات نکلے اور مسئلہ پھر بھی مذکرات سے حل ہوا۔ ہم نے اس عمل کا آغازپہلے سے شروع کیا ہے اور گزشتہ حکومت میں بھی قومی اشوزپر ساتھ چلے۔
مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے پیش ہونے کا حکم دیا تھا، ہمارا مؤقف ہے کہ ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہئے، ایک روز انتخابات بہت سے اختلافات کو ختم کردے گا، ایک دن انتخابات کی مکمل حمایت کرتے ہیں ، آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے، اگر سیاسی جماعتیں فیصلہ کریں گی تو پھر سب کیلئے بہتر ہوگا۔
ایم کیوایم کے رہنما صابر قائم خانی نے کہا کہ مسائل کا حل بات چیت سے نکالاجائے، ملک میں انتخابات ایک دن ہوں تو بہتر ہوگا۔
پی ٹی آٸی رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آٸے اور عدالت کو پارٹی مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی، آئین 90 روز میں انتخابات کرانے سے متعلق واضح ہے، کسی کی خواہش کا نہیں، آئین کا تابع ہوں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق فیصلہ دیا، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم تلخی کی بجائے آگے بڑھنے کیلئے آئے ہیں، سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے، آئینی اور جمہوری رستہ انتخابات ہی ہیں، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہئیں۔
شاہ محمود نے مزید کہا کہ ن لیگ نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کردیں، ہمیں کہا گیا قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی، اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا، حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے، ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے، مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہوسکتے، عدالت نے زمینی حقائق کےمطابق 14مئی کی تاریخ دی، مذاکرات توکئی ماہ اورسال چل سکتے ہیں، کشمیر اور فلسطین کے مسائل نسلوں سے زیربحث ہیں، حکومت کا یہ تاخیری حربہ تو نہیں ہے، اعتماد کا فقدان ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالتی حکم پر پہلے بھی فنڈز ریلیزنہیں کئے گئے، پارلیمنٹ کی قرارداد آئین سے بالاتر نہیں ہوسکتی، مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے، انتشار چاہتے ہیں نہ ہی آئین کا انکار۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق دوبارہ روسٹرم پر آ ئے اور کہا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے توسوال جواب کریں گے، عدلیہ اور ملک کیلئے جیلیں کاٹیں اور ماریں کھائی ہیں، آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں۔
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں ہونا چاہئے، ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے، مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے، آئین بنانے والے اس کے محافظ ہیں، آئین سے باہر جانے والوں کے سامنےکھڑے ہیں، سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔
سابق وفاقی وزیر شیخ رشید روسٹرم پر آئے اور کہا کہ قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے، عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا، یہ نا ہو مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عیدیں اکٹھی ہو جائیں، سیاستدان مذاکرات کی مخالفت نہیں ہوتے، لیکن مذاکرات با معنی ہونے چاہئیں، ایک قابل احترام شخصیت نے آج بائیکاٹ کیا ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق روسٹرم پرآئے اور کہا کہ قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، کل پاک افغان بارڈر پر تھا، رات سفر کرکےعدالت پہنچا ہوں، تلاوت قرآن پاک سے کارروائی آغاز کرنے پر مشکور ہوں، اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہو جائے تو اللہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں، اللہ کا حکم ہے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے، دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کئےگئے تو احتجاج شروع ہوگیا، اس وقت بھی سعودی اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی لڑائی پر مارشل لاء لگا، آج ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے، لیکن آج امریکا، ایران اور سعودیہ پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے، سیاستدانوں نے خود اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے، نیلسن منڈیلا کے ساتھ 30 سال لڑائی کے بعد آخر مذاکرات کئے گئے، نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان جہموری جدوجہد کے نتیجے میں بنا، آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا، خیبرپختونخوامیں کسی نے استعفا دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہے، خیبرپختونخوا نے خلاف روایت دوسری بار بھی پی ٹی آئی کوووٹ دیا، ہم پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور نہ ہی پی ڈی ایم کے ساتھ، دونوں سیاسی جماعتوں سے اخلاص کےساتھ بات کی۔
امیر جماعت اسلامی نے بڑی عید کے بعد انتخابات کرانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کہ کہنے پر بات تو نہیں کی، میں تو چاہتا ہوں کہ سب اداروں کو آزاد رہنا ہوگا، اس مسئلے کا حل ہے سب اپنی ریڈ لائن سے پیچھے ہٹ جائیں۔
بینچ نے تمام جماعتوں کا مؤقف سننے کے بعد سیاسی جماعتوں کوآج ہی مذاکرات کی ہدایت کردی، اور سماعت میں 4 بجے تک وقفہ کر دیا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس د یئے کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970اور71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے، سراج الحق، ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے مذاکرات کی کوشش کی ہے، پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، ان کیمرہ بریفنگ دی گئی،عدالت فیصلہ دے چکی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی، یادرکھنا چاہئےکہ عدالتی فیصلہ موجود ہے، یقین ہے کہ کوئی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہوسکتی، دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہوگی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج ہی بیٹھیں، بڑی عید جولائی میں ہوگی، اس کے بعد الیکشن ہوسکتے ہیں، عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔
سپریم کورٹ میں انتخابات ایک دن کرانے کے مقدمے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے ممبر جسٹس منیب اختر کراچی روانہ ہوگئے۔
جسٹس منیب اختر کی چار بجے فلائیٹ شیڈول تھی۔
دوسری جانب اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک نے چیف جسٹس چیمبر میں ملاقات کی، دوران ملاقات چیف جسٹس کے چیمبر میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے۔
سپریم کورٹ نے ملک بھر میں انتخابات ایک دن کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل اور حکومت سے مذاکرات پر پیشرفت رپورٹ 27 اپریل کو طلب کرلی۔
ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کیلئے دائر درخواست سمیت پنجاب اور کے پی میں انتخابات کیلئے فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق سماعت کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ عدالتی سماعت میں وقفے کے دوران فاروق نائیک اور اٹارنی جنرل نے ججز سے چیمبر میں ملاقات کی اور ججز کو بتایا گیا کہ سیاسی قائدین عید منانے کیلئے جاچکے ہیں۔
حکم نامے کے مطابق عدالت کو تحریک انصاف کے سینٸر رہنما سے ابتدائی رابطے سے بھی آگاہ کیا گیا جبکہ یہ بھی بتایا گیا کہ حکومتی اتحاد کا پارٹی سربراہ اجلاس26 اپریل کو ہوگا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نے ایک ساتھ انتخابات پر مثبت گفتگو کی، سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں پیش ہوکر اس عزم کو دہرایا کہ آئین سپریم ہے۔ اگر سیاستدانوں کے مابین تمام اختلافات پر مذاکراتی عمل شروع ہوا ہے تو اس پر کافی وقت خرچ ہونے کا امکان ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ سیاستدانوں کے آپس کے تمام اختلافات پر مذاکرات کا اصل فورم سیاسی ادارے ہیں۔ عدالت کو ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات کے لیے مذاکراتی عمل پر کوئی اعتراض نہیں۔ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کا انعقاد قانونی اور آئینی سوال ہے۔ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلہ برقرار ہے۔ تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی پابند ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ 26 اپریل کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اجلاس ہوگا، اور 27 اپریل تک پیشرفت رپورٹ جمع کروائی جائے گی۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی سماعت کے بعد تحریری حکمنامہ جاری کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو نمائندوں کے ذریعے کیس کا حصہ بننے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کے معاملے پر مذاکرات کی حامی ہیں اورانتخابات کی تاریخ پر مل بیٹھ کر اتفاق رائے ممکن ہے۔
گزشتہ روزسماعت میں الیکشن کمیشن کو فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ کو بھی ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 27 اپریل تک پنجاب میں انتخابات کے لئے 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے احکامات کا مقصد آئین میں دی گئی پابندی پر عملدرآمد کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی یا نافرمانی کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے، سیاسی جماعتیں ایک نکتے پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ سیاسی مذاکرات میں اتفاق ہوا تو ٹھیک ورنہ ہم 14 مئی کا حکم دے چکے ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے سردار کاشف کی درخواست پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو نوٹس جاری کیے تھے۔عدالت نے الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کو بھی نوٹس جاری کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے وزیراعظم شہبازشریف، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، سابق صدر آصف زرداری ،سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، خالد مقبول صدیقی، اسفندیار ولی، چوہدری شجاعت حسین اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو آج طلب کررکھا ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف کی صدارت میں حکمراں جماعتوں کے اہم مشاورتی اجلاس میں ملک میں ایک ہی دن انتخابات پر مشاورت کے لئے عید کے بعد حکمراں جماعتوں کا سربراہی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔
اسلام آباد میں وزیراعظم کی صدارت میں حکمراں جماعتوں کا اہم مشاورتی اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا، اجلاس میں ملکی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اس کے علاوہ آئینی و قانونی امور پر مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت بھی کی گئی جبکہ نگراں حکومتوں کے تحت ملک میں ایک ہی دن عام انتخابات کے مؤقف پر بھی مشاورت ہوئی۔
اعلامیے کے مطابق عید الفطر کے بعد حکمران جماعتوں کا سربراہی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود تمام جماعتوں کے ساتھ قومی عمل کو اگلے مرحلے میں لے جائے، اتحادی جماعتوں میں الیکشن کے انعقاد سے متعلق مشاورت اورمذاکرات کا عمل جاری رکھا جائے۔
اس کے علاوہ بلاول بھٹوزرداری اورمولانا فضل الرحمان سے ملاقات بھی اس سلسلے کی کڑی ہے، سیاسی جماعتیں انتخابات کے انعقاد پر کامل یقین رکھتی ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کے دروازے کبھی بھی بند نہیں کیے جاتے ہیں، آزادانہ، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنانا بنیادی آئینی تقاضا ہے۔
اجلاس نے عزم کا اعادہ کیا کہ انتخابات کے وہ تمام لوازمات یقینی بنائے جائیں، جن کے نتیجے میں انتخابات کے نتائج سب جماعتوں کو قابل قبول ہوں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کے لئے پی ٹی آئی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کردیا گیا جبکہ امیدوار کی فہرستیں آج نیوز کو موصول ہوگئی۔
صوبائی اسمبلی کی 27 نسشتوں پر امیداروں کی فہرست جاری کردی گئی۔
میاں محمود الرشید پی پی 168، میاں اسلم اقبال پی پی 171 اور اعظم خان نیازی پی پی 172 سے الیکشن لڑیں گے۔
دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹویٹ میں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کی تمام 297 نشستوں پر ٹکٹ جاری کر دیے ہیں، اس کے ساتھ پنجاب کے چاروں ریجن میں اپیل کمیٹیاں بھی بنا دی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹکٹ پر نظرثانی کے لئے اپیل دائر کی جا سکتی ہے، تمام اپیلوں پر حتمی فیصلہ عمران خان خود کریں گے۔
سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویرالیاس چوہدری انوار الحق کی وزارت عظمیٰ کے لئے نامزدگی پر برہم ہوگئے۔
چوہدری انوار الحق کے بلا مقابلہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ چوہدری انوارالحق ہمارے نامزد امیدوار نہیں، انہوں نے عمران خان کو دھوکا دیا۔
مزید پڑھیں: چوہدری انوارالحق بلا مقابلہ وزیراعظم آزاد کشمیر منتخب
سردار تنویر الیاس نے مزید کہا کہ انوارالحق یہ تاثر دیتے رہے کہ پارٹی بچانا چاہتا ہوں، انوارالحق نے کہا فاروڈ بلاک لا رہا ہوں حمایت کریں۔
سابق وزیراعظم آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے وزیراعظم آزاد کشمیر کے لئے کوئی نام تجویز نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: عدلیہ کے خلاف بیان پر وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس نااہل قرار
یاد رہے کہ چوہدری انوار الحق آزاد کشمیر کے بلا مقابلہ وزیر اعظم منتخب ہوگئے، انہیں 52 کے ایوان میں 48 ووٹ ملے جس کے بعد انہوں نے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کی تاریخ کا سب بڑا مینڈیٹ حا صل کرلیا۔
واضح رہے کہ آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ہوا، کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے رات 12 بجکر 40 منٹ سے 12 بجکر 55 منٹ کا وقت دیا گیا۔
مزید پڑھیں: نئے قائد ایوان کا انتخاب: آزاد کشمیر اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اجلاس ملتوی کرکے فرار
سیکرٹری اسمبلی آزاد کشمیر کے مطابق حکومت کی جانب سے کسی کے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے گئے جس کے بعد اسپیکر انورالحق کو بلامقابلہ وزیراعظم منتخب کیا گیا لیکن سیکرٹری اسمبلی کا کہنا تھا کہ بلا مقابلہ انتخاب کے بعد بھی ووٹنگ کا عمل ہوگا۔
آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کا ہنگامی اجلاس کچھ دیر کے لیے ملتوی کیا گیا تاہم کچھ دیر کے بعد ووٹنگ کے عمل کے لیے اجلاس ڈپٹی اسپیکر چوہدری ریاض کی صدارت میں شروع ہوا، ووٹنگ میں 52 کے ایوان میں چوہدری انوارالحق کی حمایت میں 48 ووٹ پڑے۔
نومنتخب وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے حلف اٹھالیا۔
چوہدری انوارالحق بلا مقابلہ وزیراعظم آزاد کشمیر منتخب ہوئے، انوار الحق نے باون کے ایوان میں اڑتالیس ووٹ حاصل کیے۔
نومنتخب وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے حلف اٹھالیا، صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے ان سے حلف لیا۔
تقریب حلف برداری نئے وزیراعظم ہاؤس کی عمارت میں منعقد ہوئی، جس میں پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان اور ممبران شریک ہوئے، تقریب میں نومنتخب وزیراعظم چوہدری انوار کی فیملی بھی موجود تھی۔
اس سے قبل آزاد کشمیراسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب نہ ہوسکا، ڈپٹی اسپیکرآزادکشمیر نے اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا تھا۔ جس کے ساتھ ہی نومنتخب وزیراعظم کے حلف سے قبل نئے اتحاد میں دراڑیں پڑنے کی خبر بھی سامنے آئی تھی۔
واضح رہے کہ نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ہوا، کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے رات 12 بجکر 40 منٹ سے 12 بجکر 55 منٹ کا وقت دیا گیا۔
مزید پڑھیں: چوہدری انوار الحق کی وزارت عظمیٰ کیلئے نامزدگی پر سابق وزیراعظم آزاد کشمیر برہم
سیکرٹری اسمبلی آزاد کشمیر کے مطابق حکومت کی جانب سے کسی کے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے گئے جس کے بعد اسپیکر انورالحق کو بلامقابلہ وزیراعظم منتخب کیا گیا۔
سیکرٹری اسمبلی آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ بلا مقابلہ انتخاب کے بعد بھی ووٹنگ کا عمل ہوگا۔
مزید پڑھیں: نئے قائد ایوان کا انتخاب: آزاد کشمیر اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اجلاس ملتوی کرکے فرار
آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کا ہنگامی اجلاس کچھ دیر کے لئے ملتوی کیا گیا تاہم کچھ دیر کے بعد ووٹنگ کے عمل کے لئے اجلاس ڈپٹی اسپیکر چوہدری ریاض کی صدارت میں شروع ہوا۔
قانون ساز اسمبلی میں نئے قائد ایوان کے لئے ووٹنگ کرائی گئی، چوہدری انوارالحق نے 52 میں سے 48 ووٹ حاصل کیے، وہ آزاد کشمیر کے 15ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔
انوارالحق کو متحدہ اپوزیشن اور پی ٹی آئی فارورڈ بلاک کے ممبران نے بھی ووٹ ڈالے۔
مزید پڑھیں: سردار تنویر الیاس کی وزارت عظمی کے عہدے پر فوری بحالی کی درخواست مسترد
پی ٹی آئی کے 2 ارکان نے وزیراعظم آزاد کشمیر کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا جبکہ جموں کشمیر پیپلزپارٹی کے سردار حسن ابراہیم اور مسلم کانفرنس کے سردار عتیق بھی ووٹنگ کے عمل میں شریک نہیں ہوئے۔
انوار الحق نے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کی تاریخ کا سب بڑا مینڈیٹ حا صل کیا۔
ذرائع کے مطابق انوار الحق نے اپوزیشن جماعتوں سے پاور شیئرنگ فارمولا طے کرلیا جبکہ صدر آزاد کشمیر بیر سٹرسلطان محمود کے مواخذے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا، اس کے علاوہ آئندہ صدر اور اسپیکر کا فیصلہ بھی طے پا چکا۔
مزید پڑھیں: عدلیہ کے خلاف بیان پر وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس نااہل قرار
چوہدری انوارالحق کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع بھمبر سے ہے، وہ 2006 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پہلی بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے، انوارالحق 2 باراسپیکرآزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی رہ چکے ہیں۔
چوہدری انوارالحق آج صبح ساڑھے 11 بجے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود نومنتخب وزیراعظم سے حلف لیں گے ۔
دوسری جانب آزادکشمیر کے نومنتخب وزیراعظم انوارالحق نے ایوان سے خطاب میں کہا کہ مجھے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی نے ووٹ دیا ہے، آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا ہے، کون اپوزیشن میں ہوگا اورکون حکومت میں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
انوارالحق کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اور ہماری مخلوط حکومت نہیں بنے گی اس بات سے انکار نہیں کروں گا، قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی تو اقتدار میں رہنے کا کوئی شوق نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرہماری پارٹی اقتدار میں آنے کے قابل ہوتی تو میں وزیراعظم نہ ہوتا۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں آزادکشمیر ہائیکورٹ نے وزیر اعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت میں سزا سنائی تھی۔
عدالت نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو عدالت برخاست ہونے تک سزا سنائی اور انہیں کسی بھی عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔