دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ واپس لیا جائے، اپوزیشن کے احتجاج اور شور شرابے میں صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب
پارلیمانی سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج اورشورشرابےمیں صدرمملکت نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ یکطرفہ حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کرسکتا۔ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں۔ ذاتی و سیاسی مفاد کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد مقدم رکھیں۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی شروع ہوا۔ ایجنڈے کے مطابق صدر مملکت کے خطاب کے سوا کوئی اور کارروائی اجلاس میں شامل نہیں تھی۔
اجلاس کا باقاعدہ آغاز قومی ترانے کے بعد تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی گئی، جس کے بعد مشترکہ اجلاس شروع ہوتے ہی پی ٹی آئی اراکین کی بھی ایوان میں آمد ہوئی، پی ٹی آئی اراکین نے ایوان میں آتے ہی نعرے بازی کی اور ایوان میں پلے کارڈ بھی ایوان میں لے آئے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے صدر آصف علی زرداری کو خطاب کی دعوت دی تو اپوزیشن نے شدید نعرے بازی اور شور شرابہ شروع کر دیا، پی ٹی آئی ارکان نے ڈیسک بجاکر احتجاج شروع کیا جبکہ شدید نعرے بازی کے باعث صدر نے کانوں پر ہیڈ فون لگالیے۔
وزیر شہباز شریف نے بھی ہیڈ فون لگا لیے جبکہ صدر مملکت تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب دیکھ کر مسکراتے رہے۔ احتجاج کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب مکے مار مار کر ڈیسک بجاتے رہے، پی ٹی آئی کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حق میں نعرے بازی ہوتی رہی۔
صدر مملکت کا خطاب
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ پارلیمانی سال کے آغاز پر اس ایوان سے بطور سویلین صدر 8 ویں بار خطاب کرنا میرا واحد اعزاز ہے، یہ لمحہ ہمارے جمہوری سفر کے تسلسل کا عکاس ہے اور نیا پارلیمانی سال اپنی پیشرفت کا جائزہ لینے اور پاکستان کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے عزم کا اعادہ کرنے کا موقع ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بہتر طرز حکمرانی، سیاسی اور اقتصادی استحکام کے فروغ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ عوام نے اپنی امیدیں پارلیمنٹ سے وابستہ کر رکھی ہیں، اور ہمیں ان کی توقعات پر پورا اترنا ہوگا۔ جمہوری نظام کو مضبوط کرنے اور قانون کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔
آصف زرداری نے کہا کہ ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے حکومت کی معاشی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ تاریخی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے جبکہ پالیسی ریٹ کو 22 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد کر دیا گیا ہے۔
صدر زرداری کے خطاب میں کوئی خاص بات نہیں تھی، عمرایوب
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور گورننس کے نظام کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ انہوں نے وزارتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے وژن اور مقاصد کا ازسر نو تعین کریں اور عوام کو درپیش مسائل کو ایک مقررہ مدت میں حل کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائیں۔
صدر آصف زرداری نے زور دیا کہ ملک میں معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ سماجی اور اقتصادی انصاف کے فروغ کے ساتھ نظام میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ ترقی کے ثمرات تمام صوبوں اور شہریوں تک یکساں پہنچنے چاہئیں۔ انہوں نے پسماندہ علاقوں پر خصوصی توجہ دینے اور انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت اور معاشی مواقع میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔
ٹیکس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ ہمیں اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہوگا تاکہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ پاکستان کو اپنی برآمدات میں تنوع لانا ہوگا اور آئی ٹی انڈسٹری کو معاشی ترقی کا کلیدی عنصر بنانا ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے پائیدار سپورٹ کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نوجوانوں کے کاروباری مواقع بڑھانے اور انہیں مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ عوام بالخصوص مزدور اور تنخواہ دار طبقہ شدید معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے حکومت کو آئندہ بجٹ میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرنے، تنخواہوں اور پنشن میں اضافے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے کی سفارش کی۔
آصف زرداری نے خواتین کی نمائندگی بڑھانے اور انہیں مالی طور پر خودمختار بنانے پر زور دیا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رسائی کو بڑھانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ تعلیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تمام بچوں کو اسکولوں میں لانے اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق کو فروغ دینے کے لیے بجٹ میں مزید وسائل مختص کیے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا فیصلہ واپس لیا جائے، یکطرفہ حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کرسکتا۔ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں۔ ذاتی و سیاسی مفاد کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد مقدم رکھیں۔ صدرمملکت نے ملک میں بنیادی صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے اور غذائی قلت و پولیو جیسے چیلنجز سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر آصف زرداری نے کہا کہ سی پیک اور گوادر پورٹ ہمارے اقتصادی مستقبل کے لیے کلیدی منصوبے ہیں اور انہیں مکمل طور پر فعال بنایا جانا چاہیے۔ زراعت اور پانی کے شعبے میں اصلاحات اور ماہی گیری و مویشی بانی کے فروغ کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر مملکت نے مزید کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے، لہذا ہمیں قابل تجدید توانائی، کاربن کریڈٹ اور ماحول دوست پالیسیوں کو اپنانا ہوگا۔
سیکیورٹی کے حوالے سے آصف زرداری نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار بڑھانے اور دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائیوں کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان علاقائی امن، استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے پرعزم ہے اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے گا۔
صدر مملکت آصف زرداری نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا اور کہا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کا نوٹس لے۔
اپوزیشن کے رویے سے لگتا ہے کہ انہیں عوامی مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں، بلاول بھٹو
قبل ازیں، وزیراعظم اور صدر زرداری کے درمیان چیمبر میں ملاقات بھی ہوئی۔ ملاقات میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت لیے وزیراعظم شہباز شریف، مسلح افواج کے سربراہان کے علاوہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو، پرویز خٹک، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز، وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔
اراکین پارلیمنٹ میں خورشید شاہ، عبدالقادر پٹیل، شیری رحمان ،فاروق ایچ نائیک، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، شرمیلا فاروقی، سحر کامران، سید نوید قمر، آغا رفیع اللہ، شیری رحمان، طاہرہ اورنگزیب، فاطمہ زہرا، نور عالم خان، حنیف عباسی، شہلا رضا، سلیم مانڈوی، امیر مقام، راجہ پرویز اشرف، رمیش لال، انوار الحق کاکڑ، مصدق ملک موجود تھے۔
غیر ملکی سفراء کے بڑی تعداد بھی مہمان گیلری میں موجود تھے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
پرویز خٹک غلطی سے اپوزیشن بنچز کے طرف چلے گئے پھر یاد آنے پر واپس آئے اور وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم سے مصافحہ کیا۔
صدر آصف علی زرداری کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ریکارڈ آٹھواں خطاب
16ویں قومی اسمبلی کی تشکیل کے بعد صدر آصف علی زرداری کا پارلیمنٹ سے دوسرا خطاب جبکہ مشترکہ اجلاس سے یہ ریکارڈ آٹھواں خطاب ہے۔
صدر مملکت نے عام انتخابات کے بعد گزشتہ برس 18 اپریل کو پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا۔ 2008 سے 2013 تک ایوان صدر میں اپنے 5 سالہ دور کے دوران وہ پہلے ہی 6 بار پارلیمنٹ سے خطاب کر چکے ہیں۔
موجودہ قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال مکمل ہوگیا ہے اور نیا پارلیمانی سال صدر مملکت کے خطاب سے شروع ہوتا ہے۔
بعدازاں اسپیکرنے مشترکہ اجلاس غیرمعینہ مدت تک کے لئے ملتوی کردیا۔ اپوزیشن اس دوران احتجاج میں مصروف رہی۔ صدرآصف زرداری کا مشترکہ اجلاس سے خطاب 32 منٹ تک جاری رہا۔
Comments are closed on this story.