Aaj News

ہفتہ, مئ 03, 2025  
05 Dhul-Qadah 1446  

ارب پتی ایلون مسک دفتر کے فرش پر کیوں سوتے ہیں؟

ایلون مسک ہفتے میں کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں اور انکا بسیرا آفس میں ہی کیوں رہتا ہے
شائع 28 فروری 2025 11:52am

ایلون مسک نیند کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، ویک اینڈ کی چھٹیوں سے نفرت کرتے ہیں، اور روزانہ 16 گھنٹے کام کرنے کو ’دنیا بدلنے‘ کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں۔

ایلون مسک دفتر کے فرش پر کیوں سوتے ہیں؟

شاید اس لئے کہ ان کے نزدیک شدید محنت ہی کامیابی اور اسکے بعد حکمرانی انکا حق ہے۔ مسک کے مطابق، ہفتےمیں کم از کم 80 سے 100 گھنٹے کام کرنا ضروری ہے، ہفتے کے اختتام پر کام کرنا ایک ’سپر پاور‘ ہے، کیونکہ اس دوران ان کے حریف آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ نظریہ نہ صرف ان کی کمپنیوں میں بلکہ امریکی کاروباری ثقافت میں بھی گہرائی سے سرایت کر چکا ہے، جہاں کام کی زیادتی کو کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

کامیابی اور انتھک محنت کا رشتہ

امریکی کاروباری دنیا میں یہ تصور عام ہے کہ کامیابی صرف وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو اپنی ذات کو مکمل طور پر کام کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔

’ویمپائرز حقیقی ہیں‘، ایلون مسک کے نئے بیان نے ہلچل مچا دی

جیف بیزوس، ایپل کے سی ای او ٹم کک، اور دیگر کئی بزنس ٹائیکونز اپنی روزمرہ کی معمولات میں غیر معمولی محنت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایلون مسک کے لیے، کسی بھی کمپنی کو خریدنے کے بعد وہاں کی ورک فورس کو کم کرنا اور سخت ترین محنت کا کلچر متعارف کروانا معمول کی بات بن چکا ہے۔

ٹوئٹر کی خریداری کے بعد، انہوں نے نصف ملازمین کو برطرف کر دیا اور باقی کو’انتہائی سخت محنت’ کے اصول پرعمل کرنے کا حکم دیا، جس کے نتیجے میں کئی افراد نے خود ہی استعفیٰ دے دیا۔

نظریہ کوئی بھی ہو کچھ مخالفتوں کا سامنا رہتا ہی ہے

مسک کی کام کی پالیسی یا نظریے پر بھی تضادِ رائے موجود ہے اور کچھ لوگ انکے دن رات کام کے نظریے سے اختلاف رکھتے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ اکرچہ ظاہری طور پر 12 یا 16 گھنٹے کام کرنے سے زیادہ پیداواری صلاحیت کا تاثر ملتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مسلسل نیند کی کمی، فاسٹ فوڈ اور انرجی ڈرنکس پر گزارا کرنے والے ملازمین بڑی غلطیاں کرتے ہیں۔ یہی کچھ ایلون مسک کے ماتحت کام کرنے والے حکومتی ادارے میں بھی ہو رہا ہے، جہاں ’کارکردگی میں اضافے‘ کے نام پر کیے جانے والے فیصلے الٹا مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

کیا کوئی ایلون مسک سے ناخوش ہے؟ کابینہ اجلاس کے اراکین سے ٹرمپ کا سوال

مثال کے طور پر، ایلون مسک کی ٹیم نے ایک ایسی ویب سائٹ لانچ کی جو حکومتی بچت کو ظاہرکرنے کے لیے بنائی گئی تھی، لیکن اس میں بنیادی حسابی غلطیاں پائی گئیں۔ اسی طرح، جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر مامور سینکڑوں کارکنان کو نوکری سے نکال کر دوبارہ بھرتی کرنے کی کوشش کی گئی۔

ایلون مسک کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی کامیابی کا بڑا حصہ برانڈنگ اور پیروکاروں کے اندھے اعتماد پر مبنی ہے۔

ان کی کمپنی ٹیسلا کے بارے میں رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس کی گاڑیاں کئی بار آگ پکڑچکی ہیں، لیکن اس کے باوجود، مداحوں کی دیوانگی انہیں مارکیٹ میں قائم رکھتی ہے۔ ٹوئٹر کی تباہی، غلط فیصلے، اور متنازعہ پالیسیوں کے باوجود، مسک کی شہرت انہیں مسلسل آگے بڑھنے میں مدد دے رہی ہے۔

کاروباری کلچر بمقابلہ جمہوری نظام

مشہور سرمایہ کار پیٹر تھیل کے مطابق، ’ایک سٹارٹ اپ درحقیقت بادشاہت کی طرح چلایا جاتا ہے۔‘ شاید یہی وجہ ہے کہ ایلون مسک جیسے بزنس لیڈرز کے زیرِ اثر، امریکی حکومت بھی ایک ’کاروبار‘ کی طرح چلائی جا رہی ہے، جہاں اصل مقصد عوامی فلاح کے بجائے چند افراد کی برتری کو قائم رکھنا ہے۔

ایلون مسک کا ’یو ایس ایڈ‘ کے خلاف اعلان جنگ، مجرمانہ تنظیم قرار دے دیا

کیا یہ ماڈل پائیدار ہے؟

یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا ایلون مسک کی بے تحاشہ محنت کا ماڈل واقعی کامیابی کی ضمانت ہے یا محض ایک سراب۔ مسلسل کام کرنے کے باوجود، ان کی ٹیم کے فیصلے غلط ثابت ہو رہے ہیں، اور ان کے نظریات پر شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔

ایک بہتر نظام وہی ہوگا جہاں کام اور زندگی کے درمیان توازن ہو، نہ کہ ایک ایسی دنیا جہاں صرف چند ’محنت کش بادشاہ‘ حکمرانی کریں اور باقی سب ان کی مشینری کا حصہ بن جائیں۔

Elon Musk

Artificial Intelligence

America

USA

Musk Sleeping at Office

Hardwork