Aaj News

جمعہ, مارچ 28, 2025  
27 Ramadan 1446  

کبھی مریخ پر بھی زمین کی طرح خوبصورت ساحل سمندر تھے

یہ ایک سادہ مگر حیرت انگیز دریافت ہے، کیونکہ ساحل کی موجودگی کا مطلب سمندر کی لہریں، جوار بھاٹا، اور پانی کا تلچھٹ ہے
شائع 25 فروری 2025 03:57pm

مریخ ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہا ہے۔ سرخ سیارے کی سنسان وادیوں اور مٹی سے ڈھکی ہوئی سطح کو دیکھ کر شاید کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ یہاں کبھی نیلے پانیوں سے بھرا سمندر لہراتا ہوگا۔ لیکن حالیہ سائنسی تحقیق نے اس نظریے کو مزید تقویت دی ہے کہ ماضی میں مریخ پر پانی موجود تھا، بلکہ ممکن ہے کہ وہاں ریتیلے ساحلوں والا ایک وسیع سمندر بھی موجود رہا ہو۔

سائنسی شواہد کیا کہتے ہیں؟

ناسا اور دیگر خلائی تحقیقاتی اداروں کی جانب سے بھیجے گئے روورز اور سیٹلائٹس نے مریخ کی سطح پر ایسے نشانات دریافت کیے ہیں جو لاکھوں سال پہلے سمندر کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مریخ کی سطح پر پانی کے کٹاؤ کے نشانات، ساحلی کناروں جیسی ساختیں، اور بعض معدنیات کی دریافت نے ثابت کیا ہے کہ یہاں کبھی پانی کا وسیع ذخیرہ موجود تھا۔

انسانی خون میں موجود کیمیکل سے مریخ پر موجود ممکنہ خلائی مخلوق کو باہر نکلنے پر مجبور کرنے کا منصوبہ

اب ”پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز“ میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں مریخ کے ’یوٹوپیا پلانیشیا‘ نامی علاقے میں دفن شدہ ساحلوں کے آثار دریافت کیے گئے ہیں۔

ژورونگ روور کے حیرت انگیز مشاہدات اورمریخ کے سمندر کا حجم اور گہرائی

ژورونگ روور نے زمین کے اندر جھانکنے والے ریڈار کی مدد سے مریخ کی سطح کے نیچے چھپے ہوئے پرت در پرت نشانات کو دیکھا۔ ان نشانات کی بناوٹ اور زاویہ حیرت انگیز طور پر زمین پر پائے جانے والے ساحلوں سے مشابہ ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں کبھی پانی کی لہریں کنارے سے ٹکرا کر واپس جاتی تھیں اور ساحل آہستہ آہستہ سمندر کی طرف بڑھتا رہا۔

ماہرین کے مطابق تقریباً 3.5 ارب سال پہلے مریخ پر ایک بہت بڑا سمندر موجود تھا جو ممکنہ طور پر شمالی نصف کرے میں پھیلا ہوا تھا۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ سمندر زمین کے بحرِ اوقیانوس کے برابر حجم رکھتا تھا۔ اس کی گہرائی مختلف مقامات پر کئی سو میٹر تک ہو سکتی تھی، جبکہ ساحلی علاقوں میں ریتیلے کنارے بھی موجود رہے ہوں گے، بالکل ویسے ہی جیسے زمین کے ساحلوں پر نظر آتے ہیں۔

پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہر ارضیات ڈاکٹر بینجمن کارڈیناس کے مطابق، مریخ کے اس ساحل نے کم از کم 1.3 کلومیٹر تک سمندر میں توسیع کی۔ یہ ایک سادہ مگر حیرت انگیز دریافت ہے، کیونکہ ساحل کی موجودگی کا مطلب ہے کہ وہاں کبھی سمندر کی لہریں، جوار بھاٹا، اور پانی میں بہہ کر آنے والی تلچھٹ موجود تھی۔ یہ تمام عوامل کسی سمندری ماحول کی واضح نشانیاں ہیں۔

ایلون مسک نے مریخ پر 295 فٹ پُراسرار ستون پر تحقیقاتی مشن کا حکم دے دیا

پانی کہاں گیا؟

اگر مریخ پر اتنا وسیع سمندر موجود تھا، تو وہ کہاں چلا گیا؟ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مریخ کے کمزور مقناطیسی میدان کی وجہ سے اس کا کرۂ ہوائی آہستہ آہستہ خلا میں تحلیل ہو گیا، جس کے نتیجے میں پانی بھی بخارات بن کر خلا میں اڑ گیا یا پھر برف کی صورت میں سطح کے نیچے قید ہو گیا۔

کیا مریخ پر زندگی بھی موجود رہی ہوگی؟

یہ سوال سب سے زیادہ دلچسپی کا حامل ہے۔ جہاں پانی ہوتا ہے، وہاں زندگی کے آثار بھی ممکن ہوتے ہیں۔ اگر مریخ پر واقعی کبھی سمندر موجود تھا، تو امکان ہے کہ اس میں ابتدائی زندگی بھی رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مریخ پر بھیجے گئے روورز خاص طور پر ایسے علاقوں کا جائزہ لے رہے ہیں جہاں پانی موجود ہونے کے شواہد ملے ہیں، تاکہ وہاں زندگی کے ممکنہ آثار تلاش کیے جا سکیں۔

آنے والے سالوں میں مزید مشنز مریخ کی سطح اور اس کے زیرِ زمین پانی کی کھوج کے لیے بھیجے جائیں گے۔ سائنسدانوں کا خواب ہے کہ ایک دن ہم مریخ پر اتریں، وہاں کے ماضی کے دریاؤں اور سمندروں کے راز جانیں۔

چاند اور مریخ بہت قریب آگئے، محسور کردینے والا نظارہ آج مشرقی آسمان پر نظر آئے گا

مریخ کا ماضی آج بھی ایک معمہ ہے، لیکن حالیہ تحقیقات نے اس نظریے کو مضبوط کیا ہے کہ یہ سیارہ کبھی اتنا ویران نہ تھا جتنا آج نظر آتا ہے۔ شاید کسی دور میں اس کے ساحلوں پر لہریں اچھلتی تھیں، ہوائیں ریتیلے کناروں کو چھوتی تھیں، اور کسی نہ کسی شکل میں زندگی یہاں سانس لے رہی تھی۔ مریخ کے اس کھوئے ہوئے سمندر کی کہانی ہماری کائناتی سمجھ میں ایک نیا باب جوڑ رہی ہے، اور یہ ممکن ہے کہ مستقبل میں انسان وہاں جا کر خود ان آثار کو کھوجے جو وقت کی گرد میں چھپ چکے ہیں۔

Mars

Research Says

ocean on Mars