مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان کا ریمانڈ نہ دینے والے اے ٹی سی جج سے انتظامی اختیارات واپس
سندھ ہائیکورٹ نے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے ملزم ارمغان کا ریمانڈ نہ دینے والے انسداد دہشتگردی عدالت کے منتظم جج سے انتظامی اختیارات واپس لینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے محکمہ پراسیکیوشن کی درخواست پر فیصلہ جاری کردیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے مصطفیٰ قتل کیس کے ملزم ارمغان قریشی کا ریمانڈ نہ دینے والے انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج سے انتظامی اختیارات واپس لیتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا۔
عدالت نے قرار دیا اے ٹی سی منتظم جج کا ریمانڈ آرڈر ٹائپنگ میں تھا، جس پر وائٹو لگاکر جیل کسٹڈی کیا گیا۔ ملزم ارمغان کا والد جج کے چیمبر میں بیٹھا رہا۔ تفتیشی افسر نے تمام شواہد پیش کئے۔ منتظم جج کے پاس مختصر ریمانڈ کا مناسب طریقہ موجود تھا۔ تشدد کی شواہد پر بعد میں کاروائی کی جاسکتی تھی۔
جسٹس ظفر راجپوت کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت ہوئی، جس میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ منتظر مہدی نے ریکارڈ ٹمپرنگ کے الزامات پر جج سے اختیارات واپس لینے کی سفارش کی۔
منتظر مہدی نے کہا کہ ایسے جج کو عہدے پر رہنے کا اختیار نہیں ہے۔
جس کے بعد عدالت نے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے اے ٹی سی جج سے انتظامی اختیارات واپس لینے کا حکم دے دیا۔
مصطفیٰ قتل کیس: ساحر حسن کا مزید ریمانڈ مسترد، جیل منتقلی کا حکم
خیال رہے کہ مصطفیٰ قتل کیس میں گرفتار ملزم کو جب گرفتاری کے بعد اے ٹی سی ون میں پیش کیا گیا تو جج نے ملزم کو ریمانڈ پر بھیجنے کے بجائے جیل کسٹڈی کردیا تھا۔ جس پر جج کے خلاف کئی الزامات اور شکایتیں سامنے آئی تھیں۔
اس کے بعد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تو عدالت نے ملزم کو اسی روز اے ٹی سی ٹو میں پیش کرنے کا حکم دیا اور مذکورہ جج کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی۔
حکم نامے کی کاپی قائم مقام چیف جسٹس اور سیکیٹری داخلہ کو بھیجنے کی ہدایت
سندھ ہائیکورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف محکمہ پراسیکیوشن کی درخواست پر فیصلہ جاری کردیا ، عدالت نے منتظم جج کے اختیارات واپس لینے کے لیے حکم نامے کی کاپی قائم مقام چیف جسٹس اور سیکیٹری داخلہ کو بھیجنے کی ہدایت کردی۔
بعد ازاںں، سندھ ہائیکورٹ کے جاری کیے گئے فیصلے میں کہاگیا کہ عدالتی احکامات پر ملزم ارمغان کو سندھ ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا، ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیس کے تفتیشی افسر نے اے ٹی سی منتظم جج کو تمام شواہد پیش کئے۔
منتظم جج نے ملزم کی بدسلوکی کی شکایت پر جسمانی ریمانڈ کو مسترد کیا، ملزم نے عدالت کو بھی پولیس تشدد کی شکایت کی، عدالتی ہدایت پر کمرہ عدالت میں ہی ملزم کی قمیض اتاری گئی، ملزم کے جسم بالائی حصے میں کسی چوٹ کے نشانات نہیں تھے۔
میڈیکل لیگل افسر کی رپورٹ کے مطابق ملزم کے جسم کے نچلے حصے، ماتھے، کان اور گردن پر نشانات تھے، میڈیکل لیگل افسر کی رپورٹ میں اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ وہ نشانات پولیس تشدد کے باعث ہوئے، تفتیشی افسر کے مطابق دس فروری کو دوپہر بارہ بجے منتظم جج کے پاس کسٹڈی پیش کی۔
منتظم جج نے تفتیشی افسر کو تین گھنٹے انتظار کروایا، منتظم جج نے تفتیشی افسر کو ملزم کے میڈیکل معائنے کے زبانی احکامات دئیے ، منتظم جج کے پاس ملزم کے مختصر ریمانڈ کا مناسب طریقے کار موجود تھا، منتظم جج ملزم کے پولیس ریمانڈ کے ساتھ میڈیکل معائنے کا حکم دے سکتے تھے۔
میڈیکل رپورٹ میں تشدد کے شواہد کے بعد قانون کے مطابق تفتیشی افسر کے خلاف کاروائی کی جاسکتی تھی ، مجسٹریٹ اور منتظم ججز کسی بھی بے ضابطگی کی صورت میں ہائیکورٹ کو جواب دہ ہیں، منتظم جج کے احکامات ہاتھ سے نہیں لکھے گئے بلکہ ٹائپ شدہ تھے، منتظم جج نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کا حکم دیا، بعد میں وائٹو لگا کر ریمانڈ کو جوڈیشل کسٹڈی کیا گیا۔
قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ریمانڈ کے وقت ملزم کا باپ منتظم جج کے چیمبر میں موجود رہا، کسی بھی فریق نے جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم بنانے کی درخواست نہیں کی تھی، منتظم جج کے پاس ایسے احکامات جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
عدالتی رائے میں منتظم جج کا پولیس ریمانڈ کی جگہ جوڈیشل ریمانڈ کا فیصلہ غیر قانونی ہے، جے آئی ٹی بنانے کا منتظم جج کا فیصلہ دائرے اختیار سے تجاوز ہے، عدالت نے منتظم جج کے اختیارات واپس لینے کے لئیے حکم نامے کی کاپی قائم مقام چیف جسٹس اور سیکیٹری داخلہ کو بھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ عوامی مفاد اور انصاف کے لئیے منتظم جج کے اختیارات کسی اور عدالت کو دئیے جائیں۔
Comments are closed on this story.