پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: تجارتی تنظیمات ترمیمی بل سمیت 4 قوانین منظور، پی ٹی آئی کا احتجاج
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے تجارتی تنظیمات ترمیمی بل سمیت 4 قوانین منظور کر لیے گئے، پی ٹی آئی اراکین پلے کارڈز کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے اور بھرپور احتجاج کیا۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیراعظم کی ہدایت پر آج پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا تھا۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا آج حکومت نے ایجنڈے میں 8 بل رکھے ہیں، ہم آج کی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مقررہ وقت سے تقریبا ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، وزیراعظم شہباز شریف، میاں نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، وزیر دفاع خواجہ آصف، راجہ پرویز اشرف، شیری رحمان اور دیگر ایوان موجود رہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اجلاس ختم ہونے کے بعد ایوان میں پہنچے، اس کے علاوہ پی ٹی آئی سنی اتحاد کونسل کونسل کے اراکین بھی ایوان میں موجود تھے۔
دوران اجلاس اپوزیشن اراکین نے نکتہ اعتراض پر بولنے کی اجازت مانگی تو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اپوزیشن لیڈر کو مائیک دینے سے انکار کردیا۔
اپوزیشن لیڈر کو بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج شروع کر دیا اور پیکا ایکٹ نامنظور، صحافیوں پہ ظلم کے نعرے لگانا شروع کر دیے اور اپوزیشن نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
اپوزیشن ارکان کے احتجاج کے باعث ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا جبکہ اپوزیشن کے شدید احتجاج اور نعرے بازی کے باعث مشترکہ اجلاس کی کارروائی شدید متاثر ہونے لگی، اسپیکر قومی اسمبلی نے ہیڈ فون لگا لیے۔
تاہم شور شرابے کے باوجود اسپیکر نے ایوان کی کارروائی جاری رکھتے ہوئے ایجنڈے پر موجود حکومتی قانون سازی کا عمل شروع کیا۔
وزیر تجارت جام کمال نے تجارتی تنظیمات ترمیمی بل 2021 اور درآمدات و برآمدات انضباط ترمیمی بل 2023 ایوان میں پیش کیے جنہیں منظور کر لیا گیا۔
سینیٹر منظور کارکڑ نے نیشنل ایکسیلنس انسٹیٹیوٹ بل 2024 ایوان میں پیش کیا جسے منظور کرلیا گیا جبکہ ایوان میں پیش کیے جانے والا قومی ادارہ برائے ٹیکنالوجی بل 2024 بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 12 فروری تک ملتوی کر دیا، اجلاس 18 منٹ تک جاری رہا جبکہ 9 منٹ میں 4 بل کثرت رائے سے منظور کیے گئے۔
مشترکہ اجلاس سے 4 بلز منظور اور 4 مؤخر
مشترکہ اجلاس میں کل 8 بلز پیش کیے جانے تھے جن میں سے 4 منظور کر لیے گئے جبکہ 4 مؤخر کر دیے گئے۔
منظور کیے جانے والے بلز میں تجارتی تنظیمات ترمیمی بل 2021، قومی ادارہ برائے ٹیکنالوجی بل 2023، نیشنل ایکسیلنس انسٹیٹیوٹ بل 2024 اور درآمدات و برآمدات انضباط ترمیمی بل 2023 شامل ہے۔
مؤخر کیے جانے والے بلز میں قومی کمیشن برائے انسانی ترقی ترمیمی بل 2023، این ایف سی ادارہ برائے انجینیرنگ و ٹیکنالوجی ملتان ترمیمی بل 2023، نیشنل اسکلز یونیورسٹی اسلام آباد ترمیمی بل 2023 اور وفاقی اردو یونیورسٹی برائے آرٹس، سائنس و ٹیکنالوجی اسلام آباد ترمیمی بل 2023 شامل ہے۔
ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق مشترکہ اجلاس کے لیے سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے، مہمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
دوسری جانب مشترکہ اجلاس کے باعث سینیٹ کا اجلاس بھی ری شیڈول ہوگیا ہے، سینیٹ کا اجلاس صبح ساڑھے 10 بجے کے بجائے دوپہر ڈھائی بجے ہوگا۔
صدر کی طرف سے پارلیمنٹ کو بغیر توثیق واپس بھجوائے جانے والے بلوں کی تفصیلات
صدر مملکت کی طرف سے پارلیمنٹ کو بغیر توثیق واپس بھجوائے جانے والے بلوں کی تفصیلات آج نیوز نے حاصل کرلیں۔
صدر مملکت کی طرف سے 29 بل واپس بھجوائے گئے، بغیر توثیق کے واپس بھجوائے گئے 21 بل سابقہ صدر ڈاکٹر عارف علوی جبکہ 8 بل صدر مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے ہیں۔
سابق صدرعارف علوی کی طرف سے 10 سرکاری بل بھی واپس بھیجے گئے، ان میں سے چند یا تمام بل بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیر غور آئیں گے، یہ بل دونوں ایوانوں سے منطوری کے بعد توثیق کے لیے ایوان صدر گئے تھے، جہاں سے آئین کے آرٹیکل 75 (1) بی کے تحت واپس بھجوائے گئے، ان میں حکومتی اور نجی بل شامل ہیں۔
کل جو بل زیر غور آسکتے ہیں، ان میں سرکاری بل دی ہائیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل 2023، فیڈرل پبلک سروس کمیشن ترمیمی بل 2023، فیڈرل اردو یونیورسٹی ترمیمی بل 2023، دی ٹریڈ آرگنائزیشن ترمیمی بل 2023، دی این ایف سی انسٹیٹیوٹ آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان، دی نیشنل سکلز یونیورسٹی اسلام آبادد ترمیمی بل 2023، دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ترمیمی بل 2023، دی نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ ترمیمی بل 2023، دی پریس نیوزپیپرز، نیوز ایجنسیز اینڈ بکس رجسٹریشن ترمیمی بل کے علاوہ دی امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کنٹرول ترمیمی بل 2023 شامل ہیں۔
جو نجی بل ان میں شامل ہیں وہ نشہ آور مواد کے کنٹرول کا بل 2022، اسلام آباد لازمی ویکسینیشن و تحفظ ہیلتھ ورکرز بل 2022، دی ریگولیشن آف جنریشن ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹریبیوشن آف الیکٹرک پاور رترمیمی بل 2022، پاکستان کورئیر اینڈ لاجسٹکس ریگولیٹری اتھارٹی بل 2022، اسلام آباد کمیونٹی انٹیگریشن بل 2022، ہوریزن یونیورسٹی بل 2023، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز بل 20023، دی کوڈ آف کریمنل پروسیجر ترمیمی بل 2022، دی کوڈ آف کریمینل پروسیجر ترمیمی بل 2023، دی پروٹیکشن آف فیملی لائف اینڈ ویڈلاک بل 2023، نیشنل یونیورسٹی آف سیکیورٹی سائنسز اسلام آباد بل 2023، نیشنل ایکسیلنس انسٹیٹیوٹ بل 2024، اخوت انسٹیٹیوٹ قصور بل2023، دی نیشنل انسٹیٹیوٍ آف ٹیکنالوجی بل 2023، میٹروپولیٹن انٹرنیشنل انسٹیٹئوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بل 2023، پاکستان انسٹیوٹ آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی بل 2024 اور انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کلچر اینڈ ہیلتھ سائنسز بل 2024 شامل ہیں۔
پارلیمنٹری رپورٹر ایسوسی ایشن سمیت صحافیوں کا پیکا ایکٹ کیخلاف احتجاج
پارلیمنٹری رپورٹر ایسوسی ایشن سمیت صحافیوں نے پیکا ایکٹ کیخلاف آج بھی احتجاج کیا، صحافیوں نے پیکا ایکٹ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
صحافیوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر احتجاج کرتے ہوئے پیکا ایکٹ کو آزادی اظہار رائے پر قدغن قرار دیا، قائد حزب اختلاف عمرایوب سمیت دیگر اپوزیشن اراکین بھی صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے احتجاج میں پہنچے۔
عمر ایوب نے کہا کہ پیکا ایکٹ سے آوازوں کو دبایا جارہا ہے، ڈیجیٹل نیشن بل اور پیکا ایکٹ کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ منظور کیا تھا۔
Comments are closed on this story.