غزہ کے لوگ جنگ بندی پر مسرور، سڑکوں پر جشن
غزہ میں جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہوگیا، لوگوں نے مسرور ہوکر سڑکوں پر جشن منایا، بعض لوگ خوش جبکہ بعض اپنے عزیزوں کی جدائی پر صدمے کا شکار ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی شروع ہونے کے بعد ہزاروں فلسطینی سڑکوں پر نکل آئے جن میں سے بعض جشن منانے کے لیے اور دوسرے اپنے مرحوم رشتہ داروں کی قبروں پر جانے کے لیے باہر نکلے، جبکہ کئی اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔
شہر کی بے گھر خاتون آیا نے بتایا کہ ”مجھے ایسا لگتا ہے کہ 15 ماہ صحرا میں کھو جانے کے بعد آخرِ کار مجھے پینے کے لیے پانی ملا ہو، میں خود کو دوبارہ زندہ محسوس کر رہی ہوں۔“ وہ ایک سال سے وسطی غزہ کی پٹی کے دیر البلح میں پناہ گزین ہیں۔
غزہ میں کئی گھنٹے تاخیر کے بعد جنگ بندی پر عمل در آمد شروع
معاہدے کے نفاذ میں تقریباً تین گھنٹے کی تاخیر کے باوجود ہجوم نے خوشی سے نعرے لگائے اور حماس کے مزاحمت کاروں نے 15 ماہ کے تباہ کن تنازعے کے بعد جنوبی شہر خان یونس کا چکر لگایا۔
اسرائیلی فضائی حملوں سے بچنے کے لیے کئی مہینوں تک نظروں سے اوجھل رہنے کی کوشش کے بعد نیلی وردی میں ملبوس حماس کے پولیس اہلکار بعض علاقوں میں تعینات ہوئے۔
مزاحمت کاروں کے لیے خوشی کا اظہار کرنے کی غرض سے جمع ہونے والے لوگ ”القسام بریگیڈز کو سلام“ کے نعرے بھی لگاتے رہے۔
ایک مزاحمت کار نے حماس کے مسلح ونگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”نیتن یاہو کی موجودگی کے باوجود تمام مزاحمتی گروہ قیام پذیر ہیں۔ یہ ایک جنگ بندی ہے، نیتن یاہو کی موجودگی کے باوجود جنگ دوبارہ نہیں ہو گی۔“
غزہ جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد میں پیشرفت، اسرائیل کو یرغمالیوں کی فہرست موصول
جنگ بندی کا معاہدہ تقریباً تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد نافذ ہوا جس سے شرقِ اوسط میں سیاسی تبدیلی لانے والی جنگ رک گئی اور غزہ کے 2.3 ملین لوگوں کو نئی امید ملی ہے جن میں سے اکثر کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں۔
فلسطینی سول ایمرجنسی سروس نے کہا کہ تاخیر کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہوئے، مقامی وقت 11:15 بجے پر نافذ العمل ہونے کے بعد مزید حملوں کی اطلاع نہیں ملی۔
آیا نے کہاکہ ”اب ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں، جب ہم غزہ شہر میں اپنے گھر واپس جائیں گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے نقصان پہنچا یا نہیں لیکن موت اور فاقوں کا خوفناک دورختم ہو گیا۔“
غزہ شہر سے اپنے خاندان کے ساتھ بے گھر ہونے اور خان یونس میں پناہ لینے والے 40 سالہ احمد ابو ایہم نے کہا کہ ان کے آبائی شہر میں تباہی کا منظر ”خوفناک“ تھا، جنگ بندی سے جانیں بچ گئی ہوں گی تو اس طرح یہ جشن منانے کا وقت نہیں تھا۔
ابو ایہم نے کہا کہ ہم اس وقت بہت صدمے کا شکار ہیں اور یہ وقت ایک دوسرے کو گلے لگا کر رونے کا ہے، انتہائی متوقع جنگ بندی معاہدے سے غزہ جنگ کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔
اسرائیل غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کا حق رکھتا ہے، نیتن یاہو
غزہ میں موجود صحت کے حکام کے مطابق اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں میں غزہ کا بیشتر حصہ ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا ہے اور تقریباً 47,000 فلسطینی لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔
آیا نے کہاکہ ”جنگ ختم ہو گئی لیکن تباہی اور نقصانات کی وجہ سے ہماری زندگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ لیکن امید ہے کہ کم از کم خواتین اور بچوں کی مزید خونریزی نہیں ہو گی۔“
واضح رہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی نے دونوں معاشروں میں خوشی کا گہرا احساس پیدا کیا ہے جس کا اظہار عوام کے جشن منانے سے خوب ہو رہا ہے۔
غزہ اور اسرائیل میں بہت سے لوگ اب بھی اداس ہیں کہ ان کے پیارے جنگ کے دوران مارے گئے، بہت سے لوگ قید ہیں، بہت سے زندہ تو ہیں لیکن جنگ نے انہیں جزوی یا کلی اپاہج بنا ڈالا، ان لوگوں کے لئے جنگ بندی کا دن ملے جلے احساسات لایا ہے، وہ زندہ رہنے میں کامیاب لوگوں کے ساتھ خوش بھی ہیں لیکن اپنوں کے دکھوں کو یاد کر کے دکھی بھی ہیں۔
Comments are closed on this story.